(١)پروگرام کے دوران بار بار میری نظریں اس بزرگ خاتون کے چہرے پر کچھ اس طرح جاکر ٹھہر جاتی کہ میرے اپنے الفاظ لڑکھڑانے لگتے۔ محسوس ہوا کہ ،وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہیں۔ جوں ہی پروگرام ختم ہوا، ضعیفہ بھیڑ کو ہٹاتی ہوئی سیدھی مجھ تک آگئیں ۔میں نے سلام کو ہاتھ بڑھائے ،تو نظر انداز کرتے ہوئے میرے ہاتھ اور چہرے کو چُومنے لگیں ۔اور پھر گلے سے لگ کردفعتا رونا شروع ہوگئیں ۔رونا کیاتھا ، مانو کوئی بچّہ ماں کے گلے سے لگ کر رورہا ہو۔پھر میں نے بھی دانستا انہیں خاموش کرانے سے گریز کیا کہ پہلے بڑی بی رو کر اپنا غم ہلکا کرلیں پھر ان سے آگے کوئی بات ہو۔
(٢)وہ جینٹلمن اب پچاسی (٨٥)کے لپیٹے میں ہیں ۔ ایک ریٹائرڈ لیکن باشعور معمر انسان جس کی بیمار بوڑھی بیوی پچھلے چار سالوں سے بستر کی ہوکر رہ گئ تھی ۔ان کا معمول بن گیا تھا کہ وہ رات کے ساڑھے دس بجے بس پر سوار ہوکر گھر سے دو اسٹاپ آگے جاتے تاکہ وہ بیوی اور خود کے لیے دو وقت کفایت کرجانے والی ، چھ (٦) عدد تازہ گھر کی بنی گیہوں کی روٹیاں لاسکیں ۔آج کل جینٹلمن ایک بھرے پُرے گھر میں تنہائی کے عذاب سے دوچار ہیں ۔شریک سفر زندہ تھیں تو ، بڑی محنت سے کھانا وغیرہ بنالیتے لیکن اب تنہائی نے ہمت بھی توڑدی ۔اب تو عربوں کی طرح دودھ کھجور یا دودھ روٹی پر گزر بسر ہوتی ہے۔ باقاعدہ کوئی ڈش نہیں بناتے ۔
آپ کو کیا لگتا ہے؟ بڑی بی مجھ اجنبی کے گلے لگ کر اس قدر تڑپ کر کیوں روئیں ؟انہوں نے مجھ سے کہا "۔تم میرے گھر چلو اور جو باتیں والدین کے حقوق پر تم نے پروگرام میں بتائیں وہی باتیں میرے گھر والوں کو سمجھادو ۔ مجھ سے راستہ چلا نہیں جاتا لیکن پوتے پوتیوں کو اسکول پہنچانے اور لانے کا کام میرے ذمّہ ہے۔ ذرا سی دیر ہوجائے تو مجھے بہت جلدی جلدی چلنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے میں گر جاتی ہوں اور اکثر مجھے چوٹیں آتی ہیں ۔لیکن میرے بیٹے اور بہو یہ بات نہیں سمجھ رہے، وہ کہتے ہیں چلنا آپ کی صحت کے لیے فائدہ مند ہے ۔ صبح صبح بستر سے اٹھا نہیں جاتا لیکن بیٹے کی ناراضی کے خوف سے اٹھ کر بچوں کے اسکول جانا پڑتا ہے ۔اس کے علاوہ سودا سلف لانا بھی میری ہی ذمہ داری ہے۔وہ بار بار ایک ہی جملہ کہتیں ” بیٹا !!! میری بوڑھی ہڈیوں میں اب طاقت نہیں رہی ” تم میرے گھر چل کر کچھ اچھی باتیں انہیں بھی سمجھادو تاکہ وہ مجھ سے زیادہ کام نہ لیں۔
ایک بوڑھے اور تھکے ہوئے جسم کو جسے خود راستہ چلنے کے لیے ہمہ وقت کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے اسے بچوں کا محافظ بناکر گھر سے باہر کے کاموں پر لگادیا جاتا ہے یہ کس قدر شرمناک اور افسوسناک بات ہے۔
اور آپ کا ان جینٹلمن کے بارے میں کیا خیال یے.؟ رات کے وقت بس میں سوار ہوکر روٹی خریدکر لانا کچھ عجیب سا لگتا ہے نا! مجھے بھی یہ بات آپ سے زیادہ عجیب لگی تھی، کیونکہ میں نے اس باہمت ، نیک دل اور” فرشتہ صفت "انسان کو بہت قریب سے دیکھا ہے ۔بچپن سے لے کر اب تک دیکھتی آرہی ہوں ۔
کیا وجوہات رہی ہوں گی کہ بیٹے کی فیملی ہونے کے باوجود مستقل بیمار رہنے والا یہ بزرگ جوڑا دو وقت کی دال روٹی کا محتاج تھا؟
پہلی بزرگ خاتون اور دوسرے جینٹلمن بزرگ دراصل الگ الگ حالات و واقعات میں اپنی سگی اولاد کے ہاتھوں ایک ہی طرح سے ڈسے گئے تھے جس کا تریاق ان کی اپنی اولاد کے پاس ہی تھا ۔میری طرح آپ نے بھی ایسے یا اِس سے زیادہ افسوسناک واقعے دیکھ یا سُن رکھے ہوں گے۔ آپ نے افسوس کیا ہوگا دُکھ جَتایا ہوگا ،تسلیاں بھی دی ہوں گی ۔لیکن کیا ان سب سے بزرگان کی تسلی کا سامان ہوجائے گا ؟شاید نہیں ،
نام نہاد معاشی و ثقافتی ترقی کے نتیجہ میں پیدا ہونے والی مصروفیات کا سب سے بڑا خمیازہ آج اگر کسی کو بھگتنا پڑا تو وہ ہیں ہمارے گھروں کے بڑے بزرگ بالخصوص بزرگ والدین کو ، پیسے بنانے کے چکر میں ایک فاصلہ پر رکھ دینا ایک طرح سے ان کو آدھی موت دینے کے مترادف ہے۔اور رہی سہی کسر آپ کے ناروا سلوک اور زیادتیوں نے مکمل کر رکھی ہے۔ جس کی وجہ سے بُزرگان اپنی موت سے پہلے ہی مرجاتے ہیں۔یہ بھی تبھی ہوتا ہے جب "عصائے پیری "کہلائی جانے والی اولاد ،سزا کا ڈنڈا بن کر والدین پر برسنے لگتی ہے۔
والدین اس قدر خائف ہونے لگیں کہ جائز باتیں بولنا چھوڑدیں اپنے حق اور ضرورت کی چیزیں بھی طلب کرنے میں خوف محسوس کرنے لگیں ۔چھوٹی چھوٹی چیزوں کو ترستے ہوئے بزرگوں کو ترساکر معاشرہ کس قسم کی ترقی کررہا ہے ؟ہم بے شک پیرنٹننگ کی بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن اچھی تعلیم وتربیت کا جو اصل منبع ہمارے گھروں میں بزرگوں کی صورت میں موجود ہے بچوں کو جان بوجھ کر ان کے سایہ عاطفت سے محروم رکھا جارہاہے۔ اور بزرگ اپنے پوتے پوتیوں پر اپنی محبت وشفقت نچھاور کرنے کی آس لیے اندر ہی اندر گھل گھل کر ختم ہو جاتے ہیں۔
مذکورہ واقعات سے کشیدہ مسائل سے تقریبا ًملتے جلتے مسائل ہرگھر میں موجود ہیں لیکن اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا۔
پھر وہ بزرگ مرد یا عورتیں جن کا شریک سفر انہیں زندگی کی راہوں میں تنہا چھوڑگئے اب اگر وہ اپنی بنیادی اور ناگزیر ضروریات کے لئے دوبارہ شادی کرنا چاہتے ہیں تو پھر سے یہ سماج اور اس کی واہیات، غیر شرعی، بوسیدہ ذہنیت ان بزرگوں کو ننگ وعار دلاتے ہیں۔ انہیں ان کی پیری ضعیفی کا واسطہ دے دے کر دوسری شادی سے منع کرتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ آپ میں سے کون ہے جو آدھی رات کھانستے ہوئے باپ کے سرہانے ان کی تیمارداری کے لیے ہمہ وقت حاضر ہوسکتا ہے ؟اور وہ کون سی بیٹی ہے جو اپنے میاں اور بچوں کو چھوڑ کر باپ کے گھر ہفتہ در ہفتہ قیام کرے گی اور بوڑھے باپ یا ماں کی ضروریات کا خیال رکھے گی ؟شاید بوقت ضرورت کوئی بھی ایسی خدمات وقربانیوں کے لیے میسر نہیں ہوگا اور اگر ہو بھی تو زوجین کی طرح ایک دوسرے کی ضروریات کو کماحقہ ادا نہیں کرپائے گا۔ تو پھر انسانیت کے اس ستم رسیدہ طبقہ کو حالات کے رحم و کرم پر کیوں چھوڑدیا گیا ؟
آپ اگر غور کریں تو سمجھ پائیں گے کہ بڑھاپے کی نفسیات کا سب اہم پہلو ہے کہ انسان کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اس کے چھوٹے، اسے عزت وتکریم دیں ۔اس کی رائے کا احترام کریں، اور انہیں گھر اور معاشرے میں نمایاں مقام ملے، لوگ انہیں مشاورت میں شامل کریں۔شاید یہ بڑھاپے کا وہی دور ہوتا ہے جب انسان دوبارہ بچپن کی طرف لوٹ جاتا ہے اور نبی رحمت ﷺ نے اپنی دعاؤں میں اسی ارذل عمر سے پناہ بھی طلب کی تھی۔ کبھی اس بوڑھے کا دل گول گول جلیبیوں پر مچل جاتا ہے تو کبھی ٹھنڈی ٹھنڈی آئسکریم اسے اپنی طرف کھینچتی ہے۔ کبھی گول گپّے کا چٹخارہ انہیں بے چین کردیتا ہے۔ بچپن کے بعد یہ بڑھاپے کا ہی دور ہوتا ہے جب زبان الگ الگ ذائقوں کی تمنا کرتی ہے۔ آنکھوں سے نظر آتی رنگ برنگی اشیاء کو جلدی سے چکھ لینے کی بڑی بےتابی ہوتی ہے۔ لیکن بڑھاپے کی خواہشات بھی کبھی پوری کی جاتی ہیں یہ تو بس لعنت ملامت کی خاطر ہوتی ہیں۔ بوڑھوں کو بے قرار کرنے کے لیے ۔سب سے زیادہ تنقید انہیں کھانے پینے میں برداشت کرنی پڑتی ہے۔ان کے لیے مقوی غذاؤں کا اہتمام نہیں کیا جاتا ، نہ ہی ان کے اندر کے بچے کو سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔کبھی وہ بچوں کے ساتھ کھیلنا چاہتےہیں ، ان کی اخلاقی و روحانی تربیت کرنا چاہتے ہیں ،انہیں خیر وشر کی تمیز دلانا چاہتے ہیں ۔ لیکن ہم ان کے نظریات وطریقوں سے مطمئن نہیں ہوتے اس لئے انہیں بچوں کی تعلیم و تربیت سے پرے رکھ کر اولاد کو معلّمِ زماں گیجٹ اور اسکرین کے حوالے کردیتے ہیں۔بزرگ کوئی تخلیقی کام کرنا چاہتے ہیں، اپنے پرانے شوق کو زندہ کرنا چاہتے ہیں اور ہم اسے فضولیات کا نام دے کر انہیں اپنے بچوں اور گھر کے فالتو اور محنت طلب کاموں پر لگادیتے ہیں۔وہ گھر سے باہرنکل کر اپنے جیسے لوگوں سے ملنا چاہتے ہیں ان کی مجلسوں میں شریک ہونا چاہتے ہیں لیکن انہیں گھر کا چوکیدار بناکر خود سیر سپاٹوں کے مزے لیے جاتے ہیں۔
مقام افسوس ہے کہ ہم سن رسیدہ لوگوں کی خواہشات کو اپنی مصروفیات ، مفادات ، اور خود غرضی تلے روند دیتے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ پہلے پہل ہم سے بحث وتکرار کرتے ہیں، پھر لڑنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ اور تھک ہار کر بالآخر ہر طرح کی دفاعی کوشش ترک کرکے، زندگی اور خوشیوں سے منہ موڑ کر چُپ سادھ کر اپنے خول میں سمٹ جاتے ہیں۔ جس عمر میں بزرگ والدین کو سکون سے دو وقت کی روٹی کھلانی چاہیے،ان کے لاڈ اور چاؤ کرنے چاہئے۔ اس عمر میں یہ بوڑھی ہڈ ّیاں اپنے حالات سے مجبور ہو کر اونچی اونچی عمارتوں میں رہنے والے ہٹّے کٹّے لوگوں کی حفاظت کرتی ہیں ۔ ان کے رعشہ زدہ ہاتھ چوکیدار یا چپراسی کے فرائض نبھاتے ہیں۔ خون جگر پلا پلاکر ایک نومولود کو توانا جوان کرنے والی ماں کو اس کی پِیری میں تحفظ و وقار کے بدلے در بدر کی ٹھوکریں ملتی ہیں۔وہ اپنی بنیادی اور چھوٹی چھوٹی ضرورتوں کے لیے دوسروں کی محتاج بنادی جاتی ہے۔ وہ گھروں میں جھاڑو کٹکے کے کام کاج کرتی ہے ، کسی اسکول ،آفس یا کارخانے کی گرد صاف کرتی ہے۔ یا پھر سردو گرم موسم سے بے نیاز سڑک کنارے کھلونے ،سبزیاں بیچتی پھرتی ہے۔ہر جگہ ، ہر گھر میں اس قسم کی افراط تفریط موجود ہے طبقہ طبقہ کا فرق ہے بس ۔
خوشحال طبقہ کے بزرگ گرچہ کہیں کام نہیں کرتے ،لیکن ان کی زندگی بھی اختیارات اور خوشیوں سے خالی ہوتی ہے بلکہ وہ کسی غریب یا متوسط طبقہ کے مقابلہ اور زیادہ تنہا ہوتے ہیں۔ہمیں اپنا آپ ٹٹولنے کی ضرورت ہے ممکن ہے کہیں کسی جگہ ہم ان کے قصوروار بن رہے ہوں۔یہ بوڑھے شجر ان کے وجود سے ہماری زندگیوں میں خیر وبرکت ہے یہ ہمارے لئے جنت کی ضمانت اور رب کی رضا کا پروانہ ہیں ۔ان کے دم سے ہماری اولاد میں خود اعتمادی اور خوش اخلاقی کا دریا موجزن ہے۔زندی کی پر پیچ راہیں ان کی رہنمائی کی طلبگار و محتاج ہیں۔بزرگوں کو زک پہنچانا شر ک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔نماز جیسی توقیفی عبادت میں بھی نبی رحمت ﷺ نے معمر افراد کے لیے تخفیف کا حکم دیا ، ان کے اکرام کا خیال رکھنا ایک اچھے مسلمان کی پہچان ہے ۔اور اگر آپ مسلمان نہیں بننا چاہتے تو کم از کم انسان ہی بن جائیں اور اپنے بزرگوں کو تکلیف نہ پہنچائیں۔إِنَّ مِنْ إِجْلَالِ اللَّهِ : إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ الْمُسْلِمِ ،اللہ کی تعظیم میں سے ایک یہ بھی ہے کہ بزرگ (سن رسیدہ) مسلمان کی عزت کی جائے۔ (ابوداود 4843)
خواتین واطفال
نکاح کے ایک برس بعد تک اگر اولاد نہ ہو تو گھر اور خاندان میں چے می گوئیاں شروع ہوجاتی ہیں ـ اگر کچھ اور وقت گزر جائے تو افرادِ خانہ کھلّم کھلّا اس کا اظہار کرنے لگتے ہیں ـ یہ غلط نہیں ہےـ فکر ضرور کرنی چاہیے اور اولاد کی خواہش فطری ہے ، اس کا اظہار ہونا چاہیےـ غلط یہ ہے کہ نگاہیں اور انگلیاں صرف عورت کی طرف اٹھنے لگیں اور اسی کو طعنے دیے جانے لگیں ، حالاں کہ بانجھ پن صرف عورت میں نہیں ہوتا ، مرد میں بھی ہوسکتا ہےـ اس لیے انصاف کا تقاضا ہے کہ ولادت میں تاخیر ہو تو شوہر اور بیوی دونوں کو اپنا ٹیسٹ کرانا چاہیےـ
فطری طریقۂ تولید یہ ہے کہ مرد اور عورت کے جنسی اتصال ( sexual contact) سے مرد کے نطفہ ( sperm) اور عورت کے بیضہ (Ovum) کا امتزاج ہوتا ہےـ نطفہ مرد کے خصیوں (Testies) سے اور بیضہ عورت کے خصیۃ الرحم (Ovaries) سے نکلتا ہےـ دونوں کا امتزاج عورت کے رحم سے متصل عضو ‘قاذف’ (Fallopian tube) کے باہری تہائی حصے میں ہوتا ہے ، جس سے عمل بارآوری (Fertilization) انجام پاتا ہے ـ پھر یہ بار آور بیضہ مختلف مراحل سے گزرنے کے بعد رحم میں اتر آتا ہے ، جہاں جنین (Foetus) کی تشکیل ہوتی ہےـ
فطری طریقۂ تولید میں کوئی رکاوٹ آجائے تو اسے بانجھ پن کہتے ہیں ـ یہ عارضی ہوسکتا ہے اور مستقل بھی ـ مرد میں بھی ہوسکتا ہے اور عورت میں بھی ـ مرد میں اس کی مثالیں یہ ہیں کہ وہ قوتِ مردمی میں کمی کی وجہ سے جماع پر قادر نہ ہو ، یا اس کے نطفے میں حیواناتِ منویہ کا تناسب کم ہو ، یا ان کی حرکت کم زور ہو ، یا نطفے کو خصیوں سے عضو تناسل تک لانے والی رگیں مسدود ہوگئی ہوں ، یا خصیے بے کار ہوں ، یا اوپر چڑھے ہوئے ہیں ـ اسی طرح عورت میں اس کی مثالیں یہ ہیں کہ خصیۃ الرحم میں کسی نقص کے سبب اس سے بیضہ کا اخراج ممکن نہ ہو ، یا قاذفین پیدائشی طور پر موجود نہ ہوں ، یا مسدود ہوگئے ہوں ، یا عورت پیدائشی طور پر رحم سے محروم ہو ، یا کسی سبب سے اس میں بارآور بیضہ کا استقرار ممکن نہ ہو، وغیرہ ـ
نکاح کے کچھ عرصہ بعد تک اگر ولادت نہ ہو تو شوہر اور بیوی دونوں کو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور تمام ضروری جانچیں کروالینی چاہییں ـ بسا اوقات مرد یا عورت میں کوئی معمولی نقص ہوتا ہے ، جو علاج سے بہ آسانی دور ہوسکتا ہےـ اگر کسی مرض یا نقص کی وجہ سے فطری طریقے پر استقرارِ حمل ممکن نہ ہو تو مصنوعی تدبیر (IVF) اختیار کی جاسکتی ہے ، بس شرط یہ ہے کہ نطفہ شوہر کا ہو ، بیضہ بیوی کا ہو اور حمل کا استقرار بیوی ہی کے رحم میں ہو ـ
اگر تمام تدابیر کے باوجود زوجین اولاد کی نعمت سے محروم ہوں تو انہیں اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش سمجھنی چاہیے اور صبر سے کام لینا چاہیےـ اگر زوجین چاہیں تو اولاد کے بغیر بھی پوری زندگی ہنسی خوشی گزار سکتے ہیں ـ اللہ کے پیغمبروں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت زکریا علیہ السلام کی زندگیاں اس سلسلے میں مثالی نمونہ ہیں ـ حضرت ابراہیم کے یہاں حضرت سارہ سے جب حضرت اسحاق پیدا ہوئے اس وقت ان کی عمر سو برس تھی ـ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں نے سات آٹھ دہائیوں تک اولاد سے محروم ہونے کے باوجود پُر مسرّت ازدواجی زندگی گزاری ـ حضرت زکریا نے جب مریم کا نکاح نہ ہونے کے باوجود ان سے عیسٰی علیہ السلام کی پیدائش کا معجزہ دیکھا تو ان کے دل میں خواہش ہوئی کہ دوسرا معجزہ ان سے بھی صادر ہوسکتا ہے کہ بڑھاپے میں ، جب کہ ان کی بیوی بھی بانجھ ہے ، اللہ انہیں اولاد کی نعمت عطا فرمائےـ اس کا مطلب یہ ہے کہ انھوں نے پوری زندگی ایک بانجھ عورت کے ساتھ ہنسی خوشی گزار دی تھی ـ
اولاد کی خواہش ہر ایک کو ہوتی ہےـ اس بنا پر اگر کوئی عورت بانجھ ہو اور تمام تر علاجی تدابیر کے باوجود اب اس سے اولاد ہونے کی توقع نہ ہو ، دوسری طرف اس کا شوہر یا سسرال والے اولاد کے حصول کے لیے دوسرے نکاح کا ارادہ کررہے ہوں تو عورت کو مصالحت کا مظاہرہ کرنا چاہیےـ قرآن مجید میں ایک موقع اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ” اگر کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدسلوکی یا بے رُخی کا اندیشہ ہو تو کوئی مضائقہ نہیں اگر وہ دونوں ( کچھ حقوق کی کمی بیشی پر) آپس میں صلح کرلیں ۔ صلح بہرحال بہتر ہےـ” ( النساء :128) یہ صلح اس بات پر ہوسکتی ہے کہ عورت اپنے شوہر کے دوسرے نکاح پر رضامند ہوجائے اور شوہر اپنی بیوی کو طلاق نہ دے ، بلکہ اسے بھی بیوی کی حیثیت سے باقی رکھے اور تمام حقوق دےـ
اولاد سے محروم جوڑے ایک کام یہ بھی کرسکتے ہیں کہ اپنے خاندان ، متعلق یا کسی دوسرے شخص کے بچے کو گود لے لیں ـ اسلام کسی اجنبی بچے کو گود لینے کی اجازت دیتا ہے ، بس اس سے منع کرتا ہے کہ کسی بچے کی نسبت باپ کے علاوہ کسی اور شخص کی جانب کی جائےـ ( الأحزاب :5) اس طرح وہ کسی بچے کو اپنی کفالت میں لے کر اجر کے مستحق ہوں گے اور اپنی ویران زندگی میں خوشیوں کی بہاریں بھی دیکھ سکیں گےـ
کتنی عجیب بات ہے کہ مسلمانوں میں یہ تصور عام ہوگیا ہے کہ عورتوں کی فطرت میں ٹیڑھ ہوتی ہے۔ ان کی بات چیت ، نشست و برخاست ، روز مرّہ کے کاموں اور باہمی معاملات میں اس کا اظہار ہوتا رہتا ہے۔مزید تعجب کی بات یہ ہے کہ اس غلط تصور کو انہوں نے مذہبی سند دے دی ہے ۔ حالاں کہ دوسرے کسی مذہب میں ہو تو ہو ، اسلام اس سے بری ہے _ اس میں ایسی نامعقول بات کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے۔
بائبل (عہد نامۂ قدیم) میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کے جسم سے ایک پسلی نکالی اور اس سے ان کی بیوی (حوّا) کو پیدا کیا :
” اور خُداوند خُدا نے آدمؔ پر گہری نِیند بھیجی اور وہ سو گیا اور اُس نے اُس کی پسلیوں میں ایک کو نِکال لِیا اور اُسکی جگہ گوشت بھر دِیا۔ اور خُداوند خُدا اُس پسلی سے ، جو اُس نے آدمؔ سے نکالی تھی ، ایک عَورت بنا کر اُسے آدمؔ کے پاس لایا ۔” (کتاب پیدائش : باب 2 آیات : 21_22) وہیں سے یہ اسرائیلی روایت تفسیر کی کتابوں میں در آئی اور اسے ایک مسلّمہ حقیقت تسلیم کرلیا گیا ، حالاں کہ قرآن مجید میں ایسی کوئی بات نہیں کہی گئی ہے اور نہ اس کی طرف کچھ اشارہ پایا جاتا ہے۔
ایک حدیث حضرت ابو ہریرہ ، حضرت ابو ذر غفاری اور حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ ؛ فَإِنَّ الْمَرْأَةَ خُلِقَتْ مِنْ ضِلَعٍ، وَإِنَّ أَعْوَجَ شَيْءٍ فِي الضِّلَعِ أَعْلَاهُ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وَإِنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أَعْوَجَ، فَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ (بخاری :3331 ، مسلم :1468 ، ترمذی : 1188 ، دارمی : 2268، احمد : 9524 ،9795 ، 10448 ،10856)
” عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو ، اس لیے کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ اوپر کا ہوتا ہے _ اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر اسے ویسا ہی رہنے دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی _ اس لیے عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو ۔”
اس حدیث میں جو یہ کہا گیا ہے کہ ” عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے ” اس کا مطلب نہ انسانیت کی ابتدائی تاریخ پر روشنی ڈالنا ہے کہ پہلی عورت (حوّا) پہلے مرد (آدم) کی پسلی سے پیدا کی گئی تھی ، نہ اس کے ذریعے عورت کی فطرت پر روشنی ڈالی گئی ہے کہ اس میں لازماً ٹیڑھ ہوتی ہے ، بلکہ اس میں عورت کو ‘پسلی’ سے تشبیہ دی گئی ہے _ اس کا ثبوت یہ ہے کہ بعض احادیث میں تشبیہ کی صراحت ہے :
” الْمَرْأَةُ كَالضِّلَعِ "عورت پسلی کی طرح ہے _” (بخاری :5184 ، مسلم :1468 ، ترمذی : 1188 ، دارمی :2268، احمد : 9524 ، 9795 ، 10856 ، 21454 ، 26384) بلکہ ایک حدیث میں تو بغیر حرفِ تشبیہ کے الْمَرْأَةُ ضِلَعٌ (احمد : 21339) "عورت تو مجسّم پسلی ہے ” کہا گیا ہے۔
عورت کو پسلی سے تشبیہ دینا اس کی عیب جوئی کے مقصد سے نہیں ہے ، نہ اس کے ذریعے عورت کی کسی خامی اور نقص کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ، بلکہ اس کے ذریعے مردوں کی توجہ ایک اہم حقیقت کی طرف مبذول کرائی گئی ہے _ وہ یہ کہ جو چیز جیسی ہو اسی طرح اسے استعمال کرنا اور کام میں لانا دانش مندی ہے _ بلا ضرورت اس میں کوئی تبدیلی کرنے سے بگاڑ آجاتا ہے اور وہ کام کی نہیں رہتی۔
جسمِ انسانی کے تمام اعضاء مخصوص جسامت ، حجم اور ہیئت رکھتے ہیں _ ان کے مفوّضہ افعال کی انجام دہی کے لیے یہ ضروری ہے _ اگر اس میں کچھ فرق آجائے تو ان سے مطلوبہ افعال و منافع حاصل نہیں ہوسکتے _ یہی معاملہ جسم کی ہڈّیوں کا ہے _ کچھ لمبی ہیں کچھ چھوٹی ، کچھ موٹی ہیں کچھ پتلی ، کچھ گول ہیں کچھ چپٹی _ ہر ایک سے اسی صورت میں منفعت وابستہ ہے _ اس میں کچھ فرق آجائے تو جسمِ انسانی کو مطلوبہ فائدہ نہیں حاصل ہوسکتا ، بلکہ انسان کو کوئی نہ کوئی مرض لاحق ہوجائے گا _ پسلیوں کو پتلا اور ٹیڑھا بنایا گیا ہے _ تمام پسلیاں مل کر ایک پنجرہ بناتی ہیں ، جس کے اندر اہم ترین احشاء (دل ، پھیپھڑے ، جگر وغیرہ) محفوظ رہتے ہیں _ پسلیوں کا ٹیڑھا رہنا ضروری ہے _ اگر پسلیوں کی کجی ختم ہوجائے تو اندرونی اعضاء کی حفاظت مطلوبہ طریقے سے نہیں ہوسکتی _ گویا پسلیوں کا ٹیڑھا ہونا ان کا عیب نہیں ، بلکہ حسن ہے۔
یہی حال عورت کا ہے _ خاندان کی تشکیل ، شوہر کا بھرپور تعاون اور اس کے ساتھ حسنِ رفاقت ، گھر کی دیکھ بھال اور نگرانی ، حمل ، وضعِ حمل ، رضاعت ، بچوں کی پیدائش و پرداخت اور دیگر کاموں کے لیے اسے مخصوص صلاحیتیں ودیعت کی گئی ہیں اور اس کا مخصوص مزاج اور مخصوص نفسیات بنائی گئی ہے _ شوہر کے لیے ضروری ہے کہ ان کی رعایت کرے ، عورت پر بے جا جبر کرکے ، دھونس اور دھمکی کا مظاہرہ کرکے اور اس پر رعب جماکر اس میں تبدیلی کی کوشش نہ کرے _ اگر وہ ایسا کرے گا تو عورت کو تکلیف پہنچے گی ، اس کے جذبات مجروح ہوں گے اور ازدواجی زندگی میں خوش گواری باقی نہیں رہ سکے گی _ یا تو عورت خاموشی کو لازم پکڑ لے گی ، یا بات بات پر لڑنے جھگڑنے لگے گی ، بالآخر نوبت علیٰحدگی اور طلاق تک پہنچ جائے گی۔
خلاصہ یہ کہ عورت میں نقص نکالنے اور عیب ڈھونڈنے کے لیے اِس حدیث سے استدلال کرنا درست نہیں ہے _ اگر انسانی مزاج میں ٹیڑھ پن ممکن ہے تو یہ مرد میں بھی ہوسکتا ہے اور عورت میں بھی _ ایسا نہیں ہے کہ عورت مجموعۂ نقائص ہے اور مرد تمام نقائص سے پاک صاف _ مرد ہو یا عورت ، ہر ایک کو اپنا جائزہ لینا چاہیے ، پھر جو کم زوریاں اور نقائص اپنی ذات میں نظر آئیں انہیں دور کرنے کی اسے کوشش کرنی چاہیے۔
کرونا وائرس نے پوری دنیا میں قہربرپا کررکھا ہے،خصوصا وطن عزیز ہندوستان میں اس کا اثرکافی پھیل چکا ہے،اس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے ملک کی اکثر ریاستوں میں لاک ڈاؤن کردیا گیا ہے،تعلیمی ادارے،مارکیٹس ،پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ کو بند کردیاگیا ہے،تعلیمی اداروں کے بند ہونے کی وجہ سے بچے اپنے گھروں میں ہیں،ویسے تو گزشتہ سال کے لاک ڈاؤن سے لے کر موجودہ لاک ڈاؤن کے درمیان اسکولس کو اگر کھولا بھی گیا تو چند دنوں کے لئے ،لیکن حالات کو دیکھتے ہوئے اسے پھربند کردیا گیا،آن لائن نظام تعلیم کو شروع کیا گیا ،جس کے ذریعہ سے بچے گھر بیٹھے تعلیم حاصل کرتے رہیں،مگر حالات نے دوبارہ کروٹ لی ،کوویڈ کی دوسری لہر نے اپنےظالم پنجے گاڑنے شروع کردئے ،اسے دیکھتے ہوئے دوبارہ سے لاک ڈاؤن کردیا گیا،ایسے موقع پر بچوں کے مستقل گھر پر رہنے کی وجہ سے ،والدین بچوں سے سخت عاجز آچکے ہیں،بچوں کی شرارتوں کی وجہ سے ڈانٹ ڈپٹ پر بچے چڑچڑے پن کا شکار ہورہے ہیں،والدین اور بچے باہم ایک دوسرے سے متنفر ہورہے ہیں،لیکن یہ اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے کہ جسے حل نہ کیا جاسکتا ہو،ذیل میں چند چیزوں کی جانب توجہ دلائی جارہی ہیں،کہ جس کو بروئے کار لاکر لاک ڈائون کے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بچوں کی بہترین انداز سے تربیت ونگہداشت کی جاسکتی ہے۔واضح رہے کہ یہ سوال آپ کے ذہن میں آسکتا ہے کہ جب سال بھر سے تعلیمی ادارے بند ہی ہیں تو عنوان میں لاک ڈائون کے ایام کو کیوں خاص کیا جارہاہے؟اس کا جواب یہ ہے کہ سال بھرسے تو تعلیمی ادارے یقینا بند ہیں لیکن والدین تو اپنی اپنی مصروفیات میں لگے ہوئیں تھے،بچوں کو دینے کے لئے ان کے پاس وقت نہیں تھا،اب چوں کہ لاک ڈاؤن ہوچکا ہے،والدین بالکل فارغ ہیں،یہ سنہرا موقع ہے اولاد کی نگہداشت کا،ان کی ظاہری وباطنی نشو و نما پر نظر رکھنے کا ،سب سے بڑ ھ کریہ کہ ان کو ایک اچھا انسان بنانے کا۔
ٹائم ٹیبل مقرر کریں:
لاک ڈاؤن کے موقع پر سب سے پہلا کام یہ کرنا ہے کہ اپنی اولاد کے لئے چوبیس گھنٹو ں کا ٹائم ٹیبل مقرر کریں،کس ٹائم پر سوئیں گے،کس ٹائم پر جاگیں گے،کب کھائیں گے،ہر کام کی فہرست بنائیں جو کچھ کرنا ہے،کام سے متعلقہ افعال کو بھی اس میں شامل کریں،ان سب چیزوں کا وقت متعین کریں ،اس لئے کہ کوئی بھی کام بغیر نظام بنائے ادھورا ہی رہ جاتا ہے،عام دنوں میں یہ کام تھوڑا مشکل ضرور ہے لیکن لاک ڈاؤن کے موقع پر اس پر عمل کرنا نہایت آسان ہے،ایسا کرنے کا ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ بچوں کی تربیت کا بہترین موقع فراہم ہوگا،دوسرا یہ کہ اس کے ذریعہ بچوں کی عادات میں تبدیلی آئیں گی،وہ ہر کام کو ایک نظام الاوقات کے تحت کرنے کے عادی بن جائیں گےاور زندگی کے ہر موڈ پر اس کو باقی رکھیں گے۔
اخلاقی تربیت کی فکر کریں:
اکثر والدین کو دیکھا جارہا ہےکہ وہ لاک ڈاؤن کے چلتے اولاد کی ظاہری نشو نما پر تو خوب توجہ دےرہے ہیں اوراس میں کوئی کسر باقی نہیں رکھ رہے ہیں ،لیکن اخلاقی تربیت پر بالکل توجہ نہیں دے رہیں،والدین کے لئے ضروری ہے کہ وہ ابتدا سے یہ سعی کریں کہ ان کے بچے اعلیٰ اخلاق اور قابل تعریف خصلتوں سے آراستہ ہوجائیں، ان کی تربیت اس انداز سے کریں کہ وہ تقویٰ وطہارت،نیکی وبردباری،ایثار ومحبت،حسن سلوک وحسن اخلاق جیسے عظیم اوصاف سے متصف ہوجائیںاور ہر بری خصلت جھوٹ،وعدہ خلافی،خیانت،تکبر،حسد ،غیبت،چغل خوری جیسی بیماریوں سے شروع ہی سے بچنے والے بنیں،فراغت کے ان اوقات میں اگر تھوڑی سی توجہ کےساتھ یہ کام کیا جائے تو اس کے اثرات تاعمر باقی رہیں گے۔
دینی تعلیم کا حلقہ لگائیں:
بچوں کے اندر دینی شعور بیدار کرنے کے لئے عصر بعد یا مغرب بعد حلقہ لگائیں،جس میں بچوں کو دینی تعلیم سے آراستہ کرنے کی فکر کریں،قرآن کریم کی چند آیتیں یاد دلادیں،یا کم از کم قرآن کے آخر کی چھوٹی چھوٹی سورتیں جو عام طور پر نماز میں پڑھی جاتی ہیں ان کو یاد کروائیں،ان میں جن آیات کا ترجمہ یا مختصر،مستند تفسیر اگر ہوسکے تو وہ بھی پڑھ کر سنادیں،ایک حدیث ہی سہی لیکن روزانہ کی بنیاد پر اس کو ذہن نشین کروائیں،اس کی تھوڑی تشریح بھی کردیںفضائل اعمال جیسی کتابوں سے،عملی رہنمائی کے طور پر روز مرہ کی مسنون دعائیں،نماز کاطریقہ،جنازہ کی نماز،دعاء قنوت وغیرہ یاد دلائیں،سیرت رسول ﷺ سے آگہی کے لئے خاص طور کر حضور ﷺ کے بچپن کےواقعات آپﷺ کی امانت داری ومعصومیت کا تذکرہ کیا جائےاور اگر ہوسکے تو سیرت کی کوئی مختصر جامع کتاب کا روزانہ ایک صفحہ یا ایک باب پڑھا جائے،اس سے انشاء اللہ بہت فائدہ ہوگا اور بچوں کی دینی تربیت بھی ہوتی رہے گی۔
اچھے کام پر انعام مقرر کریں:
والدین کو چاہیے کہ خصوصا ان دنوں میں بچوں کے لئے ہر اچھے کام پر انعام مقرر کریں،اس سے بچوں میں کام کرنے کا جذبہ بہت حد تک پروان چڑھے گااور ان کی کام کرنے میں پوری دلچسپی ہوگی،مثلا فجر کی نماز کے لئے اٹھنے ،پنچ وقتہ نماز وقت پرپڑھنے،کوئی نیکی کا کام کرنے پر انعام طئے کردیں اور جب متعلقہ کام انجام دے دیں تو پھر بغیر کسی ٹال مٹول کے انعام ان کو دیں ،ضروری نہیں کہ انعام ہزاروں روپیوں کا ہو،وہ تو کوئی چیز بھی ہوسکتی ہے جو والدین بخوشی دیتے ہیں،ایسا کرنے سے ایک فائدہ تو یہ ہوگا کہ بچے پوری توجہ کے ساتھ ہر وہ کام کو انجام دیں گے ،جس کا انہیں حکم دیا جارہاہے،دوسرا یہ کہ والدین سے محبت اور انسیت پیدا ہوگی،وہ والدین کو اپنا دوست سمجھیں گے۔
مختلف ایکٹیویٹیز:
بچوں کوخصوصا ان ایام میں مختلف ایکٹیویٹیز سے جوڑے رکھے،اس میں بنیادی طور پر بچوں کی جسمانی صحت کو ملحوظ رکھتے ہوئے،جو کام بھی کرسکتے ہیں وہ ضرور کریں،مثلا بچوں کو ان ایام میں ایکسرسائز کی عادت ڈالیں،جسمانی ورزش کرائیں،اس سے ایک توبچوں کی صحت بہتر رہے گی،ساتھ ہی بچوں کے اندر سے سستی،غفلت،کاہلی ،جیسی چیزیں دور ہوجائیں گی اور وہ دن بھر سر سبز وشاداب نظر آئیں گےنیز گھریلو کاموں میں آپ کابھرپور ساتھ بھی دیں گے۔بچوں کے لئے ایکٹیویٹی روم بنائیں یا کم از کم گھرمیں کوئی خاص جگہ متعین کریں جہاں بچوں کے لئے ذہنی نشو و نما کا سامان مہیا کریں،اس میں بچوں کی دلچسپی کی چیزیں جیسے الفا بیٹ چاٹ لگائیں،خوبصورت جگہوں کے وال پیپر دیواروں پر چسپاں کریں اور بچوں کے لئے ان کی خواہش کردہ چیزیں ضرور رکھیں،تاکہ بچوں کی جسمانی وذہنی نشوونما بہتر انداز سے ہوتی رہےاور ان کو گھرکے علاوہ کسی اور جگہ دل نہ لگے۔
گیمز کھلائیں:
بچوں کو ہر وہ گیم کھلا سکتے ہیں جو بچوں کی صحت کے لئے مفید ہو،خیال یہ رکھنا ہے کہ وہ گیمز مخرب اخلاق نہ ہوںاور نہ ہی شرعی اعتبارسے اس کی ممانعت ہواس کے علاوہ ہر قسم کا کھیل کھیلا جاسکتا ہے،اول مرحلہ میں بچوں کےلئے کھلونوں کا انتخاب کریں،ان میں ان کی توجہ اور دلچسپی کو ملحوظ رکھیں،مختلف کھیلوں کے پروگرام منعقد کریں،خصوصا پہیلی کھیل بچوں کی ترقی کا ایک اہم حصہ ہوتا ہے،اس سے بچوں کی ذہنی ورزش تو ہوتی ہی ہے ساتھ میں ان میں سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت پروان چڑھتی ہیں،اسی طرح کرکٹ،ہاکی،فٹ بال،نہ صرف بچوں کے لئے مفید ہیں بلکہ یہ بڑوں کے لئے بھی مفید تر ہیں،کھیل کے دوران بچے بہت کچھ سیکھتے ہیں،ایسی باتیں بآسانی ذہن میں بیٹھ جاتی ہیں جو عام حالت میں یاد کرنی بظاہر مشکل ہوتی ہیں،مختلف چیزوں کے نام،رنگوں کی پہچان،آپس میں ملتی جلتی چیزوں کے مابین فرق تک معلوم ہوجاتا ہے۔
موبائل فون سے دور رکھیں:
بچوں کی تربیت میں موبائیل فون غیر معمولی اثر انداز ہوتا ہے ،خصوصا بچوں کے اندر موبائل فون سے فحاشی اورعریانیت میںغیر معمولی حد تک اضافہ ہوا ہے،چوں کہ موبائل فون اگر کسی کے پاس ہے تو اس میں نیٹ کا ہونا لازم ملزوم کےدرجہ میں آچکا ہےاور انٹرنیٹ کے ذریعہ جو خرابیاں ہمارے معاشرہ میں درآئی ہیں شائد ہی کوئی اس کا منکر ہو ،یہ بات سب کے علم میں ہے کہ انٹرنیٹ کھولیں تو بے شمار فحش اور غیر موزوں چیزیں خود بخود سامنے آجاتی ہیں ،جب بچوں کے سامنے بھی ایسی چیزیں آتی ہیں تو ابتداََ وہ اسےنظر اندا زکرتے ہیں ،لیکن بار بار غلط اشتہارات ان کی نظر سے گزرنے کی وجہ سے ان میں رفتہ رفتہ تجسس پیدا ہوتا ہے اور جب وہ اس کی طرف بڑھتے ہیں تو اسی وقت سے اس خطرہ کا آغاز ہوجاتا ہے ،جس کا تصور والدین کبھی کر بھی نہیں سکتیں،نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے معاشرتی بے راہ روی کا شکار ہوجاتےہیںاور وقت سے پہلے ہی بڑے ہوجاتے ہیں اورایسی بہت ساری باتیں جو انہیں کم عمری میں معلوم نہیں ہونی چاہئیں اس سے آگاہ ہوجاتے ہیں بلکہ اس کے خطرناک اثرات کی لپیٹ میں آکر رہ جاتے ہیں،اس لئے والدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ موبائیل فون کو بچوں کے لئے سم قاتل سمجھیں اور جہاں تک ہوسکے اس سے دور رکھنے کی کوشش کریں۔بچوں کی صلاحیتوںنکھارنے کے لئے لاک ڈائون کے ان ایام میںان کو متبادل مشاغل دیں،بچوں کو ان کی عمر کے لحاظ سے کوئی کام یا ہنر سکھائے ،جو ہر وقت کام آسکے،مثلا پینٹنگ کرنا،خوش خطی،سلائی وغیرہ کرنا سکھائیں اس سے ایک تو وہ موبائل فون اور سوشل میڈیا سے دور رہیں گے،ساتھ ہی ساتھ مشغول بھی رہیں گے۔
فلسطین میں خواتین نے اسرائیل کے خلاف مزحمت اور جدوجہد کرنے کا آغاز اسی وقت سے شروع کیا جب اسرائیل نے فلسطین پر اپنا ناجائز قبضہ کیا۔ فلسطین میں جہاں مرد اسرائیلی جارحیت اور اس کے ناجائز قبضہ کے خلاف لڑ رہے ہیں وہیں خواتین بھی نہایت اہم رول ادا کر رہی ہیں ۔خواتین صف اول میں اسرائیلی فوج کے خلاف بےباک انداز اور ایمانی قوت کے ساتھ مزاحمت کررہی ہیں ۔ فلسطین میں ساٹھ کی دہائی میں خواتین کی جدو جہد کا باضابطہ آغاز ہوا ۔1967ء میں الفتح تحریک سے تعلق رکھنے والی فاطمہ برناوی نے یروشلم کے ایک سینما گھر میں دھماکہ کیاجس سے درجنوں اسرائیلی افواج زخمی ہوگئے ۔پاپولر فرنٹ سے تعلق رکھنے والی سیدہ غزالہ نے 1967 ء میں عسکری ونگ جوائین کیا اور انہیں اسرائیلی فوج نے 1968ءمیں اپنے آبائی وطن النقصہ میں شہید کیا۔اس کے دو سال بعد فلسطینی کاز ہی کے لیے لیلیٰ خالد نے ایک جہاز کو ہائی جیک کیا تھا۔ ستر کی دہائی میں بھی خواتین نے اسرائیل کےخلاف مزاحمت جاری رکھی ۔2000ءکے بعد خواتین کی مزاحمت میں تیزی آگئی اور ایمان غزنوی ایک ایسی خاتون ہیں جس نے عسکریت میں حصہ لیا اور اس کے بعد خواتین نے خود کش حملوں میں بھی حصہ لینا شروع کیا اور 2002 ء میں وفا ادریس نے خو کش حملہ کیا جس میں ایک سو پچاس اسرائیلی فوج زخمی ہوئے ۔اس کے بعد کئی خواتین نے اس اس سلسلے کو آگے بڑھایا جن میں ذرین ابو عائشہ، آیت الاخرس، عندلیپ ،حبا درغیمہ ، حیفاء، زینب ابو سلیم اور فاطمہ النجار قابل ذکر ہیں۔عسکری میدان خواتین کے لیے سازگار نہیں رہا بلکہ انھوں نے اسرائیلی ظلم و جبر اور تشدد کے خلاف زیادہ تر احتجاجی مظاہروں میں حصہ لینا شروع کیا اور بڑی تعداد میں خواتین احجاجی مظاہروں میں شرکت کرتی ہیں۔ احتجاجی مظاہروں کے سوا ان کے پاس احتجاج کرنے اور لڑنے کا کوئی اور ذریعہ بھی نہیں ہے ۔مظاہروں کے علاوہ خواتین صحافت کے میں بھی ظلم اور ناجائز قبضہ کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہی ہیں ۔نیز اس مقصد کے لیے وہ سوشل میڈیا کا بھی سہارا لیتی ہیں ۔
خواتین فلسطین میں حد سے زیادہ اسرائیلی دہشت گردی اور ظلم کی شکار ہورہی ہیں ۔1970ء کے بعد خواتین کو بے انتہا ظلم و تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔پندرہ ہزار خواتین جیل کی کال کوٹھریوں میں پابند سلاسل ہیں ۔ان میں نو عمر بچیاں بھی شامل ہیں اور بزرگ خواتین بھی۔ خواتین پر جیلوں میں ذہنی طور سے بھی اور جسمانی طور سے تشدد کیا جارہا ہے ۔انہیں حجاب اتار کر برہنہ کر کے ان کی بے حرمتی بھی کی جاتی ہے ۔یہ ایسا تشدد ہے جس کو برداشت کسی بھی صورت میں نہیں کیا جاسکتا ۔2019ءسے اس میں اضافہ ہوا ہے ۔
ظلم و جبر کے ماحول میں فلسطینی خواتین اپنی بچوں کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دیتی ہیں اور ان میں بیت المقدس کی حفاظت اور اسرائیلی ظلم وجبر کے خلاف لڑنے کا جذبہ بھی پیدا کر دیتی ہیں ۔ اولاد کو میدان کارزار کے لیے تیار کرناکارِ درد والا معاملہ ہوتا ہے اور یہ ایک عظیم قربانی ہوتی ہےـ اس کی ایک مثال ام رضوان کی ہے جو فلسطین کی ایک عظیم ماں ہے ۔ان کے پانچ بیٹوں نے اسرائل کے خلاف جہاد کیااور سب کے سب شہادت کے درجے پر فائض ہوئےـ ام رضوان 22 جون 2016ء میں انتقال کر گئیں ـ فلسطینی خواتین حضرت خنساء رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی مثال پیش کرتی ہیں ۔حضرت خنساء رضی اللہ عنھاعرب کی مشہور مرثیہ گو شاعرہ اور عظیم المرتبت خاتون تھیں ـ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت میں جب قادسیہ میں جنگ ہوئی تو وہ اپنے چاروں نوجوان بیٹوں کے ساتھ شریک تھیں اور جنگ کے دوران اپنے بیٹوں کو یوں جوش دلایا :
” پیارے بیٹو! تم نے اسلام اور ہجرت اپنی مرضی سے اختیار کی ہے خدا کی قسم! تم ایک ماں اور باپ کی اولاد ہو، میں نے نہ تمہارے باپ سے خیانت کی اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا، تم جانتے ہو کہ دنیا فانی ہے اور کفار سے جہاد کرنے میں بڑا ثواب ہےـ اس بنا پر صبح اٹھ کر لڑنی کی تیاری کرواور آخر وقت تک لڑو.“(ابراہیم اوضین ، دیوان الخنساء دراستہ و تحقیق ، قاہرہ )جب ان کے چاروں بیٹے شہید ہوئے تواللہ کا شکر ادا کیاـ
فلسطینی خواتین بڑی بڑی مصیبتوں کا سامنا کر رہی ہیں اور وہاں ہر طرف خواتین صعوبتیں جھیل رہی ہیں ۔خواتین نے فلسطین میں ظلم و جبر اور تشدد کے ماحول اور خطرات میں جینا سیکھا اور دنیا کو دکھا دیا کہ ظلم کے ماحول میں بھی اپنا کردار ادا کیسے کیا جاسکتا ہے ۔بقول ایک عربی شاعر :
ابارک فی الناس اھل الطموح
ومن یستلذ رکوب الخطر
ومن لا یحب صعود الجبال
یعش ابد الدھر بین الحفر
یعنی میں بلند عزائم رکھنے والوں اور ان لوگوں کو مبارک باد دیتا ہوں جو اپنے مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے خطرات مول لیتے ہوئے لذت محسوس کرتے ہیں ۔ جو لوگ پہاڑوں پر چڑھنے کا خطرہ مول لینا پسند نہیں کرتے وہ ہمیشہ پستیوں میں رہتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ فلسطینی ماؤوں اوربہنوں کو محفوظ رکھے ۔آمین ۔
ماں اس کائنات کے سب سے اچھے، سچے اور خوبصورت ترین رشتے کا نام ہے- اللہ تعالیٰ نے اس کائنات میں جو سب سے خوبصورت چیز تخلیق کی وہ والدین ہیں، بالخصوص ماں جیسی ہستی کو سب سے زیادہ فوقیت حاصل ہے. ماں وہ عظیم نام ہے جس کے لئے دنیا کی مختلف زبانوں اور عالمی تہذیبی ورثے و ادب میں جو الفاظ تخلیق کیے گئے، وہ اس کے بلند مقام کا استعارہ اور عقیدت و محبت کا حسین اظہار ہیں، ہر مذہب و تہذیب میں ماں عظیم اور مقدس رہی ہے. دین فطرت اور دین رحمت نے ”ماں” کی عظمت، خدمت اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کا جو درس دیا ہے وہ سب سے منفرد و بے مثال ہے-
ماں کی عظمت پر کچھ لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے۔ ماں شفقت، خلوص، بے لوث محبت اور قربانی کا دوسرا نام ہے. یہ دنیا کی وہ سب سے پیاری ہستی ہے جس کا خیال جیسے ہی ذہن میں آئے ایک لطیف سا احساس جاگتا ہے- اس کا سایہ چلچلاتی دھوپ میں گھنے پیڑ کی چھاؤں جیسا ہے، اس کا دست شفقت شجر سایہ دار کی طرح سائبان بن کر اولاد کو سکون کا احساس دلاتا ہے، اس کی نرم و گرم گود کبھی پریشانیوں کی سردی محسوس ہونے نہیں دیتی، خود حالات کے خاردار راستوں پر چلتی رہے مگر اولاد کو پھولوں کے بستر پر سلاتی ہے-
دنیا جہاں کے دکھوں کو اپنے وسیع آنچل میں سمیٹے، لبوں پر میٹھی سی مسکراہٹ سجائے زندگی کی شاہراہ پر رواں دواں رہتی ہے۔ آندھی ہو یا طوفان کبھی رکتی یا تھکتی نہیں، ان حالات کا سامنا کرتے ہوئے نہ وہ کبھی احسان جتاتی ہے نہ اپنی محبتوں کا صلہ مانگتی ہے -یہ حقیقت ہے کہ ماں کی محبت ایک بحر بیکراں کی طرح ہے خلوص و ایثار کے اس سمندر کی حدود کا اندازہ لگانا ممکن نہیں – اللہ تعالیٰ نے اسکے قدموں تلے جنت رکھ کر ماں کی عظمت کی پہچان کروائی اب جس کا جی چاہے وہ جنت حاصل کرے-
حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے:ایک شخص نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے دریافت کیا، یا رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم۔ میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟ فرمایا..” تیری ماں ” پھر پوچھا… پھر کون؟ فرمایا ”تیری ماں” پھر عرض کیا.. اور کون؟.. رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ”تیری ماں” تین دفعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہی جواب دیا۔ چوتھی مرتبہ پوچھنے پر ارشاد فرمایا ”تیرا باپ”-شاعر مشرق علامہ اقبال نے اسرار خودی میں اپنی فارسی نظم ”در معنی ایں کہ بقائے نوع از امومت است و حفظ و احترام امومت اسلام است” میں ماں کی عظمت کے حوالے سے کہا ہے کہ:
”اسلام ماں کے منصب اور اس کے حفظ و احترام کا ضامن ہے، اگر ٹھیک طور پر دیکھو تو ماں کا وجود رحمت ہے، اس کی شفقت پیغمبرانہ شفقت جیسی ہے جس سے قوموں کی سیرت سازی ہوتی ہے، ماں کے جذبۂ محبت کی بدولت ہماری تعمیر پختہ تر اور اس کی پیشانی کی سلوٹوں میں اولاد کی تقدیر پنہاں ہوتی ہے-”
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
ماں خلوص و مہر کا پیکر، محبت کا ضمیر
ماں خدا کا رحم، وہ دنیا میں جنت کی سفیر
حضرت شیخ سعدی رح نے کہا ہے کہ ”محبت کی ترجمان اگر کوئی ہے تو وہ صرف ماں ہے”
مولانا الطاف حسین حالی نے کہا:ماں کی محبت حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے ”مشہور مغربی دانشور جان ملٹن نے کہا کہ:آسمان کا بہترین اور آخری تحفہ ماں ہے”.
ماں گھر کی سلطنت کا بنیادی اور اہم ستون ہے وہ اپنی اولاد کے ساتھ سایے کی طرح لگ کر ان کی تربیت کرتی ہے انہیں جھوٹ سچ، برائی بھلائی، نیکی بدی کا فرق سمجھاتی ہے، گھر میں بہترین نظم و ضبط قائم رکھنے میں اس کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اولاد کی زبان و گفتگو، لب و لہجہ کو تہذیب یافتہ بنانے میں ماں کا کردار خصوصی طور پر اہم ہوتا ہے. نپولین نے کہا تھا کہ ”تم مجھے اچھی مائیں دو میں تمہیں ایک اچھی قوم دوں گا”.
دور حاضر میں عالمی سطح پر جو مدر ڈے منایا جا رہا ہے یہ دین اسلام کا کلچر نہیں بلکہ مغرب کی جانب سے ایجاد کردہ ایک بھونڈا مذاق ہے.یہ ماں کے مقدس رشتے کی توہین ہے۔ ایک عظیم ہستی جو اعلیٰ و ارفع کہلائے جانے کی مستحق ہے جس نے ساری زندگی کا ہر لمحہ اولاد کے لئے قربان کر دیا، اس کو پروان چڑھانے کے لئے ہر تکلیف برداشت کی کیا اس کے لئے سال کا ایک دن کافی ہے؟
مدر ڈے مغربی تہذیب کے دلدادہ افراد کے لیے ہی موزوں ہوگا کیونکہ وہاں ماں کی عظمت کھو چکی ہے جہاں والدین کو ریٹائرڈ کر کے اولڈ ایج ہوم یا ہوسٹل میں بھیج دیا جاتا ہے اور ان کی عظمت، خدمت کو پس پشت ڈال کر سال میں ایک مرتبہ پھولوں کا گلدستہ، فروٹ، چند محبت بھری باتیں، پرفضا مقام کی سیر کروا کر انہیں احساس دلایا جاتا ہے کہ آج کا دن ان کے لئے ہے – ان سے جھوٹی محبت اور ہمدردی جتائی جاتی ہے، ان کی قدر و قیمت کے بلند و بانگ دعوے کئے جاتے ہیں.
مدر ڈے اغیار کی روایت ہے جہاں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کر انتشار کا شکار ہو چکا ہے رشتوں کا تقدس پامال اور فنا ہو گیا ہے، جہاں انسان نہیں مشینیں بستی ہیں.لیکن ….. ہم یہی کہیں گے کہ. اے ماں! سال کا ہر دن آپ کا ہے اور آپ کے نام پر ہے آپ ہر دن کا اجالا ہیں.ہم اس روایت کے پروردہ ہیں جہاں رشتوں کا تقدس اللہ کی محبت و اطاعت اور رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کی محبت و اتباع کے بعد سب سے زیادہ مقدم ہے. ہمارے لئے سال کا ہر دن ماں کا دن، ماں سے محبت کرنے کا دن، رشتوں کی تعظیم کا دن ہے-
آئیے.. ہم اغیار کی تقلید کے بجائے اپنی روایات جو حقیقی حسن سے آراستہ ہیں ان کو ساری انسانیت میں پھیلائیں اور اس طرح سے ان کا پرچار کریں کہ دیگر بندگان خدا بھی ہماری پیروی کریں۔
پیسے ہی نہیں ، زیورات کی زکوٰۃ کیسے ادا کروں؟ ـ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
ایک خاتون کا میسیج آیاـ ہمارے درمیان یہ باتیں ہوئیں :
وہ : میری شادی کو ایک برس ہونے کو ہےـ میری امّی کی طرف سے مجھے کچھ زیورات ملے تھےـ میں نے اپنے شوہر سے ان کی زکوٰۃ ادا کرنے کو کہا تو انھوں نے منع کردیاـ ان کا کہنا ہے کہ "جو تنخواہ ملتی ہے ، وہ مہینے کے آخر تک خرچ ہو جاتی ہے ، اس لیے میں تمھارے زیورات کی زکوٰۃ ادا نہیں کرسکتاـ” ایسے حالات میں میں کیا کروں ؟
میں : آپ کے صاحب نے بالکل صحیح کہاـ جس کے زیورات ہیں وہ خود ان کی زکوٰۃ ادا کرےـ شوہر کیوں ادا کرے ؟
وہ : میرے پاس کچھ پیسے ہی نہیں ہیں ، میں کہاں سے ادا کروں گی؟
میں : اگر آپ کو زکوٰۃ ادا کرنے کا احساس ہوتا تو سال بھر پہلے سے اس کی فکر ہوتی ـ شوہر سبزی ، پھل ، سودا وغیرہ لانے کے لیے کچھ پیسے دیتا رہتا ہوگا ، اس میں سے کچھ بچاتیں ـ ساس سسر اور دوسرے سسرالی رشتے داروں کی طرف سے کچھ ملتا ہوگا ، اس میں سے کچھ بچاتیں ـ ماں باپ کی طرف سے ملتا رہتا ہوگا ، اس میں سے کچھ بچاتیں ـ دوسرے رشتے داروں کی طرف سے ملتا ہوگا ، اس میں سے کچھ بچاتیں ـ اس طرح ایک برس کے عرصے میں آپ کے پاس اتنا پس انداز ہوجاتا کہ آسانی سے اپنے زیورات کی زکوٰۃ ادا کرلیتیں ـ
وہ : مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا مشترکہ خاندان ہےـ چار بھائی اپنی والدہ کے ساتھ رہتے ہیں ـ سبھی اپنی تنخواہ والدہ کو دیتے ہیں اور وہی گھر کا نظام چلاتی ہیں ـ ہم چار بہوؤں کو ایک پیسہ نہیں ملتاـ صرف والدین کے گھر سے ہمیں جو کچھ ملتا ہے وہی ہوتا ہے اور وہ بھی جلد ختم ہوجاتا ہےـ
میں : یہ تو درست نہیں ہے کہ چاروں بہوؤں کو جیب خرچ کے طور پر ایک پیسہ بھی نہ دیا جائےـ
وہ : اس سلسلے میں ہم کچھ کہہ بھی نہیں سکتےـ زباں بندی کا قانون نافذ ہےـ
میں : یہ بالکل غیر اسلامی رویّہ ہےـ مشترکہ خاندان میں رہنا مجبوری ہو تو مصارف کو آپس میں تقسیم کرلینا چاہیےـ ہر بہو کا حق ہے کہ ضروری مصارف کے لیے اسے کچھ رقم دی جائےـ ساس اور شوہر دونوں کو اس کی فکر کرنی چاہیےـ
وہ : میری سسرال میں زیورات پر زکوٰۃ ادا کرنے کا رواج نہیں ہےـ کبھی کسی نے زکوٰۃ ادا نہی کی ـ
میں : اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیجیے ، کہ اس نے آپ کو اس کی توفیق ادا کی اور آپ کو اس کی فکر ہےـ
وہ : میری والدہ نے کہا ہے کہ اگر تم کہو تو ہم تمہارے زیورات کی زکوٰۃ نکال دیں ـ
میں : اس بار آپ کی والدہ زکوٰۃ ادا کرنے پر تیار ہیں تو ہاں کردیجیے _ لیکن اگلے برس کے لیے ابھی سے تھوڑا تھوڑا پس انداز کیجیے ، تاکہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلانا پڑےـ
وہ : جی بہت بہتر ، جزاک اللہ خیراً کثیراً ـ
"تعلیم ِنسواں” کئی دنوں سے نہیں بلکہ دہائیوں سے ہماری تحریر اور تقریر کا موضوع رہا ہے۔ مشرق ومغرب کے ہزارہا اہل علم افراد اور مفکرین نے اس موضوع پر بے شمار آراء دی ہیں۔ مختلف افکار سے وابستہ افراد نے مختلف زاویوں سے تعلیمنسواں کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی ہے۔ ہر دور میں یہ موضوع زیرِ بحث رہا ہے۔ اور جیسے جیسے دنیا ترقی کرتی گئی ویسے ویسے یہ موضوع اپنے نئے رنگ اور ڈھنگ کے ساتھ پیش کیا گیا۔
دراصل”عورت” خود ایک بھڑکتا ہوا عنوان ہے جسے ہر دور میں اہل علم اور اہلِ ہوس اپنے اپنےانداز سے پیش کرتے ہیں۔ تعلیم نسواں تو بس اسکی ایک کڑی ہے۔
ویسے تو یہ ایک وسیع و عریض گفتگو کی شروعات ہے مگر پھر بھی ہم چند باتیں دیکھتے ہیں تعلیم نسواں کے بارے میں۔ جب بھی یہ عنوان نظروں سے گزرتا ہے مجھے سب سے پہلےعلامہ اقبال کا وہ مصرعہ یاد آجاتا ہے،آپ نے فرمایا:
وجودِ زن سے ہے تصویرِکائنات میں رنگ
یہ حقیقت ہے کہ دنیا کی رنگینیوں میں عورت بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔آج زندگی کے ہر شعبۂ حیات میں مرد ایک اہم رول ادا کرتاہے ، کارخانہ حیات مردوں کے وجود سے ہی رواں دواں ہے۔ اور ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ مرد کو اللّٰہ تعالیٰ نے طاقتور اور قوام بنایاہے۔ اور عورت کو نازکی اور شوخی عطا کی ہے۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں نکلتا ہے کہ معاشرہ عورت کے بغیر چل سکتا ہے۔ دیکھنے سے پتہ چلتا ہے دورِ حاضر میں عورت نے تمام شعبہ حیات میں اپنی جگہ بنالی ہے ،اور کامیاب بھی ہو رہی ہے ۔دراصل ہمارے معاشرے میں تعلیم ِ نسواں کو لے کر دو گروہ وجود میں آئے ہیں۔
پہلا گروہ وہ ہے جہاں لوگ عورت کو مکمل آزادی کے ساتھ تعلیم و ترقی کی راہوں پر گامزن ہونے کی اجازت دے دیتے ہیں۔ اُنہیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ انکی بیٹی یا گھر کی کوئی عورت معاشرے میں کس طرح اپنے آپ کو پیش کرتی ہے۔کیا وہ کتاب و شریعت کے اصولوں کے مطابق ترقی کی سیڑھیاں چڑھ رہی ہے؟ یا مغربی آزاد خیال خواتین کی راہ پر چل رہی ہے جسکا اختتام بربادی پر ہوتا ہے؟
دوسرا گروہ وہ جو مندرجہ بالا گروہ کے ردعمل میں وجود میں آتا ہے۔ یہ ان افراد پرمنحصر ہے جو اِن آزاد خیال خاندانوں کی بربادی کو دیکھ کر اپنی بیٹیوں یا گھر کی خواتین کو اس حد تک باندھ کر رکھتے ہیں جس کا حکم نہ خدا اور نہ ہی اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے کبھی خلق خدا کو دی۔ اور یہ ایک طرح کا ظلم ہے۔ بے شک اِس میں ان تنگ نظر افراد کی کوئی غلطی نہیں، کیوں کہ یہ افراد جب اپنے آس پاس کے معاشرے میں آزاد خیال خواتین کی دنیا اور آخرت برباد ہوتے دیکھتے ہیں تو اُنہیں فطری طور پر اپنی گھر کی خواتین اور عزت و آبرو کی فکر ستانے لگتی ہے۔ اور اس کے نتیجہ میں وہ خواتین کی تعلیم کو ایک محدود دائرے میں قید کر دیتے ہیں اور عورت سے جائز اور مطلوب ترقی کے مواقع چھین لیتے ہیں۔
اعتدال کا راستہ:
اب معاشرے کی سوچ جان لینےکے بعد ہمیں اپنے فرائض کو جان لینا بہت ضروری ہے۔
سب سے پہلا جو ہمارا کرنے کا کام ہے وہ ہے ہمارے گھروں میں اسلامی تعلیمات کا نفاذ۔ ہمیں یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ چاہے بیٹا ہو یا بیٹی، مرد ہو یا عورت اسلامی تعلیمات کے بغیر دنیاوی علوم کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ بے شک دنیاوی تعلیم اس فانی دنیا میں ہماری ترقی کا سبب بن سکتی ہے مگر اخروی زندگی کے لئے ہمیں دنیا میں دینی تعلیم کو بھی اپنے خاندان اور معاشرے میں نافذ کرنا ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ اپنی اولاد کو بچپن ہی سے خدا کی رحمت و شفقت کے ساتھ اسکے خوف و غضب سے آگاہ کروائیں۔ تاکہ وہ تنہائی میں بھی گناہوں سے بچ سکیں۔
اپنی بیٹیوں کو روایتوں کی بیڑیوں میں باندھنے سے بہتر ہے کہ انہیں عالم اسلام کی درخشاں خواتین کے واقعات بچپن ہی سے سنائیں تاکہ جب وہ بڑی ہوجائیں اور معاشرے میں ترقی کی سیڑھیاں چڑھنا شروع کریں تو انہیں اسلام کی بنیادی تعلیمات معلوم ہوں اور وہ اپنی عزت و آبرو اور اپنے مذہب کی عظمت اور مثالی نظام تعلیم وتربیت کو معاشرے کے سامنے پیش کرسکیں اور ثابت کریں کہ اسلام کوئی تنگ نظر مذہب نہیں ہے بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہے ؛جو افراد کی دنیاوی تعلیم و ترقی کے بیچ نہیں آتا بلکہ اگر اسلامی تعلیمات کے ساتھ ساتھ دنیاوی ترقی کی جائے تو یہ نہ صرف اخروی بلکہ دنیاوی کامیابی اور مقام و مرتبے کی ضامن بن جاتی ہے۔
ہمیں اسلام کی مشفقانہ رعایات تو ہماری پیدائش کے ساتھ ہی مل گیا تھا مگر افسوس کہ ہم اس سے فیض یاب نہ ہو سکے۔ یا تو ہم نے اپنی خواتین کو پوری طرح معاشرے کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے یا اسے روایتوں کی بیڑیوں میں جکڑ دیا ہے۔
ہمیں یہ ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ "علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔”(مسلم)
اگر ہماری عورتیں ترقی یافتہ ہوں گی تو ہماری نسلیں صحیح سمت میں پروان چڑھیں گی اور اگر ہماری خواتین کے طریقہ تعلیم وتربیت میں افراط وتفریط ہوئی تو بربادی ہماری نسلوں میں سرایت کر جائے گی۔
بہر حال ہمیں اعتدال کا راستہ اختیار کرنا ہے اور دنیاوی تعلیم کے ساتھ نہ صرف اپنی خواتین بلکہ مردوں میں بھی دینی تعلیم کے چلن کو عام کرنا ہے۔
ہمیں ہماری خواتین کی اس قدر ذہن سازی کی ضرورت ہے کہ وہ معاشرے کی برائیوں کو نہ صرف سمجھیں بلکہ اسکے خلاف کھڑی بھی رہیں اور آئندہ نسلوں کی ایسی پرورش کریں کہ وہ اس باطل دنیا میں حق کا عَلَم لے کر اٹھیں اور اس کے رنگ میں رنگنے کی بجائے اسے بدلنے کا عزم اور حوصلہ رکھیں۔
لڑکی کو رشتہ کے انتخاب کا حق اور شادی کے بعد میکے سے اس کا تعلق ـ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
ترجمان و کارگزار جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ
اللہ تعالیٰ نے انسان کو جن نعمتوں سے نوازا ہے، ان میں ایک اہم ترین نعمت اولاد ہے، اولاد میں بیٹے اور بیٹیاں دونوں شامل ہیں، اگر بچوں کی پیدائش کے وقت ان کی جسمانی کیفیت اور قُویٰ کو دیکھا جائے تو اس لحاظ سے ان کی پرورش کوئی آسان بات نہیں ہے؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے ماں باپ کے دل میں ان کے لئے محبت کا اتھاہ خزانہ رکھ دیا ہے، وہ خوبصورت ہو یا بد صورت ، خوش اخلاق ہو یا بداخلاق، یہاں تک کہ والدین کا فرمانبردار ہو یا نافرمان ، ماں باپ ان سے محبت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، یہی محبت ان کی پرورش وپرداخت کا ذریعہ بنتی ہے، یہ بھی اللہ تعالیٰ کا ایک نظام ہے کہ جو زیادہ کمزور ہوتا ہے، اس کی طرف والدین کی توجہ بڑھ جاتی ہے، وہ صحت مند کے مقابلہ بیمار اور جوانی کی دہلیز پر پہنچی ہوئی اولاد کے مقابلہ کم عمر، کم سِن اور کم شعور بچوں پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، اسی اصول پر بیٹوں کے مقابلہ بیٹیوں کے لیے بعض پہلوؤں سے ان کی فکر بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔
اولاد کی فطرت میں بھی یہ بات رکھی گئی ہے کہ وہ ماں باپ کے جتنے زیادہ محتاج ہوتے ہیں، اتنے ہی زیادہ اپنے والدین سے لگے چمٹے رہتے ہیں، شیر خوار بچہ غذا کھانے والے بچوں کے مقابلہ اور غذا لینے والے بچوں کے مقابلہ اور بڑے لڑکے اور لڑکیاں نسبتاََ والدین کی دوری کو گوارا کر لیتے ہیں، یہی حال لڑکوں اور لڑکیوں کا ہے، لڑکوں پر والدین کی دوری اتنی شاق نہیں گزرتی، جتنی لڑکیوں پر ؛ اسی لئے عام طور پر لڑکیوں میں اپنے ماں باپ سے تعلق، ان کی خدمت کا جذبہ اور ان کے لیے ایثار ومحبت کسی قدر زیادہ ہوتی ہے، اور شادی کے بعد تو اس سلسلہ میں کافی فرق آجاتا ہے، بیٹوں کی توجہ بیوی اور بچوں کی طرف بڑھ جاتی ہے اور بعض اوقات والدین کی طرف کم ہو جاتی ہے، بیٹی اپنی سسرال میں اگرچہ بے بس ہوتی ہے؛ لیکن والدین کی محبت اس کو ہمیشہ تڑپاتی اور بے قرار رکھتی ہے؛ اور وہ خود بھی اپنی مجبوری اور بے کسی کی وجہ سے ماں باپ کی زیادہ محبت اورتوجہ کی محتاج ہوتی ہیں؛ اسی لیے اسلام نے بہ مقابلہ بیٹوں کے بیٹیوں کی محبت کے ساتھ پرورش اور ان کے ساتھ حُسن سلوک کی زیادہ تاکید کی ہے؛ بلکہ جو شخص محبت کے ساتھ اپنی بیٹی کی پرورش کرے اور بیٹے کو بیٹی پر ترجیح نہیں دے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کو جنت میں آپ کی رفاقت کی خوشخبری دی ہے۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۵۱۴۶)
مگر جب سماج میں بگار آتا ہے تو عورتوں کے ساتھ خود اپنوں کی طرف سے بڑی زیادتی ہوتی ہے، یہ صورت حال آج بھی ہے اور پہلے بھی رہی ہے ، خود ہمارے ملک میں برادران وطن کا تصور تھا کہ عورت اپنی اصل کے اعتبار سے مرد کی ملکیت ہے، شادی سے پہلے وہ باپ کی ملکیت میں ہے اور باپ کو اختیار ہے کہ وہ جہاں اور جس سے چاہے اپنی بیٹی کی شادی کر دے، اور شادی کے بعد وہ شوہر کی ملکیت ہے؛ اسی لیے ان کے یہاں شادی کو’’ کنیا دان ‘‘کہا گیا ، وہ باپ اور شوہر کی ملکیت سے اپنی مرضی سے آزاد نہیں ہو سکتی؛ چنانچہ ان کے یہاں طلاق کا تصور نہیں تھا، یہاں تک کہ ’’ ستی ‘‘ کی رسم قائم ہوئی، اسلام نے عورتوں کو عزت کا مقام دیا، ان کو قریب قریب مردوں کے برابر حقوق دیے، والدین پر نہ صرف ان کی پرورش اور نگہداشت کی ذمہ داری رکھی؛ بلکہ مختلف مواقع پر فطری حالات کی رعایت کرتے ہوئے لڑکیوں کا زیادہ خیال رکھا۔
مگر افسوس کہ آج مسلم معاشرہ میں بھی لڑکیوں کے ساتھ بڑی ظلم وزیادتی ہوتی ہے، ان میں دو باتیں خاص طور پر قابل توجہ ہیں، جن کا اثرلڑکی کی پوری زندگی پر پڑتا ہے، ایک: رشتۂ نکاح میں لڑکیوں کی رضامندی اور خوشنودی کا لحاظ نہ کرنا، شرعاََ جیسے لڑکے کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہو سکتا، اسی طرح لڑکی کی رضامندی کے بغیر اس کا نکاح نہیں ہو سکتا؛ بلکہ لڑکوں سے بڑھ کر لڑکیوں کی رضامندی کا لحاظ کرنا ضروری ہے، اگر رشتہ میں موافقت نہیں ہوئی تو لڑکا تو طلاق دے کر اپنا دامن چھڑا سکتا ہے، وہ جسمانی اعتبار سے بھی طاقتور اور کسب معاش کی جدوجہد کا اہل ہوتا ہے؛ لیکن لڑکی کے لئے شوہر سے علاحدگی حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا، وہ جسمانی طور پر بھی کمزور ہوتی ہے اور حفاظتی ضرورت نیز فطری عوارض کی وجہ سے کسب معاش کے میدان میں بھی مرد سے پیچھے ہوتی ہے؛ اس لیے وہ اس بات کی زیادہ حقدار ہے کہ رشتہ کے انتخاب میں اس کی پسند کا خیال رکھا جائے۔
ایک لڑکی کا نکاح اس کے والد نے اس کی پسند کے خلاف کر دیا ، انھوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رشتہ کو رد فرمایا۔ (ابو داؤد، حدیث نمبر: ۲۱۰۱)اس سے ایک بات تو یہ معلوم ہوئی کہ باپ کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی پسند بیٹی پر تھوپ دے، دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ اگر والد نے لڑکی کی ناپسندیدگی کے باوجود اس کا رشتہ طے کر دیا تو لڑکی کو اس پر اعتراض کرنے کا حق حاصل ہے، نہ یہ بے حیائی ہے اور نہ بغاوت اور نہ والد کی عدول حکمی، بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا رشتہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے طئے فرمایا تو حضرت فاطمہؓ کی مرضی معلوم کی، پھر یہ قدم اٹھایا؛ لیکن آج کل مزاج، معاشی صورت حال، معیار زندگی اور معیار تعلیم کا فرق کئے اور لڑکیوں سے ان کی مرضی معلوم کئے بغیر ان کا رشتہ طئے کر دیا جاتا ہے، یہ ظلم اور ایک غیر شرعی عمل ہے۔
راقم الحروف کو بعض احباب کی خواہش پر دہلی میں ایک نکاح پڑھانے کا موقع ملا، عاقدین کا تعلق غالباََ میوات سے تھا، میں نے خطبہ دینے سے پہلے لڑکی کے والد کو قریب بلایا اور ان سے دریافت کیا :کیا آپ نے نکاح کی اجازت لے لی ہے؟ کہنے لگے: کیا مطلب؟ میں نے کہا: لڑکی سے اس رشتہ کے بارے میں پوچھ لیا ہے؟ کہنے لگے: میں اس کا باپ ہوں، میں اس سے پوچھوں گا اور اجازت لوں گا؟؟ ظاہر ہے اس طرح کی بات اس وقت پیش آتی ہے جب سماج میں اس طرح کا مزاج بنا ہوا ہو؛ اس لیے آج بھی دیہات اور قریہ جات میں بسنے والے بہت سے ناخواندہ اور کم پڑھے لکھے لوگ لڑکی سے نکاح کی پسند معلوم کرنے کو ضروری نہیں سمجھتے۔
اسی طرح اگر کسی لڑکی نے کسی خاص لڑکے سے نکاح کا رجحان ظاہر کر دیا تو اس کو بہت ہی بُرا سمجھا جاتا ہے، گھر میں قیامت آجاتی ہے، ہر آدمی اس لڑکی کو لعنت ملامت کرتا ہے اور ہر طرف سے اس پر طعن وتشنیع کے تیر برسنے لگتے ہیں، یہ غیر اسلامی اور جاہلانہ طرز فکر ہے، بعض خواتین نے کسی خاص مرد سے نکاح کا ارادہ کیا؛ مگر ان کے اولیاء رکاوٹ بننے لگے تو قرآن نے اس طرز عمل کو منع فرمایااور اولیاء کو صاف طور پر کہا گیا کہ انہیں اس میں رُکاوٹ بننے کا کوئی حق نہیں ہے: فلا تعضلوھن أن ینکحن أزواجھن (بقرہ: ۲۳۲)متعدد صحابیات کے واقعات موجود ہیں کہ انھوں نے اپنی پسند سے اپنا نکاح کیا، خود ام المؤمنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے آپ کے نکاح میں ام المؤمنینؓ ہی نے پیش قدمی فرمائی تھی؛ اس لیے یہ ضرور ہے کہ نوجوان لڑکے ہوں یا لڑکیاں، ان کو اپنے رشتہ کے سلسلہ میں اولیاء کے مشورہ کو خصوصی اہمیت دینی چاہیے؛ کیوں کہ عموماََ ان کا مشورہ محبت اور تجربہ پر مبنی ہوتا ہے، اور یہ بات دیکھی گئی ہے کہ جو رشتے اولیاء کو اعتماد میں لیے بغیر کیے جاتے ہیں، اکثر ناکام ثابت ہوتے ہیں، ان میں عقل کے بجائے جذبات اور مصلحت کے بجائے خواہشات کا زور ہوتا ہے؛ لیکن بہر حال یہ بات ملحوظ رکھنی ضروری ہے کہ شریعت نے بالغ لڑکوں اور لڑکیوں کو فیصلہ کرنے کا حق دیا ہے اور ان کے اولیاء کو صرف مشورہ دینے کا۔
جب کوئی رشتہ لڑکے یا لڑکی پر زبردستی تھوپ دیا جاتا ہے تو وہ اول دن سے ہی تلخیوں اور کڑواہٹوں کا شکار ہوتا ہے، اور نکاح کا جو اصل مقصد ہے: پُر سکون زندگی کا حصول : لتسکنوا الیھا (روم: ۲۱)وہی فوت ہو جاتا ہے، اس لیے اس سے بچنے کی ضرورت ہے، بالخصوص موجودہ دور میں جب کہ تعلیم میں لڑکیاں لڑکوں پر سبقت حاصل کر رہی ہیں، اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہو کر کامیابی کے ساتھ ملک وقوم کی خدمت کر رہی ہیں، تو ہر گز یہ رویہ درست نہیں ہو سکتا کہ ان کو اپنی ذات کے معاملہ میں فیصلہ کرنے سے محروم کر دیا جائے۔
دوسرا اہم مسئلہ جو بے حد سنگین ہے اور جس کی وجہ سے بعض اوقات خود کشی جیسے واقعات بھی پیش آجاتے ہیں، وہ ہے شادی کے بعد لڑکی کا اپنے میکہ سے تعلق ، یہ بات معاشرہ میں زبان زد ہو گئی ہے کہ جس گھر میں’’ ڈولی‘‘ جائے اس گھر سے ’’ڈولا ‘‘نکلے، یعنی لڑکی جب اپنے سسرال جائے تو وہ یہ سمجھ کر جائے کہ اسے پوری زندگی وہیں گزارنا ہے، یہ اس حد تک تو صحیح ہے کہ لڑکیوں کو تیار کیا جائے کہ زندگی میں سردوگرم حالات آتے ہیں ، ان کو برداشت کر کے رشتہ نکاح کو قائم رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس پس منظر میں لڑکیوں کو یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اب سسرال تمہارا اپنا گھر ہے اور میکہ پرایا؛ لیکن اس کا ایک منفی پہلو یہ ہے کہ لڑکیوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھا دی جاتی ہے کہ چاہے شوہر سے موافقت ہو یا نہ ہو، چاہے شوہر ظلم وزیادتی کا مرتکب ہو ؛ لیکن بہر حال رہنا اسی کے ساتھ ہے، جب ماں باپ اس طرح کی بات کہتے ہیں تو یہی بات لڑکی کے بھائیوں کے ذہن میں گھر کر جاتی ہے، اور بیٹی کا اپنے میکہ میں آنا بھاوجوں کے دل میں تو بہت ہی کھٹکنے لگتا ہے، وہ ان کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک کرتی ہیں، جو کسی بِن بلائے مہمان کے ساتھ کیا جا سکتا ہے، نتیجہ یہ ہے کہ اگر کسی وجہ سے اپنے سسرال میں اس کا گزر نہ ہو سکے تو اس غریب پر قیامت آجاتی ہے؛ حالاں کہ ایسا صرف لڑکی کی بدمزاجی سے نہیں ہوتا ہے ، لڑکے اور ان کے گھر والوں کی بداخلاقی کی وجہ سے بھی ہوتا ہے، یہاں تک کہ بعض دفعہ اس کو سسرال سے نکال دیا جاتا ہے، کبھی تو بچوں کا بوجھ بھی اس کے کاندھوں پر رکھ دیا جاتا ہے، اور کبھی حد درجہ شقاوت کا اظہار کرتے ہوئے بچے بھی اس کی گود سے چھین لئے جاتے ہیں، اگر ان حالات میں میکہ بھی اس کے لیے پرایا گھر بن جائے تو وہ اپنے آپ کو بالکل بے سہارا محسوس کرتی ہے، یہ ایک بے حد تکلیف دہ صورت حال ہے جو سماج میں پیش آتی ہے، اگر شوہر نے دوسری شادی کر لی تو شادی تو وہ شریعت کا نام لے کر کرتا ہے؛ لیکن دوسری شادی کے بعد اسلام میں عدل وانصاف کے جو احکام دیے گئے ہیں، ان کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے، اگر شوہر نے یہ رویہ اختیار کیا، یا طلاق دے دی، یا خدا نخواستہ اس کا انتقال ہو گیا تب بھی بعض اوقات عورتیں اسی صورت حال سے دو چار ہوتی ہیں۔
اگر چہ اس ظلم وزیادتی کے مختلف عوامل ہیں؛ لیکن ایک اہم سبب یہ تصور ہے کہ شادی ہو جانے کے بعد لڑکی کا اپنے میکہ میں کوئی حق نہیں ہے، وہ اس کے لیے پرایا گھر ہے، ایسی بے سہارا لڑکیاں جب کوئی جائے پناہ نہیں پاتیں، نہ والدین ان کو قبول کرنے کو تیار ہیں نہ سسرال والے، تو ان پر مختلف قسم کا رد عمل ہوتا ہے، بعض لڑکیاں ڈپریشن کا شکار ہو کر دماغی عارضہ مین مبتلا ہو جاتی ہیں، بعض خود کشی کر لیتی ہیں، وہ سمجھتی ہیں کہ زمین اپنی وسعت کے باوجود ان پر تنگ ہو چکی ہے، لڑکیوں کی خود کشی کے بہت سے واقعات اس طرح پیش آرہے ہیں، بعض اوقات کوئی راستہ نہ پا کر وہ گھر سے باہر نکل جاتی ہیں، اور مستقل طور پر غلط راستے پر پڑ جاتی ہیں اور بعض اوقات کسی غیر مسلم کے ساتھ اپنی شادی رچا لیتی ہیں، لوگ ایسی لڑکیوں کو لعنت ملامت کرتے ہیں؛ لیکن ان واقعات کے پیچھے جو حالات کار فرما ہیں، ان پر غور نہیں کرتے، اور جن لوگوں نے اس کا ارتکاب کیا ہے، ان کو تنبیہ نہیں کی جاتی۔
بنیادی طورپر یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ لڑکی کا نکاح کے بعد بھی اپنے میکہ اور والدین سے تعلق باقی رہتا ہے اور جیسے والدین کی اَملاک میں بیٹے کا حق ہوتا ہے، بیٹیوں کا بھی حق ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری لمحات میں تین باتوں کی خاص طور پر نصیحت فرمائی، ایک: بیوہ عورت کے ساتھ حسن سلوک، دوسرے: یتیم بچوں کے ساتھ، تیسرے: نماز کا اہتمام، (شعب الایمان، عن انس حدیث نمبر: ۱۰۵۴۲) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ جس نے کسی یتیم یا بیوہ کی کفالت کی۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کو اپنے سایہ میں جگہ دیں گے، اور جنت میں داخل فرما دیں گے، (المعجم الاوسط، حدیث نمبر: ۹۲۹۲) اگرچہ یہ ارشاد بیوہ اور یتیم کے بارے میں ہے؛ لیکن جس عورت کا شوہر اسے چھوڑ دے یا گھر سے بے گھر کر دے، اور اس سے پیدا ہونے والے بچوں سے آنکھیں موند لے وہ عورت بھی اپنی صورت حال کے اعتبار سے بیوہ ہی کے درجہ میں ہوتی ہے، اور ان بچوں کو بھی یتیموں کی سی ہی زندگی گزارنی ہوتی ہے؛ اس لیے اُن کے ساتھ حُسن سلوک پر وہی اجر حاصل ہوگا، جس کا وعدہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیواؤں اور یتیموں کے ساتھ حُسن سلوک پر کیا ہے، اور پھر بیٹی بہن کے ساتھ حُسن سلوک میں تو صِلہ رحمی کا پہلو بھی ہے، جس کی قرآن میں بھی اور حدیث میں بھی بہت تاکید فرمائی گئی ہے۔
باپ کے مال میں مقدار کے فرق کے ساتھ بیٹی کا بھی اسی طرح حق ہوتا ہے، جیسے بیٹوں کا ہوتا ہے؛ اسی لیے اس کے ترکہ سے جو رشتہ دار کسی صورت محروم نہیں ہو سکتے، وہ چھ ہیں، ان میں بیٹا بھی ہے اور بیٹی بھی۔ (الاختیار لتعلیل المختار: ۵؍ ۱۹۴) اگرچہ کہ ترکہ کی تقسیم میں ترکہ کے مطالبہ کا حق مورث کی موت کے بعد حاصل ہوتا ہے؛ لیکن اگر کوئی شخص اپنے کسی وارث کو محروم کرنے کی تدبیر کرے ، خواہ بیٹا ہو یا بیٹی، تو وہ شرعاََ گناہ گار ہوگا، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تعالیٰ جنت میں اس کے حصہ سے اس کو محروم کر دیں گے۔ (ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۲۷۰۳) اس سے معلوم ہوا کہ ماں باپ کی اپنی ضروریات سے بچی ہوئی دولت میں ایک حد تک اس کے ورثاء کا حق ہوتا ہے، جس میں بیٹی بھی شامل ہے، یہی وجہ ہے کہ اگر باپ کوئی ایسا قدم اٹھائے جس کی وجہ سے وہ حق سے محروم ہو جائے تو باپ گناہ گار ہوتا ہے۔
فقہا نے شریعت کے مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے کہا ہے کہ شادی تک لڑکیوں کا نفقہ باپ پر واجب ہے ،اور چاہے لڑکی کسب معاش پر قادر ہو، اگر باپ کے اندر نفقہ ادا کرنے کی صلاحیت ہو تو وہ بیٹی سے مطالبہ نہیں کر سکتا کہ وہ خود کمائے، اگر خدانخواستہ وہ مطلّقہ ہو جائے اور شوہر چھوڑ دے تو جیسے پہلے اس پر اس لڑکی کی پرورش کی ذمہ داری تھی، اب دوبارہ اس پر یہ ذمہ داری عائد ہو جائے گی: واذا طلقت وانقضت عدتھا عادت نفقھا علی الأب (فتح القدیر : ۴؍۴۱۰)
اس لئے یہ بات سمجھانے کی ضرورت ہے کہ شادی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لڑکی کا اپنے خاندان اور اپنے ماں باپ سے تعلق ختم ہو گیا، اب وہ اس گھر کے لیے بے گانہ اور پرائی ہوگئی؛ بلکہ جتنا حق اس میں بیٹوں کا ہے، مقدار کے فرق کے ساتھ اسی طرح بیٹیوں کا بھی حق ہے، نہ ماں باپ اس کو مشکل حالات میں میکہ آنے اور یہاں بسنے سے روک سکتے ہیں، نہ بھائی اور بھاوجیں ان کو ان کے حق سے محروم کر سکتے ہیں، اور مجبور کر سکتے ہیں کہ وہ ظلم وزیادتی سہتے ہوئے سسرال میں ہی اپنا وقت گزاریں!!!
ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سوال :
ملازمت پیشہ خواتین گھر اور تحریک کے کاموں میں توازن کیسے برقرار رکھیں؟ خاص طور پر وہ خواتین جن کے بچے ابھی چھوٹے ہوں _
جواب :
1 _ ملازمت کرنا عورت پر لازم نہیں ہے ، البتہ وہ حدودِ شرع کی رعایت کرتے ہوئے ملازمت کرسکتی ہے _
2 _ محض معیارِ زندگی کی بلندی کے لیے عورت کا ملازمت کرنا پسندیدہ نہیں ہے _ مال و دولت کے حصول کی کوئی حد نہیں ہے _ جتنا بھی مل جائے ، ھَل مِن مَزِید کی طلب باقی رہتی ہے _ اس لیے اگر شوہر کی کمائی سے بنیادی ضروریات آسانی سے پوری ہو رہی ہوں تو بیوی کو چاہیے کہ گھر میں رہنے کو ترجیح دے ، بچوں کی پرورش و پرداخت اور دینی و اخلاقی تربیت پر توجہ دے اور شوہر اور دیگر افرادِ خانہ کے ساتھ خوش گوار زندگی گزارے _ تاہم اس کا ملازمت کرنا کبھی اس کے اپنے گھر کی ضرورت ہوسکتا ہے، اس صورت میں جب کہ شوہر کی آمدنی گھر کی ضرورتوں کے لیے ناکافی ہو اور خود سماج کی ضرورت بھی ہوسکتا ہے ، جیسے کہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے خاتون ٹیچر کا ہونا یا مریض عورتوں کے لیے خاتون ڈاکٹر کا ہونا مسلم سماج کی ایک ضرورت ہے _ ایسی صورت میں عورت کے ملازمت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے _ اس کے شوہر کو چاہیے کہ اسے اس کی اجازت دے _
3 _ خاندان کے دائرے میں اسلام نے شوہر کو ‘قوّام’ (محافظ و نگراں) بنایا ہے اور بیوی کو اس کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے _ ملازمت کے باوجود ضروری ہے کہ بیوی شوہر کی مطیع و فرماں بردار رہے اور سسرال کے لوگوں سے اچھے تعلقات رکھے _ ایسا نہ ہو کہ وہ بڑائی جتانے لگے اور دوسروں کو خاطر میں نہ لائے _
4 _ عورت کی ملازمت کے لیے اس کے شوہر کی اجازت ضروری ہے _ شوہر کی اجازت کے بغیر یا اسے ناراض کرکے عورت کا ملازمت کرنا درست نہیں ہے _ اس سے عائلی تنازعات سر ابھارتے ہیں اور خاندان میں خوش گواری باقی نہیں رہتی _
5 _ مشاہرہ عورت کی ملکیت ہے _ وہ اپنی کمائی اپنی مرضی سے خرچ کرسکتی ہے ، شوہر کو بھی دے سکتی ہے _ لیکن شوہر یا سسرال والوں کا عورت کی مرضی کے بغیر اس کی کمائی پر قبضہ کرلینا درست نہیں ہے _
6 _ عورت ملازمت کے تقاضے پورے کرنے کے ساتھ پہلے اپنے خاندان کو دیکھے ، شوہر کے حقوق ادا کرے ، بچوں کی تعلیم و تربیت کی فکر کرے _ خاندان کے دیگر افراد کو دینی تعلیمات سے آگاہ کرنے کی کوشش کرے _ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
يٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَاَهۡلِيۡكُمۡ نَارًا (التحریم :6)
” اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! بچاوٴ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے _”
اس آیت کا خطاب جس طرح مردوں سے ہے اسی طرح عورتوں سے بھی ہے _ دونوں کی ذمے داری ہے کہ پہلے اپنی اخروی نجات کی فکر کریں ، پھر اپنے اہلِ خانہ کی اسلامی ذہن سازی کریں _
اس کے بعد جو بھی وقت فارغ بچے اسے دین کی تبلیغ و اشاعت میں لگایا جاسکتا ہے _ تحریک اسلامی اسی کا تقاضا کرتی ہے _ اس کا مطالبہ ہے کہ اس سے وابستہ ہر کارکن ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، پہلے اپنی اصلاح کی فکر کرے ، پھر اپنے گھر والوں کو دین پر چلانے کی کوشش کرے _ اہلِ خانہ کی دینی تربیت سے غافل ہوکر تحریک کے دیگر کاموں میں شامل ہونا اور ان میں اپنا وقت صرف کرنا درست نہیں ہے _ یہ الٹی ترتیب ہے ، جس سے وابستگانِ تحریک کو بچنا چاہیے _
میری بہت سی بیٹیوں کو شکایت ہے کہ میں ہمیشہ ان کے فرائض اور ذمے داریوں ہی پر کیوں زور دیتا ہوں ، ان کے حقوق کیوں نہیں بیان کرتا؟ اور سسرالیوں کو ان حقوق کی ادائیگی کی تاکید کیوں نہیں کرتا؟ ان کی شکایت کسی حد تک بجا ہے ، لیکن اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر میری بیٹیاں ہی میرے رابطہ میں آتی ہیں _ وہ مجھ سے سوال کرتی ہیں کہ خوش گوار خاندان کی تشکیل میں وہ کیا رول ادا کرسکتی ہیں؟ اس لیے ان کے سامنے ان کے حقوق بیان کرنے کے بجائے ان کے فرائض بیان کرتا ہوں ـ لیکن یہ حقیقت ہے کہ عائلی زندگی میں فرائض اور حقوق کے درمیان توازن کے بغیر خوش گواری قائم نہیں رہ سکتی اور اگر ابتدائی دنوں میں قائم ہوجائے تو دیرپا نہیں رہ سکتی ـ آج میں سسر اور ساس سے مخاطب ہوں کہ بہو کے سلسلے میں ان سے کیا رویّہ مطلوب ہے؟ اور انہیں کیسے اخلاق کا مظاہرہ کرنا چاہیے؟
ایک لڑکی نکاح کے بعد ایک گھر سے دوسرے گھر میں منتقل ہوتی ہے _ وہ اپنے ماں باپ ، بھائی بہن اور دیگر رشتے داروں کو چھوڑ کر آتی ہے ـ سسرال میں اسے نئے لوگوں سے سابقہ پڑتا ہےـ اگر یہ نئے لوگ اس سے پیار و محبت اور اپنائیت سے پیش آئیں تو لڑکی کا اپنے حقیقی رشتے داروں سے بچھڑنے کا غم بہت ہلکا ہوسکتا ہےـ اگر ساس ماں بن جائے ، سسر باپ بن جائے ، نند بہن بن جائے اور دیور بھائی بن جائے تو لڑکی کو احساس ہوگا کہ وہ اگرچہ اپنوں سے بچھڑ گئی ہے ، لیکن اپنوں جیسے لوگوں کے درمیان آگئی ہے _ سسرالی رشتے دار حقیقی رشتے دار نہیں بن سکتے ، لیکن ان جیسا بننے کا مظاہرہ تو کرسکتے ہیں ـ
لڑکی کو سب سے زیادہ سابقہ اپنی ساس سے پیش آتا ہے _ اگر ساس کا اس کے ساتھ محبّت آمیز رویہ ہو تو وہ زندگی کے تمام سرد و گرم ہنسی خوشی برداشت کرلے گی _ اسے احساس ہوگا کہ اسے ساس کی شکل میں ایک مضبوط سہارا حاصل ہے _ وہ خود کو بہت طاقت ور محسوس کرے گی _ لیکن اگر ساس کا رویہ حقارت آمیز ، بات بات پر ٹوکنے والا اور اس کے کاموں میں خامیاں نکالنے والا ہو تو اس کا دل ٹوٹ جائے گا اور اجنبیت کی اونچی دیوار ان کے درمیان حائل ہوجائے گی ـ
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ بہو کو کسی بات پر ٹوکا ہی نہ جائے ، اس کی کسی کوتاہی پر اس کی سرزنش نہ کی جائے ، اسے سلیقہ نہ سکھایا جائے اور اس کی دینی و اخلاقی تربیت نہ کی جائے _ ضرور کی جائے ، لیکن اس کا تذکرہ اس طرح کیا جائے جیسے بیٹی کا کیا جاتا ہےـ اسے اس طرح مخاطب کیا جائے جیسے بیٹی کو کیا جاتا ہے _ الفاظ ایک جیسے ہو سکتے ہیں ، لیکن ان کی ادائیگی کا انداز اور مخاطب کرنے کا اسلوب سننے والے کو بتادیتا ہے کہ اس میں خیر خواہی پوشیدہ ہے یا طنز و تعریض ، سلیقہ سکھایا جا رہا ہے یا طعنہ دیا جا رہا ہےـ
چند دنوں قبل ایک خاتون میرے پاس اپنا مسئلہ لے کر آئیں ـ ان کی سسرال میں شوہر کے علاوہ صرف ساس سسر تھے _ انھوں نے ساس سسر کی خدمت کو اپنا فریضہ جانا ، لیکن چند ہی ماہ میں ان کی ساس نے ان کی زندگی اجیرن بنا دی _ بہت دیر تک سوتی ہو ، بہت کھاتی ہو ، سر میں درد کا بہانہ کرکے پڑی رہتی ہو ، کام چور ہو ، فیشن کرتی ہو ، زبان دراز ہو ، اور نہ جانے کیسی کیسی باتیں _ بالآخر وہ خاتون آٹھ ماہ سے اپنے میکے میں ہیں اور ان کی ازدواجی زندگی خطرے میں ہےـ
میری شادی ہوئی تو میری امّی جان نے اپنی بہو پر محبتیں نچھاور کیں اور اسے بیٹی سے زیادہ پیار دیا ـ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میری اہلیہ نے بھی ان کا خیال رکھنے اور ان کی خدمت کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ـ اب وہ خود ساس بن گئی ہیں تو یہی رویہ ان کا اپنی بہو کے ساتھ ہےـ ہر گھر میں کچھ نہ کچھ کھٹ پٹ ہوہی جاتی ہےـ کبھی ایسا ہوتا ہے تو یہ تحقیق کرنے کے بجائے کہ بہو اور بیٹے میں سے کس کی غلطی ہے؟ ہم دونوں بہو کی حمایت میں ہوتے ہیں اور بیٹے کی سرزنش کرتے ہیں ـ بہو کی آنکھ میں ایک آنسو یا اس کا مُرجھایا ہوا چہرہ ہمیں پریشان کردیتا ہے اور جب تک ہم اسے خوش نہیں دیکھ لیتے ، ہمیں چین نہیں آتاـ
جس گھر میں بہو کی عزّت و توقیر نہ ہو اسے اسلامی گھر نہیں کہا جاسکتاـ جس گھر میں بہو خوش نہ ہو اسے مثالی گھر نہیں کہا جاسکتاـ اس پہلو سے ہم میں سے ہر شخص کو اپنا اور اپنے گھر کا جائزہ لینا چاہیے اور اپنا احتساب کرنا چاہیےـ
امید سے کم نظر خریدار میں آئے
ہم لوگ ذرا دیر سے بازار میں آئے
خود نوشت ہی کیا بلکہ تمام اصناف ادب میں ہی خواتین کی ذرا دیر سے انٹری ہوئی۔ بلکہ ان کے حقوق کی ہی طرف دنیا تھوڑی دیر سے متوجہ ہوئی۔ یوں کہہ لیں کہ ایک زمانہ تک جوہر عورت کی کلید غیروں کے ہاتھوں میں تھی۔ آخر اس عقدہ کو خود عورت نے اپنی جدو جہد سے حل کیا۔ در اصل عورت زندگی کو زیادہ قریب سے دیکھتی، محسوس کرتی ہے اور احساس و شعور میں زندگی کے تلخ و شیریں تجربات کے رنگ و بو کو دامن میں سمولیتی ہے، جب ان کو خود نوشت لکھنے کا موقع ملتا ہے، تو وہ ایک ایسی داستان بن کر سامنے آتی ہے، جس کے ورق ورق پر عورت کے حساس دل میں موجزن احساس و جذبات کی تصویریں چلتی پھرتی، سانس لیتی، کچھ اس طرح محسوس ہوتی ہیں، کہ ہمارا معاشرہ دم بخود ہوکر زندگی کی سچی حقیقتوں کا تماشہ دیکھتا ہے، حالانکہ ابھی تک اردو ادب میں خواتین کی طرف سے بہت کم خود نوشتیں سامنے آئی ہیں، لیکن ریختہ نے کچھ اچھی اور معتبر خواتین کی خود نوشتوں کی ایک منتخب فہرست ترتیب دی ہے، ریختہ پر موجود درج ذیل خودنوشتیں آپ کے مطالعہ کی منتظر ہیں۔
"بیتی کہانی”
"بیتی کہانی” اردو تاریخ و ادب کی نہ صرف اولین نسوانی خودنوشت ہے بلکہ تاریخ پاٹودی کا ایک بنیادی ماخذ بھی ہے۔ یہ سوانح عمری اکرچہ پہلی مرتبہ 1995 میں پروفیسر معین ا لدین عقیل کے مقدمہ و حواشی کے ساتھ شائع ہوئی لیکن مصنفہ شہر بانوں بیگم نے "بیتی کہانی” کو 1885 میں تصنیف کیا تھا اور تقریبا دیڑھ سال بعد اس میں محض دیباچے کا اضافہ کرکے کتابی شکل دی۔ اس آپ بیتی کی مصنفہ شہر بانو بیگم کا تعلق ریاست باٹودی کے حکمراں خاندان سے تھا۔ وہ رئیس ریاست نواب اکبر علی خاں (1813- 1872) کی دختر تھیں۔ انہوں نے اپنی اس سرگذشت میں زندگی کے تقریباً تمام اہم واقعات کو کہیں تفصیل اور کہیں اختصار کے ساتھ بیان کر دیا ہے اور پھر اہم مقامات پر تاریخ و سنہ کے اندراج کا بھی اہتمام کیا ہے۔ اپنی سرگذشت کے ضمن میں ریاست کے قیام کے تاریخی و سیاسی پس منظر اور اپنے اجداد کے تاریخی و سوانحی حالات کو انہوں نے جو خاص اہمیت دی ہے، اس سے تاریخ سے ان کے گہرے شغف کا اظہار ہوتا ہے۔ کتاب کی زبان صاف اور سادہ ہے۔ کتاب کو تین ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے اور ان تینوں کے ماتحت متعدد عناوین ہیں۔ یہ ابواب مصنفہ کی طرف سے نہیں قائم کئے گئے ہیں، بلکہ ابواب کی تقسیم بعد میں مرتب نے کی ہے۔ البتہ مصنفہ نے جگہ جگہ موضوع کے اعتبار سے بین السطور اس طرح تحریر کیے ہیں کہ بیان کا ربط نہیں ٹوٹتا۔ اپنی زندگی کے نشیب و فراز کو انہوں نے بلا کم و کاست بیان کر دیا ہے۔ اس سے ان کی حقیقت نگاری اور راست گفتاری کا ثبوت ملتا ہے۔ اس کتاب کا دوسرا ایڈییشن لاہور سے 2006 میں شائع ہوا۔
تزک سلطانی
بھوپال کی حکمران خاتوں سلطان جہاں بیگم برصغیر میں خواتین کی تعلیم کی علمبردار تھیں۔ وہ اعلی تعلیم یافتہ روشن خیال خاتون تھیں۔ انہوں نے ہر پلیٹ فارم پر تعلیم نسواں کو فروغ دیا۔ زیر نظر نواب سلطان بیگم کی خود نوشت ہے۔ جو تین حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلا حصہ "تزک سلطانی” )مطبوعہ (1903 جس میں ان کی پیدائش اس وقت کے سیاسی و سماجی حالات، ان کی مسند نشینی اور ان کی شادی وغیرہ کی تفصیلات درج ہیں۔ تز ک سلطانی کا دوسرا حصہ "گوہر اقبال” )مطبوعہ (1909کے نام سے موسوم ہے۔ جس میں ان کی صدر نشینی، 1909 سے 1908 تک کے حالات۔ اور ان کی صدر نشینی کے بعد کیا مشکلات پیش آئیں۔ شوہر کا انتقال، بیٹیوں کی شادیاں وغیرہ۔ تزک سلطانی کا تیسرا حصہ "اختر اقبال” کے نام سے 1914 میں منظر عام پر آیا اس حصے میں ان کی تعلیمی سرگرمیاں، تعلیم نسواں کے فروغ کے لئے اسفار، اور اس سلسلے کی دوسری جدو جہد مذکور ہیں۔ یہ خود نوشت اس وقت کے بھوپال کی سیاسی و سماجی تاریخ کی ایک اہم دستاویز قرار پاتی ہے۔
نیرنگئی بخت
یہ ایک معزز گھرانے کی خاتون وزیر سلطان بیگم کی بد نصیبی کی داستان ہے۔ جو صحیح معنوں میں نیرنگئی بخت کا شکار ہوئیں۔ قسمت نے ان کے ساتھ عجیب کھیل کھیلا تھا کہ شوہر سے علاحدگی کے بعد معاملہ عدالت تک پہنچا، اور عدالت نے ان کو مہر کی رقم دلوادی۔ یہ خود نوشت ایک ناول کی طرح آگے بڑھتی ہے جس میں انسانی زندگی کے نشیب و فراز اور عروج و زوال کی عبرت انگیز داستان پوشیدہ ہے۔ یہ خود نوشت رسالہ "الزہرا” میں قسط وار شائع ہوئی تھی جس کو اس وقت بہت پسند کیا گیا تھا، بعد میں قارئین کی دلچسپی کو دیکھتے ہوئے اس خود نوشت کو 1942 میں ذکاء اللہ شاہ حسینی نے شائع کیا۔
آزادی کی چھاوں میں
یہ بیگم انیس قدوائی کی خود نوشت ہے۔ یہ خود نوشت ایک ذاتی ڈائری کی طرح ہے جس میں 1947 میں آزادی کے دوران پیش آنے والے واقعات اور اس کے کچھ سال بعد کا احاطہ کیا گیا ہے۔ یہ اس دور کے خونین واقعات کا ایک آئینہ ہے جس پر مصنفہ کے شوہر کے خون کی چھینٹیں موجود ہیں جو ان ہنگاموں میں شہید کردیا گیا ہے۔ اس خود نوشت کے آغاز کا عنوان غالب کا مصرعہ "کرتا ہوں جمع پھر سطر لخت لخت کو” کے تحت داستان "لخت لخت” کو سنایا گیا ہے۔ یہ خود نوشت ہندوستان کی تاریخ کے ایک اہم دور پر روشنی ڈالتی ہے۔ انیس قدوائی کی نثر پرزور اور شگفتہ ہے۔ جگہ جگہ اشعار کی پیوند کاری سے مضمون اور نثر میں ایک جامع معنی خیزی پیدا ہوگئی ہے۔
کاغذی ہے پیرہن
یہ عصمت چغتائی کی نا مکمل خود نوشت سوانح عمری ہے۔ جو رسالہ "آج کل” میں مارچ-1979 سے مئی-1980 تک 14 قسطوں میں شائع ہوئی تھی۔ اس سوانح میں عصمت کی زندگی کے مختلف ادوار در آئے ہیں اور اتنے خوبصورت انداز میں کہ قاری ان میں کھو جائے۔ انداز بیان اور منظر کشی اعلی پائے کی گئی ہے۔ در اصل افسانہ میں ذات مجہول ہوتی ہے لیکن سوانح میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی ہے اس لیے افسانہ کے بہ نسبت عصمت کو سمجھنے کے لیے یہ کتاب زیادہ اہم ہوجاتی ہے۔ بچپن کی یاداشتوں سے کتاب شروع ہوتی ہے اور1980تک کے مختلف حالات کو سولہ عنوانا ت میں قلمبندکرتی ہیں۔ اسکے ساتھ اس کتا ب میں عورت ابد سے کیسی تھی، کیا مقام تھا اور وہ مقام کیسے کھو گیا۔ دور حاضر تک اس مقام پہ کیسے آئی اور شادی کی ابتدا کیسے ہوئی۔ ان تمام چیزوں پر تفصیلی بات کی گئی ہے۔ اس کتاب نے خواتین کی خود نوشت سوانح نگاری میں ایک سنگ میل کا درجہ حاصل کیا ہے۔ تانیثی نقطہ نظر سے بھی اس کتاب کامطالعہ کیاجاتا رہا ہے۔ یہ سوانح وارث علوی کے دیباچہ کے ساتھ 1994 پہلی بار اشاعت پذیر ہوئی۔
جو رہی سو بے خبری ہوئی
یہ خود نوشت مشہور شاعرہ ادا جعفری کی ہے۔ جو ان کی شادی سے پہلے ادا بدایونی اور شادی کے بعد ادا جعفری کے ارد گرد گھومتی ہے۔ اس سوانح عمری کے حوالے سے ادا جعفری خود لکھتی ہیں۔ "یہ خود نوشت اک عام سی لڑکی اور ایک روایتی گھریلو عورت کی چھوٹی سی کہانی ہے جس میں کوئی کہانی نہیں ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ وہ لڑکی اکیلی تھی اور بہت اکیلی۔ اپنے دل کی تنہائی میں گرفتار اور وہ عورت چار دیواری کے حصار میں رہ کر بھی اپنے وجود کی پہنائیوں میں سرگرداں رہی۔ اس نے سوچا کہ میں سائے کا پیچھا نہیں کروں گی۔ اب میرے سائے کو میرے پیچھے پیچھے چلنا ہوگا، جل کی مچھلی ریت پر جینے کا ہنر سیکھنا چاہتی تھی۔” سوانح کا آغاز شہر بدایوں کی بڑی حویلی "ٹونک والوں کے پھاٹک” سے ہوتا ہے۔ جو جاگیر دارانہ گھرانوں کی دلچسپ تصویر ہے۔ سوانح کی نثر خوبصورت اور شاعرانہ ہے۔ یہ سوانح 1995 میں منظر عام پر آئی۔
رسیدی ٹکٹ
رسیدی ٹکٹ امریتا پریتم کی بے حد مقبول خودنوشت ہے۔ جو اگرچہ پنجابی زبان میں لکھی گئی تھی مگر اس کا ترجمہ ہندی اور اردو زبان میں بھی ہوچکا ہے۔ یہ خود نوشت اپنی حق گوئی اور بیباکی کی وجہ سے ایک خاص کشش رکھتی ہے۔ سوانح میں بچپن سے سولھیں سال تک کے واقعات قدرے آہستہ اور روایتی انداز میں رونما ہوتے ہیں لیکن امرتا کے سولھین سال کے پہنچتے ہی منظر نامہ پر ایک بھوچال سا رونما ہوجاتا ہے۔ عمر کے اس سولہویں سال کو امرتا استعارہ بنا کر پیش کرتی ہیں۔ یہ حصہ مکمل سوانح پر حاوی رہتا ہے۔ امرتا نے ساحر کے سحر میں رہ کر زندگی کو ایک خواب کی طرح گزارا تھا وہ کیفیت اس خود نوشت میں بڑی شدت کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ خود نوشت میں کہیں کہیں زندگی کی روداد نظموں کی شکل میں بھی پیش کی گئی ہے۔ اس سوانح میں ذاتی زندگی کے نشیب و فراز کے علاوہ ملک کے حالات و واقعات کو نہایت ہی خوبصورتی کے ساتھ پیش کیا ہے۔
اس کے علاوہ بھی ریختہ کے پاس خواتین کے خود نوشت سوانحی کلیشن میں کچھ اچھی کتابیں آپ کے مطالعہ کی منتظر ہیں۔ جیسے صالحہ عابد حسین کی خود نوشت "سلسہ روز و شب” اور سعیدہ بانو اختر کی "ڈگر سے ہٹ کر” مجاز کی چھوٹی بہن حمیدہ سالم کی "سورش دوراں” ممتاز شیریں کی "شیریں کتھا” ساجدہ زیدی کی "نوائے زندگی” منورما دیوان کی "انقلاب زندہ آباد” عذرا عباس کی میرا بچپن” کیفی اعظمی کی اہلیہ شوکت کیفی کی "یاد کی راہگزر” وغیرہ۔ اس کے علاوہ سوانحی ناول، یاد داشتیں اور روزنامچے بھی ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔
عورت کو رب العزت نے وہ مقام عطا کیا ہے جو شاید مرد کو بھی حاصل نہیں کیونکہ عورت کہنے کو تو ایک تخلیق کار ہے کیونکہ وہ اپنے بطن سے ایک انسان کو پیدا کرتی ہے لیکن یہی عورت جب کسی سے عشق کرتی ہے تو وہ ایک تخلیق بن جاتی ہے اور مرد اس کا تخلیق کار جسے وہ جس سانچے میں بھی ڈھالے ڈھل جاتی ہے۔ عورت میں رب نے سہن شکتی زیادہ رکھی ہے اسی لیے وہ اپنے بطن سے ایک انسان کو جنم دیتی ہے اور یہ سہن شکتی عورت کی انا کو دوام بخشتی ہے، قوت دیتی ہے یہاں تک کہ مرد کے مقابلے پر لا کھڑا کر دیتی ہے۔
عورت کائنات کا ایک انمول تحفہ ہے۔ اللہ رب العزت نے عورت کو دنیا کی پسندیدہ ترین مخلوق قرار دیا ہے۔ شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کہا کہ ”عورت الوھی نغمہ ہے جس کی دھن پر کائنات رقصاں ہے“۔
وجودِ زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ملے زندگی کا سوزِ دروں
خواتین انسانی معاشرے کا ایک لازمی اور قابل احترام کردار ہیں۔ جبکہ زمانہ جاہلیت میں ظہورِ اسلام سے قبل جزیرة العرب میں عورت کے لئے کوئی قابل ذکر حقوق نہ تھے اسے پستی کے ایک ایسے غار میں دھکیل دیا تھا کہ اس کی حیثیت کو ماننا تو درکنار اسکومعاشرے میں زندہ بھی رہنے کاحق تک نہ تھا عورت کی تاریخ مظلومی اور محکومی کی تاریخ تھی اس کے ارتقا ءکی کوئی توقع نہ تھی اسے کم تر سمجھا جاتا تھا معاشرے میں عورت کا مرتبہ و مقام ناپسندیدہ تھا، وہ مظلوم اور ستائی ہوئی تھی۔ قدیم تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ اسلام کے علاوہ سارے عالم میں عورت کی کوئی مستقل حیثیت نہیں تھی دیگر مذاہب اور اقوام نے عورت کو کبھی نیچ مخلوق قرار دیا اور کبھی اسے فساد کی جڑ تصور کرتے ہوئے قابل نفرت سمجھا۔ خواہ وہ یونان ہو یا روم،عرب ہو یا عجم،یورپ ہو،ایران ہو یا ایشیاءہر جگہ عورت مظلوم ہی رہی ہے یونانیوں کا کہنا تھا آگ سے جل جانے اور سانپ کے ڈسنے کا علاج ممکن ہے،لیکن عورت کے شرکا مداوا محال ہے۔
سقراط کا کہنا تھا کہ عورت سے زیادہ اور کوئی چیز دنیا میں فتنہ وفساد برپا کرنے والی نہیں۔ وہ ایسا خوشنما درخت ہے جو دیکھنے میں خوبصورت مگر چکھنے میں تلخ وکڑوا ہے۔ یوحنا کا قول ہے کہ ”عورت شر کی بیٹی ہے اور امن سلامتی کی دشمن ہے“ جان ڈسپنس کہتا ہے کہ ”عورت کذب کی بیٹی، دوزخ کی رکھوالی اور امن کی دشمن ہے۔
اسلام نے عورت کو ذلت اور غلامی کی زندگی سے آزاد کرایا اسے حقیقی آزادی ،خود مختاری سے جینے کا حق اور ظلم و استحصال سے نجات دلائی اور معاشرے میں بلند مقام عطا کیا۔ اسلام نے ان تمام قبیح رسوم کا قلع قمع کر دیا جو عورت کے انسانی وقار کے منافی تھیں اور اسے بے شمار حقوق عطا کئے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:
اللہ تعالیٰ نے تخلیق کے درجے میں عورت اور مرد کو برابر رکھا ہے۔ انسان ہونے کے ناطے عورت کا وہی رتبہ ہے جو مرد کو حاصل ہے،ارشاد ربانی ہے:ترجمہ:”اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو، جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتدائ) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا۔“
وہ معاشرہ جہاں بیٹی کی پیدائش کو ذلت اور رسوائی کا سبب قرار دیا جاتا تھا۔ اسلام نے بیٹی کو نہ صرف احترام و عزت کا مقام عطا کیا بلکہ اسے وراثت کا حقدار بھی ٹھہرایا۔ ارشاد ربانی ہے:”اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ لڑکے کے لئے دو لڑکیوں کے برابر حصہ ہے، پھر اگر صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زائد تو ان کے لئے اس ترکہ کا دو تہائی حصہ ہے، اور اگر وہ اکیلی ہو تو اس کے لئے آدھا ہے۔“
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خواتین کے لئے بھی اچھی تعلیم و تربیت کو اتنا ہی اہم اور ضروری قرار دیا ہے جتنا کہ مردوں کے لیے۔ یہ کسی طرح مناسب نہیں کہ عورت کو کم تر درجہ کی مخلوق سمجھتے ہوئے اس کی تعلیم و تربیت کو نظر انداز کر دی جائے۔
اس معاشرہ کی گری ہو ئی مخلوق کوتقدس اور احترام کے بلند مقام پر پہنچانے کے لیے،معاشرے میں اس کو حقیقی عزت اور آزادی دینے کے لیے اسلام نے اصول مقرر فرمائے۔ اللہ کے محبوب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی قوانین کی اپنے عمل سے وضاحت کی۔ لیکن آج مغربی تہذیب و تمدن کا راگ الاپنے والوں نے اس سے اس کی حقیقی آزادی بلکہ آزادی کی روح سلب کر لی ہے۔ اسلام ہی نے سب میں عظمت ومحبت کی شان پیدا کی۔ یعنی ان کو ماں، بہن، بیوی، بیٹی کا معزز مقام دے کر نہ صرف اس کا تقدس بحال کیا بلکہ معاشرے کی سب سے معزز ترین مخلوق قرار دیا۔
اسلام نے عورت کو مختلف نظریات و تصورات کے محدود دائرے سے نکال کر بحیثیت انسان کے عورت کو مرد کے یکساں درجہ دیا، اسلام کے علاوہ باقی تمام تہذیبوں نے خصوصاً مغرب جو آج عورت کی آزادی، عظمت اور معاشرے میں اس کو مقام و منصب دلوانے کا سہرا اپنے سر باندھنا چاہتاہے۔ لیکن اس معاشرے نے ہمیشہ عورت کے حقوق کو سبوتاژ کیا، اور عورت کو اپنی محکومہ اور مملوکہ بنا کر رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی مختلف تہذیبوں اور اقوام نے عورت کے لئے سینکڑوں قانون بنائے مگر یہ قدر ت کا کرشمہ ہے کہ عورت نے اسلام کے سوا اپنے حقوق کی کہیں داد نہ پائی۔
عورت ایک عظیم ہستی ہے جو ہر رشتہ خلوص دل سے نبھاتی ہے وہ ایک ایسا پھول ہے جو ہر سو خوشبو بکھیرتا ہے عورت اپنا اندر بدل دیتی ہے۔ باہر بدل دیتی ہے۔ دل بدل دیتی ہے۔وجود بدل دیتی ہے۔ وہ خود سے جڑے ہوئے ہر رشتے کا خیال کرتی ہے اسے ایمانداری سے نبھاتی ہے صدیوں پہلے کی عورت اگر بے بس تھی تو آج صدیوں بعد بھی عورت محکوم اور مرد حاکم ہے۔ عورت سچے جذبوں کی اسیر ہے اس کا خمیر رب العزت نے ایسی مٹی سے گوندھا ہے جس میں صرف وفا ملتی ہے مرد اگر عورت کو پیار سے سینچے تو وہ ایک مسئلہ نہیں، محبت بن جاتی ہے۔
کیونکہ عورت کو مان،بھروسہ،عزت،یقین،پیار، فخر،مرتبہ اس کے سوا کچھ نہیں چاہیے ہوتا ہے۔عورت بنی نوع کا لازمی حصہ ہے۔ نسل انسانی کی صالح بنیادوں پرنشو ونما کا انحصار اسی کے طرز عمل پر ہے۔
دنیا کے سارے دانشور اور شاعر کہتے رہے کہ”عورت ایک مسئلہ ہے“ لیکن اس حقیقت کا ادراک صرف ان مردوں کو ہی ہے کہ جو عورت کے مقام کو پہچانتے ہیں اورسمجھتے ہیں کہ ”عورت مسئلہ نہیں ،بلکہ عورت محبت ہے“۔عورت مرد کی محبت کے سوا کچھ نہیں چاہتی،یہ بھی عورت کی حیا و وداری کی ایک مثال ہے کہ وہ ایک ہی دہلیز پر ساری عمر گزار دیتی ہے پر جب مرد اس کی وفا کی قدر نہیں کرتا توعورت مایوس ہوجاتی ہے اور اس مایوسی میں محبت بھی بھول جاتی ہے اورخود کو انا کی سولی پر چڑھا دیتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ خالی کشکول لیے مرد سے بار بار محبت بھیک میں بھی مانگنے کو تیار ہوجاتی ہے لیکن اپنے ٹھکرائے جانے پر، اپنی بے قدری پروہ اپنی ہی محبت قربان کر دیتی ہے۔اور اپنے ہی ہاتھوں سے کشکول توڑ دیتی ہے،کیونکہ عورت میں ٹھہرا ہوا تلاطم بھی ہے،موجوں کی روانی بھی ہے،دریا کی طغیانی بھی ہے،عورت میں حیا بھی ہے وفا بھی ہے،کبھی وہ زانی اور کبھی مریم بھی ہے۔
عورت مسئلہ،محبت،جسم،جذبہ،جال،آزادی،مقابلہ،عاجزی،پل،زندگی،افسانہ،حقیقت،معشوق،عاشق،استاد،نرم ونازک،جسم سے ماورا،چمن،تتلی،پیاسی،پیار،پیاس،ساحل سمندر،نمکین،حسین تلاطم،غم،رنج،الم سب عورت ہی تو ہے ۔بیٹی ہے تو رحمت ِ پروردگار، بیوی ہے تو الفت ایثار کی دیوی ہے وہ ،ماں کی صورت پیکر عزم ومحبت اور پیروں تلے اس کے جنت ہے،اس کا جو بھی روپ ہو، عورت یقیناً خوب ہے۔
گیارہ اور بارہ جنوری 2021ء کو ربندر ناتھ ٹیگور سکنڈری اسکول میں آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر یا اے۔ ایس۔ ڈی پر دو روزہ ورک شاپ کا اہتمام کیا گیا۔ نو بجے بارہ اساتذہ آڈیو ویزول روم میں موجود تھے اور موریشس انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن کی جانب سے جناب شمس جھگروموجود تھے۔ آپ شعبہ مخصوص تعلیمی ضروریات سے وابستہ ہیں۔
آٹزم پر کافی فلمیں موجود ہیں جیسے کہ ’مائی نیم از خان‘، رین مین‘ اور’فاریسٹ گمپ‘۔ سب سے پہلے ورکشاپ میں شرکت کرنے والے اساتذہ سے کہا گیا کہ جو دائیں ہاتھ سے لکھتے ہیں وہ الٹے ہاتھ سے لکھیں اور جو بایاں ہاتھ استعمال کرتے ہیں وہ دائیں ہاتھ سے ایک منٹ کے اندر اندر اپنا نام، پتہ، فون نمبر اور ای میل لکھیں۔ کوئی بھی ایک منٹ کے اندر یہ کام انجام نہیں دے پایا۔ اس مشق کے بعد اساتذہ سے پوچھا گیا کہ انہیں کیسا محسوس ہوا۔ سب نے اعتراف کیاکہ یہ تجربہ عجیب و غریب تھا اور دباؤ محسوس ہوا۔ حروفِ تہجی کو صحیح طور سے لکھنے کی کوشش میں یا الفاظ کو لائن میں لکھنے کی کوشش میں ہی سارا وقت نکل گیا۔ اسی طرح جن بچوں میں آٹزم کی علامات پائی جاتی ہیں ان کاسارا وقت معلومات کے استعمال کرنے میں صرف ہو جاتا ہے۔ اساتذہ کی ہدایات کو سنتے سنتے وہ الجھ جاتے ہیں یا پھر وہ صرف تحریر میں مصروف رہتے ہیں۔ اس لئے ان کی رفتار باقی طلبہ و طالبات سے کم ہوتی ہے۔
عام آدمی ایک ساتھ کئی کام کرسکتا ہے۔ آٹزم میں مبتلا بچہ ایک وقت میں صرف ایک ہی کام انجام دے سکتا ہے. ۹٠ فی صد بچے دوسروں سے آنکھ نہیں ملاپاتے۔ آنکھوں سے بیک وقت کئی پیغامات بھیجے جاتے ہیں۔ اسی لئے آٹزم کے مرض کا شکار بچہ اس سے تذبذب میں پڑجاتا ہے۔
اساتذہ کو ایسے طالب علم کے بارے میں زیادہ سے زیادہ معلومات حاصل کرنی چاہئے تاکہ اس کے شوق، پسند ناپسنداورضروریات کا خیال رکھا جاسکے۔ ایک طالب علم تصاویر کی مدد سے، بات چیت کے ذریعے، تحریروں سے، رابطہ قائم کرنے سے اور مشاہدہ کرنے سے اور سوالات پوچھنے سے سیکھتا ہے۔ وہ اپنے افکارکی روشنی میں معلومات کو سمجھ کر مسائل حل کرتے ہیں۔
آپس میں گھل مل کر بات چیت کرتے ہیں۔ وہ اپنے اوصافِ خمسہ کی مدد سے دنیا کا تجربہ کرتے ہیں۔ آٹزم کے مرض کے شکار بچے شور و غل میں خود میں سمٹ کے رہ جاتے ہیں اور ان کی کارکردگی پر اثر پڑتا ہے۔ آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر یا اے۔ ایس۔ ڈی ایک پیدائشی نفسیاتی خرابی ہے۔ ڈیڑھ سال کی عمر سے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں۔ تین سال کی عمر تک پوری طرح معلوم ہوسکتا ہے کہ بچہ کو اے۔ ایس۔ ڈی ہے۔ اس سے ان کے سیکھنے کی آمادگی پر اثر ہوتا ہے۔ ان کے چیزوں کو دیکھنے کا نظریہ بدلتا ہے، وہ اچھی طرح بات چیت نہیں کرپاتے، معاشری میل جول نہیں بڑھاپاتے اور ان کا رویہ بھی اثر پذیر ہوتا ہے۔ اسکول میں ان کی کارکردگی بھی کم ہوجاتی ہے۔
ورکشاپ میں ایک دستاویزی فلم دکھائی گئی جہاں لندن میں آٹزم کا شکار طالب علم عام اسکول میں تعلیم حاصل کررہا ہے۔ سلام کرنے کے لئے اسے مرکزی دروازے کے سامنے کھڑا کیا گیا تاکہ اسے دوسروں سے گھلنے ملنے میں آسانی ہو۔ اس کے لئے ایک رہبر بھی موجودہے جو کلاس کے دوران پریشان طالب علم کو مثبت الفاظ کے ذریعہ اس کا حوصلہ بڑھاتا ہے۔
آٹزم کے شکاربچوں کا اعتماد پانا ضروری ہے۔ احساسِ تحفظ کے لئے ایسے بچے عجیب و غریب حرکتیں کرنے لگتے ہیں جیسے دونوں ہاتھوں کو بغل میں ہلانا۔ ہر بچے کی پریشانی مختلف ہے۔ ہر بچے کاخاندانی نظام یا گھر کے حالات، شعوری صلاحیت، ذوق وشوق، ایقان، عمر اور شخصیت الگ ہے۔ جن لوگوں میں آٹزم کی علامات موجود ہیں،ان میں سے کچھ لوگوں کو پوری طرح سہارے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور کسی کو روزمرہ کے کام کرنے کے لئے یا زندگی گزارنے کے لئے بالکل سہارے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔
اس مرض کے شکارچند افراد کم الفاظ استعمال کرنا جانتے ہیں اور اپنی زبان سے اپنی ضروریات بیان نہیں کرپاتے۔ بعض افراد اپنی دلچسپی دکھانے کے لئے نہایت پیچیدہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ وہ صرف اپنی دلچسپی بیان کرتے ہیں۔ ایک طالب علم دوسروں سے دوستی کرنا چاہتا ہے۔ دوسرا اکیلے رہنا پسند کرتا ہے اور اپنی جگہ پر کسی اور کی موجودگی پسند نہیں کرتا۔ کچھ بچوں میں معلوم نہیں پڑتا کہ وہ کیا سوچ رہے ہیں۔ کسی کو شور سے چڑ ہوسکتی ہے تو کسی کو گانے کا شوق ہے۔ کسی کے لئے دن میں کلاس روم، استاد یا مضامین بدلنا آسان ہوسکتا ہے۔ رنگ ان پر خاص اثر کرتا ہے۔
آٹزم کے شکار بچوں کے لئے منصوبہ بنانا ضروری ہے جس میں پورے دن کے بارے میں خصوصی معلومات درج ہوں۔ایسے بچے کم چیزوں میں دلچسپی لیتے ہیں۔ ان کا رویہ اکثر غیر متوقع ہوتا ہے۔ وہ اچانک زار و قطار روسکتے ہیں۔ وہ زیادہ بات نہیں کرپاتے، یا ماحول سے بے زار نظر آتے ہیں۔ وہ چیزوں کو قطار میں رکھنا پسند کرتے ہیں۔ وہ ہلتے رہتے ہیں، خود کو زخمی کرسکتے ہیں اور تبدل سے خوف ذدہ ہوتے ہیں۔ آٹزم کے مرض میں مبتلا بچہ ہر چیز کو سطحی طور پر لیتا ہے۔ وہ زیادہ حساس بھی ہوتاہے۔ وہ اپنے کھلونوں کو ترتیب میں رکھنا پسند کرتا ہے۔ آٹزم کا شکار بچہ دوست نہیں بنا پاتا۔ آٹزم کی کیفیات والے بچے کا ذہن آسانی سے ایک خیال سے دوسرے خیال تک پہنچ نہیں پاتا۔ ایک بات کو سمجھنے میں انہیں زیادہ وقت لگتا ہے۔
آٹزم کے مرض میں مبتلا طلبہ کے لئے ثانوی اسکول کا ماحول چیلنج دیتا ہے۔ آٹزم تین لیول یا سپیکٹرم پرہوتا ہے۔ پہلے لیول میں سہارے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ بذاتِ خودنظم وضبط نہیں کرپاتے اور دوسروں سے بمشکل بات کرپاتے ہیں۔ وہ دوست بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ناکام رہتے ہیں۔ دوسرے لیول کے بچے کو زیادہ رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ ان کے لئے زیادہ دشواریاں ہوتی ہیں۔ وہ ایک کام سے دوسرے کام کی طرف زیادہ بڑھتے ہیں۔ تیسرے لیول کے طالب علم کو سخت مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔ انہیں اورزیادہ سہارے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ وہ کم بات کرتے ہیں اور اپنے اعمال کو دہراتے رہتے ہیں۔ کچھ صرف بنیادی ضروریات محسوس کرتے ہیں۔
آٹزم کے شکار بچوں کے لئے الفاظ بہت تیز جاتے ہیں۔ اسکول ان کے لئے ایک چیلنج ہے کیونکہ ہر طرف سے آوازیں ایک ساتھ آتی ہوئی معلوم ہوتی ہیں۔ یہ ماحول ان کو شش و پنج میں ڈال دیتا ہے۔ ایک کام سے دوسرے کام کی طرف توجہ کرنا ان کے لئے نہایت پیچیدہ مرحلہ ہے۔ ہر مضمون کے لئے استاد بدلنا اور دوست بھی بدلنا ان کی قوتِ حافظہ کو تکلیف دیتی ہے۔ کارکردگی کے مطالبات سے انہیں شدید کشمکش ہوتی ہے۔ ہر وقت ہدایات کی تعمیل اور مطالبات پوری کرنے سے انہیں سخت بے چینی سے گزرنی پڑتی ہے۔ اس لئے وہ اپنی دنیا میں کھوئے ہوئے نظر آتے ہیں۔
اسکول میں انہیں اساتذہ سے رشتہ استوارکرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ وہ دوست نہیں بنا پاتے اورخود میں سمٹ کے رہ جاتے ہیں۔ وہ معاشری آئین و آداب سمجھ نہیں پاتے۔ ان کے رویہ کا اکثر غلط مطلب نکالا جاتا ہے۔ وہ اکثر دوسروں کی چھیڑ چھاڑ کے شکار ہوتے ہیں۔ ایسے بچے انجانی چیزوں سے خوف کھاتے ہیں۔ نئے ماحول سے انہیں ڈر لگتا ہے اور وہ جانی پہچانی دنیا میں رہنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ نئے ماحول کے اصول کو جاننے میں انہیں بہت وقت لگ جاتا ہے۔ ان کے لئے یہ طے کرنا کہ کون سے ماحول میں کس طرح کا ردِ عمل دکھانا ہے، بہت مشکل ہے۔ ان کوتیز روشنی سے بھی تکلیف ہوتی ہے۔
آٹزم کے شکار بچوں کو اسکول کی عمارت کا نقشہ دیا جائے۔ ہر مضمون کو الگ رنگ دیا جائے، اسکول کی جماعتوں اور اہم مقامات اور نظام اوقات کو رنگین بنایا جائے۔ روزمرہ کی استعمال شدہ اشیاء کی فہرست بنالی جائے۔ ان کو ایک ڈائری دی جائے جو استعمال کرنے میں آسان ہو۔ احباب کا حلقہ مضبوط ہو۔ اساتذہ میں کوئی بطور رہنما منتخب کیا جائے۔ اسکول میں ایک ایسی پرسکون جگہ طے کی جائے تاکہ بے چینی یا گھبراہٹ کے وقت وہ بچہ وہاں جاکر اطمینان کی سانس لے سکے۔ والدین کا ساتھ بھی اہم ہے۔
آٹزم کے بچوں کی طاقت اور کمزوریوں کا جائزہ لیا جائے۔ کیا وہ جانوروں سے محبت کرتے ہیں؟ کیا وہ زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں یا پھر ریاضی یا کھیل کود پسند کرتے ہیں۔ ان کی پسند اور ناپسند کے مطابق نصاب بنایا جائے۔ تصاویر اور رنگ کی مدددرس و تدریس کو پرکشش بنایا جائے۔
آٹزم کے شکار طلبہ و طالبات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ وہ جیسے ہیں انہیں ویسے ہی اپنایا جائے۔ ان کو بدلنے کی کوشش نہ کی جائے۔ ان سے انسانیت کا سلوک کیا جائے اور مثبت رویہ اختیار کیا جائے۔ اساتذہ کی مدد سے وہ تمام کام میں شامل ہوسکتے ہیں۔ اس ضمن میں بات چیت اہم ہے۔ تعلیم کی دنیا میں یہ مسلسل کوشش کی جارہی ہے کہ تمام طلبہ و طالبات کو برابری کا حق ملے۔ سیاستی عہدے پر بھی زور و شور سے اس پر بحثیں چل رہی ہیں۔ یہ موضوع بین الاقوامی میدان میں بھی مرکزی اہمیت کا حامل ہے تاکہ سب کو یکساں مواقع ملے۔ بہت سے ممالک میں ماضی میں تعلیم کے میدان میں فرقہ بندی زیادہ عام تھی۔ جو بچے زیادہ ذہین تھے ان کو باقی بچوں سے الگ کردیا جاتا تھا۔ اب سب کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جارہا ہے۔ ہر بچہ منفرد ہوتا ہے اور اس کے مسائل بھی جداگانہ ہوتے ہیں۔ اس کی زندگی کا تجربہ بھی الگ ہوتا ہے۔ ایک اچھااستاد یہ مانتا ہے کہ ہر بچے کے اندر علم حاصل کرنے کی صلاحیت ہے۔
یونیسکو کے مطابق تعلیم کو بچوں کی مختلف ضرورتوں کو پورا کرنا چاہئے تاکہ ان کے جسمانی، شعوری، معاشری اور جذباتی ضروریات کوبہترین طریقے سے نشونما پانے میں مدد مل سکے۔ اسکول کے ماحول میں کسی طرح کی تفریق شامل نہیں ہوسکتی۔ اس ضمن میں کئی بین الاقوامی قوانین رائج عام ہوئے ہیں جوخصوصی ضروریات کا معیار اور حدود طے کرتے ہیں۔
اساتذہ کے رویہ، تربیت کی اہمیت، درس و تدریس کے آلہ اورنظامِ تعلیم پر دوبارہ نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ اسباق کے اغراض و مقاصد، وقت کی فراہمی، طلبہ و طالبات کو سمجھنا اور انہیں سیکھنے کے مواقع دینا، کلاس روم میں بچوں کی تعدادااور والدین سے بات چیت، کامیاب نظام تعلیم کے عناصر ہیں۔ آٹزم میں مبتلا بچوں کو سہارے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ایک ایسی جگہ فراہم کی جائے جہاں وہ حفاظت محسوس کرسکیں تاکہ انہیں مناسب سہارا دیا جاسکے۔ بہ صورتِ دیگر بچہ خود میں سمٹ کے رہ جائے گا اور دوسروں سے میل جول نہیں بڑھا پائے گا اور مایوسی اور شدید تشویش محسوس کرے گا۔ مثبت نظریہ اور خیالات کے ذریعے وہ اپنے اسکول کو اپنا سکے گا۔ پہلے دن کا سیشن ایک بجے ختم ہوا۔
دوسرے دن، 21 جنوری 2021ء کو رامسہا صاحبہ نے ورکشاپ کی ذمہ داری سنبھالی۔ اس دن طرز ادائیگی اور ٹیکنیک پر زیادہ زور دیا گیا۔ پکچر ایکسچینج کمیونیکیشن سسٹم وہ بین الاقوامی آلہ ہے جو مختلف تصاویر، اشیاء یا حرکات و سکنات کو عمل میں لاتے ہوئے درس و تدریس میں مدد کرتاہے۔ آٹزم کے شکار بچے مخصوص الفاظ یاد رکھتے ہیں۔ وہ آنکھوں دیکھی چیزوں پر بھروسہ کرتے ہیں۔ اس لئے ان کا نظام اوقات ان کے سامنے رکھنا بھی ضروری ہے۔ نیزان کا نصاب زیادہ ہلکا ہونا چاہئے۔ کلاس کے لئے سبق تیار کرتے وقت استاکو د ان کے لئے ایک الگ مصوبہ بنانے کی ضرورت ہے۔ آٹزم میں مبتلا بچوں کے ساتھ ایک رہبر کا ہونا معاون و مددگار ثابت ہوتا ہے۔ استاد اور رہبر کے درمیان رابطہ ہونا اہم ہے۔
آٹزم کے شکار بچے زیادہ تر اکیلے میں کام کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کے لئے کچھ دوست منتخب کیا جاسکتا ہے جو انہیں مدد دے سکے۔ استاد کو ان کے ساتھ قربت بنانا چاہئے۔ کلاس کا ماحول پرسکون ہونا چاہئے۔ بہتر رہے گا کہ بچہ بیٹھتے وقت دیوار کے سامنے رہیں تاکہ طالب علم کو خلوت میں وقت ملتا رہے۔ کچھ بچے صوتیات کی مدد سے سیکھتے ہیں۔ کچھ بچے ایسے مشاغل کے ذریعے سیکھتے ہیں جہاں انہیں حرکات و سکنات استعمال کرنا پڑے۔
آٹزم کے شکار بچے بامحاورہ زبان نہیں سمجھتے۔ اس لئے دوران گفتگو صاف اور آسان زبان استعمال کی جائے۔ سب سے پہلے طالب علم کو جاننا ضروری ہے کہ وہ کس چیز میں دلچسپی رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر اسے کچھوے میں دلچسپی ہے تو تمام اسباق میں کچھوے کو شامل کیا جائے یا کچھوے کا حوالہ دیا جائے تاکہ تجسس برقرار رہے۔
ان کو ایسی معلومات دی جائے جو عملی زندگی میں ان کے کام آسکے۔ اسکول کا منیجر، والدین اور طالب علم مل کرطے کریں کہ کون سے اسباق پڑھائے جائیں۔ آہستہ آہستہ بچے کو خودمختار بنانے کے لئے سہارے کو کم کیا جائے۔ بچے گروپ میں بھی سیکھ سکتے ہیں۔ اس گروپ میں یا تو اسی کے معیار کے مطابق طلبہ و طالبات ہوں یا مختلف معیار یا ذہنی لیاقت کے طلبہ و طالبات ہوں تاکہ وہ ایک دوسرے کی رہنمائی کر سکیں۔سب سے زیادہ ضروری ہے کہ جیسے ہی بچہ اس ادارے میں داخل ہو ایک دو ہفتے کے لئے اسے روز اسکول کے ماحول سے روشناس کیا جائے اور پہلے سے اس کی تعلیم کے طے شدہ اغراض و مقاصدکوعمل میں لایا جائے۔
مکان اور خاندان کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ مکان کی مضبوطی کا دارومدار اس کے در و دیوار کی آرائش و زیبائش پر نہیں ، بلکہ پائیدار بنیاد پر ہوتا ہے ۔ کسی مکان کی بنیاد ہی کم زور ہو تو شاخِ نازک پر بننے والا آشیانہ ناپائیدار ہوجاتا ہے ۔ اس کا اندازہ آندھی طوفان میں ہوتا ہے اور دنیائے دنی میں اس سے مفر نہیں ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر نظامِ خاندان کی پائیدار بنیاد کیا ہے؟ ارشادِ ربانی ہے : ’’وہ الله ہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ، پھر اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا ، تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے‘‘۔ اطمینان و سکون انسان کی ایک ایسی بنیادی ضرورت ہے کہ اس کے مفقود ہوجانے پر دنیا کی ساری نعمتیں بے معنیٰ ہوجاتی ہیں _ وہ خودکشی تک کرلیتا ہے ۔ اسی سکون کی خاطر انسان اپنا جوڑا تلاش کرتا ہے اور گھر بساتا ہے _ گویا ایک نیا خاندان وجود میں آجاتا ہے ۔ اس بنیادی عنصر سے محروم ہوجانےوالا خاندان ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے ۔
انسانی وجود کا ہر گوشہ سکون کا طلب گار ہے ۔ ایک خوش گوار ازدواجی رشتے کے اندر فرد کو قلبی ، طبعی ، ذہنی ، جسمانی ، دماغی ، جنسی وصنفی ہر قسم کا سکون حاصل ہوجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان دعا کرتے ہیں : ’’ اے ہمارے رب ہمیں اپنے ازواج اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما‘‘۔ اس آیت کی بہترین تفسیر نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث پاک ہے :” آپس میں محبت رکھنے والوں کے لیے نکاح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی گئی-‘‘ مذکورہ دعا کے اندر فطری ترتیب کے لحاظ سے زوج کا ذکر اولاد سے پہلے ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ اسلام کا خاندانی نظام انسان کے شہوانی جذبات کو بے لگام ہونے سے بچاتا ہے اور بے شمار برائیوں کا سدِّ باب کرکے مرد و زن کی اخلاقی پاکیزگی کا تحفظ کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ نسل انسانی کی بقا و افزائش کا ضامن بھی بنتا ہے ، لیکن اس کا مرکز و محور سکون واطمینان ہی ہے ۔ محبت کی بنیاد کم زور ہوجائے تو خاندان کی عمارت ازخود زمین بوس ہونےلگی ہے ۔ ارشادِ قرآنی ہے : ’’ اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے ، تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی ، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں‘‘۔
اس آیتِ مبارکہ میں سکونِ قلب کے ساتھ محبت و رحمت کا ذکر ہے ۔ ابن عباس کے نزدیک محبت ومودت کا اشارہ جنسی خواہش کی تسکین اور رحمت سے مراد اولاد ہے ۔ اس کا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ عالمِ ِشباب میں محبت کا جوش بڑھاپے کے اندر رحمت و ترحّم میں بدل جاتاہے ۔
مغربی تہذیب نے نکاح کی پاکیزہ روایت سے بغاوت کرکے بے مہار شہوت رانی کا اہتمام تو کرلیا اور اسے قانونی جواز بھی عطا کردیا ، لیکن عدمِ اعتماد کے سبب اس متبادل نظام میں پائی جانے والی بے یقینی کی کیفیت قلبی چین و سکون کو غارت کردیتی ہے ۔ فطرت سے یہ انحراف انسان کو اپنے مقام بلند سے گرا کر ایسے وحشی جانورمیں تبدیل کردیتا ہے جو اپنی جنسی بھوک تو مٹاتا ہے ، لیکن خاندان کا لطف نہیں اٹھا پاتا ، کیوں کہ اس کا وجود ہی نہیں ہوتا ۔
قرآن حکیم میں بیوی اور شوہر کو ایک دوسرے کے پوشاک سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ لباس کا پہلا مقصد پردہ پوشی ہے اور میاں بیوی ایک دوسرے کے پردہ پوش ہو تے ہیں ۔ باطن کے لباسِ حیا کی حصول یابی میں شوہر و بیوی باہم معاون ہوتے ہیں ۔ لباس نہ صرف جسمانی تحفظ فراہم کرتا ہے ، بلکہ اخلاقی سطح پر شہوانیت ، حیوانیت اور شیطانیت کے حملوں سے محفوظ و مامون رکھتا ہے ۔ پوشاک کا ایک مقصدزیب و زینت بھی ہے ۔ ایک اچھا خاندان ہم دردی و غم خواری کے حسن و جمال سے آراستہ ہوتا ہے ۔ اہل مغرب اور اس کے پیروکار خاندانی نظام کو توڑ کر ان برکات سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ نبی ٔ کریم ؐ نے فرمایا : ” جب بندہ شادی کر لیتا ہے تو وہ اپنا نصف دین مکمل کر لیتا ہے ، پھر اسے باقی نصف کے بارے میں الله سے ڈرنا چاہیے ۔ ” آپؐ نے یہ بشارت بھی دی : ’’جسے الله جبڑوں کے درمیان کی چیز زبان اور پیروں کے درمیان کی چیز شرم گاہ کے شر سے بچا لے وہ جنت میں جائے گا – ‘‘
ایک مسلمان خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا ناخواندہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی مبارک کتاب قرآن مجید کے حوالے سے اس کی سب سے بڑی تمنا اور آرزو یہ ہوتی ہے کہ اس کی اولاد اس کتاب سے جڑ جائے اور اسے یاد کرنے اور سمجھنے والی ہو اور وہ اسے اپنے لئے بہت بڑا اعزاز تصور کرتا ہے۔
وہ جس قسم کی بھی پر مشقت زندگی گزار رہا ہو ،اس سے کئی گنابہتر اور شاندار زندگی کا تصور اپنی اولاد کے لئے سجاتا ہے ۔اسے اپنی ہر محرومی پر صبر آجاتا ہے ،کیونکہ اسے اپنی بے مائیگی ،بے سرو سامانی کی حقیقت سے زیادہ کتاب اللہ کے معجزات پر یقین ہوتا ہے ۔
یہ یقین اس کے اوپر اوپر نہیں بہہ رہا ہوتا ہے بلکہ اس کی ذات میں اپنی جڑوں سمیت پیوست ہوتا ہے یہ قول ’’علم ولدک القرآن سیعلمہ القرآن کل شیٔ‘‘( اپنی اولاد کو قرآن سیکھادو ،قرآن اسے بقیہ علوم سکھا دے گا ) اس کے لئے راہ کاسنگ میل ثابت ہوگا ۔وہ جانتا ہے کہ یہ واحد علم ان کے بچوں پر علوم و فنون کے اور بھی بہت سے دروازے کھول دے گا ۔
اور دنیا و آخرت کی زندگی میں فلاح کی راہ کو تلاش کرنے والے کے پاس یہی وہ علم ہے جو اسے فائزالمرامی تک پہنچائے گا۔
قرآن کریم دنیا کی Best Sellerکتابوں میں سے ہے،دنیا کے ہر خطہ میں جہاں کہیں بھی مسلمان اپنی اقلیت و اکثریت کے ساتھ موجود ہیں ،یہ کتاب وہاں نہ صرف پڑھی پڑھائی جاتی ہے بلکہ یاد بھی کی جاتی ہے ۔دنیا بھر میں 13ملین مسلمان یعنی ایک کروڑ تیس لاکھ لوگ کم و بیش حافظ قرآن ہیں ،اور اس مقدس کتاب کو اپنے سینوں میں اٹھائے ہوئے ہیں ۔اللہ کا یہ کلام نبی کریم ﷺ کوعطا کئے گئے معجزات میں سب سے بڑا معجزہ ہے ۔اس کتاب کروڑوں سینوں میں محفوظ ہونا ہی اللہ کی قدرت کاملہ کا ایک عظیم الشان مظہر ہے ،اور کتاب الٰہی کے منزل من اللہ ہونے کی سب سے بڑی دلیل ہے ۔
اتنے فیوض و برکات کے باوجود ساتھ ہی ایک کڑوی حقیقت یہ ہے کہ اس عظیم الشان کتاب کو کما حقہ اٹھایا نہیں گیا ۔اہل قرآن نے کماحقہ اس کتاب کا حق ادا نہیں کیا۔جس کی وجہ سے آج قرآن کریم سیکھنے سکھانے جیسا بابرکت عمل اپنی اصل خوبصورتی اور برکات سے محروم ہوگیا ہے ۔اسی ضمن میں ایک اہم مسئلے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ آخر بچے قرآن سیکھنے میں تردد کیوں کرتے ہیں ،اور اسے سیکھنے یا یاد کرنے کے بعد اس کے اثرات اس کی زندگی پر دکھائی کیوں نہیں پڑتے ؟والدین ،سرپرست یا اساتذہ کی طرف سے بار بار ایسی شکایتیں اور مسائل سامنے آتے رہتے ہیں۔ ان شاء اللہ ہم آئندہ سطور میں ان اسباب و عوامل پر غور کریں گے ۔
(۱) والدین کی اپنی منصوبہ بندی : والدین اگر اپنے بچے کو قرآنی تعلیمات سے آراستہ کرنا چاہتے ہوں تو اس بات کی تیاری زوجین کو اسی وقت سے شروع کردینی چاہئے جب وہ ایک دوسرے کا انتخاب کر رہے ہوں ۔
جی ہاں !! کیونکہ اگر شریک سفر نیک ہوگا ؍ ہوگی تو یقینی طور پر وہ خود بحیثیت مومن اللہ اور اس کی کتاب مقدس سے جڑا ہوا ہوگا ؍ جڑی ہوئی ہوگی ۔اس کی زندگی کا نصب العین ہی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی رضامندی کا حصول ہوگا ۔اور نیک والدین یقیناًاپنی اولاد کا تعلق بھی اللہ اور اس کی کتاب حکیم سے ضرور جوڑیں گے ۔
پھر اولاد آجانے کے بعد اس کی پرورش کے آغاز ہی میں والدین اپنے عزم و ارادہ کو اس بات پر پختہ کرلیں کہ انہیں ہر صورت اپنی اولاد کو قرآن مجید کے لئے وقف کرنا ہے ،جس کی تکمیل کی خاطر وہ اپنا وقت مال اور توجہ سب کچھ وقف کرنے کو پوری طرح سے تیار ہیں قرآن مجید کا حفظ کرنا یا اس کی تفسیر کا سیکھنا ،یہ ایک لمبا اور صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے ،جس کے لئے عزم محکم ،مضبوط قوت ارادی ،صبر و برداشت ،حکمت و تحمل اور جہد مسلسل کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔لہٰذا یہ امر سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ خواہشمند والدین اپنے ارادہ میں استقلال رکھنے والے ہوں اور عجلت پسند اور جذباتی نہ ہوں ۔
والدین کی منصوبہ سازی میں کرنے کا دوسرا کام یہ ہے کہ ان کے سامنے ان کا مقصد صاف ہو یوں نہ ہو کہ بچے کے بڑے ہونے تک والدین اس کی کیریئر منصوبہ بندی کو ہر دو مہینے پر بناتے رہیں ۔والدین کے پاس ان کا اپنا ایک مضبوط و مطلوب اور مثالی ویژن ہو کہ وہ کیوں اپنے بچے کو قرآن سے جوڑنا چاہتے ہیں ؟اسے حافظ قرآن یا عالم دین کیوں بنانا چاہتے ہیں ؟اور جب یہ جواب آئے تو یہ جواب روایتی نہ ہو مثلاً والدین کہیں کہ !!!ہم مسلمان ہیں اور ہر مسلمان کو قرآن پڑھنا چاہئے،اس لئے ہم بھی قرآن پڑھانا چاہتے ہیں ۔
یہ یاد رکھنے والی بات ہے کہ کسی کو دیکھ کر اپنے بچے کو عالم یا حافظ بنانا خاندانی روایت کی وجہ سے یا پھر اولاد کی چاہت میں نذر ومنت کے طور پر بچے کو اللہ کی راہ قرآن سیکھنے کے لئے وقف کرنا،اپنے تعارف کو مزید وسعت دینے کی خاطر بچے کا استعمال کرنا تاکہ لوگ آپ کو حافظ قرآن کے والدین سمجھیں، یا پھرایسی کسی شرمناک وجہ کے ساتھ بچہ کو قرآن سے جوڑنا مثلاً ’’یہ کانوینٹ یا انگلش میڈیم میں نہیں چلا ،اس لئے حافظ جی کے پاس بٹھانا چاہتے ہیں ‘‘۔
ایسی ساری نیتوں کا شمار مخلصانہ عزم و ارادہ میں نہیں ہوتا ،لہٰذا اس کے اثرات بھی دیرپا اور نتائج بخش ثابت نہیں ہوسکتے ۔والدین خود کو جانچیں گر اوپر دی گئی وجوہات میں سے آپ کے پاس ایک بھی وجہ ہے تو یہ آپ کے مقاصد کی بنیادی اور سب سے بڑی غلطی ہوگی ،جیسے تیسے گر بچے نے قرآن مکمل کر بھی لیا تو بھی یہ ایسے ارادے سے ایک سچا جانشین قرآن کبھی تیار نہیں کیا جا سکتا ،والدین کے پاس ایسے کمزور اور سطحی ارادوں کے ساتھ اس سے کہیں زیادہ بلند و بالا عزائم موجود ہونے چاہئے۔مثلاً یہ کہ والدین کہیں کہ ’’ہم اپنے بچے کو قرآن مقدس سے اس طور جوڑنا چاہتے ہیں کہ بچہ کا قرآن مقدس سے لفظی ،معنوی اور روحانی رشتہ قائم ہوسکے۔اس کتاب کے معجزاتی اثرات نہ صرف بچے کے ظاہر کو متاثر کریں بلکہ قرآن کریم کی تاثیر اس پر اور اس کے ساتھ پوری دنیا کو متاثر کرنے والی ہو۔
(۲) اللہ کی معرفت : جس کام پر ہم اپنا وقت،پیسہ اور طاقت صرف کرتے ہیں تو ضروری ہے کہ پہلے اس کام کو کرنے کے لئے ہمارے پاس بہت ٹھوس وجہ اور ویژن ہونا چاہئے ۔
قرآن کا بھی یہی معاملہ ہے کہ اس کتاب کو سیکھنے کے لئے وہ بڑی وجہ ہمارے پاس ضرور ہونی چاہئے ،جو ہمیں اس کام کی رغبت دلا تی ہو ۔لہٰذا والدین پر ضروری ہے کہ اس عظیم مشن میں بچے کو صرف یہ کہہ کر قرآن مجید نہیں تھما دینا ہے کہ اسے پڑھو اور پڑھتے جائو ،کیونکہ اس کے پڑھنے سے ثواب ملتا ہے ۔ نیکیاں ملتی ہیں ، بلکہ یہاں پہلا اسٹیپ یہ ہوگا کہ بچے کے دل و دماغ میں جس ہستی نے اس کتاب کو نازل کیا اور بنایا ہے یعنی اللہ رب العزت کی معرفت ،اس کی موجودگی اور قدرتوں کا یقین پیدا کرنے کی کوشش کرنا چاہئے۔جس کی خاطر اسے توحید کا مفہوم بہت ہی آسان لفظوں میں لیکن پورے وثوق کے ساتھ سمجھایا جائے ،پھر اس کے بعد اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا تعارف بھی دیا جائے ،نفسیاتی طور پر بچے کو اندرسے مضبوط کیا جائے۔بچے کو ہمہ وقت یہ احساس ہو کہ اس کے والدین اور اساتذہ کی غیر موجودگی میں بھی کوئی ذات ہے جو مسلسل اس کے ساتھ ہے ،جو ان لوگوں سے کہیں زیادہ بڑی،طاقتور،باخبر اور بے انتہاء محبت کرنے والی ہے ۔
اوریہ ذہن سازی ان شاء اللہ بہت ہی مفید ثابت ہوگی۔ایک طرح سے یہ بچے کے دل و دماغ پر اللہ کی محبت اور اس کی سلطنت قائم کرنے جیسا ہے گر ایک بار بچہ اللہ کی معرفت سے سرفراز ہو جاتا ہے تو پھر ان شاء اللہ اس کے لئے اللہ کے کلام کو سیکھنا ،سکھانا اور اس پر عمل کرنا بھی بہت آسان ہو جائیگا ۔قرآن سیکھنے کے لئے ان شاء اللہ اس کے پاس سب سے بڑی وجہ اللہ کی محبت ہوگی جس کے حصول کی خاطر وہ بلا رکے،بلا تھکے اس راہ میں اپنی منزل کو بڑھتا چلا جائیگا ۔
یہ حدیث ہمارے لئے زبر دست گائیڈ لائن فراہم کرتی ہے جب اللہ کے رسول ﷺ نے سواری پر اپنے پیچھے بیٹھے ہوئے دس سالہ عبد اللہ سے فرمایا کہ اے عبد اللہ
(یا غلام انی اعلمک کلمات: احفظ اللہ یحفظک،احفظ اللہ تجدہ تجاھک ،اذا سألت فاسأل اللہ ،و اذا استعنت فاستعن باللہ،واعلم ان الامۃ لو اجتمعت علی ان ینفعوک بشیٔ، لم ینفعوک الا بشیٔ قد کتبہ اللہ لک، و ان اجتمعواعلیٰ ان یضروک بشیٔ، لم یضروک الا بشی ٔ قد کتبہ اللہ علیک،رفعت الاقلام و جفت الصحف ( رواہ الترمذی ، و قال: حدیث حسن صحیح)
ترجمہ: ابو العباس عبد اللہ بن عباس ؓ سے مروی ہے ،فرماتے ہیں :میں ایک روز رسول اللہ ﷺ کے پیچھے تھا، آپ ﷺ نے مجھ سے فرمایا : اے لڑکے ! میں تجھے چند باتوں کی تعلیم دیتا ہوں :تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کر ،اللہ تعالیٰ تیری حفاظت کرے گا۔تو اللہ تعالیٰ کی حفاظت کر ،ہمیشہ تو اسے اپنے سامنے پائے گا ۔جب بھی کچھ مانگنا ہو ،اللہ تعالیٰ سے مانگ،اور جب بھی مدد طلب کرنی ہو، اللہ تعالیٰ سے طلب کر۔اچھی طرح جان لے اگر ساری امت جمع ہوکر تجھے کوئی فائدہ پہونچانا چاہے تو اللہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے کے سوا کوئی فائدہ نہیں پہونچا سکتا ۔اور اگر ساری امت اکٹھی ہو کر تیرا کوئی نقصان کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ کے نوشتہ ٔتقدیر کے سوا کچھ بھی نقصان نہیں کر سکتی ۔قلم اٹھا لئے گئے ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں ۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ بچوں کو امور عقیدہ کی تعلیم دینی چاہئے۔بلکہ کہ عقیدہ کی جو اہمیت کتاب و سنت سے اجاگر ہوتی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ تعلیم دین میں اسی سے آغاز کیا جائے ۔چونکہ ابتدائی تعلیم بچے کے دل و دماغ پر نقش ہوجاتی ہیں اور ہمیشہ یاد بھی رہتی ہیں ،لہٰذا صغر سنی ہی سے عقیدہ کی تعلیم دینا انتہائی نافع ثابت ہوگی ۔
یہ حدیث نصیحت کے ایک خیر خواہانہ اور ناصحانہ اسلوب کا شاہکار ہے ۔ آپ ﷺ نے فوراً نصیحت شروع کرنے کے بجائے پہلے (یا غلام انی اعلمک کلمات )کہہ کر ان کی توجہ اپنی جانب مبذول فرمائی ،پھر نصیحت شروع فرمائی۔
ہمیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ بچوں کی ذہن سازی پہلے کی جائے،پھر انہیں کچھ سیکھنے پر آمادہ کیا جائے ۔
(۳) قرآن کی معرفت :بچے کو قرآن کریم کی عظمت سے واقفیت دلائی جائی ، جس کے لئے بچے کی نفسیات کا خیال رکھتے ہوئے اسے نکیوں ،اجر و ثواب سے متعارف کروایا جائے۔اس کے معصوم دل و دماغ کو بھاری بھرکم جملوں کے بجائے آسان فہم زبان میں بات کی جائے ۔ایسی مثالوں کا انتخاب کیا جائے جس سے بچے اجر وثواب کے کانسیٹ کو سمجھ پائیں ۔
قرآن کریم پڑھنے پر آمادہ کرنے کے لئے جبر کی بجائے محبت اور شوق دلانے سے کام لینا چاہئے۔
امام ابن عثمین ؒ کہتے ہیں :ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کو احکام سکھاتے ہوئے ساتھ ان کے دلائل بھی بتائے جائیں ۔آپ ایسا کریں گے تو اس کے دو فائدے ہوں گے۔
پہلا: بچے کو دلائل کے ساتھ بات کرنے اور ماننے کی عادت پڑ جائے گی ۔
دوسرا: اسے اللہ کی اور نبی ﷺ کی ذات سے محبت ہوگی ۔
کیوں کہ نبی کریم ﷺ ہی قابل اتباع امام ہیں ۔کہ جن کی ہر کام میں پیروی کرنی ضروری ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ لوگوں کی اکثریت اس بات سے غافل ہے ،لوگ اپنے بچوں کی احکام کی تعلیم دیتے ہیں،لیکن اس تعلیم کو دلائل کے مصدر سے مربوط نہیں کرتے جو کہ کتاب و سنت ہے ۔ القول الفید علیٰ کتاب التوحید 2/243
بچے کو قرآنی فضائل اور اس کی برکات سمجھانی چاہئے ،جس کے لئے صرف زبانی کام نہیں ہو بلکہ ان چیزوں کا ادراک کرایا جائے جسے رب اعلیٰ نے ہم پر بطور احسان عطا کیا ہے ۔
بچہ جب بھی سوال کرے کہ ہم اس کتاب کو کیوں پڑھتے ہیں اور اسے پڑھنے سے کیا ہوگا؟ تو آپ اسے بتلائیں کہ اس کے ہر حرف کے پڑھنے پر ایک نیکی ملتی ہے تو سوچو!!!!! جس نے مکمل قرآن اپنے سینے میں محفوظ کرلیا وہ انسان کتنا با سعادت ہوگا ۔اللہ عزو جل کے یہاں اس کا درجہ کس قدر بلند ہوگا۔
اسی طرح نیک کام کرنے پر اجر و ثواب پانے والی بات کو سمجھانے کے لئے پریکٹکلی یہ کیا جا سکتا ہے کہ بچے سے اس کی ذاتی کوئی بھی معمولی چیز کچھ سکنڈ کوعاریتاً مانگیں،اور جب بچہ اپنی چیز آپ کے حوالے کردے تب اس کے بدلے اسے چاکلیٹ؍بسکٹ یا کھلونے دیں ،پھر ساتھ ہی سمجھائیں کہ جس طرح تمہاری ایک معمولی چیز کے بدلے میں تمہیں یہ دس چاکلیٹ ملی ہیں ،اجر و ثواب کامعاملہ بھی اللہ کے پاس ایسا ہی ہے ۔قرآن پڑھنے کے عوض صرف ایک حرف کے بدلے وہ اپنی دس دس نیکیاں تمہارے نام لکھتا ہے۔
بچے یونہی خالی خولی اجر وثواب ،خیر و برکت کو نہیں سمجھ سکتے بحیثیت ذمہ دار والدین اور اساتذہ ہمیں انہیں سمجھانے کے لئے مختلف طریقوں
کااستعمال کرنا چاہئے ،اسی ضمن میں انہیں اجر و ثواب کی کیفیت اور اس کی صورت سمجھانے کو یہ بتایا جا سکتا ہے کہ بیٹا !!!! تمہارے والدین ،تمہارا گھر ،کھلونے ، کپڑے سب اللہ کی طرف سے ہے ۔اور تمہارے لئے یہی اجر و ثواب ہے جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ گاہے بگاہے خوش ہوکر تم کو اپنی نعمتیں دیتا رہتا ہے اور مزید بھی دے گا۔
بچوں کی طبیعت فطرتاً متجسس،متحرک اور دفاعی ہوتی ہے۔اس فطرت کے تحت بھی بچوں کو قرآن کریم کی تاثیر سمجھائی اور محسوس بھی کرائی جا سکتی ہے ۔چونکہ بچے غیر مرئی مخلوق جن و شیاطین کی باتوں میں بے حد دلچسپی رکھتے ہیں ،ان کی باتوں اور قصے ،کہانیوں کو بچے بڑے اشتیاق سے سنتے ہیں۔تخیلاتی طور پر ان سے لڑنا ،انہیں شکست دینا بچوں کے لئے بہت دلچسپ کھیل ہوتا ہے۔جس کی خاطر وہ اکثر الٹے سیدھے منتر پڑھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں،اور یہ کلمات مہمل ہونے کے ساتھ بسا اوقات شرکیہ بھی ہوتے ہیں ۔
کیا ہی خو ب ہو کہ بچوں کو آیت الکرسی کے فضائل سمجھائے جائیں کہ اس سورۃ کو پڑھنے کا فائدہ ا نکی دلچسپیوں سے خاصامتعلق ہے۔بچے بڑے ہی خوش ہو کر اس سورۃ کا اہتمام کرتے ہیں ،جب انہیں یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ سورت جن و شیاطین کو بھگانے والی ہے،اور آگ،چوری اور ڈکیتی سے محفوظ کرنے والی ہے۔
اسی طرح سورہ کہف کی ابتدائی دس آیات کو یاد کرنے کی فضیلت بتلانا (فتنہ ٔ دجال سے حفاظت)اور بچوں کو اس کے حفظ پر ابھارنے کی ایک عمدہ کوشش ثابت ہوسکتی ہے ۔بچوں کے لئے دجال بھی ایک سسپنس ہے ۔وہ بہت پر جوش ہوکر اس کے متعلق احادیث سنتے ہیں ۔
معوذتین کی اہمیت بتلاتے ہوئے بچوں کو قرآنی آیات کی طاقت کا احساس دلانا چاہئے کہ یہ چھوٹی سی سورتیں اپنے اندر کیسی ناقابل تسخیر قوت رکھنے والی ہیں ،آپ نہ صرف اسے یاد کریں بلکہ صبح و شام اسے اپنے آپ پردم کرکے اپنی حفاظت کا اہتمام خود کریں ۔
خلاصہ کلام یہ کہ بچوں کو محض زبانی چیخ و پکار ،جبر و تشدد سے قرآن کریم کے سیکھنے کی طرف رغبت نہیں دلائی جا سکتی ،یہ طریقہ کار ہر گز بھی مفید اور مؤثر نہیں ہو سکتا ۔
قرآن کریم سے بچے کا مضبوط تعلق بنانے کی خاطر اسے قرآن سے محبت کا عادی بنانا شرط اول ہے ،وہ جو بھی سیکھے کم یا زیادہ کلام اللہ کے ہر ہر لفظ سے اس کا رشتہ رسمی نہ ہو بلکہ قلبی، روحانی اور جذباتی بھی ہو۔اسے سمجھایا جائے کہ اس کتاب کا نام قرآن کریم اس لئے ہے کہ یہ عزت و تکریم تقسیم کرنے والی کتاب ہے،جو اس کتاب کا ہوگیا یہ کتاب اس کے لئے کافی ہوگی ،جیسے (ان اللہ یرفع بہٰذا الکتاب اقواماً و یضع بہ آخرین ) ( صحیح مسلم ،صلاۃ المسافرین،باب فضل من یقوم بالقرآن و یعلمہ ۔۔۔۔الخ‘ح :817)
اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے قوموں کو سر بلند ی عطا کرتا ہے اور اسی کتاب کے ذریعے قوموں کو پستی میں بھی گراتا ہے ۔حافظ ابن حجر ؒ اس حدیث کی شرح فتح الباری میں اس طرح فرماتے ہیں :(یرفع اللہ المومن العالم علی المؤمن غیر العالم )اللہ اس کتاب کے عالم مومن کو غیر عالم مومن پر فضیلت عطا کردیتا ہے ۔
بچوں کو بتایا جائے کہ دنیا سبھی علوم پراس علم کو سبقت ملی ہوئی ہے ۔اللہ رب العزت دنیا میں قرآن کے پڑھنے والے کو یوم جزاء کے روز بلائے گا اور کہے گا :’’اے صاحب قرآن !!!!(قرآن پڑھنے اوراسے حفظ کرنے والے) سے(قیامت کے دن) کہا جائے گا پڑھتا جا اور(درجے) چڑھتا جا ،اور اس طرح آہستہ آہستہ تلاوت کر جیسے تو دنیا میں ترتیل کے ساتھ پڑھتا تھا ۔پس تیرا مقام وہ ہوگاجہاں تیری آخری آیت کی تلاوت ختم ہوگی ‘‘۔(سنن ابی دائود۔الوتر،باب کیف یستحب الترتیل فی القراٗۃ ح:1464)
بچے کو سمجھایا جائے کہ بیٹا !!!!’’جس روز ساری دنیا کے انسان ایک ایک نیکی کو ترس رہے ہوں گے ،اللہ رب العزت ایک باعمل قرآن پڑھنے والے کو بلا کر کہے گا کہ تو جنت کی سیڑھیاں چلتا چلا جا ،اور جہاں تیری تلاوت ختم ہو جائے وہی تیری منزل ہے۔ یہ یقینا بہت بڑا شرف ہے اور ہم چاہتے ہیں کہ تم اپنی حقیقی کوشش سے اس اعزاز کے قابل بنو ‘‘۔
(۴)کثرت دعا کا اہتمام:بلا شبہ یہ ایک نہایت ہی عظیم اور بلند و بر تر کام ہے جسے انسان کا صرف اپنی کوششوں کے بل بوتے پر پایہ تکمیل تک پہچانا تقریباً ناممکن ہے۔لہٰذا اس کام کے لئے ہمہ وقت اللہ رب العزت کی مدد طلب کرنی چاہئے،عموماًہوتا یہ ہے کہ ہم اپنی اولاد کی اچھی تربیت کے حوالے سے مادی ذرائع کا استعمال تو کرتے ہیں لیکن جس چیز پر توجہ نہیں دیتے وہ ہے اولاد کے لئے کثرت سے دعا کرنا ،یہ انبیاء کا شیوہ ہے ۔دعاء ابراہیم دیکھیں :’’رب اجعلنی مقیم الصلاۃ و من ذریتی ربنا وتقبل دعاء ‘‘ اے میرے پالنے والے ! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولادکو بھی ، اے ہمارے رب میری دعاء قبول فرما(سورۃ ابراہیم) ’’واصلح لی فی ذریتی انی تبت الیک و انی من المسلمین رب اجعلنی مقیم الصلاۃ و من ذریتی ربنا و تقبل دعاء ‘‘
بچوں کی فوز و فلاح کے لئے اللہ سے دست بہ دعا ہونا ضروری ہوتا ہے ،ساتھ ہی ایک بات اور سمجھ لیںکہ ماں باپ اور اساتذہ کی عبادت و ریاضت بچوں کی فلاح و کامرانی میں کلیدی کردار انجام دیتی ہیں ۔اس ضمن میں حضرت سعید بن المسیب ؒ کے عمل سے ہم کو رہنمائی و ہدایت حاصل ہوتی ہے ،آپ اپنے بیٹے سے فرماتے ہیں ’’میں اپنی نماز میں تیری وجہ سے اضافہ کرتا ہوں ،ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ میری وجہ سے تیری رعایت کردے ،پھر آپ نے یہ آیت کریمہ ’’وکان ابوھما صالحا‘‘(سورۃ کہف82) تلاوت فرمائی ۔علامہ حافظ ابن کثیر ؒنے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ یہ آیت اس بات کی دلیل ہے کہ نیک آدمی کے سبب اس کی اولاد کے ساتھ رعایت کی جاتی ہے اور والدکی عبادات کی برکات اسے دنیا و آخرت دونوں میں حاصل ہوتی ہیں ‘‘۔
لہٰذا سمجھ میں یہ آیا کہ والدین کا اللہ کے اوامر کی بجا وری اور اس کی منہیات سے پر ہیز اور ہمہ وقت بچے کے علم و عمل کے لئے اللہ کے حضور سوال کرتے ہی رہنا کامیابی کی ضمانت ہے۔
(۵) سازگار گھریلو عوامل : ایک بچے کے کچھ سیکھنے سکھانے میں اس کا گھریلو ماحول سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے ،اس لئے ہمیشہ کوشش ہونی چاہئے کہ گھر کا ماحول پاکیزہ،آسودہ اور اطمینان بخش ہو ۔بچہ اس ماحول میں جب اپنی آنکھیں کھولے ،سانس لے تو وہ خود اسلامی تعلیم وتربیت کا تیار کردہ ،بولتا ہوا آئینہ ثابت ہو ۔
اس لئے ضروری ہے کہ گھر میں اہل خٓنہ کا باہمی تعلق اس قدر ملاطفت آمیز ہو کہ بچے کی طبیعت پر اس کے خوشگوار اثر نظر آئیں،بچہ گھر والوں کی صحبت میں خود ہشاش و بشاش محسوس کرے،دوران تدریس اس کی تھکی ماندی طبیعت گھر والوں کی صحبت میںپھر سے تر و تازہ ہوجائے۔
قرآن کریم سیکھنے والا بچہ جب اپنے گھر میں داخل ہو تو نہ صرف اس کی عزت و تکریم کی جائے بلکہ شفقت و محبت کا اظہار بھی کیا جائے ،حسب استطاعت اس کی خاطر مدارات کا انتظام بھی کیا جائے ،تاکہ بچہ اہل خانہ کی نظر میں اپنے آپ کو محترم اور اہم تصور کرے ،اس سے اس کا اعتماد پروان چڑھے گا۔
عموماً گھروں میں جن اخلاقی برائیوں کی کثرت دیکھی جاتی ہے ان برائیوں کے جر ثومے بچے کے اندر غیر محسوس طریقے سے داخؒ ہوجاتے ہیں ،اور یہ اپنے اثرات چھوڑنے میں نہایت مستعد ہوتے ہیں ۔ایک بار کوئی ان کے زیر اثر آگیا تو پھر بچوں پر اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم اور وعظ و نصیحت کا کوئی اثر نہیںہوتا،اس لئے لازم ہے کہ گھروں کو صوتی،سمعی اور بصری آلودگی سے پھیلنے والے جراثیم سے بچایا جائے۔اور غیبت ،جھوٹ،چغلی،بد کلامی جیسی خطرناک اخلاقی بیماریوں سے پاک رکھا جائے ،کیونکہ ان کے غیر معمولی اثراتبچوں کے اندر ہمیشہ کے لئے کنڈلی مار کر بیٹھ جاتے ہیں۔
گھروں کی صوتی آلودگی سے پاک ہونے سے مراد گھر کو شور شرابہ سے محفوظ رکھا جائے،خواہ وہ گھر کے کسی الیکٹرانک کا شور ہو یا افراد خانہ کا آپسی بات چیت اور لڑائی جھگڑے کا شور ہو ۔یہ شور بچے کے تخیل میں ایک شدید قسم کا دخل ہوتا ہے اور تحقیق شدہ بات ہے کہ اضافی شور ذہن کو تھکادیتے ہیں ۔
اسی طرح بصری آلودگی سے بھی ایک طالب قرآن کو بچایا جائے ،اسکرین سے بچے کوجنتا ممکن ہو بچائیں کیونکہ ٹی وی ،میڈیا ایمان و اخلاق کے علاوہ ذہن کے ان ترقی پذیر حصوں کو بھی نقصان پہونچاتے ہیں ،جہاں پر انسان کچھ سیکھ رہا ہوتا ہے،یا کسی چیز پر اپنا ارتکاز کررہا ہوتا ہے ،ٹی وی میڈیا کا اضافی اور بے جا استعمال سیدھے ذہن پر حملہ کرتا ہے جس سے قوت حافظہ و مطالعہ پر گہرا اثر پڑتا ہے ۔اور بچے کی قوت ارتکاز انتشار میں تبدیل ہوتے ہوتے ناکارہ ہوجاتی ہے۔ساتھ ہی سمعی آلودگی سے بھی بچے کے دل ودماغ کوبچانے کا اہتمام کرنا چاہئے،اور ہمارے پاس سمعی آلودگی کی سب سے واضح مثال ہے ایل خانہ غیبت،چغلی جیسے رذیل افعال میں شریک ہونا ۔
غرضیکہ قرآن سیکھنے والے بچے کو ہر طرح کے ڈسٹریکشنز سے محفوظ رکھنا چاہئے۔ اس کے نقصانات کو ایک دوسرے زاویے سے بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک بچہ قرآں کریم سیکھنے پر مامور کا جاتا ہے اور یہی بچہ جب اپنے گھر میں اپنے والدین اور بھائی بہنوں کو میوزک اور فلم بینی میںغرق پاتاہے تو بچے کاذہن ایک قسم کے تضاد کا شکار ہوجاتا ہے کہ یہ کیسی کتاب ہے ؟اور کیسی ذمہ داری ہے جو صرف مجھ پر عائد ہے ؟کیونکہ ہمارے یہاں بچے کو بتلایا جاتا ہے ’’بھئی اس خاندان کی دینی حمیت و غیرت اور اجر و ثواب کا سارا بار اب تمہارے کندھوں پر ہے میرے بچے !!!! لہٰذا تمہارے قدم لڑ کھڑانے نہ پائیں ۔اب پورے خاندان کی جانب سے تمہی قرآں پڑھو ،اور سب کی بخشش اللہ سے کرواو،تقویٰ شعار بنو اور سب کے فرائض و نوافل بھی تم ہی ادا کرو ،اور گناہوں سے باز رہو ‘‘
اندازہ لگائیے اس بچے کی ذہنی حالے کا ،بچہ یہاں گھر والوں کے رویے سے جس قسم کے تضٓد کا شکار ہوتا ہے وہاں بچہ صرف سوچتا نہیں اندر سے روتا ہے و بے چین ہو اٹھتا ہے،پھر وہ کتاب اور اس کے سیکھنے سکھانے کے عمل سے ہی متنفر ہوجاتا ہے ۔لہٰذا بچے کو صرف نیک و پارسا بننے کی تاکید نہ کریں ،بلکہ کرنے سے پہلے بچے کے سامنے عملی نمونہ بن کر دکھائیں ۔
گھروں سے قرآں کی صدا گونجتی ہو ،گھر کا ہر فرد قرآن کریم سے جڑا ہوا ہو ۔قرآن سیکھنے کے لئے جس بچے کا انتخا ب کیا گیا ہے اس کے علاوہ بھی اسکے دیگر بھائی بہن کو بھی قرآن سیکھنے پر اتنا ہی زور دیا جائے جتنا اس بچے پر دیا جاتا ہے ۔
تاکہ بچے کے ذہن میں یہ بات راسخ ہوسکے کہ یقیناً یہ کتاب کوئی عظیم کتاب ہے ،جسے سب نے اپنے لئے لازمی کیا ہوا ہے۔
(۶)نظر بنائیں رکھیں :
قرآن سیکھنے والے بچے کے ساتھ پوری مستعدی دکھائیں، بچے کے اسباق اور ان کی دہرئی پر پوری طرح نگاہ بنائی جائے ،اگر کئی دنوں تک بچہ اپنے سبق میں آگے نہ بڑھ سکے تو استا دسے جاکر معاملہ کا پتہ کریں،ممکن ہے کہ کچھ مشکلات بچے کے سبق میں آڑے آرہی ہوں ،یا پھر بچہ ہی اپنی تساہلی کے باعث یومیہ سبق کو سنانے سے جی چراتا ہو۔اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آپ کو وقت پر اس مسئلہ کا پتہ چل جائے گا اور آپ اس کا مناسب حل بھی نکال سکتے ہیں۔ورنہ عموماً تو یہی ہوتا ہے کہ دو دو سال ہوجاتے ہیں اور بچوں کا نورانی قاعدہ مکمل نہیں ہوپاتا،استاد سے مسلسل رابطہ بنائے رکھیں ،اور ساتھ ہی اپنی نگاہیں بچے کی کار کردگی پر بنائے رکھیں،تاکہ واقعتاً تپہ چل سکے کہ بچے کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے یا یہ سب محض کاہلی اور بے دلی کا کارنامہ ہے۔
ہمیشہ کوشش یہی ہو کہ بچے کی تعلیم کے لئے نت نئی تکنیک تلاش کی جائے ،بچے کی ذہنی استعداد اور اس کی صلاحیتوں کے اعتبار سے اس کے اسباق کی تقسیم کی جائے ،اور جس طریقے سے بھی اسے قرآن پڑھنا،سمجھنا اوریاد کرنا آسان لگتا ہو ہر اس طریقہ سے بچے کی مدد کی جائے ،ایک ہی طریقہ سب پر لاگو نہ کیا جائے ۔
(۷)مسجد سے تعلق بڑھائیں :بہت سے بچے قرآن کریم پڑھنا تو چاہتے ہیں لیکن ان کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ وہ مسجد کے ماحول سے گھبراتے ہیں ۔مسجد جاکر قاری صاحب سے نہیں پڑھنا چاہتے ہیں ،بلکہ گھر میں پڑھنا چاہتے ہیں ۔اس صورت حال میں والدین کا فرض بنتا ہے کہ بچوں کی مسجد سے دوری کی وجہ جو بھی ہو وہ اپنے طور پر بچوں کو مساجد کی فضیلت سے آگاہ کریں ،انہیں حدیث سء سمجھئائیں کہ باوضو ہوکر مسجد کی طرف جانے والے ہر قدم پر ایک گناہ مٹا دیئے جاتے ہیں اور ایک نیکی ملتی ہے (صحیح مسلم جلد اول :حدیث نمبر 1516)مسجد جانے کا شوق اس کے دل میں پیدا کرنا چاہئے ،اللہ کے گھر میں جاکر قرآن سیکھنے سکھانے والوں پر اللہ کی جانب سے مقرب فرشتوں کے ذریعے رحمتوں کے نزول والی بشارت سناکر بچے کو مسجد جاکر تلاوت اور عبادت کرنے پر حاصل ہونے والے ثواب کے حصول پر ابھارنا چاہئے،تاکہ بچے کے دل میںمسجد جانے کا شغف پیدا ہو اور اللہ کے گھر سے اس کا تعلق استوار ہو۔۔۔۔۔
اسی طر ح قرآن کو حسن صوت اور تجوید وترتیل کے ساتھ پڑھنے پر ملنے والی سعادت کا حریص بنانا چاہئے۔
جس عرصے میں بچہ قرآن کریم سیکھ رہا ہو اس دوران بچے کی غیر ضروری مصروفیات ترک کروا دیں ،پورا انہماک قرآن سیکھنے کی جانب ہو،اور اس کے لئے ایسا ماحول بھی بنایا جائے۔جس کا سب سے مؤثر طریقہ یہ ہیکہ گھر میں کثرت تلاوت کا اہتمام کیا جائے ،گھر کا ماحول تلاوت کے ذریعے روحانی اور نورانی بنایا جائے ،بچے کو صرف فضیلتیں نہ گنائی جائیں ،بلکہ ان پر خود عمل کرکے دکھایا جائے۔
(۸)اعادہ کی پابندی : بچہ فطرتاً اورطبیعتاً بے حد متجسس ہوتا ہے،اسے ہر نئی چیز سیکھنے کا بے حد شوق ہوتا ہے ۔اور وہ مسلسل ،بلا رکے سیکھتا رہتا ہے ،بڑوں کے مقابلے میں بے حد تیزی سے بہت کچھ سیکھ لیتا ہے،اور اپنے اندر اتارتا ہوا چلا جاتا ہے۔
تویہاں سمجھنے والی بات یہ ہے کہ جب اتنا سارا مواد بچے کے دل و دماغ میں موجود ہو ،اور ان میں سے وہ کچھ کا استعمال کرتا ہو اور کسی کا نہ کرتا ہو ، تو ظاہر ہے جس چیز کا استعمال بچہ نہیں کریگا وہ مواد اس کے ذہن سے ضرور خارج ہو جائے گا ۔
لہٰذا اگر قرآنی اسباق کا اعادہ کروانے پر پابندی نہیں کی گئی تو نئی چیزیں سیکھنے کا شوقین بچہ جوں جوں نئی باتیں سیکھے گا پچھلا علم اس کے ذہن سے محو ہوتا جائے گا ،اور یہ ’’علم قرآن ‘‘ ہو تو زیادہ فکرمندی کی بات ہے ۔اس کی تائید خو د نبی کریم ﷺ سے ملتی ہے ،
اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا :(تعاھدواالقرآن فو الذین نفسی بیدہ لھو اشدتفصیا من الابل فی عقلھا(متفق علیہ)قرآن کی خبر گیری کرو اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اونٹ اپنی رسی سے باندھا گیا ہے ،اگر اس کی خبر گیری رکھتا ہے تو وہ بندھا رہتا ہے اگر اس کو چھوڑ دیتا ہے تو جاتا رہتا ہے ۔
اونٹ میں یہ صفت ہے کہ جب یہ چلتا ہے تو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتا بنسبت دوسرے جانوروں کے جب وہ چلتے ہیں تو پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں ۔
اسی طرح بچہ اگر مسلسل قرآن کی تلاوت کرتا رہے تو قرآن اس کے سینہ میں محفوظ رہے گا ورنہ اونٹ کی طرح چلا جائے گا اور اس کے سینے سے محو ہو جائے گا۔
لہٰذا یہ سر پرستوں پر ایک بڑی ذمہ داری ہے کہ وہ بچوں کے اعادہ کا نظم و ضبط پابندی کے ساتھ قائم رکھیں۔
قرآن مجید کی پابندی سے تلاوت نہ کی جائے اور قرآن مجید کو چھوڑ دیا جائے تو انسان اسے بھول جاتا ہے ،اگر چہ ہر کسی کے چھوڑدینے کی نوعیت میں فرق ہوتا ہے ،جیسے کہ ابن القیم رحمۃ اللہ ـ’’الفوائد ‘‘(صفحہ 82)میں کہتے ہیں :’’قرآن مجید انسان اسی وقت بھولتا ہے جب قرآن کریم سے رو گردانی کرتے ہوئے اور چیز میں مشغول ہوجائے،یقینایہ ایک بڑی مصیبت ہے، اور اس کی وجہ سے مزید مصیبتیں کھڑی ہو سکتی ہیں ،اور اجر و ثواب سے محرومی بھی یقینی ہے ‘‘
علامہ محمدابن صالح العثمین رحمۃ اللہ کہتے ہیں کہ افسوس کا مقام ہے کہ بعض طلبہ قرآن مجید یاد نہیں کرتے ہیں ،بلکہ کچھ تو قرآن پاک صحیح سے پڑھ بھی نہیں پاتے ہیں ،واقعی یہ بہت بڑا خلل ہے دینی علوم کے سیکھنے کے منہج میں ،اسی لئے میں سختی کے ساتھ کہتا ہوں کہ طلبہ پر قرآن کا حفظ کرنا ،اس پر عمل کرنا ،اس کی دعوت دینا اور اس کو منہج سلف صالحین کے مطابق سمجھنا واجب اورضروری ہے ۔کتاب العلم (35/1)
(۹) بچے اور مربیان کے مابین تعلق :
بچے کا اپنے والدین اور اساتذہ سے باہمی تعلق مضبوط ہو اور خوشگوار ہو ۔بچہ اپنے بڑوں پر آنکھ بند کرکے یہ یقین رکھنے والا ہو کہ اس کی راہ میں مشکلیں اور حالات جتنے بھی نامساعدہوں اس کے والدین ہر قدم اس کے ساتھ کھڑے ہیں،اسی طرح اساتذہ سے بھی یہی امید رکھتا ہو کہ اس کی زندگی میں والدین کے بعد اگر کوئی خیر اندیش رہنما اور مشفق و مہربان ہے تو اس کا استادہے بچہ قرآن کریم کو سیکھتے ہوئے کسی قسم کے سوال یا افہام و تفہیم میں تردد محسوس نہ کرے۔
خشیت استاد یا خشیت والدین اگر حفظ قرآن کا وسیلہ بن رہے ہوں تو یہ بڑی خطر ناک بات ہے ،کیونکہ بچے کے دل میں خشیت صرف اس کتاب کے بنانے والے کی ہونی چاہئے نہ کہ پڑھانے والوں کی ،انسانوں کا ادب و احترام اپنی جگہ مسلم لیکن نے جا خوف اور پریشر یہ نفسیات پر بری طرح حاوی ہوجاتی ہیں ،اور انسان اور اس کی صلاحیتیں زندگی بھر کے لئے ناکارہ ہوجاتی ہیں ،اس لئے ان سے گریز لازمی ہے۔اور یہ بھی بات سمجھ لینی چاہئے کہ غیر اللہ کا خوف ایمان کا سب سے بڑا دشمن ہے، جسے خود نبی نے ابن عباس رضی اللہ عنھما کو اپنے پیچھے سواری پربٹھا کر سمجھایا :(’’اے لڑکے یہ بات اچھی طرح جان لو !!!! اگر ساری امت جمع ہوکر تجھے کوئی فائدہ پہنچانا چاہے تو اللہ تعالیٰ کے لکھے ہوئے کے سوا کوئی پہنچا نہیں سکتا اور اگر ساری امت اکٹھی ہو کر تیرا کوئی نقصان کرنا چاہے تو اللہ تعالیٰ کے نوشتۂ تقدیر کے سوا کچھ بھی نقصان نہیں کر سکتی ‘‘)
تشدد اور خوف کے طریقہ کارسے بچہ جو کچھ بھی سیکھے گا وہ علم نتیجہ خیز اور دیرپا نہیں ہوگا۔آج مار پیٹ کے خوف سے وہ قرآن سیکھ تو لے گا ،لیکن اس کا کوئی قلبی تعلق اس مقدس کتاب سے نہ بن پائے گا ۔اور یہ قرآن کریم کے سیکھنے سکھانے کی بہت ہی بے ڈھنگی شکل ہوگی جس کے مثبت اثرات کبھی بچے کی زندگی پر نظر نہیں آسکتے،جونہی بچہ آپ کی دسترس سے آزاد ہوگا،سب سے پہلے اس کتاب سے خود کو دور کرے گا ،جس کی وجہ سے وہ اپنے بچپن کی چھڑیا کھایا کرتا تھا اور ہمہ وقت خوف میں مبتلاء رہتا تھا
مشاہدہ کی ایسی بہت سی مثالیں ہمارے آس پاس بکھری پڑی ہیں ،جہاں لوگ حافظ قرآن یا عالم دین تو کثیر تعداد میں ہوتے ہیں ،لیکن اتنی عملی دنیا میں کتاب و سنت کی ایک ہلکی سی جھلک بھی دکھائی نہیں پڑتی ۔اساتذہ اور والدین بچوں کا اعتماد جیتنے کی کوشش کریں ،بلا شبہ یہ بڑی طویل اور صبرا ٓزما مدت ہوتی ہے ۔
خود پر کنٹرول کرنا سیکھیں ،بچے کو اپنا دوست بنانے کی کوشش کریں ۔ٹائم،لمٹ اور رفتار پر قابو رکھیں،عجلت پسندی اور جلد بازی سے پر ہیز کریں ۔بچہ جتنا کچھ سیکھ رہا ہو اس پر اس کی حوصلہ افزائی کریں ،انعامات بھی دیتے رہیں،ساتھ اسے اگر کچھ مشکلات آتی ہوں تو بھی ایسا ماحول بنا کر رکھیں کہ بچہ بے جھجھک آپ سے اپنے سبق کی مشکلات بتا سکے اور آپ اس کی پریشانیوں کا حل نکال سکیں ۔
(۱۰) حفظان صحت،متوازن غذا:
قرآن سیکھنے والے بچے کے لئے اس کی صحت کا غیر معمولی طور پر عمدہ ہونا ضروری ہے ،ہم اگر بچے کے غذائی دائرہ کو درست کرلیں تو ان شاء اللہ ہمارے بچے کی تعلیم اور اخلاق درست ہوجائیں گے۔
ایک دور ہوا کرتا تھا جب ایک طالب علم کے ساتھ شرعی علوم سیکھنے والا طالب علم بھی علم بدن اور علم غذا جیسے علوم پر دسترس رکھتا تھا ۔وقت بدلا ،نصاب بدلا ………اب یہ سارا کام مغرب نے اپنے ذمہ لے رکھا ہے۔خلاصہ کلام یہ کہ ََََََََ………..سلف نے اس پر بہت روشنی ڈالی ہے کہ حلال اور صاف ستھری غذا کا کیا معیار ہونا چاہئے ،کیونکہ اطباء اور مصلحین نے ماضی بعید میں روح کے بگڑنے کو جسم کے بگڑنے سے جوڑ کر دیکھا ہے ۔پہلے انسان کو اس کی خوارک کو متوازن کرنے پر ابھارا ہے ،پھر ان کی روحانی کمزوریوں پر کام کیا ہے۔
بچے کی صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے کیونکہ اگر بچہ اچھی صحت کا مالک ہے تو لازما وہ مستقبل میں ایک اچھی کارکردگی کا مالک بن سکتا ہے۔جس کی خاطر اسے اچھی ،متوازن خوراک دینی چاہئے ۔موسمی پھل ،دودھ،سبزیاں ،گوشت،انڈے،سوکھے میوے لازماًاس کی غذامیں شامل کرنا چاہئے ۔بہت زیادہ کھٹی ،میٹھی اورٹھنڈے مشروبات او رماکولات سے پر ہیز کرنا چاہئے۔کیونکہ ایسی غذائیں جسم میں کاہلی کا سبب بنتی ہیں ،اور مزاج میں ترشی لاتی ہیں ،اور گلا خراب کرنے کی وجہ بھی بنتی ہیں ۔
ایسی غذائوں کا انتخا ب کیا جائے جو ذہانت اور حافظہ کو قوی بنانے والی ہوں،پھلوں اور سبزیوں کے تازہ جوسکا استعمال کرنا چاہئے،پیک شدہ پھلوں کے رس صحت کے لئے مضر ثابت ہو سکتے ہیں ،بچے کے ناشتہ کے لئے مقوی چیزوں کو بازاری اشیاء کا متبادل بنانا چاہئے۔
(۱۱)ورزش : بچے کو یومیہ کسی ورزش کا عادی بنانا ایک بہت اچھا عمل ثابت ہو سکتا ہے ،اس سے بچے کے اعصاب ،حافظہ اور اس کی طبیعت کی سر شاری کے اسباب پیدا ہوں گے ۔اس کے علاوہ اس کے پٹھے اگرمضبوط ہوں گے تو اس کا سیدھا اثر اس کی قوت بصارت اور قوت سماعت پر ہوگا،وہ عام لوگوں کی بہ نسبت بہت تیز ہوگی،لہٰذا ایک طالب علم کے لئے یہ بہت بڑی نعمت ہے ۔اس لئے بھی یومیہ چہل قدمی یا جسمانی سرگرمی بچے کے لئے بھی لازمی ہے۔اس سے بچے کا نظام تنفس بھی بہتر ہوگا ۔
بچے کو STRETCH BREAK بھی دینی چاہئے ،درا صل دوران تدریس ایک میانہ درجہ کے طالب علم کی ذہنی یکسوئی 45منٹ سے لے کر 60منٹ تک ہو سکتی ہے اس کے بعد بچے کی یکسوئی ختم ہونے لگتی ہے یا کمزور پڑنے لگتی ہے۔
اسٹریچ بریک سے مراد یہ کہ بچے کے پینتالیس سے پچاس منٹ کی مسلسل پڑھائی کے بعد اسے ایک منٹ کا وقفہ دیں ،اسے دس منٹ کی چہل قدمی کروائیں اور دوبارہ اس کی جگہ پر واپس بلالیں ،اس ایک منٹ کی قربانی دے کر بچے کو پھر سے فریش کیا جا سکتا ہے۔
(۱۲) کھیل کود : اس کے کھیل کے اوقات لازمی طور پر مقرر کئے جائیں ،کیونکہ کھیل نہ صرف صحت کا معاون ہے بلکہ بچے کی نفسیات اور مضبوط اعصاب کا بھی معاون ہے،بچے کے ذہنی تنائو اور بے دلی جیسی کیفیت کو دور کرنے کا ایک آسان اور صحتمند ذریعہ ہے ،بلکہ بچے کو اس کے امتحانات کے دوران بھی کھیلنے کے لئے بھیجنا چاہئے۔
محترم والدین اور اساتذہ !!!!!مانا کہ ڈگر دور،راہ طویل اور قدم قدم مایوسیاں ،مشکلات استقبال کو کھڑی ہیں ،لیکن سوچیں تو !!!………..جیت یونہی تو حاصل نہیں ہوگی ،آپ کے سر پر تاج یونہی تو نہیں رکھا جائے گا ،یوم جزاء کے روز آپ کی سفارش یونہی تو اللہ رب العزت کے سامنے نہیں کی جائے گی،یونہی تو نہیں اللہ کے رسول نے آپ کو یہ اعزاز دے دیا کہ :خیر کم من تعلم القرآن و علمہ
تو آئیے محترم والدین و اساتذہ !!!! ایک بڑے عزم و ارادہ کے ساتھ،خالص نیتوں کے ساتھ اس عظیم مشن کے فعال کارکن بن جائیں ،تاکہ یہ سر زمین اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے کلام سے گونج اٹھے ۔
اولاد کی تربیت کے بارے میں ایک حدیث رسول ان الفاظ میں آئی ہے : کسی باپ کی طرف سے اس کے بیٹے کے لیے سب سے بہتر تحفہ یہ ہے کہ وه اس کی اچھی تربیت کرے- (سنن الترمذی ، حدیث نمبر 1952)
اس حدیث میں ادب حسن کا مطلب زندگی کا بہتر طریقہ ہے- بیٹا یا بیٹی بڑے ہونے کے بعد دنیا میں کس طرح رہیں کہ وه کامیاب ہوں، وه اپنے گھر اور اپنے سماج کا بوجھ (liability) نہ بنیں بلکہ اپنے گهر اور اپنے سماج کا سرمایہ (asset) بن جائیں-
والدین اپنے بچوں کو اگر لاڈ پیار (pampering) کریں تو انھوں نے بچوں کو سب سے برا تحفہ دیا- اور اگر والدین اپنے بچوں کو زندگی گزارنے کا کامیاب طریقہ بتائیں، اور اس کے لیے ان کو تیار کریں تو انھوں نے اپنے بچوں کو بہترین تحفہ دیا- مثلا بچوں میں یہ مزاج بنانا کہ وه دوسروں کی شکایت کرنے سے بچیں- وه ہر معاملے میں اپنی غلطی تلاش کریں، وه اپنی غلطی تلاش کر کے اس کو درست کریں، اور اس طرح اپنے آپ کو بہتر انسان بنائیں- وه دنیا میں تواضع (modesty) کے مزاج کے ساتھ رہیں، نہ کہ فخر اور برتری کے مزاج کے ساتھ- زندگی میں ان کا اصول حیات یہ ہو کہ وه ہمیشہ اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرائیں، نہ کہ دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرانے کی کوشش کریں- وه اپنے وقت اور اپنی توانائی کو صرف مفید کاموں میں لگائیں-
والدین کو چاہیے کہ وه بچوں کو یہ بتائیں کہ اگر تم غلطی کرو تو اس کی قیمت تم کو خود ادا کرنا ہوگا- کوئی دوسرا شخص نہیں جو تمہاری غلطی کی قیمت ادا کرے- کبھی دوسروں کی شکایت نہ کرو- دوسروں کی شکایت کرنا اپنے وقت کو ضائع کرنا ہے- ہمیشہ مثبت انداز سے سوچو، منفی سوچ سے مکمل طور پر اپنے آپ کو بچاؤ- بری عادتوں سے اس طرح ڈرو، جس طرح کوئی شخص سانپ بچھو سے ڈرتا ہے- والدین کو چاہیے کہ وه اپنی اولاد کو ڈیوٹی کانشس بنائیں، نہ کہ رائٹ کانشس-
نیم تاریک کمرے کی ایک چھوٹی سی کھڑکی سے قبل ازوقت بوڑھی اوربیمارہوجانے والی ایک پچاس سالہ خاتون جب کبھی پڑوسی کے آنگن میں جگنوؤں کی مانند روشنی بکھیرنے والے ننھے فرشتوں کو دیکھتی ہے تو اس کے بے رونق کمرے کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی بے نور آنکھیں نورسے معمورہوجاتی ہیں۔ ان بچوں کے ساتھ وہ بھی ہنستی ہے ‘ان کی پیاری باتوں سے حظ اٹھاتی ہے‘ان کاکھیلناکودنا ‘ان کا بھاگنا‘لڑناجھگڑنا‘ ان کی محویت ‘ان کا تجسس ‘ان کے سوال ‘ان کی شرارتیں ‘ ان کی بے ریا مسکراہٹیں اس کا خالی دامن خوشیوں سے بھردیتی ہیں۔ پھراس کے اپنے آنگن میں پھیلے ہوئے سناٹے کاشور‘ اس کے احساس ِمحرومی کو اتنا شدید کردیتا ہے کہ وہ روشنی اورزندگی سے بھرپور اس چھوٹے سے دریچے کو بندکرکے اپنی تاریک ‘ویران دنیا میں لوٹ آتی ہے‘ جہاں صرف مایوسی ہے‘ ناامیدی ہے‘ تنہائی ہے ‘ ذلت ہے‘ اذیت ہے اورایک بنجر‘بے ثمرزمین ہونے کا احساس ‘ ایک بانجھ عورت ہونے کا طعنہ ۔اس کی شادی تیس بتیس برس قبل ہوئی تھی ۔شادی کے بعد دس پندرہ سال بارآوری کی آس میں گزار دئیے ‘ پھربتدریج وہ امید‘اس چراغ کے مثل بجھ گئی جو سفاک‘بے رحم ہوائوں کی زد سے شکست کھاکرآخرکار دم توڑہی دیتا ہے۔ہم عمرکزنز اورسہیلیاں دادی نانی بن گئیں۔ جب ہنسی ہنسی میں پھینکے گئے طنز کے تیر کچھ زیادہ ہی روح کوچھِلنے لگے اورلوگوں کے سوال کانٹے بن کر چبھنے لگے تواس نے خودکو تنہاکرلیا‘تقاریب میں جانا چھوڑ دیا‘یہ علیحدگی اورتنہائی (isolation)اس کی اپنی اختیارکردہ ہے لیکن اس کا ذمہ دارکون ہے ؟ رویوں سے چھلکتی بیگانگی؟ لہجوں میں اتر آئی بے رحمی ؟ یا آس پاس اُگ آئی بے حسی ؟کوئی یوں ہی معاشرے سے الگ تھلگ نہیں ہوجاتا ‘ (کوئی یوں ہی جینا نہیں چھوڑتا‘کوئی یوں ہی خودکشی نہیں کرتا ‘ کوئی یوں ہی پاگل نہیں ہوتا) ۔معاشرتی رویوں نے اسے ایک نارمل زندگی سے دور کردیا۔ماں نہ بن پانے کی ایک جان لیواخلش کے ساتھ وہ اب ایک ٹوٹی بکھری عورت ہے‘جوافسردگی اور ناآسودگی کی چادراوڑھے اپنے خالی مکان کوتکتی رہتی ہے ۔
ہندوستانی سماج میں ایک بے اولادخاتون کی پیشانی پربہت ہی گہری اورنہ مٹنے والی سیاہی سے لکھ دیاجاتا ہے کہ وہ ’بانجھ ‘ہے۔طنز‘طعنے اورایک تکلیف دہ صورتحال حتی کہ وہ زندگی سے بدظن ہوجاتی ہے ۔کبھی کبھی جرائم وحادثات کے کالم میں یہ خبر بھی پڑھنے کوملتی ہے کہ بچے نہ ہونے کے سبب ایک خاتون نے خودکشی کرلی۔
انوبھوتی دوبے اپنے مقالےIndian Women’s Perspectives on Reproduction and Childlessness: Narrative Analysis میں لکھتی ہیں:’’ ہندو مذہب کے مقدس صحیفوں کے مطابق’ بے اولادی‘ ایک ’بددعا‘ہے ۔ اگر ایک جوڑا بے اولادہوتو اس کی وجوہات سے قطع نظر موجودہ سماجی اورصنفی طرزعمل کے سبب عورت ہی کو مورد الزام ٹھہرایاجاتاہے ۔ ہندوستان اوربرصغیر کے دوسرے ممالک میں بچوں کی نعمت سے سرفراز ایک عورت ایک بالغ کے موقف کے ساتھ ساتھ سماج میں قبولیت حاصل کرپاتی ہے ۔‘‘
ہندوستانی مائیں اپنی بیٹیوں کے بیاہ کے بعد یہ چاہتی ہیں کہ سال دوسال ہی میں خوشخبری سننے کوملے ‘ اور ان کی بیٹیوں کا اپنے جیون ساتھی اوراس کے خاندان سے رشتہ مضبوط ہوجائے۔اگربچے ہونے میں تاخیرہویا ماں بننے کے امکانات کم ہوں تو ایک عورت کی زندگی بے یقینی کا شکارہوکررہ جاتی ہے ‘بلکہ اس کا وجود ہی بے معنی ہو جاتا ہے۔شوہرکی دوسری شادی کا خوف اورطلاق کاڈر‘راتوں کو بے خواب اور دن کو بے سکون کردیتاہے۔
District Level Household and Facility survey 2007-2008 کے مطابق ملک میں 15 سے 49 برس کی 8.2 فیصد شادی شدہ خواتین بچوں سے محروم پائی گئیں۔
روزنامہ ’ہندو‘ (28ستمبر2014ء)کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا میں20ملین سے زائد جوڑے (couples)بے اولادہیں۔یہ ایک تصدیق شدہ حقیقت ہے کہ دنیا کی کل آبادی میں دس سے پندرہ فیصد جوڑے عدم بارآوری (infertility) سے دوچار ہیں۔
بچے گلشن ِکائنات کے سب سے خوشنماپھول ہیں۔معصوم‘بے غرض‘ تصنع سے پرے‘کبھی اپنی شرارتوں سے دل موہ لیں گے توکبھی اپنی ذہانتوں سے لاجواب کردیں گے۔وہ اپنے آس پاس کے ماحول کو بھی سرشاری سے بھردیتے ہیں ‘ان کی رفاقت انسان کی اداسیوں کو زائل کردیتی ہے‘وہ سچی مسرت اور شادمانی کا منبع ہوتے ہیں‘ ان کے پاکیزہ ‘نورانی چہرے مکانوں میںاورمکینوں میں فرحت وراحت کی تجلیاں بکھیردیتے ہیں ۔
بچے خالق کائنات کا بے مثل شاہکاراورعظیم نعمت ہیں‘ان سے محرومی یقینابہت بڑی محرومی ہے۔ لیکن جنہیں یہ نعمت حاصل نہیں‘انہیں ذہنی اذیت میں مبتلاء کرنا ‘ان کے تئیں یہ سوچنا کہ وہ کسی کی بددعا کے اثر میں ہیں ‘کیا درست ہے ؟
ایک جوڑا کم وبیش پچیس برس سے اولاد سے محروم ہے‘اوراس جوڑے کے بارے میں’ معزز‘ رشتہ دار ‘دوست احباب اور پڑوسیوں کا یہ خیال ہے کہ ’’کسی کا بچہ گود میںڈال لیتے ؟(کسی کا بچہ گودلیتے) نئیںتو وہ ادمی دوسری شادی کرنا تھا؟(یاپھروہ آدمی دوسری شادی کرتا) کیسا دل لگتا گھر میں ‘بچہ نہ کچہ؟(بچوں کے بغیر گھر میں دل کس طرح لگتاہے ) اس عورت کو کام کیا رہتا بول کے ؟(اس عورت کوکام ہی کیاہوتا ہے ) کیا بچوں کوپالنا ہے ؟ (کیااسے بچوں کی پرورش کرنی ہے ) اس کا گھر بہت صاف رہتاکتے ‘(سنا ہے کہ وہ گھر بہت صاف ستھرا رکھتی ہے )ہائو پھر گھرمیںبچے رہے تو پسارا ڈالتے ‘(ہاں پھر گھر میں بچے ہوں تو سامان بکھیردیتے ہیں) کیاکرتے کماکے‘کوئی آگے نہ پچھے ‘(کیاکرتے کماکر‘ نہ کوئی آگے نہ کوئی پیچھے)مرے تو کوئی پانی ڈالنے والابھی نئیں (اگرمرجائیں تو کوئی پانی پلانے والا بھی نہیں) وغیر وغیرہ ۔‘‘
لیکن وہ اپنی قدرت کے یوں جلوے دکھاتاہے کہ کسی کو ضعیفی میں صاحب ِ اولادبنادیتاہے۔
آنکھ والا تیری قدرت کا تماشہ دیکھے
دیدۂ کور کو کیا آئے نظر وہ کیا دیکھے
ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ شادی کے دس بارہ حتی کہ بیس برس بعد بھی زوجین کوبچوں کی نعمت حاصل ہوئی ۔ لیکن اس صبرآزما اور غیریقینی کے مرحلے میں ثابت قدم رہنابہت مشکل ہوتاہے ۔انسانوں کے اختیار میں علاج ومعالجہ اوردعاکے سواکچھ نہیں۔وہی ہوگا جو خالق ومالک چاہے گا‘وہ بیٹے بھی عطاکرسکتا ہے اور بیٹیاں بھی یا پھر وہ کسی کو بے اولاد بھی رکھ سکتا ہے ‘ اس کی منشا‘ اس کی مصلحت ‘اسی کی قدرت اوراسی کا اختیار (کوئی بابایاعامل اولاد کے نام پرآپ کو دھوکہ ضروردے سکتے ہیں) :
’’آسمان اورزمین کی بادشاہی اللہ کے لیے ہے ‘ وہ جو چاہتا ہے پیداکرتا ہے ۔وہ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطاکرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے عطاکرتا ہے ۔ یا ان کو جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اوربیٹیاں بھی ۔اورجس کو چاہتا ہے بے اولادرکھتا ہے ۔بے شک وہ جاننے والا ‘ قدرت والا ہے۔‘‘(سورہ الشوریٰ:49-50)
مسلسل بیٹیوں کی پیدائش پر یاپھر بچے نہ ہونے کی صورت میںکسی پر فقرے کسنے اورطعنے دینے سے پہلے ان آیات پرغورکرناچاہیے۔وہ اگربے اولادی کو کسی کے حصہ میں ڈالنے کی قدرت رکھتا ہے تووہ کسی بانجھ عورت کوبارآور کرنے پر بھی قادرہے ۔وہ بنجرزمین کو سرسبز وشاداب بھی کرسکتا ہے ‘وہ کسی سوکھی ٹہنی پر برگ وباربھی لاسکتا ہے ۔
مرے کریم جو تیری رضا مگر اس بار
برس گزر گئے شاخوں کو بے ثمر رہتے
انسان وہی ہے جو اپنی خانہ بدوش طبیعت سے باہر نکل کر اپنی حیثیت کے لیے کوئی مستقل ٹھکانہ بنالے۔ اور اس کی تیاری کی خاطر اپنے آپ کو نکھارنے اور سنوارنے کی کوشش کرتا رہے۔ اور یقینا انسان یہ عمل کرتا بھی رہتا ہے اپنی پیدائش سے لے کر زندگی کے ختم ہو جانے تک اس کے معیارات اور ترجیحات تبدیل ہوتے رہتے ہیں وہ مسلسل اپنی صلاحیتوں کو جِلا دینے میں لگا رہتا ہے۔ لیکن اس تگ و دو میں جو سب سے اہم کام اس کی نظروں سے اوجھل رہتا ہے وہ یہ کہ ظاہری صلاحیتوں کی نشوونما میں وہ اپنے باطن کی نشوونما کو بھول جاتا ہے۔ انسان ظاہر کو سنوارنے کی خاطر لاکھوں جتن کرتا ہے لیکن باطن کی اصلاح کے لیے ایک چھوٹا سا قدم بھی نہیں اٹھاتا، کبھی اپنے احوال کمیوں کوتاہیوں پر نظر نہیں کرتا۔
تبدیلی آسکتی ہے یا نہیں؟
غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ انسان کے ایسا کرنے کے پیچھے کچھ اہم وجوہات ہوتی ہیں جن کی وجہ سے انسان کا ذہن ہی کبھی اس طرف نہیں جاتا کہ اسے اپنے اندرون اخلاق و کردار کی بھی مرمت کرنی چاہیے۔ گر چاہتا بھی ہے تو آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کرپاتا کیونکہ وہ سوچتا ہے کہ یہ اخلاق و کردار تو قدرت کی طرف سے عطا کیے گیے ہیں ان میں ترمیم کیسے کی جاسکتی ہے؟
لیکن اس بات کا صحیح جواب یہ ہے کہ ہر انسان فطرتا سلیم الطبع، موحد ہی پیدا ہوتا ہے لیکن پھر اس کے والدین، اس کا ماحول اور دیگر عوامل اسے مختلف حصوں میں تقسیم کردیتے ہیں اور اس کی شخصیت کو خلط ملط کردیتے ہیں۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما من مولودٍ إلايولَدُ على الفَطرَةِ، فأبواه يُهَوِّدانِه أو يُنَصِّرانِه أو يُمَجِّسانِه
ترجمہ: ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے لیکن اس کے والدین اُسے یہودی یا عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔ (صحيح البخاری: 1358 صحيح مسلم: 2658)
اس حدیث میں اس بات کی دلیل پائی جاتی ہے کہ انسانی فطرت میں تبدیلی کی قابلیت موجود ہے۔ تب ہی تو اللہ تعالی نے فرمایا:
قَدْ أَفْلَحَ مَن زَكَّاهَا ﴿٩﴾ وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّاهَا
ترجمہ: "یقیناً فلاح پا گیا وہ جس نے نفس کا تزکیہ کیا (9) اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا“۔(سورہ الشمس 9-10)
اور نفس کا تز کیہ ہی در اصل ادب ہے جس کے حصول کی کوشش کرنا ہر انسان کے لیے ضروری ہے۔ انبیاء و رسل کی تاریخ گواہ ہے کہ جو لوگ بھی اُن پر ایمان لائے انھوں نے اپنے ایمان سے پہلے کے عادات و اطوار میں تبدیلی لائی اور اسلامی آداب و اخلاق کو اپنایا لہذا جو شخص بھی اللہ سے مدد طلب کرتے ہوئے ادب و اخلاق کے حصول کے لیے اپنے نفس کو آمادہ کرتا ہے وہ بلا شبہ ادب کی دولت سے مالا مال ہوگا اور اس کے اخلاق و کردار میں تبدیلی ضرور آئے گی۔ اگر اخلاق و کردار میں تبدیلی ممکن نہ ہوتی تو انبیاء و رسل کو بھیجنا اور ان پر کتابیں اور شریعتیں اتارنا سب کچھ شاید لاحاصل تھا۔
یہ بات کتاب و سنت سے بھی ثابت شدہ ہے اس کے علاوہ ایک اور اہم بات کہ انسان دوسروں کے ساتھ جس اخلاق سے پیش آتا ہے وہ اخلاق دراصل اس کے اندرونی ایمان و عقیدہ کا نتیجہ ہوتے ہیں کیونکہ اچھے اخلاق اعمال کا ایک اہم حصہ ہیں:
أكمل المؤمنين إيماناً أحسنهم خلقاً۔ (ابوداود 4682)
اہل ایمان میں سب سے کامل وہ شخص ہے جس کے اخلاق اچھے ہوں۔
جس کی تائید حدیث رسول بھی کررہی ہے تو ہمیں لازما اور عاجلا کسی بھی عمل سے پہلے اپنے اخلاق و کردار کی اصلاح کے لیے کوشش شروع کردینی چاہیے۔
انسان کو چاہیے کہ مشکل ترین حوصلہ شکن حالات میں بھی وہ اپنی اصلاح سے مایوس نہ ہو۔ گر اسے اپنی خامیاں اور غلطیاں نظر آرہی ہیں اور اسے بخوبی اس کا ادراک بھی ہے تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کا شعور ابھی بھی زندہ ہے اس کا ایمان ابھی بھی اس کے نفس لوامہ میں سانسیں لے رہا ہے تو ایسے میں غمگین ہو کر ڈھے جانے کا وقت نہیں، بلکہ دکھوں اور نا امیدی سے نکل کر بغیر وقت گنوائے اپنی اصلاح شروع کرنے کاوقت ہے۔
انسان اشرف المخلوقات ہے اسے اپنے مزاج اور اخلاق میں تبدیلی لانا کوئی پہاڑ سر کرنے جیسا معاملہ نہیں۔ اگر مختلف النوع حیوانات دوسرے مختلف حیوانات کے ساتھ ان کی پرورش و تربیت میں ڈھل کر ان جیسے بن سکتے ہیں تو انسان کیوں نہیں۔
بکری کے باڑے میں پلنے والا شیر کا بچہ بکریوں جیسے چال چلن اپنا لیتا ہے جبکہ اس کی فطرت وحشی درندوں کی ہوتی ہے تو سوچنے کا مقام یہ ہے کہ اگر جانور ٹریننگ اور تربیت سے اپنی فطرت سے تبدیل ہوسکتے ہیں تو پھر انسان کیوں نہیں؟
دنیا کے تمام مذاہب کا اخلاق کے تعلق سے ایک ہی پیغام عام رہا ہے۔ اگر باطل ادیان نے بھی اچھے اخلاق کی تعلیم دی ہےتو اسلام تو سب سے اعلی و اولی دین ہے۔ اس لیے اخلاق کو سنوارنا نکھارنا، رذائل اور عادات قبیحہ کو دور کرنا اگر ناقابل عمل اور بے نتیجہ ہوتا تو اس کا حکم ہرگز نہ دیا جاتا کیونکہ شریعت اللہ کی اجازت سے نازل کردہ ہے لہذا اس کا کوئی حکم عبث نہیں ہوسکتا۔
جیسے اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں:
إِنَّمَا الْعِلْمُ بِالتَّعَلُّمِ، وَإِنَّمَا الْحِلْمُ بِالتَّحَلُّمِ، مَنْ يَتَحَرَّى الْخَيْرَ يُعْطَهُ، وَمَنْ يَتَّقِ الشَّرَّ يُوقَهُ، وحسنه الألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة تحت رقم (342)
اسی طرح اللہ کے نبی کی یہ دعا:
وَاھْدِنِیْ لِاَحْسَنِ الْاَخْلَاقِ لَایھْدِیْ لِاَحْسَنِھَا اِلَّا اَنْتَ وَاصْرِفْ عَنِّیْ سَیّئَھَا لَایصْرِفُ عَنِّیْ سَیّئَھَا اِلَّا اَنْتَ
بہترین اخلاق کی طرف میری رہنمائی کر کیونکہ تیرے سوا اور کوئی بہترین اخلاق کی طرف رہنمائی نہیں کر سکتا اور برے اخلاق کو مجھ سے دور کر دے کیونکہ بجز تیرے اور کوئی بد اخلاقی سے مجھے نہیں بچا سکتا۔
(مسلم کتاب :6 باب 262،حدیث )
اخلاقی تبدیلیاں کیوں؟
دنیا کی تمام ذمہ داریوں سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ انسان اپنے اخلاق و کردار کی اصلاح کرلے کیونکہ اس کے عادات و اطوار پر ہی اس کی دنیا اور آخرت منحصر ہے۔ وہ جس قدر حساس، متواضع، ملنسار، نرم خو ہوگا اس دنیا میں وہ لوگوں کے درمیان ان کے دلوں میں بڑی آسانی سے اپنی جگہ بناتا چلا جائےگا اور یہ ظاہری بات ہے کہ جب اس کے تعلقات لوگوں سے خوشگوار ہوں گے تو اسے دنیا میں بھی فائدہ حاصل ہوگا اور اخروی زندگی میں بھی ملے گا۔
ابتدا کہاں سے ہو؟
جہاں بات ہورہی ہے اخلاق و کردار کو سنوارنے کی تو پھر فوری طور پر یہ سوال کھڑا ہوتا ہے کہ اتنے مشکل کام کی ابتدا کہاں سے ہو؟ کون کون سے کام کیے جائیں کیسے کیے جائیں اور کب کیے جائیں۔ کیا حکمت عملی اپنائی جائے جس سے یہ مقصد حاصل ہوسکے۔
سب سے پہلے انسان اپنا کردار متعین کرے کہ جن لوگوں کے ساتھ وہ اٹھتا بیٹھتا ہے ان کے تئیں وہ اپنی ذمہ داریوں سے پوری طرح آگاہ ہوجائے کہ اس کے آس پاس بکھرے رشتوں میں اس کی ضرورت، وسعت اور حدود کہاں سے کہاں تک ہیں؟ اسے کس طرح اپنی ذمہ داری محبت اور لگن کے ساتھ نبھانی ہے تاکہ رشتوں کے معاملے میں اسے زندگی کی غیر ضروری الجھنوں سے بھی راحت حاصل ہو۔
انسان کی بد اخلاقیوں کی ایک بہت بڑی وجہ اس کی اپنی وہ کمیاں اور کوتاہیاں ہوتی ہیں جنھیں وہ اپنوں کے لیے پوری طرح انجام نہیں دے پاتا۔ لہذا پہلے اپنے رول لکھیں پھر اپنے گول لکھیں۔ اور جب تک آپ اپنی ذمہ داریوں کو بہتر طریقے سے انجام نہیں دیں گے اس وقت تک آپ کے اندر کڑھن، چبھن اور تکلیف موجود رہے گی جو آپ کو اپنی ذات پر کام کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
دوسروں کی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے انسان اب اپنے آپ پر کام کرنا شروع کردے۔ شخصیت کو بیلنس کرنے اور اخلاق میں بہتر تبدیلی لانے کے لیے ضروری ہے کہ انسان ان چار چیزوں میں توازن رکھنا سیکھ لے اور حسب ضرورت ان کی تربیت بھی کرے: جسم، عقل، روح، جذبات
(۱)جسمانی تربیت:
کہا جاتا ہے کہ انسان جو کھاتا ہے وہی بن جاتا ہے لہذا ضروری ہے کہ انسان اپنی شخصیت میں توازن کی خاطر اپنی کھانے پینے کی عادات میں سب سے پہلے سدھار لائے تاکہ اس کا جسم فاضل، فاسد اور مضر مادوں سے محفوظ رہ سکے اور اس کی طبیعت میں تیزی و ترشی نہ آنے پائے۔
کم کھانے سے آدمی کے دل میں رقت و نرمی منکسر المزاجی پیدا ہوتی ہے اور نفسانی خواہشات اور غصہ میں بھی کمی واقع ہوتی ہے جب کہ شکم سیری انسان کے اندر بے شمار برائیاں پیدا کرتی ہے اس کے نتیجے میں آدمی کے اندر معاصی کی طرف رغبت اور خواہش پیدا ہوتی ہے۔
لہذا حاصل کلام یہ ہے کہ جو اپنے پیٹ کے شر و برائی سے نجات پاگیا وہ ایک بڑے شر سے نجات پاگیا۔ یہاں ابراھیم بن ادھم ؒ کا قول قابل ذکر ہے جسے اپنے پیٹ پر قابو حاصل ہوگیا اسے اپنے دین پر قابو حاصل ہوگیا اور جس نے اپنی بھوک پر غلبہ پالیا اسے اخلاق عالی حاصل ہوگیے کیونکہ”بھوکے آدمی سے اللہ کی معصیت دور اور شکم سیر سے قریب رہتی ہے”۔ جسمانی خیال رکھنے سے مراد یہ ہے کہ انسان زیادہ سونے اور زیادہ کھانے سے پر ہیز کرے۔ کیونکہ ہر چیز کی زیادتی مضر ہوتی ہے ایک توانا جسم اللہ کی دی گئی سب سے بڑی نعمت ہے۔ "لنفسک علیک حقا” کے تحت انسان اپنے جسم کی صفائی ستھرائی کا بھی خوب خیال رکھے یہ سنت رسول ہے کہ مومن پاکیزگی کے اعلی معیار پر قائم رہے۔ جسم کو ہر طرح کی آلودگی سے بچاکر رکھا جائے خواہ وہ آلودگی حرام خوری کی ہو یا پھر نشہ خوری کی۔
جو انسان خود کو اور اپنی زندگی کو بہتر بنانا چاہتا ہو لازم ہے کہ وہ اپنے جسم کا خیال رکھنے والا ہو کیونکہ اس کے معاملات اور تعلقات کا سیدھا تعلق اس کی طبیعت اور مزاج سے ہے اور ان کا تعلق اس کی خوراک اور روز مرہ کے مشغلے سے ہے۔ ہلکی پھلکی غذا لے اور اور متحرک زندگی جیے تاکہ زندگی کو بوجھل بنانے کی بجائے ہلکی کرسکے۔
(۲)عقلی تربیت:
اخلاقی اصلاح کی خاطر یہ بھی ضروری ہے کہ انسان اپنی عقلی نشونما پر دھیان دے۔ جیسے وہ عمر کے کسی بھی حصے میں ہو لیکن وہ پڑھتا رہے سیکھتا رہے علم حاصل کرتا رہے۔ اور اس کا سب سے موثر ذریعہ ہے مطالعہ اور کتب بینی۔
مطالعہ کے جہاں ان گنت فوائد ہیں ان میں ہمارے لیے سب سے قابل ذکر فائدہ یہ ہے کہ مطالعہ ذہنی تناؤ دور کرتا ہے۔
2009 میں برطانیہ کی یونیورسٹی آف سسیکس میں کی گئی ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مطالعے کی عادت ذہنی تناؤ اور پریشانی کو 68 فیصد کم کرتی ہے۔ ڈاکٹر کے مطابق مطالعہ انسان کو پریشانیوں اور فکروں سے آزاد کراتا ہے۔ اس کے علاوہ شعور اور سوچ کو بھی تبدیل کرنے میں مدد دیتا ہے۔ تو اس سے ثابت یہ ہوا کہ انسان جب تناو سے آزاد ہوگا تو اس کا رویہ ہر کسی سے خوشگوار ہوگا اور اسے دوسروں کو سمجھنے کا موقع بھی فراہم ہوگا کیونکہ یہ بات بھی تحقیق شدہ ہے کہ کتب بینی ذہنی انحطاط کو روکتی ہے۔ مطالعہ کے عادی افراد سماج میں بہترین تعامل پیش کرتے ہیں اور اپنے نظریات، عقائد، خواہشات اور سوچ کو بہتر انداز میں دوسروں کو سمجھا سکتے ہیں۔
لہذا ہمارے لیے ضروری ہے کہ اپنی عقلی پرورش کرتے وقت سب سے پہلے دنیا کی عظیم اور موٹیویشنل کتاب پڑھی جائے جو بلا شک و شبہ قرآن کریم کے علاوہ کوئی اور کتاب ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ کتاب صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کرنے والی، دکھی دلوں کا سہارا اور ڈھارس بندھانے والی کتاب ہے اور حرف بحرف اس میں سچے وعدے اور خوش خبریاں ہیں جو ہر طرف سے مایوس انسان کے لیے صحرا میں بادل کی نوید کا کام کرتے ہیں۔ انسان کو مایوسی کے گھیرے سے باہر نکال کر لاتے ہیں اور ایک عام سے انسان کو رحمن کا بندہ بناتے ہیں۔
اس کے علاوہ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے شوق اور ضرورت میں فرق ملحوظ رکھے بلاوجہ خود پر خواہشات کا بوجھ لے کر نہ پھرے ورنہ خواہشات کی عدم تکمیل اسے اور بد مزاج اور چڑچڑا بنانے والی ہوسکتی ہے۔ مثبت سوچ کے ساتھ مثبت لوگوں کے درمیان اپنے وجود کی پہچان بنائے رکھے۔
اسی طرح انسان عمدہ اخلاق کے فضائل اور اس کے فوائد پر اپنی نظریں گاڑ کر رکھے تاکہ وہ ان کا حریص بن جائے اور ہر قیمت پر انھیں اپنانے کا متمنی بن جائے اور بد اخلاقی کے انجام یعنی بدنامی رسوائی اور حقارت بھرے رویوں کو نگاہ میں بطور عبرت رکھے تاکہ وہ بد اخلاقی سے بچ سکے۔
پختہ عزم اور مضبوط ارادے کے ذریعے اپنی زندگی میں بہتر تبدیلی یقینی طور پر لائی جاسکتی ہے۔
(۳)روحانی تربیت:
اخلاق میں سدھار اور تبدیلی لانے کی لیے یہ امر سب سے ضروری ہے کہ انسان اپنی روحانی تربیت کے ذریعے اپنی اخلاقی کمیوں کو پُر کرے۔ جس کے واسطے یہ لازم ہے کہ انسان کا اپنے خالق سے رابطہ مضبوط ہو نماز کے ذریعے، اذکار و نوافل کے ذریعے۔ انسان اگر کوئی کمی اپنے اندرون میں پاتا ہے تو اس کا تدارک کرنے کی خاطر اپنی نمازوں کو بڑھادے، انھیں خشوع و خضوع سے مزین کرے کیونکہ بے روح سجدے گر صدیوں بھی قائم رکھے جائیں تو کوئی انقلاب نہیں لاسکتے نہ ہی انسان کو ان سجدوں سے خیر و برکات حاصل ہوپاتی ہیں۔ اور ایسے سجدوں کے اثرات انسانی زندگی پر اپنی کوئی چھاپ نہیں چھوڑ پاتے ہیں۔ لہذا جو حقیقی فلاح کا متمنی ہے اسے چاہیے کہ وہ اپنی روحانی تبدیلی پر خاصا اہتمام کرے کیونکہ یہی اصل اخلاقی تبدیلی ہے۔
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ (سورة مومنون)
کامیاب ہوگیے وہ ایمان والے جو اپنی نمازوں میں خشوع قائم کرتے ہیں۔
اخلاق کی تبدیلی کے لیے چاہیے کہ بندہ اپنی عبادات میں خشوع و خضوع پیدا کرے کیونکہ ایک اچھی نماز کے بغیر روحانی مضبوطی اور رحمانی تعلق کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔
ایک بہترین نماز ایک مثالی مومن تیار کرتی ہے اور مثالی مومن کے متعلق اللہ کے رسول فرماتے ہیں:
حضرت ابن مسعودؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:
’’ مومن نہ تو طعنہ دینے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ فحش گو اور نہ زبان دراز۔‘‘ (جامع ترمذی1977)
بداخلاقی کی سب سے بڑی مثال گالی گلوچ اور جھگڑا ہیں۔ ایک اعلی اوصاف کا مومن ان تما م برائیوں کے محاذ پر نماز کو ڈھال بناکر چلتا ہے۔ کیونکہ نماز تمام طرح کی بے حیائیوں سے روکتی ہے ایک ایسی نماز جو خشوع و خضوع کے ساتھ احسان کی صورت ادا کی گئی ہو۔ ساتھ ہی توبہ و استغفار کو لازم پکڑے اور اپنے اس عمل پر استقامت رکھے۔ اذکار و تلاوت کا بھی اہتمام کرے۔
ان شاءاللہ اس کی محنت شاقہ کا نتیجہ اللہ عزوجل ضرور دے گا کیونہ یہ اس کا وعدہ ہے کہ:
فَمَنۡ یَّعۡمَلۡ مِثۡقَالَ ذَرَّۃٍ خَیۡرًا یَّرَہٗ ؕ﴿۷ الزلزال)
جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا۔
لہذا جو اپنے اندر اعلی اخلاق پیدا کرنے کی کوشش کرے گا اللہ تعالی اسے کبھی نامراد نہیں کرے گا۔ جس شخص کو اچھے اخلاق پر اللہ سے اجروثواب کی امید ہوگی وہ یقینی طور پر اچھے اخلاق کو اپنائے گا اس پر قائم ہوگا اور دوسروں کی رہنمائی بھی کرے گا۔
اور حسن اخلاق سے متعلق آیات و احادیث کثرت سے پڑھنے اور دل میں بٹھانے سے یہ مقصد ضرور پورا ہوگا ان شاءاللہ
(۴) جذباتی تربیت:
اعزہ و اقارب کے ساتھ ملنا جلنا اور بیٹھنا، تحفے تحائف کا تبادلہ اور خوشگوار ملاقاتیں کرنا اچھے اخلاق سے پیش آنا پرانی باتوں کے حوالے سے دلوں میں وسعت پیدا کرنا، یہ سب کچھ انسانی طبیعت پر انتہائی حیرت ا نگیز نتائج چھوڑتے ہیں، طبیعت میں تروتازگی آتی ہے، آپس میں جذبہ انس و رحم پیدا ہوتا ہے اور اپنوں کے بیچ بیٹھنے سے انسان کو ایموشنل سطح پر بہت ہی مضبوطی حاصل ہوتی ہے، آپسی کدورت صاف ہوتی ہے اور انسان بیرونی دنیا کی ہزاروں پریشانیوں سے نجات پاتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے اخلاق میں عمدگی اور نرمی پیدا ہوتی ہے، جس کی خوشی اور اس کے واضح اثرات انسان کے چہرے اور لہجے سے محسوس کی جاسکتی ہے۔
اپنے اخلاق میں رقت اور نرمی پیدا کرنے کی خاطر انسان کو چاہیے کہ وہ غرباء، مساکین اور سماج کے دبے کچلے لوگوں سے بھی سلام دعا کرتا رہے، انھیں تحائف دیتا رہ، یتیموں کے سر پر دست شفقت رکھے ان کا مربی بنے۔
یہ کچھ ایسے کام ہیں جن پر آپ یقین رکھ کر پڑھیں۔
ان امور کو انجام دینے سے بے انتہا سکون حاصل ہوتا ہے، دل کی سختی کم ہوتی ہے اور دل و دماغ اور جذبات میں تواضع اور انکسار پیدا ہوتا ہے جس کی وجہ سے انسان کی درشتی اور کھردرا پن جیسی عادتیں ختم ہوتی ہیں۔ اپنے سے کمتر لوگوں سے تواضع کے ساتھ ملنا اور خود سے بڑے لوگوں کے ساتھ توقعات کے بغیر ملنا یہ یقینا عظیم لوگوں کا کام ہے۔ اور آپ کو وہ عظیم انسان بننا ہے۔
یہ سب کچھ کرنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں۔ آپ بلند ہمت ہیں یہ تحریر آپ ہی کے نام ہے اور جو بلند ہمت ہوتے ہیں وہ ہمیشہ بلندیوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور کم ہمت لوگ پستی پر راضی رہتے ہیں۔ ایک بلند ہمت انسان اپنی ہمت کے بل بوتے اخلاق کی اعلی سطح پر پہنچنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ اسے اس دنیا میں باعزت زندگی نصیب ہو اور موت کے بعد اس کا ذکر جمیل اور خوشنما یادیں لوگوں میں قائم رہیں اور اس دنیا کے بعد کی اخروی زندگی میں جنت کی نعمتیں اللہ کی رضا اور اس کے رخ مبارک کا دیدار اس کو حاصل ہوں۔تو آئیے ہم سب اپنے اخلاق کو بہتر بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک نیم تاریک بے ترتیب سا کمرہ‘شوہر کی وفات سے نڈھال ایک عمر رسیدہ خاتون‘اس کمرے کی ہرشئے پراداسی نے سایہ کررکھاتھا‘ایک اچھاخاصا روشن دن‘اس کمرے کی دہلیز تک آتے آتے کس قدر بوجھل پن کا شکارہوگیاتھا۔تعزیت کو پہنچنے والی خواتین سے وہ بہت ہی تحمل سے مل رہی تھیں‘پھروہ یوں گویا ہوئیں:”انہیں (شوہرکو) شوگر تھی‘اور بچیوں کی شادی کی فکربھی“اس بات پر تیس سے بتیس سال کی ان کی چار لڑکیاں خودکو کچن کے کونوں کھدروں میں چھپانے کی ناکام کوشش کرنے لگیں۔قدرے پستہ قد اورفربہ وہ چار بہنیں ایک دوسرے کویوں دیکھنے لگیں گویا ان کا وجود ان کے والد کی عدم موجودگی اور ان کی ماں کے لہجے میں اترآئی افسردگی کاسبب ہو۔ان لڑکیوں کا ایک ہی بھائی ہے جو خود بھی شادی کے قابل ہے لیکن وہ اپنی بہنوں کی شادی کے لیے محنت مشقت میں جٹاہوا ہے‘ وہ لڑکے والوں کے مطالبات پورے کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔لیکن وہ اپنی بہنوں کو لڑکے والوں کے لیے قابلِ قبول کس طرح بنائے؟”ویری فیئر‘ درازقد‘ سلم‘بیس بائیس سال کی پروفیشنل ڈگری کی حامل لڑکی“ کی جنہیں تلاش ہو‘وہ بھلاان لڑکیوں کا انتخاب کیوں کریں؟
شہرحیدرآبادکے ایک اردو روزنامہ کے ایک صفحہ پرلڑکوں کے لیے شائع شدہ 94ضرورت رشتہ کے اشتہارات کا جائزہ لیاگیا۔
84 فیصد اشتہارات میں ویری ویری فیئر‘ویری فیئر‘ فیئر‘خوبصورت‘سلم‘درازقد لڑکی کا مطالبہ کیاگیا تھا‘ محض 15 اشتہارات ایسے تھے جن میں فیئرکلر یا خوبصورتی کا مطالبہ نہیں تھا‘اس کی بجائے پروفیشنل اور اعلی تعلیم کا مطالبہ کیاگیاتھا‘محض ایک اشتہار ایساپایاگیا جس میں خوب سیرت اور قبول صورت لڑکی کا ذکر کیا گیا تھا۔ ضرورت رشتہ کے اشتہارات کے تجزیہ سے اس بات کا بھی علم ہوا کہ لڑکے والے پروفیشنل ڈگری کی حامل لڑکیوں کوترجیح دینے لگے ہیں‘ایسے اشتہارجن میں No Demands لکھاتھا انہوں نے پروفیشنل لڑکی کا مطالبہ کیاتھا۔
بعض اشتہارات میں بطورخاص یہ درج ہوتا ہے کہ’سید‘لڑکی نہیں چاہیے‘اوربعض سرپرست لکھتے ہیں کہ فاتحہ درود والے ہی ربط پیدا کریں‘اورکچھ یوں درج کرتے ہیں کہ فاتحہ درود والے زحمت نہ کریں۔ آج کل شرک وبدعات سے پاک دیندارلڑکیوں کا مطالبہ بھی بڑھ گیا ہے لیکن ایسی دینداری جو ویری ویری فیئر‘سلم اورشارپ فیچرس والی نہ ہو کسی کام کی نہیں۔
کئی خاندان ایسے ہیں جہاں لڑکیوں کی عمر تیس برس سے تجاوز کرچکی ہے اوران کے نکاح کی کوئی صورت بنتی ہوئی نظرنہیں آتی۔کچھ سرپرست سمجھوتہ بھی کرلیتے ہیں‘بڑی لڑکی کو مناسب رشتہ نہ ملے اور لڑکے والے چھوٹی لڑکی کو پسند کرلیں تو بڑی کی بجائے چھوٹی لڑکی کی شادی کردیتے ہیں‘حسینی علم کی صائمہ(نام تبدیل) بن بیاہی رہ گئیں اور ان کی چھوٹی بہن کی شادی ہوگئی اوروہ دو بچوں کی ماں بن گئیں۔
35سالہ عائشہ (نام تبدیل)کے چہرے پر ایک نقص کے سبب ان کی ابھی تک شادی نہیں ہو پائی اور ان سے پانچ سالہ چھوٹی بہن کی آٹھ سال قبل شادی ہوگئی اور وہ چاربچوں کی ماں ہے۔ایک سال قبل اس کے چھوٹے بھائی کی بھی شادی کردی گئی۔
38 سالہ مریم(نام تبدیل) اپنی دونوں چھوٹی بہنوں کو سسرال وداع کرکے اپنی ضعیف ماں کے ساتھ تنہاء رہ رہی ہیں۔ان سے چھوٹی بہن کے نین نقش بہت اچھے ہیں۔اورسب سے چھوٹی بہن کا رنگ بہت فیئرہے۔عام شکل و صورت کی مریم کے لیے مناسب رشتہ نہیں مل رہا تھا اورچھوٹی بہنوں کو ان کے رنگ روپ کے سبب رشتوں کی کمی نہیں تھی۔لہٰذا دونوں بہنوں کی شادی کردی گئی۔اس دوران مریم کے والد بھی گزر گئے۔وہ ایک عرصہ تک اسکول میں ملازمت کرتی رہیں‘اورگھرکاخرچ برداشت کرتی رہیں۔ان کی شادی شدہ کزنزانہیں ”باجی“ کہہ کر ہر وقت یہ احساس دلایاکرتی ہیں کہ وہ ان سے عمر میں بڑی ہیں اور اب تک بن بیاہی بیٹھی ہیں۔ مریم کی بڑھتی عمر اور معمولی فیچرس کو پیش نظررکھ کر لوگ ان کے لیے عقد ِثانی کے رشتے لے آتے ہیں‘ جنہیں وہ ٹھکرادیتی ہیں۔ مریم کاکوئی بھائی نہیں ہے۔کبھی انہیں معاشی تنگدستی کاسامنا رہا کرتا تھا‘ اب یہ مسئلہ بھی نہیں ہے۔شادی کے معاملے میں وہ کوئی سمجھوتہ نہیں کرنا چاہتیں۔ ا نہیں اپنے آئیڈیل کی تلاش ہے۔بظاہربے فکر اوربولڈ دکھائی دینے والی مریم کہتی ہیں:”من کے اندر کی بات کوئی نہیں سمجھ سکتا‘ جب میری عمرچوبیس پچیس سال تھی تو میرے لیے کوئی ڈھنگ کارشتہ نہیں آیا‘ میری بہنوں کوکئی رشتہ آیاکرتے تھے‘مجھے اگر مناسب رشتہ مل جاتا تو کیا میں تب بھی انکارکرتی؟ پھر باباگزرگئے‘گھر کی ذمہ داری مجھ پر آگئی‘ بہنیں سسرال کی ہوگئیں‘ وقت تیزی سے بھاگتا رہا۔آج خاندان والے کہتے ہیں‘ چالیس کی ہوگئی‘ ابھی تک شادی نہیں کی‘اب اس عمر میں جو بھی رشتہ آئے‘ غنیمت ہے‘لیکن اس لڑکی کا دماغ تو ساتویں آسمان پر ہے۔“
معین باغ کی 37 سالہ تحسین(نام تبدیل) گندمی رنگت اورمعمولی فیچرس کی حامل تھیں اور ان کی تینوں بہنیں فیئراوردبلی پتلی۔تینوں کی شادی مناسب وقت پرہوگئی اورپچھلے کئی برسوں سے تحسین کومناسب رشتہ نہیں مل پایا۔گوری رنگت کی ڈیمانڈ کودیکھتے ہوئے انہوں نے کوئی فیئرنیس کریم اپنے چہرے پرلگالی‘ رنگت نکھرنے کی بجائے ان کا چہرہ ہی خراب ہوگیا اورگندمی رنگت سیاہی مائل ہوگئی۔پورے خاندان نے لعنت ملامت کی کہ کیوں فیئرنیس کریم لگائی‘بزرگ خواتین نے کہا کہ ابٹن لگاتیں‘کریم لگاکرچہرے کو اورکیوں بگاڑلیا؟یوں فیئرنیس کریم سے تحسین کا مسئلہ توحل نہیں ہوا‘ہاں طنز اورطعنوں کے ساتھ ساتھ ذہنی اذیت میں اضافہ ضرور ہوا ہے۔
خلوت کی 22 سالہ تبسم (نام تبدیل)کا رشتہ بڑی آسانی سے ہوگیا‘وہ درازقد ہونے کے ساتھ ساتھ گوری اور دبلی پتلی بھی ہے۔لیکن اس کی 28 سالہ بہن تسنیم (نام تبدیل)کا رنگ صاف توہے لیکن وہ کافی پستہ قد اور کچھ فربہ بھی ہے۔تبسم اپنے رنگ روپ اور دراز قد پراتراتی پھرتی ہے۔جب سے تبسم کی منگنی ہوئی ہے‘تسنیم کے لیے مشکلات اور بھی بڑھ گئی ہیں۔ ارکان خاندان کا تکلیف دہ رویہ‘ماں کے طعنے اور لوگوں کے چبھتے ہوئے سوالوں نے اسے بدمزاج بنادیا ہے۔کچھ احساس کمتری اورمحرومی کادخل بھی ہے کہ ہر دوسرے دن اس کی ماں یابہن سے بحث ہوجایاکرتی ہے۔اب تو وہ اپنے ”ہونے“ پر ہی ملامت کرنے لگی ہے کہ بچپن ہی میں مارڈالتے‘زندہ کیوں رکھا؟
شادی میں تاخیرکامسئلہ محض صائمہ‘عائشہ‘مریم‘ تحسین یاتسنیم کا نہیں ہے‘اس فہرست میں سینکڑوں بلکہ ہزاروں ایسی لڑکیوں کے نام جڑسکتے ہیں‘ جن کی عمر تیس برس سے زیادہ ہوچکی ہے یا تیس برس کے قریب پہنچ چکی ہے۔کہیں کوئی مناسب رشتہ نہیں ملتا‘کہیں جہیز کی طویل فہرست کا تقاضہ پورا نہ کرسکنے کی مجبوری ہے۔ کہیں پستہ قد نے تو کہیں سانولی رنگت نے توکہیں روز بہ روز فربہ ہوتے جسم نے قیامت ڈھادی ہے۔
لڑکیوں کاوزن بڑھنے لگے تو مائیں اپنی بیٹیوں کومعمول کاکھاناکھاتا دیکھ کر بھی کڑھنے لگتی ہیں۔اور پڑوس کی دبلی پتلی کسی لڑکی کے حوالے سے طعنے دے کر جیناحرام کردیتی ہیں۔
لڑکیوں کی بڑھتی عمر اورمناسب رشتہ کا نہ مل پانا والدین کے لیے ایک بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے۔ اور ایسی لڑکیاں جو نہ توخوش شکل ہیں‘نہ دراز قد‘نہ سِلم نہ ہی پروفیشنل ڈگری کی حامل‘ان کا وجود اس بازارمیں کوئی ’یوایس پی‘نہ رکھنے کے سبب ایک بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔
یہی احسن ہے کہ لڑکے لڑکیوں کا مناسب عمر میں نکاح ہوجائے۔لیکن ترجیحات‘مطالبات اور معیارات کاکوہ گراں انتہائی سہل طریقے سے قائم ہونے والے اس تعلق میں حائل ہے۔
معہد ام القری یونیورسٹی کی ایک بزرگ پروفیسر ہیں، جن کے ساتھ بوجوہ اکثر رابطہ رہتا ہے۔ ایک دن فون آیا سلام دعا کے بعد پوچھنے لگیں "ولادت سے فارغ ہو گئی ہو تم؟”۔۔ "کیا مطلب دکتورة؟” میں نے حیرت سے پوچھا کیوں کہ وہ جانتی ہیں میں شادی شدہ نہیں ہوں۔ کہنے لگیں "میرا مطلب ہے امتحانات ختم ہوگئے ہیں تمہارے؟ حصول علم آسان معاملہ نہیں ہے اور میں تو اپنی بیٹی کو بھی یہی کہتی ہوں کہ علمی امتحانات کا وقت ولادت کے مانند مشکل ہوتا ہیں۔” اسلامی ممالک کی جامعات کے تعلیمی معیار اور امتحانات کے مشکل آسان ہونے میں اختلاف ہوسکتا ہے، البتہ علم کے حوالے سے ان کی تشبیہ مجھے بہت درست لگی۔
تو یہ بات سمجھنے کی ہے کہ علم تھکاوٹ و مشقت مانگتا ہے۔ کیفے میں بیٹھ کر دوستوں کے ساتھ قہقہے لگاتے ہوئے بے فکری سے سیکھنے سکھانے والا حصول علم کا تصور بالکل غلط نہیں تو نامکمل ضرور ہے۔ تنہائی، مصائب اور مشاکل کا ایک تسلسل ہوتا ہے جو ساتھ ساتھ چلتا ہے۔ "نجانے کیوں ان دنوں مجھ سے پڑھا نہیں جا رہا” کہنے والا طالب علم، ” پتہ نہیں کیوں پریگننسی نہیں ہورہی” کہنے والی سے زیادہ کرب میں ہوتا ہے۔ "نجانے میکہ میرا گھر ہے یا سسرال” کہنے والی سے زیادہ تنہا اور ڈائلما کا شکار اس دور میں دینی ومعاصر علوم سے ہمہ وقت واقفیت رکھنے والا طالب علم ہے۔
یہی مثال پھر میں نے ایک خاتون کو بچوں کی تعلیم کے حوالے سے دی ۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ بچے تین چار پانچ سال کی عمر سے اوپر پہنچ رہے ہیں اور ان کو ابھی تک گھر پر بھی تعلیم دینا نہیں شروع کی۔ توجہ دلاؤ تو عجیب عجیب بہانے تراشنے لگتی ہیں۔ "وہ ان کے بابا ایسے ہیں تو میں ایسی، سارا وقت تو ان کو نہلانے دھلانے کھلانے پلانے میں لگ جاتا ہے، تھکاوٹ ہوجاتی ہے” وغیرہ وغیرہ۔ میں نے کہا کہ جیسے ہر حال میں ان کا پیپمر تبدیل کرنا ہوتا ہے آپ کو اور ان کو کھانا کھلانا ہوتا ہے، بھلے آپ جتنی بھی تھکی ہوں، اسی طرح یہ ذہن بنا لیں کہ ان کو پڑھانا سکھانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ یہ مت سوچیں کہ باقی سب کام تو مشقت اور تھکاوٹ سے ہوں گے مگر تعلیم تو آسانی سے خودبخود ہوجائے گی، یا پھر تعلیم کو کسی ایسے بہانے کی بنا پر مؤخر کیا جاسکتا ہے جس بہانے کی بنا پر اس کو روز کپڑے پہنانا، باتھ روم لے جانا اور صاف کرنا مؤخر نہیں کیا جاسکتا۔ ویسے تو ڈوب مرنے کا مقام ہی ہے کہ ایک مسلمان کو یہ کہا جائے کہ علم اتنا اہم ہے جتنا کھلانا نہانا، مگر ان کی سمجھ سے قریب تر شاید یہی بات لگی تھی۔ مجھے تو بچپن میں اپنی امی کے ساتھ واشنگ مشین کے پاس بیٹھ کر ان سے سورة الطارق یاد کرنا آج بھی یاد ہے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب آٹومیٹک واشنگ مشین ہر گھر میں نہیں ہوتی تھی۔ احمد جاوید صاحب کی ایک گفتگو میں سنا تھا کہ ان کو فارسی ان کی دادی اماں نے سکھائی تھی۔ اس سب کے بعد آج کل کی "گھریلو” ماؤں کی سستی اور نااہلی سمجھ سے بالاتر ہے۔
میں تو ایسی ماؤں کو ہر صورت سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں، جو سمجھے خوب، جو ضد پر قائم رہے اس سے حیرت، تحقیر اور تضحیک کا رویہ ضرور شروع کردیتی ہوں۔ کہ وہ ہماری امت کے فرد/افراد اور نسلوں کو جاہل بنارہی ہے، اور اس امت کو عمدا جاہل رہنے والوں کو اپنی معاشرت میں قبولیت کا درجہ ہرگز نہیں دینا چاہیے۔
دن بھر کی خواری کے بعد گھر آتے ہی ان پر نظر پڑتے ہی تکان اور بیزاری سو کا لیول پار کرچکی ہوتی ہے اور ہو بھی نہیں کیوں نہ جہاں جہاں نظریں جاتی ہیں سلم ٹرم چیزیں دیکھنے کی عادت جو ہوچکی ہے حتی کہ ہتھیلی میں دبے ہوئے فون کے وال پیپر پر موجود دبلی پتلی سی حسینہ بھی منہ چڑارہی ہوتی ہے ۔تو پھر کچن سے اچانک پانی کا گلاس تھامے باہر آنے والی اس منہ جھاڑ سر پہاڑ والی مخلوق کو دیکھ کر شوہر کا موڈ کیوں نہ آف ہو ۔پورے دن کی تھکان اور انتظار کا یہ بدلہ ہے کہ اس پر ایک انتہائی ناگوار سی نظر ڈال کر اپنے روٹین میں مشغول ہوجائیں۔
یہ تقریبا ہر مشرقی میاں بیوی کی کہانی ہے۔لیکن میرا مدعا ہے انھیں ’ کمر سے کمرہ تک‘ کا سفر کروایا کس نے،چھوئی موئی سی لڑکی فقط ایک ہی بچے کی ولادت کے بعد ’گوشت کا پہاڑ‘بنی کیسے؟کیا واقعی کوئی ان باتوں کی وجوہات جاننے میں دلچسپی رکھتا ہے یا فقط بیوی کے موٹاپے پر گڑھے گئے چٹکلے سننے میں ہی دلچسپی ہے ۔کبھی کبھار سچ کا سامنا بلیک کافی جیسی تاثیر رکھتا ہے ۔
تقریبا ہر گھر میں خواتین موجود ہیں بالخصوص ٹین ایج بچیوں سے لے کر مڈل ایج تک۔اور موٹاپے کے مسائل بھی انھی عمر کی خواتین میں زیادہ پائے جاتے ہیں ۔کچھ باتیں جن پر ہمیں غور کرکے ان کا حل ڈھونڈنا تھا وہ سماجی لطیفوں کی نذر ہوگئیں۔آج شعور وبیداری کے بعد ہمیں سمجھ آیا کہ ایسی سنگین باتوں پر کبھی ہم بھی بہت ہنسا کرتے تھے، اب سخت افسوس ہوتا ہے اور اس لیے کوشش ہے کہ دوسرے بھی اسے محض ہنسی مذاق کا نشانہ نہ بنائیں ۔
ہندوستانی خواتین کی ۹۰ فیصد خواتین پی سی او ڈی(PCOD)اورپی سی او ایس(PCOS) کا شکار ہیں ۔جس کے سبب بچیاں اور عورتیں سبھی مختلف مسائل کا شکار ہیں ۔ممکن ہے آپ میں سے کسی نے اس بیماری کا نام ہی پہلی مرتبہ سنا ہو۔بہرحال اس بیماری پر تفصیلا بات ان شاءاللہ پھر کبھی ہوگی ۔
آج فقط اتنا ہی کہ ہر موٹاپا ہنسی خوشی اور عیش وعشرت خوشحالی کی گواہی نہیں ہوتا کہ آپ ہنستے ہی چلے جائیں ۔بیوی کوموٹاپے کے طعنے دے دے کر اس کا موازنہ پروفیشنل ماڈل یا کسی دوسری قریبی عورت سے کرکر اسے زک پہنچائی جائے ۔کمرسے کمرے تک کا سفر ۔بیماری پر بیماری کے ساتھ طے ہوا، بے شمار ہارمونل ڈس بیلینس۔کئی پیچیدگیوں سے گذرتی خواتین، نیند کی کمی، خون کی کمی اینیمیا، ہارمونز کا انتشار ماہواری بے قاعدگیوں کی وجہ سے بار بار اسقاط حمل ، کارٹیسول کی زیادتی۔ایسی بے شمار وجوہات ہیں جو خواتین کی گرتی صحت اور ان کے موٹاپے کی وجہ ہیں ۔
آپ چونکہ ساتھی ، رہبر اور گارجین بھی ہیں تو پھر اسے دوبارہ صحت مند بنانے میں اپنا ایک بڑا کنٹری بیوشن دیجیے۔ کیونکہ عورت صحت مند ہے تو پورا معاشرہ صحت مند ہے۔ایک بیمار تھکے ہوئے جسم کے ساتھ خواتین دوسروں کا تو دور اپنا خیال رکھنے سے بھی قاصر ہیں۔تو آئیے ایک قدم ان کی مدد کی طرف بڑھائیے جو سب کا خیال رکھتی ہیں ۔
آج کا پہلاکام :
گھر میں موجود بچی بیوی بہن وغیرہ کی صحت کے متعلق معمولی شبہے پر بھی انھیں گائینا کولوجسٹ (ماہر امراض نسواں) کے پاس ضرور لے جائیں ۔ ڈاکٹر کے مشورے پر ان کے ضروری چیک اپس ضرور کروائیں۔وزن میں غیر معمولی اضافے کا سبب صرف بہت زیادہ کھانا پینا نہیں ہوتا ۔اکثر بیماری ہی وزن بڑھانے کا سبب بنتی ہے ۔
خواتین کی بد زبانی، چڑ چڑاپن، کاہلی اور پھوہڑ پن کے قصے ضروربلند وبانگ انداز میں ایک منہ سے دوسرے تک پہنچائے جاتے ہیں لیکن یہ بات کوئی تسلیم نہیں کرپاتا کہ مذکورہ تمام چیزوں کے پیچھے ہر بار اخلاق و تہذیب کی کمی نہیں ہوتی بلکہ ممکنہ پچاس فیصد امکانات ہوتے ہیں کہ خاتون کسی اندرونی کشمکش ، تکلیف ، اذیت یا حالات کی ستائی ہوئی ہے ۔
نتیجتاکارٹیسول (Cartisol)نامی ہارمونز کی بڑھوتری جو دباؤ اور ذہنی اذیت کی وجہ سے جسم میں بننا شروع ہوتا ہے ۔اسٹریس اور ذہنی دباؤ سے پیدا ہونے والا یہ مادہ (ہارمونز)رفتہ رفتہ پورے جسم کی کارکردگی پر اثر ڈالتا ہے ۔کارٹیسول کا زور اگر اسی طرح برقرار رہا تو پورا جسمانی نظام اس کے زیر اثر ہوجاتا ہے پھر شروع ہوتی ہیں بہت سی پیچیدگیاں جیسے ہائی بلڈ پریشر، جلد کی مختلف بیماریاں جن میں سب سے خطرناک جلدی بیماری سوریاسس ہے۔چہرے ، سینے اور بالخصوص پیٹ اور کمر کے اطراف چربی کی موٹی تہہ بننا جسے ہم عام زبان میں بیلی فیٹ (Belly Fat)کہتے ہیں ۔
اس کے علاوہ اگر کوئی خاتون بہت زیادہ اسٹریس (Stress) لینے کی عادی ہوچکی ہیں تو پھر وہ بار بار موڈ سوئنگز ، چکر ، مضمحل طبیعت ، جلدی تھکاوٹ کا شکار ہوتی رہیں گی ۔جسے فٹیگ (Fatigue) لگنا بھی کہتے ہیں ۔مذکورہ مسائل محض ایک ہارمونز کی افراط کا نتیجہ ہیں۔ سمجھا جاسکتا ہے کہ خواتین کے جسم میں موجود دیگر فطری ہارمونز میں اگر ناموافق تبدیلیاں آجائیں تو پھر کیا کیا ہوسکتا ہے ؟
آج خواتین میں پی سی او ڈی اور پی سی او ایس نامی بیماری وبا کی طرح پھوٹ پڑی ہے۔ اسے میڈیکل سائنس کبھی ایک خاص حالت کا نام دیتا ہے تو کبھی اپنی تحقیق کی بنا پر اسے خواتین کی بیضہ دان کی بیماری کا نام دیتا ہے جسے میڈیکل کہتا ہے:
Polycystic ovary syndrom // disease
اب تک میڈیکل سائنس کی یہ تحقیق نامکمل ہے کہ اس کی وجوہات کیا ہیں؟یہ مرض موروثی بھی ہوتا ہے، بعض دفعہ حالات اور ماحول کی مطابقت سے مریض کو اپنا شکار بناتا ہے۔بعض مرتبہ مایوس کن زندگی گذارنے سے بھی ہوتا ہے ۔اور کبھی بہت زیادہ آرام دہ زندگی گزارنے ، کھانے پینے کی بے اعتدالیوں کی وجہ سے بھی ہوتا ہے ۔ہر ایک میں الگ الگ علامتیں ہوتی ہیں لازم نہیں کہ ایک ہی عورت میں مرض کی تمام علامتیں پائی جارہی ہوں ۔کئی الگ الگ وجوہات ہیں۔ کیونکہ یہ تکلیف بسا اوقات تیرہ چودہ سالہ بچی میں بھی پائی جاتی ہے اور کبھی بڑی عورت میں بھی۔اس بیماری کی وجوہات نظر انداز کرتے ہوئے میڈیکل سائنس اس کی نشانیوں اور علاج پر توجہ دیتا ہے ۔
حاصل کلام یہ ہے کہ مذکورہ بیماری عورت کے رحم کے دونوں کناروں پر موجود بیضہ دان سے متعلق ہے اسی لیے اس کا نام ہی پولی سسٹک اوورین ڈسورڈریا ڈسیز ہے۔ پی سی او ڈی اور پی سی او ایس ہوتا یہ ہے کہ ایک صحت مند بیضہ دان عورت کے رحم میں اپنے فطری معمول کے مطابق ایام حیض میں جنین تیار کرنے والے بیضوں کو تیار کرتا ہے ۔لیکن اگر اس نظام میں بگاڑ آجائے تو تولیدی نظام کے یہ انڈے اپنی مدت مکمل کرکے پھوٹ کر مادر رحم میں داخل ہونے کی بجائے اپنی جگہ پڑے رہ جاتے ہیں اور رفتہ رفتہ بڑھ کر سسٹ (چھالے ، رسولی ، گانٹھ ) کی شکل لے لیتے ہیں ۔
انڈوں کے اپنے جگہ پڑے رہ کر رحم کے چھالے بن جانے سے کئی بیماریاں پیدا ہونا شروع ہوتی ہیں کیونکہ یہ فطری نظام سے بالکل الگ معاملہ چل رہا ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے خواتین کے مخصوص ایام میں ایک بڑی گڑ بڑ شروع ہوتی ہے ۔جن میں حیض کا کم ہونا ، بہت زیادہ بڑ ھ جانا ، یا بالکل ہی بند ہوجانا شامل ہے ۔
اب ان حالات کا سیدھا اثر عورت کے بچہ پیدا کرنے کی صلاحیت پر پڑتا ہے ۔فطری حیض کے سائیکل میں ہی اگر بگاڑ آجائے اور اس مرض پر وقت رہتے توجہ اور کنٹرول نہ رکھا جائے تو عورت میں بانجھ پن بھی آسکتا ہے، وہ ہمیشہ کے لیے اپنی تخلیقی صلاحیت سے محروم بھی ہوسکتی ہے۔
اس مرض کا دوسرا حملہ کچھ اس شکل میں ہوتا ہے کہ خواتین میں ایسٹروجن نامی ہارمونز بڑی تعداد میں بننے لگتے ہیں جس کی وجہ سے خلاف معمول خواتین کے جسم میں کئی جگہوں پر بالوں کی کثرت ہونے لگتی ہے جن میں سب سے بدنما مردوں کی طرح داڑھی یا مونچھ کی جگہوں پر گھنے بالوں کا اگ جانا ہوتا ہے۔
ہم اگر بزرگ خواتین سے اس بابت پوچھیں تو پتہ چلے گا انھیں کبھی پارلر کی ضرورت نہیں پڑی کیونکہ ان کے دور میں خواتین کو غیر ضروری بال نہیں آتے تھے اور اس وقت ایسی بیماریاں بھی ناپید تھیں ۔
یہ بھی نئے دور کی ایک دین ہے کہ خواتین کے ساتھ ایسے مسائل بھی جڑ گئے ہیں بالوں کی یہ افراط ایسٹروجن کی زیادتی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔پھر ساتھ ہی کیل مہاسوں کی بھرمار،ہر وقت عورت کا تھکا تھکا سا رہنا،بات بات پرموڈ کی تبدیلی،افسردگی، اداس طبیعت،نیند کی کمی بے خوابی،شدید قسم کا کمردرد، تیزی سے وزن کا بڑھنا۔یہ سارے مسائل ایک نشانی اور الارم ہیں کہ خاتون کے فطری سسٹم میں کوئی بڑی گڑ بڑ ہوچکی ہے۔ ایسی نشانیاں اگر اپنے گھر کی خاتون یا بچی میں دیکھیں تو پہلی فرصت میں اچھی سی ڈاکٹر کے پاس لے جائیں اور ان کی تجویز کے مطابق کام کریں ۔
وقت رہتےاگر ان نشانیوں کو سنجیدہ نہیں لیا گیا اور بروقت ان کا علاج نہیں کیا گیا توآگے چل کر یہ نشانیاں مہلک بیماریوں میں تبدیل ہوسکتی ہیں مثلا ایک غیر متوازن مدت حیض رحم کو زبردست نقصان پہنچاکر عورت کو ہمیشہ کے لیے بانجھ بناسکتا ہے ۔
بریسٹ کینسر ، رحم کا کینسر ،ہڈیوں کی ٹوٹ پھوٹ ، ہائی بلڈ پریشر ، دل کا عارضہ ، ڈپریشن اور ازدواجی تعلقات میں بگاڑ جیسی اہم اور بڑی خرابیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ محض ایک ہارمونزکی اتھل پتھل کی وجہ سے جسے عوام کا سمجھنا تو دور کی بات ہے عام انسان اس کا تلفظ تک ٹھیک طور سے ادا نہیں کرپاتا۔
ہمارے سماج کا ایک بڑا المیہ ہے کہ انسان ایک ان دیکھی اور ان سمجھی بیماری کے ساتھ اپنے وجود کو زندگی کے پیچ وخم میں گھسیٹتا رہتا ہے لیکن لوگ اسے نارمل سمجھتے ہیں ۔ جب تک وہ سخت بیمار ہوکر بستر پر نہیں پڑتایا موت کے دہانے تک نہیں جاپہنچتا۔
تو آئیے ان کی مدد کرتے ہیں اس طرح کہ خاتون کے علاوہ افراد خانہ اپنے کاموں کے اوقات منظم کرلیں تاکہ کام کرنے والی بچی یا خاتون بد نظمی اور وقت بے وقت کے کاموں کے سبب بہت زیادہ تھکاوٹ کا شکار نہ ہو وقت پر وہ اپنی غذا لے سکے اور وقت پر سو سکے ۔
شوہر اس طرح ساتھ دے کہ زندگی کے تام جھام اور ان الجھنوں کو سلجھانے میں اس پر اپنا اعتماد ، محبت اور توجہ کا اظہار کریں موقع بموقع اس کی حوصلہ افزائی اور تعریف کرتے رہیں تاکہ وہ اندر سے خوش و خرم ہواور اسٹریس کی تباہ کاریاں اس پر اثر انداز نہ ہوں۔
گھر کے افراد دوسرے چھوٹے موٹے کاموں میں خواتین کاہاتھ بٹاکر ان کے کام کے بوجھ کو ہلکا بناسکتے ہیں ۔اولاد سے محروم خواتین کوامید ویقین کے ساتھ طبی امداد فراہم کریں اللہ نے اپنی اس دنیا میں ہر بیماری کی شفا رکھی ہے ہمیں بس اسے تلاشنے کی ضرورت ہے ۔وزن سے پریشان خواتین کا مذاق بنانے کی بجائے ان کا معاون اور گائیڈنس بننے کی ضرورت ہے ۔گاہے گاہے انھیں ان کا گول یاد دلانا ، دن میں کئی مرتبہ انھیں پانی پینے کی تاکید کرنا ، واکنگ، کسرت یا منظم متوازن غذا کے ڈائیٹ پلان کی تیاری میں ان کی مدد کرنا۔ریفائن اشیاء اور میدہ سے تیار شدہ اشیاء کا گھر میں بائیکاٹ کردینا، جنک فوڈ(Junk Food) کی عادت کو اچھے پھلوں سے ریپلیس کرنا وغیرہ وغیرہ۔آپ سب کا ایسا ہی تعاون ایک عورت کو صحت مند بنانے میں درکار ہے تاکہ ہمارا معاشرہ بھی صحت مند بنے ۔
میں کتابوں کی ایک دو منزلہ دکان میں گیا اور عملے کے ایک شخص سے پوچھا کہ بچوں کی کتابیں کہاں ہیں؟ اس نے کہا کہ اوپر پڑی ہیں۔ میں اوپر کی منزل میں گیا تو دیکھا ،بچوں کی کتابیں فرش پر پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ رکھی ہوئی نہیں تھیں، واقعی پڑی ہوئی تھیں۔کتابوں کے جس شان دار شو روم میں نو نو سو روپے کی کتاب آراستہ ہو وہاں تیس پینتیس روپے کی کتاب کی قدر کون کرے گا اور کیوں کرے گا؟ یہ حال ہے ہمارے مستقبل کے معماروں کے لیے تخلیق ہونے والے ادب اور کتب کا۔ جن کتابوں کا نہ گاہک ہو، نہ قاری ،جن کی نہ فروخت ہو، نہ کاروبار اور نہ بڑا منافع تو پھر نہ کوئی انہیں چھاپے گا، نہ بیچے گا اور ان کا ٹھکانا فرش پر ہی ہوگا۔
کسی اور کا دُکھا ہو یا نہ دُکھا ہو، میرا دل یوں دُکھا کہ میں نے جب ہوش سنبھالا ، یہ بات سنہ چالیس کی ہوگی، ہمارے گھر میں لاہور سے بچوں کا نہایت خوش نما رسالہ ’’پھول‘‘ آیا کرتا تھا۔ بدقسمتی سے ’’پھول‘‘ کا بھی چل چلاؤ تھا۔ پھر جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پیام تعلیم نام کا ماہنامہ نکلا۔ ایسا اعلیٰ معیاری رسالہ پھر کبھی نہ نکلا۔ اس کے بعد ماہنامہ شمع کے ادارے نے اپنے بے پناہ مراسم اور وسائل کی بنا پر رسالہ کھلونا جاری کیا جو گھر گھر پڑھا گیا۔ وہ ملک کی تقسیم کی زد میں آ کر اپنے خاتمے کو پہنچا لیکن پاکستان میں فیروز سنز جیسے بڑے اشاعتی ادارے نے بچوں کا بیش بہا ادب شائع کیا اور اسی دوران روزنامہ جنگ نے بے مثال رسالہ بھائی جان جاری کیا۔ وہ بھی تھک ہار کے بیٹھ رہا تب حکیم سعید مرحوم اس میدان میں اترے اور انہوں نے رسالہ نونہال ہمدرد جاری کیا جس نے اپنے اعلیٰ معیار کی وجہ سے مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا۔اسی دوران ایک ادارے نے کمال ذہانت سے کام لے کر جدید دور کی نئی نسل کو سامنے رکھ کر رسالہ سنگترہ شائع کیا۔ وہ بھی حوصلہ ہار گیا۔ لاہور سے نئے زمانے کا پھول نکل رہا ہے اور کراچی سے کھلاڑی شائع ہورہا ہے اور ان کے حوصلے کو داد دینے کو جی چاہتا ہے۔کچھ پرچے اور بھی ہیں کہ جیسے بھی بنے جاری ہیں۔ کتنے ہی شان و شوکت سے نکلے اور چل بسے۔ غنیمت ہے کہ آرٹس کونسل آف پاکستان ،کراچی جو سال کے سال دھوم مچاتی ہوئی عالمی اردو کانفرنس منعقد کرتی ہے اور جس کو اب خیر سے تیرہ برس ہو چلے ہیں، اس میں بیچ میں کہیں کچھ وقت نکال کر ’بچوں کا ادب‘ کے عنوان سے ایک اجلاس ضرور سجایا جاتا ہے۔ اس سال بھی محفل آراستہ ہوئی اور میری خوش نصیبی کہ مجھے بھی بلایا گیا لیکن اُس َبلا نے کہ جس کا نام کورونا ہے، ہمارے سارے ہی کس بل نکال دئیے۔ میں جو چھ ماہ سے خود کو بچائے بیٹھا تھا، ان دشوار حالات میں اپنے اندر کراچی جانے کی ہمت نہ پا سکا اور آرٹس کونسل کے کرتا دھرتا محمد احمد شاہ صاحب سے معذرت کر لی۔ انہوں نے جدید ٹیکنالوجی سے کام لیا اور میں گھر بیٹھے ’آن لائن‘ صدارت کے فرائض انجام دے سکا۔ کانفرنس میں بچوں کا ادب لکھنے والی محترمہ نیّر رُباب، اردو کے سرکردہ اسکالر ڈاکٹر رؤف پاریکھ اور بچوں کی خاطر طویل عرصے تک خدمات انجا م دینے والے جناب سلیم مغل بھی شریک تھے۔ نئی نسل کے لیے ادب تخلیق کرنے کی راہ میں ساری دشواریاں گنوائی گئیں اور خاص طور پر سلیم مغل صاحب نے ماضی کے ان نام ور اور سر کردہ ادیبوں، شاعروں کو خراجِ تحسین پیش کیا جنہوں نے بچوں کے لئے بہت کام کیا لیکن جن میں سے زیادہ تر بھلا دیے گئے۔
اس سیشن میں ویسے بھی کم ہی احباب آتے ہیں ۔ اس بار ’ایس او پیز‘ کی پابندیوں کی وجہ سے شرکا کو دو دو میٹر کے فاصلے پر بٹھایا گیا۔ اس سے ہال بھرا بھرا لگا لیکن مجھے پچھلے سال کا سیشن بہت یاد آیا۔ اُس روز اجلاس کی کارروائی جاری تھی اور خاصی سنجیدہ گفتگو ہو رہی تھی کہ اچانک ہال کا دروازہ کھلا اور آٹھ دس بچے ہنستے کھل کھلاتے داخل ہوئے۔ ان کا آنا تھا کہ ساری فضا بدل گئی اور اسٹیج پر بیٹھے ہوئے عمائدین نے وہ سنجیدہ گفتگو رکھی ایک طرف اور ہم نے بچوں کی دل چسپی کی چیزیں سنانی شروع کردیں۔ اسٹیج پر محترم محمود شام بھی موجود تھے جنہوں نے کسی کو دوڑا کر باہر بُک اسٹال سے بچوں کے گیتوں کی اپنی کتاب منگوائی اور نو وارد کمسن سامعین کو گیت سنائے۔ بچوں کے آنے پر مجھے مومنؔ کا شعر یاد آیا:
مومن آیا ہے بزم میں ان کی
صحبتِ آدمی مبارک ہو
تو بات یہ ہور ہی تھی کہ کتاب ہماری زندگی سے رخصت ہو رہی ہے۔ جن بچوں کے بارے میں ہمارا جی چاہتا ہے کہ وہ کتاب پڑھیں، وہ بچے اب اسمارٹ فون کے لتّی ہوگئے ہیں۔ جو بچے کبھی لوری سن کر سویا کرتے تھے، وہ اب کمپیوٹر گیمز کھیلتے کھیلتے سوتے ہیں۔ غضب یہ ہوا ہے کہ آج کی مائیں لوری بھول گئی ہیں۔ میں نے بتایا کہ انٹرنیٹ پر ’لفظوں کا سفر‘ کے عنوان سے احباب جو مشقیں کر رہے ہیں، میں نے ان سے کہا کہ پرانی لوریاں لکھ کر بھیجیں۔ زیادہ تر کو فلمی لوریاں یاد تھیں، بہت کم نے پرانی لوریاں لکھیں اور اُن میں بھی تبدیلیاں آ چکی تھیں۔
میں نے تجویز پیش کی کہ ہمیں ’بیڈ ٹائم اسٹوریز‘ کو رواج دینا چاہیے، یعنی بچے کو سلاتے وقت ماں کو چاہیے کہ کتاب سے پڑھ کر چھوٹی چھوٹی کہانیاں سنائے۔اس سے بچے کی ذہنی تربیت بھی ہوگی اور وہ کتاب سے روشناس ہوگا۔ خیال رہے کہ اس سے پہلے کہ وہ کمپیوٹر گیمز کی طرف راغب ہو اس کا کتاب سے تعارف کرا دیا جائے۔ بیڈ ٹائم اسٹوریز بہت چھوٹے بچوں کے لیے لکھی جاتی ہیں اور ا س کے لیے آن لائن ورک شاپ کرائے جا سکتے ہیں۔شاید مجھ ہی کو اٹھنا پڑے گا۔ مسافر نواز بہتیرے ہیں، مل جائیں گے۔
مجھے شکایت اپنے ادیبوں شاعروں سے ہے (جانتا ہوں کہ اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا) شکایت یہ ہے کہ وہ بچوں کے لیے کیوں نہیں لکھتے؟ جواب اس کا یہ ہے کہ اس کام میں نہ شہرت ہے، نہ عزت ہے اور سب سے بڑھ کر نہ دولت ہے۔ ہماری نگاہوں کے سامنے ابنِ انشا، شان الحق حقی اور صوفی تبسم بچوں کے لیے کمال کی چیزیں لکھ گئے ہیں۔ راجا مہدی علی خاں کی تحریریں ہمیں یاد ہیں۔ یہاں تک کہ تلوک چند محروم جیسے سینئر شاعر بھی بچوں کے لئے کافی مواد چھوڑ گئے ہیں۔آج کے شاعر اُن کی تقلید کیوں نہیں کرتے؟ شاید یہ خسارے کا سودا ہے۔قصور کسی کا نہیں ،ہماراہی ہے کہ ابھی تک خود کو اس خواب سے نکال نہیں پائے ہیں۔
(کچھ باتیں بچپن میں ہی ذہن نشین کرانے کی ہوتی ہیں ، جو شخصیت کا حصہ بن جاتی ہیں ، بعد میں ہزار کوششیں بھی رنگ نہیں لاتیں)
1- زمین سے کوئی چیز اٹھاتے وقت ایک ہاتھ سے دوپٹہ سنبھال لیں اور سینے کی ستر پوشی کا خیال رکھیں ، کہیں جھکنے کی وجہ سے ستر کھل نہ جائے ۔
2- عام جگہ پر زمین پر رکھی ہوئی کوئی چیز اٹھاتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ براہ راست نہ جھکیں ، کہ آپ کی کیفیت رکوع کی سی ہو جائے ، بلکہ بیٹھ کر وہ چیز اٹھائیں اور پھر کھڑی ہو جائیں ، تاکہ پیچھے سے بھی آپ کی ستر پوشی باقی رہے۔
3- مردوں کے سامنے پیر پر دوسرا پیر رکھ کر نہ بیٹھیں ( گھر میں بھی ) ، بلکہ پیروں کو سمیٹ کر بیٹھیں – یہ ادب کا تقاضا بھی ہے اور حیا کی دلیل بھی ۔
4- سیڑھیوں پر چڑھتے وقت اس بات کا خیال رکھیں کہ آپ کے آگے یا پیچھے کوئی غیر محرم تو نہیں ، اگر کوئی ہے تو رک جائیں اور ان کو پہلے جانے دیں ۔
5- کسی اجنبی مرد کے ساتھ لفٹ میں ہرگز نہ داخل ہوں ، کتنی ہی جلدی کیوں نہ ہو ، اس کے نکلنے کا انتظار کریں پھر آپ لفٹ میں داخل ہوں ۔
6- مسکراہٹ مطلوب و مرغوب ہے ،مگر اپنے حدود میں ، زور سے ہنسی اور ٹھٹھا لگانا نسوانیت کے بالکل خلاف ہے ۔
7- کزن ( چچا زاد ، ماموں زاد ،پھوپھی زاد ) سے دوری بہتر ہے ، مصافحہ اور معانقہ تو سمّ قاتل ہے ، خواہ ان کی عمر کتنی ہی کم کیوں نہ ہو ۔
8- کسی سے بھی بات کرتے وقت مطلوب دوری قائم رکھیے ۔ اور بات میں بھی وقار کا دامن چھوٹنے نہ پائے ۔
9- شاہراہ ، گلی اور کالج میں سہیلیوں کے ساتھ ہنسی مذاق نہ کریں ، راستے کے بھی آداب ہیں ، ان کا پاس و لحاظ کریں ۔
10- اگر کسی اجتماعی جگہ(بینک ، میٹرو ، کانفرنس روم وغیرہ ) پر بیٹھی ہیں ، اور کوئی بڑی عمر کا شخص داخل ہو جاتا ہے تو اس کے احترام میں کھڑے ہو جائیں اور اس کے لیے کرسی خالی کر دیں۔
11- بس ، ٹیکسی ، میٹرو میں اپنی زندگی کے صفحات نہ کھولیں ، خواہ آپ کے ساتھ کوئی کتنا ہی عزیز کیوں نہ ہو ، اور کتنی مدت کے بعد کیوں نہ ملے ہوں ، یاد رہے دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں ۔
12- گھر کے کام میں حصہ لینے کی عادت ڈالیں ۔ نفاست اور سلیقہ مندی کی اصل کلاس گھروں میں ہوتی ہے ۔ہوم سائنس کی عملی تربیت گھر کی چہار دیواری میں ہے ۔
نسل نو کتابوں سے دور ہورہی ہے اور مطالعہ کرنے کا رجحان دم توڑ رہا ہے۔ ان حالات میں بچوں کے تخیل کو تحریک دینے، سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیت بڑھانے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ماضی سے کہیں زیادہ ہے۔ انہیں لوک کہانیوں، مذہبی تواریخ ، علاقائی ثقافتوں پر مبنی کتابیں مطالعے کے لیے دینا چاہیے۔بک ریڈنگ کے مقابلے کروا کر اور لائبریریوں سے منسلک رہنے کی ترغیب دے کر کتابوں کی محبت پیدا کرنے کی حکمت عملی اختیار کرنی چاہیے۔اس سے ان میں مطالعہ کا شوق پیدا ہوگا اور مذہبی کتابوں سے لگاؤ بڑھے گا۔خاص طور پروالدین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کو مذہبی کتب اور احادیث کی چھوٹی چھوٹی کتابیں پڑھنے کی ترغیب دیں۔اس سے ان میں بچپن سے ہی ادبی ذوق کے ساتھ سیرت نبوی سے واقفیت ہوگی ۔ اس سلسلے میں والدین کی ذرا سی لاپرواہی بچے کے مستقبل کا رخ منفی سمت جانے والے راستوں کو آسان بنا سکتی ہے ۔ لہٰذا اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ بچے کیا پڑھ رہے ہیں ؟خاص طور پر جب اسمارٹ موبائل ان کے ہاتھوں میں ہو تو زیادہ توجہ کی ضرورت ہے۔ نیٹ کی دنیا نے بچوں کو ادب اور مذہب سے بہت دور کردیا ہے ۔ایسے وقت میں بچے مذہبی اور ادبی لٹریچر کے بجائے غیر معیاری،مخرب اخلاق مضامین پڑھتے ہیں جس کی وجہ سے ان میں شعور و احساس کی بیداری اور معاشرے کا ایک فعال اور ذمہ دار حصہ بننے کی صلاحیت مفقود ہوجاتی ہے اور ملک و قوم کی بھلائی کرنے کا جذبہ معدوم ہوجاتا ہے اور ایسے بچے دوسروں کی مدد کرنے کے احساسات سے عاری ہوجاتے ہیں۔ بچوں کو ایسے منفی احساسات پیدا ہونے سے محفوظ رکھنے کے لئے ان میں مذہبی مطالعات کی رغبت پیدا کرنا والدین کی بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ مطالعات اردو کے ساتھ ہی دیگر زبانوں خاص طور پر انگریزی و ہندی میں کرنے کی عادت ڈالی جائے تو وہ آگے چل کر غیر اردو داں طبقہ میں بالخصوص غیر مسلم میں اسلام کا بہترین ترجمان بن سکتے ہیں اور اسلام کے بارے میں جو منفی تاثرات پیدا ہورہے ہیں،ان کا تجزیہ کرکے اسلام کی بہترین نمائندگی کرسکتے ہیں۔ آج ہمارے ملک ہندوستان میں برادران وطن کا ایک بڑا طبقہ ہے جو قرآن سمجھنا چاہتا ہے ۔ ہماری نئی نسل یہ کام بخوبی انجام دے سکتی ہے۔ بشرطیکہ ان پر خاص توجہ دی جائے اور بچپن سے ہی اس پہلو پر نظر رکھی جائے کہ وہ جن کتابوں کا مطالعہ کررہے ہیں وہ مذہبی نوعیت کی ہوں اور یہ کتابیں ان کی صلاحیتوں کے مطابق ہوں۔اس طرح کی کتابیں متعدد ادارے شائع کرتے ہیں۔خاص طور پر جماعت اسلامی ہند کا شعبہ نشرو اشاعت متعدد کتابیں شائع کرچکا ہے جو بچوں کی دلچسپی اور صلاحیتوں کا لحاظ رکھتے ہوئے مختلف زبانوں میں ہیں ۔اس شعبہ نے قرآن کی تفسیر’’ تفہیم القرآن‘‘ جو کہ مختلف زبانوں میں ہے ، ابھی حال ہی میں اس کی ہندی پانچویں جلد شائع کیا ہے ،اس کے مطالعے کا شوق دلانا چاہئے۔ اس ہندی ترجمے میں قرآنی پیغام کو زیادہ سے زیادہ عام کرنے کے لئے کئی چیزوں کا اہتمام کیا گیا ہے ۔ سورتوں کے ناموں کے ساتھ آسانی کے لئے ان کا نمبر بھی دیا گیا ہے ۔ ترجمے میں بھی آیتوں کا نمبر ڈال دیا گیا ہے۔ تفہیم میں مختلف موضوعات پر مبسوط مواد ہیں ۔ آیات کی تشریح کے علاوہ احادیث نبوی سے استدلال ، فقہی مباحث ، دیگر مذاہب کے عقائد کا تذکرہ اور نقد، سیرت نبوی کی تفصیلات ، جغرافیہ ، تاریخ وغیرہ سے بھی بحث ہے ۔ اس سلسلے میں جماعت اسلامی ہند جناب سید سعادت اللہ حسینی نے شہرہ آفاق تفسیر تفہیم القرآن ہندی کی پانچویں جلد کا رسم اجراء کے ایک پروگرام میں اس بحث پر روشنی ڈالتے ہوے بڑی اچھی بات کہی تھی کہ ـ’’ اس وقت ہمارے ملک کی سخت ضرورت ہے کہ علاقائی زبان اور بطور خاص انگریزی و ہندی زبان میں ہمارا لٹریچر منتقل ہو، اس کام میں تیزی لانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ اوریجنل کتابیں بھی ہندی میں لائی جائیں ‘‘۔
آج کے دور میں ہر شخص کی زبان پر یہ بات ہے کہ مسلمانوں کی زبوں حالی کا سبب ہے تعلیم میں پیچھے رہ جانا۔ تعلیم کا مطلب ہے ڈیجیٹل انقلاب میں پیش رفت، اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے بچوں کو ابتدا سے ہی انگریزی، ہندی و زبان و ادب سے آشنا کرانے کا عمل شروع کردیں۔ علامہ شبلی نعمانی کا ماننا تھا کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے مدارس کے بچوں کو بھی عصر حاضر کی زبان سے واقف ہونا چاہے۔ مدرسوں میں جو عربی کی تعلیم دی جاتی ہے ، وہ کافی نہیں ہے ، عصر حاضر کے تقاضے کو ملحوظ رکھتے ہوئے انگریزی کی بھی تعلیم دی جانی چاہئے ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اسی نقطہ نظر کو آگے بڑھاتے ہوئے جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے ہندی کو اس سے جوڑ کر مذکورہ پروگرام میں یہ بات کہی تھی کہ ہندی ملک کی قومی زبان ہے اور ایک بڑا طبقہ قرآنی پیغام کا طلبگار ہے، لہٰذا بچوں میں ہندی لٹریچر کا ذوق پیدا کرکے اس ضرورت کو پوری کی جاسکتی ہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی کہتے تھے کہ لوگ میری بات پر دھیان نہیں دیتے ۔ میں کہتا ہوں کہ تعزیرات ہند کے قوانین اور ڈاک خانہ اور ریلوے کے قواعد بھی مدارس اسلامیہ میں داخل ہونے چاہیے‘‘۔ ان علماء کرام کے کلام کو صرف مدارس کے تناظر میں نہیں دیکھا جاسکتا۔ اس کا مدلول قوم کے ہر بچے ہیںکیونکہ عصر حاضرکی تعلیم وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ہمیں بچوں کا دوست کتابوں کو بنانا چاہیےاور کتابوں کے انتخاب میں ان کی مدد کرنی چاہیے۔اس طرح بچے نہ صرف غیر معیاری کتب کے مطالعہ سے بچ سکتے ہیں بلکہ اچھی ادبی و مذہبی کتابیں پڑھ کر ملک و قوم کا بڑا سرمایہ ثابت ہوسکتے ہیں کیونکہ یہی بچے ہمارے کل کی امید ہیں۔
کہا اور سمجھاجاتا ہے کہ عورت بڑی جذباتی ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی قوت فیصلہ میں بڑی کمزور ثابت ہوتی ہے۔ لیکن میرا یقین ہے کہ یہ جذبات کی زیادتی ہی اس کی سب سے بڑی مضبوطی اور اللہ کا دیا گیا ایک انمول اور منفرد تحفہ ہے جو کائنات میں صرف اسے ہی عطا کیا گیا ہے ۔
اس کی قوت فیصلہ اگر اس کے جذبات کے تابع نہ ہوتی تو وہ شوہر کی بے وفائی،ناروا سلوک اور ناقدری کے باوجود شوہر کی دہلیز پر ساری عمر صرف اس کے نام پر نہ گزار دیتی بلکہ کوئی فیصلہ لے لیتی۔ ہر بار شوہر کی زیادتی پر نم پلکوں سے اپنوں سے اپنی زندگی کا کرب چھپاکر یہ نہ کہہ رہی ہوتی کہ "سب ٹھیک ہے، میں یہاں بہت اچھے سے ہوں، آپ سب اپنا حال بتائیں ۔”
جذبات اس کی کمزوری نہیں بلکہ مضبوطی ہے۔ اگر وہ جذباتی نہ ہوتی تو شاید اب تک پوری دنیا ماں کا دل دُکھانے کا عتاب جھیل رہی ہوتی ۔ یہ تو اس کے جذبات ہیں کہ وہ اولاد کے ذریعے ستائے جانے پر بھی اللہ کے آگے اس کی بہتر دنیا وآخرت کے لئے دست دراز کرتی ہے ۔ اس کے جذبات ہی ہیں جن کی وجہ سے زندگی میں آنے والے تمام پلوں میں وہ خود کو ڈھالنا بخوبی جانتی ہے ۔
باپ کا گھر چھوڑ کر کسی اجنبی کے ساتھ محض صرف اس لئے چل پڑتی ہے کہ اس کے پاس ہر ماحول، ہر کیفیت میں ڈھل جانے والے جذبات ہیں ۔
چوہے ،چھپکلی ،کاکروچ سے خوف کھانے والی نازک اندام ایک دوشیزہ جب ماں کے کردار میں ڈھلتی ہے تب یہی اپنی اولاد کے لئے "ون مین آرمی” بن جاتی ہے ۔ تن تنہا ایک مکمل فوج ہوتی ہے جس میں اپنی اولاد کے لئے سب کچھ کر گزرنے کا جذبہ ہوتا ہے،اس لئے اب کبھی نہ کہنا کہ عورت جذباتی ہوتی ہے اور اگر کہہ دیا تو یہ نہ سوچنا کہ یہ جذبات اس کی کمزوری ہیں ۔
اگر وہ جذباتی نہ ہوتی تو ہنستے ہنستے اپنا حق وراثت اپنے بھائی کو نہ دے رہی ہوتی یا اپنے حصے سے سبک دوشی کا اعلان نہ کرتی ۔ قدرت کا اصول ہے کہ بیک وقت ایک ہی چیز دو مختلف چیزوں پر الگ الگ طرح کے اثرات مرتب کرتی ہے بعینہ جذبات کا معاملہ ہے ۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں بچے قوم کے معمار اور مستقبل کے قائد وذمہ دارہوتے ہیں۔بچوں کی اعلی تعلیم اور اچھی تربیت ہی ایک صالح معاشرے کی تشکیل کا سبب ہے۔ ایک صحت مند اور مضبوط پودا ہی مستقبل میں ایک تناور اور خوش ذائقہ پھلوں اور پھولوں والا درخت بن سکتا ہے۔
اس وقت مغربی ممالک سمیت پوری دنیا میں بچوں کے حقوق کو لے کر جو چہل پہل دکھائی دے رہی ہے،دانشوران فرنگ اس سلسلے میں جس حساسیت کا اظہار کررہے ہیں،مختلف این جی اوز کی جانب سے جو شعور بیداری مہم چلائی جارہی ہے اور ہرسال اس حوالے سے جو مختلف قوانین وضع کیے جارہے ہیں،بہ نظر غائر دیکھاجائے تو آج سے ساڑھے چودہ سو سال قبل،جب انسانیت جہالت کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں بھٹک رہی تھی،اسی وقت پیغمبر اسلام ﷺنے بچوں کی قدر ومنزلت اور ان کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے وہ زریں اصول اور رہنما ہدایات عطا فرمائے جو قیامت تک آنے والی نسل انسانی کے لیے سرمۂ چشم کی حیثیت رکھتے ہیں۔آج کے دانشور اور ماہرین نفسیات بچوں کی پیدائش کے بعد ان کی تربیت کے بعض پہلوؤں کو اہمیت دیتے ہیں؛لیکن اسلام نے ازدواجی زندگی کا طور طریق،شریک حیات کا انتخاب،نسل و نسب کی پاکیزگی اور بچوں کے جسم وروح کی تربیت کے سلسلہ میں قدم قدم پر والدین اور سرپرستان کی ذمہ داریوں کوبسط و تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔اسلام نے بچوں کو بھی وہی مقام و مرتبہ دیا جو انسانی نوع کے دیگر طبقات کو حاصل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بچوں کے ساتھ جو شفقت اور محبت پر مبنی سلوک اختیار فرمایا وہ معاشرے میں بچوں کے مقام و مرتبہ کا عکاس بھی ہے اور ہم سب کے لیے مشعل راہ بھی۔ اسلام میں بچوں کے حقوق کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے ہوتا ہے کہ اسلام نے بچوں کے حقوق کا آغاز ان کی پیدائش سے بھی پہلے کیا ہے۔ بچوں کے حقوق کا اتنا جامع احاطہ تلاش بسیار کے باوجود دنیا کے کسی نظامِ قانون میں نہیں ملتا۔سردست ہم دین اسلام کی جانب سے عطا کردہ بچوں کے بعض حقوق وفرائض پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں۔
حقِ حیات:
افلاس وبھکمری کا خوف زمانۂ جاہلیت میں قتل الاطفال اور وأد البنات کا محرک ہوا کرتا تھا، اہل جاہلیت بہ طور خاص اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے، اس ڈر سے کہ وہ ان پر بوجھ بن کر ان کو معاشی لحاظ سے کمزور کردیں گی اور ان کے لئے ان کا سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔اسلام نے بچوں پر اہم ترین احسان یہ کیا کہ انھیں زندگی کا حق عطا کیا ۔ اسلام کی نظر میں مرد و عورت کا جائزمیلاپ محض ایک تفریح اور قضائے حاجت کا ذریعہ نہیں، بلکہ یہ نسلِ انسانی کے تحفظ اور اس کے پھلنے پھولنے کا سبب ہے۔ اس بنا پر اس تعلق کے ثمرے کے طور پر وجود پانے والے بچے کو اسلام یہ حق دیتا ہے کہ وہ زندہ رہے، اور والدین کی یہ ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ وہ اس کی زندگی کو خوشی سے قبول بھی کریں اور اس کی بقا کے لیے ناگزیر و ضروری اقدامات بھی کریں۔غور کیاجائے تو آج اسی برائی نے منع حمل یعنی ضبط ولادت اور منصوبہ بندی کا نام اختیار کرلیا ہے۔ اندیشہ وہی ہے جو قدیم زمانے میں تھا کہ ’’آنے والے کو رزق کہاں سے ملے گا؟‘‘ وہ بھی اپنے آپ کو رازق سمجھتے تھے آج بھی قومیں اپنے آپ کو وسائل رزق کا خالق سمجھتی ہیں؛ لیکن سورۂ بنی اسرائیل کی آیت کریمہ(اور نہ قتل کرو اپنی اولاد کو، ناداری کے اندیشہ سے، ہم ہی ان کو بھی رزق دیتے ہیں اور تم کو بھی، بیشک ان کا قتل بہت بڑا جرم ہے) ان معاشی بنیادوں کو بالکل منہدم کردیتی ہے۔ وہ صاف صاف حکم دیتی ہے کہ اپنی اولاد کو افلاس کے اندیشے سے قتل نہ کرو۔ قتل نہ کرنے سے مراد صرف یہی نہیں ہے کہ پیدا ہونے کے بعد انھیں قتل نہ کرو؛ بلکہ اس سے مراد یہ بھی ہے کہ اسقاطِ حمل اور منع حمل کی تدابیر بروئے کار مت لاؤ۔ رازقِ حقیقی انہیں بھی رزق دے گا اور ان کی برکت سے تمہیں بھی رزق عطا کرے گا۔
نسب و شناخت،پرورش و پرداخت:
اسلام نسب کے تحفظ کو بہت زیادہ اہمیت دیتا ہے اور شریعت ِاسلامیہ کے کئی احکامات کا انحصار بھی اسی پر ہے۔علامہ شاطبیؒ اپنی مشہور زمانہ کتاب الموافقات میں شریعت کے پانچ مقاصد ذکر فرمائے ہیں:1۔حفاظت ِ دین 2۔حفاظتِ عقل 3۔حفاظتِ جان 4۔حفاظتِ نسب 5۔حفاظتِ مال۔
ان میں دین کا ایک بہت بڑا مقصد نسب کی حفاظت ہے،جو کہ نکاح کے ذریعے محفوظ کیا جاتا ہے،اگر نکاح کا عمل مفقود ہوجائے تو دین کا ایک بہت بڑا مقصد ادھورا رہ جائے گا۔ شریعت اسلامیہ نے حفاظت ِ نسب کے ذریعے اللہ کے بندوں کو ان کے حقوق دلانے کا ایک بہترین انتظام فرمایاہے؛ تاکہ کوئی بچہ والدین کے پیار سے محروم نہ رہے، اسے باپ کی شفقت اور ماں کی ممتا برابر ملتی رہے،اس کی اچھی تربیت کی جاسکے۔ ساتھ ساتھ اس کے قریبی رشتہ داروں میں ایسے افراد موجود ہوں جو بچے کے درست رویے پر حوصلہ افزائی اور کوتاہیوں پر بروقت تنبیہ کرسکیں۔ اگر اس تصور کو نظر انداز کیا جائے تو بھلا بچہ کیا مستقبل سنوار سکے گا، اسے خیر و شر کا ادراک کون کرائے گا،اسے معیاری تعلیم و تربیت کہاں سے دی جائے گی،اسے ایک بھائی کا ساتھ اور بہن کی غم خواری کا احساس کون دلائے گا۔ یقیناً وہ ان محرومیوں کے سبب معاشرے میں سرکشی مچا کر دکھائے گا اور اپنی جہالت کا مخاطب ہر کس و ناکس کو بنائے گا۔
نام و نسب کے بعد اب مرحلہ ہے بچے کی رضاعت و پرورش کا۔اس سلسلے میں دین اسلام نے صاف لفظوں میں یہ اعلان فرمایا کہ بچے کی والدہ خواہ وہ مطلقہ ہی کیوں نہ ہو،دودھ پینے والے بچے کے بارے میں بری الذمہ نہیں ہوسکتی؛بل کہ اس پرشریعت مطہرہ کی جانب سے فرائض عائد ہوتے ہیں۔طلاق کے بعد اللہ تعالیٰ نے عورت کو آزاد نہیں چھوڑدیا؛کیونکہ ایسے حالات میں، اگر عورت کواپنی فطرت کے مطابق آزاد چھوڑدیا جائے تو کشیدہ تعلقات کی وجہ سے کوئی غلط فیصلہ بھی کرسکتی ہے اور اس غلط فیصلے کے نتیجے میں بچہ ضائع ہوسکتا ہے،چناچہ اللہ تعالیٰ بچوں کے لئے ضابطہ وضع فرماتے ہیں اور والدہ پر فرض کردیتے ہیں کہ وہ ایسے حالات میں کوئی ایسا رویہ اختیار نہ کرے جس سے بچے کو نقصان پہنچے۔ ماں کا فرض ہے کہ وہ پورے دو سال تک بچے کو دودھ پلائے؛ کیونکہ اللہ تعالیٰ سب سے زیادہ اس بات سے واقف ہیں کہ اصول صحت کے لحاظ سے بچے کے لئے دو سال کے عرصہ تک دودھ پینا ضروری ہے۔صحیح ابن خزیمہ میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جہنم دکھائی گئی تو آپ نے کچھ ایسی عورتوں کو دیکھا جن کی چھاتیوں کو سانپ نوچ رہے تھے اور ڈس رہے تھے آپ نے پوچھا یہ کیا معاملہ ہے؟ بتایا گیا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جو بچوں کو دودھ نہیں پلاتی تھیں‘‘۔ (صحیح الترغیب والترہیب) ہاں اگر کوئی ماں مجبوری میں اپنا دودھ نہیں پلاتی ہے تو اس وعید کی مستحق نہیں ہوگی۔
تعلیم و تربیت:
والدین پر بچوں کے سلسلے میں یہ ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ جہاں بچوں کو اچھی زندگی کے لئے اچھی خوراک،عمدہ کپڑے اور زندگی کی دوسری اشیاء مہیا کریں،وہیں ان کی دینی تعلیم اور اسلامی تربیت کا بھی بھرپور انتظام کریں۔نیز زندگی اور اس کے نشیب وفراز کے بارے میں اپنے تجربات اور مشاہدات سے بچوں کو مستفید کریں تا کہ وہ زندگی کے ہر میدان میں کامیابی حاصل کرسکیں۔ماہرین کے مطابق بچہ پیدائش کے بعد تربیت کے حوالے دو دور سے گزرتا ہے:
1۔بچپن کا دور،یہ دور ایک سال کی عمر سے سات سال تک ہوتا ہے۔اس دور میں بچہ کے اندر براہ راست تربیت حاصل کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی،کیونکہ وہ اس دور میں اپنی دنیا سے بے خبر ہوتا ہے۔
2۔سات سے چودہ سال کی عمر تک کا دور۔اس دور میں عقل تدریجاً بڑ ھتی ہے اور فکری فعالیت کے لیے آمادہ ہوتی ہے۔اس دور میں انسان سیکھتا اور تعلیم و تربیت حاصل کرسکتا ہے۔
پہلے دور میں تربیت،براہ راست نہیں ہونی چاہیے اور اس عمر میں بچے کو کسی چیز سے روکنے اور کسی چیز کا حکم دینے میں سختی بھی نہیں کرنا چاہئے؛ بلکہ اس کے لیے اچھا ماحول،پاکیزہ فضا اور مناسب دوست فراہم کرنا چاہیے؛تاکہ وہ اپنے ماحول اور معاشرے سے تربیت پاتا اور ادب سیکھتا رہے،یہی وہ زمانہ ہے جس میں اخلاق کی پہلی بنیاد پڑتی ہے اور وہ اپنے ماحول کے بارے میں اچھی یاد داشتیں اور مناسب طرز عمل کو محفوظ کرلیتا ہے۔
دوسرے دور میں بچے کو آزاد نہیں چھوڑنا چاہیے اور اس کی غلطیوں سے چشم پوشی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اس کو اس کی بے ادبیوں سے روکنا چاہیے، اسے نظم وضبط سکھانا اورحد سے زیادہ کھیل کود وغیرہ میں وقت ضائع کرنے سے روکنا چاہیے،عبادت اور نیک کاموں کی طرف اسے رغبت دلانا چاہیے۔یہی وجہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہوں اور انہیں نماز پر مارو جب وہ دس سال کے ہوں اور علیحدگی کردو ان کے درمیان خواب گاہ ہوں میں (ابوداؤد) ان عمروں میں اگرچہ ان پر نماز فرض نہیں ہے؛ لیکن عادت ڈالنے کے لیے انہیں ابھی سے نمازی بنانے کی تاکید کی جارہی ہے۔
عدل و مساوات:
حقوق اطفال کے حوالے سے آخری اور اہم بات جسے والدین کو اپنے بچوں کے سلسلے میں ملحوظ رکھنا چاہیے وہ یہ کہ والدین بچوں کے درمیان کسی بھی چیز کی تقسیم وغیرہ کے موقع پر عدل وانصاف کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔کیونکہ بچوں کو ابتداء سے ہی عدل وانصاف کا خوگر بناناچاہیے تاکہ وہ اس کی خوبی کو محسوس کریں، اس کی اہمیت سے آشنا ہوجائیں، اسے اپنی زندگی اور معاشرہ کے لیے ضروری سمجھیں اور بے انصافی،ظلم اورہر طرح کے امتیازسے پرہیز کریں۔کیونکہ بچوں کی زندگی میں کوئی چیز چھوٹی نہیں ہوتی،لہذا عدل وانصاف کے نفاذ میں چھوٹی سے چھوٹی چیز کا خیال رکھنا بھی از حد ضروری ہے۔حضرت نعمان بن بشیر روایت کرتے ہیں کہ میرے والد نے مجھے اپنا کچھ مال عنایت کیا۔ میری والدہ نے کہا کہ میں اس وقت تک اس پر راضی نہیں ہوں گی جب تک تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس پر گواہ نہ بنا لو۔ چنانچہ میرے والد رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تا کہ آپ اس کو مجھے دیئے گئے ہدیہ پر گواہ بنائیں۔ رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ:
”کیا تم نے اپنے تمام لڑکوں کو اسی طرح ہدیہ دیا ہے؟”
میرے والد نے کہا: ”نہیں”
رسول اللہ ﷺ نے یہ سن کر ارشاد فرمایا:”اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے بارے میں عدل سے کام لو”
چناں چہ میرے والد نے وہ ہدیہ مجھ سے واپس لے لیا۔
ایک دوسری روایت میں رسول اللہ ﷺ کا ارشاد اس طرح مروی ہے کہ آپ ﷺ نے میرے والد سے پوچھا:”کیا تمہیں یہ بات پسند ہے کہ سب لڑکے فرمانبرداری اور حسن سلوک میں برابر ہوں؟”
کہا: ہاں کیوں نہیں۔
آپ ﷺ نے ارشادفرمایا: ”تب تو ایسا نہ کرو” (متفق علیہ)
یعنی تم بچوں کے درمیان عدل و انصاف سے کام نہ لو گے اور برابری نہ کرو گے تو تمہارے ساتھ حسن سلوک اور اطاعت و فرمانبرداری میں بھی تمام بچے یکساں نہ ہوں گے بلکہ جن بچوں میں محرومی کا احساس ہوگا اور وہ والدین کی طرف سے نا انصافی محسوس کریں گے، ان کے اندر والدین کی نافرمانی کا جذبہ ابھرے گا۔
خلاصۂ کلام:
بچوں کی تعلیمی، معاشی اور معاشرتی ضروریات کے ساتھ ساتھ نفسیاتی ضروریات بھی بہت اہمیت کی حامل اور والدین کی توجہ کی متقاضی ہیں۔ والدین کو چاہیے کہ وہ نا صرف بچے کی تعلیمی و معاشی ضروریات پر توجہ دیں؛بلکہ بچوں کی سماجی اور نفسیاتی ضروریات کو بھی سمجھیں اور ان ضروریات کی تسکین کامناسب انتظام کریں،دن بھر میں بچوں کے لیے کچھ وقت فارغ کریں،ان کے ساتھ گفتگو کریں،ان کے سرپر دست شفقت رکھیں،ان کی پریشانی پوچھیں اور اسے حل کرنے کا تیقن دیں وغیرہ۔
دورجدید کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ والدین کے پاس بچوں کے لیے وقت ہی نہیں ہے جبکہ پرانے زمانے میں والدین بچوں کو وقت دیتے تھے،انہیں قصے اور کہانیاں سناتے تھیاور ان کی فکری تربیت کرتے تھے۔ یوں بچوں کی نفسیاتی ضرورت بھی پوری ہو جاتی تھی اور تعلیم وتربیت بھی۔
اگر آپ کو اس کائنات کی سب سے حسین تصویر دیکھنی ہو تو کبھی بغور اس با پ کا چہرہ دیکھیں جو اپنی بیٹی کی کامیابی کے بعد خوشی اور فخر سے لبریز احساس کی ترجمانی کے لیے لفظ تراشتا رہ جاتا ہے۔ قربانیوں کو فراموش کر کے اپنی محنت و مشقت کو ثمر آور ہوتے ہوئے دیکھتا ہے تو ساکت و جامد خوشی کی انتہا میں گنگ صرف مسکراہٹ پہ ہی اکتفا کر کے ره جاتا ہے۔ یقیناً بیٹے کی کامیابی بھی فخر اور خوشی کا باعث ہوتی ہے، مگر جب بیٹی کامیابی حاصل کرتی ہے تو والد کو معاشرے میں علیحدہ وقار و عزت ملتی ہے۔
بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم دلانا ا ن کے کیرئیر کی فکر کرنا بیٹے کی بنسبت زیادہ مشکل کام ہے۔ ایک طرف معاشرے کی بوسیدہ اور دقیانوسی سوچ ،دوسری طرف حفاظتی تدابیر کو لے کر فکر مندی،ان سب کے باوجود اگر والد ہمت و حوصلہ برقرار رکھتا ہے اور اپنی بیٹی کو نہ صرف اعلی تعلیم بلکہ کیریئر سازی میں بھی معاونت فراہم کرنے میں پیش پیش رہتا ہے، تو یہ اس کی عظمت کی اعلیٰ ترین مثال ہے۔
ہمارے سماجی نظام میں بیٹیاں شادی کے بعد مکمل طور پر شوہر کے گھر کی ہو کر رہ جا تی ہیں۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ بیٹی گھر میں مہمان ہوتی ہے؛ اگر ایک والد اپنی بیٹی کو کامیاب دیکھنے کا خواہش مند ہو، اس کے خواب پورا کرنے میں انتھک محنت کرے تو یہ والد کے ایثار کی معراج ہے۔بیٹے والدین کے ساتھ تا عمر رہ سکتے ہیں، مگر بیٹیاں ایسا نہیں کر سکتیں۔ان سب کے باوجود والد کا بغیر کِسی توقع کے بیٹیوں کو آگے بڑھانے ، اُنھیں ترقی کی راہ پر گامزن کرنے میں معاون و مددگار ہونا میری نگاہ میں اُن کی عظمت دو گنا کر دیتا ہے۔میں اپنے والد کے ساتھ دنیا کے سارے والد کو سلام کرتی ہُوں جنہوں نے بیٹیوں کے حوصلوں کو آسمان بخشا اور خوابوں کو پرواز دی۔ایک کامیاب بیٹی کے لبوں پر خوشی ،سکون و اطمینان دیکھ کر اُس کے والد کے چہرے پر جو فخر اور مان ہوتا ہے، وہ دنیا کی سب سے خوبصورت تحریر ہے۔ جذبات کی ترجمانی کا سب سے خوش نما منظر ہوتا ہے۔ محنت اور لگن کے نتیجے میں اُبھرے یہ رنگ اتنے حسین اور طاقتور ہوتے ہیں کہ جو جھونپڑی کی محرومی کو محل کی خوش حالی میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ غریب کی بے بسی کو سرداری میں بدل سکتے ہیں۔
قابلِ تعریف ہیں وہ باپ جو بیٹی کو بوجھ نہیں سمجھتے۔ اُن کے "ہاتھ پیلے” کرنے کی جلد بازی نہیں کرتے۔ یقین و اعتماد کی دولت سے سرفراز کرکے اعلیٰ تعلیم سے قدموں کو مضبوط کرتے ہیں۔ عزم و ارادے کی طاقت دے کر شخصیت اور کردار کی بلندی پر پہنچا دیتے ہیں۔
خواب سبھی کی آنکھوں میں بستے ہیں مگر کم لوگ ہی اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے کا اِرادہ کر پاتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ حالات کے سامنے سپر ڈال دیتے ہیں۔ خود کو مجبور، ہے بس تسلیم کرکے شکست قبول کر لیتے ہیں، مگر جو اپنے عزائم میں مضبوط ہوتے ہیں۔سختی سے قدم جمائے رہتے ہیں، و ہی منزل پر پہنچ پاتے ہیں:
آسانیوں سے پوچھ نہ منزل کا راستہ
اپنے سفر میں راہ کے پتھر تلاش کر
ایسا نہیں ہے کہ یہ کامیاب لوگ رکاوٹوں، مشکلوں سے مایوس نہیں ہوتے۔ فرار کا راستہ ان کے سامنے بھی ہوتا ہے، مگر "مسلسل کوشش” کا دامن تھام کر ایک دن منزلِ مقصود تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ "منزل پر نظر،عزم و استقلال،جوش و جنون، یقین کی طاقت، حوصلوں کی اُڑان” یہی کامیابی کی راہ کے سامان ہیں :
یقینں محکم، عمل پیہم، محبت فاتحِ عالم
جہاد زندگانی میں ہیں یہ مردوں کی شمشیریں
” مولانا صاحب ! میں خلع لینا چاہتی ہوں ـ بتائیے ، مجھے کیا کرنا ہوگا؟ ” میں رات میں سونے کی تیاری کررہا تھا کہ ایک لڑکی کا فون آیاـ
” لے لیجیے ـ اس کے لیے آپ کو صرف یہ کرنا ہوگا کہ اپنے شوہر سے صاف الفاظ میں کہہ دیجیے کہ اب آپ ان کے ساتھ کسی صورت میں نہیں رہ سکتیں ـ وہ آپ کو ایک طلاق دے دیں گےـ بس خلع ہوگئی ـ البتہ اس صورت میں آپ کو مہر واپس کرنا ہوگاـ”
” مولانا صاحب ! آپ نے پوچھا ہی نہیں کہ میں کیوں خلع لینا چاہتی ہوں؟” لڑکی نے سوال کیاـ
” میں نے ضرورت نہیں سمجھی ـ اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ شریعت نے عورت کو حق دیا ہے کہ وہ اپنی زندگی کا خود فیصلہ کرسکتی ہےـ نکاح ہوجانے کے بعد بھی اگر وہ محسوس کرتی ہے کہ شوہر سے اس کی ہم آہنگی نہیں ہے اور وہ پُرسکون زندگی نہیں گزار سکتی تو علیٰحدگی حاصل کرسکتی ہےـ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کی بیوی نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا : ” میں ثابت کے دین اور اخلاق کے بارے میں کوئی الزام نہیں لگاتی ، لیکن میں ان کے ساتھ گزارا نہیں کرسکتی ـ ” آپ نے فرمایا : ” تمھیں بہ طور مہر جو باغ ملا تھا وہ واپس کرنا ہوگاـ ” انھوں نے رضامندی ظاہر کی _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے علیٰحدگی کروادی ـ”(بخاری :5273)
میں نے طریقۂ خلع کی وضاحت کرنے کے بعد کہا : "ویسے اگر آپ چاہتی ہیں تو خلع لینے کی وجہ بھی بتا دیجیےـ”
لڑکی نے بولنا شروع کیا : ” میرے شوہر میرا بالکل خیال نہیں رکھتےـ میرا دو برس کا بچہ ہے ، اس کی بھی پروا نہیں کرتےـ بس اپنی ماں کے دباؤ میں رہتے ہیں ـ میری ساس مجھے بالکل پسند نہیں کرتیں _ بہت روک ٹوک کرتی ہیں ـ چاہے میں بیمار ہوں ، میرا بچہ بیمار ہو ، لیکن وہ مجھے آرام نہیں کرنے دیتیں _ انہی سب باتوں کو لے کر میں اپنے میکے آگئی تھی ـ اب دیکھیے ، آٹھ مہینے ہوگئے ہیں ، ان لوگوں نے میری بالکل خبر نہیں لی ـ ”
لڑکی بولتی چلی جا رہی تھی ـ ایسا لگ رہا تھا کہ ٹیپ ریکارڈر آن ہوگیا ہے _ میں نے روکاـ
” یہ بتائیے ، ان آٹھ مہینوں میں آپ نے اپنے شوہر کی کتنی بار خبر لی ہےـ وہ کیسے رہتے ہوں گے؟ کیا کھاتے پیتے ہوں گے؟ آفس جانے اور وہاں سے آنے کے کیا معمولات ہوں گے؟ انہیں کوئی پریشانی تو نہیں ہے؟ ساس سسر کیسے رہ رہے ہوں گے ؟ پتہ نہیں ، ان کی طبیعت ٹھیک ہے یا نہیں؟ یہ تو خود غرضی ہے کہ آپ یہ شکایت تو کریں کہ سسرال والوں نے آپ کو نہیں پوچھا ، لیکن آپ ان کی خبر نہ لیں ، اس پر آپ کو ندامت نہ ہوـ ” میں نے لڑکی کو نارمل کرنے کے لیے کچھ سوالات اس کے سامنے رکھےـ
” مولانا صاحب ! آپ سمجھ نہیں رہے ہیں ـ میں کیوں ان کی خبر لوں؟ مجھے تو معلوم ہوا ہے کہ وہ لوگ دوسری لڑکی تلاش کررہے ہیں ، بلکہ تلاش کرلی ہےـ” لڑکی نے اپنا اضطراب ظاہر کیاـ
میں نے جواب دیا : ” انہیں ضرور لڑکی تلاش کرنی چاہیےـ ان کا بیٹا بیوی ہوتے ہوئے آٹھ ماہ سے اس سے محروم ہےـ بیوی کی اکڑ ابھی اور کتنے دن رہے ، معلوم نہیں ـ انھوں نے اچھا فیصلہ کیا کہ اپنے بیٹے کی دوسری شادی کردیں _ اگر آپ اپنا رشتہ بچانا چاہتی ہیں تو فوراً شوہر اور سسرال والوں سے رابطہ کیجیے اور اپنے تمام گِلے شکوے دور کرلیجیےـ”
میں نے محسوس کیا کہ لڑکی کو میرا جواب پسند نہیں آیاـ اس نے کہا :
” میں نے رابطہ کیا تھا اور ان کے سامنے کچھ شرائط رکھی ہیں ـ”
میں نے فوراً ٹوکا :” ازدواجی زندگی شرائط پر نہیں گزاری جاتی _ آپ کو بغیر کسی شرط کے خود کو سرینڈر کردینا چاہیےـ”
"آپ نے پوچھا ہی نہیں کہ میں نے کیا شرائط رکھی ہیں؟ لڑکی نے بے چینی ظاہر کی ـ
میں نے کہا :” مجھے شرائط جاننے سے کوئی دل چسپی نہیں _ اس لیے کہ میں شرائط کے ساتھ زندگی گزارنے کو غلط سمجھتا ہوں _ پھر بھی اگر آپ چاہتی ہیں تو بتا دیجیے ـ ”
” میں نے اپنے شوہر کے سامنے یہ شرائط رکھی ہیں کہ وہ مجھے الگ گھر لے کر دیں گےـ میں ساس سسر کے ساتھ نہیں رہ سکتی ـ میں چاہے کوئی کام کروں یا نہ کروں ، وہ کوئی روک ٹوک نہیں کریں گےـ ”
میں نے سمجھایا : ” بیماری کی جڑ یہی ہےـ خود کو اپنی ساس کی جگہ رکھ کر سوچیے _ 20 برس کے بعد آپ اپنے لڑکے کا نکاح کریں گی ـ بہو آتے ہی یہ شرط رکھے کہ میں ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی ، تب آپ کو کیسا لگے گا؟ ماں نے اپنے بیٹے کو پال پوس کر اتنا بڑا کیا ہےـ اب آپ چاہتی ہیں کہ اسے اپنی ماں سے دور کردیں!! اس کے بجائے ساس سسر کے ساتھ ایڈجسٹ کرکے زندگی گزارنا سیکھیں ـ کیا آپ کی ماں نے آپ کو کبھی نہیں ڈانٹا؟ کیا آپ کی ماں نے آپ سے کوئی کام نہیں لیا؟ کیا آپ نے اپنی ماں کی کبھی کوئی خدمت نہیں کی؟ اگر آپ اپنی ساس کو اپنی ماں کی جگہ رکھ کر سوچیں تو ساس کی خدمت میں مزہ آئے گا اور ان کی تنبیہیں بُری نہیں لگیں گی ـ”
” مولانا صاحب ! پھر میں کیا کروں؟
“ سسرال سے کوئی لینے آئے یا نہ آئے ، آپ پہلی فرصت میں خود کسی کو لے کر سسرال پہنچ جائیے ، معافی مانگیے ، وعدہ کیجیے کہ آئندہ کسی شکایت کا موقع نہیں دیں گی _ ساس کے گلے لگ کر تھوڑی دیر رو لیجیے _ سارے گلے شکوے دور ہوجائیں گےـ”
” مولانا صاحب! ایسا کرنا مشکل معلوم ہورہا ہے ، لیکن خود کو آمادہ کرنے کی کوشش کرتی ہوں ،
جماعت اسلامی ہند کی جانب سے اس میقات میں ازدواجی تفہیمی کورس چلایا جارہا ہے،جس کے تحت غیر شادی شدہ یا نوشادی شدہ نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کے سامنے اسلام کی عائلی تعلیمات ، زوجین اور اہلِ خاندان کے حقوق ، خوش گوار خاندان کی تدابیر ، تنازعات کا حل اور دیگر موضوعات پر شرعی ، سماجی اور نفسیاتی رہ نمائی فراہم کی جاتی ہے _ یہ پروگرام الحمد للہ ملک کی مختلف ریاستوں میں منعقد کیے جارہے ہیں اور ان کے اچھے اثرات محسوس کیے جا رہے ہیں _ اس طرح کا ایک پروگرام حلقۂ دہلی میں طالبات کی تنظیم گرلس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (GIO) کی طرف سے منعقد کیا گیا ، جس میں آج میں نے طلاق و خلع کے موضوع پر اظہارِ خیال کیا _ میری گفتگو کے نکات درج ذیل تھے :
(1) جس طرح گلاب کے پھول سے ایک پنکھڑی الگ کرکے اس پنکھڑی کو دیکھ کر گلاب کے حسن کا صحیح اندازہ نہیں کیا جاسکتا ، اسی طرح اسلام کے مکمل نظام میں سے اس کے احکامِ طلاق کو الگ کرکے اس کا مطالعہ کرنے پر اس کی معنویت کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جاسکتا ۔
(2) طلاق عام حالات میں اور بلا ضرورت دینا پسندیدہ نہیں ، لیکن بسا اوقات یہ ناگزیر ہوجاتی ہے _ نکاح کے بعد زوجین میں ناموافقت سامنے آئے ، کوئی ایک یا دونوں کسی بھی صورت میں ایک ساتھ رہنا نہ چاہیں تو مناسب نہیں کہ وہ آئندہ زندگی گُھٹ گُھٹ کر جئیں ، بلکہ بہتر ہے کہ الگ ہوجائیں اور نئی زندگی کی ابتدا کریں _ اسی وجہ سے دیگر مذاہب ، جن میں طلاق کا آپشن نہیں تھا ، وہ بھی اسے اپنے عائلی قوانین میں شامل کرنے پر مجبور ہوئے ہیں _ اسلام میں طلاق زوجین اور خاص طور پر عورت کے لیے رحمت ہے ، لیکن اس کے بے جا اور ظالمانہ استعمال نے اسے عورت کے لیے زحمت بنادیا ہے ۔
(3) اسلام کی تعلیمات پر عمل ہو تو سماج میں کوئی لڑکا یا لڑکی بغیر نکاح کے نہیں رہیں گے _ لڑکی چاہے مطلّقہ ہوجائے یا بیوہ ، اس کا آسانی سے دوسرا نکاح ہوجائے تو طلاق کی شناعت کم ہوجائے گی _ لیکن افسوس کہ مسلم سماج کی بے جا اور مُسرفانہ رسموں کی وجہ سے لڑکیوں کا پہلا نکاح ہی دشوار تر ہوگیا ہے ، دوسرے نکاح کی بات کون کرے؟
(4) اسلامی تعلیمات پر عمل ہو تو نکاح کے نتیجے میں مرد پر ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں ، وہ عورت کو مہر دیتا ہے ، اسے تحائف سے نوازتا ہے ، ولیمہ کرتا ہے ، عورت کے لیے رہائش فراہم کرتا ہے ، اسے نفقہ دیتا ہے ، وغیرہ _ جب کہ عورت کو کچھ نہیں کرنا پڑتا ، وہ مہر پاتی ہے ، تحائف وصول کرتی ہے ، نفقہ اور سُکنی کی مستحق بنتی ہے _ اگر لڑکی کا نکاح آسان ہوجائے اور طلاق یا بیوگی کے بعد بھی اس کے نکاح میں کوئی دشواری نہ ہو تو عموماً طلاق سے مرد خسارہ میں رہے گا کہ اسے دوسرا نکاح کرنے پر نئی بیوی کو مہر ، ولیمہ اور دوسرے مصارف کرنے پڑیں گے ، جب کہ عورت طلاق سے فائدہ میں رہے گی کہ دوسرا نکاح ہونے پر اسے پھر مہر ، نفقہ ، سکنی وغیرہ ملے گا _ لیکن افسوس کہ آج کے مسلم سماج نے جہیز ، تلک ، بارات اور دیگر رسموں کی شکل میں نکاح کے تمام تر مصارف کا بار لڑکی کے گھر والوں پر ڈال دیا ہے، جس کی وجہ سے طلاق عورت کے لیے وبال بن گئی ہے ۔
(5) اسلام میں طلاق پر بہت سوچ سمجھ کر ، سنجیدگی کے ساتھ اور منصوبہ بند طریقے سے عمل آوری کا حکم دیا گیا ہے ، لیکن افسوس کہ مسلمان مرد اس کا بے سمجھے بوجھے ، یک دم ، غصے میں استعمال کرتے ہیں ۔
(6) طلاق کو معاشرتی زندگی میں آخری چارۂ کار بنایا گیا ہے ، حکم دیا گیا کہ پہلے شوہر بیوی تنہا تنازع حل کرنے کی کوشش کریں ، نہ حل کرسکیں تو اپنے اپنے اہلِ خاندان کو واسطہ بنائیں ، وہ بھی کام یاب نہ ہو سکیں تب علیٰحدگی کو سوچیں ، لیکن افسوس کہ مسلمان مرد اسے تنازع شروع ہوتے ہی پہلے حربے کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔
(7) طلاق پر صحیح طریقے سے عمل کیا جائے تو یہ اصلاً مرد کے لیے سزا ہے ، لیکن اسے بدعملی کی بنا پر عورت کے لیے سزا بنادیا گیا ہے _ پہلے طلاق سے مرد خسارہ میں رہتا تھا ، اب لڑکی اور اس کے گھر والے خسارہ میں رہتے ہیں ۔
(8) اسلام نے زوجین کے درمیان قطعی علیٰحدگی کے لیے طلاق کے تین مواقع فراہم کیے تھے اور ہر طلاق کو الگ الگ استعمال کرنے کی تاکید کی تھی ، لیکن عام مسلمان نادانی سے ان سب کا استعمال بیک وقت کرلیتے ہیں ۔
(9) اسلام کا حکم ہے کہ ایک طلاق اس وقت دی جائے جب عورت پاکی کی حالت میں ہو ، طلاق کے بعد عدّت کے دوران میں وہ شوہر کے گھر میں ہی رہے اور حسبِ سابق زیب و زینت اختیار کرے _ یہ حکم اس لیے دیا گیا تھا تاکہ دونوں کو اپنے رویّوں پر نظر ثانی کا موقع ملے اور رجوع کی کوئی صورت بن جائے _ لیکن افسوس کہ مسلمان مرد طلاق دے کر عورت کو فوراً گھر سے نکال دیتے ہیں اور عدّت کے دوران میں اس کی باکل خبر نہیں لیتے ۔
(10) پسندیدہ یہ ہے کہ صرف ایک طلاق دی جائے _ جب ایک طلاق سے کام چل جاتا ہے تو زیادہ کا استعمال بے مصرف اور غیر دانش مندی ہے _ اس طرح عدّت مکمل ہوتے ہی دونوں آزاد ہوجاتے ہیں کہ اپنی آئندہ زندگی کا فیصلہ کریں _ اس صورت میں رجوع کی گنجائش بھی رہتی ہے کہ دونوں چاہیں تو آزاد مرضی سے پھر نکاح کرسکتے ہیں ۔
(11) تین طلاق کے بعد دائمی حرمت کا حکم اصلاً مرد کو سزا دینے کے لیے دیا گیا ہے کہ وہ اتنا نالائق ہے کہ عورت جیسی خوب صورت ترین ہستی کو اپنے پاس رکھنے کے قابل نہیں ہے ، لیکن حالاتِ زمانہ نے اسے عورت کے لیے سزا بنادیا ہے ۔
(12) حلالہ کی مروّجہ صورت بالکل حرام ہے ، جس میں تین طلاق کے بعد شوہر مطلّقہ بیوی کا کسی اور مرد سے نکاح کا ناٹک کرتا ہے ، پھر اس سے طلاق دلواکر دوبارہ اس سے نکاح کرلیتا ہے _ یہ صورت خود سے پیدا ہوجائے تو جائز ہے ، لیکن جان بوجھ کر یہ مراحل انجام دینے والوں پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے لعنت بھیجی ہے۔
(13) طلاق اور خلع میں کوئی فرق نہیں ہے ، سوائے اس کے کہ مرد کی خواہش کے باوجود عورت اس کے ساتھ نہ رہنا چاہے تو وہ اس سے طلاق کا مطالبہ کرتی ہے _ مرد پر لازم ہے کہ اس کا مطالبہ مان کر اسے طلاق دے دے _ اس صورت میں عورت کو مہر وغیرہ سے دست بردار ہونا پڑتا ہے _ خلع ایک طلاق کے حکم میں ہے _ خلع کے بعد دونوں کا (عدّت کے اندر یا عدت کے بعد) پھر سے نکاح ہوسکتا ہے _ قاضی کے ذریعے فسخِ نکاح کی ضرورت اس وقت پڑتی ہے جب مرد عورت کا مطالبہ نہیں مانتا اور اسے لٹکائے رہتا ہے۔
(14) عدّت کے دو مقصد ہیں : سوگ اور استبراءِ رحم ، یعنی یہ جاننا کہ عورت کو حمل تو نہیں ہے _ اسی لیے رخصتی سے قبل طلاق ہوجائے تو کوئی عدّت نہیں _ مطلّقہ کی عدّت تین ماہ واری یا تین مہینے ہے _ اس مدّت میں حکم ہے کہ عورت زیب و زینت نہ اختیار کرے اور بلا ضرورت گھر سے باہر نہ نکلے ۔
میری گفتگو کے بعد لڑکیوں نے بہت سوالات کیے ۔ انھوں نے اپنے اشکالات رکھے اور وضاحتیں چاہیں _ میں نے تفصیل سے ان کے جوابات دیے ۔ یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی کہ لڑکیوں کا دینی شعور کافی بلند ہے اور وہ سنجیدگی سے اسلام کی عائلی تعلیمات سمجھنا چاہتی ہیں۔ اس پروگرام میں سو (100) سے زائد طالبات نے شرکت کی ۔ یہ چیز باعثِ اطمینان ہے کہ ایسے پروگرام دوسری ریاستوں میں بھی منعقد کیے جارہے ہیں ۔