استاذ و سابق ڈین، شعبہ تعلیم، پٹنہ یونیورسٹی، پٹنہ
بنی آدم پر اللہ رب العزت کے جو احسانات ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے انہیں صرف اپنی طاعت و عبادت کا مکلف ہی نہیں بنایا بلکہ وقفے وقفے سے ان کے درمیان انبیاء کرام علیہم السلام کو مبعوث فرماکر اور ان پر کتب و صحائف نازل فرما کر ان کی ہدایت و رہنمائی کے اسباب بھی فراہم کئے۔ قرآن کریم کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ اس سلسلے میں رب کریم کی طرف سے کچھ ضابطے اپنائے گئے جنہیں سنت الٰہیہ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ ان میں سب سے اول یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہر قوم کی طرف کسی نہ کسی نبی کو ضرور مبعوث کیا جو عموماً اسی قوم کے فرد ہوا کرتے تھے۔ ایسی کوئی قوم نہیں گزری جس کے پاس کوئی رسول نہیں آیا ہو۔ قرآن کریم کی آیات {إِنَّمَا أَنتَ مُنذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ} (الرعد: ۷) (مفہوم: آپ تو صرف آگاہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کے لئے ہادی ہے ) اور {وَإِن مِّنْ أُمَّۃٍ إِلَّا خلَا فِیْہَا نَذِیْرٌ} (فاطر: ۲۴) (مفہوم: اور کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈر سنانے والا نہ گزرا ہو) اس پر دال ہیں۔
دوسرا اہم ضابطہ رب کریم نے یہ قائم فرمایا کہ جس پیغمبر کو بھی کسی قوم کی طرف مبعوث کیا، وہ ان کی قومی زبان کے جانکار ضرور ہوا کرتے تھے۔ یہ اس لئے کہ پیغام رسانی اور تبلیغ دین میں ان کے اور قوم کے درمیان کوئی ترسیلی خلا (communication gap) نہ پیدا ہو اور قوم کو یہ عذر نہ رہے کہ انہیں تو پیغمبرِ خدا کی بات ہی سمجھ میں نہیں آئی۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: {وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلاَّ بِلِسَانِ قَوْمِہِ لِیُبَیِّنَ لَہُمْ فَیُضِلُّ اللّٰہُ مَنْ یَّشَآئُ وَیَہْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ} (ابراہیم: ۴) ( مفہوم): ’’اور ہم نے نہیں بھیجا کوئی رسول مگر اس کی قوم ہی کی زبان میں تاکہ وہ ان پر حق کو اچھی طرح واضح کردے، پھر اللہ جسے چاہتا ہے گمراہ کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے وہ ہدایت بخش دیتا ہے، اور وہ سب پر غالب و کمال حکمت والا ہے۔‘‘
اسی سے متعلق یہ ضابطہ بھی رہا کہ ربانی ہدایات بھی ان کی قومی زبان میں ہی نازل کی گئیں خواہ وہ کتاب یا صحیفوں کی شکل میں ہو یا وحی غیر متلو کی شکل میں۔ نبی کریم ﷺ گرچہ عالمی نبی تھے لیکن ان کے اولین مخاطب چونکہ عرب تھے اس لئے قرآن کریم ان پر عربی زبان میں ہی نازل کیا گیا۔ ارشاد ربانی ہے: {وَکَذٰلِکَ أَوْحَیْْنَا إِلَیْْکَ قُرْآناً عَرَبِیّاً لِّتُنذِرَ أُمَّ الْقُرَیٰ وَمَنْ حَوْلَہَا وَتُنذِرَ یَوْمَ الْجَمْعِ لَا رَیْْبَ فِیْہِ فَرِیْقٌ فِیْ الْجَنَّۃِ وَفَرِیْقٌ فِیْ السَّعِیْرِ} (الشوریٰ: ۷)(مفہوم): ’’اور اسی طرح ہم نے آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے تاکہ آپ مکہ والوں کو اور اس کے آس پاس کے لوگوں کو خبردار کریں اور جمع ہونے کے دن سے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ڈرا دیں، ایک گروہ جنت میں ہوگا اور ایک گروہ جہنم میں ہوگا۔‘‘
پھر اللہ کا ضابطہ یہ بھی رہا کہ پیغمبروں کی دعوت و تبلیغ کی محنت کے نتیجے میں بعض لوگوں کو ہدایت مل جاتی تھی اور بعضوں پر گمراہی ثابت ہوجاتی تھی اور اکثر وہ عذاب الٰہی کا بھی شکار ہوجاتے تھے۔ قرآن اس کی گواہی یوں دے رہا ہے: {وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوْا اللّٰہَ وَاجْتَنِبُوْا الطَّاغُوتَ فَمِنْہُمْ مَّنْ ہَدَی اللّٰہُ وَمِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْْہِ الضَّلٰلَۃُ فَسِیْرُوْا فِیْ الأَرْضِ فَانْظُرُوْا کَیْْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُکَذِّبِیْنَ} (النحل: ۳۶) (مفہوم): ’’ اور بلا شبہ ہم نے ہر امت میںایک رسول (اس ہدایت کے ساتھ) بھیجا کہ (لوگو) صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو، پھر ان میں سے کچھ وہ تھے جن کو تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دے دی اور بعض ایسے تھے جن پر گمراہی ثابت ہوگئی، پس تم خود زمین میں چل پھر کر دیکھ لو کہ جھٹلانے والوں کا انجام کیسا کچھ ہوا۔‘‘
ہدایت دینے کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کے ضابطے کو قرآن کریم نے یوں بیان کیاہے: {اَللّٰہُ یَجْتَبِیْ إِلَیْْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَیَہْدِیْٓ إِلَیْْہِ مَنْ یُّنِیْبُ} (الشوریٰ: ۱۳) (مفہوم): ’’ اللہ اپنے قرب کے لئے چن لیتا ہے جسے وہ چاہتاہے اور وہ ہدایت دیتا ہے اپنی طرف اسے جو اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔‘‘ اس آیت میں تقسیم ہدایت کے دو ضابطے بتائے گئے ہیں؛ ایک تو خاص ہے کہ اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے اپنے قرب کے لئے چن لیتا ہے۔ احقر کی نگاہ میں انبیاء کرام علیہم السلام کا انتخاب اسی زمرے میں آتا ہے۔ دوسرا ضابطہ عام ہے ، وہ یہ کہ جن کے دل ہدایت کے طالب ہوتے ہیں اور جو صدق دل سے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور پیغمبر خداکی اطاعت و فرماں برداری اختیار کرتے ہیں، اللہ انہیں ہدایت سے نواز دیتا ہے۔
اس کے برعکس جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے اور جو حق کے واضح ہوجانے کے باوجود نبی کی دعوت کو جھٹلاتے ہیں، ان کی اطاعت سے انکار کرتے ہیںیا ان کی مخالفت کرتے ہیں، ایسے لوگ ہدایت سے محروم کردئے جاتے ہیں۔ارشاد خداوندی ہے: {وَمَا یُضِلُّ بِہِ إِلاَّ الْفٰسِقِیْنَ} (البقرۃ: ۲۶)(مفہوم): ’’ اور وہ گمراہ نہیں کرتا اس (قرآنی مثال) سے سوائے نافرمانی کا رویہ اختیار کرنے والوں کے۔‘‘ موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کے تذکرے میں یہ دستور خداوندی اور بھی واضح ہے: {وَإِذْ قَالَ مُوسٰی لِقَوْمِہِ یَا قَوْمِ لِمَ تُؤْذُونَنِیْ وَقَد تَّعْلَمُونَ أَنِّیْ رَسُولُ اللّٰہِ إِلَیْْکُمْ فَلَمَّا زَاغُوْٓا أَزَاغَ اللّٰہُ قُلُوبَہُمْ وَاللّٰہُ لَا یَہْدِیْ الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْن} (الصف: ۵)(مفہوم): ’’اور (وہ وقت یاد کرو) جب کہ موسیٰ نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ اے میری قوم کے لوگو! تم مجھے تکلیف کیوں پہنچاتے ہو حالانکہ تم خوب جانتے ہو کہ بلاشبہ میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں؟ پھر جب انہوں نے ٹیڑھ اختیار کی تو اللہ نے ان کے دلوں کو (مزید) ٹیڑھا کردیا، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘ چنانچہ ہدایت اور ضلالت کے یہی ضابطے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے دور میں نافذ رہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ ضابطہ بھی رکھاکہ کسی قوم کی اس کی برائیوں کی وجہ سے تب تک پکڑ نہیں فرمائی جب تک کسی ہادی کو بھیج کر صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کے سلسلے میں ان پر حجت پوری نہیں کردی۔ اللہ کا ارشاد ہے: {وَمَا کَانَ رَبُّکَ مُہْلِکَ الْقُرٰی حَتّٰی یَبْعَثَ فِیْ أُمِّہَا رَسُولًا یَّتْلُوْا عَلَیْْہِمْ آیَاتِنَا وَمَا کُنَّا مُہْلِکِیْ الْقُرٰی إِلَّا وَأَہْلُہَا ظٰلِمُونَ} (القصص: ۵۹)(مفہوم): ’’ اور آپ کا پروردگار ایسا نہیں ہے کہ وہ بستیوں کو یوں ہی ہلاک کر ڈالے جب تک اس نے ان کے مرکزی مقام پر کوئی رسول نہ بھیجا ہوجو ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائیں ، اور ہم بستیوں کو اس وقت تک ہلاک کرنے والے نہیں ہیں جب تک ان کے باشندے ظالم نہ بن جائیں۔‘‘ اللہ رب العزت نے اپنے اس ضابطے کی مزید وضاحت نبی آخرالزماں کے ہم عصروں کے سلسلے میں یہ کہہ کر فرمادی: {وَلَوْ أَنَّا أَہْلَکْنٰہُمْ بِعَذَابٍ مِّنْ قَبْلِہِ لَقَالُوْا رَبَّنَا لَوْلَا أَرْسَلْتَ إِلَیْْنَا رَسُولًا فَنَتَّبِعَ آیَاتِکَ مِن قَبْلِ أَن نَّذِلَّ وَنَخْزٰی} (طٰہٰ: ۱۳۴)(مفہوم): ’’اور اگر ہم اس (قرآن کے نزول) سے پہلے ہی انہیں کسی عذاب سے ہلاک کردیتے تو یہ لوگ کہتے کہ اے ہمارے پروردگار ! آپ نے ہمارے پاس کوئی پیغمبر کیوں نہیں بھیجاکہ ہم ذلیل اور رسوا ہونے سے پہلے ہی آپ کی آیتوں کی پیروی کرلیتے؟‘‘
پھر جب اللہ کا رسول کسی قوم کے درمیان آجاتا ہے تو ہدایت اور ضلالت کی راہ اپنانے والوں کے درمیان فیصلہ ان کی حالت کے مطابق کردیا جاتا ہے یعنی ہدایت یافتہ گروہ غالب ہوجاتا ہے اور اخروی کامیابی بھی اس کے لئے مقدر ہوجاتی ہے اور گمراہ لوگ مغلوب ہوجاتے ہیں اور اکثر عذاب الٰہی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے: {وَلِکُلِّ أُمَّۃٍ رَّسُولٌ فَإِذَا جَآئَ رَسُولُہُمْ قُضِیَ بَیْْنَہُمْ بِالْقِسْطِ وَہُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ} (یونس: ۴۷)(مفہوم): ’’اور ہر امت کے لئے ایک رسول ہے، سو جب ان کا وہ رسول آجاتا ہے تو ان کے درمیان فیصلہ انصاف کے ساتھ کردیا جاتا ہے اور ان پر کوئی ظلم نہیں کیا جاتا۔‘‘
دعوت و ہدایت کے یہ سارے ضابطے احقر نے یوں ہی نہیں بیان کئے بلکہ اس کا تعلق موجودہ ملکی و عالمی پس منظر سے ہے۔ آج مسلمان سارے عالم میں مغلوب ہیں، ہر طرف ان پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں لیکن کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔ یہاں تک کہ جتنے مسلم ممالک ہیں وہ بھی اندرونی و بیرونی خلفشار کے شکار ہیں اور عالمی منظرنامے میں ان کی حیثیت نہیں کے برابرہے۔ ہمارے علماء کرام، ائمہ کرام اور بزرگان دین گمراہ قوموں کی ہدایت اور ظالموں کو نیست و نابود کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے جیسے ان کی دعاؤں میں کوئی اثر ہی نہیں۔نہ تو گمراہ قومیں ہدایت پر آرہی ہیںاور نہ ہی ظالم لوگ ہلاک و برباد ہورہے ہیں ۔ یہ صورتحال آخر کیوں ہے؟ اسے سطور بالا میں ذکر کئے گئے خدائی ضابطوںکی روشنی میں بہتر طور سے سمجھا جاسکتا ہے۔ آئیے ذرا اسے تفصیل سے سمجھنے کی کوشش کریں۔
آپ یہ سمجھ چکے ہیں کہ دعوت و تبلیغ ، ہدایت کے نزول کے اسباب میں سے ہے۔ اسی ضابطے کو پورا کرنے کے لئے اللہ رب العزت وقتًا فوقتًا پیغمبروں کو مبعوث کرتے رہے۔پھر آپ نے یہ بھی دیکھا کہ اللہ تعالیٰ کسی قوم کو تب تک مغلوب یا عذاب میں مبتلا نہیں کرتا جب تک اس پر دین حق کی دعوت کی حجت پوری نہیں ہوجاتی۔ ہم سب کا اس پر بھی ایمان ہے کہ نبی کریم ﷺ خاتم الانبیاء ہیں یعنی ان کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔دوسرے لفظوں میں قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسانوں کے نبی آپؐ ہی ہیں اور ان کی دنیوی و اخروی کامیابی آپؐ کے لائے ہوئے دین کی اتباع میں ہی مضمرہے جیسا کہ قرآن گواہی دے رہا ہے: {قُلْ یَا أَیُّہَا النَّاسُ إِنِّیْ رَسُولُ اللّٰہِ إِلَیْْکُمْ جَمِیْعًا الَّذِیْ لَہُ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالأَرْضِ لَا إِلٰہَ إِلاَّ ہُوَ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَکَلِمٰتِہٖ وَاتَّبِعُوْہُ لَعَلَّکُمْ تَہْتَدُوْنَ} (الأعراف: ۱۵۸)(مفہوم): ’’ آپ کہہ دیجئے کہ اے لوگو! بے شک میں رسول ہوں اللہ تعالیٰ کا تم سب کی طرف جس کی حکومت ہے آسمانوں اور زمین میں، نہیں ہے کوئی معبود اس کے سوا، وہی زندگی بخشتا ہے اور وہی موت دیتا ہے،پس ایمان لائو اللہ تعالیٰ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی امی پرجو کہ یقین رکھتے ہیں اللہ تعالیٰ پر اور اس کے سب کلاموں (احکام) پر اور ان کا اتباع کرو تاکہ تم ہدایت پاجائو۔‘‘
پھر ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ آپؐ کو صرف ۲۳ سال ہی کار دعوت کے لئے ملے اور اس کے جو نتائج سامنے آئے وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا کی ساری اقوام تک آپ کا لایا ہوا دین پہنچانے کی ذمے داری آخر کس کی ہے؟ پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہے کہ آپؐ کو جو کتاب ملی اور آپؐ کی جو ہدایات ہیں وہ سب عربی زبان میں ہیں جب کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ضابطہ رہا ہے کہ ہر قوم کو ہدایات ان کی قومی زبان میں ہی دی گئی ہیں۔ دنیا کی یہ ساری قومیں کل خدا کے سامنے یہ حجت کرسکتی ہیں کہ آخر ہم نے کون سا قصور کیا تھا کہ ہمارا نبی بھی ہماری قوم سے نہیں تھا اور ان کے ذریعے جو ہدایات بھیجی گئیں وہ بھی ہماری زبان میں نہیں تھیں؟ تو کیا اللہ رب العزت نے خود انہیں یہ حجت کرنے کا موقع فراہم کیا ہے؟ نہیں ! بلکہ اس نے ساری قوموں تک لسان قوم میں دین کی دعوت پہنچانے کی ذمے داری امت مسلمہ یعنی ہم سب کے اوپر ڈالی ہے۔ قرآن کا پیغام ہے: {کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّٰہ} (آل عمران: ۱۱۰)یعنی: ’’تم بہترین امت ہو جو تمام انسانوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہرکی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حکم دیتے ہو اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
یعنی یہ امت لوگوں کی ہدایت و اصلاح کے لئے ہی پیدا کی گئی ہے تاکہ انہیں بھلائیوں کی طرف بلائے اور منکرات سے روکے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہیں کہ یہ امت نبی کریم ﷺ کے کار دعوت میں شریک ہے۔ اب اس کی یہ ذمے داری ہے کہ تمام قوموں تک لسان قوم میں دین کی دعوت کو پہنچائے۔ قرآن کریم کی یہ آیت بھی اس پر صریح دلالت کررہی ہے: {قُلْ ہٰـذِہٖ سَبِیْلِیْ اَدْعُوْٓا إِلَی اللّٰہِ عَلٰی بَصِیْرَۃٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِیْ وَ سُبْحٰنَ اللّٰہِ وَمَآ أَنَا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ} (یوسف: ۱۰۸)یعنی: ’’آپ فرمادیجئے کہ میری راہ یہی ہے کہ بلاتا ہوں (لوگوں کو) اللہ کی طرف بصیرت کے ساتھ، میں (بھی) اور وہ (بھی) جو میرا اتباع کرنے والے ہیں اور اللہ پاک ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
نیز یہ بھی فرمایا: {وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ أُمَّۃً وَسَطاً لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآء عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْْکُمْ شَہِیْداً} (البقرۃ: ۱۴۳) (مفہوم): ’’ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہوجاؤ اور رسول تم پر گواہ ہوجائیں۔‘‘ لوگوں پر گواہ ہونے کا مطلب ظاہر طور پر یہی ہے کہ ان تک ان کی زبان میں دین کی دعوت پہنچادی جائے اور ہدایت یا ضلالت جس راستے کو بھی وہ اختیار کریںاس پر گواہ بن جایا جائے۔ آیت کی اس تاویل سے ان روایات کا قطعاً انکار لازم نہیں آتا جن میں یہ مذکور ہے کہ امت محمدیہ پچھلے نبیوں کی پیغام رسانی کے حق میں بھی گواہی دے گی۔ بہرحال مذکورہ آیات سے تو یہی بات سمجھ میں آتی ہے کہ دعوت و تبلیغ کی یہ ذمے داری رسول پاک ﷺ کے ایک ایک امتی پر ہے۔ اس فریضہ کی ادائیگی کے لئے پوری کی پوری شریعت کا عالم ہونا بھی ضروری نہیں بلکہ دین کا جو کچھ بھی علم ہو اسے دوسروں تک پہنچانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آیَۃً‘‘یعنی ’’میرا پیغام لوگوں تک پہنچاؤ اگرچہ ایک ہی آیت ہو۔‘‘ (صحیح بخاری، جزو رقم الحدیث ۳۴۶۱)۔
لیکن علماء کے سلسلے میں آپؐ کا یہ فرمانا کہ وہ انبیاء کے وارث ہیں ان کے اوپر ایک خصوصی ذمے داری عائد کرتا ہے اور یہ ظاہر ہے کہ دعوت و تبلیغ کا حق بھی وہی لوگ ادا کرسکتے ہیں جو علم والے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’إِنَّ الْعُلَمَائَ وَرَثَۃُ الأَنْبِیَائِ، إِنَّ الأَنْبِیَائَ لَمْ یُوَرِّثُوا دِینَارًا وَ لَا دِرْھَمًا، إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَ بِہِ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ‘‘ (مفہوم): ’’بے شک علماء انبیاء کے وارث ہیں اور بے شک انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں بنایا، بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہے۔ اس لئے جس نے اس علم کو حاصل کرلیا، اس نے (علم نبویؐ اور وراثت نبویؐ سے) پورا پورا حصہ لیا۔‘‘ (جامع ترمذی، رقم الحدیث ۲۶۸۲، بروایت ابو الدرداءؓ)۔
حدیث کے الفاظ یہ اشارہ کرتے ہیں کہ ہر وہ شخص عالم ہے جس نے علوم نبوت سے وافر حصہ جمع کرلیا ہو اور جس کی قرآن و سنت پر گہری نگاہ ہوخواہ اس نے وہ علم کسی ذریعہ سے حاصل کیا ہو؛ رسمی (Formal) یا غیر رسمی (Informal) ۔ چنانچہ ایسے ہر شخص پر علوم نبوت کا وارث ہونے کی حیثیت سے دعوت دین کی خصوصی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ لیکن ہمارے یہاں ’’علماء‘‘ کی ایک خاص اصطلاح ہے جس سے مروجہ مدارس کے فارغین ہی مراد لئے جاتے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو خود کو ہی علوم اسلامیہ کا خاص ماہر ، اسرار الٰہیہ کا واقف کار اور انبیاء کا وارث خیال کرتا ہے جس میں وہ کسی حد تک حق بجانب بھی ہے۔ لیکن اس طبقے کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ یہ دین کی دعوت کو دوسری قوموں کی زبان اور زمانے کے اسلوب میں پیش کرنے پر قادر نہیں الا ماشاء اللہ۔ بلکہ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ یہ طبقہ اپنوں کے درمیان بھی دین کو کتاب و سنت کے حوالوں اور منطقی دلائل کے ساتھ پیش کرنے پر قادر نہیں ہوتا، الاماشاء اللہ۔ نیز اس طبقے میں شامل افراد کے اوپر جذبات اور مسلک کا شدید غلبہ ہوا کرتا ہے۔ اگر آپ ان میں سے کسی سے ان کے بیان کردہ مسائل کے صرف حوالے مانگ لیجئے تو وہ آپ پر چراغ پا ہوجائے گا۔ ظاہر ہے کہ جو لوگ اس قدر جذباتی ہوں، وہ غیروں کو دین کی دعوت کس طرح دے سکتے ہیں اور ان کے تیکھے سوالات کو کیسے جھیل سکتے ہیں؟
دوسری طرف کالجوں و یونیورسٹیوں کے فارغین کا طبقہ ہے جن کے پاس دوسری زبانوں اور عصری اسلوب میں اپنی باتیں رکھنے کی پوری صلاحیت ہوتی ہے لیکن ان کی اکثریت دین اور دینی علوم سے ہی نابلد ہے۔ ان میں سے کوئی اگر قرآن و سنت اور دعوت و تبلیغ کی طرف راغب بھی ہوتا ہے تو مروجہ علماء کا طبقہ بجائے اس کو اپنا معاون و مددگار سمجھنے کے، اپنا رقیب سمجھنے لگتا ہے اور بجائے اس کی حوصلہ افزائی کرنے کے اس پر بری طرح سے حملہ آور ہوجاتا ہے اور عوام کو اس کے تئیں بدظن کرنے میں لگ جاتا ہے حالانکہ تجربے و مشاہدے سے ثابت ہوچکا ہے کہ یہ طبقہ اگر دعوت و تبلیغ پر کھڑا ہوجائے تو یہ اپنے طبقے کے ساتھ دوسری قوموں پر بھی زیادہ اثر انداز ہوتا ہے۔عالمی منظرنامے پر ایسی کئی مثالیں موجود ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ دوسری قوموں تک ان کی زبان و اسلوب میں دعوت پہنچانے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ قرآن و حدیث اور دیگر اسلامی علوم کو دنیا کی تمام اقوام کی زبانوں میں منتقل کیا جائے جس میں اس عصری علوم سے وابستہ طبقے کی معاونت ضروری ہوگی بلکہ ان کی مدد کے بغیر اس حدف کو حاصل کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔
اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طبقے کو دین اور دینی علوم سے قریب لایا جائے، انہیں ان کی ذمے داری کا احساس دلایا جائے، ساتھ ہی انہیں یہ سمجھایا جائے کہ وہ دین کی ترویج و اشاعت کے لئے اپنی صلاحیتوں سے کیا کچھ کرسکتے ہیں۔ یہ دونوں طبقے ایک دوسرے کے معاون بن کر دعوت و تبلیغ اور تصنیف و تالیف کا کام کریں تو بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن علماء جب تک اپنی روایتی سوچ سے باہر نہیں نکلیں گے اور مسلک سے اوپر نہیں اٹھیں گے، یہ کام نہیں ہوسکتا۔ انہیں فروعی مسائل کے اختلافات سے چشم پوشی کرکے اصول دین اور ان کی دعوت پر باہم متحد ہونا چاہیے۔ نیز ان کو اپنے مدارس کے نصاب میں بھی ضروری تبدیلی لانی چاہیے اور اس کا رخ مختلف اقوام کے لئے داعیوں کی تیاری کی طرف موڑنا چاہیے۔ الحمد للہ کچھ علماء کرام کے ذہن میں یہ باتیں آئی ہیں اور بعض اداروں میں یہ کام شروع بھی ہوچکا ہے لیکن وہ کافی نہیں ہے۔ زیادہ تر مروجہ اداروں کا نصب العین اپنے مسلک کا تحفظ ہی بن کر رہ گیا ہے۔
یاد رہے کہ جب تک ہم دوسری اقوام تک ان کی زبان و اسلوب میں دعوت پہنچا کر حجت پوری نہیں کردیں گے، نہ ان کی عمومی ہدایت کے فیصلے ہوں گے، نہ ہی ہمارے لئے اللہ کی مدد و نصرت آئے گی اور نہ ہی ظالموں کے لئے ہلاکت یا مغلوبیت کے فیصلے ہوں گے خواہ ہم کتنی ہی دعائیں کرتے رہیں کیوں کہ یہ ضابطہ خداوندی یا سنت الٰہیہ کے خلاف بات ہے جس کا ذکر سطور بالا میں کیا جاچکا ہے۔ ہماری اکثریت کا معاملہ تو یہ ہے کہ اسے اپنی اس ذمے داری کا احساس بھی نہیں، وہ دوسروں کے دین و ایمان کی فکر کیا رکھیں جب کہ خود دین سے بیگانہ ہوکر زندگی گزار رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو ہم خود ظالم بن چکے ہیں کیوں کہ ہم نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی دی ہوئی ذمے داری کو نہیں نبھایا، دین و ایمان کا جو سرمایہ ہمارے پاس ہے ، ہم نے دنیا کی اقوام تک اسے نہیں پہنچایا اور ہم انہیں عذر تراشی کا یہ موقع فراہم کررہے ہیں کہ وہ بروز حساب اللہ تعالیٰ کے سامنے یہ کہیں کہ ہمارے پاس تو کوئی نذیر نہیں آیا اور جب یہ معاملہ پیش آئے گا تو بالآخر کون پکڑا جائے گا؟
اس لئے ہمیں اس مسئلہ پر ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے اور اس سلسلے میں احساس ذمے داری کے ساتھ اپنا قدم آگے بڑھانا چاہیے۔ ایک تو ہمیں اپنے علم میں روز افزوں اضافہ کرنا چاہیے کہ لاعلمی کسی نظام میں عذر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ دوسرے ، ہمیں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جو کچھ بھی جانی، مالی، ذہنی و علمی صلاحیتیںدے رکھی ہیں ان کا استعمال دین کی ترویج و اشاعت اور دعوت و تبلیغ کے لئے کیسے ہوسکتا ہے ، اس پر غور کرنا چاہیے۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس حقیر کو بھی علم کی دولت سے مالامال فرمائے اور اپنے دین کی دعوت کے لئے اس کی صلاحیتوں کو بھی قبول کرلے۔ آمین!
ً