انشائیہ
ان کا نام تو کچھ اور تھا لیکن عمومی طور پر وہ ‘پاجامہ’ کے نام سے معروف ہیں، اور اس حد تک معروف ہیں کہ انہیں اصل نام سے کوئی نہیں جانتا۔ شناخت کیلئے نام کے ساتھ عرفیت لگانا ناگزیر ہوجاتا ہے۔ حتیٰ کہ تقاریب کے دعوت ناموں پر بھی اصل نام کے ساتھ قوسین میں عرفیت بھی تحریر کی جاتی ہے۔ بعضے اپنی آسانی کیلئے عرفیت کے ساتھ قوسین میں اصل نام لکھ لیا کرتے ہیں۔ عرفیت کی وجہ تسمیہ تو راقم کے علم میں نہیں آسکی البتہ کچھ احباب کے مطابق انہیں ایک زمانے میں پتلون سے زیادہ پاجامے پسند تھے۔ موصوف سے جب پہلے پہل تعارف ہوا تو بعض معاملات و افکار میں وہ راقم کو ہم خیال سے آگے کی چیز "ہم پاجامہ” معلوم ہوئے لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا وہ ہمیں پاجامے میں تنہا چھوڑتے گئے۔ تاہم انہوں نے مکمل برہنگی اختیار نہیں کرلی بلکہ مختلف نظریات کے چیتھڑوں سے بمشکل اپنی ستر پوشی میں کامیاب رہے۔
کھردرے نقوش، پھوہڑ سہاگنوں کی طرح پھولا ہوا منہ، چھوٹی چھوٹی شاطر آنکھیں اور داڑھی مونچھوں سے بے نیاز چہرے پر دیرینہ قبض کی علامات چھپائے نہیں چھپتی ہیں۔ جھگڑوں اور پنچایتوں کا شغل ہے۔ کھانا تناول فرماتے ہوئے اگر پلیٹ کی جانب دیکھ رہے ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ بوٹیوں اور چاول کے دانوں کو ایک دوسرے سے لڑانے کے لیے بھڑکا رہے ہیں۔ تاروں بھرے آسمان کی جانب ان کی نظر اٹھے تو اندیشہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اجسامِ فلکی کے باہم ٹکرا جانے کا خیالی منظر دیکھ رہے ہیں۔ موصوف کو دوسروں کے تنازعات میں ثالث بننے کا بے پناہ شوق ہے، اس لیے تنازعات موجود نہ ہوں تو انہیں پیدا کرنے کیلئے سرگرداں رہتے ہیں۔ جب تنازعات پیدا ہونے کی سبیل نظر نہیں آتی تو خود ہی کسی سے جھگڑ بیٹھتے ہیں، روٹھ جاتے ہیں اور عرصہ تک خفا رہتے ہیں۔ پہلے پہل حلقہ احباب نے ان کے روٹھ جانے کو سنجیدگی سے لیا لیکن یہ سلسلہ ماہ بہ ماہ سال بہ سال جاری رہا تو دوستوں نے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ بعض مفسدین نے تو انہیں ان کے حال پر چھوڑنے کے ساتھ ساتھ فریق مخالف کی بھی حوصلہ افزائی فرمائی اور پرائیوٹ حالات کھول کھول کر بیان کیے۔
عرصہ تک مکمل بیکار رہنے کے دوران ان کا ایک مخصوص حلقہ تھا، تاہم برسرکار ہونے کے بعد ان کا حلقہ احباب تبدیل ہوگیا۔ اس سے قبل ان کی بیٹھکیں نفسیاتی قسم کے لوگوں کے ساتھ ہوتی تھیں۔ بعد میں انجمنیں تبدیل ہوئیں تو نئی انجمنوں کو بھی نفسیاتی بنانے کی کوششیں کی گئیں اور اس میں خاطر خواہ کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ سوائے معدودے چند افراد کے جنہوں نے ان کی بیزاری کے اثرات تسلیم کرنے سے انکار کردیا، نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت پاجامہ ان افراد سے برگشتہ ہوگئے اور ان پر ترقی پسندی کا الزام لگاتے ہوئے ان کے مکمل بائیکاٹ کا اعلان کردیا، لیکن یہ اعلان صرف ان کی ذات تک ہی محدود رہا۔ بیٹھکوں پر لگائے گئے ان کے کرفیو کا اثر یہ ہوا کہ جو افراد خیال خاطر احباب کے تحت انہیں برداشت کیے جارہے تھے، دبے لفظوں میں وہ بھی ان کے حریفوں کے ساتھ سر میں سر ملانے لگے۔ اس کا اندازہ موصوف کو بھی ہوا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل نئے حمایتیوں کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ اس ساری تگ و دو میں وہ اتنے تنہا ہوگئے کہ بسا اوقات گمان ہونے لگا کہ جون ایلیا پاس باقی رہ گیا اکلوتا پاجامہ کوئی اور نہیں بلکہ یہی ذات شریف تھے۔
نظریاتی اور مذہبی اعتبار سے "مذبذبین بین ذلک” قسم کی شخصیت ہیں۔ اگر کوئی اور یہ روش اختیار کرے تو فوراً سے پیشتر اسے منافق قرار دے دیتے ہیں۔ روشن خیال مسلم مصلحین و مفکرین کے سخت مخالف ہیں اور ان مصلحین کے تعمیر کردہ تعلیمی اداروں میں شرکت ہی ان کی زندگی کی سب سے بڑی متاع ہے۔ فرماتے ہیں کہ یہ نفاق کی وہ قسم ہے جس سے ایمان کو کوئی گزند نہیں پہنچتی۔ ان تعلیمی اداروں سے واپسی پر متمنی ہوئے کہ حلقہ احباب کی جانب سے ان کیلئے ایک عدد تہنیتی تقریب کا انعقاد کیا جائے، لیکن حلقہ احباب نے بالکل بھی نوٹس نہیں لیا۔ مجبوراً انہوں نے کسی حواری کے ذریعے اس معاملے پر توجہ دلائی، اس کے بعد بھی حلقہ احباب نے کوئی نوٹس نہیں لیا، چنانچہ وہ خفا ہوگئے اور عرصہ دراز تک خفا رہے۔ غالباً آج بھی خفا ہی ہیں۔
نثر نگاری میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ حقیقت کو افسانہ اور افسانہ کو حقیقت بنا دینے کا ہنر خوب جانتے ہیں۔ اساتذہ کے افسانوں اور ناولوں کے کردار معاشرے میں چلتے پھرتے نظر آتے ہیں لیکن موصوف کے افسانوں کے کردار پہلے معاشرے میں نظر آتے ہیں، اس کے بعد افسانوں کا حصہ بنتے ہیں۔ مفسدین کہتے ہیں کہ انہیں کوئی حقیقی واقعہ بتایا جائے تو وہ اسے افسانے کے قالب میں ڈھال دیتے ہیں۔ نیز دوسروں کے افسانوں میں کوئی نفسیاتی کردار نظر آتا ہے تو از خود اس کے قالب میں ڈھل جاتے ہیں۔ طویل وقت تک کیرکٹر میں رہتے ہیں اور احساس ہونے پر یا توجہ دلانے کے بعد کیرکٹر سے باہر آتے ہیں۔ تاہم یہ خوشگوار عرصہ نہایت مختصر ہوتا ہے کہ ایک دن اچانک نوید ملتی ہے کہ موصوف پھر کیرکٹر میں چلے گئے ہیں۔
زہے روانی عمرے کہ در ‘کیرکٹر’ گزرد
موصوف ان دنوں مفقود الخبر ہیں اور ہم ان کے فراق میں پچھاڑیں کھا رہے ہیں۔ اخبارات میں دنگے فساد کی خبروں کے ساتھ آنے والی تصاویر میں انہیں تلاش کرنے کی سر توڑ کوششیں جاری ہیں اور ہمیں یقین ہے کہ یہی ایک طریقہ ان کی تلاش میں سودمند ثابت ہوسکتا ہے۔ گزشتہ دنوں یورپ سے ایک خبر آئی تھی جہاں سمندر میں غرق ہوئے جہاز سے بچائے گئے ایک شخص نے طویل بیہوشی کے بعد ہوش میں آنے پر کہا تھا : ‘یہ کون سا ملک ہے، میں کہاں ہوں اور یہاں کوئی ترقی پسند ہے تو میں اس کے خلاف ہوں۔’ گمان غالب ہے کہ وہ ہمارے ممدوح ہی ہیں تاہم تادم تحریر اس شخص کی تصویر سامنے نہیں آسکی ہے۔ اس گمان کی وجہ یہ ہے کہ موصوف کیلئے ترقی پسند کی تعریف دیگر ہے اور ان کی تعریف کے لحاظ سے ہر وہ شخص ترقی پسند ہے جو ان سے کلی اتفاق نہیں رکھتا ہے۔
آج کل ساجدہ بیگم کا ایک ہی کام تھا ، روز صبح اخبار لے کر بیٹھ جاتیں اور ضرورت رشتہ کے کالم میں اپنے بیٹے کی شادی کے لئے مناسب رشتہ تلاش کرتیں – مہینوں گزرنے کے بعد بھی کوئی ڈھنگ کا رشتہ نہیں مل رہا تھا – لیکن آج ان کی نظر ایک اشتہار پر ٹک سی گئی – لکھا تھا -کورونا سے آزاد خاندان کی تعلیم یافتہ ، ماسک کی پابند لڑکی جو کووی شیلڈ ویکسین کے دونوں ٹیکے لے چکی ہے کے لئے رشتہ مطلوب ہے- لڑکا بھی کورونا سے پاک اور ماسک کا پابند ہو – کووی شیلڈ ویکسن کے دونوں ٹیکے لے چکاہو- جو ورک فروم ہوم اور ورک ایٹ ہوم کی صلاحیت کا حامل ہو – دلچسپی رکھنے والے امید وار بائیوڈیٹا کو مقامی کو یڈ سنٹر سے اٹسٹیشن کرواکر کرونا فری ہونے کے شہادت نامہ کے ساتھ اپنے ای پاسپورٹ کی کاپی بھی منسلک کرکے میل کریں – کورونا مناسب طرز عمل کی پیروی کرنے والے خاندان کو ترجیح دی جائے گی-
"اجی سنتے ہو” بیگم نے اخبار سے نظریں ہٹاتے ہوۓ شوہر نامدار کو آواز لگائی -”
سناؤ کیا سنانا چاہتی ہو؟ جب سے تم سے بندھا ہوں صرف سنتا ہی تو آرہا ہوں- بولنا تو جیسے بھول ہی گیا ” اعجاز صاحب بڑ بڑائے
"بختیار کے لئے لڑکی مل گئی” ساجدہ کے لہجے سے خوشی جھلک رہی تھی –
"میں بختیار کا بائیو ڈیٹا لڑکی والوں کو بھیج دیتی ہوں -انہیں لڑکا پسند آجائے تو ہم لڑکی سے ملنے آج چلے جائیں گے ” ساجدہ نے ایک ہی سانس میں اپنا پروگرام سنا دیا تھا –
"ٹھیک ہے جیسا تم مناسب سمجھو” اعجاز صاحب نے جواب دیا
دوچار دن بعد ساجدہ اپنے شوہر سے گویا ہوئیں
” لڑکی والوں کو بختیار پسند آگیا ہے اسی لئے انہوں نے ہمیں کاڑھے پہ بلایا ہے”- ساجدہ چہک رہی تھیں –
خاندان قبیلہ، رنگ روپ، قد کاٹھی، رہن سہن، لین دین سب کے بارے میں پوچھ لیا نا تم نے؟
اعجاز صاحب نے سوال کیا ؟
"ارے کس دور میں جی رہے ہیں آپ ؟
وہ سب تو پرانے زمانے کی باتیں ہیں – آج کل کے کورونائی دور میں ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں- اب ٹرینڈ بدل گیا ہے – اس دور میں جینا ہے تو اسی کی مناسبت سے جانکاری حاصل کرنی ہوگی – اوراگر کوئی مطالبہ رکھنا تو وہ بھی اسی سلسلے کا ہونا چاہئیے ، شادی بھی اسی قواعد و ضوابط کی لحاظ سے کرنی ہوگی سمجھ گۓ نا آپ ؟ انہوں نے اعجاز کو سمجھاتے ہوۓ کہا –
شام کے ٹھیک چار بجےاعجاز صاحب اور ساجدہ لڑکی والوں کے گھر پہنچ گۓ – گیٹ پر ماسک دھاری چوکیدار سانیٹائزر اور خودکارتھرمامیٹر کے ساتھ ان کے استقبال کے لئے موجود تھا –
"کیا زمانہ آگیا ہے- ایک دور تھا جب دلہے والوں کی آمد پر صندل ہاتھ دیا جاتا تھا آج سانیٹائزر دیا جا رہا ہے – جہاں رنگ برنگے چوبے سے منہ میٹھا کیا جاتا تھا آج وہاں جبراً تھرمامیٹر سے گزارا جارہا ہے – کبھی نہیں سوچا تھا کہ زندگی میں یہ دن بھی دیکھنے پڑیں گے” اعجاز صاحب اپنے آپ سے محو گفتگو تھے –
اس مرحلے سے گزر کر ڈرائنگ روم میں داخل ہوۓ تو لڑکی کے والدین اپنے چہروں پر فیس شیلڈ سجاۓ بارعب طریقے سے ایسے تشریف لاۓ جیسے بادشاہ سلامت اور ملکہ اپنے سروں پر تاج سجاۓ چلےآرہے ہوں کہ "با ادب با ملاحظہ ہوشیار! کورونائی دور کے والدین تشریف لا رہے ہیں”-
ان دونوں نے پہلے تو ہمیں دور سے سلام کیا اس کے بعد مخصوص انداز سے اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں شانے پر اور بائیں ہاتھ کو دائیں شانے پر چلیپے کی شکل میں رکھ کر سر کو خفیف سا جھکایا –
ہم حیرانی سے ایک دوسرے کامنہہ تکنے لگے کہ آخر یہ ہو کیا رہا ہے ؟ یہ کس قسم کا اشارہ کر رہے ہیں ؟
انہوں نے ہماری پریشانی کو بھانپتے ہوۓ کہاکہ” اس اشارہ کا مطلب ہے کہ ہم آپس میں ایک دوسرے سے گلے مل رہے ہیں – چونکہ مادی طور پر گلے ملنا خطرے سے خالی نہیں اس لئے کورونا کی اس تہذیب کو اپنانا پڑ رہا ہے”-
"اوہ اچھا! کہتے ہوۓ ہم دونوں نے بھی فوراَ اپنے ہاتھ اسی انداز میں اپنے شانوں پر رکھ لئے” – ہمیں شرمندگی بھی ہوئی کہ ہم کورونا کے دور میں رہتے ہوۓ بھی اس کی تہذیب سے، اشاروں کی زبان سے واقف نہیں تھے – بالکل اسی طرح جس طرح مسلمان ہوتے ہوۓ بھی ہم اپنے دین سے پوری طرح واقف نہیں ہوتے –
کورونا کی مناسبت سے ڈرائنگ روم کے فرنیچر کے درمیان بھی کافی فاصلہ رکھا گیا تھا – کچھ ہی دیر میں ایک نقاب پوش ملازمہ قابل تلف گلاسوں میں ہمارے لئے گنگنا پانی لے آئی کہ کورونا سیزن میں گنگنا یعنی نیم گرم پانی پینا احتیاط کا تقاضا ہے-
” آج کل کوئی بھی مشتبہ ہو سکتا ہے – ہم نہیں جانتے کہ ہم میں سے کون وائرس کو اپنے ساتھ لۓ گھوم رہا ہے اس لئے ہم لوگ آج کل استعمال کرکے پھینک دینے والے مصنوعات کا استعمال کر رہے ہیں” لڑکی کی والدہ نے وضاحت کرنا ضروری سمجھا –
ہم نے صوفہ پر بیٹھے بیٹھے اطراف و اکناف کا جائزہ لیا تو دیکھا کہ ہمارے سامنے والی دیوار پر وباء سے بچنے کی دعا خوبصورت سنہری فریم میں آویزاں تھی – دائیں جانب رکھے شوکیس میں کورونا وائرس کا دلکش ماڈل رکھا تھا-
"بہت خوبصورت ہے – اسے دیکھ کر ڈر نہیں ہو رہا ” ساجدہ نے ماڈل کی طرف اشارہ کرکے کہا
"یہ ہمارے بیٹے نے آسٹریلیا سے بھیجا ہے- کہتا ہے اس کو سنبھال کر رکھنا چاہۓ تاکہ ہمارے بعد آنے والی نسلوں کو بھی پتہ چلے کہ ہم کس وباء کے دور سے گزرے تھے – کس طرح لوگوں نے رشتوں کو جوڑنے کے لئے دوریوں کو فروغ دیا تھا” – لڑکی کی والدہ نے بتایا –
اس دوران ملازمہ
"کاڑھا” لے آئی تھی – ہم اپنے کپ سے کاڑھے کے کڑوے کسیلے گھونٹ حلق سے نیچے اتار رہے تھے کہ لڑکی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئی –
جسے دیکھ کر ہمیں فلم لیلیٰ مجنوں کی ہیروین یاد آگئی – اسی قسم کا اؤٹ فٹ، چہرے پر "غلاف لب و رخسار’ سجاۓ ہاتھوں میں دستانے پہنے وہ ہمارے سامنے موجود تھی – ہم آۓ تو تھے لڑکی کو دیکھنے لیکن یہاں تو اس کی آنکھوں کے سوا ہمیں کچھ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا –
گویا کہہ رہی ہو "میری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے”
"تعلیم جاری ہے ؟ ہم نے پوچھا ؟
"جی ! کورونا پر ریسرچ کر رہی ہوں” – اس نے جواب دیا –
"پکوان آتا ہے ؟‘‘
ہمارا دوسرا سوال تھا –
"جی آتا ہے نا – ہر قسم کا کاڑھا ، شوربہ ہربل چاۓ کے ساتھ ساتھ کورونا میں استعمال ہونے والی مدافعت بخش غذاؤں کے پکوان میں ماہر ہوں- آپ لوگ اطمنان سے بیمار ہو سکتے ہیں – کوئی پریشانی کی بات نہیں میں دیکھ لوں گی ” – اس نے کہا تو لگا کہ ہم اسے کیا دیکھیں گے ؟ لازم ہے کہ یہی ہمیں دیکھ لے گی-
"کچھ سلائی کڑھائی بھی سیکھی ہے ؟
تیسرا سوال تھا –
"جی ہر قسم کا ماسک سینا جانتی ہوں – کاٹن ، ایمرائڈری ، اپلک ورک ، کروشیا، زری ورک —-"”
"بس بس ” ہم نے درمیان میں ہی اسے روک دیا – اب ماسک تو ماسک ہی ہے چاہے کسی بھی قسم کا ہو منہ تو چھپتا ہی ہے – دکھائی کہاں دیتا ہے – ہم سر اٹھا کے جینے والوں کو منہ چھپا کے جینے پر مجبور کیا جا رہا ہے – آخر کب تک ہم اس طرح بغیر کسی گناہ کے منہ چھپاۓ پھرتے رہیں گے ؟؟؟ آخر ہمیں اس سازش کا شکار کیوں بنایا جا رہا ہے ؟
"آپ کی کوئی فرمائش ؟‘‘ لڑکی کے والد نے ہم سے پوچھا –
"جی نہیں – آپ ہمیں اپنی کورونا جنگجو لڑکی دے رہے ہیں ہمیں اور کیا چاہیے ؟” ہم نے فوراً اپنا عندیہ ظاہر کیا –
"لڑکے سے آپ کی ملاقات گوگل میٹ پر ہو چکی ہے- آپ کو لڑکا پسند ہے اور ہمیں لڑکی پسند ہے – تو پھر دیر کس بات کی ؟ ہم جاننا چاہتے تھے –
"کوئی دیر نہیں! نکاح کا دعوت نامہ سب کو واٹس اپ کر دیا جاۓ گا – نکاح زوم آن لائن پر ہوگا – فیس بک لائیو کے ذریعہ مہمان شرکت کریں گے – جس کو سلامی یا رقمی تحفہ دینا ہو وہ گوگل پے کے ذریعہ بھیج دیں – تحفے پورٹر، ریاپیڈو یا کارگو کے ذریعے روانہ کیے جا سکتے ہیں – ولیمہ کے وچرز مہمانوں کو بھیج دیے جائیں گے – سب لوگ اپنی پسندیدہ ریسٹورنٹ میں بیٹھ کر ورچول ولیمہ کی دعوت میں شرکت کر سکتے ہیں- شادی کی تصاویر انسٹاگرام اور ٹویٹر پر پوسٹ کی جائیں گی-
لڑکی کے والدین نے شادی کا پورا لائحہ عمل ہمارے سامنے رکھ دیا تھا اور ہم سوچ رہے تھے:کورونا نے شادیوں کو کتنا کم خرچ اور آسان بنا دیا ہے ،کاش یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے!
ہمیں’ سیاست‘ اور سیاست دانوں سے کبھی کوئی دلچسپی نہیں تھی ‘ کیوں کہ ہم سمجھتے تھے کہ ایسی ویسی ‘ آڑی ٹیڑھی شخصیتوں کو ’سیاست‘ سے دلچسپی ہوتی ہے اور ہم خود کو ایسی ویسی ‘آڑی ٹیڑھی شخصیت نہیں گردانتے تھے۔اسکول اور کالج کی لائبریری میں ‘ہم یوں تو روزانہ اخبار کا مطالعہ کرتے‘لیکن ‘ صفحہ اول اور صفحہ آخر پر ترش نگاہ ڈال کر ادب کاضمیمہ ڈھونڈنے لگ جاتے ۔ اگر اول و آخر صفحے کی موٹی موٹی سرخیاں ہماری آنکھوں میں چبھنے لگتیں تو یوں ہی ناگواری سے ایک نظر ڈال لیتے اور خود کو ملامت کرنے لگتے ‘کیوں کہ وہی حسب ِمعمول سرخیاں اور خبریں ہوتیں : ٹرین پٹری سے اترگئی ‘چالیس افراد ہلاک‘ بتیس زخمی‘چار کی حالت تشویش ناک‘مہلوکین کے ورثاء کو ایک ایک لاکھ ایکس گریشیا ۔ وزیراعظم‘ وزیرداخلہ ‘ وزیراعلیٰ نے اس حادثے پرگہرے رنج وملال کا اظہارکیا ہے‘ وغیرہ۔ (ویسے ہمیں قطعی یقین نہ ہوتا کہ ان سیاست دانوں کو کوئی رنج وملال ہوتا ہوگا) دوسری سرخی /خبریہ ہوتی : مسجد میں بم دھماکہ ‘ مندر کو نقصان ‘ چیف منسٹر نے عوام کو تیقن دیا ہے کہ وہ خاطیوں کو جلدازجلد گرفتار کروائیں گے ‘ لہٰذاعوام انتہا پسندی سے گریز اور صبروتحمل کا مظاہرہ کریں ۔دیگرسرخیاں ہوتیں: دومخالف گروہوں میں جھڑپ‘ کرفیوکا نفاذ‘حالات تشویشناک لیکن پھربھی قابو میں ۔ایک جرائم و حادثات کا کالم بھی ہوتا ‘ اس میں مختلف واقعات درج ہوتے ‘جیسے بیوی نے شوہر کو قتل کردیا ‘ تین ماہ کی دلہن کی خودسوزی ‘ سسرال والوںنے بہوکوآگ کے سپرد کیا ‘مسلسل بیٹیوں کی پیدائش پر خاتون کو طلاق ‘مزیدجہیز کے لیے ہراسانی ‘ پچاس ہزار کا سرقہ‘طلائی زیورات کی چوری وغیرہ ۔
اخبار کے مذکورہ صفحات کی تلخی کو بھولنے کے لیے ہم قومی صفحہ پرنظردوڑاتے ‘ اس کی سرخیاں بھی ہمیں کوئی خوشی فراہم نہ کرتیں‘ مختلف گھوٹالوں کو نمایاں کرتی خبریں ۔اورسیاسی جماعتوں کی باہمی الزام تراشیاں اکتاہٹ کا سبب بنتیں ۔
کسی دوسری نیوز سے پتا چلتا کہ وزیراعظم کو نزلہ زکام ہوگیا ہے اورانہیں مسلسل چھینکیں آرہی ہیں (ہم یہ سوچنے لگ جاتے: ’’کیا غضب ہے ‘خداکا کہ ہمیں پندرہ دن تک ‘کھانسی بخار‘ سردی زکام کی شکایت رہی ‘ اورباربار‘ کئی بار چھینکیں آتی رہیں‘ مگرافسوس کہ یہ خبر کسی مقامی اخبار کی بھی زینت نہ بن سکی۔ وزیراعظم کی عیادت کی خاطر مہنگی کاروں میںلوگ ان کی قیام گاہ پہنچے ‘ ہماری مزاج پرسی کے لیے کوئی سستے آٹو میںسوار ہوکر ہی سہی ہمارے گھرتشریف لے آتا ‘‘ ) خیر کڑھتے ہوئے ہم قومی خبروں سے بھی منہ موڑ لیتے‘اوربین الاقوامی صفحہ کھولتے توکوئی نیوز ہمیں شرم سے پانی پانی کردیتی ۔ بزنس کے صفحہ پر ایک نظر ڈالنا بھی ہمیں گوارا نہ ہوتا تھا‘ہماری ’’حساسیت‘‘ کیا کم تھی جو ہم حصص بازار کے ’’حساس‘‘ اشاریہ پر توجہ مرکوز کرتے ۔ اسپورٹس کے گوشے سے بھی ہمیں کوئی دلچسپی نہ تھی ‘ ہم صرف انڈیا اور پاکستان کے چنندہ کھلاڑیوں کو ہی پہچانتے تھے ‘دیگر ممالک کے ’’پالک‘‘ (Shaun pollock) ‘’’میتھی‘‘ (Matthew Hayden )‘’’ہنسی‘‘ ( Hansie Cronje )’’رکی‘‘ (Ricky Ponting )ہم کسی کو بھی نہیں جانتے تھے ۔ ہمیں تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ’’ اوور ‘‘ میں کتنے ’’ball ‘‘ہوتے ہیں ‘ ایل بی ڈبلیو آئوٹ کس طرح ہوتے ہیں اور’’ون ڈے‘‘ اور’’ ٹسٹ میچ‘‘ میں کیافرق ہے؟غرض کہ ان سب صفحات سے جان چھڑاکر ہم اپنے پسندیدہ ادبی ضمیمہ میں منہمک ہوجاتے اور تمام اخبار پر لعنت بھیجتے۔
لیکن ہمیں یہ معلوم نہ تھا کہ ہم خود اخبار کی دنیا میں قدم رکھنے والے ہیں ۔ہنگامی صورتحال میں ہمارا بحیثیت سب ایڈیٹر تقررعمل میں آیا ۔ پھر دھیرے دھیرے ہم پرمنکشف ہوا کہ اخبار کی دنیا کیا ہوتی ہے اوراخباروالوں کو کتنے ’’پیپر‘‘ paper(پاپڑ) بیلنے پڑتے ہیں۔سب سے پہلے ہمارا مسٹر کمپیوٹر سے سامنا ہوا ۔ اس ’’ڈبّے ‘‘ کو ہم ایک عجوبہ ہی سمجھتے تھے اور چھونے سے بھی ڈرتے تھے۔ خیر اس سے بھی آہستہ آہستہ دوستی ہوگئی۔کمپیوٹر کو آپ ایسی ویسی شے ہرگزنہ سمجھیں ‘ اسے اگر غصہ آجائے تو یہ تمام فائلیں اڑادے ‘ اوراگرکوئی وائرس اس پرفریفتہ ہوجائے تویہ (آپ کے’’ التفات ‘‘کوفراموش کرکے )آپ سے یکلخت ترک ِ تعلق کربیٹھے۔ان کمپیوٹروں کو دل سے لگاکر رکھناپڑتا ہے ‘ یہ ناراض ہوگئے تو پھر نہ جانے اخبار والوں کا کیا ہو ؟ کمپیوٹر آپریٹر سے ذراسی بھی چوک ہوجائے تو ’’جلوہ‘‘ … ’’حلوہ‘‘ بن جاتا ہے۔ اور ’’ خلوت‘‘ … ’’جلوت‘‘ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔اور’’حتی الامکان‘‘…’’حتی (ہاتھی) کامکان‘‘ میں بدل جاتا ہے۔
ایک دفعہ تو کمپیوٹرآپریٹر نے ایک معزز شخصیت کے خاکے میں ’’مولانا کا’فلم ‘و ادب کی دنیا میں بڑا نام ہے‘ ‘ کمپوز کردیاتھا جبکہ وہ ’’مولاناکا’علم و ادب کی دنیا میں بڑا نام ہے ۔‘‘ ہوناچاہیے تھا۔
………
رفتہ رفتہ ہم اخباری ماحول کے اس قدر عادی ہوگئے کہ ہمیں یہ محسوس ہونے لگاجیسے ہمیں ’’اخباریہ ‘‘ ہوگیا ہے۔دراصل بات یہ ہے کہ آفس میں کام کے دوران ہماری زبان پر تصحیح شدنی ‘ تصحیح شدہ‘ شائع شدنی‘ شائع شدہ اورپھر اسکننگ‘پیسٹنگ یہی الفاظ ہوتے ہیں ۔ایک بارہم نے ’’بابا‘‘ سے کھانا لگ گیا ہے‘ کہنے کی بجائے کہہ دیا : ’’کھانا paste ہوگیاہے‘‘ وہ ہمیں حیرانی سے دیکھتے رہ گئے۔اسی طرح دسترخوان پر دوبارہ ایک روزقبل پکایا ہوا سالن دیکھ کر ہم نے اپنی بہن سے پوچھا :’’یہ سالن تو شائع شدہ ہے ناں؟‘‘ وہ ہمیں عجیب و غریب نظروں سے دیکھنے لگیںتو ہمیں خیال آیا کہ ہم اپنے دفتر میں نہیں بلکہ گھر میں ہیںاور کسی آرٹیکل کے بارے میں نہیں بلکہ سالن کے بارے میں بات کررہے ہیں۔
اخباروالوں کے متعلق لوگوں کو بڑی غلط فہمیاں ہوتی ہیں۔وہ سمجھتے ہیں کہ کسی بھی ’’واقعہ ‘‘ اور اس کے پس ِ پردہ ’’عناصر ‘‘کی سب سے پہلے صحافیوں کوخبرہوجاتی ہے۔ہمیں ‘ ہمارے دور کے انکل نے فون کیا اورپوچھنے لگے:’’کل جو بم دھماکہ ہوا ہے‘ اس میں کس کا ہاتھ ہے؟‘‘ ہم نے کہا:’’کم از کم ہمارا ہاتھ تو نہیں ہے ‘ ہمارے دونوں ہاتھ صحیح سلامت ہمارے پاس موجودہیں ‘‘وہ چڑگئے اور کہنے لگے:’’تم اخبار میں کام کرتی ہو‘ اورتمہیں اتنا بھی نہیں معلوم؟‘‘ جب انہوں نے فون رکھ دیا بلکہ پٹخا تو ہم خود سے کہنے لگے:’’جیسے شرپسند افراد بم دھماکہ کرنے سے قبل ہمیں ای میل کرکے بتاتے ہوں‘ کہ ہم فُلاں جگہ…‘‘
اسی طرح ہماری کزن کے شوہر کے بھائی کے بھتیجے نے ہم سے پوچھا:’’باجی ! سچن ٹنڈولکر کس دن پیدا ہوئے؟‘‘ہم نے کہا:’’اتوارکو تو چھٹی ہوتی ہے ‘لہٰذا پیر‘منگل‘ چہارشنبہ‘جمعرات‘ جمعہ یاپھرہفتہ کوپیداہوئے ہوں گے۔‘‘
اخباروالوں کے ساتھ مسائل کا دفترہوتا ہے ‘بہت ہی پھونک پھونک کرقدم رکھناپڑتا ہے ۔ ایک بارہوایوں کہ ہماری رفیق کار کے مرتبہ سپلیمنٹ میں ایک مشہور ہستی کے متعلق مضمون شائع ہوا‘اس میں لکھاتھاکہ موصوف اس عمر میں بھی ’’چاق چوبند‘‘ ہیں‘لیکن افسوس کہ وہ اسی دن اللہ میاں کوپیارے ہوگئے اوراخبار میں اگلے دن یہ خبرآئی کہ ’’طویل علالت‘‘ کے بعد ان کا انتقال ہوا ۔اس نیوز کے منظرعام پر آتے ہی دفترکوایک صاحب نے فون کیااور نہایت ہی غصے میں کہنے لگے :’’ اخبارمیں ہوتے ہوئے بھی آپ لوگ اتنے ’’بے خبر‘‘ہوتے ہیں‘ مضمون میں انہیں ’’ تندرست‘‘ اور نیوز میں’’ کافی علیل تھے ‘‘لکھاگیاہے۔ ‘‘اس سبکی کے بعد ہم لوگ سوچنے لگے :’’بڑے میاں کو ذرا صبرنہ آیا‘ کچھ برس بعدسنچری مکمل کرکے جہان ِ فانی سے رخصت ہوتے توکیا ان کا کوئی خزانہ لٹ جاتا؟‘‘اس تلخ تجربے کے بعد ہم نے کسی کو بھی صحت مند کہنے سے گریزکیا‘ کیوں کہ یہ خدشہ لگارہتا کہ جن کے بارے میں لکھ رہے ہیں ‘ کہیں وہ بھی اچانک بیمارنہ پڑجائیں ‘اور پھر ہمیشہ کے لیے ان کا ٹکٹ نہ کٹ جائے۔
اخبار کے دفتر میں بہت ہی افراتفری کا ماحول ہوتا ہے ۔ایک شمارے کی اشاعت ہوئی نہیں کہ دوسرے کی فکرلاحق ہوجاتی ہے اور ہر وقت جان مٹھی میں‘ کے مصداق اس بات کی ہیبت طاری رہتی ہے کہ کوئی فون کرکے یہ نہ کہہ دے کہ آپ کے سپلیمنٹ میں ’’خوددار‘‘…’’ غددار‘‘ اور ’’کیرالا‘‘…’’ کریلا‘‘ بن گیاہے ۔ اورکسی کے لفظوں کے پتھر‘ ہمارے آئینہ ٔ دل پرنہ برس جائیں۔
تمام ترناگوارتجربات کے باوجود ہمیں اپنے کام اور اپنی اخباری دنیا سے بے حد لگائو ہے ‘ رات کو بہ مشکل ہمیں نیند آتی ہے اورخواب میں بھی ہم اپنے آفس کوہی دیکھتے ہیں اور یکایک چیخ اٹھتے ہیں کہ وہ آرٹیکل تصحیح شدنی ہے ‘ جب آنکھ کھلتی ہے تو احساس ہوتا ہے کہ ہم اپنے دفتر میں نہیں بلکہ اپنی آرام گاہ میں ہیں ۔اس طرح ہمارے اس گمان پر صداقت کی مہر ثبت ہوگئی ہے کہ ہمیں مرض’’اخباریہ ‘‘ ہوگیاہے۔
شرکا کا تعارف
ابن سلاسل : مختصر سا وجود رکھنے والے حیدر خان کا قلمی نام ابن سلاسل یعنی زنجیروں کا بیٹا ہے۔ قبلہ کا اصل نام اور قلمی نام دونوں ہی ان کی الٹرا مائیکرو اسکوپک شخصیت سے مطابقت نہیں رکھتے ہیں، لیکن انہیں غرہ ہے کہ جب بھی نثری ادب کی تاریخ رقم کی جائے گی اس میں ان کا نام جلی حروف میں لکھا جائے گا۔ انہوں نے اپنی ادبی تحریروں کا ایک مجموعہ اس امید پر شائع کیا کہ حکومت اس پر پابندی عائد کرکے کاپیاں ضبط کرلے گی، لیکن حکومت نے ان تحریروں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ پہلے بڑا سٹپٹائے پھر کہا کہ ان کے نظریات کو سمجھنے سے حکومت بھی قاصر رہی ہے۔ جس دیس میں اقبال سا مرد آزاد جیل خانے کی شوریدہ رات میں دم توڑنے کی بجائے نرم و گداز بستر مرگ پر خدا کو پیارا ہوتا ہے وہاں آزاد نظریات کا یہی حشر ہوتا ہے۔ نہ عوام توجہ دیتے ہیں، نہ حکومت نوٹس لیتی ہے اور گنج ہائے گراں مایہ کی آخری منزل کباڑ کی دکان بن جاتی ہے۔
آنت مرادآبادی : موصوف کا اصل نام پتہ نہیں کیا ہے لیکن ادبی حلقوں میں وہ آنت مرادآبادی کے نام سے معروف ہیں۔ موصوف کا تخلص سامع یا قاری کو چونکنے پر مجبور کردیتا ہے اور آنت اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ تخلص کے بارے میں ان کا استدلال ہے اعضائے رئیسہ و غریبہ میں سے بیشتر کو شعرا و ادبا نے اپنا تخلص بنایا ہے وہیں آنتوں کو بری طرح نظر انداز کیا گیا ہے۔ آنت انسانی نظام انہضام کی ضامن ہے۔ انسان سنگ دل ہو کر زندہ رہ سکتا ہے لیکن سنگ آنت ہوجائے تو اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔ انسانی وجود میں دل سے نازک چیز آنت ہے اسی کی مناسبت سے انہوں اپنا تخلص آنت مقرر کیا ہے۔ ان کی نثر نازک، مزاج نازک، صحت نازک، کلام نازک اور گالیاں نہایت قوی ہیں۔ ہم عصر ان سے چھیڑ چھاڑ سے گریز کرتے ہوئے جواب جاہلاں باشد خموشی کے لازوال طریق کار پر عمل پیرا ہوتے ہیں وہیں آنت اس گمان میں مبتلا ہیں کہ کوئی ان سے پنگے نہیں لے سکتا۔
مردم بیزار : حساس طبع مردم بیزار کا اصل نام فرید منصور ہے۔ بہت کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہے کہ نثر میں طبع آزمائی سے قبل محمد فرید خان مردم شناس کے نام سے شاعری کیا کرتے تھے۔ شاعری کو لوگوں نے پسند نہیں کیا تو قبلہ تبدیل کرتے ہوئے نثر کی سمت رخ کرلیا اور مردم بیزار بن گئے۔ اختلاج قلب کے مریض ہیں اور کچھ عجب نہیں کہ یہ مرض انہیں بیزاری کے سبب لاحق ہوا ہو۔ علامتی نثر سے شغف رکھتے ہیں اور حتی الامکان کوشش رہتی ہے کہ کھل کر بات کرنے کی بجائے علامات میں مقصود بیان کرجائیں۔ تجریدی مصوری کا بھی شوق رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں بھاری قیمت میں ماڈرن آرٹ کا ایک نمونہ حاصل کیا تھا۔ فنکار کے اعزاز میں گھر دعوت رکھی۔ ہم فکر و ہم مزاج افراد کو بھی مدعو کیا۔ سب نے مصوری کے نمونے کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیے۔ دوسری جانب مصور خون کے آنسو روتا رہا کہ اس کا فن پارہ دیوار پر الٹا لٹکا ہوا تھا۔
گلدُم آشیانوی : اصل نام فقیر بخش ہے۔ عرصہ دراز تک اپنا نام ‘ایف بی’ لکھتے رہے۔ پھر فیس بک کی آمد ہوئی تو فقیر بخش (ایف بی) نے اپنا نام ترک کرتے ہوئے ‘گلدم آشیانوی’ کا تخلص اختیار کرلیا۔ تخلص کے بارے میں ان کا دعویٰ ہے کہ جب ان کا جنم ہوا تب ان کی ایک چھوٹی سی دم تھی جس پر پھول بنے ہوئے تھے۔ (دروغ بر گردن گلدم آشیانوی) جوں جوں ان کی عمر بڑھتی گئی وہ دم غائب ہوتی گئی۔ انہیں دعویٰ ہے کہ وہ دنیا کے اکلوتے دُمدار انسان تھے، بعد ازاں یہ اعزاز قدرت نے ان سے چھین لیا۔ مفسدین اس مبینہ دُم کے بارے میں شر انگیز انکشافات کرتے ہیں لیکن گلدم مفسدین کو خاطر میں نہیں لاتے اور اپنی دنیا میں مست رہتے ہیں۔ گلدم کی نثر دیکھیں تو گمان ہوتا ہے کہ وہ قلم سے نہیں بلکہ دم سے تحریر کی گئی ہے جس میں جا بجا پھول بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔
‘انجمن یاران رطب اللسان’ کی بزم بپا تھی۔ ابن سلاسل، گلدم آشیانوی، مردم بیزار اور آنت مرادآبادی بہ نفس نفیس شرکت فرما تھے اور محبان ادب کی بھی خاصی تعداد موجود تھی۔ بزم میں فنکاران اپنی اپنی تخلیق پیش کررہے تھے اور حاضرین اس پر تنقید و تبصرہ سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ بیشتر تخلیق سے طویل ان پر کیا جانے والا تبصرہ ہورہا تھا۔ آغاز ابن سلاسل کے افسانے ‘ٹوووں’ سے ہوا تھا جس پر ابن سلاسل نے ڈھیر ساری داد حاصل کی تھی۔ آنت مرادآبادی کے افسانے ‘ہاضمہ’ پر کچھ سامعین نے برا سا منہ بنایا تھا لیکن آنت کی گالم گفتار کے خوف سے کسی نے تنقید کی ہمت نہیں جٹائی اور تعریف میں بھی بخیلی سے کام لیا تھا۔ البتہ گلدم آشیانوی، ابن سلاسل اور مردم بیزار نے آنت کی ندرت خیال کو خوب سراہا تھا۔ ابن سلاسل کے بقول آنت مرادآبادی کے افسانہ ‘ہاضمہ’ سے اٹھتی بدبو درحقیقت سماج سے اٹھتی بدبو ہے جسے تخلیق کار چاہ کر بھی نظر انداز نہیں کرسکتا۔ گلدم آشیانوی کے مختصر افسانہ ‘دُم گم گشتہ’ کی روانی اور ٹیکنیک کی سب نے تعریف کی لیکن لیڈ ابن سلال کے افسانے ‘ٹوووں’ کو ہی حاصل تھی۔ ابن سلاسل کو اب علامتی افسانوں میں شناخت رکھنے والے مردم بیزار کی تخلیق سے ہی خطرہ تھا۔ بصورت دیگر ابن سلاسل نے میدان تقریباً مار لیا تھا۔
ناظم کی دعوت پر مردم بیزار اپنی تخلیق پیش کرنے کیلئے ڈائس پر تشریف لائے۔ قدرے بلند آواز میں کھانسا، پھر نسبتاً کم بلند آواز میں کھانسا، اس کے بعد اپنی نشست پر جا کر بیٹھ گئے۔ ہال کے ایک کونے سے تالی کی ہلکی سی آواز آئی۔ پھر کسی نے سُر سے سُر ملایا اور آن کی آن میں پورا ہال تالیوں کی گڑگڑاہٹ سے گونج اٹھا۔ اس دوران مردم بیزار سر جھکائے بیٹھے رہے۔ آنت مرادآبادی لپکے، پھولوں کی مالا مردم بیزار کے گلے میں ڈالی اور فرط مسرت سے ان کی پیشانی چوم لی۔ سامعین کا جوش و خروش صاف ظاہر کررہا تھا کہ مردم بیزار کے علامتی افسانہ کے سامنے ابن سلاسل کا افسانہ ‘ٹوووں’ پست پڑ چکا تھا اور ابن سلاسل کو اس کا کوئی افسوس بھی نہیں تھا۔ تالیوں کا شور کم ہوا تو تنقید و تبصرہ کا دور شروع ہوا۔
سب سے پہلے آنت مرادآبادی گویا ہوئے۔
"علامتی افسانے کے میدان میں جداگانہ شناخت رکھنے والے مردم بیزار نے آج غالباً اپنی اب تک کی سب سے بہترین تخلیق ہمارے سامنے پیش کی ہے، میں انہیں اس پر بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ مردم بیزار شاید نہیں تسلیم کریں پھر بھی میں اپنی اس رائے میں رتی بھر تبدیلی پر بھی رضا مند نہیں ہوسکتا کہ آج کی تخلیق ان کی شاہکار تخلیق ہے۔ میں عرصہ دراز سے مردم بیزار سے مطالبہ کررہا تھا کہ دل و دماغ پر مبنی فرسودہ نثر کو ترک کرتے ہوئے آنت کو تخلیق کی ‘مین اسٹریم’ میں لانے کی سعی کی جائے۔ میرے مطالبہ کو مانتے ہوئے مردم بیزار نے آج جو تخلیق پیش کی ہے میں اس پر ان کا شکر گزار بھی ہوں۔ تمام حضرات جانتے ہیں کہ افسانے میں علامات کا استعمال اور ان کا کما حقہ برتاؤ مردم بیزار کا خاصہ ہے۔ آج انہوں نے آنتوں کیلئے کھانسی کی علامات کا استعمال نہایت عرق ریزی سے کیا ہے۔ سامعین نے غور کیا ہوگا کہ مردم بیزار کی کھانسی کی آوازوں میں واضح فرق موجود تھا۔ جو قدرے بلند کھانسی تھی وہ بڑی آنت کی نمائندگی کررہی تھی اور نسبتاً کم بلند آواز والی کھانسی میں چھوٹی آنت کی طرف اشارہ پنہاں تھا۔ دونوں کھانسیوں کے بعد مردم بیزار کے چہرے پر نظر آنے والا سکون اس سکون کی عکاسی کررہا تھا جو دونوں آنتوں کے استعمال کے بعد انسان کے چہرے پر نظر آتا ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ مردم بیزار کی اس تخلیق کو میں ادب میں تجرید کی دستک کے طور پر دیکھ رہا ہوں، اور اس کیلئے میں مردم بیزار کو ایک بار پھر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔” تالیوں کے شور میں آنت مرادآبادی نے ایک بار پھر مردم بیزار کی پیشانی کا بوسہ لیا اور اپنی نشست پر جا بیٹھے۔
اب گلدُم آشیانوی مائک پر تشریف لائے اور عرض کیا۔ "آج مردم بیزار کی تخلیق کے بعد اس ہال میں تالیوں کی جو گڑگڑاہٹ گونجی ہے وہ گڑگڑاہٹ آج سے قبل اس ہال کے درودیوار کو کبھی نصیب نہیں ہوئی ہے۔ کل کلاں اس ہال کی کوئی دیوار حادثاتی طور پر گرجاتی ہے تو اس کے ذمہ دار مردم بیزار ہوں گے جن کی کامیاب، شاہکار، لازوال اور بے مثال تخلیق کے بعد گونجنے والی تالیوں نے ان دیواروں کی بنیادوں میں تزلزل برپا کردیا ہے۔ مردم بیزار میرے بہت اچھے دوست ہیں اور میں ان سے نہایت محبت و احترام کے ساتھ التماس کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی بھی وہ ایسی شاہکار تخلیق پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں تو پہلے سے مطلع کردیں تاکہ ان کی تخلیق کیلئے کسی میدان میں نششتوں کا انتظام کیا جاسکے جہاں کسی حادثہ کے وقوع پذیر ہونے کا کوئی امکان موجود نہ رہ جائے۔ مردم بیزار کی تخلیق پر تبصرہ کی بات کی جائے تو مجھ میں اس کی سکت موجود نہیں ہے۔ یہ میرے نزدیک سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ کبھی شبلی نعمانی نے ابوالکلام آزاد کے تعلق سے کہا تھا کہ وہ (آزاد) گپ بھی ہانک دے تو وحی معلوم ہوتی ہے۔ میں کہتا ہوں مردم بیزار کھانس بھی دیں تو افسانہ ہوجاتا ہے، ایک کامیاب تخلیق کیلئے مردم بیزار کو بہت مبارکباد!” اس بار حاضرین نے تالیاں بجانے میں قدرے احتیاط سے کام لیا۔
اب ابن سلاسل تبصرہ کیلئے اٹھے۔ مختصر قدوقامت کے سبب وہ ڈائس کے پیچھے چھپ سے جاتے ہیں چنانچہ ان کیلئے خصوصی طور پر ڈائس ہٹا دیا گیا۔ ابن سلاسل نے فرمایا :بیشتر تخلیقات ایک وسیع Atmosphere رکھتی ہیں۔ مختلف نظریات اور مختلف زاویوں سے ان تخلیقات سے مختلف معانی کشید کیے جاسکتے ہیں۔ مثال کے طور پر اقبال کے بعض اشعار اشتراکی فکر رکھنے والے افراد کے ہاں مقبول عام ہے مگر اقبال خود اشتراکیت کے سب سے بڑے ناقد تھے۔
اقبال ہی کا ایک مصرع ہے:
پھول کی پتی سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر
یہ مصرع جہاں استفہامیہ ہے وہیں بیانیہ بھی ہے۔ خود اقبال نے اس موضوع پر سکوت اختیار کیا تھا۔ اسی طرح آج پیش کی گئی مردم بیزار کی تخلیق بھی ایک وسیع Atmosphere کی حامل ہے جس سے مختلف زاویوں سے مختلف معنی نکالے جاسکتے ہیں۔ یہ تمہید اس لیے عرض کی گئی کہ خاکسار جناب آنت مرادآبادی سے اختلاف کی جرات کررہا ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز ہرگز یہ نہیں ہے کہ آنت نے مردم بیزار کی تخلیق سے جو مطلب اخذ کیا ہے، وہ غلط ہے۔ آنت مرادآبادی کی رائے کے احترام کے ساتھ عرض ہے کہ ضروری نہیں کہ کوئی شئے ایک سمت سے جیسی نظر آتی ہو، ہر سمت سے ویسی ہی نظر آئے۔ مردم بیزار کی تخلیق کی علامات کا مفہوم آنت مرادآبادی نے آنتیں نکالا ہے جو ان کے زاویہ نگاہ سے بالکل درست ہے۔ البتہ میرا زاویہ نگاہ قدرے مختلف ہے۔ میری دانست میں مردم بیزار نے اپنی کھانسیوں میں فلسفہ جبر و قدر بیان کیا ہے۔ قدیم زمانے سے یہ بحث چلی آرہی ہے کہ انسان مختار ہے یا مجبور۔ اس کے ساتھ ہی مجھے مردم بیزار کی علامات میں اکثریت و اقلیت کا معاملہ میں نظر آتا ہے۔ علامات (کھانسیوں) کا دو مختلف ساؤنڈ افیکٹ یہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان زیادہ مجبور اور کم مختار ہے۔ ایک دائرے یعنی دنیا میں انسان کو اختیارات دیے گئے ہیں وہیں اس دائرے کے باہر کے لامحدود رقبہ یعنی کائنات میں انسان مجبور اور حوادث کا غلام ہے۔ اکثریت و اقلیت کے زاویے سے بات کی جائے تو مردم بیزار کی تخلیق میں بلند آواز والی کھانسی اکثریت اور قدرے کم بلند آواز کی کھانسی اقلیت کی نمائندگی کرتی ہے۔ اپنی کامیاب تخلیق میں مردم بیزار نے نہایت باریکی سے ایک ہمت افزا اور امید کا پیغام دیا ہے کہ اکثریت کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہوجائے اس کے سامنے ایک اقلیت موجود ہوتی ہے۔ اکثر اکثریت اسی بنیاد پر اکثریت تسلیم کی جاتی ہے کہ اس کے سامنے اقلیت موجود ہوتی ہے۔ اکثریت کتنی ہی مضبوط، طاقتور کیوں نہ ہوجائے اس کے سامنے اقلیت کی شکل میں کمزور ہی سہی لیکن ایک مزاحمت موجود ہوتی ہے، اس نکتہ کو فیض نے بڑی خوبصورتی سے ایک مصرع میں سمو دیا ہے:
کچھ روشنی باقی تو ہے ہر چند کہ کم ہے
اس کامیاب، معنی خیز اور ہمہ جہت تخلیق کیلئے میں مردم بیزار کو بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں اور آئندہ اس سے مزید بہتر کی توقع کرتا ہوں۔” اتنا کہہ کر ابن سلاسل نے مائیک مردم بیزار کو تھما دیا کہ وہ سامعین کی آرا پر اپنا نکتہ نظر بیان کرسکیں۔
وہ کہنے لگے: ” بہت معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ میں اپنا افسانہ ‘تابوت’ پیش کرنے کیلئے ڈائس پر آیا، گلا صاف کرنے کیلئے کھانسا ہی تھا کہ میری طبیعت بگڑنے لگی اور میں اپنے حواس درست کرنے کیلئے نشست پر بیٹھ گیا تھا۔ جسے آپ تخلیق سمجھ بیٹھے ہیں وہ کھانسیِ محض کے سوا کچھ بھی نہیں تھی، آپ کی محبتوں کیلئے شکر گزار بھی ہوں اور شرمندہ بھی ہوں۔” اتنا کہتے کہتے مردم بیزار کو احساس ہوا کہ چھ عدد خونخوار آنکھیں انہیں گھور رہی ہیں، اس احساس کے ساتھ ان کی طبیعت دوبارہ بگڑنے لگی تھی۔
این ڈی ٹی وی انڈیا کے اینکر اور سینئر صحافی رویش کمار نے بہت پہلے اپنے ایک پروگرام میں ناظرین سے اپیل کی تھی کہ وہ ٹی وی دیکھنا بند کر دیں ورنہ وہ ان کو اور ان کے بچوں کو قاتل بنا دے گا۔ انھوں نے یہ اپیل نیوز چینلوں پر ہونے والی ہندو مسلم ڈبیٹ کے تناظر میں کہی تھی جس کے توسط سے پورے ملک میں مذہبی انتہاپسندی پیدا کی جا رہی ہے اور عدم برداشت کو ہوا دی جا رہی ہے۔ ان کی یہ بات بالکل درست ثابت ہوئی۔ اس ٹی وی ڈبیٹ نے کانگریس پارٹی کے ایک ہونہار اور سنجیدہ ترجمان راجیو تیاگی کی جان لے لی۔ اگلی باری کس کی ہے بس اس کا انتظار کیجیے۔
راجیو تیاگی کی موت نیوز چینل آج تک کے ایک پروگرام ”دنگل“ کے دوران ہوئی۔ ڈبیٹ کے دوران بی جے پی کے ترجمان سمبت پاترا راجیو تیاگی پر بار بار مصنوعی ہندو ہونے کا الزام لگا رہے تھے اور ان کی پیشانی پر لگے ٹیکے کا مذاق اڑا رہے تھے اور انھیں جے چند سے تشبیہ دے رہے تھے۔ ڈبیٹ کے دوران ہی ان پر دل کا دورہ پڑا۔ انھوں نے سینے پر ایک بار اپنا ہاتھ رکھا اور پھر کیمرے کے فریم سے ذرا آگے آگئے۔ ڈبیٹ ختم ہوتے ہی انھوں نے اپنی بیوی کو آواز دی اور کہا کہ ان لوگوں نے مجھے مار دیا۔ اس کے بعد وہ گر گئے۔ اسپتال لے جائے گئے جہاں انھیں مردہ قرار دے دیا گیا۔
میں اس مضمون میں ٹی وی ڈبیٹس کی شکل و صورت اور اس کے خطرناک عواقب و نتائج پر روشنی ڈالنے کی کوشش کروں گا۔ جب ہندوستان میں پرائیویٹ نیوز چینلوں کا دور نہیں آیا تھا اور صرف سرکاری دور درشن ہی واحد چینل تھا تو اس وقت عوام میں اتنی نفرت نہیں تھی اور نہ ہی لوگوں میں عدم برداشت یا عدم رواداری کا کوئی برا جذبہ پیدا ہوا تھا۔
اس کے بعد جب پرائیویٹ نیوز چینلوں کا دور شروع ہوا تو کئی برسوں تک ان چینلوں نے انتہائی مثبت رول ادا کیا۔ پورے ملک میں ہر چینل کے رپورٹر ہوتے تھے جو حالات و واقعات کی رپورٹنگ کیا کرتے تھے۔ وہ ملک کی زمینی سچائیوں سے اپنے ناظرین کو باخبر کرتے اور اس کے ساتھ ہی ملک کی سیاسی فضا اور سیاسی واقعات کے بارے میں انتہائی معروضی انداز میں پروگرام پیش کرتے تھے۔ کم از کم 2014 تک تو کم و بیش یہی صورت حال رہی۔ لیکن 2014 میں جب مرکزی اقتدار کی تبدیلی ہوئی تو صرف حکومت ہی نہیں بدلی بلکہ بہت کچھ بدل گیا۔
آر ایس ایس کے نظریات کو فروغ دینے اور حکومت کی خوشامد کا ایک نیا کلچر شروع ہو گیا جس کے تحت نیوز چینلوں کی رپورٹنگ کا انداز بدل گیا۔ بیشتر چینلوں نے فیلڈ سے اپنے بیشتر رپورٹر ہٹا لیے۔ صرف ضروری واقعات کی رپورٹنگ کے لیے رپورٹروں کی خدمات حاصل کی جانے لگیں۔ اس کے ساتھ ہی اسٹوڈیو میں مباحثے یا ڈبیٹ کی ایک نئی روایت شروع ہو گئی۔ مباحثے پہلے بھی ہوتے تھے لیکن انتہائی معیاری اور سنجیدہ ہوتے تھے۔ بد کلامی، گالی گلوج اور بد تہذیبی کا مظاہرہ نہیں ہوتا تھا۔ لیکن ایک تو حکومت کی ہر چیز پر اپنا کنٹرول رکھنے کی پالیسی اور دوسرے میڈیا اداروں کی بوجوہ چڑھتے سورج کی پوجا کرنے کی روش نے سب کچھ تلپٹ کر دیا۔
رفتہ رفتہ ان مباحثوں کو ایک خاص رنگ دیا جانے لگا۔ ایسا رنگ جو برسراقتدار طبقے کو سوٹ اور اپوزیشن کو بدنام کرے۔ اس کے لیے حکومت کی جانب سے چینلوں کے مالکوں کو ہدایات دی جانے لگیں اور ایک خاص رنگ کی ڈبیٹ کو پروان چڑھانے کا حکم دیا جانے لگا۔ بتایا جاتا ہے کہ صبح کے وقت ہی یہ طے ہو جاتا ہے کہ شام کے پرائم ٹائم میں کس موضوع پر بحث کرانی ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ یہ بھی طے ہو جاتا ہے کہ کس کس کو اس بحث میں بلانا ہے اور ان سے کیا کیا بلوانا ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ یہ سب کچھ حکومت کے کارندوں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔
اس قبیح روایت کے شروع ہوتے ہی نیوز چینلوں میں مقابلہ آرائی بھی شروع ہو گئی اور اینکروں میں اس کا مقابلہ ہونے لگا کہ کون کتنی بد تمیزی کر سکتا ہے اور کون کس کی دستار اتار سکتا ہے اور پگڑی اچھال سکتا ہے۔ اس کے لیے ایک خاص طریقہ کار اختیار کیا گیا۔ کل چار پانچ افراد کو بحث میں بلایا جاتا ہے۔ جن میں ایک برسراقتدار جماعت کا ترجمان یا نمائندہ ہوتا ہے۔ ایک آر ایس ایس کا نمائندہ یا اس کا وچارک یا نظریہ ساز ہوتا ہے۔ ایک اپوزیشن کا کوئی آدمی ہوتا ہے اور ایک نام نہاد غیر جانبدار تجزیہ کار ہوتا ہے۔
بحث شروع ہوتے ہی چیخم دھاڑ کا بھی آغاز ہو جاتا ہے۔ حکومت اور آر ایس ایس کے نمائندے اپوزیشن کے نمائندے پر چڑھ بیٹھتے ہیں۔ وہ سارے لوگ اسی سے سوال کرتے ہیں مگر اسے جواب نہیں دینے دیتے۔ جب وہ اپنے جواب سے مخالفین کو قائل کرنے لگتا ہے تو اینکر بیچ میں کود پڑتا ہے اور حکومت کی نمائندگی کا فریضہ ادا کرنے لگتا ہے۔ اگر اس پر بھی اپوزیشن کی آواز بند نہیں ہوتی تو اس کے مائک کا وولیوم کم کر دیا جاتا ہے اور اس پر بھی بس نہیں کیا جاتا بلکہ اچانک اینکر کو یاد آتا ہے کہ اسے تو بریک لینا ہے۔ اور پھر وہ بریک لے لیتا ہے اور اس طرح اپوزیشن کی آواز کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔
دراصل اینکر کے کان میں ایک لیڈ لگی ہوتی ہے جس کے ذریعے اسے ہدایات ملتی رہتی ہیں۔ یہاں تک کہ جب اپوزیشن کا نمائندہ حاوی ہونے لگتا ہے تو اینکر کے کان میں کہا جاتا ہے کہ اسے ٹھونک دو ورنہ تمھیں ٹھونک دیا جائے گا۔ پھر کیا؟ اینکر اپنی نوکری بچانے کے لیے تہذیب و شائستگی کی تمام حدود پھلانگ جاتا ہے اور اس طرح حکومت کا موقف حاوی ہو جاتا ہے یا حکومت کی پالیسیوں کو بحث میں برتری حاصل ہو جاتی ہے۔ اینکر چیختا چلاتا ہے اور اپنے حریف سے جواب مانگتا ہے مگر اسے جواب نہیں دینے دیتا۔ وہ اپنی بات کو ملک کی بات کہنے لگتا ہے اور کہتا ہے کہ ملک جاننا چاہتا ہے، نیشن جاننا چاہتا ہے۔ گویا اینکر کا سوال نیشن یا پورے ملک کا سوال بن جاتا ہے۔ اس طرح اس بحث کو جو کہ سنجیدگی کے ساتھ ہو سکتی تھی اکھاڑے کی کشتی میں بدل دیا جاتا ہے۔
ڈبیٹ کے عنوان سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کہ بحث کو کس رخ پر لے جانا ہے۔ مثال کے طور پر جس ڈبیٹ کے دوران راجیو تیاگی پر دل کا دورہ پڑا اس کا نام ہی ”دنگل“ ہے۔ دنگل اکھاڑے میں ہوتا ہے لیکن ان نیوز چینلوں نے اپنے اسٹوڈیو کو ہی اکھاڑہ بنا دیا ہے۔ ہاں جو نام نہاد غیر جانبدار تجزیہ کار ہوتا ہے اسے بھی اسی رنگ میں رنگ دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بحث میں جانے سے قبل اس کو ہدایت دی جاتی ہے کہ اسے کیا بولنا ہے اور کیسے بولنا ہے اور کس کی حمایت یا کس کی مخالفت کرنی ہے۔ گویا کہنے کو تو وہ غیر جانبدار ہوتا ہے لیکن حقیقتاً اسے بھی حکومت یا چینل کا نمائندہ بنا دیا جاتا ہے۔
بحث کے دوران بدکلامی تو دور رہی گالی گلوج تک کی جاتی ہے اور مار پیٹ بھی ہو جاتی ہے۔ ایک سابق فوجی افسر ہیں جو کہ ڈبیٹ میں بڑے جوش خروش سے شرکت کرتے ہیں اور خود کو ایسا پکا دیش بھکت ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جیسے ان سے بڑا دیش بھکت کوئی نہیں ہے۔ انھوں نے ایک ڈبیٹ کے دوران ایک پینلسٹ کو ماں کی گالی تک دے دی لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ اینکر پینلسٹ کو ایک دوسرے پر حملہ کرنے تک کے لیے اکساتے ہیں اور اسٹوڈیو میں مار پیٹ تک کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔
ان چینلوں پر زیادہ تر جذباتی ایشوز پر بحث کرائی جاتی ہے اور ان میں اقلیتوں کے خلاف یا مسلمانوں کے خلاف ایک ایسا ماحول بنایا جاتا ہے جس کا اثر عوام پر پڑنا لازمی ہوتا ہے۔ ان پروگراموں میں جھوٹ کی رسی بٹی جاتی ہے اور بے بنیاد الزامات کے طومار باندھے جاتے ہیں۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ پاکستان یا چین کے موضوع پر بحث کے دوران تو اینکر فوجی بن جاتا ہے اور ایسا لگتا ہے کہ بس اب جنگ ہونے والی ہے۔ ان لوگوں کا بس چلے تو ابھی جنگ کروا دیں۔
ان ٹی وی ڈبیٹس کے نتیجے میں سماج میں فرقہ واریت کا زہر پھیل گیا ہے اور آدمی آدمی سے نفرت کرنے لگا ہے۔ موب لنچنگ ہو یا فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات، یہ ڈبیٹس ایسی خطرناک اور تباہ کن چیزوں کی حوصلہ افزائی اور یہاں تک کہ ان کی عزت افزائی بھی کرتی ہیں۔ ان مباحثوں نے سماج کو کئی ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ان کا اثر بھولے بھالے عوام پر بھی پڑتا ہے اور ان کے دل و دماغ میں زہر پیوست کرتا جا رہا ہے۔ نیوز چینلوں پر دکھائی جانے والی رپورٹوں کا کتنا اثر ہوتا ہے اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ عوام کے ایک بڑے طبقے نے یہ بات قبول کر لی تھی کہ تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کی وجہ سے ہندوستان میں کرونا وائرس پھیلا ہے۔ حالانکہ اب مندروں اور دوسری جگہوں پر بھی بڑی تعداد میں لوگ کرونا کے مریض ہو رہے ہیں لیکن ان کے خلاف پروپیگنڈہ نہیں کیا جاتا۔ اگر رام مندر ٹرسٹ کے صدر نرتیہ گوپال داس کے بجائے کسی مسجد کے ٹرسٹ کے صدر کو کرونا ہوا ہوتا تو اب تک آسمان سر پر اٹھا لیا گیا ہوتا اور اس کی تقریب میں شرکت کرنے والوں کے خلاف منظم پروپیگنڈہ کیا جاتا۔ لیکن مجال ہے کہ کوئی رام مندر کی تقریب سنگ بنیاد میں شرکت کرنے والوں کے سلسلے میں کوئی جملہ ادا کرے۔
بہر حال یہ ٹی وی ڈبیٹس سماج کو تو بانٹ ہی رہی ہیں اب جان بھی لینے لگی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایسی قاتل ڈبیٹس پر مکمل طور پر پابندی عاید کی جائے۔ اظہار خیال اور میڈیا کی آزادی کے نام پر اس خطرناک کھیل کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ اگر ان پر پابندی لگانا ممکن نہ ہو تو جیسا کہ کانگریس کے ایک لیڈر شیر گل نے مطالبہ کیا ہے، ان کے لیے وزارت اطلاعات و نشریات کی جانب سے رہنما ہدایات جاری کی جائیں۔ جو نیوز چینل ان ہدایات کی خلاف ورزی کریں ان کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا ان ڈبیٹس کے نتیجے میں ملک میں آگ لگی رہے گی اور لوگوں کا چین و سکون غارت ہوتا رہے گا۔
منتری جی کے دفتر کے باہر نقاب پوش ملاقاتیوں کی بھیڑ لگی تھی۔ الیکشن کو چار سال گزر چکے تھے۔ اور اگلے الیکشن میں ابھی ایک سال باقی تھا۔ اِس لئے فی الحال جنتا کو ہی اپنی ضرورتیں لیکر اُن مِلنےجانا پڑتا تھا۔
منتری جی پوری طرح نیگیٹیو تھے۔ کوئی اندر جاکر منتری جی کو پازیٹیو نہ کردے اِس کے لئے پوری احتیاط برتی جا رہی تھی۔ دفتر کے باہر ایک ایک میٹر کے فاصلے پر گول گول دائرے بنے ہوئے تھے۔
ویسے دائرے تو گول ہی ہوتے ہیں۔ پھر بھی بتا دینا اِس لئے ضروری سمجھا کہ یہ جو ہم شاعر و ادیب ہوتے ہیں نا اکثر جیومیٹری کی کلاس میں بِنچ پر کھڑے ہی نظر آتے تھے۔
مُجھے اچھی طرح یاد ہے غالباٙٙ آٹھویں جماعت میں تھا۔ ایک دن حساب کے سر نے مُجھ سے مربّع بنانے کو کہا۔ میں نے کہا "سر، کلاس میں مربّہ کیسے بن سکتا ہے؟”
سر ناراض ہوگئے۔ بولے "چلو ہاتھ سامنے کرو۔”
میں نے کہا "سر، مجھے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانا پسند نہیں۔”
اُس کے بعد کیا ہُوا یہ بتا کر میں اپنے مرحوم استاد کی روح کو تکلیف نہیں پہنچانا چاہتا۔ ایک مرتبہ اپنی ایک معشوقہ کو یہ قصّہ سُنایا تھا تو اُس نے سادھوی پرگیہ بن کر سر کو ایسا شراپ دیا کہ بیچارے اگلے ہی مہینے ریٹائر ہوگئے۔
ویسے اُس روز کلاس میں پِٹنے کے بعد جب گھر آکر امّی کو سارا ماجرا سُنایا تو اُنہوں نے مُجھے پیار سے سمجھایا "کوئی بات نہیں بیٹا۔ شاگرد کو پیٹنا تو استاد کا حق ہے۔ میں تجھے آنولے کا مربّہ بنا کر دے دیا کرونگی۔ اپنے سر کو دے دینا۔ پھر وہ تجھے کبھی مُربّہ بنانے کو نہیں کہینگے۔”
اقلیدس کی اِن بھیانک شکلوں سے نجات پانے کے لئے میں نے نویں جماعت میں ہی سائنس یا کامرس کی بجائے آرٹس کا انتخاب کرلیا تھا لیکن ان اقلیدسی چڑیلوں نے پھر بھی پیچھا نہ چھوڑا۔ اُردو کے سر شاعری پڑھانے آئے تو وہ بھی مثلث، مُخمّس اور مسدّس سمجھانے لگے۔
خیر چھوڑیے اِس درد بھرے قصّے کو۔ ہم اصل واقعے کی طرف آتے ہیں۔
منتری جی کے دفتر میں داخلے سے پہلے ہر آنے والے شخص کے ماتھے پر پستول تان کر اس کا ٹمپریچر چیک کیا جارہا تھا۔ درجۂ حرارت اطمینان بخش ہونے کے بعد ہاتھوں پر سینیٹائیزر چِھڑکا جاتا تھا۔ اور منتری جی سے ملاقات سے پہلے ہی لوگ ہاتھ مل لیتے تھے۔
ملاقاتیوں کی قطار میں مُجھ سے ایک میٹر آگے ایک خوبصورت سی لڑکی اپنے دائرے میں کھڑی تھی۔ بلو جینز اور بغیر آستین کے لال ٹی شرٹ میں ملبوس تھی۔ اور اِس لباس پر دوپٹّے کا تو خیر تصوّر ہی فضول ہے۔ اُس کے چہرے پر ماسک اور آنکھوں پر کالا چشمہ لگا تھا۔ لیکن میں اپنے تجربے سے کہہ سکتا ہوں کہ اُس کی آنکھیں جھیل جیسی گہری اور ہرنی جیسی خوبصورت ہونگی۔ جبکہ ہونٹ میر کی محبوبہ کی طرح گلاب کی پنکھڑی جیسے نرم و نازک اور گلابی ہونگے۔ اُس کی تراشی ہوئی ریشمی زُلفیں گردن پر لہرا رہی تھیں۔ جِن کی اصل رنگت کالی ہی ہوگی لیکن شاید شہناز حُسین کے پارلر میں سُنہری پینٹ کروا کر آئی تھی۔
وہاں موجود سبھی لوگ نظریں بچا بچا کر کسی نہ کسی بہانے سے اُس کی طرف دیکھ رہے تھے اور دل ہی دل میں آہیں بھر رہے تھے۔ ویسے کچھ عجیب طرح کے خیالات میرے دل میں بھی آرہے تھے لیکن دیوار پر جلی حرفوں میں لکھا تھا کہ سب لوگ اپنے اپنے دائرے میں ہی رہیں، اِس لئے میں بھی اپنے دائرے میں ہی رہنے پر مجبور تھا۔
عام طور پر مجھے کسی قطار میں کھڑا ہونا بالکل اچھا نہیں لگتا۔ لیکن اُس روز نہ جانے کیوں جی چاہتا تھا کہ قطار کبھی ختم نہ اور میں ساری زندگی یونہی کھڑا رہوں۔
لیکن میرے چاہنے سے کیا ہوتا ہے ؟ قطار بڑی تیزی چھوٹی ہوتی جا رہی تھی۔ ملاقاتی دو تین منٹ میں ہی منتری جی سے مِل کر باہر نکل آرہے تھے۔
اور پھر وہی ہّوا جس کا ڈر تھا۔ اُس حسینہ کا نمبر بھی آگیا۔
سیکیورِٹی والے نے حسینہ کی خوبصورت پیشانی پر ٹمپریچر ناپنے والی پستول تانی اور کہا "آپنی جیتے پارین نا۔” (آپ نہیں جاسکتیں۔)
” بٹ وائی؟ آئی ہیو ٹیکین پرائر اپائنٹمِنٹ !”
(But why? I’ve taken prior appointment !)
حسینہ نے تقریباٙٙ چیختے ہوئے کہا۔
سیکیورٹی والا اُسے بنگلہ زدہ ہندی میں سمجھانے کی کوشش کرنے لگا کہ اُس کا درجۂ حرارت زیادہ ہے۔ اِس لئے وہ اندر نہیں جا سکتی۔ لیکن حسینہ شاید ہندی بنگلہ کسی بھی زبان سے آشنا نہیں تھی۔ اِس لئے وہ انگریزی میں ہی سیکیورٹی والے سے بحث کرنے لگی۔ اور مجھے فارسی کا وہ مقولہ یاد آرہا تھا کہ "زبانِ یارِ من ترکی و من ترکی نمی دانم”
اچانک سیکیورٹی والے نے امداد طلب نظروں سے میری جانب دیکھا اور کہا "دادا ، آپنی تو اِنگریجی جانین۔ ایناکے ایکٹو بوجھان نا۔’ (بھائی، آپ تو انگریزی جانتے ہیں۔ اِنھیں ذرا سمجھایئے نا۔)
میری تو جیسے لاٹری نکل آئی۔ بیٹھے بِٹھائے یا یوں کہئے کہ کھڑے کھڑائے اُس حسینہ سے مخاطب ہونے کا موقعہ مِل گیا تھا۔ ویسے تو میں نے انگریزی بھی اردو میڈیم سے ہی پڑھی ہی تھی۔ لیکن پھر بھی انگریزی بولنے کا موقعہ ہاتھ سے جانے دینا عقلمندی تو نہیں ہوتی۔ لہٰذا پوری ہمّت جمع کرکے حسینہ کو انگریزی میں سمجھانا شروع کردیا۔
"میڈم، پلیز ٹرائی ٹو انڈراسٹینڈ۔ دی آنریبل مِنِسٹر سِٹِنگ اِن سائیڈ اِز اے نیگییٹیو پرسن۔ اِف یو گو اِن سائیڈ اٹ وُڈ بی ڈینجریس فار ہِم۔ بِکاز یو آر ویری ہاٹ۔”
(Madam, Please try to understand. The Hon’ble minister sitting inside is a negative person. If you go inside it would be dangerous for him. Because you are very hot.”
اور اچانک نہ جانے کیا ہُوا۔ حسینہ کو ہندی بنگلہ دونوں زبانیں ایک دم سے یاد آگئیں۔ "بے شرم کہیں کا۔ لجّا لاگے نا۔ تیرا باڑی تے ماں بون نہیں ہے؟ ہم تم کو می ٹُو کیس میں اندر کروا دیگا۔ تم ہم کو پہچانتا نہیں ہے”ـ
حسینہ چُڑیل کا روپ دھارن کرکے چیختی چنگھاڑتی اور پیر پٹکتی ہوئی وہاں سے نکل گئی ۔ لیکن میں اب تک نہیں سمجھ پارہا ہوں کہ آخر اُسے غصّہ کیوں آیا؟
"گڑھے” اس چیز کو کہا جاتا ہے جو بارش کے ایام میں سڑکوں پر اور ہنسی کے لمحات پر عالیہ بھٹ کے رخساروں پر نظر آتے ہیں۔ تاہم ان دونوں گڑھوں میں بعد المشرقین ہے۔ چاہ زنخنداں اور مرگ بر مرداں کی سی بات ہے۔ تاہم خال خال افراد ایسے ہوتے ہیں جنہیں دونوں گڑھوں سے خطرات لاحق ہوتے ہیں، فدوی خود کا شمار بھی ان خال خال افراد میں کرتا ہے، بقول غالب:
پرتو خور سے ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
ہم بھی ہیں ایک عنایت کی نظر ہونے تک
وہ عنایت کی نظر سرخ رخساروں کے خفیف اور سیاہ سڑکوں کے مہیب گڑھوں میں سی کسی بھی جانب سے ہو جائے ہمارا وڑ جانا لازمی ہے۔ رخساروں کے گڑھے رومانی موضوع ہیں تو سڑکوں کے وجہ ایذا رسانی ہیں۔ ماہرین فلکیات نے برسوں کی محنت کے بعد بلیک ہول کی تصویریں حاصل کیں توخوشی سے جھوم اٹھے، جبکہ مشرق صدیوں سے سڑکوں پر موجود ان بے شمار بلیک ہولس کو نظر انداز کرتا چلا آرہا، پھر بھی تنگ نظر اور کج فہم افراد بضد ہیں کہ مشرق مغرب سے تمدن اور ترقی کے معاملے میں سالہا سال پیچھے ہے۔ گڑھوں کے ذکر پر بے اختیار عزیزی سہیل اختر وارثی یاد آئے۔
پاپ کے اس گھڑے میں ہے سوراخ
ورنہ یہ گڑھا بھر گیا ہوتا
نہیں آپ غلط سمجھ رہے، یہ شعر سہیل کیلئے نہیں بلکہ سہیل کا ہے جو انہوں نے کسی اورسے منسوب کیا تھا۔ اول تو یہ شعر سمجھنے میں پریشانی ہوئی لیکن جب بارش کے ایام میں گڑھوں سے گزرتے ہوئے بدقت دنیا سے گزرتے گزرتے بچے تو اس شعر کا فہم حاصل ہوا۔ فنا اور بقا کے ایسے ہی مراحل سے گزر کر سہیل پر اس شعر کا نزول ہوا ہوگا، واللہ و اعلم
کہتے ہیں چکنے گھڑے پر کتنا ہی پانی ڈالا جائے وہ بہہ جاتا ہے، حکومت کو سڑکیں انہیں چکنے گھڑوں کی بنانی چاہیے لیکن حکومت چکنے گھڑوں سے سڑکیں بنواتی ہیں، جن پر سے بہتا ہوا پانی ان کی بنائی ہوئی سڑکوں پر آتا ہے اور گڑھوں کو جنم دے جاتا ہے۔
چھوٹے سائز کے گڑھے کو ‘کھڈا’ کہتے ہیں، اور بہت کم لوگوں کو یہ بات معلوم ہے کہ کرکٹ میں سلپ یا پوائنٹ پر فیلڈنگ کرتے ہوئے کیچ ڈراپ کرنے والے اور فٹ بال میں آسان گول کا موقع ضائع کرنے والے کھلاڑیوں کو بھی ‘کھڈا’ کہا جاتا ہے۔ سیاسی میدان میں ‘کھڈے’ کا کوئی تصور نہیں ہے اور اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی ہے۔
ان کھڈوں یا گڑھوں پر سیاست بھی ہوتی ہے، جس پر گڑھے برا مان جاتے ہیں اور خود کو مزید بڑھا لیتے ہیں، جتنی سیاست ہوتی ہے گڑھے اتنے ہی بڑھتے جاتے ہیں، سیاست ختم ہوتی ہے تو گڑھوں کا انٹرسٹ بھی ختم ہوجاتا ہے۔ کچھ گڑھے اتنے شریر ہوتے ہیں کہ محض انسانی تماشہ دیکھنے کے شوق میں معرض وجود میں آجاتے ہیں۔ کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ چاند پر نظر آنے والے داغ بھی در حقیقت گڑھے ہیں، تاہم ‘چاند میں بھی داغ ہوتے ہیں’ کہنے والوں کو جب سڑکوں پر موجود گڑھوں پر چراغ پا ہوتے دیکھا تو یہ خیال دم توڑ گیا۔ کائنات کے کسی اور سیارے پر اگر زندگی ہے تو ممکن ہے وہاں بسنے والے لوگ نیلی زمین پر خشکی کا بھورا حصہ دیکھ کر اسے بھی گڑھا سمجھ لیتے ہوں، ان کے نظریے سے یہ دنیا نہیں بلکہ نیلی زمین پر بڑے بڑے سات گڑھے ہیں اور ان میں چھوٹے بڑے ہر سائز کے بے شمار گڑھے ہیں۔ زمین کے ساتھ ساتھ انسان کے دِلوں میں بھی گڑھے ہوتے ہیں، جن میں نفرت، کدورت وغیرہ میل کی طرح جم جاتے ہیں۔ ایسے دل والے انسانوں کا علاج یہ ہے کہ انہیں اٹھا کر سڑکوں پر موجود گڑھوں میں ڈال دیا جائے۔
جہاں گڑھوں کے نقصانات ہیں وہیں اس کے بے شمار فائدے بھی ہیں۔ ان گڑھوں سے گزرتے وقت انسان کو موت اور قیامت دونوں یاد رہتی ہے۔ بے خیالی میں کسی گڑھے میں پیر پڑ جائے تو ایک پل میں ‘جب زمین ہلا دی جائے گی’ کی تفسیر سمجھ میں آجاتی ہے۔ گڑھوں پر 20 قدم چلنا ہموار زمین پر 40 قدم چلنے کے برابر ہوتا ہے۔ وقت اور انرجی کی بچت ہوتی ہے اور انسانی باڈی کی اوورہالنگ مفت ہوجاتی ہے۔ شاید اسی لیے جب سے سڑکوں پر گڑھے بننے لگے ہیں چوراہوں سے مالیشیے غائب ہوتے جارہے ہیں۔
دہلی میں کامریڈ وقاص ایک بار مچھلی کھاتے ہوئے حلق میں کانٹا پھنسا بیٹھا تھا، دسیوں گلاس پانی پیا، ہوالشافی کہہ کر فوراسکور کے درجنوں کش لگائے لیکن حلق میں پھنسا کانٹا نہیں نکلا، مجبوراً آٹو میں سوار ہوکر بٹلہ ہاؤس سے الشفا ہاسپٹل جانے کیلئے نکلا تو زیر تعمیر جامعہ میٹرو اسٹیشن کے پاس سڑکوں پر موجود گڑھوں سے گزرتے ہوئے حلق میں پھنسا مچھلی کا کانٹا باہر آگیا تھا۔ اس لیے کھڈے ضروری ہیں، اور اگر آپ مچھلیوں کہ شوقین ہیں تو کھڈے آپ کیلئے ناگزیر ہیں۔
زبیر حسن شیخ
شاید ہی کوئی انسان ہوگا ،جس نے لفظِ’’ دشمنی‘‘ کا ذائقہ نہ چکھا ہو اور اس احساس یا جذبے سے زندگی بھر مبرا رہا ہو،دشمنی کی یوں توبے شمار قسمیں ہیں ؛لیکن دو احمقانہ؛ بلکہ خطرناک دشمنیاں ہیں اور جو ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، ایک وہ دشمنی، جو انسان اپنے خالق سے اور دوسری خود اپنی ذات سے کرتا ہے، ورنہ عموماً انسان کا دشمن دوسرا انسان ہی واقع ہوا ہے، جبکہ اہلِ دانش انسانی دشمنیوں کو انسان کی برائی سے منسوب کرتے ہیں ،ناکہ خود انسان سے؛ بلکہ کبھی کبھی تو اچھائی اور اچھے اوصاف بھی دشمن قرار دیے جاتے ہیں اور اسی لئے کبھی کسی کی دولت ،تو کبھی کسی کی وجاہت یا حسن، ملکیت، امارت، لیاقت، زبان، الفاظ اور افکار بھی دشمن بن جاتے ہیں، انسان کے اپنے اور دوسروں کے بھی۔شیفتہ کہتے ہیں کہ ہر ایک دشمنی کے پس پشت ایک ازلی طاقت ہے، جسے شیطان کہتے ہیں ،جو خود اپنا دشمن ہو گیا تھا اور پھر انسان کا؛ بلکہ یہ کہنے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ اسے انسان سے اللہ واسطے کا بیر ہوگیا، گرچہ ظالم باوجود تکبر کے بات بات پر اپنے رب کی عزت کی قسم کھاتا تھا، بس مٹی کے انسان کی تکریم اسے کسی طور منظور نہ ہوئی اور دشمنی منظور ہوئی؛لیکن بقراط کہتے ہیں کہ دشمنی اکثر و بیشتر جرائم اور گناہ کا باعث ہوتی ہے اور شیطان کی دشمنی اس کارخانۂ حیات میں ثابت نہیں کی جاسکتی؛ بلکہ انسانی عدالت میں تو بالکل بھی نہیں؛ اس لئے صرف انسانی دشمنی پر بات کرنی چاہیے۔
شیفتہ کے مطابق تہذیبِ جدید میں کچھ اور دشمنیاں بھی عام ہیں ،جیسے سیاسی دشمنیاں، جو عالمی سیاست میں سانپ اور نیولے کی دشمنی کی مانند جاری ہیں،کہتے ہیں کہ عقلمند دشمن جاہل دوست سے بہتر ہوتا ہے، لیجیے! دشمنی بھی دانشمندانہ اور جاہلانہ ہوسکتی ہے؛ بلکہ عقلمندوں کو بھی جاہلانہ دشمنی میں مبتلا پایا گیا ہے، دشمنی کسی عقلمند کو بھی جاہل بنا سکتی ہے؛بلکہ پاگل بھی اور کسی پاگل کو دشمنِ زمانہ بھی، ہم نے پوچھا مثلاً؟ تو کہا امریکہ سے ہند تک سیاست کے پاگل خانے میں جھانک کر دیکھ لیجیے، دو تو سر فہرست ہیں اور میڈیا کے چڑیا گھر میں اکثر نظر بھی آتے رہتے ہیں،کہا: ویسے آج کل سیاسی دشمنی سے زیادہ مکاتبِ افکار کی دشمنیوں کے بڑے چرچے ہیں، ان میں ایک دشمنیِ بے جا بھی ہوتی ہے اور جو اعتقاد اور نظریہ کے اختلاف سے پیدا ہوتی ہے، جس کے لئے ایک نئی کہاوت ایجاد کی جاسکتی ہے کہ شیروں کی کہانی سن کر کوے لگیں کائیں کائیں کرنے ۔ بر صغیری صاحب بھی اس بیچ کود پڑے اور کہنے لگے :دیکھیے جناب! ساری دشمنی کی جڑ امریکہ ہے اور کولمبس نے ایک دنیا کے ساتھ دشمنی کی ہے، بہت شاطر دشمن تھا، جسے پتا تھا آنے والے دور میں کوئی نہ کوئی امریکی بش اور ٹرمپ کی شکل میں نمودار ہوگا اور کولمبس کی سمندری مہم میں اسکی شیطان سے ملاقات اور اسکی شاگردی کے ثبوت ملتے ہیں، جسے اہل وینزویلا نے حالیہ دنوں میں دریافت کیا ہے، روس اور چین کی مدد سے۔ یہ کہہ کر بر صغیری بہت دیر تک ہنستے رہے، خود پر اور امریکہ پر بھی، الغرض دشمنی جیسے پیچیدہ موضوع کو ظرافت کا رنگ دے دیا گیا کہ ادب کا تقاضہ یہی تھا۔
اردو ادب نے دشمنی کو عداوت و رقابت سے تعبیر کرتے ہوئے لفظِ دشمن کے علاوہ عدو اور رقیب کو بھی مستعمل کیا اور دشمنی میں مختلف رنگ بھردیے، ویسے بھی سیاسی اور معاشی ادب دشمنی کو لے کر لال پیلے ہوتے رہتے ہیں اور صحافتی ادب کو سال کے بارہ ماہ سرخ و سیاہ کرتے رہتے ہیں، جو آجکل میڈیا میں سستی تفریح کا ذریعہ ہے، اب رہا تفریحی ادب، تو جمالیاتی شاعری میں دشمنی کا ایک ہی رنگ رہا ہے اور وہ ہے رقیبِ رو سیاہ، اس کے علاوہ اردو کلاسیکی شاعری نے ملاؤں کو اور زاہدوں کو بھی اپنا دشمن بنا کر رکھا تھا۔ میر و مرزا سے جوش و فراق؛ بلکہ فیض و فراز تک سبھی نے اس دشمنی کو خوبصورتی سے نبھایا،انگریزی ادب و شاعری میں بھی دشمنی کچھ مختلف نہیں تھی، شیکسپیئر کہتا ہے :چلتے چلو اے تند اور سرد ہواؤں کہ تم اتنی تکلیف دہ اور بے رحم نہیں ہو جتنا انسان دوسرے انسان کے لئے واقع ہوا ہے۔ انسان کا سب سے بڑا دشمن انسان ہے؛ بلکہ انگریزی کے مختلف شعرائے کرام نے انسان اور خاص کر عورت کو عورت کا دشمن مانا ہے، جبکہ ملٹن نے‘‘گم گشتہ جنت’’میں آدم و ہوا کے باغ بہشت سے نکالے جانے کا ذمے دار شیطان کو مان کر اسے انسان کا ازلی دشمن قرار دیا، دیگر انگریزی شعرا نے دوست کی غداری اور دشمنی کو موضوع بنایا اردو شاعری میں ترقی پسند شعرائے کرام نے جہاں اپنی آئیڈیالوجی کے سوا ہر ایک سے شاعری میں دشمنی کی، تو رجعت پسندوں نے تصوراتی رقیب سے اور رہے جدت پسند ،تو تشبہ اور استعارات کا سہارا لے کر کسی کو نہیں بخشا؛ بلکہ دوستوں کی دشمنی کو اسقدر اجاگر کیا کہ خوف آنے لگا کہیں اردو ادب کا دوستی سے بھروسہ نہ اٹھ جائے۔ الغرض اردو شاعری میں بھی دوستوں کی دشمنی کو خوب ہدف بنایا گیا، غالب کہتے ہیں:
یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے؟
ہوئے تم دوست جس کے ،دشمن اس کا آسماں کیوں ہو
بلکہ وہ تو جنونِ عشق کو زندگی کے سر و سامان کا دشمن مانتے ہیں :
شوق ہر رنگ، رقیب سر و ساماں نکلا
میر تو معشوق اور رقیب دونوں سے نالاں رہے کہ:
کب تھی جرأت رقیب کی اتنی
تم نے بھی کچھ کیا تغافل سا
پروین شاکر کا کہنا ہے:
دشمنوں کے ساتھ میرے دوست بھی آزاد ہیں
دیکھنا ہے کھینچتا ہے مجھ پہ پہلا تیر کون
حبیب جالب کا ماننا ہے:
دشمنوں نے جو دشمنی کی ہے
دوستوں نے بھی کیا کمی کی ہے
خمار فرماتے ہیں:
دشمنوں سے پیار ہوتا جائے گا
دوستوں کو آزماتے جائیے
اور ساقی فاروقی کا کہا مانیے تو:
خدا کے واسطے موقع نہ دے شکایت کا
کہ دوستی کی طرح دشمنی نبھایا کر
اور بقول فراز:
ہم تن آساں ہیں اور ہمارے لئے
دشمنی دوستی سے مشکل ہے
ایک کلیم عاجز بھی تھے، جو دشمنی کے متعلق مختلف سوچ رکھتے تھے کہ:
بہاروں کی نظر میں پھول اور کانٹے برابر ہیں
محبت کیا کریں گے دوست دشمن دیکھنے والے
صرف ایک علامہ ہی تھے، جنہوں نے کیا عورت مرد، کیا زندہ مردہ، جن و انس و ملائک اور کیا ملا پنڈت اور شیخ و برہمن، مشرک، زنار، کافر، منافق، فرنگی، ابولہول، سکندر و دارا، نیپولین و مسولینی، افلاطون ولینن، مارکس ہو یا شیطان، پنجابی ،ترکی و تیموری و افغانی، سیاست ،رقص و موسیقی، فقیری وصوفیت ہو یا جمہوریت و اشتراکیت و ملوکیت، کسی کو نہیں بخشا؛ لیکن شاعری میں دشمنی کسی سے نہیں کی، شیطان سے بھی نہیں، الغرض معلوم یہ ہوا کہ:
دشمنی بھی کیا بیماری ہے
دشمنی دوستی میں جاری ہے
فیضان الحق
بچپن میں سنا تھا کہ کھٹمل نام کی ایک مخلوق پائی جاتی ہے، جو رات میں سونے والوں کے ہاتھ پاؤں چومنے نکلتی ہے، ہوش سنبھالنے کے بعد جے این یو میں ان دوستوں سے پہلی بار ملاقات ہوئی، اپنی پہلی ہی ملاقات میں ان لوگوں نے یہ مفروضہ غلط ثابت کر دیاکہ وہ محض رات میں اپنی خدمات انجام دیتے ہیں،اس وقت دن کے ٹھیک بارہ بج رہے تھے، جب انہوں نے پہلے پہل میری دست بوسی فرمائی، پہلے تو مجھے سمجھ ہی نہیں آیا کہ سرخ سرخ ابھرے نقوش چھوڑجانے والا یہ بوسہ ہے کس کا؟ لیکن غور کرنے پر دوستوں کی بشارتیں یاد آ گئیں، جو وہ وقتا فوقتا جے این یو کے متعلق دیتے رہتے تھے، میں سمجھ گیا کہ یہ نئے رفقا کی میزبانی ہے،اس وقت میرا کھٹملوں کے اس بہادر گروہ سے سامنا ہوا تھا، جو رات میں چوری چھپے کام کرنے کے خلاف تھا، یعنی وہ غفلت کی حالت میں اپنے مرید کی خدمت نہیں کرنا چاہتا تھا اور وضعدار طبقہ تھا، بقول غالب:
لے تو لوں سوتے میں اسکے پاؤں کا بوسہ مگر
ایسی باتوں سے وہ ظالم بد گماں ہو جائیگا!
اب ان نئے دوستوں سے شناسائی ہو چکی تھی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ملاقاتیں بڑھتی گئیں،دن کی مصروفیتوں نے توانہیں خدمت کا زیادہ موقع فراہم نہیں کیا؛لیکن رات کا پورا وقت ان کرم فرماؤں نے اپنے نام کر لیا،دن بھر کا تھکا ہارا،ادھر بسترِ خواب پر گیا کہ تھوڑی ہی دیر میں خدمت گزار حاضر، کوئی پیروں کو چوم رہا ہے، کوئی ہاتھوں کو بوسہ دے رہا ہے،میں کبھی ہاتھوں کو چھڑا رہا ہوں، کبھی پیروں کو پٹخ رہا ہوں، مگر مرید ہیں کہ چھوڑنے کا نام ہی نہیں لے رہے،میں غصہ کروں، جھلاؤں، کیا فرق پڑتا ہے! اور تو اور،اوپر سے طعنے بھی دے رہے ہیں کہ:
ہم ہیں مشتاق اور وہ بے زار
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے
(غالب)
ان خدمت گزاروں کی ایک ٹولی غیر مانوس ہے، جو بستر ہی پر نہایت عاجزی کے ساتھ طواف کرتی رہتی ہے؛ لیکن کچھ تو نہایت ہی شوخ، اڑیل اور منھ لگے نکلے، ان کی جرأت تو دیکھیے! کبھی ہاتھوں کو چومتے چومتے باغِ رخسار تک پہنچ جاتے ہیں اور کبھی سینے پر چڑھ کر اٹھکھیلیاں کرنے لگتے ہیں، کل تو گستاخی کی حد ہی ہو گئی ،جب چند نامعقول، پیروں کو بوسہ دیتے دیتے ممنوعہ سر حد کے پار نکل گئے اور مجھے اس گھسپیٹھ پر فوری کاروائی کرنی پڑی!
اس طرح پوری نیند خدمت کی نذر ہو جاتی ہے اور مجال ہے کہ کوئی رات ان خدمت گزاروں سے محروم رہ جائے۔
خفا ہو، گالیاں دو، چاہے آنے دو نہ آنے دو
میں بوسے لونگا سوتے میں ،مجھے لپکا ہے چوری کا
(ارشد علی خان قلق)
چند راتیں تو اسی طرح صرف بہاراں ہوئیں ؛لیکن پھر میں نے ان دوست نما دشمنوں سے بیزاری برتنا شروع کر دی، دوستوں نے ان سے بچاؤ کے مختلف حربے بتائے، کسی نے کہا ڈبے میں پکڑ کر بند کر دو، کسی نے کہا کمرے میں املتاس کے پھل لاکر رکھ دو؛ لیکن امید کسی طرح بر نہیں آئی، عاجز آکر ایک دن ان کی تمام پناہ گاہوں پر چھاپا مارا، گدے کی سلوٹوں،دیوار کی سوراخوں،کتاب کی جلدوں اور تھیلوں کی جیبوں تک کی تلاشی لی، پورے کمرے میں ان کو روکنے
والی ادویہ کا چھڑکاؤ کیا اور ایک ایک کو چن کر کمرہ بدر کیا، اتنی محنت کا فائدہ یہ ہوا کہ اس رات میں بالکل اطمینان سے سویا۔
صبح جب نہا دھو کر کلاس پہنچا ،تو دیکھتا ہوں وہی کھٹمل صاحبان بیگ کی شقوں سے باہر جھانک رہے ہیں، میں حیران؛ لیکن عزت کی پروا کرتے ہوئے کوئی کاروائی مناسب نہیں سمجھی، تھوڑی ہی دیر بعد دیکھتا ہوں کہ ایک دوسرے صاحب کی شرٹ پر بھی حضرت ٹہل رہے ہیں، اب مجھے کچھ ہمت ہوئی، میں نے انہیں مطلع کیا اور پھر اپنے بیگ میں جمع کھٹملوں کا علاج کرنا شروع کیا؛لیکن اف!قربان جائیے ان کی رفتار پر،ایک بھی کھٹمل ہاتھ نہیں لگا اور میدان صاف ہو گیا۔
ایسا اڑا کہ وہم و گماں سے گزر گیا
بادل ہوا سے پوچھ رہا تھا کدھر گیا
(سودا)
کھٹملوں کی اس یورش نے حیران و پریشان کر دیا، ایک دن بستر پر لیٹا ہوا تھا کہ اچانک انہی میں سے ایک پرانا مرید تکیے کے غلاف سے نکل کر میرا ہاتھ چومنے کو لپکا،میں نے فورا دبوچ لیا، کم بخت نے خوشامد کرنی شروع کر دی…’’میں تو آپ کا دیدار کرنے آیا تھا، ارے آپ کتنے کمزور ہو گئے ہیں، آپ تو فکر مند لگ رہے ہیں‘‘…میں نے ایک نہ سنی اور پٹک کر اس کی گردن پر پیر رکھ دیا:
پہلے رگ رگ سے میری خون نچوڑا اس نے
اب یہ کہتا ہے کہ رنگت ہی مری پیلی ہے
(مظفر وارثی)
دباؤ پڑتے ہی لہو کا دھارا پھوٹااور ایک جوشیلی آواز اسکے منھ سے بلند ہوئی…لال سلام…انقلاب زندہ باد…!!
ارے!یہ کیا،میں حیران رہ گیا!
پھر مجھے سمجھ آیا کہ جے این یو کا خون ان کی رگوں میں بھی گر دش کر رہا ہے اور سرخ چولا انہوں نے شعوری طور پر اختیار کیا ہواہے۔
مبارک علی مبارکی
جلسہ شروع ہونے کا وقت شام 5؍ بجے کا تھا اور ابھی صرف ساڑھے چھ ہی بجے تھے ؛لیکن مولانا حسرت موہانی ہال کی آدھی سے زیادہ نشستوں پر تِل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی؛اِس لیے مجھے قوی اُمید تھی کہ سات ساڑھے سات بجے تک باقی کی پچاس نشستوں پر بھی تِل دھرنا ممکن نہ ہوگا،اسٹیج کے پیچھے دیوار پر ایک بڑا سا بینر لگا ہوا تھا، جس پر پروگرام منعقد کروانے والی تنظیم ’’بزمِ دُکھی دِلان و پژمُردگانِ اردو‘‘ کا نام بولڈ کیپیٹل لیٹرز میں تحریر تھا ۔
اس کے بعد صدرِ جلسہ اور مہمانوں کی فہرست تھی :
صدارت: عزّت مآب شری ٹھونگامَل یمراجؔ جے پوری
مہمانِ خصوصی: جناب ڈوما بھائی گانجہ بگانوی (قطر،یو اے ای)
مہمانِ اعزازی: جناب کالا چاند اَماوَسوی(صدر،تنظیمِ چرم فروشان،کولکاتا)
مہمانِ ذی وقار: جناب شیخ پھینکو پھینکم پھانکوی
مہمانِ عالی وقار: جناب کورچشم عاقلؔ پیدَلوی
مہمانِ دل رُبا: محترمہ حسینہ بانو دِل توڑنی (ٹی وی اینڈ اسٹیج آرٹِسٹ)
وغیرہ وغیرہ
بعد ازاں بزم کے صدر اور سکریٹری کے نام تھے اور سب سے آخر میں صاحبِ اعزاز یعنی اِس سال کے ’’خادمِ اردو‘‘ مبارک علی مبارکی کا نام تھا،جو شاید جگہ کی تنگی کے باعث چھوٹے چھوٹے حروف میں بمشکل گُھسایا گیا تھا، سات بجے کے قریب جب منتظمین،الیکٹریشین،ڈیکوریٹر کے اسٹاف،مقامی اردو اخبارات کے صحافیوں اور فوٹوگرافروں کو ملا کر تقریباً ستّر پچھتّر حاضرین سے ہال کھچا کھچ بھر گیا ،تو ناظمِ جلسہ جناب دلنواز چرب زبانی نے جلسہ شروع کرنے کا اعلان کیا ،سب سے پہلے صدرِ جلسہ و مہمانانِ انواع و اقسام کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی گئی، پھر منتظمین نے اپنے گھر کے بچّوں اور بچّیوں کے ہاتھوں سے اکابرینِ اسٹیج کو گلہائے تعزیت،سَوری گلہائے عقیدت پیش کیے،گرمی ہونے کے باوجود سب کو شالیں اُڑھائی گئیں اور پھر مومنٹو دینے کا سلسلہ شروع ہوا۔
میں اِس دوران عامعین یعنی سامعین کے درمیان بیٹھا تالیاں پیٹتا رہا، اچانک منتظمین میں سے کسی نے ناظم کے کان میں کچھ کہا اور اُنہوں نے بُرا سا مُنہ بنا کر اعلان کیا کہ’’حضرات!معذرت چاہتا ہوں میں آج کے دُولہا جناب مبارک علی مبارکی کو اسٹیج پر بُلانا بھول گیا‘‘۔
پھر اُنہوں نے مجھ سے بصد خلوص و احترام اسٹیج پر آنے کی درخواست کی ،جسے میں نے بادلِ ہاں خواستہ قبول کرلیا۔
خیر صاحب!سب کچھ تقسیم ہونے کے بعد سلسلۂ تقاریر در مدحتِ خادمِ اردو شروع ہُوا اور یکے بعد دیگرے مقرّرین نے ’’بزمِ دُکھی دِلان و پژمُردگانِ اردو‘‘ کے اراکین کی تعریفوں کے پُل باندھنے شروع کیے کہ اُنہوں نے گڈری میں لعل کھوج نکالا اور مبارکی صاحب جیسے بے لوث خدمت گارِ اردو زبان کو اِس سال کے ’’خادمِ اردو ایوارڈ‘‘ کے لیے منتخب کر کے اردو پر احسانِ عظیم کردیا ۔
ان تقریروں کے بعد صدرِ جلسہ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے ناچیز کو اِس سال کے ’’خادمِ اردو ایوارڈ‘‘ کی رننگ ٹرافی پکڑا دی ۔اب صدرِ جلسہ نے اپنا خطبۂ صدارت پڑھنا شروع کیا ، انہوں نے بتایا کہ’’مبارکی صاحب خادمِ اردو نہیں؛ بلکہ مجاہدِ اردو ہیں، وہ اردو کی ترقّی و ترویج کے لیے فیس بُک پر اپنی جان کی بازی لگا کر جہاد کرتے رہتے ہیں ، اردو کی حمایت میں سال بھر مسلسل پوسٹ ڈالتے رہتے ہیں ، مبارکی صاحب نے بیگم کی گالیاں اور بیلن کی مار کھائی؛ لیکن غزلیں کہنا نہیں چھوڑا ؛ کیونکہ غزل اردو شاعری کی آبرو ہے اور شاعری اردو زبان کی آبرو ہے، اِس طرح مبارکی صاحب نے اپنی جان پر کھیل کر اردو زبان کی آبرو کو لُٹنے سے بچایا ہے ،مبارکی صاحب سے جلنے والے کہتے ہیں کہ دوسرے خدّامِ اردو نے اردو کی حمایت میں جلسے کِیے،جلوس نکالے،کھاتے پیتے بھوک ہڑتالیں کیں،جوتے پالش کیے، آخر مبارکی صاحب نے ایسا کون سا تیر مارا ہے کہ اُنہیں خادمِ اردو جیسے با وقار ایوارڈ سے نواز دیا گیا؟
تو حضرات!میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ دوسروں نے تو اردو کو اس کا حق دلانے کے لیے صرف جوتے پالش کیے ہیں؛ لیکن مبارکی صاحب نے اردو کی حمایت میں احتجاجاً کھانا پکایا ہے،برتن اور کپڑے دھوئے ہیں،جھاڑو لگائی ہے،گھر پونچھا ہے؛ لیکن وہ دوسروں کی طرح سستی شہرت کے بھوکے نہیں ہیں ؛اِس لیے وہ یہ سب کام تصویریں کِھنچوا کر نہیں کرتے؛ بلکہ خاموشی سے اپنے گھر کی چہار دیواری میں کرتے ہیں اور اِسی لیے میرا یہ ماننا ہے کہ مبارکی صاحب کے علاوہ اور کوئی اِس ایوارڈ کا حقدار ہو ہی نہیں سکتا ‘‘۔
صدرِ محترم کی باتیں سُن کر لوگوں کی آنکھیں بھر آئیں اور جذبات سے ایسے مغلوب ہوئے کہ تالیاں بجانا تک بھول گئے ، آخر میں نے ہی جذبات پر قابو پاتے ہوئے ہاتھ نیچے کر کے تالی بجائی، جسے سُن کر دوسرے لوگ بھی بیدار ہوئے اور ہال تالیوں کی آواز سے گونج اُٹھا۔اب صرف اظہارِ تشکّر باقی تھا، اس کے لیے میں نے پہلے ہی منتظمین سے بات کرلی تھی کہ یہ فرض میرا این آر آئی بیٹا انجام دے گا، جو اِن دنوں چُھٹّیاں لے کر ہندوستان آیا ہوا ہے ،ناظمِ جلسہ نے خادمِ اردو؛ بلکہ مجاہدِ اردو کے بیٹے کا نام پکارااور فرزندِ ارجمندِ خادم و مجاہدِ اردو نے اپنی تقریر شروع کردی:
’’ آنریبل پریسیڈنٹ،ریسپیکٹیڈ گیسٹس،لیڈیز اینڈ جنٹلمین!
فرسٹ آف آل آئی وُڈ لائیک ٹو ریکویسٹ یو ٹو ایکسیوز می فار اسپیکنگ اِن انگلش بِکاز آئی کین ناٹ اسپیک اردو پراپرلی، ایکچُولی آئی ہَیو بِین اے اسٹوڈِنٹ آف انگلش میڈیم بیک گراؤنڈ ، سو آئی کُڈ ناٹ لرن اردو ، بٹ آئی کین انڈراسٹینڈ اے لِٹِل بِٹ اردو‘‘…
خادمِ اردو کا بیٹا بیحد فلوءِنٹ انگلش میں تقریر کر رہا تھا،لوگ بے تحاشہ تالیاں بجا رہے تھے اور خادمِ اردو کا سینہ فخر سے چھپّن اِنچ کا ہورہا تھا ۔
زین شمسی
رمضان شروع ہونے سے عین قبل متمول، صاحب ثروت اور تنومند مسلمانوں کی پیروی کرتے ہوئے میں بھی اس امید میں ڈاکٹر کی کلینک کے سامنے قطار بند تھا کہ شاید بلڈ ٹسٹ میں شوگر کا عنصر نکل آئے اور یوں میں اس پاک مہینہ میں فاقہ کشی سے نجات پا جاؤں، ہم جیسے کئی لوگ روزہ تو رکھتے نہیں،گھر میں کھانا نہیں بنتا؛اس لیے روزہ کے نام پر فاقہ کشی تے ہیں،اس فاقہ کشی کو لیگل طریقے سے ختم کرنے کا سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ کوئی جھولا چھاپ پیتھولوجسٹ سے براہ راست یہ کہتے ہوئے کہ بھائی مجھے یقین کی حد تک اس بات کا شک ہے کہ میرا خون میٹھا ہوگیا ہے، تین دن سے دیکھ رہا ہوں چینٹیوں کی قطار میرے بستر کے ارد گرد طواف کرتی ہے اور باہر نکلتا ہوں تو مکھیاں ہمسفر ہوتی ہیں، ذرا خون چیک کر دیجیے؛تاکہ سند رہے کہ میں فاقہ کشوں کی صف میں کیوں شامل نہیں ہوں اور کیوں ٹاٹ لگے ہوٹلوں کے اندر لب مطبخ بریانی کی دیگوں میں منہ چھپائے ہوں ۔
عید میں بچوں کے نئے کپڑوں کی آس لگائے غریب طبی اداروں سے پیتھالوجی کے سند یافتہ پیتھولوجسٹ ایسے مریضوں کی یقین کی حد تک بنے شکوک کا پاس رکھتے ہوئے ان کے من مطابق رپورٹ دے دیتے ہیں کہ ان کی آمد و رفت بنی رہے؛ تاکہ بقرعید میں بھی قربانی کے کام آجائے؛بلکہ وہ اور کئی طرح کے ٹسٹ کا کمبو آفر بھی دیتے ہیں؛ تاکہ آئے ہوئے گاہک سے وافر فائدہ حاصل کر سکیں۔
نمبر آنے کے بعد مکمل اعتماد کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس اپنے بدن کی مٹھاس کا ثبوت لینے بیٹھ گیا،انہوں نے رپورٹ نکالی،میری طرف بڑھاتے ہوئے بولے،زین بھائی مبارک ہو،یہ مبارک رمضان آپ کے لیے بہت کار آمد ثابت ہونے والا ہے۔
میں نے تجاہل عارفانہ کے انداز میں پوچھا”رپورٹ منفی تو نہیں ڈاکٹر صاحب؟ ” ۔
"منفی ! ارے بھائی آپ کو بالکل شوگر نہیں ہے،ہاں کولسٹرال بہت زیادہ ہے، پورے رمضان تراویح پڑھ لیجیے،ان شاءاللہ بالکل فٹ ہو جائیں گے” ۔
"اللہ مجھے خراب نہیں ہونے دے گاکیا، پیتھولجسٹ اور ڈاکٹروں کی صورت میں بھی تبلیغیوں کو بٹھا رکھا ہے”، بے ساختہ میری زبان سے یہ جملہ اچھلا اور سامنے سے آ رہے حاجی حجت کے کان میں گرا ۔
"سب خیریت تو ہے،رپورٹ کیا کہتی ہے؟” رپورٹ تو جو بھی کہتی ہو حاجی صاحب, بس اتنا سمجھ لیجیے کہ جب جب روزہ بخشوانے کی کوشش کیجیے گا، نماز گلے پڑ جائے گی۔
(انشائیہ)
مبارک علی مبارکی
آج آخرکار میں نے اُس دھوکے باز کو انفرینڈ کر کے بلاک کر دیا ؛ بلکہ اُس کے خلاف فیس بُک والوں کو رپورٹ بھی کردی ،ہُوا یوں کہ پرسوں اُس انفرینڈ شدہ فرینڈ نے صندوقِ داخلی یعنی اِنباکس میں ایک تصویری پوسٹ بھیجی اور کہا کہ جو شخص گیارہ لوگوں کو یہ پوسٹ سینڈ کرے گا، اُس کی سب سے بڑی تمنّا چوبیس گھنٹے کے اندر پوری ہو جائے گی ،میں نے سوچا اِس سنہرے موقع کو ہاتھ سے جانے دینا تو بہت بڑی بیوقوفی ہوگی ، بس فوراً پوسٹ کو شیئر کرنے کا سلسلہ شروع کردیا ،اچانک خیال آیا کہ میٹرِک کا مارک شیٹ گُم ہونے پر اس کی ڈُپلی کیٹ کاپی نکالنے گیا تھا تو دو مہینے میں ڈپلی کیٹ مہیا کرنے کی فیس ایک سو روپئے تھی، جبکہ دو سو روپے میں ارجنٹ یعنی ایک مہینے میں ہی ڈپلی کیٹ فراہم کرنے کا آپشن بھی موجود تھا ، سو میں نے دو سو روپے دے کر ارجنٹ کاپی کے لیے درخواست جمع کردی تھی ،یہ خیال آتے ہی میں نے فیصلہ کیا کہ اِس بار بھی ارجنٹ کاپی کی درخواست ہی کر دیتا ہوں؛ تاکہ میری سب سے بڑی آرزو چوبیس کی بجائے بارہ گھنٹوں میں ہی پوری ہوجائے،بس پھر کیا تھا دھڑادھڑ اُس کمبخت دوست کا میسج سینڈ کرنا شروع کردیا اور پلک جھپکتے میں 22 لوگوں کو وہ کراماتی میسج سینڈ کردیا ؛تاکہ میری سب سے بڑی تمنّا آدھے وقت میں پوری ہوجائے اور میری طرح دوسرے لوگ بھی اِس کارِ خیر کا حصّہ بن سکیں ، میں نے جلدی جلدی میں یہ بھی نہیں دیکھا کہ میسج کس کس کوبھیج رہا ہوں، آخری میسج شام کے تقریباً سات بجے سینڈ کیا ہوگا ، بار بار گھڑی دیکھ رہا تھا کہ جلدی سے بارہ گھنٹے پورے ہوں اور…لیکن گھڑی کمبخت تو گویا بھارتیہ ریل ہوگئی تھی، چل ہی نہیں رہی تھی ،میرا دل اچّھے دنوں کے انتظار میں بے قرار ہُوا جارہا تھا؛لیکن میں نے اِس دیوانے کو سمجھایا کہ بھائی اِتنی بے صبری اچّھی نہیں ، تیس پینتیس سال بُرے دنوں کو برداشت کرلیا، تو کیا چند گھنٹے اور برداشت نہیں کرسکتے ،ذرا سا صبر کرو ، صبح سات بجے تو اچھے دن آ ہی جائیں گے ،میرے سمجھانے سے دیوانے دل کو ذرا سا قرار آیا؛ لیکن آنکھوں میں نیند نہیں آئی ، پتہ نہیں صعوبتِ دیرینہ سے بچھڑنے کا غم تھا یا راحتِ آیندہ سے ملنے کی خوشی، جس نے آنکھوں سے نیند چھین لی تھی ۔ خدا خدا کر کے صبح ہوئی ، پانچ بجے،پھر چھ بجے اور آخر سات بھی بج گئے؛ لیکن اچھے دنوں کا دُور دُور تک پتہ نہیں تھا ،رات آنکھوں میں کاٹی تھی ؛اِس لیے اب آنکھوں پر نیند کا غلبہ محسوس ہو رہا تھا، ویسے تو میں صبح چھ بجے ہی ڈیوٹی کے لیے نکل پڑتا ہوں؛ کیونکہ سات بجے کی ٹرین پکڑنی ہوتی ہے؛ لیکن گزشتہ شام بائیس لوگوں کو پیغام برائے تکمیلِ تمنّا شیئر کرنے کے بعد ہی یہ فیصلہ لے چکا تھا کہ آج ڈیوٹی کے لیے نہیں جاؤنگا ؛کیونکہ میں سُپر فاسٹ ٹرین سے ڈیوٹی پر جاتا ہوں، جو ہوڑہ اسٹیشن سے چھوٹتی ہے ،تو دو گھنٹے بعد کھڑگپور اسٹیشن پر ہی رُکتی ہے، میں نے سوچا سات بجے ٹرین چُھوٹے گی اور سات بجے ہی سب سے بڑی تمنّا پوری ہوگی،گھر والے کال کرکے اچھے دن آنے کی خبر دیں گے ،تو پہلی ٹرین سے واپس آنا ہوگا، پھر عزیز و اقارب کو خبر دینے اور باقی انتظامات کرنے کے لیے وقت بھی تو چاہیے؛ لہٰذا چھٹی لینا ہی مناسب لگا ، ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ سات بجنے کے باوجود اچّھے دنوں کا دُور دُور تک پتہ نہ تھا، سوچا شاید کچھ میسج ابھی منزلِ مقصود تک پہنچے ہی نہ ہوں؛ اِس لیے تھوڑا اور انتظار کرلینے میں کیا بُرائی ہے؟انتظار کرتے کرتے آٹھ بجکر 47 منٹ اور 36 سکنڈ ہوگئے ، شادیِ غم کی وجہ سے رات بھر سو نہیں سکا تھا؛ اِس لیے آخرکار نیند آگئی ،
اچانک خواب میں ایک چڑیل آئی اور کرخت آواز میں بولی’’ اسکول نہیں جانا ہے؟‘‘۔
میں نے خواب میں ہی جواب دیا’’نہیں،اچّھے دن آنے والے ہیں ‘‘۔
چڑیل شاید امیت شاہ کی طرح اپنی پارٹی کی کرسیِ صدارت پر براجمان تھی ، چیخ کر بولی’’ اوئے شیخ چِلّی! خواب دیکھنا چھوڑ دے ،کوئی اچھے دن وِن نہیں آنے والے ، سب جملہ بازی ہے ،اُٹھ اور چائے کے لیے دودھ لے کر آ ‘‘۔ آنکھیں کھولیں تو سامنے چڑیل،معاف کیجیے بیگم ہاتھ میں دودھ کا برتن لیے کھڑی تھیں۔ اب بتایئے،کیا ایسے دھوکے باز دوست کو انفرینڈ کرکے میں نے کوئی غلطی کی ہے؟