جب ملائم سنگھ یادو وزیر دفاع تھے تب ممبئی میں ان سے انٹرویو کا ایک موقع ملا تھا ، وہ بھی ان کی سرکاری گاڑی میں جو سخت سیکیورٹی میں رواں دواں تھی ۔ ایک سوال کے جواب میں ملائم سنگھ یادو نے کہا تھا کہ ان کی سیاسی جماعت سماج وادی پارٹی نے بی جے پی سے اب تک مفاہمت کی ہے اور نہ مفاہمت کرے گی ۔ اور یہ سچ بھی ہے ، ملائم اور اکھلیش پر لاکھ الزام لگائے جائیں یہ الزام لگانا ممکن نہیں ہے کہ وہ بی جے پی کے ساتھ کھڑے رہے ہیں ۔ یہ سماج وادی پارٹی کی ہی سرکار تھی جب آج کے اترپردیش کے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ لوک سبھا میں یہ کہہ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے تھے کہ یو پی کی حکومت انہیں بہت ستا رہی ہے ۔ آج یوگی سب کو ستا رہے ہیں مگر اکھلیش مقابلے پر کھڑے ہوئے ہیں ۔ سماج وادی پارٹی کی یاد مایا وتی کے انتخابی فیصلے نے دلا دی ہے ، انہوں نے تقریباً تمام لوک سبھا کی سیٹوں پر مسلمانوں کی امیدواری کا اعلان کیا ہے ۔ مایاوتی اس بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ ہیں جس کی بنیاد کانشی رام نے ڈالی تھی ، ان کا مقصد بہت واضح تھا ؛ اعلیٰ ذات کے ذریعے پچھڑوں کے استحصال کا مقابلہ کرنا ۔ اور جب تک سماج وادی پارٹی اور بی ایس پی کا اتحاد رہا مقابلہ زبردست رہا ، لیکن سماج وادی پارٹی کی ایک غلطی نے بی ایس پی کو یرقانیوں سے مفاہمت اور ساز باز کا ایک ایسا موقع فراہم کر دیا جس سے وہ آج تک باہر نہیں آ سکی ہے ۔ بی جے پی کے اتحاد سے اس نے یو پی پر حکومت کی ، اور جب حکومت سے باہر رہی تو اندر ہی اندر بی جے پی کی مرضی پوری کرتی رہی ۔ مایاوتی ایک بہترین لیڈر ہیں ، ان میں زبردست انتظامی صلاحیتیں ہیں اور بلاشبہ ان کے دور میں یو پی میں امن و امان رہا ہے ، لیکن بی جے پی کے اشارے پر ناچ کر انہوں نے اس اعتبار کو ، جو لوگ ان پر کرتے تھے ، کھو دیا ہے ۔ اب کہا یہی جاتا ہے کہ بی جے پی جیت جائے اس لیے وہ ایسے امیدواروں کو میدان میں اتارتی ہیں جو ووٹ کاٹ سکیں ۔ اور یہ ووٹ کٹوا امیدوار اکثر مسلمان ہوتے ہیں ۔ اس بار لوک سبھا کا مقابلہ بی جے پی کے لیے آسان نہیں ہے بھلے نریندر مودی اور امیت شاہ نعرہ لگائیں اس بار چار سو ۔ انڈیا اتحاد کا اثر پڑے گا ہی ۔ بی جے پی کو خوب اندازہ ہے کہ اس بار اگر کامیابی حاصل کرنا ہے تو دلتوں ، پچھڑوں خاص کر مسلمانوں کے ووٹوں کو خراب کرنا ہوگا اور اس کے لیے وہ مہرے سجا رہی ہے ۔ مایاوتی بھی ان ہی میں سے ایک مہرہ ہیں ۔ مسلمان سب جانتے ہیں لیکن سب جانتے ہوئے بھی وہ مایاوتی کے جال میں پھنس جاتے ہیں ۔ یو پی اور ملک بھر کے مسلم اکثریتی علاقوں سے مسلم امیدواروں کو اتارنے کا مقصد صاف ہے ، مسلم ووٹوں کو منتشر کرنا ۔ گزشتہ لوک سبھا الیکشن میں بہت سی سیٹوں پر بی جے پی کے امیدوار معمولی ووٹوں کے فرق سے کامیاب ہوئے تھے ، ووٹوں کا جو فرق تھا اس سے کہیں زیادہ ووٹ بی ایس پی اور دیگر ووٹ کٹوا پارٹیوں کے امیدواروں نے حاصل کیے تھے ۔ یہ بار بار ہوتا رہا ہے اور مان لیں کہ اس بار بھی ہوگا اور مسلم ووٹ منتشر ہوں گے ۔ مسلمانوں نے بار بار تجربہ کیا ہے ، سبق سیکھا ہے ، لیکن وہ اپنی روش بدلنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ مومن تو وہ ہوتا ہے جو ایک ہی سوراخ سے دوسری بار نہیں ڈسا جاتا مگر ہم بار بار ڈسے جا رہے ہیں ! کیا ہم مومن کہلانے کے قابل ہیں؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)