امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ماہ ربیع الاول کے آتے ہی ذہن و دماغ پر بشاشت اور مسرتوں کا بہار چھا جاتا ہے، قلوب و اذہان پر تازگی محسوس ہونے لگتی ہے، فضاؤں میں بالیدگی اور ہواؤں میں سرور کا احساس نمودار ہونے لگتا ہے،زمین وآسماں کی ہرچیزاس واقعہ کی یاد سے جھوم اٹھتی ہے جو آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل عرب کی سرزمین پر رونما ہوا تھا، یعنی اس نبی امی کے ظہور کا واقعہ ذہن و دماغ میں گردش کرنے لگتا ہے جن کے وجود سے عالم کا وجود ہے،جن کی بدولت کلیوں میں چٹک،شاخوں میں لچک،پھولوں میں مہک، دریاؤں میں روانی، باغوں میں فراوانی،ستاروں میں جھلملاہٹ سب کچھ ہے۔یہی وہ مہینہ ہے جس نے خزاں رسیدہ چمن کو بہار بخشا، دم توڑتی اورسسکتی ہوئی انسانیت کی کشتی کو ساحل سے ہمکنار کرایا۔لیکن سکہ کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ یہ مہینہ آپ صلی اللہ علیہ کے پردہ فرماجانے کا غم بھی اپنے اندر لیے ہوئے ہے ، جس خبر کو سن کر لوگوں کا دل دہل گیا تھا اورپورے مدینہ ہی نہیں قرب وجوار میں صف ماتم بچھ گئی تھی ۔
مورخین،سیرت و سوانح اورخاکہ نگاروں نے لکھا ہے کہ آپ کی پیدائش سے قبل ہی کائنات میں رونما ہونے والے واقعات و حوادث نے کسی بڑی تبدیلی اور نئے انقلاب کی آہٹ دے دی تھی ،حضرت آمنہ کے خواب نے بھی اس جانب اشارہ دے دیا تھا کہ کچھ نیاہونے والا ہے،آثار بتانے لگے تھے کہ ظلم کی تاریکیو میں سیندھ لگنے والی ہے اور ایسا نور پھوٹنے والا ہے جس کی روشنی سے پوری دنیا کی تاریکی کافور ہونے والی ہے،جس کی بدولت کمزوروں،مظلوموں،انصاف کے منتظرین کو ان کا حق ملنے والا ہے ، امن وامان کے متلاشی کو سکون راحت کا سامان فراہم ہونے والا ہے ، نفرت کے بازاروں میں محبت کا دیپ جلنے والا ہے ، قتل و غارت گری اور فساد و بربریت کے ماحول میں صلح و آشتی کا پیغام آنے والا ہے۔ پچھلے نبیوں کی بشارت کو حقیقت کا روپ ملنے والا ہے ، پیغمبروں کی پیشین گوئیوں کی تکمیل ہونے والی ہے اور انتظار کی گھڑیاں ختم ہونے والی ہیں،حضرت عیسیٰ ؑ کے بقول ’’ یأتی من بعدہ اسمہ احمد‘‘ کا ظہور ہونے والا ہے ۔ انہیں چیزوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کریم نے کہا : لَقَدْ مَنَّ اللَّہُ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ إِذْ بَعَثَ فِیہِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُو عَلَیْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ وَإِن کَانُوا مِن قَبْلُ لَفِی ضَلَالٍ مُّبِینٍ (آل عمران:164)اللہ نے ایمان والوں پر انہیں میں کا ایک رسول بھیج کر احسان کیا ہے ، جو انہیں اللہ کی آیتوں کو پڑھ کر سناتا ہے اوران کو پاک کرتا ہے اوران کو کتاب اور کام کی بات سکھا تا ہے ۔
دنیا ومافیھا کی ساری چیزیں خدائے لم یزل ولایزال کے قدرتی نظام کا وہ کرشمہ ہے جس پر ہر مومن کا نہ صرف عقیدہ ہے؛ بلکہ ایمان ہے اس گلشن کا وجود ہی آپ سے ہے، کائنات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر نہ کوئی آیا ہے اور نہ آئے گا،جن کے وجود سے ہی کائنات کا وجود ہے،آپ کی آمد کے بغیر دنیا کاتصور ہی نہیں کیا جاسکتا،اس کرۂ ارضی پراگرآپ کی تشریف آوری نہیں ہوتی تو شایدہی باری تعالیٰ دنیا کی تخلیق کرتا، آپ کی ذاتِ با برکات ستودہ صفات،جن پر اللہ کی رحمتوں کا نزول ہوتاہے؛بلکہ آپ کی ذات کو سرچشمۂ رحمت بنا دیاجاتاہے ارشاد خداوندی ہے’’ وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین‘‘ کہ ہم نے آپ کو رحمت بناکربھیجا ہے ،آپ کی رحمت اور عظمت و کبریائی کی گواہی دیتے ہوئے قرآن کریم نے کبھی ’’ورفعنالک ذکرک ‘‘سے آپ کے اقبال بلند ہونے کا واضح اشارہ دیا تو کبھی مزمل و مدثر،یس و طہ سے پکارا اور کبھی سورہ کوثر کے ذریعہ آپ کی عظمت و بلندی اور رفع شان کو مہمیز لگایا تو کبھی معراج پر بلاکر اعزاز سے نوازا،جن کی نعت گوئی اور تعریف شجر و حجر نے کی،جن کے اشارہ پر دست عدو میں کنکر نے نعرہ تکبیر لا الہ الااللہ کی صدا لگائی،جن کی بدولت آسمان و زمین کو روشنی ملی اورجن سے بہتر دنیا کی تاریخ میں کوئی آیا ہی نہیں،جن کی خوبصورتی آسمان و زمین پر مسلم ہے، جن کا احسان کائنات کے ذرہ ذرہ پر ہے،یہی وجہ ہے کہ شاعر اسلام،صحابی رسول حضرت حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ نے آپ کی مدحت و منقبت بیان کرتے ہوئے فرمایا :
واحسن منک لم تر قط عینی واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرئا من کل عیب کأنک قد خلقت کما تشاء
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ حسین میری آنکھ نے کبھی نہیں دیکھا،اور آپؐ سے زیادہ جمیل وخوبصورت بچہ کسی عورت نے جنا ہی نہیں،آپ ؐ ہر عیب سے پاک وصاف پیدا کئے گئے،گویا کہ آپؐ اسی طرح پیدا کئے گئے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چاہا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی کھلی کتاب کے مانند ہے جس میں کسی طرح کا جھول اور کوئی خامی نہیں،اس جہاں کی سب سے کامل و اکمل ذات آپ ہی کی ہے ،جس میں کسی کو کوئی کلام نہیں،آپ کی ساری باتیں حقیقت و صداقت پر مبنی ہیں ،جس میں کسی قسم کا کوئی جھول نہیں،،زندگی میں کبھی جھوٹ کا سہارا نہیں لیا ، کسی قسم کی بددیانتی نہیں کی ،آپ کی صداقت وشرافت کی گواہی مخالفین اور دشمنان اسلام نے بھی دی ہیں،پوری حیات طیبہ میں آپ سے کوئی بھی ایسا عمل سرزد نہیں ہوا جس سے کسی کو تکلیف پہونچی ہوحتیٰ کہ آپ نے کسی سے اپنی خاطر بدلہ تک نہیں لیا،کسی کومارا اور نہ کسی کو تکلیف دی اور نہ کسی کو ستایا،کبھی کسی کو جھڑکا بھی نہیں،بلکہ تکلیف دینے والوں اورراستے میں پتھر اورکانٹے بچھانے والوں کے لیے ہدایت کی دعائیں کی ،شاعر کہتا ہے ۔
راہ میں کانٹے جس نے بچھائے،گالی دی پتھر برسائے
اس پر چھڑکی پیار کی، شبنم صلی اللہ علیہ وسلم
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اخلاق وکردار کا جو اعلیٰ نمونہ پیش کیا وہ کسی معجزہ سے کم نہیں ،آپ کی انہیں ساری چیزوں نے عرب کے خانہ بدوشوں اور صحرانوردوںکو ساربانی سے جہاں بانی عطا کی ، غلامی سے حکمرانی تک پہونچا دیا اوران کے پتھر دلوں کو موم بنادیا، جس نے آپ سے بات چیت کی ،معاملات کیا آپ کا گرویدہ ہوگیا،اور آپ پر ایمان لانے پر مجبور ہوگئے ،آپ کی تربیت اور اعلیٰ کردار کا ہی عکس تھا کہ عرب کے بدو ؤں نے آپسی منافرت ،عداوت ودشمنی اور ذاتی رنجشوں کو بالائے طاق رکھ کر محبت وبھائی چارگی کے جام کو ایسے اپنے منھ سے لگایا کہ نفرت وعداوت اور کدورت منھ چھپانے لگی ، جو کبھی آپس میں دست وگریباں تھے،شیرو شکر ہوگئے، اسلام کی شعاعوں نے ان کے قلوب واذہان کو منور وروشن کردیا تھا،مرجھائے ہوئے پھولوں میں تازگی پیداکردی ،اوراب وہ لوگ آپس میں محبتوں کے پھول برسانے لگے ، اسلام نے ان کے اندر اخوت ومحبت کی بیج ڈال دی اورایک صالح وپاک معاشرہ کی تشکیل عمل میں آئی جہاں پر انسانی قدروں کو فروٖغ ، ان کی عزت وتقدس کو احترام ملا ۔
نبی کے خلق عظیم ترنے سبھی کو اپنا بناکے چھوڑا
دلوں سے نقش دوئی مٹاکر بشر کو حق سے ملاکے چھوڑا
آپ اپنی امت کے لیے رحمت بناکر بھیجے گئے، اورعملی طور پر اپنی رحمت وشفقت کا اظہار بھی کیا،چاہے فتح مکہ کے موقع سے ہویا طائف کے دل دہلادینے والے واقعہ کے موقع سے،آپ کا کوکافروں پر دسترس حاصل تھا اس کے باوجود آپ نے معاف کردیا یہ آپؐ کی شان کریمانہ اوراخلاق فاضلانہ کا نمونہ ہے ۔ صحابی رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ’’خدمتُ النبی صلی اللہ علیہ وسلم عَشْرَ سنین، فما قَالَ لی أُفٍّ، وَلاَلم صنعت ،ولا ألا صنعت؟‘‘(البخاری).میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سالوں تک خدمت کی ہے ،آپ نے مجھ سے اف بھی نہ کہا اور یہ بھی نہیں کہا کہ تم نے کیوں کیا اور کیوں نہیں کیا، آپ تو اخلاق کریمانہ کے اعلیٰ درجہ پر فائز تھے،آپ کے اندر تمام نبیوں کی خوبیاں بدرجہ اولیٰ و اتم موجود تھیں،آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ مبارکہ میں یوسف کا حسن و جمال اور ان کی پاکیزگی،چاند کی چاندنی،سورج کی روشنی،تاروں کی چمک،جگنووں کی جگمگاہٹ،حضرت عیسیٰؑ کا حلم،حضرت موسیٰؑ کا جوش اور حضرت ایوب کا صبر،حضرت سلیمان کی حکمت و دانائی ،یوسف کی خوبصورتی ،اپنے جد امجد ابراہیم واسماعیل کی قربانی اور ان کا جذبہ پایا جاتاہے جیسا کہ شاعر نے کہا:
حسن یوسف، دم عیسیٰ، ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند، تو تنہا داری
تو پھر کیوں نہ اس نبی کے نام پر ہم درودوں کے نذارانے پیش کریں ،جن پر خود باری تعالیٰ رحمت بھیجتا ہے ،کیوں نہ ان کی لائی ہوئی شریعت کو اپنے لیے حرز جاں سمجھیں، جسے اپنانے سے ہماری دنیا وآخرت سنور جاتی ہیں ، جن کے بتائے ہوئے طریقے پر چلنے سے ہمیں دونوں جہاں کی کامیابی نصیب ہو تی ہیں، اس کے لیے ہمیںیہ عہد کرناہوگا کہ ہم اپنے نبی کی لائی ہوئی شریعت اور آپ کے احکامات وتعلیمات کو زندگی کا لازمی عنصر سمجھ کر اس پر عمل پیراں ہوجائیںاور نبی کی عظمت وتقدس سے اپنے سینے کو معمور رکھیں اور سنت مطہرہ کے پابند ہوجائیں ، اگر ہم اس میں کامیاب ہوگئے تو یقین مانئے ہمیں سرخروئی حاصل ہوگی ۔مزید یہ کہ آج جو ہمارے سامنے حالات ہیںاورکئی طرح کے چیلینجز کا سامنا ہے ، جس کی وجہ سے ہمیں مشق ستم بنایاجارہاہے ،ایسی صورت میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت ہمارے لیے بطور نمونہ موجود ہے ، چنانچہ اگر ہم مظلوم ہیں تو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی کا مطالعہ کریں جس میں ہمارے ان مسائل ومشکلات کا حل موجود ہے ، کہ کیسے اللہ کے نبیؐ نے حالات کے سردو گرم کو جھیلا ،دشمنوں کے تیرونشتر برداشت کئے اورصبروشکر کے دامن کو ہاتھ سے جانے نہ دیا ؛بلکہ اپنی کمزوری بے بسی کا اظہار باری تعالیٰ کے دربار میں کرتے رہے ،ایمان والوں کی ثابت قدمی کی دعائیں بھی کرتے، ان کے دلوں میں ایمان کی اہمیت کو بٹھاتے اورسخت حالات میں بھی دعوت دین کا کام جاری رکھا،ضرورت پڑی جھک گئے، مخالفین کے ہر ایک شرط کو قبول کیا صلح حدیبیہ اس کی عظیم مثال ہے ، اگر ہمارے پاس طاقت وقوت ،بادشاہت حکمرانی ہے تو مدنی زندگی سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے کہ کیسے آپ ؐ نے اپنے دشمنوں کو معاف کیا اوران کو پناہ دی ،فتح مکہ اس کی عظیم مثال ہے اللہ کے نبی نے’’لاتثریب علیکم الیوم‘‘ کاعام اعلان کر دیاکہ جیسے یوسف ؑنے اپنے بھائیوں کی غلطیوں کو معاف کردیا تھا ،آج میں بھی اعلان کرتاہوں کہ تم سے کوئی بدلہ نہیں لیاجائے گا تم سب کے سب آزاد ہو۔اسی طرح اگر ہم رعایا ہیں، یاایک باپ ہیں ، شوہر ہیں ،یا بیٹا ہیں،یتیم ومسکین ہیں ،پڑوسی ہیں ، بھائی ہیں ، تاجر ہیں ، مسافر ہیں ، مقیم ہیں ،بیمار ہیں ، خوش ہیں ، مغموم ہیں ہر حالت میں اللہ کے نبی کی سیرت ہمارے لیے آج بھی مشعل راہ ہے اور آپ کا یہ فرمان ہمارے سامنے موجود ہے کہ ’’ترکت فیکم امرین،لن تضلوا ماتمسکتم بھماکتاب اللہ وسنۃ رسولہ‘‘(المؤطا) میں نے تمہارے درمیان دوچیزیں چھوڑی ہیں،جب تک تم انہیں پکڑے رہوگے ہرگز گمراہ نہیں ہوسکتے، وہ کتاب اللہ یعنی قرآن کریم اور سنت رسول اللہ یعنی احادیث ہیں ،ان سے روشنی اخذ کریں اور حالات کے دھارے کو موڑ دیںاور اپنی زندگی میں وحدانیت ، عدل وانصاف ، اخلاقیات ، معاملات ، معاشرتی ہم آہنگی ، صبر وشکرکو جگہ دیں،اوراپنے نبی کا شکرواحسان بجالائیں جن کی وجہ سے ہمیں گلدستہ ایمان نصیب ہوا علیہ الف صلوٰۃ وسلام۔
زباں پہ بار الہ یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے میری زباں کے لیے