مکان اور خاندان کے درمیان چولی دامن کا ساتھ ہے ۔ مکان کی مضبوطی کا دارومدار اس کے در و دیوار کی آرائش و زیبائش پر نہیں ، بلکہ پائیدار بنیاد پر ہوتا ہے ۔ کسی مکان کی بنیاد ہی کم زور ہو تو شاخِ نازک پر بننے والا آشیانہ ناپائیدار ہوجاتا ہے ۔ اس کا اندازہ آندھی طوفان میں ہوتا ہے اور دنیائے دنی میں اس سے مفر نہیں ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر نظامِ خاندان کی پائیدار بنیاد کیا ہے؟ ارشادِ ربانی ہے : ’’وہ الله ہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا ، پھر اس کی جنس سے اس کا جوڑا بنایا ، تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے‘‘۔ اطمینان و سکون انسان کی ایک ایسی بنیادی ضرورت ہے کہ اس کے مفقود ہوجانے پر دنیا کی ساری نعمتیں بے معنیٰ ہوجاتی ہیں _ وہ خودکشی تک کرلیتا ہے ۔ اسی سکون کی خاطر انسان اپنا جوڑا تلاش کرتا ہے اور گھر بساتا ہے _ گویا ایک نیا خاندان وجود میں آجاتا ہے ۔ اس بنیادی عنصر سے محروم ہوجانےوالا خاندان ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے ۔
انسانی وجود کا ہر گوشہ سکون کا طلب گار ہے ۔ ایک خوش گوار ازدواجی رشتے کے اندر فرد کو قلبی ، طبعی ، ذہنی ، جسمانی ، دماغی ، جنسی وصنفی ہر قسم کا سکون حاصل ہوجاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان دعا کرتے ہیں : ’’ اے ہمارے رب ہمیں اپنے ازواج اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما‘‘۔ اس آیت کی بہترین تفسیر نبی کریم ﷺ کی یہ حدیث پاک ہے :” آپس میں محبت رکھنے والوں کے لیے نکاح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی گئی-‘‘ مذکورہ دعا کے اندر فطری ترتیب کے لحاظ سے زوج کا ذکر اولاد سے پہلے ہے ۔
اس میں شک نہیں کہ اسلام کا خاندانی نظام انسان کے شہوانی جذبات کو بے لگام ہونے سے بچاتا ہے اور بے شمار برائیوں کا سدِّ باب کرکے مرد و زن کی اخلاقی پاکیزگی کا تحفظ کرتا ہے ۔ اس کے علاوہ نسل انسانی کی بقا و افزائش کا ضامن بھی بنتا ہے ، لیکن اس کا مرکز و محور سکون واطمینان ہی ہے ۔ محبت کی بنیاد کم زور ہوجائے تو خاندان کی عمارت ازخود زمین بوس ہونےلگی ہے ۔ ارشادِ قرآنی ہے : ’’ اور یہ (بھی) اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے پیدا کیے ، تاکہ تم ان کی طرف سکون پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کر دی ، بے شک اس (نظامِ تخلیق) میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں‘‘۔
اس آیتِ مبارکہ میں سکونِ قلب کے ساتھ محبت و رحمت کا ذکر ہے ۔ ابن عباس کے نزدیک محبت ومودت کا اشارہ جنسی خواہش کی تسکین اور رحمت سے مراد اولاد ہے ۔ اس کا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے کہ عالمِ ِشباب میں محبت کا جوش بڑھاپے کے اندر رحمت و ترحّم میں بدل جاتاہے ۔
مغربی تہذیب نے نکاح کی پاکیزہ روایت سے بغاوت کرکے بے مہار شہوت رانی کا اہتمام تو کرلیا اور اسے قانونی جواز بھی عطا کردیا ، لیکن عدمِ اعتماد کے سبب اس متبادل نظام میں پائی جانے والی بے یقینی کی کیفیت قلبی چین و سکون کو غارت کردیتی ہے ۔ فطرت سے یہ انحراف انسان کو اپنے مقام بلند سے گرا کر ایسے وحشی جانورمیں تبدیل کردیتا ہے جو اپنی جنسی بھوک تو مٹاتا ہے ، لیکن خاندان کا لطف نہیں اٹھا پاتا ، کیوں کہ اس کا وجود ہی نہیں ہوتا ۔
قرآن حکیم میں بیوی اور شوہر کو ایک دوسرے کے پوشاک سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ لباس کا پہلا مقصد پردہ پوشی ہے اور میاں بیوی ایک دوسرے کے پردہ پوش ہو تے ہیں ۔ باطن کے لباسِ حیا کی حصول یابی میں شوہر و بیوی باہم معاون ہوتے ہیں ۔ لباس نہ صرف جسمانی تحفظ فراہم کرتا ہے ، بلکہ اخلاقی سطح پر شہوانیت ، حیوانیت اور شیطانیت کے حملوں سے محفوظ و مامون رکھتا ہے ۔ پوشاک کا ایک مقصدزیب و زینت بھی ہے ۔ ایک اچھا خاندان ہم دردی و غم خواری کے حسن و جمال سے آراستہ ہوتا ہے ۔ اہل مغرب اور اس کے پیروکار خاندانی نظام کو توڑ کر ان برکات سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ۔ نبی ٔ کریم ؐ نے فرمایا : ” جب بندہ شادی کر لیتا ہے تو وہ اپنا نصف دین مکمل کر لیتا ہے ، پھر اسے باقی نصف کے بارے میں الله سے ڈرنا چاہیے ۔ ” آپؐ نے یہ بشارت بھی دی : ’’جسے الله جبڑوں کے درمیان کی چیز زبان اور پیروں کے درمیان کی چیز شرم گاہ کے شر سے بچا لے وہ جنت میں جائے گا – ‘‘