نائب امیرشریعت بہار،اڑیسہ وجھارکھنڈ
حج کا سفر ظلمت سے نور کی طرف، اضطراب سے سکون کی طرف،عشق کی سر مستی اور جذبہ قلندرانہ میں ڈوب کر ہوتا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ اپنے گھر سے اللہ کے گھر کی طرف ہوتا ہے۔ ایک عازم کی زندگی بالکل دیوانہ اور مجنوں کی طرح ہوتی ہے اور اس کے لب پر صرف ایک ہی ترانہ ہو تاہے: ’’اے اللہ!میں حاضر ہوں،میں حاضرہو ں،تیراکوئی شریک نہیں‘‘۔اس سفرپہ احساس ہو تا ہے کہ رب کے بلاوے پر،اس کی پکار پر، اسی کی توفیق اور اسی کے حکم سے، سارے تعلقات ترک کرکے، اُس کی گھر کی طرف جا رہے ہیں۔حج ایک ایسی عظیم سعادت ہے جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں، ہر صاحب ایمان کے دل میں یہ امنگ، یہ تمنا ہو تی ہے کہ ایک بار خانہ کعبہ کا دیدار کریں۔
دنیا کے سب سے بڑے اس عالمی اجتماع کو سکون سے عبادات کا موقع فراہم کرنا بلاشبہ حکومت کے شاندار انتظامات کی نشاندہی کرتا ہے، گھر میں چند مہمان آجائیں توانتظامات کرنے میں میزبان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ یہ سعودی حکمرانوں کا حُسنِ انتظام ہے کہ پورے سال دن و رات لاکھوں افراد کے آنے جانے، ٹھہرنے، کھانے پینے اور دیگر انتظامات بطریق احسن کر تے ہیں۔اس کے باوجود اگر سفر حج میں مشکلات ہوں، کوئی پریشانی در پیش آجائیں تو زبان پر حر ف شکایت نہیں لانا چاہیے۔وہ خوش نصیب ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے حج اور عمرہ کے لیے بلایا ہے، انہیں اپنی قسمت پر ناز کرنا چاہیے۔
حج کے سفر میں یقیناً بہت سی پریشانیاں آتی ہیں، لیکن آخرت اور موت کے آخری سفر پر نگاہ رکھنے والا مسافر آبلہ پائی کا شکوہ نہیں کر تا،وہ ہار نہیں مانتا، اس کی نگاہ آخرت کی ریٹرننگ پر ہو تی ہے، وہ اس مشکل بھرے راستے میں اپنا سفر جاری رکھتا ہے، وہ پریشانیوں سے بھاگتا نہیں بلکہ جم کر مقابلہ کرتا ہے، اس کے چہرے پر کبھی مایوسی نہیں ہوتی ہے، اس کی آنکھوں میں منزل پانے کی جستجو ہوتی ہے۔لیکن افسو س کہ ہمارے ہندوستان کے کچھ عازمین تھوڑی سی مشکلات سے گھبرا جاتے ہیں اور سفر کی صعوبتوں سے ہراساں و پریشاں ہو جاتے ہیںاور جب وہ واپس لوٹتے ہیں سفر کی لذتوں کے بجائے شکایتوں کا پٹارا کھول کر بیٹھ جا تے ہیں۔ اگر ہم یہ احساس پیدا کر لیں کہ ’’ پروردگار کے بلاوے پر اس مقدس سرزمین پرجا رہے ہیں‘‘ تو ہر مشکل آسان ہوجائے گی اور پھر ہر قسم کی پریشانی کا خندہ پیشانی سے سامنا کر یں گے۔
دینی بھائیو!یہ سفر عشق ہے،معشوق کو نگاہ میں رکھ کر قدم بڑھتے ہیں،محبوب سے جس چیز کو بھی نسبت ہوجائے، محبت کرنے والے کو وہ چیز جان و دل سے زیادہ عزیز ہوجاتی ہے۔اس کا شہر، اس کی گلی، اس کا گھر، اس کا در، کعبہ کو اللہ تعالیٰ نے ’میرا گھر‘ کہا ہے، اگرچہ وہ اس سے پاک ہے کہ کسی گھر میں رہے۔ جب محبوبِ لامکاں نے ایک مکان کو اپنا گھر بنا لیا ہے، تو کُوئے یار تک پہنچنے کے لیے شوق سے بے تاب دل کی رفاقت سب سے بڑھ کر حصولِ مقصد کی ضامن ہے۔سفر کی صعوبتیں لاحق ہوں تو دل کو سمجھا لے کہ آخرت کا سفر اس سفر کی بہ نسبت کہیں زیادہ طویل اور کٹھن ہے۔
میں نے حرمین شریفین میں اپنی ان گنہگار آنکھوں سے ایئر پورٹ اور دیگر مقدس مقامات پر دیکھا ہے کہ پوری دنیا سے کمزور،ناتواں اور نہ چل پانے والے عازمین آتے ہیں،ان کے لیے وہیل چیئر کا ا نتظام ہوتا ہے۔پیدل چلنے والوں کاجلدی سے امیگریشن ہو جا تا ہے، جب کہ معذور،بیمار وکمزور مسافر اور اُن کے لواحقین بے یارومددگار نظر آتے ہیں۔ ایک ہی وقت میں مسافروں کو لے جانے کے لیے پہلے مسافروں کو جمع اور اکٹھا کرنے میں خاصا وقت ضائع ہوجاتا ہے۔اس سے عازمین کوسخت ذہنی کوفت ہوتی ہے۔سفر حج ایثار وقربانی کا بھی سفر ہے اپنے ساتھیوں کی خدمت کر نا،ان کوترجیح دینا آپ کا فریضہ ہونا چاہیے۔ اللہ کے دربار میں کوئی چھوٹا وبڑا،گورا اور کالا، امیر وغریب، بادشاہ و فقیر، عربستانی اور ہندوستانی نہیں ہے؛وہاں سب کا لباس ایک اور سب کا مقصد رضا کا حصول ہے۔
ہوٹل میں جہاں ٹھہر تے ہیں وہاں بھی من کے مطابق راحت نہیں ملتی۔بات اگر اشیاء خورد ونوش کی کریں توہوٹل مالکان مجبور ی کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور من مرضی کرتے نظر آتے ہیں۔ مکہ اور مدینے میں سادہ لوح عوام کو زیارات اور ارکان ادا کرانے کے نام پر بھی کچھ لوگ لوٹتے ہیں۔
حال کے برسوں میں سرکار کی پالیسی اور انتظامی اصلاحات کے نام پرکرائے میں جو بے تحاشہ اضافہ ہواہے،اس سے حج کا سفر کانٹوں بھری راہ سے کم نہیں ہے۔حکومت کو چاہیے تھا کہ وہ عازمین کے لیے آسانیاں پیدا کرے ؛لیکن ہندوستان کی موجودہ سرکار نے اصلاحات کے نام پر مشکلات کھڑی کر دی ہیں۔ غور کرنے والی بات یہ ہے کہ پہلے لوگ حج کمیٹی کے توسط سے اس لیے حج کرناچاہتے تھے، کیونکہ پرائیویٹ ٹور آپریٹروں کے مقابلے وہ کافی سستا پڑتا تھا، مگر حکومت کی نئی پالیسی اور نئے انتظامات نے سب برابر کر دیا ہے۔
حج کا دیگر عبادات سے موازنہ کریں تو معلوم ہو تا ہے کہ حج کا معاملہ دوسری عبادتوں سے مختلف ہے، یہ مالی اور بدنی دونوں طرح کی عبادت ہے۔حج محض چند ارکان کی ادائیگی تک محدود نہیں، بلکہ اس کا مقصود ہے کہ اللہ کے دربار میں آنے والے کی ساری زندگی بندگی میں بسر ہو۔ اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا، آرام و راحت، حضرو سفر، غرض سب کچھ اللہ تعالیٰ کی ترجیحات کے عین مطابق ہو۔دوسرے الفاظ میںسفر حج انسا ن کو عملی طور پرآخرت کے سفر کی ٹریننگ دیتا ہے۔ مناسک حج پر غور کر یں تو اندازہ ہو گا کہ گھر بار اور کاروبار کو چھوڑنا، روایتی لباس ترک کرکے احرام کا کفن پہننا، سعی، وقوف عرفات، مزدلفہ کی شب باشی، منیٰ کا قیام، قربانی، رمی جمار اور حلق وغیرہ کرانا؛ ایک ایک عمل سے بندگی کی تصویر ابھرتی ہے۔
حج یا عمرہ کرنے والا ساری عمر کی جمع پونجی لگا کر اس اہم سفر پر روانہ ہوتا ہے ، اس کی خواہش اور تمنا ہوتی ہے کہ اس کے سارے گناہ دھل جائیں، اور وہ جب واپس لوٹے تو حدیث کے مطابق ایک معصوم کی طرح پاک وصاف بن کر لوٹے۔یہ اسی وقت ممکن ہو گا جب پورے آداب کی رعایت کر تے ہوئے اس سفر کو بر تا جائے،مناسک حج ادا کیے جائیں،یہی در اصل حج کا ماحصل ہے۔
مولانا سید سلیمان ندویؒ، اپنی کتاب ’’سیرت النبی ؐ‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’خانہ کعبہ اس دنیا میں عرش الٰہی کا سایہ اور اس کی رحمتوں اور برکتوں کا نقطۂ قدم ہے۔ یہ وہ منبع ہے، جہاں سے حق پرستی کا چشمہ ابلا، اور اس نے تمام دنیا کو سیراب کیا۔ یہ روحانی علم و معرفت کا وہ مطلع ہے، جس کی کرنوں نے زمین کے ذرے ذرے کو درخشاں کیا۔ یہ وہ جغرافیائی شیرازہ ہے، جس میں ملت کے وہ تمام افراد بندھے ہوئے ہیں، جو مختلف ملکوں اور اقلیتوں میں بستے ہیں، مختلف زبانیں بولتے ہیں، مختلف لباس پہنتے ہیں، مختلف تمدنوں میں زندگی بسر کرتے ہیں، مگر وہ سب کے سب، باوجود ان فطری اختلافات اور طبعی امتیازات کے، ایک ہی خانہ کعبہ کے گرد چکر لگاتے ہیں، اور ایک ہی قبلے کو اپنا مرکز سمجھتے ہیں اور ایک ہی مقام کو اُم القریٰ مان کر وطنیت، قومیت، تمدن ومعاشرت، رنگ و روپ اور دوسرے تمام امتیازات کو مٹا کر، ایک ہی وطن، ایک ہی قومیت (آلِ ابراہیمؑ) ایک ہی تمدن و معاشرت (ملت ابراہیمی) اور ایک ہی زبان (عربی) میں متحد ہو جاتے ہیں‘‘۔
اخیر میں یہ کہوں گا کہ جب آپ حج کا سفر مکمل کر کے حاجی بن کر لوٹیں تو آپ کی زندگی بدل چکی ہو، کردار وگفتار،رہن سہن اور نشست وبرخاست سب میں نمایاں فرق نظر آنے لگے،بقیہ زندگی صرف اور صرف رب کی رضا پر گزرے۔ یاد رکھیے! آپ کو یہاں سے زیادہ وہاں بڑے اور مضبوط شیطان ملیں گے،مشکلات کے نام پر بہکائیں گے، زبان وعمل سے غلط راہ پر لے جانے اور بھٹکانے کی کوشش کریں گے؛ لیکن آپ کو اسے قریب نہیں آنے دینا ہے۔آپ اپنی زبان،کان، ناک،ہاتھ اور پیر کو قابو میں رکھیں؛نیت خالص کریں،رب کی معافی اور رضا پر یقین ہو؛تبھی آپ حج کی روح کو پاسکیں گے۔