ریسرچ اسکالر ام القری یونیورسٹی، مکہ مکرمہ
حجاج کرام کا قافلہ حرمین شریفین کے لئے رواں دواں ہے، حج ہاؤس کی عمارتیں لبیک کی صداؤں سے معمور ہیں،بیت اللہ شریف اور مدینہ منورہ کی زیارت کے لئے حجاج کی آنکھیں بے تاب اور ان کے دل بے قرار ہیں،اللہ کرے یہ قافلے بخیر وخوبی منزل تک پہونچیں اور اللہ تعالی ان کے سفر کو شرف قبولیت بخشے،اللہ رب العزت نے اس حقیر کو زندگی کا ایک طویل عرصہ ام القری یونیورسٹی مکہ مکرمہ میں گذارنے کا موقع دیا،فلہ الحمد والمنہ،اس عرصہ میں ایام حج کے دوران حجاج کرام سے ملاقات اور ان کے شرعی مسائل سے بھی واقفیت کا موقع ملتا رہا،اسی پس منظر میں ضرورت محسوس ہوئی کہ حج وعمرہ سے متعلق چند مفید مشورے،نیزکچھ قابل توجہ امور کی نشان دہی کردی جائے،جن کی عام حجاج و معتمرین کو بہت زیادہ ضرورت محسوس ہوتی ہو۔
طواف:بیت اللہ شریف کا طواف حج وعمرہ کے اعمال کا جز تو ہے ہی،اس کے علاوہ خود عظیم الشان عبادت بھی ہے،طواف کی ابتداء وانتہاء حجر اسود سے ہوتی ہے،اور یہ خانہ کعبہ کے گیٹ کے بائیں جانب میں ہے،حرم شریف میں اس کی شناخت کے لئے بہت سی علامتیں بھی بنا دی گئی ہیں،حجر اسود کے بالمقابل حرم شریف کی عمارت میں موجود ہری لائٹ تو اس کی علامت ہے ہی،نیز کعبۃ اللہ کے جس کونے میں حجر اسودہے، وہاں پولیس بھی کھڑی رہتی ہے،اور اب خانہ کعبہ کے غلاف میں حجر اسود کے پاس کعبۃ اللہ کی چھت سے حجر اسود تک اسماء حسنی کی نقاشی کی جاتی ہے،ان سے بھی حجر اسود کی جگہ کی شناخت میں مدد لی جاسکتی ہے۔
طواف کا مطلب بیت اللہ کے اردگرد سات چکر لگانا ہے،جس کی ابتداء و انتہاء حجر اسود کے بوسہ لینے،اور بھیڑ کے وقت استلام کرنے سے ہوتی ہے،دور سے حجر اسود کے استلام کی شکل یہ ہے کہ آدمی حجر اسود کی طرف رخ کر کے اپنے دونوں ہاتھوں کو کان تک اللہ اکبر کہتے اٹھائے،اور پھر ہاتھ چھوڑدے۔
طواف کرتے وقت بعض حضرات خانہ کعبہ کی طرف رخ کرنے کو خلاف ادب سمجھتے ہیں،بلکہ ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ان کا چہرہ حجر اسود اوررکن یمانی کی جگہوں کے علاوہ کہیں بھی خانہ کعبہ پر نہ پڑے،اس عمل کی کوئی حقیقت نہیں،قرآن وحدیث میں ایسا کوئی حکم نہیں ملتا،اس لئے نہ ایسا سمجھنا چاہیئے اور نہ ہی اس پر عمل کرنا چاہئے۔
آج کل طواف میں جس قدر بھیڑ ہوتی ہے کہ اس میں حجر اسود کو بوسہ دینا بہت مشکل ہوجاتا ہے،لوگوں کی بھیڑ کودھکا دے کر،انہیں تکلیف پہونچاکر وہاں تک پہونچنا کیسے باعث ثواب ہوسکتا ہے؟،اس لئے اس میں احتیاط ضروری ہیں،جو لوگ حجر اسود کے قریب سے طواف کر رہے ہوں ظاہر ہے ان کو اس کا زیادہ حق ہے،وہاں موجود پولیس اس میں زیادہ عمل دخل نہیں دیتی ہے،اس لئے حجاج کرام کو خود ہی ایک دوسرے کا پورا خیال رکھنا چاہئے۔
طواف مکمل ہونے کے بعد مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز ادا کی جاتی ہے،بھیڑ کے اوقات میں انہیں حرم شریف میں کہیں بھیادا کرسکتے ہیں۔
سعی:طواف کی طرح سعی بھی حج و عمرہ کے اعمال کا جز ہے،مگر طواف کی طرح صرف تنہا سعی نہیں کی جاتی،حج اور عمرہ کے دوران ہی سعی کی جاتی ہے،سعی میں میلین اخضرین (اب وہاں پر چھت کی جانب خوبصورت انداز میں ہری روشنی کا انتظام کردیا گیا ہے)کے درمیان صرف مردوں کو تیز چلنے کا حکم ہے، عورتوں کے لئے نہیں،صفا سے مروہ تک جانا ایک چکر شمار ہوتا ہے اسی طرح مروہ سے صفا تک آنا دوسرا چکر،اس حساب سے ساتوا ں اور آخری چکر مروہ پر ختم ہوتا ہے۔
سعی مکمل ہونے کے بعدصفا یا مروہ پر باضابطہ کوئی نماز ثابت نہیں ہے،بلکہ عمرہ کرنے والوں کے لئے سعی کی تکمیل کے بعد بال کٹوانے کا حکم ہے،مردوں کے لئے بال کٹوانے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ آدمی پورے سر کا بال کٹوائے، بال ترشوانا زیادہ بہتر ہے، مگرچھوٹا کرنے کا اختیار ہے،جو بھی ہو پورے سر کا ہو۔
مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران بیت اللہ کا طواف اور حرم شریف میں نماز کی ادائیگی یہ دونوں کام حجاج و معتمرین کے لئے نہایت اہم ہیں،ان ہی دونوں کاموں کا خصوصی طور پر اہتمام کرنا چاہئے،آج کل بہت سے لوگ روزانہ عمرہ،بلکہ بعض تو روزانہ دو دو بار عمرہ کرنے کا معمول بنا لیتے ہیں،جو یقینا شریعت کے روح کے خلاف ہے،ا س قدر کثرت سے عمرہ کی ادائیگی سلف صالحین کا طریقہ نہیں رہا ہے،عمرہ ضرور کیا جائے مگر اس میں بہت زیادہ کثرت نہ ہو۔
آٹھویں ذی الحجہ کی شب سے حجاج کرام کو مکہ مکرمہ میں ان کی رہائش گاہ سے منی کے لئے لے جانے کا عمل شروع ہوجاتا ہے،اس موقع پر حجاج کرام بعض دفعہ حج کے آداب سے غافل ہوجاتے ہیں اور بسوں کی آمد ورفت میں تاخیر یا بسوں میں سوار ہوتے وقت بھیڑ کی وجہ سے بعض نا مناسب طرز عمل کا اظہار کرنے لگتے ہیں،جو حج کے آداب کے خلاف ہیں،ان سے احتراز کرنا چاہئے،صبر اور شکر کا دامن کبھی بھی ہاتھ سے چھوٹنا نہیں چاہئے،منی جاتے وقت بہت ضروی سامان ہی ساتھ میں ہو،مزدلفہ کی رات کے لئے کھانے کی کچھ خشک چیزیں بھی رکھ لیں تاکہ بوقت ضرورت کام آئے۔
منی میں قیام کے دوران حجاج کرام پہلے سے ہی اپنے آپ کو یہاں کی رہائش،کھانے پینے اور حمامات میں قلت جیسی پریشانیوں کو برداشت کرنے کے لئے ذہنی طور پر تیار کرلینا چاہئے،تاکہ تھوڑی بہت جو بھی پریشانیاں سامنے آئے، انہیں بہ آسانی برداشت کر سکیں۔
۹(نو) ذی الحجہ کی صبح حجاج کرام میدان عرفات کی طرف کوچ کرتے ہیں،عرفات جاتے وقت حجاج اپنے ساتھ صرف نہایت ضروری سامان ہی لے جائیں،بقیہ سامان کو منی کے خیمہ میں ہی چھوڑدیں،مزدلفہ کی رات کے لئے کچھ توشہ ضرور رکھ لیں،حج کا اہم ترین رکن عرفات کا قیام ہے،یہاں آپ اپنے کو دوسرے تمام مشاغل بالکل سے الگ کرلیں،یہی وہ دن ہے جس کے لئے آپ نے حج کا سفر طئے کیا ہے،اس لئے کوشش ہوکہ ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہونے پائے،انتظامی امور میں کمی کوتاہی پر چراغ پا ہونے کے بجائے،آج کے دن کو اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کا ذریعہ بنائیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آج کے دن اپنے حج کے دوران جبل رحمت کے قریب جاکر اسے اپنے دائیں جانب رکھ کر قبلہ رخ ہو کر دعاء فرمائی تھی،اس لئے جو حجا ج کرام وہاں جانا چاہیں اور وہ بہ آسانی وہاں تک جا سکتے ہوں اور اپنے خیمہ تک دوبارہ واپس آسکتے ہوں وہ وہاں جاکر دعاء کریں، ضعیف اور کمزور لوگوں کے لئے بہتر ہے کہ وہ اپنے خیموں میں ہی رہ کر تلاوت،تسبیح، اور کھڑے ہوکر دعاؤں کا اہتمام کریں۔
۹ ذی الحجہ کے دن غروب آفتاب کے بعد مزدلفہ جانا ہوتا ہے اور وہاں جاکر مغرب اور عشاء کی نماز ادا کرنی ہوتی ہے، پھر اس کے بعد دعاء اور اذکار اور گریہ و زاری میں اپنا وقت گزارنا ہوتا ہے، مزدلفہ کی شب بھی خاص طور پر اہمیت کی حامل ہے، قرآن کریم میں حجاج کے لئے آج کی رات میں خاص طور پر ذکر الہی کی فضیلت آئی ہے، حجاج کرام سفر کی تھکاوٹ،پریشانیوں کی وجہ سے مزدلفہ پہنچ کر تھک ہار کر سو جاتے ہیں اور بہت سے حجاج اس مبارک ترین رات اور جگہ میں عبادت سے محروم رہ جاتے ہیں، اس لئے اس کی تیاری پہلے سے کر لیں کہ کتنی دیر آرام کرنا ہے اور کب عبادت کرنی ہے تاکہ آرام کے ساتھ ساتھ اس رات کی برکتوں سے بھی آپ مکمل طور پرمستفید ہو سکیں۔
مزدلفہ کی شب کے لئے حجاج کرام کھانے کا کچھ خشک سامان تھوڑی مقدار میں ضرور اپنے پاس رکھ لیں۔ دس ذی الحجہ کو فجر کی نماز کے بعد اچھی طرح دن نکل جانے کے بعد مزدلفہ سے منی کے لئے روانہ ہو ں، بعض دفعہ لوگ بلاضرورت وقت سے پہلے ہی مزدلفہ سے منی کے لئے روانہ ہو جاتے ہیں جو صحیح نہیں ہے،آج کے دن منی پہونچ کر جمرۂ عقبہ کی رمی کرنی ہے، حکومت سعودی عرب نے حجاج کرام کی سہولت کے لئے انتہائی وسیع پیمانہ پر جمرات کی توسیع کا بہت ہی قابل تحسین کارنامہ انجام دیا ہے، اس لئے اب جمرات میں کنکڑی مارنے کے لئے کسی خوف وہراس میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہِے، آپ بہ آسانی کنکڑی مار سکتے ہیں، آج کے دن طلوع آفتاب کے بعد سے رمی کا مسنون وقت شروع ہو جاتا ہے اور غروب آفتاب تک اس کا وقت رہتا ہے، رمی کے لئے جاتے وقت صرف کنکڑیوں کے علاوہ کچھ نہ ہو تو بہتر ہے، اگر مزدلفہ سے واپسی پر آپ کا سامان آپ کے ساتھ میں ہی ہے تو کوشش کریں کہ سامان کم سے کم رہے جسے آپ بہ آسانی اپنے کندھے یا پشت پر رکھ کر چل پھر سکتے ہوں، بعض حضرات خورد ونوش کی اشیاء سے اپنا بیگ اتنا بھر لیتے ہیں کہ ان کو لے کر چلنا پھرنا ان کے لئے مشکل ہو جاتا ہے۔
رمی جمرات کے بعد حج کی قربانی کا مرحلہ آتا ہے جسے آج کل زیادہ تر بنک التنمیہ کے ذریعہ حکومت انجام دلواتی ہے،اور اس کی وجہ سے قربانی اور حلق کے درمیان جو ترتیب ہے ان کا خیال رکھنا حاجی کے اختیار سے باہر ہے،اس لئے عصر حاضر کے بہت سے علماء احناف نے قربانی اور حلق کے درمیان اس ضرورت شدیدہ کے پیش نظرعدم ترتیب کی اجازت بھی دی ہے،
حلق کرانے کے لئے منی میں نائی کی بہت سی دکانیں موجود ہیں، اگر حجاج خود بھی ایک دوسرے کا بال کاٹنا چاہیں تو کاٹ سکتے ہیں، مگر صفائی ستھرائی کا خیال رکھتے ہوئے کہ بال کاٹ کر اسے کوڑا دان میں ہی پھینکیں ادھر ادھر نہ چھوڑیں۔
اب طواف زیارت کا عمل باقی رہ جاتا ہے، اسے بارہ ذی الحجہ کی شام تک بلاکراہت احناف کے یہاں ادا کیا جاسکتا ہے،اس لئے جو وقت آپ کے لئے مناسب ہو،دس، گیارہ یا بارہ کی تاریخوں میں اس وقت میں آپ طواف زیارت کریں، دس تاریخ میں چونکہ بہت زیادہ بھیڑ رہتی ہے،اس لئے گیارہ تاریخ کادن کمزور اور ضعیف لوگوں کے لئے زیادہ مناسب ہے، گیارہ اور بارہ تاریخ میں صبح کا وقت طواف زیارت کے لئے زیادہ موزوں ہو سکتا ہے۔ رمی جمرات کے سلسلہ میں ابھی بھی حجاج کرام بہت زیادہ فکر مند رہتے ہیں جب کہ جمرات کے پاس اب حالات بالکل نارمل ہوتے ہیں، لوگوں کا جم غفیر آتا ہے اور رمی کرکے بہ آسانی واپس چلا جاتاہے، رمی جمرات کے وقت میں بھی شریعت نے وسعت رکھی ہے، پہلے دن کا وقت عام لوگوں کے لئے سورج کے طلوع سے غروب آفتاب تک رہتا ہے،اسی طرح دوسرے اور تیسرے دن کی رمی کے وقت میں بھی اچھی خاصی وسعت ہے، ان دونوں دنوں کی رمی کا وقت زوال کے بعد سے عام لوگوں کے لئے مغرب تک اور معذور افراد کے لئے رات دیر گئے صبح صادق سے پہلے پہلے تک رہتا ہے۔
ایک غلط فہمی جو بہت سے حجاج کے یہاں پائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جو حضرات بارہ ذی الحجہ کو تعجیل پر عمل کرتے ہوئے منی چھوڑ کر مکہ جانا چاہتے ہیں، ان کو بارہ تاریخ کو مغرب سے پہلے پہلے بہرحال منی چھوڑ دینا ضروری ہے، اس غلط فہمی کی وجہ سے لوگ زوال کے بعد فورا منی سے باہر نکل جانا چاہتے ہیں، اور اس وقت کی بھیڑ کا شکار ہوجاتے ہیں، جب کہ فقہ حنفی کے لحاظ سے بوقت ضرورت صبح صادق سے پہلے پہلے تک منی چھوڑنے کی گنجائش ہے، اس لئے جو حضرات تعجیل پر عمل کرنا چاہیں وہ بھی جلدی نہ کریں بلکہ آرام سے جب بھیڑ کم ہوجائے، تب منی سے نکلیں، بارہ ذی الحجہ کو اکثر لوگ زوال کے بعد جلد رمی جمرات کرکے منی سے باہر نکلتے ہیں جس کی وجہ سے بھیڑبے تحاشا بڑھ جاتی ہے،اس لئے زوال کے بعد فورا نکلنے کی کوشش نہ کریں،بہتر تویہ ہے کہ تاخیر کرکے تیرہ تاریخ کو منی سے نکلیں،اگر بارہ کو ہی نکلنا ہوتو زوال کے بعد فورا نہ نکلیں یہ بھیڑ کا وقت ہوتا ہے،عصر بعد تک نکلیں تاکہ بھیڑ سے بچ سکیں،اور اگر آپ کے ساتھ معذور افراد ہوں تو آپ تاخیر سے بھی نکل سکتے ہیں،اس میں کوئی کراہت بھی نہیں ہوگی۔ واللہ اعلم
حج کے بعد جن حضرات کو مکہ مکرمہ یا مدینہ منورہ میں قیام نصیب ہو انہیں اپنا وقت حرمین شریفین سے استفادہ میں گذارنا چاہئے،یہ خیال رکھیں کہ یہاں کا قیام آپ کے لئے ایک توفیق خداوندی ہے اس لئے اس کی قدر کریں،حرمین میں نمازوں کا اہتمام ہو،مسنون روزوں کی بھی عادت ڈالیں،خاص طور پر پیر اور جمعرات اور ایام بیض کے روزے رکھنا رسول اللہ صلي اللہ علیہ وسلم کی ایک اہم سنت ہے،جس پر ہمارے یہاں عوام تو دور علماء بھی خال خال عمل کرتے ہیں، جب کہ عالم عرب خصوصا مکہ اور مدینہ میں لوگ بکثرت اس کا اہتما م کرتے ہیں ،اس لئے کوشش کریں کہ وہاں سے آپ اس کی عادت ڈال کر آئیں۔
مدینہ منورہ میں بہت سے لوگ روضہ اقدس پر سلام کے لئے حاضری کے وقت ویڈیو گرافی اور تصویر کشی میں لگے رہتے ہیں،یہ انتہائی بد خلقی اور بے توفیقی کی بات ہے،جب آپ روضہ اقدس کی طرف جائیں تو یہ احساس کریں کہ میں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضری دینے جارہاہوں،اس لئے آپ کی ہر ادا سے محبت اور تواضع جھلکنی چاہئے،کوئی بھی ایسی حرکت آپ سے سرزد نہ ہو جو آداب بارگاہ نبوی کے خلاف ہو۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی آپ کے حج وعمرہ کوقبول فرمائے،اپنی دعاؤں میں اس حقیر کو بھی یاد رکھیں،وما توفیقی الا باللہ۔