قرآن کائنات کو ایک خلق باطل کے بجاۓ ایک منظم خدائی منصوبہ بتانے والی عظیم کتاب ہے۔ یہی کتاب تمدن کی راہْبَر بھی ہے اور اَعْلیٰ و ارفع تہذیب کی معمار بھی۔ یہ کتاب ‘عبد اللہ’ کی ہدایت کے لیے اللہ کی طرف سے نازل کی گئی کتاب ہے جس کے بغیر انسان بھی ادھورا ہے اور کائنات بھی نا مکمل ہے۔ تمام سائنسی ایجادات و اکتشافات کے علوم کی اصل بھی یہی کتاب ہے جس کی رہنمائی میں انسان کی تمدنی ترقی ستاروں پر کمندیں ڈال رہی ہے تو دوسری جانب یہی کتاب ہے جو ایک ایسی تہذیب کو جنم دیتی ہے جو انسان کو معراج آدمیت سے نوازتی ہے۔ تنگ روی اور غلام ذہنی سے نکال کر دل و نظر کو آزاد کرنے والی یہی وہ کتاب ہے جو علم و عقل کی ابتدا بھی ہے اور انتہا بھی۔ مگر افسوس کہ مسلمان اسی محور علم و دانش کو "مہجور” کر کے دنیا بھر میں خود ‘مجہول’ ہو رہے ہیں۔
کیونکہ یہ جانتے ہوئے ہم اس سے مداہنت برت رہے ہیں کہ اچھے انجام کی خوشخبری اور برے انجام کا ڈراوا دینے والی یہ کتاب ‘آسمانی مدرسے’ کا بہترین اور فطری نصاب ہے جو خدا کی زمین پر امن، عدل اور نیکی کے قیام کے لئے افراد تیار کرتی ہے؟
ہمیں خوب علم ہے کہ یہ کتاب روے زمین پر اللہ کے آخری رسول کی دعوت حق اور انکے ذریعے اک خیر امّت کی تشکیل کا ایک زندۂ جاوید ریکارڈ ہے۔ ہم خوب سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب کائنات کی حقیقت اور اس کے آغاز و انجام اور اس کے نظم و آئین پر ایک وسیع اور مدلل کلام ہے۔ ہمیں ادراک ہے کہ یہ کتاب انسان کے عقائد‘ اخلاق‘ معاشرت‘تہذیب‘ تمدن‘ معیشت ‘ سیاست‘ عدالت‘ اور قانون سے متعلق اک مکمل ضابطۂ حیات ہے۔
ہم خوب سمجھتے ہیں کہ یہ کتاب انسان کی تمام روحانی بیماریوں کا علاج ہے۔ مگر اس ذاتی تجربے سے ابھی تک محروم ہیں کہ یہ کتاب دل میں موجود حسد، گھمنڈ ، دکھاوا، لالچ، خوف، نا امیدی، گھبراہٹ، جھنجھلاہٹ اور ہر قسم کی کمزوریوں کو دور کر کے انسان کو بہترین اور مضبوط ترین کردار کا مالک بناتی ہے۔
نظریے کی مضبوطی کے لئے تجربہ ضروری تھا، مگر ہم میں سے کتنے خوش نصیبوں کو یہ تجربہ ہے کہ یہ کتاب نگاہوں کو بلند کرتی ہے، دلوں کو سوز دیتی ہے، سخن کو دلنواز کرتی ہے، فکر کو پرواز دیتی ہے, یقین کو محکم کرتی ہے، ارادوں کو پختگی بخشتی ہے اور رنج و غم اور مسرت و شادمانی کے تمام اچھے برے حالات میں انسان کو صابر و شاکر اور متعدل و با وقار رہنا سکھاتی ہے۔
ہم میں سے کتنے لوگ اس شعور کے ساتھ اس کتاب کو پڑھتے ہیں کہ یہ اللہ کی مضبوط رسی ہے؟ اس یقین کے ساتھ اسے تھامتے ہیں کہ اس رسی کا ایک سرا ہمارے رب کے ہاتھ میں ہے؟ اس گھبراہٹ اور اضطراب کی کیفیت میں اس سے چمٹنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مبادا یہ رسی چھوٹ جاۓ اور ہم ذلالت و گمرہی کے دلدل میں گر کر تباہ نہ ہو جائیں ؟
ہم میں سے کتنے لوگ یہ سوچتے ہیں کہ ایک سچے طالب حق کے لیے یہ ایک ایسی کھلی کتاب ہے جس کے حرف و لفظ اور معانی و مفاہیم شفاف موتیوں کی طرح گلے کا ہار بن کر اسے روشن اور تابناک راہوں کا مسافر بنا دیتے ہیں ؟ یہ شعور کس کس کو حاصل ہے کہ یہ وہ آب حیات ہے جس کے بغیر ہر روح پیاسی اور مضطرب ہے، جس کے بغیر دل کی زمین بنجر اور قحط زدہ ہے اور جس سے محروم ہر کاسۂ دماغ ایک ایسے تنگ و تاریک کمرے کی مانند ہے جسے اس حقیقی روشنی نے چھوا ہی نہیں ہے جس کی اسے روز اول سے ضرورت تھی؟
ہم میں سے کتنے لوگ یہ ادراک رکھتے ہیں کہ یہ کتاب علم الکلام کا اکھاڑا ہرگز نہیں ہے، نہ گنجلک فلسفوں سے عبارت ہے، نہ منطقی مباحث کا انسائیکلو پیڈیا ہے، نہ روحانیات کی محیر العقول داستانوں کا چربہ ہے، نہ فقہی موشگافیوں کا پٹارہ ہے اور نہ بنجر اور لایعنی جملوں اور عبارتوں کا پلندہ ہے جسے بے سمجھے بوجھے بس یونہی کبھی کبھی پڑھ لیا جاۓ یا پھر گھر کی طاقوں پر گرد آلود ہونے کے لیے چھوڑ دیا جاۓ ؟
عقیدے کی یہ پختگی کتنے لوگوں کو میسّر ہے کہ یہ وہ کتاب ہدایت ہے جس کے بغیر نہ ماکان مایکون کی میٹرکس (Matrix) کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی انسانی زندگی کے فلسفے کی تفہیم ممکن ہے۔ بلکہ یہ کتاب تفہیمِ ذات کی ایک ایسی ‘ڈائرکٹری’ ہے جس میں اس کے پڑھنے والے کا مکمل سراغ عدم تا وجود مندرج ہے۔ یہ آگہی کتنے خوش بختوں کو حاصل ہے کہ اس کتاب سے براہ راست رابطہ کیے بغیر خالق و مخلوق کے درمیان تعلق اور اسکے تقاضوں کا وہ شعور ممکن ہی نہیں جو صحابۂ کرام کے اندر پیدا ہوا تھا۔
قرآن کے کتنے عاشق ہیں جن کا تجربہ انہیں بتاتا ہو کہ بندگیٔ رب کا صاف و شفاف راستہ دکھانے والی یہ کتاب انسان کو ایک سجدۂ برحق کی لطافتوں سے آشنا کر کے باقی تمام باطل ‘سجدوں’ سے آزاد کر دیتی ہے۔ جن کا وجدان گواہی دیتا ہو کہ یہ کتاب کفر و نفاق سے قرب رکھنے والے ہر ایک سیاہ رویے سے اپنے پڑھنے والے کو محفوظ کرتی ہے؟ جو واقعی یہ سمجھتے ہوں کہ یہ کتاب خدا کے ایسے آئیڈیل بندوں سے روشناس کراتی ہے جنکے زہد و تقویٰ اور بلندیٔ کردار کو پڑھ لینے کے بعد نیکی، بزرگی، ولی اللہی اور تقویٰ کا پندار اور گھمنڈ سر اٹھانے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ جن کا تجربہ شاہد ہو کہ انسان کے اندر بیٹھے ہوئے خود پسندی اور انا پرستی کے بتوں کو مسمار کردینے والی یہ کتاب اپنے پڑھنے والے کو فسق و فجور اور نفاق کی غلاظتوں سے نہ صرف پاک کرتی ہے بلکہ انسان کو نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کا پیکر بنانے والی اس کتاب کو جس کسی نے حِرْزِ جاں بنالیا اسے قلب کی ناقابل بیان آسودگی میسر آتی ہے؟
مگر افسوس کہ قرآن سے ہمارا تعلق بس ایک لفظی دعوے تک محدود ہے۔ بڑے بڑے اہل علم ‘اگر مگر’ کر کے خود بھی اس سے بے تعلق ہیں اور لوگوں کو بھی دور کرتے ہیں۔ عام مسلمانوں کے لیے اس کتاب کو یہ کہکر ایک ‘شجر ممنوعہ’ بنا دیا گیا ہے کہ انکے لئے اس کتاب کو سمجھنا ناممکن ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ دلوں کی قحط زدہ زمین پر پھوار بن کر برسنے والی اس دل آویز وحئ ربانی کے بارے میں لوگ ایسا کہنے کی جسارت کیسے کر پاتے ہیں۔ بیشک ایک فرد واحد کیا پوری دنیا کے علمائے دین ایک ساتھ ملکر بھی اس کلام کی کنہ کو نہیں پہنچ سکتے مگر اس کا معجزہ یہ بھی ہے کہ ہدایت و نصیحت کے لیے اس کتاب کو سمجھ لینا بالکل آسان بنا دیا گیا ہے۔ اسی لیے آج مغرب میں اسی کی ترجمے لوگوں کے دل بدل رہے ہیں۔ شرق و غرب میں تیزی سے پھیلتا ہوا اسلام صرف اسی ایک کتاب کی دل پذیری اور اثر انگیزی کا کمال ہے۔
یہ کتاب غضب کی مقناطیسی کشش رکھتی ہے۔ اس کلام الہی کے سحر میں گرفتار ہو کر راہ ہدایت پاجانے والے مغرب کے ان نو مسلوں کو پڑھ کے دیکھیں، آپ کو خود معلوم ہو جاۓ گا کہ اس کی بے توقیری کر کے ہم مسلمان خود اپنے آپ کو کیسے تباہ کر رہے ہیں۔ قرآن کے فہم سے محروم رہ کر ہماری تعلیم بھی ناقص ہے، ہماری تربیت بھی ادھوری ہے اور ہمارا عقیدہ و ایمان بھی بے روح ہے۔
ذہن ودل میں انقلاب برپا کرنے والی یہ کتاب کافر کو مسلم اور مسلم کو مومن بناتی ہے۔ آج ہمارے بگڑتے ہوئے انفرادی مسائل سے لیکر ملی مسائل تک کا علاج اور ان کو ٹھیک کرنے کی سب تدبیریں اسی قرآن کے ذریعے ممکن ہیں۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی اصلاح صرف اسی کتاب سے ممکن ہے۔ اگر ہم سیاسی، معاشی اور سماجی مغلوبیت سے واقعی نکلنا چاہتے ہیں اور سو کروڑ غیر مسلم اقوام کے بیچ "امّت شہادت” کے طور پر دین محمّد کی گواہی کا فرض ادا کرنے کے لیے سنجیدہ ہیں تو اس ایک کتاب کی طرف رجوع کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اسکے لئے ایک منظم اور متحد تحریک کی ضرورت ہے، تاکہ لوگ قرآن کو سمجھ کے پڑھنا ضروری سمجھیں، ہمارے نظام تعلیم و تربیت کو صحیح سمت مل سکے، قرآن کی دعوت کا مقصد پورا ہو، مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی حفاظت ہو اور انکے کردار آئیڈیل بن سکیں، غیر مسلموں کو ‘اوریجنل اسلام’ کی طرف راغب کیا جا سکے، دنیا سے ظلمتوں کا خاتمہ ہو، محمّد صل اللہ علیہ وسلم کا صحیح تعارف ملک کے گوشے گوشے میں پہنچ سکے اور اللہ کی عدالت میں آپ صل اللہ علیہ وسلم کی اس شکایت سے ہم بچ سکیں کہ اے میرے رب ! میری قوم نے اس قرآن کو مہجور کر دیا تھا!!!
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں