اپنے محبوب کی یادوں کو اپنی پر نم آنکھوں میں روشن رکھنے اور اس حوالے سے مستقبل کی گزرگاہوں تک پہنچانے کے لئے سنگلاخ چٹانوں کو روح پرور تاج محل میں تبدیل کرنا ہی اہمیت نہیں رکھتا ہے بلکہ زبان و ادب کی دنیا میں وہ شہہ پارے تخلیق کرنا بھی محبت کا ایک اظہار ہے جو محبوب کے نام کا ضامن بن جائے ۔ اردو زبان و ادب میں بھی اس کی مثالیں بہت ہیں مگر اس وقت میرا موضوع پروفیسر صغیر افراہیم کی ادارت میں نکلنے والا سہ ماہی ادبی مجلہ ” سیما” ہے جسے انھوں نے حالیہ برسوں میں اپنی مرحومہ بیوی ڈاکٹر سیما صغیر افراہیم کی یاد میں جاری کیا ہے ۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر سیما علی گڑھ یونیورسٹی کی قابل قدر استاد ہی نہیں بلکہ اردو کی معروف ادیبہ بھی تھیں جن کا چند سال پیشتر انتقال ہو گیا ۔
سہ ماہی” سیما ” اپنے مشمولات اور حسن ترتیب کے سبب نہ صرف یہ کہ ادبی حلقوں میں تیزی سے مقبول ہوا بلکہ اردو کے معتبر اہل قلم کا اعتبار بھی حاصل کیا جس کا ایک ثبوت یہ تازہ شمارہ بھی ہے جس میں دوسری اہم تخلیقات کے ساتھ ساتھ بیسویں صدی کی معروف ادبی شخصیت حضرت آوارہ مارہروی کا ایک گوشہ بھی ہے ۔
بیسویں صدی کا ادبی منظر نامہ جن معتبر اور عظیم شخصیات سے عبارت ہے ان میں حضرت آوارہ کا نام اور کام نہ صرف روشن اور تابناک ہے بلکہ ان کے لگائے ہوئے اشجار آج بھی ادبی ماحولیات کو ترو تازہ رکھے ہوئے ہیں ۔ یہاں میرا اشارہ سید محمد اشرف صاحب کی طرف ہے جو نہ صرف اپنے دادا کے قلم کے امانتدار ہیں بلکہ فکشن کی دنیا میں اپنا ایک الگ مقام بنائے ہوئے ہیں۔ درج ذیل شمارے میں حضرت آوارہ کے گوشہ کے تحت جہاں سید محمد اشرف نے حضرت آوارہ کے شخصی اور ادبی کوائف کا ایک اجمالی تعارف مع خاندانی شجرہ کے پیش کیا ہے وہیں قمرالہدی فریدی ، احمد مجتبی صدیقی کے علاوہ مولانا عبدالماجد دریا بادی، رشید احمد صدیقی اور مرزا محمود بیگ کی تحریریں بھی رفتگاں کے اوراق روشن کرتی ہیں کہ ان تحریروں کے حوالے سے حضرت آوارہ کی شخصیت کے بہت سے پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ خانقاہ برکاتیہ مارہرہ کے گل سر سبد حضرت آوارہ ایک بہترین براڈ کاسٹر اعلی پایہ کے ڈرامہ نگار ،انشائیہ نگار اور خاکہ نگار تھے ۔ جملوں اور محاوروں پر بقول شخصےان کو جو دسترس حاصل تھی وہ ان کے ہم عصروں میں شاید ہی کسی کو حاصل ہو ۔
متذکرہ بالا اہل قلم حضرات کے تعارفی مضامین کے علاوہ خود حضرت آوارہ کے تین انشائیے "بگڑے رئیس ،آگ کا کھیل اور کہاں گئے وے لوگ ” بھی حاصل مطالعہ ہیں ۔
جیسا کہ لکھا جا چکا ہے کہ حضرت آوارہ کا مشاہدہ اور مطالعہ نہ صرف وسیع تھا بلکہ انھوں نے اپنی تحریروں میں محاوروں اور روزمرہ کو جس خل٘اقانہ انداز میں برتا ہے وہ یقینا٘ اردو ادب میں گراں بہا اضافہ ہے ۔اس کی مثال ” آگ کا کھیل ” میں آتش باز کی زبان سے ادا کئے گئے ان جملوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
” ایک بات کہوں برا نہ مانئے گا ، اللہ پاک کا دیا پیسے کا کال نہیں پر شوقینی کا توڑا ہے۔ وہ دن ہوا ہوئے جب دو دو چار چار ہزار کی آتش بازی دھن کے دروازے پر دھواں ہو جاتی تھی ۔اب تو برات چڑھی شان کے لئے چار چھ ناشپال دو چار ہوائیاں چھٹ گئیں اللہ اللہ خیر سلا (الخ) کہئے اب کس برتے پہ باپ دادا کے نخسے نکالیں ، اور کیا نام کہ کانٹے میں تول تول کے مسالوں کا وزن ملائیں ۔دیکھنا ہو تو چار قدم بڑھا کے غریب کے اس کوٹھے میں دیکھئے آتش بازی کے کیسے کیسے نمونے رکھے ہیں۔
دیکھئے یہ آتش انار ہیں ۔شتابہ دکھاتے ہی انار نے آگ پکڑی پھولوں کا سرد بن گیا ۔ بارود میں ناپ جوکھ کر پٹاس کی پٹ اور لہچوں کی چٹکی دے دی یہی آتشی انار ستارے بکھیرتا ہوا ہوا میں اٹھ گیا۔ اور لیجیے یہ ہے اگن چرخ ۔استاد لوگ اس کو اگن پنکھ بھی کہتے ہیں۔ بانس کی پوریں کارٹ کے تیز وزن کی بارود بھری ۔ پلیتے سے ایک دوسرے کو جوڑ دیا۔شتابہ دکھایا ۔ بارود کے زور سے چرخ کیلی پہ گھومنے لگا ۔حکم ہوگا اسی چرخ کو چوگلا موج دریا ،جگنو یا نو چندہ بنا دوں گا ۔
سہ ماہی سیما کے دوسرے مشمولات میں پروفیسر شارب ردولوی کا گوشہ بھی یاد رفتگاں کا قیمتی اثاثہ ہے جس کے تحت اطہر فاروقی صغیر افراہیم ابوسفیان اصلاحی اور اسعد فیصل فاروقی کے مضامین شارب ردولوی کی حیات اور ادبی کائنات کے مختلف گوشوں کو وا کرتے ہیں۔ تخلیقی ادب کے عنوان سے شعری حصہ بھی خوب ہے اس کے علاوہ کچھ رپورتاژ ، خاکے ، انشائیے اور خالد جاوید سے علیزے نجف کا خصوصی انٹرویو بھی متذکرہ شمارے کے ادبی وقار میں اضافہ کر رہا ہہے ۔تحقیق و تنقید کا گوشہ بھی شعر و ادب کے ادبی رجحانات سے عبارت ہے ۔ مجموعی طور پر سہ ماہی سیما کا یہ شمارہ جنوری تا مارچ ۲۰۲۴ اپنے اوراق میں صحتمند ادب ایک قیمتی اثاثہ سمیٹے ہوئے ہے ۔
نقدوتبصرہ
قرآن کریم کی تلاوت،اس میں تدبر و تفکر ہر فردِ مسلم سے مطلوب ہے ، چاہے وہ کسی بھی خطۂ ارض سے تعلق رکھتا ہو، مگر اتنی وسیع و عریض دنیا میں ہزارہا زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں،ایسے میں تمام دنیا کے مسلمانوں کا قرآن کی زبان میں یکساں مہارت حاصل کرنا اور اسے ازخود پوری طرح سمجھنا ممکن نہیں؛اس لیے زمانۂ قدیم سے اب تک خود عربی زبان میں قرآن کریم کی تفسیر و تشریح ، اس کے نکات و لطائف کی توضیح، اس سے مستنبط ہونے والے احکام و مسائل کی نشان دہی کے ساتھ دنیا کی تقریباً تمام زبانوں میں اس کے ترجمہ و تفسیر کا بھی سلسلہ جاری ہے، یہی وجہ ہے کہ جہاں اس کا متن دنیا بھر میں سب سے زیادہ شائع ہوتا ہے، وہیں اس کی تفسیریں بھی بے حد و بے شمار شائع ہوتی ہیں اور مسلمان ان سے اپنے اپنے ذوق و ذہنی وابستگی کے مطابق استفادہ کرتے ہیں۔
اردو زبان ،جس کی عمر گرچہ محض چند صدیوں کو محیط ہے ،مگر اس اعتبار سے یہ زبان خوش بخت ہے کہ اس میں ادب و شعر اور دوسرے علوم و فنون کے علاوہ قرآنیات کا بھی بہت وقیع اور قیمتی سرمایہ موجود ہے،جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔قرآن کے ترجمے اور سیر حاصل تفسیر پر مشتمل ماضی بعید و قریب میں مختلف مسالک و مکاتبِ فکر کے نمایندہ علما نے بہت سی کتابیں لکھی ہیں ،جنھیں اپنے اپنے حلقے میں اعتبار و قبولیت حاصل ہے،مگر چوں کہ کئی کئی جلدوں پر مشتمل تفسیروں کے مطالعے کا موقع ہر شخص کے پاس نہیں ہوتا،یوں بھی موجودہ دور ہر معاملے میں اختصار و عجلت پسندی کا ہے،جس سے مذہبیات کا شعبہ بھی اچھوتا نہیں ہے ۔ اسی کے پیش نظر پچھلی چند دہائیوں میں جامعیت و اختصار کے ساتھ مضامینِ قرآنی کی تفہیم اور جدید اسلوب میں عام فہم ترجمۂ قرآن کا چلن بہت عام ہوا ہے اور اس حوالے سے ہندوپاک میں درجنوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔
اسی سلسلے کی کڑی برادرمکرم مولانا بدرالاسلام قاسمی کی تازہ کاوش ’جامع خلاصۃ القرآن رکوع بہ رکوع‘ ہے،جیسا کہ نام سے ظاہر ہے اس کتاب میں مؤلف نے رکوع بہ رکوع قرآنی مضامین کا خلاصہ پیش کیا ہے،اس کتاب کی تشکیل اور خاکہ بندی میں انھوں نے مولانا سلیم الدین شمسی کی ’مستند خلاصۂ مضامین قرآنی‘ سے خاص طورپر فائدہ اٹھایا ہے ،جو پہلی بار۱۹۶۲ میں پاکستان سے شائع ہوئی تھی اور اب مولانا عمر انور کی ترتیب جدید کے ساتھ متداول ہے۔
مؤلف نے اپنے ’عرضِ مؤلف‘ میں اس کتاب میں اختیار کردہ طریقۂ کار کی وضاحت کردی ہے ۔اختصار کے پیش نظر انھوں نے فقہی مسائل و احکام فقہ حنفی کے مطابق بیان کرنے پر اکتفا کیا ہے اور اس سلسلے میں ماسبق تفاسیر اور کتابوں سے مدد لی ہے۔ قرآن کا مخاطب یوں تو تمام عالم ہے، مگر اس کا اولین خطاب اس پر ایمان رکھنے والے طبقے،یعنی مسلمانوں سے ہے ؛اس لیے انھوں نے تشریح و توضیح میں یہ پہلو خاص طورپر سامنے رکھا ہے اور ان کے اسلوب پر من حیث المجموع دعوتی و اصلاحی رنگ حاوی ہے۔شروع میں انھوں نے قاری کو علومِ قرآنی کی مبادیات سے بہرہ ور کرنے کے لیے تفسیر ’معارف القرآن ‘میں شامل برصغیر کے ممتاز فقیہ، محدث و محقق مولانا محمد تقی عثمانی کے مقدمے کی تلخیص پیش کی ہے،جس میں وحی کی ضرورت و حقیقت سے لے کر نزولِ قرآن اور حفاظتِ قرآن و تدوین قرآن کی تاریخ پر بھی مختصر بحثیں آگئی ہیں۔ اسی طرح سورۂ فاتحہ سے سورۂ ملک تک کا تعارف انھی کی کتاب’توضیح القرآن‘ سے ماخوذ ہے،جبکہ بقیہ سورتوں کے تعارف میں انھوں نے مفتی سعید احمد پالن پوری رحمہ اللہ کی’ہدایت القرآن‘ سے استفادہ کیا ہے۔اسی ضمن میں انھوں نے علماے دیوبند کے ذریعے لکھی گئی دس تفاسیر کا بھی تعارف پیش کیا ہے۔
خلاصۂ مضامین کی پیش کش کا طرز ان کا یہ ہے کہ پہلے متعلقہ سورت کا تعارف پیش کرتے ہیں،اس کے بعد اس سورت کے پہلے رکوع کی پہلی آیت لکھتے ہیں، پھر اس رکوع کے پورے مضمون کو آسان اور سادہ زبان میں اختصار کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔یہی طریقہ انھوں نے پوری کتاب میں اختیار کیا ہے۔ الغرض یہ کتاب دسیوں تفاسیرِ قرآنی کا نچوڑ اور خلاصہ ہے،جسے مؤلف نے بڑے مرتب اور سادہ و سلیس انداز میں پیش کیا ہے،مکمل قرآن کریم کا خلاصہ ۵۷۸ صفحات میں آگیا ہے۔ایک چیز قابلِ لحاظ ہے ،جس کی طرف خود مؤلف نے بھی اپنے عرضِ مؤلف میں اشارہ کیا ہے کہ’کتاب میں کوئی تحقیق یا انفرادیت تلاش نہ کی جائے؛کیوں کہ اس کتاب کے مخاطب عوام الناس ہیں،جنھیں قرآن کریم سے مربوط کرنا اس تالیف کا مقصد ہے، درسِ قرآن کے طور پر اگر وہ رفتہ رفتہ پوری کتاب کا مطالعہ کرلیں یا انھیں مرحلہ بہ مرحلہ پورے قرآن کا خلاصہ سنادیا جائے،تو امید ہے کہ انھیں کلام اللہ سے کچھ نہ کچھ مناسبت ہوجائے گی اور ایک مرتبہ یہ ربط پیدا ہوجائے، تو مفصل تفسیر اور متعلقہ احکام و مسائل کے احاطے کے لیے مستند تفسیر سے رجوع کیا جاسکتا ہے‘۔
کتاب کی کلاسیکی انداز کی نہایت خوب صورت و دیدہ زیب طباعت مکتبہ النور، دیوبند (۹۰۴۵۹۰۹۰۶۶) سے مرکزی پبلی کیشنز ،دہلی کی معرفت عمل میں آئی ہے۔اِس سال جنوری میں اس کا پہلا ایڈیشن آیا تھا،جسے غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی اور ہاتھوں ہاتھ نکل گیا ،اب غالباً دوسرا ایڈیشن بھی شائع ہوچکا ہے۔ یوں تو ایک مسلمان کے لیے قرآن کی تلاوت ، اس میں تفکر و تدبر تمام زندگی اور ہر دن کا وظیفہ ہونا چاہیے، مگر علی الخصوص رمضان،یعنی ماہِ قرآن میں تلاوتِ قرآن کے ساتھ اس کے مضامین کو سمجھنے اور ان میں غوروفکر کی خاص کوشش کی جانی چاہیے،جو اہلِ علم ہیں،وہ براہِ راست قرآن کی تلاوت کے ساتھ اس میں تفکر و تدبر کی لذت سے بھی بہرہ ور ہوسکتے ہیں،ان کے سامنے قرآنی علوم پر مشتمل کتابوں کی بھی ایک دنیا ہے، البتہ جو قرآن کی زبان سمجھنے سے قاصر ہیں اور مفصل تفاسیر کا بھی مطالعہ نہیں کرسکتے،ایسے لوگوں کے لیے یہ کتاب نہایت مفید ہے۔ اس کے مطالعے سے ان شاء اللہ قرآنی ذوق نموپذیر ہوگا،مضامینِ قرآن سے انسیت پیدا ہوگی،مفصل تفاسیر سے استفادے کی راہیں بھی کھلیں گی اور قرآن کے پیغامات کو سمجھنے کے ساتھ انھیں روزمرہ زندگی میں برتنے کی تحریک و ترغیب ملے گی۔
مصنف: ڈاکٹر مفتی مشتاق تجاروی
صفحات: 216
قیمت:300
ناشر:ہدی پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شعب ابی طالب میں تین سالہ پناہ گزینی اور مشرکینِ مکہ کا بنو ہاشم اور بنو مطلب کا سماجی بائیکاٹ سیرت نبویہ کے مکی دور کا ایک اہم باب ہے، اس مقاطعہ کی وجہ سے بنو ہاشم اور بنو مطلب میں شادی وغیرہ کرنے اور ان کے ساتھ تجارت کرنے سے مشرکین مکہ رک گئے،یہ ان کے لیے مشکل ترین عرصہ تھا، اہل شعب کو طرح طرح کی مصائب و مشکلات کا سامنا کرنا پڑا،لوگ اہل شعب سے خرید وفروخت نہیں کرتے تھے،بلکہ اگر کوئی تاجر ان کو اپنا سامان فروخت کرنا چاہتا،تو بعض مشرکین وہ پورا سامان ہی خرید لیتے،یا تاجر ہی اس کی قیمت پانچ گنا اور دس گنا زیادہ کردیتے؛ تاکہ اہل شعب خرید نہ سکیں۔ اہل شعب کو ہفتوں ہفتوں تک شکم شیری کے لیے ایک نوالہ تک نہیں ملتا تھا، بچے روتے بلکتے رہتے تھے، حتی کہ روایات میں میں آتا ہے کہ لوگ درختوں کی پتیوں سے اپنی تشنگی بجھاتے تھے،یہی وجہ ہے کہ شعب ابی طالب سے نکلنے کے بعد لوگ لاغر و کمزور ہوگئے تھے۔تین سال بعد محرم،10/ نبوی میں بعض نوجوانان مکہ کی کوششوں اور معجزہ خداوندی کی وجہ سے اس معاہدہ کا خاتمہ ہوگیا۔
سیرت نگاروں نے اپنی کتابوں میں شعب ابی طالب میں رسول اللہ کی پناہ گزینی کو بہت اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے، اکثر کتب سیرت میں اس کا سرسری تذکرہ کیا گیاہے، اس موضوع پر باقاعدہ تحقیقی کتاب نہیں لکھی گئی ہے، حالاں کہ یہ تین سالہ دور سیرت نبوی کے مکی دور کا ایک اہم باب ہے، اسی لیے ضرورت تھی کہ اس موضوع پر باقاعدہ تحقیقی کتاب لکھی جاتی اور حدیث، سیرت، تاریخ اور شاعری کے ذریعہ اس کی تفصیلات کو ہویدا کیا جاتا، ڈاکٹر مفتی مشتاق تجاروی کی تازہ تصنیف ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعب ابی طالب میں ایک تاریخی مطالعہ“ اس موضوع پر ایک اہم اور تحقیقی شاہکار ہے۔ فاضل مصنف نے مستند ترین ماخذ کی روشنی میں شعب ابی طالب کی تفصیلات کو بیان کرنی کی ایک کامیاب کوشش کی ہے، فاضل مصنف تمہید میں رقم طراز ہیں:
”شعب ابی طالب کی محصوری کا تذکرہ اکثر سیرت نگاروں نے کیا ہے، لیکن عام طور پر سیرت نگار اس پورے تین سال کا بیان بہت ہی اختصار کے ساتھ کرتے ہیں، بلکہ بعض سیرت نگاروں نے تو تین سال کے اس وقفے کے لیے اپنی کتاب کے تین صفحات بھی مختص نہیں کیے۔ اس لیے اس موضوع پر ابھی کسی مستند اور جامع تحقیق کا انتظار ہے۔
زیر نظر کتاب میں اسی موضوع کا مطالعہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ کوئی غیر معمولی اور جامع تحقیق نہیں ہے، بلکہ ایک طالب علمانہ کاوش ہے۔ اس کتاب میں شعب ابی طالب میں محصوری کے تین سال کی تاریخ لکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔راقم الحروف نے اس مقالے میں اپنی بساط بھر یہ کوشش کی ہے کہ جو بھی معلومات درج کی جائیں وہ بنیادی اور مستند مراجع پر مبنی ہوں،تجزیہ معقولیت پر مبنی ہو، اور پورے بیانیے میں ہمارے لیے جو ہدایات اور رہنمائی ہے، جو اسوہ اور نمونہ ہے اس کی طرف بھی توجہ ہوتی رہے“(ص: 12)
زیر نظر کتاب 216/ صفحات، 9/ ابواب اور چندضمیموں پر مشتمل ہے، پہلے باب ”شعب ابی طالب: تاریخ کے آئینے میں“میں شعب کے نام، محل وقوع، قدیم تاریخ، مختلف ادوار میں متعدد ناموں، دور نبوی کے بعد کے ادوار کی تاریخ اور موجودہ دور میں شعب کے محل وقوع پر روشنی ڈالی گئی ہے، دوسرا باب ”شعب ابی طالب میں محصوری“ہے، اس باب میں پہلے اس واقعہ کو مستند ترین ماخذ سے ثابت کیا ہے، حدیث کی مستند ترین کتابوں میں اس کے اجمالی تذکرہ کو نقل کیا ہے، اس کے بعد کتبِ سیرت و تاریخ سے اس واقعہ کی تفصیلات اور ان کی استنادی حیثیت کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ مصنف نے شعب ابی طالب میں پناہ گزینی کی تمام روایات کو جمع کرکے ایک تجزیاتی انداز میں واقعات کی کڑیوں کو ملایا ہے، ان حالات پر روشنی ڈالی ہے جس کی وجہ سے ابو طالب کو اپنے خاندان کے ساتھ اپنے آبائی محلہ میں پناہ گزیں ہونے پر مجبور ہونا پڑا، اس باب میں مقاطعہ کے متعدد اسباب مثلا اسلام کی اشاعت،حضرت حمزہ و عمر جیسے قریش کے اہم افراد کا ایمان لانا، مسلمانوں کا حبشہ میں پناہ مل جانے وغیرہ پر روشنی ڈالی ہے، اس کے بعد مقاطعہ کی دستاویز اور اس کے مضمون، مقاطعہ کے متعدد نسخے اور دستاویز کے کاتب کو زیر بحث لایا گیا ہے۔ مصنف نے سیرت نگاروں کی روایات کو جمع کرکے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شعب ابی طالب کوئی جیل نہیں تھی اور نہ ہی رسول اللہ کو وہاں قریش نے محصور کیا تھا بلکہ یہ ایک پناہ گاہ کی حیثیت رکھتی تھی؛ یہ خاندان بنو ہاشم کی طاقت تھی، شعب ابی طالب میں پناہ گزینی کے بعد قریش مقاطعہ کرنے پر مجبور ہوئے تھے، فاضل مصنف رقم طراز ہیں:
”ایک یہ کہ شعب ابی طالب در اصل مسلمانوں کے لیے ایک پناہ گاہ تھی،جہاں بنو ہاشم اور بنو مطلب اپنے آپ کو زیادہ محفوظ تصور کرتے تھے،۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی غرض سے وہ لوگ اس گھاٹی میں خود محصور ہوئے تھے، ان کو ڈھکیل کر اس میں بند نہیں کیا تھا، یعنی ان کی محصوری حصار (قلعہ)کے معنی میں تھی،قید کے معنی نہیں۔ گویا وہ اپنے محلے میں پناہ گزیں تھے۔
دوسری بات یہ کہ مقاطعہ کا معاہدہ یا صحیفہ کسی منصوبہ بندی کا حصہ نہیں تھا، بلکہ مشرکین کا ارادہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نقصان پہنچانے کا تھا، جب بنو ہاشم اور بنو مطلب نے حضور کی حفاظت کا بندوست کرلیا تو اپنے ناپاک ارادوں کے لیے کوئی راہ نہ دیکھ کر دشمنوں نے مقاطعے کا معاہدہ لکھا۔“
تیسرا باب ”مقاطعہ کے فریق“ہے، مقاطعہ میں بنیادی طور پر دو فریق تھے، ایک بنو ہاشم و بنو مطلب، دوسرے قریش و کنانہ کے مشرکین تھے، اس کے علاوہ دیگر عرب قبائل نے اس میں حصہ نہیں لیا تھا، ایک تیسرے فریق وہ مسلمان تھے جو شعب کے باہر تھے وہ مقاطعہ کا حصہ نہیں تھے، مصنف نے اس باب میں تینوں فریقوں کے احوال پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔ شعب کے محصورین پر بحث کرتے ہوئے چند ایک روایات کو پیش کیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ خاندان ہاشم و مطلب کے علاوہ متعدد مسلمان بھی شعب میں پناہ گزیں تھے،مصنف نے انتہائی عرق ریزی سے انساب کی مستند ترین کتابوں سے خاندان ہاشم و مطلب کے ان افراد کے نام کو تلاش کیا ہے جو شعب میں پناہ گزیں تھے، مصنف نے ہاشم و مطلب کی اولاد کا الگ الگ ذکر کرکے ان افراد کا تذکرہ کیا جن کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے کہ وہ شعب میں تھے، مصنف نے بنو ہاشم سے 47/ اور بنو مطلب سے 39/ افراد کا نام نقل کرنے کے بعد رقم طراز ہیں:
”مذکورہ صفحات میں اہل شعب کی وہ تعداد بیان کی گئی ہے، جس کا تذکرہ نام کی صراحت کے ساتھ انساب کی کتابوں میں موجود ہے، ورنہ ظاہر ہے شعب کے پناہ گزینوں میں کچھ لوگ اور بھی تھے جن کا نام صراحت کے ساتھ انساب کی کتابوں میں مذکور نہیں ہوسکے،جیسے بعض حضرات کی بیٹیوں اور کچھ لوگوں کی بیویوں کی تعداد ایسی بھی یقینا ہے جس کا ذکر انساب کی کتابوں میں شامل نہیں ہوسکا،اسی طرح اس زمانے کے اعتبار سے ہر خاندان میں کچھ غلام بھی ہوں گے،انساب کی کتابوں میں غلاموں کا تذکرہ تو بالعموم ہوتا ہی نہیں اور اس کا بھی امکان ہے کہ انساب کی کتابوں میں جن لوگوں کے نام مذکور ہیں ان کے علاوہ خاندان کے کچھ اور لوگ بھی ہوں جو شعب کے اندر مقیم ہوں اور ان کے نام انساب کی کتابوں میں جگہ نہ پاسکے ہوں۔اگر اس اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کا امکان ہے کہ شعب کے اندر 150/یا اس سے زیادہ لوگ رہے ہوں گے۔“(صفحہ:73)
اس کے علاوہ اس باب میں شعب کے باہر مسلمانوں کی صورتحال اور مسلمانوں کی تعداد پر روشنی ڈالی گئی ہے،بقول مصنف کہ ”بلا خوف تردید کہا جاسکتا ہے کہ شعب ابو طالب کے وقت مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کی تعداد دہائیوں سے گذر کر سیکڑوں میں ہوچکی تھی۔“
کتاب کا چوتھا باب ”مقاطعہ کا مقابلہ“ہے،جس میں مشرکین مکہ کے بائیکاٹ کے خلاف چچا ابوطالب کی حکمت عملی،رسول اللہ کی حفاظت کا طریقہ اور مشرکین سے نپٹنے کے منصوبے کو ان کے قصائد کی روشنی میں بیان کیا گیا ہے،پناہ گزینی کے دوران متعدد مشرکین نے اہل شعب کی امداد کی جن میں سے حکیم بن حزام،ہشام بن عمرو،ابولبختری،زہیر بن ابو امیہ اور مطعم بن عدی کے نام تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہیں۔پانچواں باب ”ایام مقاطعہ کے احوال“ہے،جس میں اس دورانیہ میں رسول اللہ کی دعوتی حکمت عملی،ہجرت حبشہ ثانیہ،شاہ نجاشی سے رسول اللہ کی مراسلت،مہاجرین حبشہ کی خبر گیری،مظلوم مسلمانوں کے لئے دعا،قریش کے لئے بدعا اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قحط وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ چھٹا باب ”ایام محصوری کے اہم واقعات اور سرگرمیاں“ہے،جس میں شعب میں پناہ گزینی کے دوران رونما ہونے والے ان واقعات کا تذکرہ ہے،جن کا ذکر مستند روایات میں ہے،اس ضمن میں فاضل مصنف نے وفد حبشہ کی رسولﷺکے یہاں آمد،صدیق اکبر کی ہجرت،حضرت ابوبکر کا مسجد تعمیر کرنا،غلبہ روم کی بشارت اور ابوسلمہ ؓاور عثمان بن مظعونؓ کی جوار وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ساتواں باب ”شعب ابی طالب میں نزول قرآن“ ہے،اس باب میں ان آیات اور سورتوں کی نشاندھی کی گئی ہے جو شعب میں پناہ گزینی کے دوران نازل ہوئیں،فاضل مصنف نے اولا ان آیات کی نشاندہی کی ہے جو مشرکین مکہ مثلا ابو لہب اور اس کی بیوی،امیہ بن خلف،عاص ابن وائل سہمی،ابوجہل،نضر بن حارث،اخنس بن شریق،ولید ابن مغیرہ،ابی ابن خلف اور عقبہ بن ابی المعیط کو جواب دینے کے پس منظر میں نازل ہوئیں، اس کے علاوہ دیگر مصادر سے سورہ روم،سورہ سجدہ،سورہ دخان اور سورہ قمر کی مکمل آیات یا ان سورتوں کی کچھ آیات کے نزول کا علم ہوتا ہے۔آٹھواں باب ”محاصرہ شعب کے اثرات“ ہے،اس باب میں اس مقاطعہ کی وجہ سے معاشرہ پر مرتب ہونے والے اثرات وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے،مصنف کی تحقیق کے مطابق اس مقاطعہ کی وجہ سے قبائل میں اسلام کا چرچا ہوا،لوگ اسلام کو ایک جماعت کی حیثیت سے دیکھنے لگے اور لوگوں کے اندر یہ تجسس پیدا ہوا کہ وہ کون سی چیز ہے جس نے قریش کو اپنے ہی بھائیوں کا مقاطعہ کرنے پر مجبور کی ہے،اسی تجسس نے ان کو اسلام اور اہل اسلام سے واقف کرایا،مشرکین کے ظلم وستم اور ظالمانہ مقاطعہ کی وجہ سے مشرکین کے درمیان بھی مسلمانوں کے حامی پیدا ہوگئے،3/سالہ مقاطعہ کے بعد مسلمانوں کو ایک جماعت کی حیثیت سے قبول کیا گیا اور ان کی طاقت و قوت کا اعتراف کرنے پر مشرکین بھی مجبور ہوئے۔کتاب کا آخری باب ”مقاطعہ کا خاتمہ“ ہے،اس باب میں مقاطعہ کے خاتمہ کے سلسلے میں دونوں مشہور راویات کو نقل کرنے بعد ان کے درمیان تطبیق پیدا کی ہے،بقول مصنف کہ”مقاطعہ کے خاتمے سے متعلق سیرت نگاروں نے جو گفتگو کی ہے اگر اس کو پورے سلسلہ واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ مقاطعہ ایک دن میں ختم نہ ہوا ہوگا،بلکہ ایک طویل جدو جہد کے بعد ختم ہوپایا ہوگا۔۔۔۔ان کی ترتیب ہوسکتا ہے کہ یہی ہو کہ پہلے جناب ابو طالب یہ خبر لے کر آئے کہ اس دستاویز کو دیمک چاٹ گئی ہے۔اس کے بعد جب یہ خبر سچ ثابت ہوئی تو جو لوگ پہلے سے اس کو ختم کرنے کا ذہن بنا چکے تھے ان کو حوصلہ مل گیا اور انہوں نے اس خاتمے کا اعلان کردیا اور آخر میں مطعم بن عدی نے اس دستاویز کے مابقیہ کو چاک کردیا۔“ کتاب کے آخر میں ضمیمہ جات ہیں،جس میں شعب ابی طالب کے دوران چچا ابوطالب کے کہے گئے قصیدے،قصیدہ لامیہ،قصیدہ بائیہ، قصیدہ دالیہ اور نجاشی کی مدح،اور اپنے فرزند حضرت جعفر کی یاد میں کہے گئے ایک قصیدہ کو نقل کیا گیا ہے۔
کتاب کی زبان انتہائی آسان ہے،سہل نگاری کے ساتھ ساتھ سلاست و روانی اور اسلوب میں شگفتگی و شائستگی ہے،مصنف نے مختلف روایات سے واقعات کی کڑیوں کو جوڑ کر اس منطقی ترتیب سے بیان کیا ہے کہ خلاء کا کوئی احساس نہ ہو۔کتاب کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ مستند اور بنیادی ماخذ کی روشنی میں مرتب کی گئی ہے۔کتاب کے مصنف ڈاکٹر مفتی مشتاق تجاروی علمی حلقوں میں کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں،آپ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبۂ اسلامیات میں اسسٹنٹ پروفیسر اور کئی علمی و تحقیقی کتابوں کے مصنف ہیں،آپ کی زیر نظر کتاب سیرت نگاری کے باب میں ایک اہم اور گراں قدر اضافہ ہے۔لاریب اپنے موضوع پر یہ ایک تحقیقی اور لائق مطالعہ کتاب ہے۔ کتاب ہدی پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
تعارف و تبصرہ : شکیل رشید
معصوم مرادآبادی ایک معروف اور مقبول صحافی ہیں ۔ صحافی ہیں اس لیے ان کا خاص موضوع صحافت ہی ہے ۔ صحافت کے موضوع پر وہ کئی کتابیں لکھ بھی چکے ہیں ۔ لیکن صحافت کے ساتھ ساتھ وہ مختلف ادبی اصناف میں بھی درک رکھتے ہیں ، مثلاً وہ ایک بہترین محقق ، تذکرہ نویس ، خاکہ نگار ، کالم نویس ، مترجم اور بہت اچھے انٹرویور بھی ہیں ؛ وہ انٹرویو لینے کے ہنر سے بھی خوب واقف ہیں اور خوب جانتے ہیں کہ کسی وی وی آئی پی کا انٹرویو لیتے ہوئے اُسے کیسے باتوں کے جال میں باندھا جائے ، اور اُس کی زبان سے ایسی بات نکلوا لی جائے ، جو انٹرویو کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے موضوعِ گفتگو بنا دے ۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ؛ بالخصوص اس لیے کہ اہم شخصیات نہ آسانی کے ساتھ باتوں کے جال میں پھنستی ہیں ، اور نہ ہی آسانی کے ساتھ کھُلتی ہیں ، اُنہیں رام کرنے کے لیے ، یا اُن کی توجہ پانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اُن کے بارے میں ، مثبت یا منفی ، ہر طرح کی واقفیت پاس ہو ، اور ایک اچھے صحافی کی حیثیت سے معصوم کے ترکش میں سارے تیر ہوتے ہیں ۔ اگر آپ کو یقین نہیں آ رہا ہے تو ان کی کتاب ’ بالمشافہ ‘ کا مطالعہ کر کے دیکھ لیں ، جو 22نامور ادیبوں ، شاعروں اور فن کاروں کے انٹرویوز پر مشتمل ہے ۔ لیکن پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ ایک صحافی کو ، جس نے بہت سارے سیاست دانوں کے انٹرویو لیے ہیں ، اچانک ادیبوں اور فن کاروں سے ملاقات اور گفتگو کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ۔ اس تعلق سے کتاب کے ’ پیش لفظ ‘ میں معصوم مرادآبادی لکھتے ہیں : ’’ اردو صحٓافت سے اپنی چالیس سالہ وابستگی کے دوران سینکڑوں شخصیات کے انٹرویو لیے ، جن میں زیادہ تر سیاسی لوگ تھے ۔ اسی دوران مجھے یہ خیال ہوا کہ کیوں نہ اپنے عہد کے کچھ نامور شاعروں ، ادیبوں اور دانشوروں سے بھی مکالمہ کیا جائے ۔ لہٰذا میں نے عام قاری کو ذہن میں رکھ کر شاعروں اور ادیبوں کے انٹرویو کا سلسلہ شروع کیا جسے پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ۔ ‘‘ معصوم مرادآبادی کی نظر میں انٹرویو نگاری ’’ صحافت کا سب سے مشکل کام ہے ۔ انٹرویو نگار کا کام محض سوال قائم کرکے ان کے جوابات حاصل کرنا نہیں ہوتا بلکہ وہ اس راہ میں طرح طرح کے تجربات سے گزرتا ہے ۔ جب لوگ تنازعہ کھڑا ہوجانے کے بعد اپنی ہی باتوں سے مُکرتے ہیں تو ایک عجیب و غریب صورتِ حال جنم لیتی ہے ۔ یہ مرحلہ انٹرویو نگار کے لیے سخت آزمائش کا ہوتا ہے ۔ اس لیے انٹرویو نگار کے کندھوں پر ذمہ داری کا دوہرا بوجھ ہوتا ہے ۔‘‘ جب آپ ’ بالمشافہ ‘ کے انٹرویوز پڑھیں گے تو اندازہ ہوگا کہ انٹرویو نگار نے اس دوہری ذمے داری کو کس خوبی سے نبھایا ہے ! ’ پیش لفظ ‘ میں معصوم مرادآبادی نے کچھ اور اہم باتیں کہی ہیں جن سے واقفیت ان انٹرویوز کو پڑھنے سے پہلے ضروری ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ ادبی شخصیات اور فن کاروں سے گفتگو کرتے ہوئے خود انہوں نے ان باتوں کا خیال رکھا ہے ، یا نہیں ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’میں نے سوالات کے دائرے کو محدود بھی رکھا ہے اور یہ کوشش بھی کی ہے کہ شاعروں یا ادیبوں سے ایسے سوالات کیے جائیں جو عام قاری کے ذہن میں پیدا ہوتے ہیں ۔ خشک سوالات اور مباحث سے پرہیز کیا گیا ہے ‘‘۔
کتاب میں پندرہ انٹرویو ادیبوں اور شاعروں سے ہیں ، جن میں ادبی صورتِ حال کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی بات کی گئی ہے ، جبکہ سات انٹرویو ایسے ہیں جن میں ’ فرقہ واریت ‘ کو موضوع بنایا گیا ہے ، اس موضوع پر گفتگو کرنے والی شخصیات میں بھی ادیب اور شاعر شامل ہیں ۔ جن ادیبوں اور شاعروں سے بات کی گئی ہے ان کے نام ہیں اخترالایمان ، کیف بھوپالی ، حبیب جالب ، علی سردار جعفری ، جوگندر پال ، احمد فراز ، بیکل اتساہی ، افتخار عارف ، مظفر وارثی ، بشیر بدر ، ملک زادہ منظور احمد ، عطاءالحق قاسمی ، صلاح الدین پرویز ، بھگوان گڈوانی اور احمد مرزا جمیل ۔ دو انٹرویوز پر خاص طور سے بات کرنا چاہوں گا ، ایک علی سردار جعفری کے انٹرویو پر اور دوسرے بشیر بدر کے انٹرویو پر ۔ جعفری صاحب مرحوم نے سوالوں کے جواب دیتے ہوے کچھ ایسی باتیں بتائی ہیں جن کا آج کے ہندوستان میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا ۔ وہ بتاتے ہیں : ’’ لکھنؤ کے شمال میں ایک تعلقہ داری تھی بلرامپور ۔ وہاں کے تعلقہ دار کو مہاراجہ کا خطاب ملا ہوا تھا ، جو کہ مذہباً ہندو تھے ۔ اس زمانے کی فضا بہت اچھی تھی ۔ ہمارا خاندان بہت مذہبی تھا ، لیکن دیوالی کے موقع پر ہمارے یہاں بھی چراغ جلتے تھے ۔ مہاراجہ بلرامپور کے یہاں سے دیے اور تیل آتا تھا اور وہی لوگ اسے آکر سجاتے تھے ۔ محرم کے موقع پر مہاراجہ کے یہاں تعزیہ رکھا جاتا تھا ، جِسے ہمارے خاندان کے لوگ جاکر اٹھاتے تھے ‘‘۔وہ مزید بتاتے ہیں : ’’ دوسری طرف ہمارے زمانے میں نوٹنکی ہوتی تھی ، جِسے ہم بڑے شوق سے دیکھتے تھے ۔ ( نوٹنکیاں میں نے بھی خوب دیکھی ہیں ،اور شوق سے دیکھی ہیں ، اب نوٹنکیوں کی روایت خاتمے پر ہے ۔ش ر ) جس سے ہمیں رامائن وغیرہ کا علم ہوا اور اسی کے ساتھ اس زمانے میں مناظرے ہوتے تھے ۔ جس میں آریہ سماجی عالم بھی آتے تھے اور مسلمان علماء بھی اور وہاں پر ہندو مسلمان سب بیٹھ کر چھ سات دن تک ان کے مناظرے سُنا کرتے تھے ۔‘‘ اب ایسے مناظرے ناممکن ہیں ، اگر کوئی اس کے کوشش کرے تو لینے کے دینے پڑ جائیں ۔ انٹرویو میں جعفری صاحب نے اپنی گرفتاری کا ، اس جرم میں کہ انہوں نے دوسری جنگِ عظیم کے خلاف نظمیں لکھی تھیں ، ذکر کیا ہے ، یہ بھی بتایا ہے کہ کمیونسٹ رہنما پی سی جوشی نے انہیں ممبئی آکر اردو اخبار نکالنے کی دعوت دی تھی اور یہ کہ اخبار پہلے ’ قومی جنگ ‘ کے نام سے پھر ’ نیا زمانہ ‘ کے نام سے نکلا بعد میں اس کا نام ’ حیات ‘ ہو گیا ۔
بشیر بدر سے گفتگو دلچسپ ہے ۔ وہ بتاتے ہیں : ’’ میرا خیال ہے کہ میں نے لکھنا پڑھنا بعد میں سیکھا ہے اور بغیر جانے بوجھے کہ یہ غزل ہے میں نے گنگنانا شروع کر دیا لیکن بیچ بیچ میں مجھے مختلف طرح کے دورے پڑتے رہے ۔ میرا سب سے پہلا شوق غزل ہے یا کرکٹ دونوں میں کوئی ایک تھا ۔‘‘ انکشاف کرتے ہیں کہ ’’ پہلا شعر تو واقعی سات آٹھ سال کی عمر میں کہہ لیا تھا ۔‘‘ ایک اور دلچسپ بات سُنیے : ’’ جب غزل دوبارہ شروع کی تو پھر یہ سوچا کہ اچھا اب میرا معاملہ میرؔ اور غالبؔ سے ہوگا ۔‘‘ کتاب میں اس انٹرویو پر مقبول و معروف کالم نویس خامہ بگوش ( مشفق خواجہ ) کا بہت دلچسپ اور گدگدانے والا تبصرہ بھی شامل ہے ۔ خامہ بگوش کا ایک جملہ ملاحظہ کریں : ’’ انہوں نے ( بشیر بدر نے ) حق گوئی و بے باکی کا ایسا مظاہرہ کیا ہے ، جس کی کسی دوسرے سے توقع نہیں کی جا سکتی ۔ فرمایا ’ میرا معاملہ میرؔ اور غالبؔ سے ہے ، وہی میرے حریف ہیں اور میں انہیں اپنا حریف سمجھتا ہوں ۔‘ ہمارا خیال ہے کہ بشیر بدر نے انکسار سے کام لیا ہے ورنہ میرؔ و غالبؔ کی حیثیت ہے ، جو ان کے منہ آئیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ بشیربدر جس مقام پر ہیں وہاں کسی دوسرے شاعر کا پہنچنا تو کیا وہاں سے واپس آنا بھی ناممکن ہے ۔‘‘ خامہ بگوش کے تبصرے سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ معصوم مرادآبادی کا یہ انٹرویو کس قدر موٖضوعِ گفتگو بنا تھا ۔ کتاب میں مظفر وارثی کا انٹرویو تو شامل ہے ہی ان کا ایک ردعمل بھی معصوم مرادآبادی کی قتیل شیفائی سے کی گئی گفتگو پر ہے شامل ہے ، جس میں قتیل صاحب نے مظفر وارثی کے بارے میں کچھ متنازعہ باتیں کہی تھیں ۔
دو اہم انٹرویو بھگوان گڈوانی اور احمد مرزا جمیل کے ہیں ۔ بھگوان گڈوانی کے والد ’ ہندو مہاسبھا ‘ کے عہدیدار تھے ۔ گڈوانی ایک سرکاری ملازم تھے ، انہوں نے انگریزی میں ایک ناول لکھا تھا ’ دی سورڈ آف ٹیپو سلطان ‘ جس پر سنجے خان نے ایک سیریل بنایا تھا ، اور اس پر ایک تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ گڈوانی بتاتے ہیں کہ انہیں ٹیپو سلطان پر ناول لکھنے کی تحریک ایک فرانسیسی نوجوان سے ملی جو میدانِ جنگ میں لڑتے ہوے مرنے والے بادشاہوں اور کنگ پر ریسرچ کر رہا تھا ۔ بات کرتے ہوے اس نے گڈوانی سے کہا ’ آپ کا ٹیپو سلطان واحد ایسا بادشاہ تھا جو میدانِ جنگ میں مرا تھا ، کتنا عظیم انسان تھا ، اس کی مثال نہیں ہے ۔‘ اس کے بعد گڈوانی نے ریسرچ کی ، انگریز مورخوں کے ذریعے ٹیپو سلطان کو ’ ویلن ‘ بنا کر پیش کرنے کی تفصیلات حاصل کیں اور ناول مکمل کیا ۔ یہ ایک اہم انٹرویو ہے اور آج کے ہندوستان میں ٹیپو سلطان کو انگریز مورخوں کی طرح ’ ویلن ‘ بنا کر پیش کرنے کی ساری کوششوں کا ایک مدلل جواب بھی ۔ احمد مرزا جمیل ’ نوری نستعلیق ‘ ( کمپیوٹر سے کتابت ) کے موجد ہیں ، اس انٹرویو کے بعد ہی ہندوستان میں لوگوں کو پتا چلا کہ کمپیوٹر سے اردو کتابت ممکن ہے ۔
دو باتوں کا مزید ذکر ؛ ایک تو ان سات انٹرویوز کا جن کا موضوع ’ فرقہ واریت ‘ ہے ۔ معصوم مرادآبادی نے جن سات شخصیات سے اس موضوع پر گفتگو کی ہے ان کے نام ہیں بھیشم ساہنی ، حبیب تنویر ، جاوید اختر ، فہیم الدین ڈاگر ، سدھیر در ، سریندر شرما اور پرشوتم اگروال ۔ یہ تمام انٹرویو لاجواب ہیں ۔ میں صرف سدھیر در کے انٹرویو پر کچھ روشنی ڈالوں گا ۔ در صاحب اپنے دور کے بہت مقبول و معروف کارٹونسٹ تھے ۔ وہ فرقہ پرستی سے ممکنہ خطرات کا ذکر کرتے ہوے کہتے ہیں : ’’ ہندوستان ٹوٹ جاے گا ۔ آپ اس کو کیسے بچائیں گے ۔ آج ہم سب یہی سوچتے ہیں کہ اپنے بچوں کے لیے ہم کیسا ہندوستان چھوڑ کر جائیں گے ۔ کیا یہ خون میں لپٹا ہوا ہندوستان ہوگا ۔ میں تو ایسا نہیں ہونے دوں گا ۔‘‘ شاید آج کوئی در جیسا عزم کرنے والا نہیں ہے کہ ’ میں تو ایسا نہیں ہونے دوں گا ۔‘ دوسری بات مرحوم شمیم حنفی کے ’ دیباچہ ‘ پر ہے ۔ شمیم صاحب لکھتے ہیں : ’’ معصوم صاحب کا اپنا رویہ ایک مہذب انٹرویور کا ہے ۔ وہ خود کم بولتے ہیں ، سامنے والے کو بولنے کا موقع زیادہ دیتے ہیں ۔ اسی لیے ان کے انٹرویوز میں خود نمائی کا عنصر تقریباً مفقود ہے اور اس سے جواب دینے والے کی شخصیت زیادہ سے زیادہ واضح طور پر سامنے آتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ یہ ساری شخصیتیں ایک جیسی نہیں ہیں ۔ چنانچہ اس کتاب کے ذریعے ہم ایک ٹکٹ پر کئی تماشے دیکھ سکتے ہیں ۔‘‘ یہ کتاب ہر طرح کے قاری کے لیے دلچسپ ہوگی ۔ کتاب کے آخر میں اس کتاب کے پہلے ایڈیشن پر کیے گئے تبصرے بھی شامل ہیں ۔ کتاب کے ناشر ’ نعمانی کیئر فاؤنڈیشن ، لکھنؤ ‘ (موبائل نمبر : 7905636448 ) ہیں ۔ کتاب شائع بھی ’ نعمانی پرنٹنگ پریس ، لکھنئو ‘ سے ہوئی ہے ، اور طباعت شاندار ہے ۔ صفحات 232 اور قیمت 400 روپے ہے ۔
ہم تو پہلے ہی ڈاکٹر محمد شکیل اختر کی صلاحیتوں اور پروفیسر آل احمد سرور کی خوبصورت نثر کے گرویدہ رہے ہیں۔ لیکن ”نشریاتِ سرور“ نے اس گرویدگی میں ایک سرور کی سی کیفیت پیدا کر دی۔ تاہم اس سرور کا تعلق ”شرور“ سے قطعاً نہیں۔ اس کتاب کے مطالعے نے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ریڈیو ٹیپس میں کیسے کیسے ہیرے جواہرات پوشیدہ ہیں۔ آل انڈیا ریڈیو میں نشریات کی شکل میں جو ادبی خزانہ موجود ہے وہ اردو ادب کا بہت بڑا سرمایہ ہے۔ لیکن وائے افسوس کہ یہ سرمایہ وقت کی گرد کے نیچے دبا ہوا ہے اور حقیقتاً گرد کھا رہا ہے۔ قابل مبارکباد ہیں ڈاکٹر شکیل اختر کہ جو اس خزانے کو منظر عام پر لانے کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔شکیل اختر انتہائی باصلاحیت اور ذہین شخص ہیں بلکہ محقق ہیں۔ خاموشی سے کام کرنے میں یقین رکھتے ہیں۔ قلم و قرطاس سے ان کا رشتہ بہت پرانا ہے۔ چاہتے تو مختلف اصنافِ ادب میں ہاتھ آزما سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے ایسا کرکے اپنی صلاحیتوں کو ضائع کرنا مناسب نہیں جانا۔ انھوں نے اپنے لیے ایک ایسا میدانِ کار منتخب کیا جو اب تک بالکل خالی تھا اور جہاں اپنے جوہر دکھانے کے بے پناہ امکانات موجود تھے۔ انھوں نے جو ایک بار اس میدان میں قدم رکھا تو آج تک وہ اس سے باہر نہیں نکلے۔ آپ سمجھ گئے ہوں کہ یہ میدان ہے ریڈیو نشریات کا۔ شکیل اختر تادم تحریر اس میدان کے واحد سورما ہیں۔ کسی اور نے ادھر جھانکنے کی جرأت نہیں کی۔ یا تو کسی دوسرے کو اس کے مواقع نہیں ملے یا پھر اس کام میں جو پِتّا ماری ہے اس سے لوگ ڈر گئے۔
ایک وقت تھا جب آل انڈیا ریڈیو پر نشر ہونے والے اردو پروگراموں پر مشتمل ایک رسالہ ”آواز“ کے نام سے شائع ہوا کرتا تھا۔ لیکن ایک عرصہ ہوا وہ بند ہو گیا۔ رسالہ تو رسالہ ہوتا ہے، اس کے، وقت کی گرد کے نیچے دب جانے کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ رسالوں کے مقابلے میں کتابیں زیادہ دیر پا ہوتی ہیں اور ان کو آسانی سے محفوظ بھی رکھا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر شکیل اختر اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں لہٰذاا نھوں نے ریڈیو نشریات کے ساتھ ساتھ اپنے نام کی بقا کا بھی انتظام کر لیا۔ ریڈیو پر نشر ہونے والے پروگراموں اور ٹاکس کو یکجا کرنا، ان کو سننا، پھر اسکرپٹ کی شکل دینا، پھر کتابت یا کمپوزنگ اور پروف ریڈنگ کی زحمت اٹھانا اور پھر اسے اشاعت کے مرحلے سے گزارنا کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لیے صبرِ ایوب کی ضرورت ہے اور بظاہر ایسا لگتا ہے کہ شکیل صاحب کو صبرِ ایوب کا وافر حصہ ملا ہوا ہے۔ جبھی تو وہ جس دن سے اس جانب یکسو ہوئے ہیں انھوں نے دوسری طرف نگاہِ غلط نداز بھی نہیں ڈالی۔ اگر مغربی بنگال اردو اکادمی کی فرمائش پر بنگال میں 1947 سے لے کر 2000 تک کی اردو صحافت کے سلسلے میں ان کی تحقیقی کتاب ”مغربی بنگال میں اردو صحافت“ کو مستثنیٰ کر دیا جائے تو اب تک ان کی جتنی بھی کتابیں شائع ہوئی ہیں وہ سب ریڈیو نشریات پر مبنی ہیں۔ جیسے کہ اردو میں نشریاتی ادب، یہ خلد بریں ارمانوں کی، ریڈیو انٹرویوز کا مجموعہ روبرو، عالمی ادب کے اہم کرداروں پر ٹاکس سیریز، ریڈیو ڈرامہ تاریخ و تکنیک، غالب پر ریڈیائی تحریروں کا مجموعہ غالب بصد انداز اور اردو نشریات مسائل اور امکات۔ اور اب موجودہ کتاب نشریاتِ سرور۔ ابھی شکیل اختر کی زنبیل میں کتنا خزانہ ہے اور وہ اس خزانے کو مکمل طور پر باہر لانے میں کب تک کامیاب ہو سکیں گے، کہنا مشکل ہے۔ مذکورہ تمام کتابیں ان کی تحقیقی کاوشوں کی مرہون منت ہیں۔
نشریاتِ سرور بھی ان کی جگر سوزی کا واضح نمونہ ہے۔ 376 صفحات پر مشتمل یہ کتاب انتہائی متنوع اور دلچسپ ہے۔ شکیل اختر نے جو 26 صفحات کا مقدمہ لکھا ہے وہ بجائے خود ایک کتابچہ ہے اور اس موضوع پر بھرپور مواد سے پُر ہے۔ اس کتاب کو انھوں نے چا رابواب میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے باب کا نام ہے ٹاکس۔ اس میں آل احمد سرور کی 38 ٹاکس شامل کی گئی ہیں۔ دوسرا باب ریڈیو فیچر پر مشتمل ہے۔ ان کی تعداد تین ہے۔ تیسرا باب ریڈیو انٹرویوز کا ہے۔ ان کی تعداد بھی تین ہے۔ چوتھا باب ریڈیو مباحثہ ہے۔ مباحثوں کی تعداد بھی تین ہی ہے۔
”ٹاکس“ مختلف موضوعات پر ہیں۔ کتاب کا پہلا باب کافی تفصیلی ہے۔ آل احمد سرور نے اپنی ٹاکس میں مختلف موضوعات پر گفتگو کی ہے جن میں تنقید بھی شامل ہے۔ چونکہ مجھے تنقید جیسے خشک موضوع سے کوئی دلچسپی نہیں اس لیے میں ان مضامین سے یا تو کترا کے نکل گیا یا پھر ان کو جستہ جستہ ہی دیکھا۔ البتہ دوسرے موضوعات پر جو مضامین ہیں ان کا بالاستیعاب مطالعہ کیا۔ ان میں سے کئی بے حد دلچسپ اور معلوماتی ہیں۔ ان مضامین میں سرور صاحب کے قلم کی شگفتگی اور نثر کا بانکپن دامنِ دل کو کھینچتا ہے۔ زبان کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی ہے۔ فقرے دلچسپ اور برجستہ ہیں۔ مثال کے طور پر ”اردو شاعری میں شہر“ کے زیرعنوان مضمون میں پہلے وہ شہروں کی تہذیب پر روشنی ڈالتے ہیں اور پھر ایک جگہ لکھتے ہیں:
”میر تقی میر اور نظیر اکبرآبادی اورمیر حسن نے شہر کی تنگ گلیوں، برسات میں کیچڑ اور مچھروں کی کثرت کا ذکر بھی کیا ہے۔ یہ شہر آجکل کے شہروں کی طرح غدار نہیں تھے۔ اس تہذیب کے تین مرکز تھے دربار، بازار اور خانقاہ۔ دربار میں بادشاہ اور اس کے امرا، بازار میں ہر طرح کے دکاندار اور خانقاہوں میں صوفی اور ان کے مرید۔ شاعر ایک طرف دربار سے، دوسری طرف خانقاہ سے اور تیسری طرف بازار سے رشتہ رکھتا تھا“۔
اس جملے میں شعرا کے سلسلے میں جو باریک طنز ہے اس کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔ انھوں نے شہروں کی تہذیب اور آرائش و زیبائش ہی نہیں شہر آشوب کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
ایک مضمون کا عنوان ہے ”شہر آرزو لکھنؤ“۔ اس میں وہ لکھنؤ کی تہذیب کو خراج تحسین بھی پیش کرتے ہیں اور اس تہذیب کے رفتہ رفتہ مٹ جانے کا مرثیہ بھی پڑھتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
”شہر بڑھ رہا ہے مگر اس کی لکھنویت ابھی ختم نہیں ہوئی ہے۔ آزادی کے بعد دہلی اور پنجاب کے فسادات کا اثر لکھنؤ پر بہت کم ہوا۔ …… 1947 میں کسی پناہ گزیں دکاندار نے ایک مفلوک الحال وثیقے دار سے پوچھا نواب صاحب تم پاکستان نہیں گئے۔ انھوں نے تڑخ کر جواب دیا میاں یہ تم اپنا ہندوستان پاکستان الگ رکھو یہ نکھلؤ ہے نکھلؤ۔ …… آپ لکھنؤ میں مونگ پھلی خریدیں تو اس پر پنی چڑھی ہوئی ہوگی۔ پان بنوائے ہیں تو گرمی میں برف کی سل پر ٹھنڈا کرکے دیں گے“۔
لیکن اسی مضمون میں وہ آگے لکھتے ہیں:
”یہ لکھنؤ اب بڑھتی ہوئی آبادی اور آجکل کی کاروباری ذہنیت سے متاثر ہوا ہے۔ شہر کی اپنی بولیاں کم سننے میں آتی ہیں۔ شور زیادہ ہونے لگا ہے۔ صرف گومتی اپنی نرم روی سے سکون کی دولت پیدا کرتی ہے۔ کاروبار شوق پر تجارت غالب آرہی ہے۔ شرر نے جس گزشتہ لکھنؤ کا دلآویز مرقع پیش کیا تھا وہ شفقِ شام میں دھندلا رہا ہے۔ مگر لکھنؤ پھر بھی شہر آرزو ہے“۔
یہ قصہ صرف لکھنؤ شہر کا نہیں بلکہ ہر اس شہر کا ہے جو تہذیبی مرکز ہوا کرتا تھا او رجو اپنے خاص طرزِ حیات سے جانا پہچانا جاتا تھا۔ یہ مضمون 1988 میں لکھا گیا تھا لیکن سرور صاحب کو آج لکھنؤ پر لکھنا ہوتا تو اس کی مٹتی ہوئی تہذیب پر ان کے نوحے میں مزید دل گرفتگی پیدا ہو جاتی۔
ایک مضمون ”گفتگو کے آداب“ ہے جس میں بات چیت کا سلیقہ سکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ وہ اس مضمون کا آغاز اپنے اس شعر سے کرتے ہیں کہ ”سرور آدابِ مستی کا تقاضہ اُن سے کیا کیجیے، کہ رندوں کو ابھی آدابِ محفل بھی نہیں آتے“۔ پھر لکھتے ہیں:
”تو جناب سچی بات یہ ہے کہ اگر زندگی کے آداب نہ آتے ہوں تو محفل کے آداب کیسے آئیں گے۔ اور آدابِ محفل نہ آتے ہوں تو گفتگو کے آداب کون برتے گا۔ گفتگو بھی ایک فن ہے۔ اس فن کے کچھ تقاضے ہیں۔ یہ فن فرصت چاہتا ہے، ریاض چاہتا ہے، خوشدلی کا تقاضہ کرتا ہے۔ موقع محل دیکھتا ہے، زبان کے اسالیب اور لہجوں سے آشنائی کا مطالبہ کرتا ہے۔ آجکل کا دور ایک اندھی دوڑ کا دور ہے۔ مشین کا دور ہے۔ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔ اس عالم میں ٹھکانے سے بات کرنے، اپنی کہنے اور دوسروں کی سننے کا موقع کوئی کہاں سے لائے۔ گفتگو کے آداب کے پیچھے صدیوں کی تہذیب کی کمائی ہے۔ زبان کے اسرار و رموز اور نوک پلک سے آگاہی، خوش دلی اور زندہ دلی، علمی مجلس کی روایات اور شربت، حقہ، پان، چائے، کافی قسم کے لوازمات بھی ہوتے ہیں۔ غالب نے غلط نہیں کہا ہے کہ پھر دیکھیے انداز گل افشانی گفتار، رکھ دے کوئی پیمانہ و صہبا مرے آگے“۔
یہ بھی ایک طرح سے تہذیب کی شکست و ریخت کا مرثیہ ہے۔ اب وہ معاشرت کہاں جس میں حقہ، پان، چائے اور شربت وغیرہ لوازمات کو بہت اہمیت حاصل تھی اور جو آداب محفل کا حصہ تو تھے ہی، جو ایک دوسرے کو باہمی یگانگت و رفاقت کی ڈور میں باندھ دیتے تھے۔ دراصل یہ مضمون صدیوں کی تہذیب کے مطالعے کا نچوڑ ہے۔ آل احمد سرور نے چھوٹے چھوٹے جملوں اور سادہ و سلیس فقروں میں ایسی گہری باتیں کہہ دی ہیں کہ ان کی تشریح کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہوں گے۔ اس مضمون کی زبان انتہائی شگفتہ اور دلپذیر ہے اور جو باتیں کہی گئی ہیں وہ براہ راست دل میں اتر جاتی ہیں۔
ایک اور دلچسپ مضمون جو ایک طرح سے انشائیہ ہے رشوت کا بازار گرم کرنے والوں کے نام کھلا خط ہے۔ اس کا آغاز بھی ایک شعر سے ہوتا ہے جو یوں ہے کہ ”مشفق لکھوں شفیق لکھوں مہرباں لکھوں، حیران ہوں کہ آپ کو القاب کیا لکھوں“۔ پھر مضمون یوں شروع کرتے ہیں:
”شاید مہربان لکھوں۔ بلکہ مہربانو ٹھیک رہے گا۔ آپ ایک فرد تو ہیں نہیں بہت بڑی جماعت ہیں اور آپ کا دائرہئ کار بھی ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ اور ہمارے یہاں مہربان کا لفظ بڑا پہلو دار ہے۔ یہ محبوب کے لیے بھی استعمال ہو سکتا ہے اور رقیب اور دشمن کے لیے بھی۔ تو میرے مہربانو! پہلی بات تو یہ کہ اگر چہ میرے یہاں سب خیریت نہیں ہے مگر میں بھلا آدمی ہوں۔ آپ کی خیریت نیک چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ مع متعلقین اور حوارین بخیر ہوں گے۔ خدا آپ کے کاروبار میں ترقی دے۔ خدا نخواستہ آپ کو کچھ ہو گیا تو پھر ان تاجروں، ان اہلکاروں، ان کلرکوں، ان پولیس والوں، ان چنگی والوں، ان دفتر والوں، ان افسروں اور ان سیاست دانوں کا کیا ہوگا جو آپ کے اقبال کے سائے میں کھاتے اور غراتے ہیں، پھلتے اور پھولتے ہیں اور اپنے قبیلے میں اضافہ کرتے ہیں“۔
یہ پورا مضمون نہ صرف دلچسپ ہے بلکہ اس میں جگہ جگہ باریک طنز کے نوکیلے خار بھی ہیں۔ مگر یہ نوکیلے خار قاری کو تکلیف دینے کے بجائے گدگداتے ہیں اور مسکرانے پر مجبور کرتے ہیں۔ یہ مضمون یکم ستمبر 1984 کو آل انڈیا ریڈیو کشمیر سری نگر سے نشر ہوا تھا۔ حیرت ہے کہ ایسا کاٹ دار مضمون جس کی زد افسر شاہوں اور سیاست دانوں پر بھی پڑ رہی ہے، کیسے نشر ہو گیا۔ اسے کیسے کلیرنس ملی۔ آل انڈیا ریڈیو کے افسران کو حکمرانوں کا ڈر نہیں لگا۔ دراصل اُس وقت اظہار خیال کی پوری آزادی تھی اور ریڈیو کو بھی بڑی حد تک، کم از کم ادبی مضامین کے سلسلے میں، یہ آزادی حاصل تھی۔ ورنہ میں سمجھتا ہوں کہ آج ایسے کسی انشائیے یا مضمون کے نشر ہونے کی شاید ہی گنجائش نکلے اور اگر نشر ہو جائے تو پروگرام کے کارپردازوں کو شو کاز نوٹس جاری ہو جائے۔
”سراغِ رفتگااں“ نامی مضمون بھی بڑا ہی شگفتہ اور برجستہ ہے۔ پہلا جملہ ہی کتنا معرکے کا ہے کہ ”ناصر کاظمی رفتگا ن کے سراغ میں اداس اداس پھرتے ہیں۔ اقبال کی تمام سرگشت کھوئے ہوؤں کی جستجو تھی۔ غالب کو رنگا رنگ بزم آرائیاں یاد تھیں“۔ اس مضمون کے پہلے ہی پیراگراف میں 35 شخصیات کو خوبصورت انداز میں یاد کیا گیا ہے۔ پھر انھوں نے ان یادوں کو پورے مضمون پر پھیلا دیا ہے۔ یہ مضمون پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ یوں تو تمام شخصیات کا ذکر سرور صاحب نے بڑے ہی دلنواز انداز میں کیا ہے۔ لیکن مجاز سے متعلق پیراگراف اتنا دلچسپ ہے کہ جی چاہتا ہے کہ اسے پیش کیا جائے۔ لکھتے ہیں:
”مجاز ایک شعلہ ایک شہابِ ثاقب تھا۔ کسی کا دشمن نہ تھا، صرف اپنا دشمن تھا۔ شراب اسے لے ڈوبی۔ بلا کے فقرے چست کرتا تھا۔ حاضر جوابی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا۔ ایک دفعہ بقرعید کے موقع پر لکھنؤ ریڈیو پر ایک چھوٹا سا مشاعرہ رکھا گیا تھا۔ اس زمانے میں وہ (یعنی مجاز) تقریباً بنجر ہو گیا تھا۔ مقصد یہ تھا کہ اس سے کچھ شعر کہلوائے جائیں۔ ایک دن پہلے کافی ہاؤس میں ملا۔ میں نے کہا مجاز کل تمھاری قربانی ہے۔ کہنے لگا سرور صاحب قربانی نہیں جھٹکا ہے۔ ایک شاعر نے میرے یہاں باتوں باتوں میں کہا کہ میرا ارادہ شادی کرنے کا ہے سوچتا ہوں کہ بیوہ سے کر لوں۔ مجاز بھی بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے مجاز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا سنتے ہو ان حضرت کے ارادے کیا ہیں؟ بے ساختہ کہنے لگا حضرت سوچیے مت شادی کر ہی ڈالیے۔ بیوہ تو آپ سے شادی کے بعد ہو ہی جائے گی“۔
ایک مضمون کا عنوان ہے ”گر کبھی فرصت کے روز و شب ملیں“۔ اس میں بھی مختلف حوالوں سے رفتگاں کو یاد کیا گیا ہے۔ ایک مضمون سیاست دانوں پر ہے جس میں ماضی کے سیاست دانوں کے حوالے سے اُس وقت کے سیاست دانوں پر گفتگو کی گئی ہے۔ یہ مضمون 1986 میں لکھا گیا ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر آل احمد سرور آج زندہ ہوتے تو موجودہ سیاست اور سیاست دانوں پر ویسے ہی کچھ لکھتے۔ شاہد ہاں شاید نہیں۔
میں تنقیدی مضامین، تبصرے، فیچر، انٹرویوز اور اردو ادب میں جمود، آزاد نظم اور دیوان غالب پر مباحثوں کو دوسروں کی گفتگو کے لیے چھوڑتا ہوں۔ مجموعی طور پر یہ کتاب انتہائی دلچسپ، معلومات افزا اور طبیعت میں فرحت و انبساط کی لہریں پیدا کرنے والی ہے۔ ظاہر ہے ان مضامین کو یکجا کرکے دیگر تمام مراحل سے گزارنا پِتّے کو پانی کرنے کے مترادف ہے۔ ڈاکٹر شکیل اختر اس جگر سوزی کے لیے مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ریڈیو نشریات پر اپنا کام کرتے رہیں گے اور وقت کی گرد میں دب جانے والی نشریات کو الفاظ کا جامہ پہنا کر اور پکی روشنائی میں چھپوا کر اردو ادب کے اس ذخیرے کو امر بنانے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ بس ایک بات آخری بات یہ کہ ایسا لگتا ہے کہ یا تو پروف پر توجہ نہیں دی گئی یا کرکشن نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے املا میں اغلاط در آئی ہیں۔
تعارف و تبصرہ : شکیل رشید
اطہر فاروقی نہ اردو والوں کے لیے اجنبی ہیں اور نہ ہی انگریزی والے اُن سے ناواقف ہیں ۔ اردو کے ایک ایسے ادیب اور مترجم کے طور پر ، جسے اردو زبان کی سیاست کا مکمل ادراک اور شعور ہے ، اور جو آج کے ہندوستان میں مسلمانوں کے مسائل سے ، اور ان مسائل کے اردگرد بُنی گئی سیاست سے خوب واقفیت رکھتا ہے ، اطہر فاروقی ادیبوں کے حلقے میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے ہیں ۔ اطہر فاروقی اِن دنوں ’ انجمن ترقی اردو ( ہند ) نئی دہلی ‘ کے جنرل سکریٹری ہیں ، اور اُن کی سربراہی میں یہ قدیم ادارہ ترقی کی نئی منزلیں طے کر رہا ہے ۔ ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ یافتہ اطہر فاروقی اردو اور انگریزی دونوں زبانوں پر یکساں دسترس رکھتے ہیں ، اور ان دونوں ہی زبانوں میں ان کی کئی کتابیں ہیں ۔ وہ ایک لاجواب مترجم بھی ہیں ۔ حال ہی میں مجھے اردو کی تین کتابوں کے ان کے کیے انگریزی ترجمے موصول ہوئے ہیں ؛ ایک ترجمہ ’ سوانحِ دہلی ‘ کا Biography Of Delhi کے عنوان سے ہے ، دوسرا ’ بزمِ آخر ‘ کا ترجمہ The Last Gathering کے عنوان سے ہے اور تیسرا ترجمہ ’ بہادر شاہ ظفر ‘ کا The Life & Poetry Of Bahadur Shah Zafar کے نام سے ہے ۔ پہلی کتاب بہادر شاہ ظفر کے پوتے مرزا احمد اختر گورگانی کی تحریر کردہ ہے ۔ یہ کتاب جیسا کہ اس کے نام ’ سوانحِ دہلی ‘ سے ظاہر ہے قدیم دہلی کی تاریخ ہے ، لیکن تاریخ کے ساتھ ساتھ یہ مغلیہ خاندان کے آخری دنوں اور ایک تہذیب کی زبوں حالی کا نوحہ بھی ہے ۔ چونکہ اسے خود ایک شہزادے ، آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کے پوتے مرزا احمد اختر گورگانی نے تحریر کیا ہے ، اس لیے اس میں دہلی کی تباہی و بربادی کے آنکھوں دیکھے ایسے واقعات بھی آ گیے ہیں جنہیں دہلی سے باہر رہنے والوں کے لیے دیکھنا اور سمجھ پانا ممکن نہیں تھا ۔ اطہر فاروقی نے کتاب کے ’ تعارف ‘ میں جہاں کتاب اور اس کے ترجمے کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے وہیں چند روایات کی صداقت کو مشتبہ قرار دیا ہے ، مثلاً ایک روایت کے مطابق 1857 کی جنگ آزادی کے بعد جب دہلی اور مغلیہ خاندان پر انگریزوں کا عتاب نازل ہوا تو مرزا احمد گورگانی اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ کیرانہ جاکر چھپ گیے اور یونانی حکمت سے بیس سے پچیس سال تک روزی روٹی کماتے رہے ، اور جب ان کی موت کے بعد ان کے اسباب سے ’ سوانح دہلی ‘ کا مسودہ برآمد ہوا تب لوگوں نے جانا کہ یہ عسرت کی زندگی گزارنے والا شخص ایک شہزادہ تھا ! اطہر فاروقی لکھتے ہیں کہ کیرانہ دہلی سے بہت دُور نہیں تھا کہ انگریز مرزا کی موجودگی سے لاعلم رہتے ، بالخصوص اس لیے کہ انگریزوں کے جاسوس چپے چپے پر پائے جاتے تھے ۔ اطہر فاروقی اسی کتاب سے یہ دلیل دیتے ہیں کہ مرزا انگریزوں کی مرضی سے کیرانہ میں رہے اور ان ہی کی مرضی سے یہ کتاب بھی لکھی ، اور اس کا اندازہ اس کتاب میں انگریزوں کے لیے پائے جانے والے عاجزانہ اور خوشامدانہ الفاظ ہیں ۔ کتاب آٹھ ابواب اور اطہر فاروقی کے انتہائی اہم فٹ نوٹس پر مشتمل ہے ۔ آخری باب انگریزوں کے اندازِ حکمرانی کی مدح میں ہے ، اس کا آخری جملہ ہے : ’’ اور اب ملک بھر میں امن ہی امن ہے ‘‘۔ ایک باب دہلی کے زوال اور 1857 کی تباہی پر ہے ۔ مرزا نے اس جنگ کو ’ بغاوت ‘ قرار دیا ہے ۔ ضعیف بہادر شاہ ظفر کو ’ مجبور اور بےبس ‘ لکھا ہے ، اور انگریزوں کو ’ آقا ‘ کہا ہے ۔ یہ 92 صفحات پر مشتمل ایک مختصر مگر اپنے دور پر روشنی ڈالتے والی اہم کتاب ہے ۔ انگریزی ترجمہ ’ رولی بکس، دہلی ‘ نے شائع کیا ہے ، قیمت 595 روپیے ہے ۔ انتساب دہلی کی تاریخ سے مکمل واقفیت رکھنے والی دو خواتین نارائنی گپتا اور سوپنا لڈل کے نام ہے ۔
’ بزم آخر ‘ کا ترجمہ بھی ’ رولی بکس ‘ سے شائع ہوا ہے ۔ یہ کتاب مغل دربار کے روزمرہ کے معمولات کے آنکھوں دیکھے حال پر مشتمل ہے ۔ سوانح دہلی کی طرح یہ بھی بہادر شاہ ظفر کے دور کے حالات پر روشنی ڈالتی ہے ۔ اطہر فاروقی نے اس کتاب کا ’ تعارف ‘ کراتے ہوئے جہاں اس کے مصنف منشی فیض الدین کے طرزِ تحریر اور اس کی پیچیدگیوں کا ذکر کیا ہے وہیں یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ اس کتاب کو وہ تین سال کی مدت میں ، تراجم کے دو ڈرافٹ رد کرنے کے بعد ہی ، مکمل کر سکے اور یہ کہ اس کام میں بیدار بخت نے ان کی کافی مدد اور رہنمائی کی ۔ یہ کتاب بہادر شاہ ظفر کے دربار کے آداب و رسومات اور معمولات کے ساتھ قلعۂ معلیٰ میں منائے جانے والے تہواروں ، جیسے کہ عید ، نوروز ، دیوالی اور رکشا بندھن کی تفصیلات بتاتی اور دہلی کے انواع و اقسام کے کھانوں کی تفصیلات بھی پیش کرتی ہے ۔ اس کتاب کے فٹ نوٹس بھی اہم ہیں ۔ یہ کتاب 395 روپیے کی ہے ۔ اس کا انتساب صدیق الرحمن قدوائی اور محمد ذاکر کے نام ہے ۔
تیسری کتاب مرحوم اسلم پرویز کی مشہور و مقبول تحقیقی کتاب ’ بہادر شاہ ظفر ‘ کا ترجمہ ہے ۔ میں نے اسے پہلی بار انجمن کے مجلے ’ اردو ادب ‘ کے خاص نمبر کی صورت میں دیکھا تھا، پھر انجمن نے اسے کتابی صورت میں میں شائع کیا ، اور اب دہلی کے ایک پبلیکیشنز ’ ہے ہاؤس ‘ نے یہ انگریزی ترجمہ شائع کیا ہے ۔ یہ بہادر شاہ ظفر اور ان کی شاعری کے حوالے سے بھی ایک اہم کتاب ہے اور 1857 کی تاریج کے حوالے سے بھی ۔ کتاب میں حواشی کے ساتھ کتابیات بھی شامل ہے اور بہادر شاہ ظفر و اہل خانہ کی رنگین تصاویر بھی ۔ ایک تصویر شاہ کی گرفتاری کی اور ایک تصویر رنگون کی ہے ، جس میں ضعیف العمر شاہ اپنے دو اسیر شہزادوں کے ساتھ مایوس اور غمگین نظر آ رہے ہیں ، اور ایک انگریز ساتھ میں کھڑا ہوا ہے جس کے چہرے پر نخوت ہے ۔ ایک تصویر محاصرے سے قبل کے شہر دہلی کی ہے ۔ اور دو تصاویر زمانے کے کروٹیں بدلنے کی ؛ شاہ کی چھوٹی اور انتہائی خوبصورت بیگم زینت محل کی جوانی اور بڑھاپے کی ، جب وہ رنگون میں اسیری میں تھیں ۔ یہ بہادر شاہ ظفر پر ایک اہم کتاب کا خوبصورت ترجمہ ہے ۔ اس کا اطہر فاروقی کا تحریر کردہ ’ تعارف ‘ وقیع ہے ۔ وہ بتاتے ہیں کہ چونکہ یہ کتاب اردو زبان میں ہے اس لیے بہت سے لوگ اس کے پڑھنے سے محروم تھے ، اس وجہ سے اس کے انگریزی ترجمے کی اشد ضرورت تھی ۔ وہ بتاتے ہیں کہ یہ کتاب اپنے اندر اتنا مواد سموئے ہوئے ہے کہ اس سے مزید تحقیقات اور تشریحات کی راہیں کھل سکتی ہیں ۔ اسلم پرویز نے بہادر شاہ ظفر پر 1964 میں پی ایچ ڈی کی تھی ، انہیں 1965 میں ڈگری ملی مگر وہ مزید بیس سال تک تحقیق کرتے رہے اور پہلی دفعہ یہ کتاب 1857 میں شائع ہوئی ، پھر متعدد قانونی و غیر قانونی ایڈیشن شائع ہوئے ۔ ییہ کتاب 240 صفحات پر مشتمل ہے، قیمت 499 روپیے ہے ۔ انتساب بیدار بخت کے نام ہے ۔
ایک آخری سوال ؛ اطہر فاروقی نے یہ ترجمے کیوں کیے؟ تینوں کتابوں کے تعارف پڑھنے کے بعد اس سوال کا جواب مختصراً یہ نکلتا ہے کہ مغلوں کو ہندوستانی تاریخ نے بہت کوسا ہے ، انہیں ہندو دشمن قرار دیا ہے ، عیش پرست کہا ہے ، لیکن وہ ایسے نہیں تھے ۔ مغل ذہین تھے، مہذب تھے ۔ انگریزوں نے افسانہ تراشا کہ مغل خراب ہیں اور ان کی جگہ وہی یعنی انگریز حکومت کر سکتے ہیں ۔ بہادر شاہ ظفر جیسے بھی رہے ہوں آج کے سیاست داں اُس دور کے راجے مہاراجوں سے بدتر ہیں ۔ بہادر شاہ ظفر ہی کو سارے زوال کا قصوروار نہیں قرار دیا جا سکتا ، اور نہ ہی صرف مسلمان حکمرانوں کو ۔ ظفر ہماری ہندوستانی تاریخ کا اہم باب ہیں بلکہ نئے دور کے پیامبر ہیں ۔ لہٰذا ظفر کو اور مغلوں کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
تینوں ترجمے شاندار ہیں ، پیچیدگی سے پاک صاف ۔ میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں نے اردو کی ان کتابوں کو بھی دیکھا ہے جن کے یہ ترجمے ہیں ۔ اطہر فاروقی کو ان تراجم کے لیے بہت بہت مبارک باد ۔
مشرقی یوپی کے اضلاع میں(غیر منقسم)ضلع اعظم گڑھ اپنے علمی، ادبی اور تاریخی کارناموں کی وجہ سے جانا جاتا ہے، اہل اعظم گڑھ نے ضلعی سرحدوں؛ بلکہ ملکی سرحدوں کو عبور کرکے متعدد ممالک میں کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، یہاں کے مصنفین نے بکثرت کتابیں لکھی ہیں، اگر باشندگان اعظم گڑھ کی تصنیفات یا یہاں کی مؤقر شخصیات پر لکھی ہوئی کتابیں ہی یکجا کی جائیں تو ایک وسیع و عریض لائبریری تیار ہوسکتی ہے۔ بقول حقانی القاسی "علم اگر سونا ہے تو یقینا اعظم گڑھ سونا اگلنے والی سرزمیں ہے۔” یہاں کے قصبات و قریات بھی نہ صرف ہندوستان؛ بلکہ دیگر ممالک میں بھی مشہور و معروف ہیں، یہاں کے ایک ایک قصبات و قریات نے علم و فن میں ایسی ایسی ممتاز اور نمایاں شخصیات کو پروان چڑھایا ہے، جن کے علم وفن کے ڈنکے ملکی سرحدوں کو عبور کرگئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہاں کے قریات و قصبات کی تاریخ اور ان کے کارناموں پر علیحدہ علیحدہ کتابیں لکھی گئی ہیں، ان کی خدمات کو اجاگر کیا گیا نیز گمنامی یا کم نامی کی شکار شخصیات کے کارناموں سے اہل علم کو واقف کرایا گیا۔ اعظم گڑھ کے جن قریات و قصبات کی تاریخ پر کتابیں مرتب کی گئی ہیں، ان میں تذکرہ علماء مبارک پور از قاضی اطہر مبارک پوری،تذکرہ مشاہیر پورہ معرف، تذکرہ مشاہیر کوپا گنج از مولانا عثمان معروفی، تاریخ بندول،از چودھری رضی احمد، تاریخ جیراج پور از ضیاء الرحمن اعظمی، تذکرہ سخنوران (قصبہ)مئو از اثر انصاری، فیوض بمہور از ڈاکٹر محامد ہلال اعظمی، اور بندی کلاں ایک دستاویز از اخلاق احمد بندوی، تاریخ خیرآباد و تذکرہ علماء و دانشوران از عبداللہ خالد قاسمی و ضیاء الحق خیرآبادی اور تذکرہ علماء ابراہیم پور از حبیب الرحمن الاعظمی ابراہیم پوری وغیرہ قابل ذکر ہیں، اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی کی ڈاکٹر مرزا ندیم بیگ کی تازہ تصنیف "مسلم پٹی تاریخ کے آئینے میں” ہے۔
زیر نظر کتاب 176/ صفحات اور تین ابواب پر مشتمل ہے، پہلا باب ” تاریخ مسلم پٹی” صرف 16/ صفحات پر مشتمل ہے، جس میں مسلم پٹی کی قدامت، مغل خاندان کے ساتھ اہلیان مسلم پٹی کے جد امجد کی آمد، گاؤں کی عید گاہ و مساجد، قدیم رام جانکی مندر، مکتب اسلامیہ پر روشنی ڈالی گئی ہے، مزید برآں گاؤں کے تعلیمی معیار، گاؤں کی جغرافیائی حدود، رقبہ،آبادی اور گاؤں میں رائج میں فن شپاہ گری وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے۔ مسلم پٹی کی مکمل تاریخ کے متعلق یہ باب تشنہ ہے، گاؤں کی تاریخ کو سرسری طور پر بیان کردیا گیا ہے، اس میں بہت سی چیزوں کو اضافہ کیا جاسکتا تھا، گاؤں کی سماجی، معاشرتی، معاشی صورتحال وغیرہ متعدد گوشوں پر روشنی ڈالی جاسکتی تھی،اسی طرح مصنف نے "نسواں کالج” کا تذکرہ صرف ایک سطر میں کیا، اور مکتب اسلامیہ کی تاریخ میں اپنی تعلیم، ایک استاذ لال یادو کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا قلم ان کے ذاتی احوال کی جانب مڑ گیا اور مکتب کی تاریخ اور مکتب کی موجودہ صورتحال کے بجائے ان کے ذاتی احوال ہی پر ختم ہوگیا۔ مصنف نے کرنل اشفاق حسین کی کتاب کے حوالہ سے جنگ ازادی 1857ء میں مسلم پٹی کے کردار کو نقل کیا ہے کہ اس جنگ کے دوران 500/ اہلیان مسلم پٹی توپ اور اسلحوں سے لیس ہوکر نکلے تھے، اور اس کے نتیجے میں مسلم پٹی کی زمینیں ضبط کرلی گئی تھیں ( 25)
راقم الحروف کو اس کی استنادی حیثیت کے سلسلے میں تردد ہے؛ کیوں کہ راقم کے محدود مطالعہ میں مقامی مؤرخین اور نہ ہی بیرونی مؤرخین نے اس واقعہ کو اجمالا ذکر کیا ہے، مزید برآں صاحبِ گزیٹیر نے 1857ء میں اعظم گڑھ کی بغاوتوں کا تذکرہ اختصار کے ساتھ کیا ہے، اسی طرح 1857ء میں اعظم گڑھ میں ہونے والے واقعات کو ضلع مجسٹریٹ نے ایک رپورٹ میں بنارس بھیجا، اسی طرح اس وقت اعظم گڑھ میں مقیم انگریزی افسر جنرل الیکزینڈر نے وائسرائے الہ آباد کو ایک خط میں اعظم گڑھ کے واقعات کو تفصیل سے لکھا ہے(یہ رپورٹ اور خط پھول بدن سنگھ نے نقل کیا ہے، دیکھیں، اعظم گڑھ کا سوادھنا سنگرام راجنیتک اتہاس 35تا 45) لیکن اس میں کہیں بھی مسلم پٹی کا تذکرہ نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی یہ واقعہ ہے کہ اعظم گڑھ کے کسی گاؤں سے پانچ سو مسلح افراد مغل بادشاہ کے شانہ بشانہ لڑنے کے لیے نکلے تھے۔ مزید برآں مجاہد آزادی پھول بدن سنگھ نے جنگ آزادی 1857ء میں اعظم گڑھ میں شہید ہونے اور انگریزوں کے ذریعہ پھانسی دینے والوں کی ایک لمبی فہرست، اسی طرح مفررور افراد کی فہرست اور ان لوگوں کی فہرست نقل کی ہے جن کی جائدادیں اس انقلاب میں حصہ لینے کی وجہ سے ضبط کی گئی تھیں، اس میں کہیں بھی مسلم پٹی کے ایک فرد تک کا نام نہیں ہے۔ (واضح رہے کہ مذکورہ بالا واقعہ کا کرنل اشفاق حسین نے کوئی تحریری حوالہ بھی نہیں دیا ہے۔)
مصنف نے اس باب میں ‘اہم واقعات اور روایات ‘کے ضمن میں گاؤں میں تعزیہ داری، سلطان بیگ کی شادی، مندر کا دفینہ، کھیت میں قیمتی اشیاء کا ملنا اور ایک قدیم دو نالی بندوق وغیرہ کا تذکرہ کیا ہے۔
دوسرا باب "اہم شخصیات” ہے، اس باب میں 37/ شخصیات مستقل اور اس کے ضمن میں متعدد شخصیات کی حیات و خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ کتاب کا ایک اہم باب ہے، اس کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے اس مردم خیز گاؤں سے کیسی کیسی عظیم شخصیات نے جنم لیا اور ہندوستان ہی نہیں؛ بلکہ ملکی حدود کو تجاوز کرکے متعدد ممالک کو اپنی علمی و فنی کاوشوں کی جولان گاہ بنایا۔ یہاں کے لوگ کا زمانہ قدیم ہی سے تعلیم سے گہرا رشتہ رہا ہے اسی لیے اس باب کا ایک ایک ورق اس سرزمین کی عظمت کی گواہی دے رہا ہے۔ یہ سرزمین مرزا احسان اور اختر مسلمی جیسے شعراء کی جائے پیدائش رہی ہے۔ پاکستان کے سابق فوجی سربراہ جنرل مرزا اسلم بیگ کا تعلق اسی سرزمین سے ہے۔ اس باب نے کتاب کی اہمیت و افادیت میں اضافہ کردیا ہے۔مصنف نے شخصیات کی ترتیب میں نہ الف بائی ترتیب کی پیروی کی اور نہ ہی سن وفات و پیدائش کو معیار بنایا، بلکہ شخصیات کا تذکرہ اپنے والد ماجد سے کیا اور پیش لفظ میں بھی اس ترتیب کے متعلق کچھ نہیں لکھا، اسی طرح مصنف نے دیگر شخصیات کے تذکرے میں اختصار و جامعیت سے کام لیا، حتی کہ شاعر مرزا احسان کا تذکرہ4/ صفحات، مرزا اسلم بیگ کا تذکرہ 5/ اور اختر مسلمی کا تذکرہ 6/ صفحات میں کیا گیا ہے، جب کہ اپنے والد کے تذکرہ 10/ صفحات میں کیا جب کہ وہ کوئی علمی و ادبی شخصیت نہیں تھے، ممکن ہے کہ مصنف کا قلم جزبات میں بہہ گیا ہو۔ اس کے علاوہ بہت سی شخصیات کا تذکر ایک صفحہ یا اس سے کم میں کیا گیا ہے، یقینا ان کی زندگی کے کئی گوشے تشنہ رہ گئے ہوں، ممکن ہے کہ مصنف کو ان شخصیات کے متعلق تلاش بسیار کے باوجود بھی معلومات نہ مل سکی ہو۔
کتاب کا تیسرا باب بقول مصنف "بہت اہمیت کا حامل باب” گاؤں کے شجرہ نسب پر مشتمل ہے۔ اس باب میں مرزا مسلم بیگ کے دونوں بیٹوں کے شجرہ نسب کو تفصیل سے نقشہ کی صورت میں نقل کیا ہے۔ بقول حقانی القاسمی کہ ” اس کتاب میں شجرہ نسب کو بھی شامل کیا ہے۔ یہ ایک وقت طلب کام تھا۔ تحفظ انساب کے باب میں یہ ایک اہم کوشش ہے۔”
کتاب کے شروع میں فاضل مصنف کے پیش لفظ کے علاوہ، پروفیسر اختر الواسع کی تقدیم، سہیل انجم کی ‘ڈاکٹر مرزا ندیم بیگ کی ایک قابل قدر کاوش’، یاور رحمن کی ‘مجھے تاریخ دہراتی رہے گی ہر زمانے میں’ اور ڈاکٹر مرزا سلمان سلطان بیگ کا مقدمہ ہے۔
مجموعی اعتبار سے یہ ایک عمدہ کاوش ہے، فاضل مصنف نے اس کتاب کے ذریعہ ایک مردم خیز گاؤں کی تاریخ کو ہیمشہ کے لیے محفوظ کردیا، مزید برآں تاریخی و تذکرہ کی کتابوں،رسائل و جرائد اور متعدد افراد سے ملاقات کرکے مسلم پٹی کی کئی گمنام یا کم از کم کمنام شخصیات کو ہمیشہ کے لیے زندہ جاوید کردیا۔ فاضل مصنف اس اہم کاوش کے لیے اہم علم کی جانب سے مبارک باد کے کے مستحق ہیں۔ کتاب کی زبان سہل ہے، کتاب میں جا بجا تصاویر کو استعمال کیا گیا ہے، جو کہ اس طرح کی کتابوں میں ایک نئی کوشش اور طریقہ ہے۔ کتاب کا ورق عمدہ اور سرورق دیدہ زیب ہے۔ کتاب بھارت میڈیکل اسٹور سرائے میر سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
ایک بہترین تحقیقی کتاب ’ مولانا محمد عثمان فارقلیطؒ : صحافی ، مناظر ، مفکر ‘
تعارف و تبصرہ : شکیل رشید
سہیل انجم اردو کے ایک ایسے صحافی ہیں جن پر مجھے اکثر رشک آتا ہے ۔ رشک کا سبب ان کی لکھی اور مرتب کی ہوئی درجنوں کتابیں ہیں ۔ صحافت پر ، سیاست پر ، اشخاص پر ، اسفار پر ! اُن کی تازہ ترین کتاب ’ مولانا عثمان فارقلیطؒ : صحافی ، مناظر ، مفکر ‘ ہے ۔ بتاتا چلوں کہ سہیل انجم سے میرا تعارف ایک کتاب کے حوالے ہی سے ہوا تھا ، حالانکہ ایک صحافی کے طور پر وہ میرے لیے انجان نہیں تھے ، جیسے دُنیا بھر کے لوگ اُنہیں پڑھتے ہیں میں بھی پڑھا کرتا تھا ، اور اب بھی پڑھتا ہوں ۔ وہ عالمی شہرت رکھتے ہیں اور ریڈیو وائس آف امریکہ واشنگٹن ( اُردو سروس ) سے وابستہ ہیں ۔ خیر بات اُن سے تعلق کی تھی ؛ ہوا یہ کہ عروس البلاد ممبئی کی اُردو کتابوں کی تاریخی دکان مکتبہ جامعہ میں جو شاعروں ، ادیبوں ، دانشوروں اور صحافیوں کے مل بیٹھنے کا ایک اڈہ بھی ہے ، ایک روز ایک کتاب پر نظر پڑی ، نام تھا ’ میڈیا روپ اور بہروپ ‘ سہیل انجم کے مضامین کا مجموعہ ۔ کتاب کے صفحات الٹ پلٹ کر دیکھے ۔ مضامین کے عنوانات دل کو لگے ۔ چونکہ میڈیا ہی سے میرا تعلق ہے اس لیے کتاب خرید لی ، پڑھی اور سہیل انجم سے ہمیشہ کے لیے دوستی کرلی ۔ گویا کہ یہ کتاب میرے اور مصنف کے درمیان رابطے کے لیے ایک پُل بن گئی ۔ تعلقات کی پختگی میں ان کی دو کتابوں ’ بازدیدِ حرم ‘ اور ’ دینی رسائل کی صحافتی خدمات ‘ کا اہم کردار تھا ۔ مجھے دونوں ہی کتابیں اسلوب کے لحاظ سے بھی اور معلومات کے لحاظ سے بھی پسند آئیں ۔ اور میں نے سہیل انجم کو فون کرکے مبارک باد دی ۔ مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایک کتاب نے سہیل انجم تک پہنچایا ، ان سے یکطرفہ دوستی کروائی ، پھر ان کی دوسری کتابیں رابطے کا ذریعہ بنیں اور آج بھی رابطے کا ذریعہ ہیں ۔ سہیل انجم صحافی تو اچھے ہیں ہی ایک اچھے ادیب بھی ہیں ۔ وہ جس موضوع پر بھی لکھتے ہیں اس کا حق ادا کردیتے ہیں ۔ اکثر کتابیں میڈیا ہی کے موضوع پر ہیں لیکن سہیل انجم کے قلم کی روانی ، جملو ں کی سلاست اور ادائیگی اور اپنی بات کہنے کے لیے مناسب لفظوں کے انتخاب نے ان کی تحریروں کو ادبی رنگ دے دیا ہے ۔ میڈیا کے موضوع سے ہٹ کر جو کتابیں ہیں ان میں ادبی رنگ مزید ابھر کر سامنے آتا ہے ۔ لیکن آج اُن کتابوں پر نہیں اُن کی نئی کتاب ’ مولانا عثمان فارقلیطؒ : صحافی ، مناظر ، مفکر ‘ پر بات کرنی ہے ۔
مولانا محمد عثمان فارقلیطؒ متحدہ اور منقسم ہندوستان کے چند ممتاز ، بے باک ، سنجیدہ اور قابلِ احترام صحافیوں میں سے ایک تھے ، لیکن بس گنے چُنے ہی لوگ ہوں گے جنہوں نے یہ نام سُن رکھا ہوگا ۔ ہماری نظروں سے مولانا فارقلیطؒ کی حیات و خدمات فراموش اور نظر انداز ہیں ۔ اور صرف مولانا فارقلیطؒ کیوں ہم نے اپنی تقریباً تمام قابلِ احترام شخصیات کو فراموش اور نظر انداز کر رکھا ہے ۔ سہیل انجم کو یہ برداشت نہیں ہوا کہ ایک بڑے صحافی کی زندگی اور اس کی خدمات سے لوگ غافل رہیں ، لہٰذا انہوں نے یہ کتاب بڑی محنت سے مرتب کرکے ہمارے سامنے پیش کر دی ۔ وہ اس بارے میں ’ پیش لفظ ‘ ، میں جس کا عنوان ہے ’ مدتوں رویا کریں گے ‘ ، اس کتاب کے مشمولات کا تعارف اور کتاب کو مرتب اور پیش آنے والی مشکلات کا ذکر کرتے ہوے لکھتے ہیں : ’’ میں اپنے گھر کے علمی ماحول میں حضرت مولانا ڈاکٹر حامد الانصاری انجم کی زبانی جن بزرگوں کے بارے میں اکثر سنا کرتا تھا اُن میں ایک نام مولانا محمد عثمان فارقلیطؒ کا بھی تھا ۔ جب بھی کبھی تقسیم ملک کے بعد کے اندوہناک واقعات کا ذکر ہوتا یا صحافت اور مسلم صحافیوں کا تذکرہ ہوتا تو مولانا فارقلیطؒ کا ذکر بھی ضرور ہوتا ۔ ہندوستانی مسلمانوں میں اخلاقی قوت اور عزم و حوصلہ پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی صحافتی خدمات کا بھی ذکر ہوتا ۔ میرے دل میں ہمیشہ یہ خواہش رہی ہے کہ میں اس عظیم صحافی کی خدمات کو خراجِ عقیدت پیش کروں…‘‘ ، اور یہ کتاب سہیل انجم کا مولانا فارقلیطؒ کو خراجِ عقیدت ہے ۔ بڑی محنت سے مولانا فارقلیطؒ کے کچھ اداریے جمع کر کے ، اپنے خرچ سے ، سہیل انجم نے ایک کتاب ’ عظیم صحافی مولانا محمد عثمان فارقلیط کے منتخب اداریے ‘ کے نام سے محدود تعداد میں شائع کروائی تھی ، جو لوگوں تک نہیں پہنچ سکی ، لیکن وہ لگے رہے اور مضامین اور اداریے جمع کرتے رہے جس کے نتیجے میں یہ کتاب لوگوں کے ہاتھوں تک پہنچ سکی ۔ اس بار اس کتاب کو ’ مکتبہ ضیاء الکتب ، خیرآباد ، ضلع مئو ‘ کی صورت میں ایک مخلص ناشر بھی مل گیا ، جس کے ذریعے کتاب کی پہنچ دور دور تک ممکن ہو سکی ۔
کتاب چار ابواب میں منقسم ہے ، اس سے پہلے ’ پیش لفظ ‘ کے علاوہ مولانا فارقلیطؒ کے صاحبزادے محمد فاروق ، پروفیسر اخترالواسع ، مولانا ضیاء الحق خیرآبادی اور فاروق ارگلی کے وقیع مضامین ہیں ۔ محمد فاروق نے یادوں کو کھنگالا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ تحریک پاکستان کے جوش میں بھرے مسلمان کیسے مولانا فارقلیطؒ پر آوازے کستے اور ان کی ٹوپی اچک لیتے تھے ، اس لیے کہ مولانا فارقلیطؒ تقسیم کے خلاف تھے اور ’ زم زم ‘ اخبار میں تحریک پاکستان کے خلاف لکھا کرتے تھے اور جمعیۃ علماء ہند ، کانگریس اور اخبار ’ الجمعیۃ ‘ سے وابستہ تھے ۔ مولانا فارقلیطؒ کی گھریلو زندگی پر یہ مضمون خوب روشنی ڈالتا ہے ۔ لکھتے ہیں کہ مولانا صرف قمیص پاجامہ پہنتےتھے ۔ گھر میں چاہے جس قدر شور مچا ہو قلم کاغذ سے اٹھتا نہیں تھا ۔ فضول خرچی کے خلاف تھے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ مولانا ساری عمر بھاگ دوڑ کرتے رہے ، قوم کے لیے لکھتے رہے ، ان کے حقوق کے لیے لڑتے رہے ، کبھی مایوس ہوے ، کبھی ناراض ہوے ، کبھی مشورے دیے ‘‘۔
بابِ اوّل ’ حرفِ اعتبار ‘ کے عنوان سے ہے ، اس باب میں 19 ادیبوں کے ، جن میں مولانا امداد صابری ، مالک رام ، مولانا قاضی اطہر مبارک پوری ، مولانا عبدالماجد دریابادی ، حفیظ نعمانی وغیرہ کے نام نمایاں ہیں ، ۲۰ مضامین مولانا فارقلیطؒ کی حیات و خدمات پر شامل ہیں ۔ باب دوم ’ خودنوشت ‘ کے عنوان سے ہے ، اس میں مولانا کی وہ نامکمل خودنوشت شامل ہے جو ’ الجمعیۃ ‘ سے ریٹائرمنٹ کے بعد انہوں نے لکھنی شروع کی تھی ۔ یہ اپنے دور کی تاریخ ہے ۔ باب سوم ’ مولانا محمد عثمان فارقلیطؒ کے منتخب مضامین ‘ کے عنوان سے ہے ، اور باب چہارم ’ مولانا محمد عثمان فارقلیطؒ کے منتخب اداریے ‘ کے عنوان سے ۔ اس باب کو آٹھ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے ، ’ مسلمانوں سے خطاب ‘ ، ’ عالمِ اسلام ‘ ، ’ فرقہ وارانہ فسادات ‘ ، ’ سنگھ پریوار ‘ ، ’ اخبارات کا رول اور رویہ ‘ ، ’ ہندو مسلم اتحاد اور قومی یکجہتی ‘ ، ’ اردو کا مسٔلہ ‘ اور ’ ہند پاک تعلقات ‘۔ غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مذکور مسائل جو گزرے ہوے کل کو تھے آج بھی برقرار ہیں ۔ مولانا کے سنگھ پریوار پر لکھے اداریوں کی چند سطریں پیش ہیں : ’’ چونکہ ہندوستانی مسلمانوں کو ہندوازم میں ؒضم کرنے کا پروپیگنڈہ زور و شور سے شروع کر دیا گیا ہے اور گولوالکر سے لے کر اُن کے تمام چیلوں نے یہی راستہ اختیار کیا ہے اس لیے انہوں نے مسلمانوں کو مرتد بنانے کی ایک ’ معقول ‘ وجہ بھی گھڑ لی ہے ۔ وہ کہتے ہیں موجودہ مسلمانوں کے قدیم بزرگ ہندو تھے اور ان کو مسلمان حکمرانوں نے تلوار اور حکومت کے زور سے مسلمان بنایا تھا ۔ اس لیے مسلمانوں کے لیے یہ بہترین موقع ہے کہ وہ اپنے آبائی مذہب میں واپس آجائیں اور ہندو راشٹر کا جزو بن کر آرام و چین سے رہیں ‘‘۔ یہ تمام اداریے گزرے ہوے کل میں لکھے گئے تھے لیکن آج بھی ہماری رہنمائی کرتے ہیں ۔ سہیل انجم اس کتاب کے لیے بہت بہت مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ کتان سفید مضبوط کاغذ پر خوبصورت انداز میں شائع ہوئی ہے ۔ صفحات 512 ہیں ، قیمت 700 روپے ہے ۔ اسے موبائل نمبر 9818195929 اور 9235327576 پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند
دارالعلوم دیوبند کے نسبتاً نئے اساتذہ میں جو حضرات اپنی عاجزی، تواضع، بے تکلفی اور سادگی میں معروف ہیں ان میں سے ایک نام حضرت مولانا مفتی اشتیاق احمد قاسمی دربھنگوی مدظلہ کا بھی ہے۔ تحریر و تقریر، زبان و ادب پر قدرت، تصنیف و تالیف اور ترجمہ و مضمون نگاری وغیرہ جیسی دسیوں خوبیوں سے آراستہ یہ شخصیت اپنی سادگی کی وجہ سے قدرے ممتاز اور مقبول، نیز والد گرامی حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ سے ایک خاص اور بے غرض تعلق، دارالعلوم دیوبند میں منصب تدریس پر فائز ہوئے تو والد گرامی نے ان کو تہہ دل سے مبارک باد پیش کی، فرط مسرت کا اظہار کیا، نیک خواہشات اور دعاؤں سے نوازا۔
مادر علمی سے فارغ ہوئے تو جنوب کی مرکزی درس گاہ دارالعلوم حیدرآباد میں تدریسی خدمات انجام دیں، وہیں رہ کر فن میراث کی مشہور و پیچیدہ کتاب سراجی کی اردو شرح بنام طرازی لکھی۔ اللہ کے فضل و کرم، مصنف کی عرق ریزی اور حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب کی نظر ثانی کے نتیجے میں یہ کتاب بے حد مقبول ہوئی اور تادم تحریر اس کے درجنوں ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ مقبولیت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب بنگلہ اور پشتو زبان میں بھی شائع ہو چکی، گویا اس کا فیض ملکی حدود سے بلند ہو کر عالمی ہو گیا ہے۔
اس کتاب کے علاوہ چھوٹی بڑی کئی کتابیں ان کے قلم سے منصہ شہود پر آ چکی ہیں، سینکڑوں مضامین معتبر اردو رسائل و جرائد میں شائع ہو کر قبولیت حاصل کر چکے۔ ماہنامہ دارالعلوم میں پابندی کے ساتھ نئی کتابوں پر تبصرے بھی ان ہی کے گہربار قلم سے آتے ہیں۔ عالمیت و افتاء کی سند کے ساتھ ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی ہولڈر بھی رہ چکے ہیں، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی (حیدرآباد) سے "چند منتخب علمائے دیوبند کی شاعری کا تجزیاتی مطالعہ“ کے موضوع پر اپنا مقالہ پیش کر چکے ہیں۔
سردست ان کی جانب سے قرآن کریم کا ایک اردو ترجمہ منظر عام پر آیا ہے، جس کا نام ہے "سب سے آسان ترجمہ”
یوں تو کتابی دنیا میں علمائے دیوبند کی جانب سے تحریر کردہ بہت سے اردو تراجم منظر عام پر آ چکے ہیں، جن میں ترجمہ حضرت شیخ الہند، توضیح القرآن (آسان ترجمہ قرآن)، نعم البیان، اضواء البیان وغیرہ طلبہ و علماء میں کافی مقبول ہیں، تمام تراجم کی اہمیت اور انفرادیت اپنی جگہ مسلم ہے۔
ترجمہ شیخ الہند کی زبان ٹکسالی ہے اور وہ تحت اللفظ تراجم میں ایک انفرادی شان اور لسانی شکوہ کا حامل ہے، ایک طویل عرصے تک سعودی حکومت کی جانب سے اس کی اشاعت اور اردو داں حجاج کرام میں اس کی تقسیم ہوتی رہی، یہاں تک کہ کچھ "مسلکی متعصبین” نے اس کی با فیض اشاعت کو روک دیا۔
حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب مد ظلہ نے کچھ سالوں قبل توضیح القرآن نامی مختصر تفسیر لکھی، جسے آسان ترجمہ قرآن کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، یہ در اصل ترجمہ شیخ الہند کی نہایت عمدہ تسہیل ہے، اس پر آسان زبان میں مختصر تفسیری فوائد عوام کو قرآن کریم کا بنیادی مفہوم سمجھانے کے لیے کافی ہیں۔
کچھ دنوں پہلے ایک ترجمہ "نعم البیان” کے نام سے دو جلدوں میں منظر عام پر آیا، یہ ترجمہ دارالعلوم دیوبند کے سینئر استاذ حدیث حضرت مولانا نعمت اللہ صاحب دامت برکاتہم کا ہے، اس کا امتیاز ان محذوفات کا اظہار ہے جن کی ضرورت قرآن کریم کا ترجمہ کرنے والے طلبہ و طالبات کو اکثر پیش آتی ہے۔
حضرت مولانا محمد یوسف متالا کا ترجمہ "اضواء البیان” بھی تحت السطر ہونے کی وجہ سے طلبہ و طالبات میں کافی مقبول ہوا۔
پیش نظر ترجمہ بہت سی خصوصیات کا حامل ہے :
1. قرآن کریم حافظی (پندرہ سطری) کو معیار بنایا گیا ہے، گویا ہر صفحہ پر اسکین شدہ حافظی قرآن کا ایک صفحہ موجود ہے اور چہار جانب مناسب رسم الخط میں آیت نمبر کے ساتھ سلیس، بلکہ آسان ترجمہ موجود ہے۔
2. مشکل و دقیق الفاظ سے حتی الامکان احتراز کیا گیا ہے، ساتھ ہی فارسی و عربی اور متروک الفاظ سے بھی اجتناب کی کوشش کی گئی ہے۔
3. اکابر اہل سنت و الجماعت کے 19 تراجم سامنے رکھ کر ترجمہ کو "اپنی استطاعت کے مطابق” سب سے آسان بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
4. یہ تلاوت اور ترجمہ، دونوں کے لیے حسب ضرورت استعمال کیا جا سکتا ہے، ورنہ عام طور پر تراجم میں موجود متن میں تلاوت کرنا دشوار ہوتا ہے۔
یہ چند خصوصیات راقم نے محسوس کی ہیں، بہتر بلکہ اصول تو یہی ہے کہ پوری کتاب پڑھے بغیر اس پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے، تاہم اس کو مکمل بالاستیعاب پڑھنا ممکن نہ تھا، البتہ جستہ جستہ مشکل مقامات کو دیکھا تو ترجمہ کو آسان تر پایا۔
نیز دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی دامت برکاتہم، حضرت مولانا مفتی محمد امین پالن پوری مدظلہ اور مظاہر علوم کے استاذ و مفتی حضرت مولانا مفتی محمد طاہر صاحب وغیرہم کی تصدیقات و تائیدات اس کے استناد میں اضافہ کرتی ہیں۔
کتاب کی اشاعت بہت معیاری ہے، کاغذ صاف ستھرا، طباعت اعلی، سرورق جاذب نظر اور جلد بہت مضبوط ہے۔
کتاب کے ناشر کے طور پر "مکتبہ ادیب دیوبند” کا پتہ درج ہے، جو مترجم مدظلہ کا ہی نوخیز اشاعتی ادارہ ہے، عنقریب اسی مکتبہ سے طرازی کا "تصحیح و اضافہ شدہ” جدید نسخہ بھی شائع ہونے کی امید ہے۔ ان شاء اللہ
اللہ تعالیٰ اس ترجمہ کو دارین میں مقبولیت بخشے اور اس میں معاون بنے ہر ہر فرد کو اپنی شایان شان اجر عطا فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
پرنسپل، سی۔ایم کالج، دربھنگہ
شاعر یا ادیب اپنے عہد کا عکاس ہوتا ہے ۔وہ جس ماحول کا پروردہ ہوتا ہے اس کے افکار ونظریات اسی کے آئینہ دارہوتے ہیں کہ کوئی بھی شخص اپنے گردو پیش سے بے خبر نہیں رہ سکتا۔ اس لیے ادیب یا فنکار اپنے ماحول سے اثر انداز ہوتا ہے تو اسے اپنے فکر وفن کی صورت میں لوٹاتا بھی ہے۔ کیوں کہ اگر کوئی واقعہ اس کے گرد وپیش میں رونما ہوتا ہے تو اس سے وہ بھی متاثر ہوتاہے۔ ایک عام آدمی اور فنکار میں بس یہی فرق ہے کہ عا م آدمی کے اوپر جو کچھ گذرتا ہے وہ اسے اپنے آپ تک ہی محدود رکھتا ہے جب کہ ایک فنکار اور ادیب اپنے اوپر ہوئے اثرات کو اوروں تک بھی منتقل کرنے کا کام کرتا ہے۔ساحرؔ کا یہ شعر اسی حقیقت کا ترجمان ہے ؎
دنیا نے تجربات وحوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
عالمی ادب میں اپنی مستحکم شناخت رکھنے والے معروف مفکر تینؔ (Tain) نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ:
’’فن کوئی ایسی شئے نہیں جو اپنے ماحول سے منقطع اور بے نیاز ہو لہٰذا اسے سمجھنے کے لئے ہمیں اس عہد کے ذہنی اور معاشرتی حالات ومحرکات کا لازمی طورپر مطالعہ کرنا ہوگا جو اس کی تخلیق کا باعث ہوئے ہیں‘‘۔(فلاسفی آف آرٹ)
ساحرؔ لدھیانوی کے حالاتِ زندگی پر سرسری نگاہ ڈالنے سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ ساحرؔ ایک ایسے فنکار تھے جن کا مقدر ہی احساس کی بھٹی میں جل کر کندن بنا تھااور ہم سب اس ازلی وابدی حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ کوئی بھی فن اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا خالق احساس کے شعلوں میں جل کر اپنے خونِ جگر سے اس فن کی تخلیق نہیں کرتا۔جیسا کہ علامہ اقبالؔ نے کہا ہے کہ ؎
نقش ہیں سب نا تمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
ساحرؔکی شاعری کے مطالعے سے یہ عقدہ اجاگر ہوتا ہے کہ ساحرؔ نے اپنے فن کی تخلیق خونِ دل میں انگلیاں ڈبو کر کی ہے۔انہوں نے اپنی تخلیقات میں وہی کچھ پیش کیا جو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دل میں محسوس کیا ۔ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ایک سچا ادیب وہ ہے جس کا ادب اورفن اپنے عہد کا آئینہ ہوتا ہے ۔اس قول کی روشنی میں ساحرؔ ایک سچا ادیب وفنکار ہے کہ ان کا فن اپنے عہد کی ہو بہو عکاسی کرتا ہے ۔ساحرؔکے دور میں جو سیاسی بحران اورسماجی برائیاں تھیں،مزدوروں اور کسانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے، عورتوں کاجس طرح استحصال ہو رہا تھا ساحرؔ نے ان تمام حقائق کو اپنی آنکھوں سے نہ صرف دیکھابلکہ انہیں اپنے فکرو فن کے ذریعے ہمارے سامنے پیش بھی کیا۔مختصر اً ساحرؔ لدھیانوی کی شاعری ان کے تجربات اور مشاہدات کا ہی ثمرہ ہے۔
یہاں یہ ذکر بھی لازم ہے کہ ساحرؔ لدھیانوی نے دیگر ترقی پسندوں کی طرح صرف اور صرف گھن گرج کی شاعری نہیں کی ہے۔ ان کی نظمیں ہوں کہ غزلیں ، موضوعی اعتبار سے ترقی پسندیت کی ترجمان ضرور ہیں لیکن ان کے یہاں ایک ایسی آہستگی ہے جو کلاسیکیت کی آنچ معلوم ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی فلمی شاعری بھی ادب عالیہ کی بہترین مثال ہے اور ادبیت کی فضا سے لبریز ہے۔دیگر فلمی شاعروں کے یہاں یہ وصف دیکھنے کو نہیں ملتا ، یہی وجہ ہے کہ ساحرؔ لدھیانوی اپنے ہم عصر فلمی شاعروں کی صف میں بھی قد آور رہے اور دنیائے ادب میں بھی انہیں امتیاز حاصل رہا۔ساحرؔلدھیانوی کے سینکڑوں اشعار زبان زدِ خاص وعام ہیں تو اس کی واحد وجہ ان کا منفرد اسلوب ہے اور ادبیت سے بھرپور فکرونظر کی ترجمانی ہے ۔
ساحرؔایک حساس دل کے مالک تھے اور جب ان کی آنکھوں نے دیکھا کہ غریب، مزدور ، کسان اور سماج کے پسماندہ طبقے کے افرادکودبایا وکچلا جا رہاہے،عورتوں کو محض ایک کھلونا تصو ر کیا جا رہا ہے تو وہ خون کے آنسو روتے ہیں اور ان تمام مظالم کے خلاف اپنے قلم کو جنبش دیتے ہیں ؎
مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے
کہ جب میں دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو
غریبوں ، مفلسوں کو ، بے کسوں کو بے سہاروں کو
سسکتی نازنینوں کو ، تڑپتے نوجوانوں کو
حکومت کے تشدد کو ، امارت کے تکبر کو
کسی کے چیتھڑوں کو اور شہنشاہی خزانوں کو
تو دل تابِ نشاطِ بزم عشرت لا نہیں سکتا
میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا
(نظم۔میرے گیت)
میرے خیال میں جس طرح اردو افسانہ نگاری میں پریم چندؔ او ر راجندر سنگھ بیدی نے عورتوں کے دکھ درد کو اپنی تخلیقات کے ذریعے اجاگرکیا ہے ٹھیک اسی طرح شاعری میں ترقی پسند شعرا بالخصوص ساحرؔ لدھیانوی نے عورتو ں پر ہو رہے ظلم وستم کی کھلے دل سے مذمت بھی کی اور ان کی عظمتوں کو قبول کرنے کے لیے ہمارے ضمیر کو دعوتِ فکر بھی دی ہے ۔ انہوں نے عورت ذات سے جس قدر محبت اور ہمدردی جتائی ہے اس کی مثال ہم عصر اردو شاعری میں کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی۔ وہ کہتے ہیں ؎
لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں
جبر سے نسل بڑھے ظلم سے تن میل کریں
یہ عمل ہم میں ہے بے علم پرندوں میں نہیں
ہم جو انسانوں کی تہذیب لیے پھرتے ہے
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
ساحرؔ تمام عمر انسانوں کے مسائل پر سوچتے رہے اور بھوک ، افلاس اور عورتوں کے استحصال کے مسائل کو اپنے غوروفکر کامحور بناتے رہے اس لیے جب وہ سالِ نو کا بھی گیت گاتے ہیں تو ان کی نگاہوں میں بھوک اور افلاس کا ہی منظر ہوتا ہے ۔ سالِ نو کے گیت میں لکھتے ہیں ؎
اک مفلس دہقاں کی بیٹی
افسردہ مرجھائی ہوئی سی
جسم کے دکھتے جوڑ دباتی
آنچل سے سینے کو چھپاتی
مٹھی میں ایک نوٹ دبائے
جشن منائو سالِ نو کے
بھوکے زرد گداگر بچے
کار کے پیچھے بھاگ رہے ہیں
وقت سے پہلے جاگ اٹھے ہیں
پیپ بھری آنکھیں سہلاتے
سر کے پھوڑوں کو کھجلاتے
وہ دیکھو کچھ اور بھی نکلے
جشن منائو سالِ نو کے
(نظم۔صبح نو روز)
ہم اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ ساحرؔ نے جہانِ ادب میں اس وقت آنکھ کھولی جب دوسری عالمی جنگ کے شعلے اپنے شباب پر تھے۔ انسان گاجر، مولی کی طرح کاٹے جا رہے تھے، انسانی خون کی قیمت پانی سے بھی کم ہوگئی تھی، ہر ایک طرف افراتفری کا ماحول تھا۔ ساحرؔ کے دل میں نہ صرف انسانیت کی اعلیٰ قدروں کا احترام تھابلکہ وہ امن کے علمبردار بھی تھے۔ انہوں نے جب اپنی آنکھوں سے انسانیت کے شیرازے کو بکھرتے دیکھا تو ان کا ہمدرد دل تڑپ اٹھا اور وہ جنگ کے خلاف آواز بلند کرنے لگے۔انہوں نے امن وشانتی کا پیغام گھر گھر پہنچانے کا عہد کیاجس میں انہیں کامیابی بھی نصیب ہوئی۔ وہ کہتے ہیں ؎
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امنِ عام کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گرے کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ غیرو ں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ساحرؔ لدھیانوی دوسری عالمگیر جنگ کا رونا تو روتے ہی ہیں ساتھ ہی آنے والی نسلوں کو تیسری جنگِ عظیم سے ہوشیار رہنے کی تلقین بھی کرتے ہیں ؎
گذشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گذشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں
ساحرؔ نے امن وسلامتی کے موضوع پر بے شمار اشعار لکھے ہیں اس سلسلے کی ایک نظم ’’پرچھائیاں‘‘ ہے جو اپنے موضوع وفن کے اعتبار سے اردو ادب میں بے مثال شاعری کی حیثیت رکھتی ہے۔ جیسا کہ خواجہ احمد عباس نے اس نظم کے متعلق کہا تھا کہ ’’پرچھائیاں‘‘ جس کا لفظی ترجمہ سائے ہیں ، اس میں ایک ایسے موضوع پر قلم اٹھایا گیا ہے جو عالمگیر بھی ہے اور ابدی بھی اور جو بین الاقوامی سطح پر اخبار کی سب سے اہم اور نمایاں سرخی بن گیا ہے یہ بہت ضروری ہے کہ ایک شاعر اس کے حق میں آواز اٹھائے اور سلامتی کا ترانہ گائے ۔
بیسویں صدی ادبی تحریکات اور رجحانات کی صدی رہی ہے ۔ بالخصوص ترقی پسند تحریک اور پھر بعد میں حلقہ اربابِ ذوق سے وابستہ شعراء اپنی شاعری میں سماجی، معاشرتی ، ثقافتی ، سیاسی اور مذہبی جبر واستحصال کے موضوعات کو بطور منشور پیش کرنے لگے تھے کہ ان شعراء وادبا کے فکر ونظر میں تبدیلی کے چراغ روشن ہو چکے تھے۔ اردو کے نامور ناقد پروفیسر قمر رئیس نے بجا لکھا ہے کہ :
’’وہ فکر واحساس کی نئی اور توانا لہروں کے سہارے زندگی کی بدلتی حقیقتوں کو زیادہ عقلی اور معروضی زاویوں سے دیکھ رہے تھے اور ادب میں اپنی سوچ کا زیادہ بیباکی اور آزادی سے اظہار کرنے پر مصر تھے‘‘۔(ترقی پسند ادب کے معمار)
ساحرؔبھی ترقی پسند نظریہ کے پاسدار اور امن پسند انسان تھے۔ ان کا دل انسانیت کے درد سے لبریز تھا اس لئے جب کبھی وہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے لڑتے جھگڑتے دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ ان کا پیغام تھا کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل تلاش نہیں کر سکتی جیسا کہ انہوں نے اپنی ایک نظم میں ان خیالات کا اظہاریوں کیا ہے ؎
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹائو تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھائو تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دباؤ تو دبائے نہ بنے
(نظم’’خون پھر خون ہے‘‘)
اور ایک دوسری نظم میں کہتے ہیں ؎
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلو ں کا حل دے گی
آگ او ر خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لیے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
(نظم۔اے شریف انسانو)
میرے خیال میں ساحرؔمذہب انسانیت کے علمبردار تھے ۔ وہ انسان پرستی کو ایک عبادت سمجھتے تھے۔ فرقہ پرستی ان کے سامنے ایک بد ترین شئے تھی وہ ہمیشہ فرقہ پرستی سے نفرت کرتے رہے۔ ان کے سامنے کوئی بھید بھائو نہ تھا وہ دنیا کے تمام مذاہب کو ایک سا تسلیم کرتے تھے ۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں ؎
نفرت جو سکھائے وہ دھرم تیرا نہیں ہے
انساں کو جو روندے وہ قدم تیرا نہیں ہے
قرآن نہ ہو جس میں وہ مندر نہیں تیرا
گیتا نہ ہو جس میں وہ حرم تیرا نہیں ہے
اور ایک دوسری جگہ کہتے ہیں ؎
کعبے میں ہو یا کاشی میں ،مطلب تو اسی کی ذات سے ہے
تم رام کہو کہ رحیم کہو، مقصد تو اسی کی ذات سے ہے
مجموعی طورپر جب ہم ان کی شاعری کی روشنی میں ساحرؔ لدھیانوی کے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کرتے ہیں تو اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے کہ ساحرؔ اپنے عہد کے کامل عکاس تھے اور مذہبِ انسانیت کے عظیم نمائندہ!
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ ان دنوں ساحرؔصدی تقریبات قومی اور بین الاقوامی سطح پر منعقد ہو رہی ہیں اور ساحرؔ کی ہمہ جہت شخصیت اور افکار ونظریات کی اہمیت وافادیت کا اعتراف کیا جا رہاہے ۔میری یہ حقیر کوشش بھی ساحرؔ لدھیانوی کی ہمہ جہت شخصیت اور ان کی کائناتی فکر ونظر کا اعترافیہ ہے۔میں اپنی طالب علمی کے زمانے سے ہی ساحرؔ لدھیانوی کی شاعری سے متاثر رہا ہوں ۔میری پہلی کتاب ’’تنقیدی بصیرت‘‘ (1996)میں بھی ساحرؔ لدھیانوی کے
افکار ونظریات پر مبنی ایک مقالہ شامل ہے۔حال ہی میں میں نے اپنے ریسرچ جرنل ’’جہانِ اردو‘‘ بابت ماہ جنوری تا مارچ 2024میں ساحرؔ لدھیانوی کی شخصیت وفکر وفن پر ایک گوشہ شائع کیاہے۔میرے خیال میں ساحرؔ صدی تقریبات کی مناسبت سے ساحرؔ کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا جانا نہ صرف ساحرؔ جیسے اردو کے نمائندہ شاعر کے تئیں میرااظہارِ محبت ہے بلکہ اردو شاعری کو غیر اردو داں کے دلوں کی دھڑکن بنانے والے عظیم فنکار کو خراجِ عقیدت پیش کرنا بھی ہے۔واضح ہو کہ ساحرؔ نے اپنی فلمی شاعری اور نظمیہ وغزلیہ شاعری سے اردو شاعری کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے فروغ کے لئے کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں۔مگر افسوس صد افسوس کہ اردو تنقید کے باب میں ساحرؔ کو وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا ہے جس کے وہ متقاضی ہیں۔
فاروق ارگلی صاحب اس وقت ہندوستان میں غالباً ایسے واحد ادیب و صحافی ہیں،جنھوں نے بلا مبالغہ لاکھوں صفحات تحریرو تالیف کیے ہوں گے، منطق میں انسان کی تعریف ’حیوانِ ناطق‘ سے کی گئی ہے، ارگلی صاحب ’حیوانِ کاتب ‘ بھی ہیں، ایسا سیال و فیاض قلم پایا ہے کہ اس کی نظیر شاید و باید ہی ملے، انھوں نے پچھلی چھ سات دہائیوں کے دوران بے تحاشا لکھا ہے اور بھانت بھانت کے موضوعات پر لکھا ہے،نوے کی عمر کو پہنچنے والے ہیں،مگر اب بھی ان کے تاب و توانائی میں کمی نہیں آئی،ذہن ان کا اب بھی جوان ہے اور قلم کا جوبن بھی بہ دستور قائم!
ان کی شخصیت سیلف میڈ ہے،کہ انھوں نے اپنی دنیا خود بنائی ہے،سنِ شعور کو پہنچتے ہی جدوجہد کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا،جس میں زندگی کے مختلف موڑ پر حسبِ حالات کمی بیشی ہوتی رہی،رسمی تعلیم واجبی سی حاصل کرسکے،پھر نسبتاً کم عمری میں ہی انھیں تلاشِ معاش سے لگنا پڑا،مگر ذاتی مطالعہ و مشاہدہ کی بے کرانی،طبیعت کی تیزی و روشنی، دماغ کی خلاقی و طباعی اور اخاذ و دراک فطرت نے انھیں بڑی سرخروئیوں سے ہم کنار کیا۔درجنوں اخبارات میں لکھا،بہت سے رسائل کی ادارت کی،مختلف اشاعتی اداروں کے لیے ان کی ڈیمانڈ کے مطابق ناول ، کہانیاں اور مذہبی کتابیں بھی تحریر کیں،ہندی اردو ترجمے کیے،اردو زبان کے تحفظ و فروغ کی کئی تحریکوں سے وابستہ رہے، آزادی کے بعد سے اب تک ہندوستان کی بے شمار علمی،ادبی،سیاسی و سماجی شخصیات سے ان کا راست تعلق رہا،کوئی ان کا دوست تھا،کوئی بزرگ،کوئی رفیقِ کار تو کوئی حریف و آمادۂ پیکار،آزادی کے بعد کی اجڑتی دہلی کو دیکھا،دہلی والوں کی صحبتیں اٹھائیں،تقسیم کے بعد پاکستان سے دہلی وارد ہونے والے زیادہ تر غیر مسلم اور چند ایک مسلم اردو ادیبوں ،شاعروں اور صحافیوں کو دیکھا اور برتا، دلی کے جو کچھ روڑے بچ گئے تھے،ان سے ارگلی صاحب کی شناسائی رہی،نئی دہلی کو بستے،چمکتے ،پھیلتے دیکھا اور پرانی قدروں کو بڑی احتیاط سے سنجوئے ہوئے خود بھی اس نئے پن سے ہم آہنگ ہونے کی کوشش کرتے رہے۔بڑی درویشانہ طبیعت پائی ہے،قلندرانہ صفات کے حامل ہیں اور خود کو’فقیرِ اردو‘ کہتے ہیں، غالباً انھوں نے تواضعاً اپنے لیے یہ خطاب اختیار کیا ہے، کہ وہ ادب، صحافت، سیاست،فلم،مذہب، سماجیات، سوانح، فکشن، تراجم، شاعری وغیرہ جیسی اصناف میں سیکڑوں کتابیں لکھنے اور درجنوں کتابیں مرتب و مدون کرنے کے باوجود خود کو اردو کا ایک مسکین و کم سواد طالب ہی علم سمجھتے ہیں،نسلاً پٹھان ہیں اور ڈیل ڈول بھی روایتی پٹھانوں جیسا ہی ہے ، موقع ملنے پر عملی زندگی میں کئی بار پٹھانیت کا مظاہرہ بھی کرچکے ہیں،مگر طبعا ً بڑے دل آویز،دل دار اور دل نواز انسان ہیں۔
حال ہی میں ایم آرپبلی کیشنز دہلی سے ان کی آپ بیتی ’اورجمنا بہتی رہی‘شائع ہوئی ہے، اس میں انھوں نے دہلی میں اپنی ساٹھ سالہ زندگی کی کہانی بیان کی ہے۔۱۹۵۶میں وہ پندرہ سولہ سال کی عمر میں اپنے والد محترم کے ساتھ دہلی وارد ہوئے تھے،پھر اسی شہر کو اپنا مستقل مسکن بنالیا، ۱۹۶۴ میں ممبئی بھی گئے،مگر دہلی ان کے دل سے نہ نکل سکی اور وہ جلد ہی واپس لوٹ آئے اور تب سے اب تک یہیں مقیم ہیں۔یہ کتاب ارگلی صاحب کی رودادِ حیات ہی نہیں،آزادی کے بعد سے اب تک کی دہلی کے ادبی،ثقافتی و سیاسی احوال کا نہایت دلچسپ مرقع ہے، انھوں نے ایسی ایمان داری،سادگی،والہانہ پن اور بے ساختگی سے اپنی بیتی بیان کی ہے کہ قاری پوری طرح اس میں کھوجاتا ہے،مسحور و مستغرق ہوجاتا ہے اور کم و بیش ہر صفحے میں ایسے حقائق ومعلومات اس کے سامنے آتے ہیں،جنھیں پڑھ اور جان کر کبھی بے ساختہ ہنسی آتی ہے،کبھی وہ حیرتوں میں ڈوب جاتا ہے اور کبھی سنجیدہ کیفیتوں سے دوچار ہونے لگتا ہے۔اردو کی خود نوشتیں ہم نے درجنوں پڑھی ہیں،مگر عموماً ہر بڑا آدمی اپنی خود نوشت میں بھی پوری طرح نہیں کھلتا ،کبھی مصلحتاً،کبھی کسی اندیشے کی بناپر اور کبھی اپنی فطرت سے مجبور ہوکر بڑی حد تک قلم کی باگ کو کھینچ کر رکھتا، ساری رودادِ زندگی لکھنے کے ہزار دعووں کے باوجود بہت کچھ چھپا لیتا ،بہت سی جگہ اپنے آپ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتا اور خودسازی و خود آرائی سے بچ نہیں پاتا ہے،بعض دفعہ وہ شعوری طورپر اپنے آپ کو ایک مثالی شخصیت بناکر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے،مگر ارگلی صاحب کی آپ بیتی کی خصوصیت یہ ہے کہ انھوں نے اپنا زندگی نامہ اپنی تمام خوبیوں اور خامیوں سمیت حوالۂ قرطاس کردیا ہے،کہیں تضخیمِ ذات کی کوشش نہیں،نہ اپنے آپ کو نمایاں کیا،البتہ پیرایۂ بیان ایسا ہے اور حقائقِ واقعات کو اس چابک دستی سے انھوں نے پیش کیا ہے کہ وہ اپنی خوبی بیان کریں یا خامی؛دونوں صورتوں میں بھلے لگتے ہیں۔
دہلی آنے کے بعد جن لوگوں سے سابقہ پڑا،جن اداروں کے ساتھ کام کیا،جن شخصیات سے ملنا جلنا رہا،جن بزرگوں سے بے تکلفی رہی اور جن دوستوں کے ساتھ دریاگنج اور جامع مسجد کے علاقوںمیں چہلیں کرتے رہے،جن لوگوں سے خوشیاں ملیں اور جنھوں نے نقصان رسانی کی کوشش کی؛ان سب کا تذکرہ ارگلی صاحب نے اپنے تئیں بڑی صاف گوئی سے کیا ہے۔خصوصاً اس کتاب کے وہ حصے بڑے دلچسپ ہیں،جن میں انھوں نے ساٹھ ستر کی دہائی میں دہلی اور ممبئی کے بہت سے ایسے لوگوں سے اپنی ملاقاتوں کا احوال لکھا ہے،جو ان دنوں اپنے تشکیلی دور سے گزر رہے تھے اور بعد میں بڑے ناموں میں شمار ہوئے۔ گلزار، زبیر رضوی،عنوان چشتی،فیروز دہلوی،رحمان نیر،نازش انصاری،ماجد رمن،جاوید حبیب،شجاع خاور،سلامت علی مہدی، شاہی امام عبداللہ بخاری،ڈاکٹر عبدالعزیز،خلیق انجم،اسلم پرویز،سلطان اختر،مولانا عبدالحمید رحمانی، فاروق عبداللہ،علامہ عقیل الغروی کے والد ذیشان ہدایتی اور درجنوں دوسرے لوگوں سے تعارف اور ان کی اس زمانے کی خاکہ کشی خاصی معنی خیز ہے ۔اس دور کے ادب و صحافت کے کئی بزرگوں سے بھی ارگلی صاحب کا راست تعلق رہا،ان میں کئیوں کے زیر سایہ انھیں کام کرنے کا بھی موقع ملا، اس کی بھی روداد لکھی ہے ۔
ارگلی صاحب نے جن رسالوں میں کام کیا،جن اداروں کے لیے لکھا اور جن شخصیات کی صحبتیں اٹھائیں ان کا تذکرہ بڑے چاؤ سے کیا ہے،جن لوگوں نے کسی بھی مرحلے پر احسان و امتنان کا معاملہ کیا،ان کے اعتراف میں کوئی بخل نہیں کیا،بعض لوگوں کے ساتھ ہونے والی جھڑپوں اور معرکوں کا احوال بھی بے جھجھک لکھا ہے۔اَسی کی دہائی میں ہندوستان کے مشہور سیاست داں و سابق مرکزی وزیر بابوجگ جیون رام اور ان کے بیٹے سریش رام سے چند سالہ وابستگی ارگلی صاحب کی زندگی میں خاص سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے،ان سے ملاقات اور تعلق کی شروعات ،پھر ان کے پبلسٹی سکریٹری کے طورپر اپنے کام کے دنوں کی کہانیاں مزے لے لے کر سنائی ہیں۔اسی طرح عالمی اردو کانفرنس اور اس کے بانی علی صدیقی سے تعلق بھی ان کی زندگی کا لاینفک جز ہے، اس حوالے سے تحریر کردہ ان کا آپ بیتی کا حصہ بڑا متاثر کن اور سبق آموز ہے،علی صدیقی صاحب اپنی نوع کے منفرد محبِ اردو تھے،جن کا نوے کی دہائی میں حکومت میں غیر معمولی اثر و رسوخ تھا،انھوں نے اردو زبان کے آئینی حقوق کی بازیابی کے لیے تحریک چھیڑی،اسی مقصد سے سیاسی پارٹی بھی بنائی اور اپنے امیدوار بھی اتارے، عالمی اردو کانفرنس کے پلیٹ فارم سے دہلی،حیدرآباد،لکھنؤ،حتی کہ پاکستان تک بڑے عظیم الشان مشاعرے کروائے،اس وقت دہلی میں کمپیوٹر سیکھنے سکھانے کا ادارہ شروع کروایا اور اردو سافٹ ویئر متعارف کروایا،جب ہندوستان میں کمپیوٹر کا کسی نے نام تک نہ سنا تھا۔
ارگلی صاحب نے اس کتاب میں اپنے حوالے سے لکھتے ہوئے جہاں اپنے وقیع کاموں کا ذکر کیا ہے،وہیں حسینہ کانپوری ، رتی موہن ،آشا رانی وغیرہ ناموں سے اردو اور ہندی میں لکھے گئے عوامی ناولوں اور ان کے دلچسپ پس منظر کا بھی ذکر کیا ہے۔انھوں نے بتایا ہے کہ ایسے ۸۰ ناول انھوں نے لکھے جو اردو ہندی دونوں زبانوں میں شائع ہوئے اور خوب بکے۔ہم تو ارگلی صاحب کو ’فخروطن‘،’فخرِ خواتین‘’اردو ہے جن کا نام‘،’جواہر عظیم آباد‘، ’دیوارِ قہقہہ‘،مختلف علمی ،ادبی وسیاسی شخصیات پران کے مرتب کردہ رسائل کے خاص نمبروں اور درجنوں شاعروں کے کلیات اور ان کے انتخابات کے مرتب و مدون کی حیثیت سے جانتے ہیں،مگر پرانے لوگ انھیں ان ناولوں کے حوالے سے بھی جانتے ہیں،جو انھوں نے واجدہ تبسم اور عصمت چغتائی کے تتبع میں لکھے اور سالوں تک بازار کو گرمائے رکھا۔ ارگلی صاحب نے جوانی کے دنوں کی اپنی ’شرارتوں‘ کا ذکر بھی ایسے شگفتہ انداز میں کیا ہے کہ بس پڑھیے اور سر دھنیے!دہلی کے استاد شاعر رسا دہلوی سے چھیڑ چھاڑ،اختر الایمان کےوالدکی تصویر فلمی رسالہ’روبی‘ میں اس کیپشن کے ساتھ شائع کرنا کہ’دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو،یہ ہیں فلموں کے رائٹر،ترقی پسند شاعر اخترالایمان کے والد قاری دین محمد‘،جسے دیکھ کر اختر الایمان سخت غصہ ہوئے اور دہلی آکر اپنے والد کو ساتھ لے گئے،۱۹۸۰ میں رام لیلا میدان میں ہونے والے مسلم یوتھ کنونشن کوناکام بنانے کی عجیب و غریب تدبیر ،انجمن ترقی اردو ہند سے خلیق انجم کے اخراج کی مہم چلانے پر پروفیسر گوپی چند نارنگ کے خلاف ایک ضخیم کتاب’تماشاے اہلِ قلم‘ کی تالیف اور اس قسم کے کئی دلچسپ واقعات لکھے ہیں۔ان سے خود مصنف کے علاوہ جن لوگوں سے ان کا واسطہ رہا ،ان کی نفسیات وغیرہ کو سمجھنے کا بھی موقع ملتاہے۔
الغرض’اور جمنا بہتی رہی‘ ایک ایسے جہاں دیدہ و سرد و گرم چشیدہ ادیب و صحافی کی خودنوشت ہے،جس نے نو بہ نو گردشوں اور پیہم جاں کاہیوں سے معمور زندگی کو بھی اپنی شرطوں، امنگوں اور ترنگوں کے مطابق بسر کیا ہے،اس طرح وہ اور ان کی زندگی بڑی حد تک قابلِ رشک بھی ہوجاتی ہے ۔اسلوب ان کا بڑا ہی دل آویز، شوق انگیز ،نشاط خیز و نزہت ریز ہے۔ارگلی صاحب کو کہانی کہنے کے فن میں یدِ طولیٰ حاصل ہے؛اس لیے ان کی اس آپ بیتی کو پڑھتے ہوئے جب یکے بعد دیگرےایک سے بڑھ کر ایک دلچسپ واقعات سےگزر ہوتا ہے،تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم کوئی تھرل اور سسپنس سے بھرپور ناول پڑھ رہے ہیں۔نئی نسل کے لیے اس کتاب میں سبق آموزی کے بھی کئی پہلو ہیں، یہ کتاب معلومات افزا بھی ہے،بہت سی مشہور شخصیات کے حوالے سے ان کے عنفوانِ شباب کی وہ باتیں پڑھنے اور جاننے کو ملتی ہیں،جو اور کہیں نہیں مل سکتیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے ایک خاص تاثر یہ بھی قائم ہوتا ہے کہ کم و بیش چوراسی سال کے فاروق ارگلی حد درجہ محنتی و جفاکش تو ہیں ہی،ساتھ ہی بے پناہ قوی اور براق ذہن بھی رکھتے ہیں،جیسی روانی اور تسلسل کے ساتھ انھوں نے پچاس ساٹھ سال کے عرصے میں پھیلے ہوئے واقعات بیان کیے ہیں،ایسا لگتا ہے کہ یہ حال فی الحال رونما ہوئے ہیں،اسی طرح انھوں نے طباعتی اداروں کی فرمایش پر راتوں رات پوری پوری کتابیں لکھی ہیں،اس قسم کے درجنوں واقعے اس کتاب میں انھوں نے ذکر کیے ہیں،جنھیں ہوسکتا ہے بعض لوگ مبالغہ سمجھیں،مگر یہ حقیقت ہے اور اس زمانے کی ان کی بعض کتابیں انٹرنیٹ پر بھی دیکھی جاسکتی ہیں۔ان کی ذہانت کا ایک نمونہ ۱۹۹۰ میں شائع شدہ ان کا ترجمہ کردہ ناول ’نازک لمحہ‘ہے،جواُس وقت ہندوستان میں سعودی عرب کے سفیر فواد صادق مفتی کی تخلیق ہے اور یہ عربی زبان میں ’لحظۃ ضعف‘ کے نام سے شائع ہوئی تھی،ارگلی صاحب کو عربی نہیں آتی تھی،عالمی اردو کانفرنس کے سربراہ علی صدیقی صاحب نے ان سے کہا کہ اس کتاب کا اردو ترجمہ ہونا چاہیے،ارگلی صاحب نے حامی بھرلی اور ترجمہ یوں کیا کہ عالمی اردو کانفرنس میں اپنے معاون عبدالودود ساجد(موجودہ ایڈیٹر روزنامہ انقلاب)صاحب جو عربی زبان سے بخوبی واقف تھے،ان سے کتاب پڑھواکر اس کا مفہوم سنتے گئے اور اس طرح پوری کتاب کا ترجمہ مکمل کرلیا۔یہ واقعہ بھی اسی کتاب میں درج ہے۔ترجمہ میں نے دیکھا ہے، نہایت عمدہ،سلیس اور خوب صورت ہے۔
انھوں نے اچھا کیا کہ کتاب کے آخر میں اپنا ’اعمال نامہ‘ بھی شامل کردیا ،جس سے ان کے کام کی تمام جہتوں کی اجمالی جھلک سامنے آجاتی ہے۔ادب و کتاب کا ذوق رکھنے والے احباب کو فاروق ارگلی صاحب جیسی ہشت پہلو شخصیت کی یہ رنگارنگ آپ بیتی ضرور پڑھنی چاہیے۔
حکیم وسیم احمد اعظمی کی شخصیت یوں تو جامع الکمالات ہے کہ وہ طبیب بھی ہیں ، طب اور حکمت پر پڑے ماضی کے پردوں کو کھولنے والے ایک مورخ بھی ہیں ، تذکرہ نگار بھی ہیں ، اور اطبا و حکما کی ادبی خدمات کے جانکار بھی ، ساتھ ہی ساتھ طبی حوالے سے ایک صحافی بھی ہیں ، لیکن ان کا کمال بحیثیت ایک محقق زیادہ ابھر کر سامنے آتا ہے ۔ مذکورہ تمام اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہوئے حکیم صاحب نے کہیں بھی تحقیق کا دامن نہیں چھوڑا ہے ، اسی لیے جب وہ کسی طبیب ، حکیم ، شاعر ، اہم شخصیت یا صحافی کا ذکر کرتے ہیں تو کوئی ایسی بات ان کے قلم سے نہیں نکلتی جو مُحَقّق نہ ہو ، سُنی سُنائی ہو اور یہی وہ وصف ہے جو حکیم صاحب کو اپنے ہم عصر محققین میں ممتاز کرتا ہے ۔
حکیم صاحب ’ مرکزی کونسل برائے تحقیقات طب یونانی ، نئی دہلی ‘ میں ڈپٹی ڈائریکٹر ( یونانی میڈیسن ) کے منصب پر فائز رہے ہیں ، وہاں ایک طبی رسالے ’ جہانِ طب ‘ کی ادارت بھی کی ۔ ڈھیروں کتابیں تحریر کی ہیں ، جن میں کئی جلدوں میں ’ وفیات اطباٗٔء ہند و پاک ‘ جیسی اہم کتاب بھی شامل ہے ، نیز مخطوطات کی تدوین کی ذمہ داریاں بھی سنبھالی ہیں اور قدیم دور کے طبی اداروں کی تاریخیں بھی مرتب کی ہیں اور اب کتاب ’ حفیظ نعمانی اور اُن کا عہد ‘ لے کر سامنے آئے ہیں ۔ حفیظ نعمانی کا عہد ’ صحافت کا سنہری عہد ‘ تھا ، اس معنیٰ میں کہ اس عہد کے صحافی جد و جہد کے عادی تھے ، وہ کال کوٹھریوں سے ڈرتے نہیں تھے ۔
مرحوم حفیظ نعمانی صاحب سے میری بالمشافہ ملاقات کبھی نہیں ہوئی لیکن مجھے کبھی یہ نہیں محسوس ہوا کہ میں ان سے نہیں ملا ہوں ۔ میرے اخبار میں ، اسے میں اپنی خوش قسمتی ہی کہوں گا ، ہفتہ میں دو بار ان کے کالم شائع ہوتے تھے ، جنہیں پڑھ کر مجھے یوں لگتا تھا جیسے مجھ میں اور ان میں بات ہو گئی ہے ۔ حفیظ نعمانی صاحب کے کالموں کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ ہر پڑھنے والے کو یوں لگتا تھا جیسے جو کچھ لکھا گیا ہے صرف اس کے لیے لکھا گیا ہے ۔ گویا یہ کہ مرحوم کے اپنے تجربات اور مشاہدے ، قارئین کے ذاتی تجربات اور مشاہدے بن جاتے تھے ، اس طرح لکھنے اور پڑھنے والے کے درمیان ایک اٹوٹ رشتہ قائم ہو جاتا تھا ۔ میرا ان سے ایسا ہی رشتہ تھا ۔ حفیظ نعمانی صاحب کے انتقال کی خبر سے ان کے ہر قاری کی طرح میرا بھی یہی احساس تھا اور آج بھی ہے کہ ان کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پُر ہونا آسان نہیں ہے ، اور حقیقت یہی ہے کہ اُن کی جگہ ابھی بھی خالی ہے ۔
اس کتاب میں حکیم وسیم اعظمی نے ایسے سو صحافیوں کا تذکرہ کیا ہے جو حفیظ نعمانی کے عہد میں صحافتی خدمات انجام دے رہے تھے ، جیسے کہ مولانا عبدالماجد دریابادی ، حیات اللہ انصاری ، نسیم انہونوی ، مولانا امداد صابری ، عشرت علی صدیقی ، ڈی جی چندن ، مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلی ، عابد سہیل ، شارب ردولوی وغیرہ ۔ یہ لمبی فہرست ہے ، اس میں اس احقر کا نام بھی شامل ہے ، اور ہارون رشید علیگ ، شاہد صدیقی ، شمیم طارق ، ندیم صدیقی ، عالم نقوی ، سلیم خان سہیل انجم ، شافع قدوائی ، مشرف عالم ذوقی ، معصوم مرادآبادی ، صفدر امام قادری ، ایم ودود ساجد ، عمیر منظر ، اویس سنبھلی وغیرہ کے نام بھی شامل ہیں ۔ حکیم صاحب کا کمال یہ ہے کہ یہ تذکرے لکھتے ہوئے انہوں نے اِن شخصیات کو زندہ کر دیا ہے ۔ یوں لگتا ہے کہ یہ سب کاغذ پر چل پھر رہے ہیں ۔ اس سے اس بات کا بھی پتہ چلتا ہے کہ حکیم صاحب گنجلک تحریر نہیں سادا تحریر لکھنا پسند کرتے ہیں ، ایسی تحریر جِسے سہلِ ممتنع کہا جاتا ہے ۔
حکیم صاحب کا ۶۷ صفحات پر مشتمل طویل مقالہ ’ ذکرِ حفیظ نعمانی ‘ اس کتاب میں شامل ہے ، اس میں انہوں نے تفصیل کے ساتھ حفیظ نعمانی صاحب کی حیات اور صحافتی خدمات پر روشنی ڈالی ہے ، اور جِن صحافیوں کا اِس کتاب میں تذکرہ ہے ، اُن کی تحریروں کے حوالے سے اُن کے اور حفیظ نعمانی صاحب کے تعلقات کی نوعیت پر بات کی ہے ۔ حکیم صاحب نے اس کتاب کی تالیف کا ڈول ۲۰۲۰ء میں ڈالا تھا ، لیکن یہ کام ۲۰۲۳ء میں جاکر پورا ہوا ۔ کتاب میں سہیل انجم ، معصوم مرادآبادی ، عمیر منظر اور اویس سنبھلی کے وقیع مضامین شامل ہیں ۔ سہیل انجم ’ تقدیم ‘ کے تحت لکھتے ہیں : ’’ حکیم وسیم احمد اعظمی کا یہ کام یقیناً انتہائی اہم ، قابلِ قدر ، لائقِ ستائش اور قابلِ تقلید ہے ۔‘‘ معصوم مرادآبادی ’ تقریظ ‘ میں لکھتے ہیں : ’’ یہ کتاب کیا ہے ، ایک انجمن ہے جس میں ہمارے عہد کے تمام چھوٹے اور بڑے صحافی اپنی تمام خوبیوں اور صلاحیتوں کے ساتھ ہمارے سامنے آتے ہیں ۔‘‘ ڈاکٹر عمیر منظر ’ اعتراف ‘ کے تحت لکھتے ہیں : ’’ یہ کتاب ایک اہم صحافتی عہد کا احاطہ بھی کر رہی ہے ، جس پر ابھی تک خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی ۔‘‘ اور محمد اویس سنبھلی ’ رہتا سخن سے نام قیامت تلک ہے ذوق ‘ کے عنوان سے لکھتے ہیں : ’’ یہ کتاب آزادی کے بعد کی اردو صحافت کی تاریخ اور اس تاریخ کے روشن کرداروں کی حیات و خدمات اور ان کے کارناموں کو اپنے اندر سمیٹے ہوے ہے ۔‘‘
’ حفیظ نعمانی اور ان کا عہد‘ محض ایک کتاب نہیں بلکہ ایک تاریخی دستاویز ہے اور اردو صحافت سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بیش قیمت تحفہ بھی ۔ اس کتاب کو پڑھ کر ایک خواہش کا اظہار کرنا چاہوں گا ، لکھنئو کی اردو صحافت پر کوئی ایسی کتاب نہیں لکھی گئی ہے جو مُحَقّقانہ ہو ، یہ کام صرف اور صرف حکیم صاحب ہی کے بَس کا ہے ، اگر وہ یہ کام کر دیں تو ایک ایسی تاریخ مرتب ہو جائے گی جسے نظرانداز کیا گیا ہے ۔ یہ خواہش اس سبب بھی ہے کہ کتاب کے ’ پیش نامہ ‘ میں حکیم صاحب نے لکھنئو کے اردو اخباروں کی ایسی لمبی فہرست پیش کر دی ہے کہ حیرت ہوتی ہے ، اتنے سارے اردو کے اخبار لکھنئو سے نکلتے تھے ! ویسے اس کتاب میں حکیم صاحؓب نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ اس حوالے سے کام کر رہے ہیں ، اللہ اُن کی عمرِ میں برکت دے ، آمین ۔ مزید ایک بات کا ذکر ضروری سمجھ رہا ہوں ؛ حکیم صاحب کے کاموں کی جس طرح سے قدر کی جانی چاہیے نہیں کی گئی ، ادبی تنظیموں اور اداروں سے انہیں اب تک ڈھیروں ایوارڈ مل جانا چہیے تھے ۔ خیر حکیم صاحب کو ایوارڈ ملے نہ ملے وہ کام کرتے رہے ہیں اور ان شاء اللہ کرتے رہیں گے ۔ کتاب کا انتساب حفیظ نعمانی کی تحریروں کے نام ہے ۔ انتساب کے بعد اکبر الہ آبادی کا مشہور شعر ؎
کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو
دیا گیا ہے ۔ یہ شعر شیوسینا کے پرمکھ بال ٹھاکرے اپنے مراٹھی ہفت روزہ ’ مارمک ‘ کے سرورق پر لکھا کرتے تھے ۔ کتاب 576 صفحات پر مشتمل ہے ، اس میں سے آٹھ صفحات ’ مصادر و مراجع ‘ کے ہیں ۔ قیمت 600 روپیہ ہے ۔ کتاب کے ناشر ’ نعمانی کیئر فاؤنڈیشن ، بارود خانہ ، گولہ گنج ، لکھنئو ‘(7905636448 ،9794593055 ) ہیں ۔ اسے موبائل نمبر 9451970477 پر رابطہ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
غالب نے کہا تھا ”کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھے”، حالاں کہ غالب کی زندگی سے شاعری کو نکال دیا جائے تو گوشت وپوست کے ایک انسان کے سوا کچھ نہیں بچتا، البتہ یہ بات علماء پر صادق آتی ہے، طبقہ علماء میں بڑے بڑے شعراء پیدا ہوئے، لیکن انہوں نے شاعری کو کبھی بھی ذریعہ عزت نہیں بنایا، ماضی کو چھوڑ یے حال میں ہی مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم کو ہی دیکھ لیجئے، کتنی اچھی شاعری ہے، لیکن ان کی شہرت وعزت قطعاً اس کی ممنون نہیں ہے، شعر وادب سے علماء کی اس بے اعتنائی کی وجہ سے ان کے کلام ادھر اُدھر منتشر ہوتے رہے، خود انہیں کبھی جمع کرنے، بلکہ سجو کر رکھنے کا بھی خیال نہیں آیا، جس کی وجہ سے علماء طبقہ کے بڑے بڑے شعراء، شعر وادب کے حوالہ سے گوشہ گم نامی میں پڑے رہے اور ان کا شعری سرمایہ زمانہ کید ست برد سے محفوظ نہیں رہ سکا، بلکہ بڑی حد تک ضائع ہو گیا، میں ایسے کئی علماء کو جانتا ہوں، لیکن یہاں فہرست سازی کا نہ موقع ہے اور نہ ہی ضرورت۔
”تاب سخن ”کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہی ہے، یہ مولانا سید مسرور احمد مسرور (ولادت 1950وفات 21اگست 2022) کا مجموعہ کلام ہے۔وہ دارالعلوم سبیل السلام حیدر آباد سے 1986میں جڑے اور زندگی کے کم وبیش پینتیس سال یہیں گذار دیے، وہ اچھے کاتب تھے اور کتابت انہوں نے دار العلوم دیو بند سے سیکھی تھی، اس لیے زیادہ وقت کتابت اور بچوں کو خوش خطی سکھانے میں گذرا،حیدر آباد جانے سےقبل ایک زمانہ تک امارت شرعیہ کے ہفت روزہ نقیب کی کتابت وہی کیا کرتے تھے، امیر شریعت سادس مولانا سید نظام الدین سے وطنی قربت بھی تھی، مولانا سید مسرور کے والد چھپرہ سے نقل مکانی کرکے کوٹھی ضلع گیا منتقل ہو گیے تھے، جہاں انکی سسرال تھی، امیر شریعت سادس کے گاؤں گھوری گھاٹ سے یہ بہت قریب ہے، یہیں پلے بڑھے، مدرسہ عبیدیہ کوٹھی اور مدرسہ قاسمیہ گیا سے تعلیم وتربیت حاصل کی، دیو بند کا رخ کیا، وہاں سے کتابتِ کا فن سیکھا اور پوری زندگی اسی کام میں لگا دیا۔
شعر وادب کا ذوق اکتسابی نہیں، وہبی تھا، طبیعت موزوں تھی، مختلف اصناف سخن میں طبع آزمائی کی، جن میں نعت، تہنیت، منقبت، سپاس نامے، الوداعی نظمیں، سہرے، نغمہائے شادی، خراج عقیدت اور متفر ق چیزیں شامل ہیں، لیکن ان کو مرتب کرنے، جمع کرنے اور با قاعدہ محفوظ رکھنے کا خیال ان کے دل میں کبھی نہیں آیا، اس لیے ان کی زندگی میں مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری کے بار بار کے تقاضے کے باوجود وہ اس پر آمادہ نہیں ہوئے اور بالآخر موت نے انہیں آلیا۔
ان کے گذرنے کے بعد مولانا سراج الہدیٰ ندوی ازہری جو میرے برادر زادہ،داماد اور خانوادہ ہدی کے گل سرسبد ہیں، نے ان کے وارثین سے کسی کسی طرح ان کے اشعار کو حاصل کیا، جو کام ان کی زندگی میں آسان تھا وہ ان کے بعد مشکل ہو گیا اور اس کے لیے مولانا ازہری کو جو جگر کادی کرنی پڑی، اس کا اندازہ کچھ انہیں لوگوں کو ہوگا جو اس قسم کے کام سے دلچسپی رکھتے ہوں اور کبھی اس قسم کی خارزار وادی سے ان کا گذرہوا ہو۔
مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری اگر صرف ان کے اشعار جمع کر دیتے تو یہ بھی بہت تھا، لیکن ا نہوں نے ایک غیر ضروری شرط اپنے اوپر لگائی کہ اسے تاریخ کے اعتبار سے مرتب کرنا ہے، یعنی جس تاریخ کو ان اشعار کا مولانا پر نزول ہوا، اس کی رعایت ترتیب میں کریں گے، اس نے اس کام کو ان کے لیے مزید دشوار کر دیا، بلکہ کہنا چاہیے کہ یہ تکلیف ما لا یطاق کے قبیل سے تھا، جو ان کی محنت میں مزید اضافے کا باعث ہو گیا، بہر کیف انہوں نے اپنی بے پناہ مشغولیات جن میں درس وتدریس، وعظ وخطابت، بچوں کی پرورش وپرداخت،متعلقین اور معتقدین کے تقاضوں کی تکمیل کے ساتھ اس کام کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچا دیا۔
مولانا محمد سراج الہدیٰ کی نظر حدیث وفقہ، تفسیر پر گہری ہے، ان کی تفسیر دو جلدوں میں شائع بھی ہو چکی ہے، اس کے ساتھ ا ن کا ادبی ذوق بھی بالیدہ ہے، انہوں نے اس سے قبل حضرت مولانا سید محمد شمس الحق صاحب ؒ سابق شیخ الحدیث جامعہ رحمانی مونگیر کے اشعار بھی ”کلام شمس“ کے نام سے جمع کیا ہے، اس میں بھی ان کی محنت لائق ستائش ہے، لیکن اب تک یہ کتاب شائع نہیں ہو سکی ہے، مولویوں کے پاس اتنی اضافی رقم نہیں ہوتی جو کتاب کی طباعت کی متحمل ہو سکے اور غیرت وخود داری کا احساس کسی کے سامنے دست تعاون دراز کرنے سے مانع ہوتا ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ اب تک ”کلام شمس” طبع نہیں ہوسکی۔
مولانا مرحوم کی شاعری اچھی ہے، لیکن وہ کسی نہ کسی موقع سے لکھی گئی ہے، جس میں اپنی خواہش کم اور دوسروں کی خواہش کا احترام زیادہ ہے، اشعار میں ندرت اور فکر میں رفعت کے باوجود تہنیت، سہرے، خراج عقیدت وغیرہ کے بعض اشعار ایک دوسرے سے تو ارد کا مظہر ہیں، میں جانتا ہوں ایک جیسے خیالات اور مصرعے جب دو شاعروں کے یہاں مماثل ہو جاتے ہیں تو توارد کہلاتا ہے، مولانا کے یہاں جو کچھ ہے اس کے لیے صحیح لفظ تکرار ہے، لیکن تکرار کہنے میں سوئادب معلوم ہوتا ہے، اس لیے اسے توارد سے تعبیر کیا ہے، کوئی فکر اگر شاعر پر غالب آگئی، اور وہ بار بار اس کا اعادہ کرنے لگے تو اسے توارد کہنے میں حرج نہیں معلوم ہوتا، گوا دبی پنڈتوں کے یہاں یہ زیادہ صحیح نہیں سمجھاجاتا، توارد پر اگر اعتراض ہو تو آپ اسے احباب کے تقاضوں کی تکمیل بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ توارد کبھی بعض الفاظ کو الٹ پلٹ کر اور کبھی بعض مصرعوں کو بڑھا کر بھی سامنے آتا ہے، اصل میں تہنیت، سہرے، خراج عقیدت میں ”مضامین نو کے انبار“ کا موقع نہیں ہوتا، اس کی لفظیات بھی محدود ہوتی ہیں، اور خیالات میں وسعت کی بھی کمی ہوتی ہے، لن ترانی اور ایران توران کی ہانکنے کا مولانا کا مزاج نہیں تھا، اس لیے ان اصناف میں عام طور پر یکسانیت کا احساس ہوتا ہے، اور صحیح اور سچی بات یہی ہے کہ وہ ان اصناف میں ” مضامین نو” کا انبار نہیں لگا سکے ہیں، اور ہر آدمی یہ کام کر بھی نہیں سکتا، اب میرانیس پیدا نہیں ہوں گے جو مضامین نو کے انبار لگا تے تھے، اور خرمن کے خوشہ چینوں کو خبر کرنے کی تلقین بھی کیا کرتے تھے۔
مولانا محمد سراج الہدیٰ ندوی ازہری ہم سب کی جانب سے شکر یہ کے مستحق ہیں، انہوں نے مولاناسید مسرور احمد مسرور کے کلام کو مرتب کرکے ان کو ضائع ہونے سے بچالیا، اللہ تعالیٰ سے اس مجموعہ کے قبول عام وتام،مولانا مرحوم کی مغفرت اورمولانا سراج الہدیٰ ندوی ازہری کے علمی کاموں میں وسعت اور صحت وعافیت کے ساتھ درازئ عمر کی دعا پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
بچوں کے ادب کی اہمیت اور افادیت ہر عہد میں رہی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہر عہد کے اپنے کچھ خاص تقاضے ہوتے ہیں جن کا پاس و لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ بچوں کے لیے ایسے مضامین، کہانیاں اور نظمیں تحریر کی جانی چاہئیں جن میں ان کی تربیت کی باتیں ہوں، ان کے مطالعے سے ان کی معلومات میں اضافہ ہو، ایسی نصیحت آموز باتیں ہوں جن سے وہ اپنے اندر تبدیلی پیدا کرسکیں، اچھے اور برے کے مابین امتیاز بھی اچھے انداز میں ہونا چاہیے تاکہ بچے فضول اور لایعنی کاموں میں اپنا وقت برباد نہ کریں۔ بچوں کے ادیب کے لیے سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ وہ جو بھی لکھیں اس میں بچوں کی دلچسپی کا خاص خیال رکھیں۔ شفیع الدین نیر کی اس کتاب ’منی کے گیت‘ میں بے حد دلچسپ اور معلوماتی نظمیں ہیں جن میں بچوں کی دلچسپی شروع سے آخر تک برقرار رہتی ہے۔ شفیع الدین نیر کا شمار بچوں کے عظیم شاعر کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ یہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں معلمی کے پیشے سے بھی وابستہ تھے اور پھر یہیں سبکدوش ہوئے۔ انھوں نے بچوں کے لیے درجنوں کتابیں تحریر کی ہیں جن میں بچوں کا تحفہ، بچوں کا کھلونا، گھی شکر، نئی کہانیاں،اچھی چڑیا، منی کا تحفہ، منی کے گیت، وطنی نظمیں وغیرہ شامل ہیں۔
زیرنظر کتاب ’منی کے گیت‘ ویسے تو بچے اور بچیاں دونوں کے لیے مفید ہے، خصوصاً ننھی منی بچیوں کے لیے یہ کتاب زیادہ کارآمد ہے۔ ا س کتاب میں 29 نظمیں شامل کی گئی ہیں جن میں خدا کی تعریف،آؤچندا ماموں آؤ، چینی کی گڑیا، میری اچھی آپا آؤ، منی کی بلی، میری گڑیا، منی کی بکری، مجھ کو میرا بھیا پیارا، گڑیا کا بیاہ، گڈے میاں کا سہرا، منی کی سالگرہ، شرارت کی پتلی، سکھی برکھا کی دیکھو بہار، آؤ سہیلی باغ چلیں ہم، منی اور تتلی، منی کی لوری،عید کی خوشی، ریل کا کھیل، سردی کا زمانہ آیا ہے، پریوں کا ناچ، وہی بڑوں کی چاٹ، منی کی موٹر، گائے، تندرستی ہزار نعمت ہے، دیوالی آئی، گڑیا کا گھروا، منی کا گیت، آؤ منی میلہ دیکھو، خوب چھٹی ہوئی خوب چھٹی ہوئی کے نام لیے جاسکتے ہیں۔
’منی کے گیت‘ دراصل ان کی کتاب ’بچوں کا تحفہ‘ کی کامیابی کا نتیجہ ہے۔ یہ کتاب انھوں نے 40برس قبل لکھی تھی جو بچوں میں کافی مقبول ہوئی۔ والدین اور رشتے داروں نے اسے تحفتاً بچوں کو پیش کیا۔ استاد اور استانیوں نے بھی ’بچوں کا تحفہ‘ کا مطالعہ بچوں کے لیے لازمی کردیا۔ درجنوں اسکول میں یہ کتاب پڑھائی گئی۔ کئی بچیوں نے خطوط کے ذریعے اور کچھ نے زبانی یہ فرمائش کی کہ آپ کچھ نظمیں بچیوں کے لیے لکھیں۔ اس تعلق سے شفیع الدین نیر نے کئی نظمیں تحریر کیں جو کئی رسائل میں شائع ہوئیں۔ بعد میں یہ نظمیں ’منی کے گیت‘ اور ’منی کا تحفہ‘ جیسی کتابوں کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔
زیرنظر کتاب ’منی کے گیت‘ میں سب سے پہلے خدا کی تعریف و توصیف بیان کی گئی ہے۔ اس کے بعد نظم ’آؤ چندا ماموں آؤ‘ کو شامل کیا گیا ہے۔ چندا ماموں سے بچوں کو بہت انسیت ہوتی ہے، اس کے تعلق کے بچوں کے ذہن میں کیا کیا خیالات آتے ہیں، شفیع الدین نیر نے اس کا ذکر بڑے ہی حسین انداز میں کیا ہے ؎
آؤ، چندا ماموں! آؤ
آؤ، میرا جی، بہلاؤ
دل کی کلیاں کھل کھل جائیں
ایسے چمن کی سیر کراؤ
گیت سہانے میٹھے میٹھے
میں بھی گاؤں تم بھی گاؤ
اپنی سونے کی کشتی میں
مجھ کو اپنے ساتھ بٹھاؤ
پھول ستاروں کے چن چن کر
میرے لیے اک ہار بناؤ
پیارا سا یہ ہار انوکھا
میرے گلے میں تم پہناؤ
ایک نظم ’منی کی بلی‘ ہے۔ بلیوں سے بچے بہت پیار کرتے ہیں، اسے اپنے گھر میں پالتے پوستے بھی ہیں۔ اس کے ساتھ کھیلنا پسند کرتے ہیں، بلیوں کو مختلف ناموں سے پکارتے ہیں۔ شاعر نے بچوں کی چاہت کا بہت حسین انداز میں نقشہ کھینچا ہے ؎
منی نے اک بلی پالی
بلی پالی کالی کالی
آنکھیں اس کی نیلی پیلی
نیلی پیلی اور چمکیلی
دن بھر موج اڑاتی تھی وہ
دودھ ملائی کھاتی تھی وہ
چوہیا کو وہ دیکھ جو پاتی
جھٹ پٹ اس کو چٹ کر جاتی
’منی کی سالگرہ‘ بھی اچھی نظم ہے۔ یوم پیدائش پر ہر بچے کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس دن کو اس کے والدین خوب دھوم دھام سے منائیں اور اس کے دوست و احباب کو بلائیں۔ دیکھیے کس انداز میں بچوں کی خواہشات کا ذکر ہے ؎
آؤ منی کی بی بی کی
سالگرہ کا جشن منائیں
کھیل مزے کے ہم کھیلیں
اچھلیں کودیں، ناچیں گائیں
چائیں مائیں چائیں مائیں
چکر کھائیں، چکر کھائیں
اس اچھی تقریب میں ہم
سب ساتھی بچوں کو بلائیں
خوب ہی خوش ہوں خوب ہی خوش
اٹھیں بیٹھیں کھیلیں کھائی
بچوں کو ہر اس موقعے کی تلاش ہوتی ہے جس میں انھیں آزادی حاصل ہو، گھومنے پھرنے، کھانے پینے اور موج مستی کے سارے سامان مہیا ہوں۔ شفیع الدین نے ’عید کی خوشی‘ میں بچوں کے ان حسین جذبات کا کیا خوبصورت انداز میں ذکرکیا ہے ؎
لو پھر ہماری عید آگئی ہے
ہر ایک خوش ہے گھر گھر خوشی ہے
کیا قہقہے ہیں کیا دل لگی ہے
ہر سمت گویا شادی رچی ہے
منی اٹھے گی تڑکے سویرے
جھٹ پٹ نہا کر پہنے گی کپڑے
کپڑے بھی کیسے گوٹے زری کے
ریشم کا جمپر، مخمل کے جوتے
امی سے لے کر عیدی کے پیسے
بھیا کو دے گی کہہ کر یہ ان سے
پڑھ کر دوگانہ میلے میں جا کے
میرے لیے بھی کھلونے
عید کے ساتھ دیوالی کا ذکر یوں بھی ضروری ہے کہ اس تہوار کا پیغام آپسی محبت اور بھائی چارہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برسوں پہلے سبھی مل کر یہ تہوار مناتے تھے۔ گاؤں میں تو اس تہوار کا ایک الگ نظارہ ہوتا تھا۔ جتنے بھی کنویں ہوتے ان پر دیے جلائے جاتے۔ بچے خاص طور پر بڑھ چڑھ کر اس میں حصہ لیتے۔شاعر نے اس حسین منظر کو کیا ہی عمدہ انداز میں پیش کیا ہے ؎
روشن ہر ہر سمت دیے ہیں
روشن گھر میں بلب کیے ہیں
کھیل تماشے سب کے لیے ہیں
پریم کے پیالے سب نے پیے ہیں
لو، اے لو، دیوالی آئی
اوہو ہو، دیوالی آئی
دیوالی کا جشن منائیں
کھیلیں اور بتاشے کھائیں
بیڑے خوشبودار چبائیں
پھر نیر کا گیت یہ گائیں
لو، اے لو، دیوالی آئی
اوہو ہو، دیوالی آئی
اس کتاب میں شامل ساری نظمیں شفیع الدین نیرنے بچوں/ بچیوں کے ذوق کا خیال رکھتے ہوئے تحریر کی ہیں۔ زیادہ تر نظمیں چھوٹی بحر میں ہے۔ انھوں نے بہت ہی آسان اور عام فہم زبان کا استعمال کیا ہے۔ الفاظ اور محاورے ایسے استعمال ہوئے ہیں جو روزانہ کی بول چال میں استعمال ہوتے ہیں۔ اندازِ بیان بھی خوب دلچسپ ہے۔
ادب اطفال کے تعلق سے شفیع الدین نیر کی خدمات کی ستائش تو خوب ہوئی ہے۔ سابق صدر جمہوریہ ہند ڈاکٹر ذاکر حسین بچوں کے ادب پر ان کے بیش بہا خدمات کا اعتراف یوں کرتے ہیں:
’’ان میں (یعنی نیر صاحب میں) بچوں کے ذہن کو سمجھنے اور محبت کرنے کی وہ صفت ہے جو پیدائشی معلم کا جوہر ہوتی ہے… بچوں کی رہنمائی کے لیے جس صلاحیت کی ضرورت ہے وہ ان میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ بچو ںکے لیے جو نظمیں انھوں نے لکھی ہیں وہ ایک پیش رو کی حیثیت سے ان کا نہایت ہی بیش قیمت کارنامہ ہے۔ انھوں نے وہ میدان سر کیا ہے جسے سر کرنے کی بہت ہی کم اصحاب نے جرأت کی ہے۔ ان کی نظموں نے تعلیم کے خشک کام کو خوشگوار بنا دیا ہے۔ ان بچوں میں بھی ادبی دلچسپی پیدا کرنے میں کامیابی ہوئے ہیں جو دوسروں مضمونوں کی طرح مادری زبان کی تحصیل کو غیردلچسپ سمجھتے تھے۔‘‘ (ص VII)
اس کتاب کی اشاعت قومی اردو کونسل سے ہوئی ہے اس لیے ’منی کے گیت‘ کی اشاعت میں قومی اردو کونسل کے وہ ذمے داران بھی لائق ستائش ہیں جن کی کوششوں سے یہ مرحلہ طے ہوسکا۔ اس کتاب کے علاوہ شفیع الدین نیر کی اچھی چڑیا، منی کا تحفہ، منی کے گیت، وطنی نظمیں بھی قومی اردو کونسل سے شائع ہوئی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ شفیع الدین نیر کی ’منی کے گیت‘ کے علاوہ بقیہ کتابیں بھی بچوں کو بہت پسند آئیں گی۔
50 صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت محض 20 روپے ہیں۔ کتاب کا سرورق بھی بہت عمدہ ہے۔ مجھے امید ہے کہ بچے اس کتاب کو اپنے مطالعے کا حصہ ضرور بنائیں گے!
علامہ شبلی نعمانی رحمۃ اللہ علیہ ایک عظیم عبقری، نابغہ، عہد ساز اور عہد آفرین شخصیت کا نام ہے جو ایک تاریخ بھی ہے، تاریخ کا ایک روشن باب بھی ہے اور تاریخ ساز بھی ہے۔ علامہ شبلی ایسی جامع شخصیت تھے جسے قسام ازل نے متنوع کمالات کا جامع بنایا تھا۔ عالم، مفسر، مؤرخ، سیرت نگار، فلسفی، متکلم، مفکر، ادیب، صحافی، انشاپرداز، نقاد، دانشور، ماہر تعلیم الغرض علامہ کی شخصیت فطرت کا ایک ایسا حسین گلدستہ تھی جسے قدرت نے موزوں و متناسب گلہائے رنگا رنگ سے سجایا تھا۔ ان کی شخصیت میں فہم و فراست، حکمت و تدبر، ذہانت و ذکاوت، بذلہ سنجی و معاملہ فہمی، نکتہ شناسی و نکتہ آفرینی کا وافر حصہ بارگاہ ایزدی سے ودیعت ہوا تھا۔
علامہ شبلیؒ میں تحریری صلاحیت اعلیٰ درجہ کی ہونے کے ساتھ ساتھ تقریر و خطابت کا ملکہ بھی کچھ کم نہ تھا۔ جس کا زندہ ثبوت خطباتِ شبلی ہیں۔ آپ نے جس طرح مختلف مواقع پر خطبات میں اپنے افکار و نظریات پیش کیے ہیں وہ واقعی لائق تقلید ہیں۔ شبلی جن اوصاف و کمالات کا مجموعہ تھے ان میں سے ایک اہم خصوصیات ان کی قوت تقریر کا خداداد ملکہ بھی تھا۔ وہ اعلیٰ درجہ کے مقرر و خطیب تھے اور ان کا شمار ملک کے بڑے بڑے نامور خطیبوں اور مقرروں میں ہوتا تھا اگرچہ ان کی زندگی کے ابتدائی دور میں اس ملکہ کا اظہار نہیں ہونے پایا تھا لیکن علی گڑھ جانے کے بعد جب ان کی پبلک زندگی کا آغاز ہوا تو اس ملکہ خداداد نے پوری نشو و نما حاصل کی اور وہ کالج کی سوسائٹی اور تعلیمی کانفرنسوں کے جلسوں میں تقریریں کرنے لگے اور پھر جب ندوۃ العلماء کی تحریک عمل میں آئی تو اس کے جلسوں میں بھی ان کے خطبات نے خصوصی اہمیت حاصل کی اور وہ ہندوستان میں بے مثل و بے نظیر خطیب و مقرر تسلیم کئے جانے لگے۔ علامہ شبلی کے خطبات اسلامی حکمت اور مغربی فلسفہ کا نچوڑ ہیں، ان خطبات میں علامہ نے موجودہ زمانے کے فکری مسائل اور فلسفیانہ موضوعات پر اسلامی حکمت کے حوالے سے تنقید بھی کی ہے اور مغرب کے جدید علوم کی روشنی میں حکمت اسلامیہ کے بعض اہم مسائل کی تشریح کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔
’’کلیات خطبات شبلی‘‘ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کی بالکل تازہ ترتیب ہے جسے حال ہی ۲۰۲۳ء کے آخر میں انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی نے بڑے اہتمام سے شائع کیا ہے۔ اس کے لیے مرتب اور انجمن کے احباب دونوں ہی مبارک باد کے مستحق ہیں، اس کلیات میں علامہ شبلی کے کل ۳۸؍ خطبات شامل ہیں۔ خطبات شبلی کے پہلے مجموعہ میں مولانا سید سلیمان ندوی نے حواشی اور مولانا عبدالسلام ندوی نے دیباچہ لکھا ہے ۱۵؍ خطبات شامل تھے۔ بقیہ تمام ۲۳؍ خطبات شبلی اس کلیات میں بیش قیمت اضافہ ہیں۔ اس طرح اس کلیات میں اب تک کے تمام دستیاب اور نو دریافت خطبات شبلی یکجا ہوگئے ہیں اور یہ اب تک کا سب سے جامع اور مکمل مجموعہ خطبات شبلی ہے۔خطبات کے عناوین اس طرح ہیں: (۱)تہنیت (۲)اعلیٰ تعلیم کی ضرورت (۳)مغربی علوم و فنون (۴)اعلیٰ تعلیم یا ادنی تعلیم (۵)چھوٹے کم درجہ اسکولوں کا قیام (۶)اسلامی علوم و فلسفہ کی تاریخی ترتیب (۷)ایجوکیشنل کانفرنس کی سالانہ رپورٹ پر ریمارک (۸)تہنیت (۹)اصلاح نصاب (۱۰)قدیم عربی نصاب کے نقائص (۱۱)شمس العلماء کا خطاب ملنے پر (۱۲)علماء کے فرائض (۱۳)مجوزہ دارالعلوم (۱۴)شاہ امانت اللہ صاحب غازی پوری کی وفات (۱۵)اسکولوں میں مذہبی تعلیم کا انتظام (۱۶)اصلاح تمدن (۱۷) فارسی زبان و ادب (۱۸)علم کلام (۱۹)ندوۃ العلما کی ضرورت (۲۰)ختم نبوت (۲۱)قدیم و جدید تعلیم (۲۲)الاسلام (۲۳)تعصب اور اسلام (۲۴)سنگ بنیاد دارالعلوم (۲۵)حقوق نسواں (۲۶)تعلیم و تربیت (۲۷)تصوف (۲۸)ندوۃ العلما کی ضرورت (۲۹)رعایا کی وفاداری (۳۰)جبری ابتدائی تعلیمی بل (۳۱)عورت اور اسلام (۳۲)ندوہ کی ضرورت (۳۳)اردو شارٹ ہینڈ (۳۴)شیخ رشید رضا مصر (۳۵)تحفظ اسلام (۳۶)تحفظ مذہب (۳۷)مدرسہ انوار العلوم حیدر آباد (۳۸)اسلام بحیثیت ایک مکمل مذہب کے۔ ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی اس کتاب کی وجہ ترتیب اور افادیت کے حوالے سے رقم فرماتے ہیں:
’’راقم کے مطالعات شبلی میں جہاں اور بہت سی نادر و نایاب تحریریں دریافت ہوئیں وہیں متعدد خطبات شبلی بھی ہاتھ ہوئے جو آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس، ندوۃ العلما، انجمن حمایت اسلام لاہور کی رودادوں اور بعض دیگر کتب و رسائل سے دستیاب ہوئے۔ افادیت کے پیش نظر ان خطبات کو اولاً ماہنامہ معارف اعظم گڑھ اور دیگر رسائل و جراید میں شائع کرایا گیا۔ بعد ازاں کتابی صورت میں ’’خطبات شبلی: نو دریافت‘‘ کے نام سے دارالمصنّفین اعظم گڑھ سے شائع کرایا۔ اس کے معاً بعد چند اور خطبات شبلی کتب و رسائل سے ہاتھ آگئے۔ اس میں بعض بے حد اہمیت کے حامل ہیں اس لیے ’’کلیات خطبات شبلی‘‘ کی ترتیب و تدوین اور اشاعت کا خیال پیدا ہوا اس سے تمام خطبات بیک نظر یکجا سامنے آجائیں گے۔‘‘ (ص: ۳۷)
پیش نظر ’’کلیات خطبات شبلی‘‘ کے موضوعات میں بڑا تنوع، طرفگی اور جامعیت پائی جاتی ہے، مثلاً ان میں ابتدائی تعلیم، اعلیٰ تعلیم و تربیت، مذہبی تعلیم، جبری تعلیم، قدیم و جدید تعلیم اور نصاب تعلیم وغیرہ موضوعات پر متعدد خطبات شامل ہیں۔ اس مجموعہ میں مغربی علوم و فنون کے ساتھ تصوف پر بھی ایک عمدہ خطبہ شامل ہے۔ ایک بڑا عالمانہ خطبہ ختم نبوت کے موضوع پر بھی درج ہے۔ تحفظ مذہب، تحفظ اسلام حقوق نسواں، اسلام کی بہترین جمہوریت اور دیگر موضوعات پر اعلیٰ پایہ کے خطبات شامل ہیں۔ ’’تصوف‘‘ کے عنوان سے خطبہ کا ایک اقتباس دیکھیے:
’’تزکیہ نفس کا نام تصوف ہے۔ روح کو کینہ ہوا و حرص، غصہ سے آپس کی رنجش اور طمع وغیرہ امراض سے پاک کرنے کا نام طریقت ہے، جس طرح جسمانی بیماریاں ہوتی ہیں اسی طرح روح کو بھی قسم قسم کے امراض لاحق ہوتے ہیں، جس کے طبیب ڈاکٹر حکیم ہیں اور روح کے معالج انبیاء اور اولیاء ہیں۔ فرق صرف مادہ اور روح کا ہے۔ درخت میں تازگی اور بالیدگی کی قوت ہوتی ہے، جس کے بغیر وہ بیکار ہے۔ نہ بڑھ سکتا ہے، نہ پتہ اور شاخیں قائم رہ سکتی ہیں، اسی قوت کا نام روح ہے۔ نماز ہم بھی پڑھتے ہیں، مگر ہماری نماز اور عارف کی نماز میں بہت فرق ہے۔ گو دیکھنے میں وہ ہماری طرح رکوع اور سجود کرتا ہے مگر باطن میں نماز اس کی کچھ اور ہی چیز ہے۔ آیت اور تلاوت تو وہ ہماری ہی طرح کرتا ہے مگر وہ عن الفحشاء والمنکر کا پورا عامل ہوتا ہے۔ وہ شریعت سے ایک اندرونی جدا طریقہ ہے۔ شریعت بیرونی محافظ ہے اور آپ نے سنا ہوگا: محتسب را درون خانہ چہ کار (ص:۲۵۱)
ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی کو نو دریافت خطبات شبلی جن کتب و رسائل سے ملے ہیں ان کا حوالہ زیر نظر مجموعہ میں ہر خطبہ کے اختتام پر درج کیا گیا ہے جہاں ضرورت محسوس کی گئی ہے وہاں وضاحتی اور تشریحی نوٹس بھی لکھے گئے ہیں۔ آیات قرآنی کی تخریج بھی کردی گئی ہے، جس میں سورہ کے ساتھ آیت نمبر بھی درج کیا گیا ہے۔ بعض آیات اصل خطبات میں نامکمل نقل ہوئی تھیں، انھیں مکمل درج کرکے ان کا حوالہ بھی دے دیا گیا ہے۔ ’’کلیات خطبات شبلی‘‘ میں متعدد اعلام و اشخاص کا ذکر یا نام آیا ہے۔ خطبات کی تفہیم و توضیح کے لیے حواشی میں اختصار سے ان کا تذکرہ بھی لکھا گیا ہے اس طرح اس میں ۲۲۵؍ سے زائد اعلام و اشخاص کا تذکرہ شامل ہوگیا ہے، جس میں انبیاء صلحا اور مختلف علوم و فنون کے علما و فضلا، ادبا و شعرا، حکما و صوفیا، مستشرقین و ملحدین اور دیگر مذاہب کے ارباب کمال اور اہل فکر و نظر شامل ہیں، اس طرح یہ مجموعہ خطبات ’’شبلی اور جہان شبلی‘‘ کا بھی ایک حصہ ہوگیا ہے۔ ڈاکٹر اعظمی نے تلاش و تفحص اور تحقیق و تدوین کے یہ تمام امور اس لیے انجام دیے ہیں کہ قارئین کے سامنے خطبات شبلی ہر طور سے مکمل ہوں اور ان کی تفہیم بھی آسان ہو اور ان سے بھرپور اور زیادہ بہتر طور پر استفادہ کیا جاسکے۔
بہرحال یہ کتاب ایک جامع دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے اور خطبات شبلی کے حوالے سے اب تک کی سب سے جامع کتاب ہے۔ ڈاکٹر اعظمی صاحب نے اس کتاب کو مرتب کرکے اس سے استفادہ کو آسان اور سہل بنا دیا ہے۔ کتاب ۳۴۴؍ صفحات پر مشتمل ہے، قیمت ۴۰۰؍ روپے ہے، انتساب بمبئی کی بزم علمیہ کی ایک یادگار گرامی قدر پروفیسر عبدالستار دلوی کے نام کیا گیا ہے۔ کتاب کے آغاز میں مرتب کا ۳۲؍ صفحات پر مشتمل ایک تفصیلی مقدمہ بھی شامل ہے۔ یہ کتاب انجمن ترقی اردو (ہند) نئی دہلی سے حاصل کی جاسکتی ہے۔
مارچ 2020، جب کرونا وبا کی پرچھائیاں نمودار ہونا شروع ہو چکی تھیں، ماسک پہننا ابھی تک ضروری قرار نہیں دیا گیا تھا، ہندوستان کے وسطی صوبہ مدھیہ پردیش کے بیتو ل شہر کے نواسی دیپک بندھیلا، جو پیشے سے وکیل ہیں اور صحافی بھی رہے ہیں، صبح سویرے ذیابیطس کی دوائی لینے مقامی اسپتال کی طرف رواں تھے۔ باریش ہونے کی وجہ سے بندھیلا کو دیکھ کر مسلمان ہونے کا دھوکہ ہوجاتا ہے۔ شہر کے چوراہے پر پولیس کے اہلکاروں نے ماسک کے بغیر گھومنے کی وجہ سے ان کو روکا، پھر پکڑ کر خوب زد و کوب کیا۔جب بندھیلا نے اس کی شکایت اعلیٰ افسران سے کی اور پھر کورٹ میں فریاد لگائی، تو ان کے گھر پر پولیس کے اہلکاروں کی لائن لگ گئی، جو معافی مانگ کر ان سے شکایت واپس لینے کی درخواست کر رہے تھے۔
بار بار پولیس اہلکار ان کو سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ،’آپ کی لمبی اور مسلمانوں والی داڑھی سے وہ دھوکہ کھا گئے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ وہ کسی مسلما ن کو زد و کوب کر رہے تھے۔’یہ بھی بتایا کہ پیٹنے والوں میں جس اہلکار کپل ساورشتری نے ان کو سب سے زیادہ نشانہ بنایا تھا، مسلمانوں کی دیکھ کرنہ جانے کیوں اس کی ہتھیلی میں کھجلی ہوجاتی ہے۔ لاک اپ میں مسلمانوں کو زد و کوب کرنے سے اس کو سکون ملتا ہے۔
بندھیلا سوال کرتے ہیں کہ یہ مسلمان جیسے دکھنے والے کسی ہندو کا حال ہے، تو پھر مسلمانوں کے ساتھ کیا ہوتا ہوگا؟
معروف صحافی ضیاء السلام کی 174صفحات پر مشتمل کتاب ‘بینگ مسلم ان ہندو انڈیا: اے کریٹکل ویو‘ اس طرح کے واقعات سے بھر ی پڑی ہے۔ 2014کے بعد ہندوستان میں مسلمانوں کو جس طرح کے حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، یہ کتاب اس کا ایک آئینہ ہے۔
مصنف ہندوستان کے ایک نامور صحافی ہیں، جو انگریزی کے مؤقر اخبار دی ہندو کے ساتھ پچھلی دو دہائی سے وابستہ ہیں۔ہندوستان میں مسلمانوں کے حوالے سے ان کی کئی کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔
ہندوستان میں ہندو قوم پرست انتخابات میں ہندو ووٹروں کو لبھانے کے لیے عام طور تین ایشوز کا استعمال کرتے ہیں۔ ان میں گائے، پاکستان اور مسلمان سر فہرست ہیں۔ گائے کو تو 2014کے انتخاب میں کیش کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح 2019 کے انتخابات میں پاکستان کو لےکرہیجان میں قوم کو مبتلا کرکے ووٹ بٹورے گئے۔ اب لگتا ہے کہ 2024 کے انتخابات کے لیے برا ہ راست مسلمان ٹارگیٹ پر ہیں۔
مسمار شدہ بابری مسجد کی جگہ پر ابھی نامکمل رام مندر کا وزیر اعظم نریندر مودی کا خود ہی افتتاح کرنا، وارانسی میں گیان واپی مسجد کے تہہ خانہ کو ہندووں کے لیے کھول کر پوجا کرنے کی اجازت دینا، دہلی کے مہرولی علاقے میں قطب مینار سے چند فاصلے پر 800 سالہ قدیم مسجد کو بلڈوزروں سے مسمار کرنا اور مغربی اتر پردیش کے باغپت ضلع کے برناوا میں شیخ بدرالدین کی درگاہ اور اس کی سو بیگھے زمین ہندوؤں کے حوالے کرنا، ہندو قوم پرست بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت صوبائی حکومتوں کا یونیفارم سول کوڈ پر قانون سازی کرنا، حا ل میں رونما چند ایسے واقعات ہیں، جن سے اس بات کو تقویت ملتی ہے کہ ہندوستان میں اب غیر اعلانیہ طور پر ہندو راشٹر قائم ہو چکا ہے۔
ابھی حال ہی میں پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے بجٹ میں اقلیتوں کے حوالے سے کئی اسکیموں کو یا تو ختم کر دیا گیا ہے، یا ان کی مد میں مختص رقوم میں بے تحاشہ کمی کی گئی ہے۔
ضیاء السلام نے اپنی کتاب کو آٹھ حصوں میں تقسیم کرکے تیس مختلف ایشوز پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ پہلے باب میں مسلمانوں کی سیاسی بے وزنی کا ذکر کیا گیا ہے۔
کتاب میں بتایا گیا ہے کہ ایک اندازے کے مطابق ووٹر لسٹ سے 12 کروڑ نام غائب ہیں، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ آؤٹ لک جریدہ نے جنوبی صوبہ کرناٹک کے حوالے سے بتایا تھا کہ نو ہزار مسلمان ووٹروں کو مردہ قرار دیا گیا تھا۔
ویسے ہندوستانی سیاست میں بے جے پی کے عروج کے ساتھ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں ان کی نمائند گی کم ہو تی گئی۔ 1980کے انتخابات کے وقت بی جے پی وجود میں آئی تھی اور اس وقت لوک سبھا میں مسلمان اراکین کی تعداد 49 تھی۔ اس کے بعد 1984میں یہ تعداد 46تھی۔ ان انتخابات میں بی جے پی نے دو نشستیں حاصل کی تھیں۔ 2009میں مسلمان اراکین کی تعداد 30 تھی اور پھر 2014میں یہ تعداد 22 تک گھٹ گئی۔ 2022 سے ہندوستان کی جمہوری تاریخ میں پہلی بار مرکزی حکومت میں کوئی مسلمان وزیر نہیں ہے۔
اس کا براہ راست تعلق اتر پردیش، بہار، مدھیہ پردیش، دہلی اور راجستھان میں بی جے پی کے عروج سے ہے۔ 2014سے قبل سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے وقت مسلمانوں کی یادآجاتی تھی، کیونکہ ان کے ووٹ کے بغیر سیٹ نکالنا محال ہو جاتا تھا۔ مگر مودی نے ایسا فارمولہ ایجاد کیا کہ مسلمان ووٹ کو بالکل بے وقعت بنا دیا اور یہ ثابت کردیا کہ ان کے بغیر بھی انتخابات جیتے جاسکتے ہیں، اس لیے اب سیکولر پارٹیاں بھی مسلمان اراکین کو ٹکٹ دینے میں پس و پیش سے کام لیتی ہیں۔ مسلمانو ں کو سسٹم سے باہر رکھنے کا ایک اور حربہ، ان کی اکثریتی سیٹوں کو دلتوں کے لیےمحفوظ کرنا ہے، جس سے ایک تیر سے دو شکار کیے جاتے ہیں۔
آسام کے کریم گنج میں 52 فیصد مسلم آبادی ہے مگر اس سیٹ سے کوئی مسلمان انتخاب نہیں لڑ سکتا ہے۔ اس کو دلتوں کے لیے مخصوص کردیا گیا ہے، جبکہ ان کی آبادی محض 13فیصد ہے۔ یہی حال اتر پردیش میں بہرائچ، نگینہ اور کئی دیگر سیٹوں کا ہے۔
چونکہ مصنف دی ہندو کے فیچر سیکشن کے انچارج رہے ہیں اس لیے بالی ووڈ کی فلموں وغیرہ پر اچھی خاصی دسترس رکھتے ہیں۔ کتاب میں انہوں نے بتایا ہے کہ فلم انڈسٹری کے پروڈیوسر کیسے ابن الوقتی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جواہر لال نہرو کے وقت جب سیکولرزم کا سکہ چلتا تھا، تو یہ فلمساز، نیا دور، مدرانڈیا، انار کلی اور مغل اعظم جیسی شاہکار فلمیں بناتے تھے۔ مگر 2014کے بعد فلم ساز ایسی فلمیں بناتے ہیں، جن میں ہندوتوا کو بڑھاوا دیا جاتا اور مسلمانوں کو ولن کے بطور پیش کیا جاتا ہے۔
اکثر ہدایت کار تو خوش ہیں کہ وہ حکومت کی پالیسی کی تشہیر کرتے ہیں اور یہ رشتہ باہمی طور پر مفید ہے۔تاریخ اس قدر مسخ کی جا رہی ہے کہ ان فلموں کو دیکھ کر ہی گھن آتی ہے۔ سمراٹ پرتھوی راج فلم میں بتایا گیا ہے کہ پرتھوی راج نے محمد غوری کو قتل کردیا تھا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ غوری تو 1206 تک زندہ تھا، اور پرتھوی راج کی موت 1192میں ہوئی تھی۔
پدماوت فلم میں علاء الدین خلجی کو ایک ولن کے روپ میں پیش کیا گیا، ان فلموں سے جو ذہن سازی ہوتی ہے، اس سے مسلمانوں کے تئیں نفرت کا ایک ماحول بن جاتا ہے۔ اب ان کو کون بتائے کہ ان بادشاہوں کے وزیر اور جرنیل ہندو ہوتے تھے۔ مغل فرمانروا اورنگزیب، جو سب سے زیادہ نشانہ پر ہے نے مندروں کو جاگیریں عطا کیں اور اپنے پیش روؤں سے زیادہ غیر مسلموں کو ملازمتیں دیں۔
ایک ہزار سالہ مسلم دور کو ایک تاریک دور کے طور پرپیش کیا جاتا ہے اور اس میں تو وزیر اعظم خود ہی پیش پیش ہیں۔ شہروں اور دیہاتوں کے ناموں کو تبدیل کرکے اس تاریخ کو ختم کرکے اور مسلمانوں کو بیگانہ کیا جا رہا ہے۔
الہ آباد کو پریاگ راج، مغل سرائے کو دین دیال اپادھیائے، فیض آباد کو ایودھیا تو بس کئی نام ہیں۔ آگرہ کا نام اگرون، بریلی کا نام مہا رشی وشیشٹ کرنے کی تیاریاں ہیں۔ اس کے بعد پتہ نہیں بریلوی مکتبہ فکر کے افراد اپنے آپ کو کس نام سے پکاریں گے۔
یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ برطانوی حکومت سے لوہا لینے والے سلطان ٹیپو کے نام پر ٹرین ٹیپو ایکسپریس کا نام تبدیل کرکے ووڈیار ایکسپریس رکھا گیا۔ ووڈیار راجہ نے غداری کرکے برطانوی حکومت کا ساتھ دیا تھا۔
مصنف ضیاء السلام کا کہنا ہے کہ یہ کوئی اکا دکا واقعات نہیں ہیں، بلکہ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت یہ روبہ عمل لائے جا رہے ہیں، جس سے یہ باور کرایا جائے کہ غیر ہندو باہر سے آیا ہے اور اس نے اس ملک کو نقصان پہنچایا ہے اور نفرت کے قابل ہے۔
اگر مسلم حکمرانوں نے زیادتیاں کی بھی ہیں، تو اس کے لیے بغیر کسی استثنا کے پوری مسلم برادری کو اکیسویں صدی میں نشانہ بنانا کیسے جائز ہے؟
اب ایک نیا حربہ بلڈوزر جسٹس کا شروع ہو گیا ہے۔ مصنف کے بقول آج کے ہندوستان میں بلڈوزر ایک جارح اسٹیٹ کی علامت بن چکا ہے، جو مسلمانوں میں ایک خوف پیدا کردیتا ہے۔
الہ آباد کے محمد جاوید کا گھر بلڈوزر سے صرف اس وجہ سے تہس نہس کر دیا گیا کہ اس نے ایک احتجاج میں حصہ لیا تھا۔ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت رام نومی یا ہنومان جینتی یا کسی اور ہندو تہوہار کے موقع پر کھلی ٹرکوں یا ٹمپووں میں ایک جلوس کسی مسلم محلے میں وارد ہو جاتا ہے۔خاص طور پر مسجد کے پاس یہ جلوس رک کر اشتعال انگیز نعرے بازی کرتا ہے۔ پہلے ہندوستان میں رہنا ہوگا، جئے شری رام کہنا ہوگا اور پھر جب اس کا کوئی رد عمل نہیں آتا ہے، تو اس سے بھی برے نعرے لگائے جاتے ہیں۔
اسی کے ساتھ تلواریں لہرا کر ایک پورے والیوم کے ساتھ ڈی جے بجانا شروع ہوجاتا ہے۔ یہ اس وقت ہوتا ہے، جب مسجد کے اندر لوگ نماز ادا کررہے ہوتے ہیں۔ اب اسی دوران کوئی مسجد کے منارے پر چڑھ کر گھیروا جھنڈ لہرا کر فتح کا اعلان کرتا ہے۔
اب بس دیر اس بات کی ہے کوئی مسجد کے اندر سے یا باہر سے جلوس پر کوئی کنکر پھینکے۔ اس کنکر کے ساتھ یہ جلوس ٹرکوں سے کود کر آس پاس کی دکانوں اور مکانو ں کو نشانہ بناکر لوٹ مار کرکے کسی وقت آگ کے حوالے کردیتا ہے۔
پولیس اس دوران خاموش تماشائی بنی ہوتی ہے۔کسی طرح اب اس جلوس کو آگے بڑھنے پر آمادہ کیا جاتا ہے۔ دارالحکومت دہلی کے جہانگیر پوری علاقہ اور مدھیہ پردیش کے کھرگاوں کے علاوہ اس طرح کے واقعات کئی جگہوں پر پیش آئے۔
فلم ابھی ختم نہیں ہوئی۔ لوٹ پیٹ کر مسلم محلہ دار اب اپنے نقصان کا جائزہ لے کر اپنی قسمت کوس ہی رہے ہوتے ہیں کہ چند گھنٹوں کے بعد پولیس کا دستہ بلڈوزروں کے ساتھ نمودار ہوجاتا ہے اور دکانوں اور مکانوں کو مسمار کرنا شروع کر دیتا ہے۔
اپریل 2022 کو مدھیہ پردیش میں اسی طرح 49مسلم دکان و مکان ڈھائےگئے۔ اگلے دن صوبہ کے وزیر داخلہ نروتم مشرا نے کہا کہ رام نومی جلوس پر پتھر پھینکنے والوں کے خلاف کارروائی کرکے ان کی جائیداوں کو نشانہ بنایا گیا۔
ہنومان اور رام نومی کے جلوس کسی مذہبی عقیدت کے بجائے مسلمانوں پر ایک طرح کی نفسیاتی برتری اور ان کو دباو میں رکھنے کے لیےنکالے جاتے ہیں۔ مدھیہ پردیش کے اجین شہر میں تو بس اسی لیے ایک گھر پر بلڈوزر چلایا گیا کیونکہ کسی نے شکایت کی کہ اس مکان کی چھت سے کسی نے جلوس کے اوپر تھوک دیاتھا۔
مصنف نے 1992میں بابری مسجد کی مسماری کے وقت اور آج کے حالات کا موازنہ کرتے ہوئے اپنی مثال پیش کی ہے۔ دہلی کے نواح نوئیڈا میں ہندوتو کے کارکنان رام مندر تحریک کے سلسلے میں گھر گھر جاکر اشتعال انگیز نعرے لگاتے تھے، تو ان کے ہندو پڑوسی ان کو دلاسہ دے کر ان کی ہمت بڑھاتے تھے؛
وہ طوفان میں ہمارے ساتھ کھڑے تھے۔ مگر اب حالات بالکل مختلف ہیں۔ میرے پڑوس میں اکثریتی برادری کا ایک بھی خاندان ایسا نہیں ہے جس نے 2020 میں دہلی میں ہورہے فسادات کے دوران مسلمانوں کے لیے درد کا اظہار کیا ہو۔ میرے کندھے پر بازو رکھنے کوئی میرے گھر نہیں آیا، کسی نے دلاسہ نہیں دیا۔ اس کے بجائے ہر گھر میں گیروے رنگ کا جھنڈا لگا ہوا تھا، کچھ نے اپنی بالکنیوں سے ہنومان کی تصویریں آویزاں کی تھیں۔ میں نے اپنے گھر کے دروازے بند کردیے اور اپنے بچوں اور اہلیہ کو کو گھر کے اندر رینے اور لائٹ آف کرنے کے لیے کہا۔ ہم 1992سے کتنی دور آگئے ہیں۔
کم و بیش ایسی ہی صورت حال کا سامنا راقم کو دہلی میں 2019میں کشمیر کے پلوامہ میں عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد کرنا پڑا، جب پاکستان کو سبق سکھانا انتخابی موضوع بنایا گیا تھا۔ سوسائٹی کے چوکیدار نے ہمیں بجلی بند کرنے اور گھر کے اندر رہنے کا مشورہ دیا، جبکہ ایک مشتعل ہجوم سوسائٹی کے مین گیٹ پر نعرے بلند کررہا تھا۔
ان کے جانے کے بعد دہلی میں جائے پناہ کی تلاش میں رات بھر بھٹکتے رہے۔ اگلے روز معلوم ہوا کہ رات کے وقت ہجوم نے سوسائٹی کے گیٹ کو کراس کرکے ہمارے گھرکی بالکونی میں گملے وغیرہ توڑ ڈالے تھے ۔ مگر خیر ہوئی کہ پولیس نے ان کو جلد ہی بھگا دیا تھا۔
ضیاء السلام کی کتاب میں تقریباً تمام موضوعات، جن میں لو جہاد، ہجومی تشدد، مساجد پر نشانہ، حجاب اور ہندوتوا وغیرہ شامل ہیں، پر بحث کی گئی ہے۔
مگر سوال ہے کہ جب بی جے پی ہمیشہ سے ہی مسلمانو ں کے تئیں ایشوز کو اپنے انتخابی موضوع بناتی تھی، تو آخر مسلم رہنماؤں کو خوش فہمی کیوں تھی کہ اقتدار میں آنے کے بعد اس کے لیڈران کا وطیرہ بدل جائے گا۔ اس کتاب کو پڑھ کر یقیناً مایوسی طاری ہو جاتی ہے۔ مگر مصنف کا خود ہی کہنا ہے کہ شاید یہ حالات ایک نئی صبح کی نوید لےکر آئیں۔امید پر دنیا قائم ہے۔
برسوں پہلے کسی گلوکارکی گائی ہوئی ایک غزل سنی تھی۔یوں تو اس کے تمام ہی اشعار بہت دلکش تھے، لیکن پہلا شعر بڑا معنی خیز تھا۔یہ ہماری نوجوانی کا دورتھا۔ اس دورمیں شاعر اور گلوکار سے زیادہ شعروں سے سروکار ہوتا تھا، اس لیے یہ جانے بغیر کہ شعر کس کا ہے اور کس نے اپنی خوبصورت آواز میں اسے گایا ہے، ہم اسے گنگنانے لگے ؎
دیواروں سے مل کر رونا اچھا لگتا ہے
ہم بھی پاگل ہوجائیں گے ایسا لگتا ہے
بعد کوجب ہم شعور کی منزلوں تک پہنچے تو معلوم ہوا کہ یہ شعر قیصر الجعفری کاہے، جو بمبئی میں رہتے ہیں اور ان کا شمارہمارے عہد کے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔اسی دور میں بشیر بدر کا بھی ایک شعر گردش میں تھا ؎
تم مجھے چھوڑ کے جاؤگے تو مرجاؤں گا
یوں کرو جانے سے پہلے مجھے پاگل کردو
عشق میں پاگل ہونے اور خود کو برباد کرنے کی آرزو کتنی شدید ہوتی ہے‘یہ کسی عاشق اور شاعرسے بہترکون جان سکتاہے۔ اسی دور میں والی آسی نے کہا تھا ؎
توُ اگر عشق میں برباد نہیں ہوسکتا
جاتجھے کوئی سبق یاد نہیں ہوسکتا
آج جب قیصر الجعفری کی کلیات میرے ہاتھ آئی ہے تو ذہن میں ان کی برسوں پرانی وہی غزل اور اس کا پہلاشعر گونج رہا ہے۔قیصر الجعفری ہمارے عہد کے ایک معتبراورممتاز شاعر تھے۔ اس کے ساتھ وہ ایک محنت کش اور بہترین انسان بھی تھے۔انھوں نے ریلوے میں ملازمت کی اور پوری عمر رزق حلال کی جستجواور یافت میں گزاری، جس کی پاکیزگی ان کے اشعار میں بھی نظر آتی ہے۔ان کی شعر گوئی کاہنر اپنے ہم عصروں میں شاید سب سے زیادہ منفردتھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی مقبولیت کے لیے بیساکھیوں کا سہارا نہیں لیا۔ قیصر الجعفری کے جدید انداز تکلم اور ان کے شعور کی گہرائی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انجم فوقی بدایونی لکھتے ہیں:
”اس میں کوئی شک نہیں کہ قیصر الجعفری کے شعر کا جدید انداز، ان کے شعور کی گہرائی، فکر کی ہلکی ہلکی تپش‘ روایت کے خوبصورت ورثہ میں نئے لہجے کی آمیزش، لفظوں کی سادگی، خیال وکیفیت کی فنکارانہ شعرتراشی اور سب سے بڑھ کر ان کے جسم وجاں میں چھپے ہوئے غم کی ایسی آفاقی خلش جو اہل دل کے چہروں پر موج انبساط وروح پرور آنسوؤں کی تراوش کا سبب بن جائے، یقینا قابل ذکر بھی ہے، لائق ستائش بھی۔“(کلیات قیصر)
557 صفحات پر پھیلی ہوئی ”کلیات قیصر“ میں ان کے تین مجموعوں ”رنگ حنا“(1964) ”سنگ آشنا“ (1977)”دشت بے تمنا“(1987)اور ”اگر دریا ملا ہوتا“(2005)کے علاوہ ان کی نظمیں اور کچھ غیرمطبوعہ کلام شامل ہے۔ا س کو مرتب کرنے کی ذمہ داری ان کے لائق فرزند برادرم عرفان جعفری نے نہایت سلیقے اور ذمہ داری سے نبھائی ہے۔ عرفان جعفری ازخود ایک اچھے شاعر اور نفیس انسان ہیں۔ میں نے انھیں اب سے کوئی18 برس پہلے مقدس سرزمین سعودی عرب میں دریافت کیا تھا۔ موقع تھاجدہ میں منعقدہ عالمی اردو کانفرنس کا اس موقع پر انڈین کونسلیٹ کا سالانہ مشاعرہ بھی تھا۔ عرفان جعفری مشاعرے میں مدعو تھے اور وہیں ان سے تفصیلی ملاقاتیں ہوئیں اور ان کا کلام بھی سنا۔یہ بڑی سعادت کی بات ہے کہ انھوں نے اپنے والد کی کلیات شائع کی۔ اس کا خواب تو خود قیصرالجعفری مرحوم نے دیکھا تھا، لیکن اس کو تعبیر عطا کرنے کا کام عرفان جعفری کے حصہ میں آیا۔یہ ان کی خوش بختی ہے۔یوں تو قیصرالجعفری کے تمام ہی مجموعے قابل قدر ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ1977 میں شائع ہونے والے مجموعہ کلام ”سنگ آشنا“ نے انھیں مقبول شاعروں کی صف میں کھڑا کیا۔ اس مجموعہ کی تمام ہی غزلیں ہٹ ہوئیں اور سب سے زیادہ مقبولیت ان کی اس غزل کو ہی ملی۔
تمہارے شہر کا موسم بڑا سہانہ لگے
میں ایک شام چرالوں اگر برا نہ لگے
اس غزل نے قیصر الجعفری کے شاعرانہ مزاج کو دور دور تک پہنچایا۔یہ غزل یوں تو پہلے بھی معروف تھی، لیکن استاد رئیس خاں نے اسے اپنی خوبصورت آواز میں گاکر شاعری کے دلدادہ لوگوں کو قیصر الجعفری کا گرویدہ بنادیا۔
قیصر الجعفری کی پیدائش سنگم کی سرزمین الہ آباد میں 14/ستمبر1926کو ہوئی تھی اور انھوں نے 5/اکتوبر 2005کو کوسہ ممبرا میں وفات پائی۔انھوں نے اپنی شاعری میں زندگی کے تجربات کو بڑے لطیف پیرائے میں بیان کیا ہے۔وہ زندگی کے مسائل سے نبرد آزماتو نظر آتے ہیں، لیکن اس کے آگے سپر نہیں ڈالتے۔ان کے اندرون میں جو تلاطم برپا تھا، اسے انھوں نے زبان عطا کی
یاروں کو کیا ملا میرا چہرہ کرید کر
جو زخم تھا وہ روح کی گہرائیوں میں تھا
ان کے ہاں ضبط غم کی ایک عجیب کیفیت دیکھنے کو ملتی ہے۔ وہ اپنے غم کو شعری لباس تو عطا کرتے ہیں، لیکن اس احتیاط کے ساتھ کہ وہ صحیح معنوں میں غزل بن جاتی ہے
یہ محبت ہے ذرا سوچ سمجھ کررونا
ایک آنسو بھی جو ٹوٹا تو سنائی دے گا
ممتازترقی پسند شاعرعلی سردار جعفری نے ان کی شاعری میں غم ذات اور غم کائنات کا سراغ لگاتے ہوئے لکھاتھا کہ
”اردو شاعری کے لیے یہ عہدکچھ بہت سازگار نہیں ہے، فلمی گیتوں کی وجہ سے اردو شاعری کی مقبولیت بہت بڑھ گئی ہے اور اردو تعلیم کی کمی کی وجہ سے اردو شعر کا علم کم ہوگیا ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج وہ نظمیں اور غزلیں زیادہ مقبول ہیں، جن پر محبوب کا جسم حاوی ہے، جن میں محبوب کے لیے احترام کی کمی ہے اور وسواخت کا انداز زیادہ ہے۔ اس سے گریز کرکے سنجیدہ شاعروں ایک گروہ جو زیادہ ترنئی نسل سے تعلق رکھتا ہے، غم ذات میں مبتلا ہوگیا ہے۔ یوں تو غم ذات کے بغیر غم کائنات کا احساس کسی شاعرکے لیے ممکن نہیں ہے، لیکن غم کائنات سے فرار کرکے غم ذات کے قلعہ میں اسیر ہوجانا شاعری کے لیے نیک فال نہیں ہے۔ مجھے خوشی ہے کہ قیصرالجعفری کی شاعری اس تاریک حلقہ کی گرفت سے باہر ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس میں زندگی کے مسائل سے دست وگریباں ہونے کی طاقت اور صلاحیت ہے۔ان میں غم ذات بھی ہے اور غم کائنات بھی، جو دونوں ایک دوسرے کے گلے میں بانہیں ڈالے ہوئے ہیں۔“(کلیات قیصر)
”کلیات قیصر“اچھی اور سچی شاعری کے دلدادگان کے لیے ایک تحفے سے کم نہیں ہے۔ نہایت عمدہ کاغذ اور روشن طباعت کے ساتھ شائع ہوئی اس کتاب کو حاصل کرنے کے لیے مرتب عرفان جعفری (9987792355)سے رابطہ قایم کیا جاسکتا ہے۔
آج ۱۲۰ : حزن ، تڑپ ، خوف ، یادوں اور محبت سے بھرے ناولٹ اور کہانیاں- شکیل رشید
ہندوستان میں دیوبند،سہارنپور،لکھنؤ،بنارس اور اعظم گڑھ(بلریاگنج،سراۓمیر،مبارکپور) وغیرہ میں قائم مرکزی دینی تعلیمی ادارے اپنی غیر معمولی خدمات کی طویل تاریخ رکھتےہیں اور ان میں سے ہرایک کے کچھ امتیازات و اختصاصات بھی ہیں۔ جامعۃ الفلاح بلریاگنج اس اعتبار سے انفرادی شان کا حامل ہے کہ یہ اپنے فضلا کو زمانہ شناسی و عصری آگہی کی تربیت بھی دیتا ہے،ان میں ادبی ذوق و شعور کی نشوونما بھی کرتا ہے،خدمتِ دین کے ایک خاص مزاج و منہاج سے بھی لیس کرتا ہے،مشرقی علوم کے ساتھ ضروری عصری علوم کی تحصیل کی بھی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور مستقبل بینی و مستقبل سازی کی صلاحیتوں سے بھی ہم کنار کرنے کی کوشش کرتا ہے؛یہی وجہ ہے کہ یہ ادارہ رجال سازی و برومندی کی بڑی خوش آگیں تاریخ رکھتا ہے اور روز بہ روز اس کی سرخ روئی میں اضافہ ہورہا ہے۔
اپنے اپنے ذوق و دلچسپی اور مواقع کی دستیابی کے اعتبار سے دیگر اداروں کی طرح فضلاے الفلاح کی خدمات کی بھی مختلف جہتیں ہیں،جن میں سے ایک اہم جہت ان کی ادبی جولانیوں کی ہے۔ بہت سے فلاحی فضلا نے مدرَسی تعلیم سے فراغت کے بعد عصری اداروں سے زبان و ادب کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی،مختلف ادبی،علمی، تحقیقی و تنقیدی موضوعات پر ریسرچ کیا اور اپنے نتائجِ تحقیق سے اردو کے تحقیقی و تنقیدی سرمایے میں اضافہ کیا ہے۔ان کے انھی کارناموں کو نمایاں کرنے اور ان کا ایک اجمالی منظرنامہ پیش کرنے کی سعیِ مشکور ڈاکٹر عمیر منظر اور ڈاکٹر امتیاز وحید نے حال ہی میں اشاعت پذیر اپنی کتاب’اشاریہ فارغینِ جامعۃ الفلاح کی ادبی خدمات‘ کے ذریعے کی ہے۔ دونوں حضرات خود بھی الفلاح کے خوشہ چیں رہے،پھر عصری جامعات سے علمی تشنگی بجھائی اور اب لکھنؤ اور کولکاتا میں اردو زبان و ادب کی تدریس میں سرگرم ہیں۔عمیر منظر صاحب تدریس کے ساتھ ساتھ تنقیدیں لکھتے ہیں،شاعری کرتے ہیں،تحقیقی شغف بھی قابلِ قدر ہے،منچندا بانی پر ان کا کام اہمیت کا حامل ہے،لکھنؤ کے فراموش کردہ فکشن نگار خان محبوب طرزی پر 2020 میں ان کی کتاب آئی تھی،جسے بڑی پذیرائی حاصل ہوئی، ’شبلی،مکاتب شبلی اور ندوۃ العلما‘ بھی ان کی بڑی دلچسپ کاوش ہے،جس میں انھوں نے شبلی کے ان خطوط کو جمع کیا ہے،جن میں ندوے سے متعلق معاملات و موضوعات پر انھوں نے گفتگو کی ہے،ان کے علاوہ بھی ان کی متعدد کتابیں ہیں،تنقیدی مضامین کا ایک مجموعہ بھی ’باتیں سخن کی‘نام سے منظر عام پر آچکا ہے۔امتیاز وحید صاحب کا قلم بھی خاصا پختہ ہے،پیروڈی پر ان کا کام قابلِ توجہ ہے۔ کل ہی عالمی کتاب میلے سے میں نے ان کی مدونہ و مرتبہ کتاب’ہیون سانگ دہلی میں‘ خریدی ہے،جو اردو کے معروف طنزو مزاح نگار فکر تونسوی کی ان تحریروں پر مشتمل ہے،جو ستمبر1979سے ستمبر 1980 کے دوران ماہنامہ’بیسویں صدی‘ میں شائع ہوئی تھیں۔امتیاز وحید نے بڑی کاوش سے انھیں جمع کیا،ایڈٹ کیا اور مغربی بنگال اردو اکیڈمی سے شائع کروایا ہے۔فکر تونسوی کی دوسری تحریروں کے مانند یہ بھی نہایت چٹخارے دار اور خاصے کی چیز ہے۔
زیر نظر کتاب عرضِ ناشر،پیغامات اور سپاس نامہ و پیش لفظ کے بعد جامعۃ الفلاح کے تعارف سے شروع ہوتی ہے،جس میں بالاختصار مؤلفین نے اس ادارے کی تاریخ،خدمات،اس کے شعبوں،نصاب و نظامِ تعلیم،اس کے شعبہ جات اور نمایاں اساتذہ کا ذکر کیا ہے۔اس کے بعد ان فارغینِ جامعہ کا اجمالی تعارف پیش کیا گیا ہے،جنھوں نے وہاں سے فراغت کے بعد اردو زبان و ادب،تراجم اور صحافت وغیرہ کے شعبوں میں خدمات انجام دی ہیں ،ان کی تعداد 140 سے زائد ہے ۔اس کے بعد ’فلاحی برادران بحیثیت نگراں(ایم فل ،پی ایچ ڈی)‘ کے تحت انھوں نے مختلف ہندوستانی جامعات کے شعبۂ اردو میں برسرِ کار فلاحی فضلا کی نگرانی میں ایم فل اور پی ایچ ڈی سطح کے تحقیقی کاموں ،تحقیق کرنے والوں کی تفصیلات مہیا کی ہیں۔اسی طرح جن فلاحی فضلا نے مختلف یونیورسٹیز میں تحقیقی کام کیے ہیں،ان کے نام،کام، موضوعات،ان کے نگراں اور تحقیق کی تکمیل کس سال ہوئی؛یہ ساری معلومات فراہم کی ہیں۔اس کے بعد ’پی ایچ ڈی مقالات کی تلخیص‘ کے عنوان سے مرتبین نے فلاحی فضلا کے ذریعے لکھے گئے پی ایچ ڈی کے مقالوں کی تلخیصیں پیش کی ہیں،یہ حصہ بڑی اہمیت کا حامل ہے،کہ اس کے مطالعے سے 45 تحقیقی و تنقیدی موضوعات پر لکھے گئے مقالوں کے مشمولات،ان کے امتیازی نکات اور ان میں برتے گئے طریق ہاے تحقیق و تنقید سے واقفیت حاصل ہوتی ہے۔خاص طورپر ریسرچ کے طلبہ و طالبات کے لیے یہ حصہ قابلِ مطالعہ و استفادہ ہے۔اس کے بعد ’ادارتی خدمات‘ کے تحت پچاس سے زائد اُن فلاحی فضلا کا ذکر ہے، جنھوں نے مختلف رسائل کی ادارت کی یا اب بھی ان کے ادارۂ تحریر میں شامل ہیں،ان کے نام اور زمانۂ ادارت کی بھی نشان دہی کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ بچوں کا ادب،تاریخ،تحقیق و تنقید،تدوین و ترتیب، تراجم، جغرافیہ،سفرنامہ، خودنوشت، سیرت و سوانح،شعر و سخن،صحافت،فرہنگ سازی،فکشن،لائبریری سائنس،معاشیات، مونوگراف،نصابی کتب جیسے عنوانات کے تحت فلاحی فضلا و اسکالرز کے ذریعے لکھی گئی کتابوں کے نام اور ان کی اشاعت کی تفصیلات بھی دی گئی ہیں۔
اس طرح محض 240 صفحات پر مشتمل یہ کتاب جامعۃ الفلاح کے فضلا کی اردو زبان و ادب سے متعلق خدمات کی اجمالی،مگر خاصی ہمہ گیر تصویر پیش کرتی ہے اور اس کتاب کے مطالعے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جامعۃ الفلاح کے فضلا نے نہ صرف ملک کی درجنوں یونیورسٹیز سے اردو زبان و ادب کے مختلف گوشوں پر تحقیقیں کی ہیں؛بلکہ اس وقت ان کی ایک بڑی تعداد ہندوستان بھر کی مختلف دانش گاہوں میں درس و تدریس کی خدمت بھی انجام دے رہی ہے اور انھوں نے اردو کے تصنیفی و تالیفی سرمایے میں بھی بیش بہا اضافے کیے ہیں۔یہ کتاب فلاحی فضلا کے لیے تو قابلِ قدر ہے ہی،مگر عام پڑھنے لکھنے والے،تحقیق و تنقید سے دلچسپی رکھنے والے یا تحقیقی عمل میں مصروف طلبہ و طالبات کے لیے بھی اس کتاب کا مطالعہ نہایت نفع بخش اور معلومات افزا ثابت ہوگا۔
یہ کتاب خصوصاً دوسرے دینی تعلیمی اداروں کے لیے مشعلِ راہ اور سمت نما کا بھی کام کر سکتی ہے،کہ ان کے فضلا بھی ہمت کریں اور اپنی مادرِ علمی کی خدمات کی مختلف جہتوں کو اِس سائنٹفک،مختصر اور جامع انداز میں منظرِ عام پر لانے کی سعی کریں،البتہ اس سلسلے میں خود ان اداروں کے اربابِ بست و کشاد کی وہ دلچسپی و آمادگی اولین شرط ہوگی ،جس کا مظاہرہ جامغۃ الفلاح کے اربابِ اہتمام نے کیا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ اس قسم کے سنجیدہ ومفید علمی و تحقیقی کام کرنے والوں کی کمی نہیں،مگر اپنے فضلا کی خدمات کو اجاگر کرنے،ان کی کامرانیوں کو فی الحقیقت ادارے کی کامرانی و فتح مندی سمجھ کر خوش ہونے اور ان کی علمی،قلمی و تحقیقی فتوحات کو آشکارا کرنے میں اُس سرپرستانہ ، مشفقانہ و مخلصانہ تعاون اور ذہن و دل کی کشاد کا مظاہرہ کرنے والوں کی کمی ضرور ہے،جس سے جامعۃ الفلاح کے اکابر بہرہ ور ہیں؛چنانچہ اس کتاب کی تالیف و تشکیل کے مختلف مراحل میں عملی تعاون کے علاوہ اپنے فرزندوں کی اس وقیع کاوش پر جامعہ کے ناظم مولانا محمد طاہر مدنی اور جامعہ کے شعبۂ تعلیم و تربیت کے سربراہ ڈاکٹر جاوید سلطان فلاحی نے مؤلفین کو پیغامات کی شکل میں گراں قدر تشجیعی کلمات سے بھی نوازا ہے، اس کتاب کی دیدہ زیب اشاعت بھی جامعۃ الفلاح کے ہی تحقیقی و اشاعتی شعبے’ادارۂ علمیہ‘ کے زیر اہتمام عمل میں آئی ہے ،اس کے سکریٹری مولانا انیس احمد مدنی کی ’عرضِ ناشر‘ کے عنوان سے شامل تحریر بھی کتاب کے مؤلفین کے حوصلوں کو مہمیز کرنے والی اور ان کی اس غیر معمولی پیش کش کی تحسین و ستایش سے مملو ہے۔ کتاب کی قیمت محض 200 روپے ہے اور ادارۂ علمیہ جامعۃ الفلاح بلریاگنج کے علاوہ اس کے مؤلفین ڈاکٹر امتیاز وحید (8583870891) اور ڈاکٹر عمیر منظر(9818191340)سے رابطہ کرکے بھی حاصل کی جاسکتی ہے۔
برادر گرامی ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق تجاروی (اسسٹنٹ پروفیسر، شعبۂ اسلامک اسٹڈیز ،جامعہ ملیہ اسلامیہ ، نئی دہلی) میرے دفتر تشریف لائے اور مجھے اپنی تازہ تصنیف ‘ رسول اللہ شعبِ ابی طالب میں’ پیش کی – اس پر وہ کافی دنوں سے کام کررہے تھے – 2014 میں دار المصنفین شبلی اکیڈمی میں منعقد ہونے والے سمینار کے لیے انھوں نے اس موضوع پر ایک مقالہ لکھا تھا – بعد میں میری خواہش پر انھوں نے اسے سہ ماہی تحقیقات اسلامی کے لیے دیا ، جو دو قسطوں میں اس کے جولائی – ستمبر ، اکتوبر – دسمبر 2021 کے شماروں میں شائع ہوا ، اس کے بعد بھی ان کی تحقیق جاری رہی اور وہ برابر اضافہ کرتے رہے ، یہاں تک کہ دو سو سے زائد صفحات پر مشتمل کتاب تیار کرلی –
شعب ابی طالب پر سیرت نبوی کی ہر کتاب میں مواد ملتا ہے ، لیکن بہت کم – اس پر کل مواد چند صفحات سے زیادہ نہیں ہوتا ، جس سے پڑھنے والوں کو تشفّی نہیں ہوتی تھی اور معلومات کی کمی کی وجہ سے ان کے بہت سے سوالات تشنہ رہتے تھے – ڈاکٹر تجاروی نے اپنی اس کتاب میں اس کے متعلق تمام ممکنہ سوالات کے جوابات دینے کی کوشش کی ہے – مثال کے طور پر شعب ابی طالب کا محل وقوع اور وجہ تسمیہ کیا ہے؟ قریش کے بائیکاٹ اور مسلمانوں کی محصوری کے اسباب کیا تھے؟ بائیکاٹ کی دستاویز کس نے لکھی؟ اس کے فریق کون کون تھے؟ شعب میں محصور ہونے والوں کی کل تعداد کیا تھی؟ شعب کے باہر مسلمان کتنی تعداد میں تھے؟ مسلمانوں نے بائیکاٹ کا مقابلہ کس طرح کیا؟ ان دنوں میں رسول اللہ ﷺ کی دعوتی حکمت عملی کیا تھی؟ زمانۂ محصوری میں مسلمانوں کے روز و شب کیسے گزرتے تھے؟ اس دور میں قرآن مجید کی کون کون سی سورتیں نازل ہوئیں؟ محاصرہ کے عرب کے سماج پر کیا اثرات پڑے؟ بائیکاٹ کو ختم کرانے میں کن لوگوں نے سرگرم کردار ادا کیا؟ وغیرہ – ان سوالات کے اور موضوع سے متعلق دیگر سوالات کے اس کتاب میں تفصیل سے جوابات دیے گئے ہیں –
اس کتاب کی خوبی یہ ہے کہ اس میں ہر بات پوری تحقیق کے بعد لکھی گئی ہے اور اس کے حوالے دیے گئے ہیں – ڈاکٹر تجاروی نے عربی اور اردو کے تمام قدیم و جدید دست یاب مراجع سے رجوع کیا ہے اور آخر میں ان کی فہرست پیش کی ہے – یہ کتاب سیرتِ نبوی کے اہم پہلو سے بحث کرتی ہے – امید ہے کہ آئندہ اس موضوع پر کام کرنے والا کوئی بھی محقق اس کتاب سے بے نیاز نہیں رہ سکے گا –
اس کتاب کا انتساب پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی کی جانب معنیٰ خیز ہے – واقعی ڈاکٹر صدیقی کی شخصیت خرد نوازی میں بے مثال تھی – وہ اپنے شاگردوں کی برابر حوصلہ افزائی کرتے رہتے تھے اور انہیں تحریر و تصنیف کے لیے ابھارتے رہتے تھے –
اس علمی خدمت پر میں برادر گرامی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید رکھتا ہوں کہ ان کی علمی جولانیاں ان شاء اللہ اسی طرح آئندہ بھی جاری رہیں گی –
_________________________
نام کتاب : رسول اللہ ﷺ شعب ابی طالب میں
مصنف : ڈاکٹر مفتی محمد مشتاق تجاروی
ناشر : ہدی پبلشنگ ہاؤس، D-110 ، ابو الفضل انکلیو ، جامعہ نگر ، نئی دہلی
صفحات : 216 ، قیمت : 300 روپے
رابطہ :
91-9910702673+
ممبئی کے اردو کتاب میلہ میں ، محمد عرفان جونپوری سے میں پہلی بار ملا تھا ، لیکن مجھے یہ ملاقات پہلی ملاقات نہیں لگی ، یوں لگا جیسے ہم برسوں سے ایک دوسرے کو جانتے ہوں ۔ ایسا اس لیے تھا یا اس لیے ہے کہ ، محمد عرفان جونپوری ملک میں اردو ادب کی سرگرمیوں ہی سے نہیں ، صحافتی سرگرمیوں سے بھی واقف رہتے ہیں ، اور ملک کے اکثر ادیبوں ، شاعروں اور صحافیوں سے ان کا علیک و سلیک بھی ہے ۔ اُن سے بات کرتے ہوئے یوں لگا تھا جیسے وہ جونپور کے نہیں ممبئی ہی کے رہنے والے ہیں ۔ ان کی ایک کتاب ’ مضامینِ عرفان : ادبی و تحقیقی مضامین ‘ چند ماہ پہلے مجھے ’ ادب گاؤں ‘ کے مدیر ، افسانہ نگار اشتیاق سعید کی معرفت ملی تھی ، کتاب میلہ میں ملاقات نے اس کتاب کی یاد تازہ کر دی ، اور اسے پڑھ کر اس پر کچھ لکھنے کا موقع ملا ۔ عرفان صاحب کی پانچ کتابیں ’ جونپور کے چند شعراء ‘ ، ’ فکر و شعور ‘ ، ’ کائناتِ ضیاء ‘ ، ’ حفیظ جونپوری : اربابِ ادب کی نظر میں ‘ اور ’ ضیائے غزل ‘ شائع ہو چکی ہیں ، اور چار کتابیں شائع ہونے والی ہیں ۔ زیر تعارف کتاب ، جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے ، ادبی اور تحقیقی مضامین کا مجموعہ ہے ، مضامین کی تعداد ۱۳ ہے ، تقاریظ اور مرتبہ کتابوں پر لکھی گئی ۸ تحریریں اور ’ جہانِ تبصرہ ‘ کے تحت ۲۷ کتابوں پر تبصرے شامل ہیں ۔ آخر میں مصنف کی کتاب ’ حفیظ جونپوری : اربابِ ادب کی نظر میں ‘ پر سات اہلِ علم کے تبصرے دیے گیے ہیں ۔
عرفان صاحب کے مضامین مختصر مگر پُراثر ہیں ، وہ کم لفظوں میں بڑی اور مُحقَق باتیں کہہ جاتے ہیں ۔ ایک مضمون ’ خطوطِ اکبر الہٰ بادی میں پردے کا ذکر ‘ کی چند سطریں ملاحظہ کریں ؛ ’’ اکبرؔ نے اپنے خطوط اور شاعری میں مغربی تہذیب کی لعنت بے پردگی کے متعلق جن خدشات کا اشارہ کیا تھا وہ بعد کے حالات میں سو فی صد درست ثابت ہوئے اور اکبرؔ کی شاعری اور ان کے خطوط کا سب سے مثبت پہلو اس صورت میں نمایاں ہوا کہ بعد کے حالات میں مسلمانوں نے اپنی تعلیم کے لیے درس گاہوں کے قیام اور لڑکیوں کے علاحدہ تعلیم کے بندوبست کی طرف توجہ دی ۔ آج ہندوستان اور پاکستان میں لڑکیوں کی تعلیم کے لیے جو علاحدہ اسکول و کالج کا رواج ہے اس کی مزاج سازی میں اکبرؔ کی شاعری اور اُن کے خطوط کو یکسر طور پر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے ۔‘‘ عرفان صاحب نے جن خطوط کا ذکر کیا ہے وہ خواجہ حسن نظامی کے نام لکھے گیے تھے ، اور مجموعے کی صورت میں ’ مشائخ بک ڈپو ، نئی دہلی ‘ سے شائع ہوئے ہیں ۔ ایک خط کی ایک سطر ملاحظہ فرمائیں ؛ ’’ یورپ کی کمیٹیاں تعلیم و تہذیب نسواں پر بڑا زور دے رہی ہیں چوں کہ پردہ توڑنا مقصود ہے لہٰذا یہ بنیاد قائم کی گئی ہے ۔‘‘ یہ ایک وقیع اور اپنے موضوع پر مدلل مضمون ہے ۔ ایک مضمون کا عنوان ہے ، ’ غالبؔ کا ایک گمنام شاگرد زیدی جونپوری ‘ ، اس مضمون میں زیدیؔ کا تفصیلی تعارف کرایا گیا ہے ، اُن کے کچھ کلام کے نمونے بھی پیش کیے گیے ہیں ، لیکن افسوس کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ ’’ اس باکمال تاریخ گو اور شاعر کا کلام دستیاب نہیں ہے ورنہ غالبؔ اور جلال لکھنئوی جیسے اساتذہ کے اس اہم شاگرد کا نام آج ادبی تاریخ کے روشن صفحات پر نمایاں اور جلی حروف میں لکھا جاتا ۔‘‘ کیا کوئی محقق زیدیؔ کے کلام کی کھوج کرے گا ؟ کتاب کے باقی مضامین ہیں ’ سرشاہ سلیمان کی اردو خدمات ‘ ، ’ شرقی دور کے فارسی شعراء کی ہندی نظمیں ‘ ، ’ اردو صحافت پر پہلی کتاب : ہماری صحافت ‘ ، ’ مولانا شوکت علی کی ملّی فعالیت ‘ ، ’ محمد خالد عبادی اپنی کتابوں کے آئینے میں ‘ ، ’ ایس ایم عباس : کچھ یادیں ، کچھ باتیں ‘ ، ’ شاکر کریمی کا افسانہ ’ چور پر مور ‘ کا تجزیاتی مطالعہ ‘ ، ’ اثرؔ انصاری کی تصنیفات کا اجمالی جائزہ ‘ ، ’ ڈاکٹر ایم نسیم اعظمی کی کتابوں کا اجمالی تعارف ‘ اور ’ شاعری کی دنیا میں ایک ابھرتا نام اسیم مچھلی شہری ‘۔ تمام مضامین کے موضوعات متنوع ہیں ، اور یہی عرفان صاحب کی تحریروں کا وصف ہے ۔ جملے گنجلک نہیں چھوٹے چھوٹے ہیں ، ابہام سے پاک ، حوالوں کا خاص خیال رکھا گیا ہے اور کوشش کی گئی ہے کہ کوئی سُنی سُنائی بات نہ لکھی جائے ۔
عرفان صاحب کی تقاریظ اور تؓبصرے جو اس کتاب میں شامل ہیں اس لحاظ سے منفرد ہیں کہ انہیں پڑھ کر یہ سیکھا جا سکتا ہے کہ تقریظ اور تبصرے ایک جیسے نہیں ہوتے ، دونوں میں نمایاں فرق ہوتا ہے ۔ اس مجموعے کے مضامین اور دیگر تحریروں پر پروفیسر عبدالحق ( سابق صدر شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی ، دہلی ) نے ’ تبریک ‘ کے تحت بالکل صحیح لکھا ہے کہ اس مجموعے میں ’’ بہت ہی نئے اور خیال افروز مضامین موجود ہیں جن سے استفادہ کے بعد ان کے قلم کی وسعتوں کا اندازہ ہوتا ہے ۔‘‘ پروفیسر صاحب نے یہ لکھ کر کہ ’’ غالبؔ کے ایک شاگرد کا تعارف ایک نئی تحقیق ہے ‘‘، عرفان صاحب کی تحقیقی صلاحیتوں پر ایک ماہر کی حیثیت سے اپنی مہر ثبت کی ہے ۔ ماہرِ شبلیات ڈاکٹر محمد الیاس الاعظمی اپنی ’ تقریظ ‘ میں لکھتے ہیں ’’ بلاشبہ عرفان جونپوری علم و ادب کے دلدادہ اور عاشق محض ہیں ، لیکن ان کے مجموعۂ مضامین ’ مضامین عرفان ‘ سے اندازہ ہوا کہ وہ لکھتے ہیں اور خوب لکھتے ہیں ۔ زبان صاف ستھری سادہ اور دلکش ہے ، مگر خرابی یہ ہے کہ جس موضوع پر نہیں لکھنا چاہیے اس پر بھی لکھ دیتے ہیں ، جس سے یقیناً ان کا وقت ضائع ہوتا ہے ۔ وہ اگر جونپور اور متعلقاتِ جونپور پر لکھیں تو بہت اچھا لکھیں گے اور اس سے متعلق جو کچھ لکھا ہے وہ بہت اچھا لکھا ہے ۔ ان کے مجموعہ میں متعدد مضامین کا تعلق جونپور کی تاریخ اور اُس کے شعر و ادب سے ہے اور سچ یہ ہے کہ عرفان صاحب نے ان کا حق ادا کر دیا ہے ۔‘‘ ڈاکٹر صاحب نے ایک نیک مشورہ دیا ہے ، عرفان صاحب کو اس پر غور کرنا چاہیے ۔ لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ جب کسی لکھنے والے کے پاس کوئی مواد آجائے تو اس کا قلم کیسے رُکے ! عرفان صاحب ’ مقدمہ ‘ میں اس کتاب کی وجۂ اشاعت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ یہ مضامین بکھرے ہوئے تھے ، دوستوں کا اصرار تھا کہ انہیں یکجا کرکے شائع کیا جائے ، اور دوستوں کے اصرار پر یہ مجموعہ شائع کیا جا رہا ہے ۔ کتاب کے آخر میں مرحوم ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمیؔ کا کتاب پر منظوم کلام ہے ، ایک شعر ملاحظہ کریں ؎
مضامینِ عرفاں ہیں یہ دلنواز
نہ کیوں ان پہ ہو اہلِ دانش کو ناز
کتاب کا انتساب اہلیہ اور بیٹوں ، اور جناب سیفی جونپوری کے نام ہے ۔ کتاب 240 صفحات کی ہے ، قیمت 250 روپیے ہے ، اسے موبائل نمبر 9044424208 پر رابطہ کرکے حاصل کیا جا سکتا ہے ۔
زبان وسیلہ اظہار ہوتی ہے۔ ملک اور ماحول کے اعتبار سے اپنی شکل و صورت بدلتی رہتی ہے۔کسی مذہب، ملک سے انسلاک اس کے بنیادی تشخص کا مظہر نہیں ہوتا۔ زبانیں اجتماعیت کا استعارہ ہوتی ہیں اور ایک ہی زبان بولنے والوں کے مذاہب الگ الگ ہوسکتے ہیں۔ زبانیں مذہبی حدبندیوں سے ماورا ہوتی ہیں۔ اردو بھی ایک ایسی زبان ہے جس کا عنصری جوہر نامذہبیت یا سیکولرزم ہے۔ اپنی آفرینش سے آج تک اس زبان نے امتزاجیت کی روش کو برقرار رکھا ہے۔ اس زبان کی تشکیل و تجمیل میں ہر طبقہ کا کرداراہم رہا ہے۔ اس کی جنم بھومی ہندوستان ہے جو اپنے کثیرلسانی و ثقافتی مزاج کی وجہ سے ایک الگ شناخت رکھتا ہے۔ اردو بھی اس تکثیری مزاج کی حامل زبان ہے۔ مسلمان، غیرمسلم، سکھ، عیسائی سبھی نے اردو کو اپنا ذریعہ اظہار بنایا اور اس زبان سے اپنی محبت کا ثبوت دیا۔ مذہب بھی محبت کے اس رشتے کو کمزور نہ کرسکا۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب سیکولر زبانوں کا ذکر ہوتا ہے تو اردو سرفہرست ہوتی ہے۔ یہی وہ زبان ہے جس کے خمیر میں سیکولر روح شامل ہے۔ چندربھان برہمن سے گوپی چند نارنگ تک سیکڑوں غیرمسلم فنکار اس زبان کے شیدا و شیفتہ رہے ہیں۔
اس مضمون میں کچھ غیرمسلم تخلیق کاروں کے حوالے سے گفتگو کا مقصد بھی یہی ظاہر کرنا ہے کہ زبان کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، زبانیں مذہب سے ماورا ہوتی ہیں۔ اس پر مذہبی تشخص کا لیبل لگانابالکل غلط ہے۔
پروین کماراشک کی شاعری
یہ دورmechanised birthکاہے۔ Frozen Eggیا In Vitro Fertilization (IVF)سے تولیدی عمل کا سلسلہ جاری ہے۔ اس نوع کے میکانکی تولیدی عمل سے اخلاقیات اور اقداری نظام کے ساتھ انسان کی شناخت بھی مجروح ہورہی ہے۔ اس کی وجہ سے نسل انسانی کا منظرنامہ ہی نہیں بلکہ شجرہ نسب تبدیل ہوتا جارہاہے۔تولیدی عمل کی طرح تخلیقی عمل کے ساتھ بھی کچھ ایسی ہی واردات گزر رہی ہے۔ شاعری کی ساخت اورسلاست بھی غیرفطری عناصر کے تداخل کی وجہ سے شکستہ، سقیم بلکہ عقیم ہوگئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس دور میں بھی کچھ ایسے تخلیق کار ضرور ہیں جن کے یہاں ’فطری تخلیقیت‘ کا عنصر نمایاں ہے اوران کا تخلیقی عمل غیرفطری عناصر سے مجروح یا متاثر نہیں ہے۔
پروین کماراشک بھی انھیں شاعروں میں ہیں، جن کے اظہار و احساس کے مابین ایک مادرانہ رشتہ (Maternal Bond)ہے، وہ بھی اسی طرح کے تخلیقی کرب سے گزرتے ہیں، جس طرح ایک ماں دردِزہ سے گزرتی ہے۔ اسی درد نے انھیں وہ داخلی اور ماورائے ذہن شعور عطا کیا ہے، جس نے خارجی دنیا سے ان کا رشتہ ختم کرکے باطنی دنیا سے تعلق قائم کردیاہے اور یہی Detachmentان کی تخلیق کا رمز ہے۔ ان کی شاعری کا محور سکوت ذہن(Silence of Mind)اور صدائے دل(Sound of Heart)ہے۔ پروین کمار کی شاعری کا افق اور الٰہ سے رابطہ ہے۔ ان کے ہاں ایک معصومانہ تحیر ہے اور ہر چیز کو ’دیدہ حیران‘ سے دیکھنے کی خواہش اور ایک نئے انداز سے اظہار میں ڈھالنے کا جذبہ بھی ہے۔ ان کا داخلی ذہن، انسان کے متعین کردہ خطوط وحدود میں محصورنہیں ہے۔ ان کی آنکھیں ہمہ گیر اورجہاں بیں ہیں۔جو مصنوعی سرحدوں کو تسلیم نہیں کرتیں۔ ان کی شاعری میں ایک Bird Eyeیاخلاباز کی آنکھیں نظر آتی ہیں اور ایسی ہی شاعری دنیا کو ایک نیافینومیناعطاکرتی ہے یا تخیلی کائنات کی تشکیل توکرتی ہے۔
ان کی شاعری میں عشق کی ارتعاشی لہریں ہیں اوروہ موج بھی جو ذات اور روح کے مابین نقطہ عطف ہے۔اس میں انسانی شعور، احساس و ادراک کے وہ تمام مدارج ومنازل ہیں جن سے فردبشر کے شب وروز گزرتے ہیں۔ان کی شاعری میں نئے موسموں کی بشارت بھی ہے اور احساس و اظہار کی تازگی بھی۔ایسی شاعری محنت و ریاضت کی مرہون منت نہیں،بلکہ کسی کاوردان ہی ہوسکتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ پروین کمار اشک کی شاعری کسی مخصوص تخلیقی لہر کا فیض ہو یا ایک ایسی ساعت کا جس میں انسانی ذہن کا براہِ راست آسمان سے رشتہ ہوتاہے۔ ان کی شاعری ’پدمنی پہر‘ کی ہے اس لیے اس میں روح اورضمیر کو تابناک وتوانا کرنے والے عناصر کا وفور ہے۔
پروین کماراشک کی شاعری میں جو موج یم عشق اورصوفیانہ دیوانگی (Sufi Madness)ہے اس کو سمجھنے کے لیے ذہن کی نہیں، دل کی ضرورت ہے اور دل بھی ایسا جو گداز ہو۔ گداختگیِ دل کے بغیر نہ پروین کمار اشک کو سمجھنا آسان ہوگا اور نہ ہی ان کے پورے تخلیقی عمل کو۔ اس تخلیق کے اندر جو جادوئی کردارہے اس میں بہت کچھ دخل روحانیت کا ہے، جو پروین کمار اشک کی تخلیق کا لاینفک حصہ ہے۔
پروین کماراشک نے اپنی تخلیق کو اسی روحانی نقطے سے اجالا ہے۔ ان کی تخلیقی فکر میں رود روحانیت ہے اور سپت رشمی کرنیں بھی۔ یہی Radiant Energyان کی شاعری کا رنگ و روپ، انداز اور اسلوب بدلتی ہے۔ ڈیوائن انرجی کے بغیر ایسی شاعری ممکن ہی نہیں ہے۔ انھوں نے اپنی شاعری کے ذریعے طبعی وجود کو مابعدالطبیعاتی جہتوں سے روشناس کرانے کی کوشش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں تصوف کی رمزیت اورسریت ہے۔ یہ مکمل طور پر Enlightenment کی شاعری ہے۔ ایک دوامی شعور کی،حلقہ دام خیال سے باہر کی شاعری اس میںWave of Thoughts (خیالات کی لہر) نہیںبلکہ جذبات و احساسات کا مدوجزر ہے اس کے ساتھ ساتھ ان کی شاعری میں منفیت کی سیاہ قوتوں کے خلاف احتجاج اور ردِعمل بھی ہے۔ اس میں جس عشق یا Sufi alchemyکا بیان ہے وہ ازلی اور دائمی محبت ہے اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انسان اور Godlinessکے درمیان محبت کی اساس پرمبنی شاعری ہے۔ اس شاعری میں مصنوعی،غیر فطری یا مشروط محبت کا تصور نہیں ملتا۔ بلکہ جو بھی محبت ہے اس کا زمین و آسمان سے بہت گہرا رشتہ ہے۔ یہ مکمل طور پر الوہی رابطے و رشتے کی شاعری ہے۔ یہ شاعری اثبات کی متحرک قوتوں کا اشاریہ اور منفیت کی سیاہ قوتوں کے خلاف احتجاج بھی ہے:
نہ تیغ پھینکنا گھبرا کے ظلمت شب سے
زمین حق پہ لہو کا نشان روشن ہے
پروین کماراشک کے یہاں روحانی محبتوں کی نئی منزلوں کی جستجو اور تخیلات کے نئے مدارج کی دریافت کا عمل روشن ہے، نئے استعارات اور تراکیب کی جستجو کے عمل نے بھی ان کی شاعری کو جدت، لطافت اور نزاکت سے ہم کنار کیاہے۔ مروجہ معمولے سے انحراف نے بھی پروین کمار اشک کی شاعری کو نقطہ امتیاز اور انفراد عطا کیا ہے۔
ایک مخصوص پیٹرن کے ذہنی نظام کے تخلیقی عمل سے کسی جدت یا ندرت کی توقع نہیں کی جاسکتی، مگر پروین کماراشک نے اپنی اختراعی فکر سے شاعری کی لطافت ومعنویت میں اضافہ کیاہے۔ تخلیق کو احساس اوراظہار کے جوابعاد انھوں نے عطا کیے ہیں، اس ’ابعادیت‘ سے ان کی شاعری میں وہ کیفیت پیدا ہوگئی ہے، جو عہدماضی میں میرؔ سے مخصوص تھی اور روحانی احساس کے اعتبار سے بھی میرا، کبیر، لل وید سے انھوں نے اپنارشتہ جوڑلیا ہے، جس سے ان کا مقام ہم عصرشعرا سے مختلف ہوگیا ہے۔ اختراعی فکر کے ساتھ ساتھ اظہاری قوت (experessional cogency)بھی ان کی شاعری کو انفرادیت عطا کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ شاعری نہیں،روح سے رابطہ ،مکالمہ یا داخلی خود کلامی ہے۔ یہ طبعی وجود کی تعبیرات اور تشریحات سے بالکل مختلف نوعیت کی روحانی تعبیر و تفہیم ہے۔ باطنی وجود کی تفہیم صوفیانہ وجدان و ادراک کے غماز ان اشعار سے ہی ممکن ہے۔یہ اشعار ان کی فکری نبوغت اور لسانی لطافت کے گواہ ہیں:
تم نے کیوں بارود بچھا دی دھرتی پر
میں تو دعا کا شہر بسانے والا تھا
خبر کہاں تھی میری روح ایک مسجد ہے
شب وجود میں ماہِ اذان بھی ہوگا
خدا کی طرح چمکتا ہے دل کے شیشے میں
دعا کا آنسو کہاں آنکھ سے نکلتا ہے
دعا کا آنسو، دعاکاشہر، شب وجود اور ماہِ اذان جیسی تراکیب میں جدت و ندرت ہی نہیں بلکہ معنوی لطافت ونزاکت بھی ہے۔ یہ کثیرالمعانی تراکیب ہیں جو اپنے ظاہری مطلب کے علاوہ باطنی مفاہیم کے بھی حامل ہیں، ان تراکیب سے ہی اندازہ ہوتاہے کہ پروین کماراشک کاتخلیقی آسمان کتنے اور کیسے کیسے شبد ستاروں سے روشن ہے:
یہ میری روح میں کیسی اذان روشن ہے
زمیں چمکتی ہے، کل آسمان روشن ہے
میں روز فون پہ اس کو صدائیں دیتا ہوں
خدا کے ساتھ میرا رابطہ نہیں ہوتا
مسجد دل میں تنہا بیٹھے روتے ہیں
ہمیں نماز پڑھانے والا کوئی نہیں
بزرگوں کو خدا یا بھیج فوراً
دعا کا خون زمیں نے کر دیا ہے
سمندر کو دکھا کر آگ اب کیوں
دعا کی بارشوں کو رو رہی ہے
نہ مسجدوں کی طرف ہیں نہ مندوں کی طرف
میری دعائیں ہیں جلتے ہوئے گھروں کی طرف
جہاں پرکھوں کے سجدے کے نشاں ہیں
وہ گلیاں خون سے کیوں دھو رہے ہو؟
خدا کی بے رخی پر رو ہی ہے
دعا مجھ سے لپٹ کر رو رہی ہے
پروین کماراشک کی شاعری میں نے ایک بچے کی آنکھ سے پڑھی کہ اس تخلیق کے تحیر اور جمال سے محظوظ ہوسکوں۔بچوں کی آنکھ سے فطرت اورکائنات کے تحیرات وتموجات کا مطالعہ زیادہ مفید ہوتا ہے کہ بچوں کی آنکھیں تحفظات وتعصبات سے پاک ہوتی ہیں اور اس منفیت سے بھی جو آج کل عصری تنقیدی ڈسکورس سے مخصوص ہے۔
ترسیل،تعبیر اور تلک راج پارس
تخلیقیت ایک پر اسرار قوت ہے۔یہ ایک cognitive processاور اذراکی عمل ہے جو مثبت ذہنی تحرک اور تفاعل سے وجود میں آتی ہے۔یہی قوت آہنگ اور نغمگی میں ڈھل کر شاعری بن جاتی ہے۔یہ تخیل اور جذبے کی وہ زبان ہے جو انسانی جذبات و کیفیات کی ترسیل کرتی ہے۔موضوع اور ہیئت کے اعتبار سے شاعری احساس کی نیچرل امیجری ہے۔ہر اچھی شاعری اپنے نشانیاتی نظام سے پہچانی جاتی ہے اور اپنی کیفیت و ماہیت سے اپنی شناخت کروالیتی ہے ۔تلک راج پارس کی شاعری کا بھی اپنا الگ نشانیاتی نظام ہے۔وہ جس تہذیبی نظام کے زائیدہ ہیں وہ اپنے اندر وسیع ترین تہذیبی روایت اور روحانی ماورائیت چھپائے ہوئے ہے۔
تلک راج پارس کی شاعری میں ان کے داخلی ذہن کے امیجز کی اظہاری شکلیں ہیں،ان کی تخلیق باطن کی بازگشت ہے اور اس داخلی ربط کی تلاش سے عبارت ہے جو کائنات سے معدوم ہوتا جا رہا ہے۔ان کے امتزاجیت پسندذہن نے تخلیقیت کی نئی لہروں کی جستجو کی ہے اور وہ عناصر تلاش کر لیے ہیں جن میں کائنات کے متصادم اشیاء کو مربوط کرنے کی قوت ہے۔
پارس کی تخلیقی لہروں میں وحدت بھی ہے،وسعت اور توانائی کی وہ روایت بھی فروزاں ہے جس سے ان کے تخلیقی تسلسل میں تابانی پیدا ہو گئی ہے۔ان کی تخلیق میں آہنگ اور نغمگی کے ساتھ تخیلات کی وہ موج رواں ہے جو مختلف تہذیبی دریائوں سے وصال آشنا بھی کرتی ہے اور نقطۂ امتزاج سے روشناس بھی۔ پارس کی شاعری میں وہ لہو اور آگ بھی ہے جو آواز میں تبدیل ہو کر ہمارے ذہن ،ذات اور ضمیر کو مرتعش کر دیتی ہے۔ اس آگ سے ان کی پوری تخلیق کی تجسیم کی جا سکتی ہے:
ہم ایسے آتشیں لہجے میں شعر کہتے ہیں
خموشیاں بھی پگھل جائیں جن کی حدت سے
ہمارے خون کی ہر بوند سے اک شعر بنتا ہے
غزل میں گرم لہجے کی دہائی ہم سمجھتے ہیں
شب سیاہ بھی روشن اسی سے ہوتی ہے
جو شعر کہتے ہوئے ہم لہو جلاتے ہیں
یہ اشعار انسان کے باطن میں Explosiveقوت کی موجودگی کا اشاریہ ہیں۔باطن کی ایسی حدت و شدت سے تلک راج پارس کی تخلیقی کائنات میں ایک نئی قوت پیدا ہوگئی ہے۔
پارس، پرتبھا اور شکتی سے اس قدر معمور ہیں کہ جمالیاتی تشکیل کی راہ میں انہیں کوئی دشواری نہیں ہوتی ۔جذبے اور تخیل کی دونوں جمالیاتی کیفیتیں ان کے ہاں بدرجہ اتم موجود ہیں ۔احساس و اظہار کو تازہ رکھنے کے لیے جس تخلیقی قوت کی ضرورت پڑتی ہے، وہ ان کی تخلیق سے عیاں ہے۔اسی لیے پارس کی شاعری بے کیف،ویران،سنسان نہیں ہے بلکہ ذہن میں آباد اور شاداب رہنے والی ہے۔یہ شاعری جہاں حقیقی دنیا کے مظاہر،مسائل اور متعلقات سے مکالمہ کرتی ہے وہیں امکانی دنیا کے اشارات سے آگاہ بھی۔تلک راج پارس کے ہاں دو متوازی دنیائیں ہیں۔ان کی شاعری جہاں زندگی کی سنگلاخ حقیقتوں کو بیان کرتی ہے وہیں آنکھوں کو مستقبل کے کچھ خواب بھی دے جاتی ہے۔
آج کی تخلیقی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی وجہ سے جہاں سانس لینا دشوار ہے وہیں تلک راج پارس کی شاعری ہماری سانسوں کو سرگم اور ساز عطا کرتی ہے اور تزکیہ و تطہیر کے اس عمل سے گزارتی ہے جو تخلیق کا حقیقی منصب ہے کہ تخلیق بنیادی طور پر catharticہوتی ہے۔اس میں مکمل تقلیبی قوت ہوتی ہے۔شاعری ایک تھریپیائی تجربہ (Therapeutic exprience) بھی ہے۔نفسی اعصابی اہتزار کے ذریعے خون کے دوران نظام کو فعال رکھتی ہے۔ یہ انسانی حواس کی تسکین کے ساتھ ایک ایسی کیفیت سے ہمکنار کرتی ہے جس میں اضطراب بھی ہے اور ذہن و ضمیر کی تابانی کا سامان بھی:
سانس لیتے ہی دھواں دل میں اتر جاتا ہے
آگ سی شئے یہاں کچھ بوئی ہوئی لگتی ہے
تلک راج پارس کی شاعری میں زمین و آسمان کے مسائل بھی ہیں اور دونوں کے حوالے سے انسانی وجود کی تفہیم کا نقطہ بھی روشن ہے۔’ارضی حسیت ‘ان کی شاعری میں کلیت کے ساتھ موجود ہے۔
مقدر کی عبارت طے شدہ ہے
مگر آکاش پر سب کی نظر ہے
مال و زر کے لیے تبدیل نہ ہو جائے کہیں
جو مرا بھائی ہے قابیل نہ ہو جائے کہیں
سب کچھ تھا بے ثبات ہمارے حصار میں
اک عمر کا طلسم کھلا ہے مزار میں
پارس کو انسانی سطح پر جذبے کے زوال،صارفیت کے تسلط کا احساس بھی ہے اور اس میں پنہاں زوال کی علامتوں کا ادراک بھی ہے:
خط لکھنے کا وقت نہیں مل پاتا ہے
کاروباری جذبے کھائے جاتے ہیں
ہمارے شہر کے لوگوں میں یقین نہیں
ہمارے شہر میں رہتے ہیںسب گمان کے ساتھ
رابطے کے فون نمبر اور پتے محفوظ رکھیے
پھر نئے رشتے بنانے میں صدی کٹ جائے گی
پارس کلاسیکی اشارت سے انحراف اور قدیم تہذیبی روایت سے کنارہ کشی کو مثبت قدر میں شمار نہیں کرتے ،وہ کلاسیکیت کو نہ سرطان سمجھتے ہیں نہ جدیدیت کو عفریت، ان کے لیے اس کلچر اور اخلاقی حسیت کی اہمیت زیادہ ہے جو انسان کو وحدت کی لڑی میں پروئے رکھتی ہے۔وہ خود بھی امتزاجی ذہن کے حامل ہیں اور اس انسانی اکائی پر ان کا ایقان ہے جس کی شکست سے پورا انسانی معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے اور موضوعی و معروضی دنیا کے درمیان ربط کی تلاش ہی ان کی تخلیق کا نہایت مثبت اور توانا عنصر ہے جس کی وجہ سے ان کی تخلیق میں ایسے اشعار روشن ہیں جوسرور کائنات کی عقیدت سے سرشار ہیں:
انہیں حرفوں سے کچھ لکھوں تو وقعت کچھ نہیں ہوتی
محمد لکھ رہاہوں تو عبارت ناز کرتی ہے
آپ کا در جس نے دیکھا اس نے دیکھی کائنات
رب نے بھی تو کن کہا ہے مجتبیٰ کے نام پر
آپ کے اوصاف مومن کی طرح لکھتا ہوں میں
یعنی میری شاعری میں عنصر حسان ہے
جو بو مری کو میسر ہوئی ہے سپنے میں
حضورہم کو کبھی ویسی ہی نشانی دیں
زمیں کیا ہے افق کیا ہے آسماں چمکے
نشان پائے محمد سے دو جہاں چمکے
ان اشعار میں دماغ سے زیادہ دل کی وہ روشنی ہے جو انسانی احساس کو مربوط رکھتی ہے،منقسم نہیں ہونے دیتی،ہیئت وحدانی سے جوڑے رکھتی ہے۔روشن تہذیبی استعاروں سے ربط نے پارس کے اشعار میں تقدیسی کیفیت کے ساتھ تاثیری قوت بھی پیدا کردی ہے۔ان کے روشن ذہنی وجود سے جڑے ہوئے یہ وہ استعارے ہیں جو ان کی ذات اور ضمیر کا حصہ بن چکے ہیں۔ان کے ہاں مذہبی تلمیحات اور استعارات بھی ہیں جو پارس کی پاکیزگی نظر،وسعت ذہن کی علامت بن کر قاری کے لوح ذہن پر شب تاریک میں روشن ستاروں کی شکل میں جھلملاتے رہتے ہیں:
راہ حق میں کربلا کی طرز پر جو سر گرا
وہ ہمیشہ روشنیوں کے مصلّے پر گرا
عرش اعظم پہ مرے ہر خواب کی تکمیل ہو
خود میں یوں روشن شب عاشور کرنی ہے مجھے
تلک راج پارس کے نشانات اور علامات کے معنیاتی نظام اور ان کی حسیت کی میکانزم کو سمجھنا زیادہ دشوار نہیں ہے کہ وہ حرف سادہ سے ساحری کر جاتے ہیں:
غنیمت ہے طلسماتی زمیں میں
ہمارا حرف سادہ بولتا ہے
حرف سادہ میں بھی معانی کی کائنات آباد ہوتی ہے۔تلک راج پارس نے بھی لفظوں کے مروجہ معانی کو نئے مفاہیم میں استعمال کر کے لفظوں کو تحرک سے آشنا کیا ہے اور نئی معنویت عطا کی ہے ورنہ لفظ، معنی کی ایک ہی سمت میں سفر کرتے کرتے جمال کھو بیٹھتے ہیں اوراسے اپنے وجود سے ہی وحشت ہونے لگتی ہے۔پارس نے لفظ کو نئے مفہوم میں ڈھال کراس کی قوت و حرارت میں اضافہ کیا ہے،ہجر اور وصل جیسے الفاظ کو بھی ایک نئی معنیاتی کیفیت میں دیکھا ہے اور دو متضاد مفہوم کے حامل لفظوں کے معنیاتی ربط سے احساس کی کائنات کے ایک نئے در کو کھولا ہے۔
تلک راج پارس احساس و اظہار کی سطح پر اپنے خواب و خیال کی ترسیل میں کامیاب ہیں اوراس انسانی جذبے کی بیداری میں بھی جو اگر منجمد ہو جائے تو انسانی کائنات کا سفر لمحہ صفر میں ٹھہر جائے۔
پارس کی شاعری میں ہمارے عہد کا انعکاس بھی ہے اور آنے والے عہد کا عکس بھی کہ ایک تخلیق کار ایک ہی لمحہ میں دو زمانوں ،دو دنیائوں کا سفر کرتا ہے۔ایک جسے ہم حال کہتے ہیں اور دوسرا جسے دنیا مستقبل سمجھتی ہے۔پارس حال کے آئینے میں مستقبل کا چہرہ دیکھ رہے ہیں۔انہیں شاید ادراک ہے کہ یہ کائنات ایک تسلسل میں ہے اور ایک ہی لمحہ کے ارد گرد طواف کر رہی ہے،وہی لمحہ جو ماضی بھی ہے،حال بھی اور اس میں پنہاں مستقبل بھی—اس لمحے کی جستجو انسانی ذہن کے لیے ضروری ہے کہ وہ لمحہ کھو جائے تو کائنات معدوم ہو جائے گی۔ وہ ایک لمحہ کائنات ہے اور یہی کائنات کے تسلسل کی علامت ہے۔
تلک راج پارس کی شاعری اس’ لمحہ ‘ کی تعبیر و تفہیم سے عبارت ہے۔اس لمحہ کے ’ خواب و عذاب ‘ سے ان کی شاعری مکالمہ کرتی ہے۔وہ اپنی شاعری کے ذریعے خوابوں کی ترسیل بھی کرتے ہیں اور عہد حاضر کے کے عذابوں سے آشنا بھی،شاعری میں خواب کا منظر نامہ بھی ہے اور شکستگی خواب کا منظر بھی:
نیند آتی نہیں پھر مجھ کو کئی راتوں سے
پھر مرے خواب کی ترسیل نہ ہو جائے کہیں
اتنے ٹوٹے ہوئے سپنے ہیں مرے بستر پر
کرچیاں چنتے ہوئے رات گزر جائے گی
پارس کی شاعری کی داخلی ساخت سے جو تصویر بنتی ہے وہ یہ کہ پارس ایک مربوط تجربے کے شاعر ہیں اور انسانی وحدت و کلیت کے دائرے سے باہر نہیں ہیں۔وہ احساس کے اظہار میں کسی خوف و خطر کو راہ نہیں دیتے۔انہیں اپنے تخلیقی وجود پر پورا ایقان ہے اور اپنی شناخت پر بھی:
مجھے نابود کرنے کا ارادہ چھوڑ دے پارس
مری پہچان کے لاکھوں حوالے جاگ سکتے ہیں
ہمارے عہد کی پہچان ہم سے ہوتی ہے
ہم آفتاب کے آگے دئیے جلاتے ہیں
تخلیقی محراب پر مضطر کی روشن عبارتیں
جدیدتر حسیت کی روشنی میں کلاسیکی شعری جمالیات کی مسافت طے کرنے والے رام اوتار گپتا مضطرؔ کے یہاں آج کے عہد کی منتشر عبارتیں بھی ہیں اور مربوط تجربے بھی۔ ان کی شاعری اپنی ذات کے تلاطم اور کائنات کے تموج کی تفہیم سے عبارت ہے۔ یہ شاعری آج کے عہد کے اظہار کا رشتہ ماضی کے احساس سے جوڑتی ہے۔ کلاسیکی فکر و فرہنگ سے آگہی اور عصری حسیت کے عرفان نے مضطرؔ کی شاعری کو ایک الگ لمسیاتی اور حسیاتی کیفیت اور ذائقے سے ہمکنار کیا ہے۔ ان کی شاعری ایک سمت کی شاعری نہیں ہے بلکہ ان کے سفر شاعری کا رخ بدلتا بھی رہتا ہے اور تجربات و مشاہدات کی زنبیل بھرتی رہتی ہے۔ مختلف سمتوں کے سفر نے ان کی سوچ کو منجمد نہیں ہونے دیا بلکہ متحرک اور مضطرب رکھا ہے۔ ان کے یہاں کائنات کے مختلف آہنگ کی جستجو ملتی ہے۔ فکریاتی اور لفظیاتی سطح پر جمود اور زوال کی وہ صورت نہیں ہے، جو آج کے بہت سے شاعروں کے یہاں وافر مقدار میں ملتی ہے۔ مضطرؔ کے شعر ان کے ذہنی اضطراب اور تحرک کی گواہی دینے کے لیے کافی ہیں…
شام اودھ نے زلف میں گوندھے نہیں ہیں پھول
تیرے بغیر صبحِ بنارس اداس ہے
ارمانِ وصلِ یار کی شدت نہ پوچھئے
قطرہ یہ چاہتا ہے سمندر سمیٹ لے
کسی کے گھر کا چاند ڈوبا مفلسی کے غار میں
اس کو کیا سورج اُگے جس کے طلوع جام سے
ترے پہلو میں گزرتیں کبھی راتیں میری
مری بانہوں میں کبھی تیرا سویرا ہوتا
بھیک درشن کی ملے شاید کف گلفام سے
در پہ آکر بیٹھ جاتی ہیں نگاہیں شام سے
کھلتا ہے یوں نگاہ پہ وہ حسنِ پردہ دار
گویا کتاں لباس شب ماہتاب میں
مضطرؔ نے تخلیقی محراب پر جو نئی عبارتیں لکھی ہیں وہ روشن رہیں گی کہ ان عبارتوں میں تحرک اور تابناکی کی پوری قوت ہے۔ ہندی، فارسی، عربی لفظیات اور مختلف مذہبی، تہذیبی علائم و تلمیحات سے اندازہ ہوتا ہے کہ مضطرؔ کے احساس و اظہار کی کائنات محدود نہیں ہے۔ ان کی شاعری میں کئی تہذیبی لہروں کا امتزاج ہے۔ بقول معین شاداب : ’ہندی رسم الخط میں اردو شعر و ادب کا مطالعہ کرنے والے مضطرؔ کے شعری قاموس میں آج عربی، فارسی، اردو، ہندی الفاظ کا ذخیرہ موجودہے، ’مضطرؔ کی شاعری لسانی و فکری امتزاجیت کی ایک عمدہ مثال ہے۔ دیو مالائی تلمیحات اور تہذیبی استعارات کے تخلیقی استعمال اور عصری تناظر میں اس کی معنویت کے ادراک نے ان کی تخلیق کو ایک اور جہت عطا کر دی ہے۔ یہ ان کے تصور وقت کا اظہاریہ بھی ہے اور اس بات کا احساس بھی کہ تہذیب اور تاریخ کا تسلسل کبھی ختم نہیں ہوتا۔ ماضی ایک قندیل کی طرح حال کو راستہ دکھاتا رہتا ہے۔
درپد کی ستا پھرتی ہے کھولے ہوئے زلفیں
لیکن کوئی بھی آج دوشاسن نہیں بنتا
پھر آج مصیبت میں ہے کانہا ترا ارجن
رکشک مرا کیوں ترا سدرشن نہیں بنتا
پیاسی دھرتی ہانپ رہی ہے
کوئی بھگیرتھ گنگا لائے
میں بنا جاتا ہوں وشوامتر اب
آپ میری مینکا بن جائیے
درپد، کانہا، ارجن، سدرشن، بھگیرتھ، وشوامتر اور مینکا دیومالائی تلمیحات ہیں اور ان سے جڑی ہوئی بہت سی اساطیر ہیں۔ مضطرؔ نے اپنے اشعار میں ان اساطیر کی معنویت کو اس طرح روشن کر دیا ہے کہ یہ سارے کردار آج بھی جیتے جاگتے نظر آتے ہیں۔ مضطرؔ کی شاعری پڑھنے سے احساس ہوتا ہے کہ انہوں نے صرف ہندو اساطیر کا استعمال نہیں کیا ہے بلکہ اسلامی تہذیب و تاریخ پر بھی ان کی نگاہ ہے اور وہ ان داستانوں سے بھی آگاہ ہیں جو اسلامی تاریخ کا حصہ ہیں…
گرا نہ ہاتھ سے پرچم مگر امانت کا
سنان شمر پہ شہدا کے سر بدلتے رہے
’’سفیرِ آخرِ شب‘‘ رام اوتار گپتا مضطرؔ کا نیا مجموعہ ہے۔ اس سے ان کی شاعرانہ قد و قامت کا اندازہ ہوتا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ انہیں ان کے تخلیقی احساس و اظہار کی رفعت و بلندی کے تناظر میں بلند قامت شاعر کہوں مگر خود ان ہی کا شعر آڑے آ جاتا ہے۔
بونے ہو جائیں گے اہلِ علم اپنے شہر میں
دَور نو میں جاہلوں کا قد بڑا ہو جائے گا
رام اوتار مضطرؔ کا زمانی تعلق دور نو سے ضرور ہے، مگر فکری رشتہ اس عہد سے ہے جب شعر و سخن کا ایک معیار تھا اور تعین قدر کا ایک مستحکم پیمانہ۔
شیو بہادر دلبر کا شعری سفر
شاعری تو وہ بھی ہوتی ہے جس میں ’’موزونیت‘‘ کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا! یہ شاعری اس سے ذراالگ ہے کہ اس میں ’موزونی طبع‘ کااظہار نہیں ہے۔ بلکہ دروں کومرتعش کرنے والا جذبہ و احساس بھی ہے۔
دلبر اپنے تخلیقی اظہار میں احساس کی اس آنکھ کو ضرور شامل رکھتے ہیں جو حقیقتوں کے ماورا بھی دیکھ سکتی ہے، اسی لیے ان کے احساس کی کائنات محدود نہیں ہے کہ شاعری کا سلسلہ ان ساعتوں سے ہے جن کا زندگی سے گہرا ربط ہے اور جو حیات و کائنات کی رمزیت کااستعارہ ہیں۔ انسانی مزاج کی تشکیل اور ذہنی نظام کے نمو میں ان ساعتوں کی بڑی اہمیت ہے۔ دلبر کے ہر خیال میں ان ساعتوں کے عکس نمایاں ہیں۔ شام اپنی رومانی طلسماتی کیفیت کے ساتھ زندہ ہے ، تو صبح اپنی جاں فزائی قوتوں کے ساتھ تابندہ ہے۔ دلبر کی شاعری میں ان ساعتوں کے منظر روشن ہیں کہ یہ منظر کھل جائیں تو شاعری گم ہوجاتی ہے:
آنکھیں جو تک رہی ہیں ہر اک شام راہ کو
اک عمر سے کسی کا انہیں انتظار ہے
زندگی کے شام و سحر کی یہ وہ تجرباتی داستان ہے جس میں المیہ بھی ہے اور طربیہ احساس بھی۔ المیہ ذات، ضمیر ذہن کا ہو یا معاشرہ کا،ایک فنکار کاذہن المیہ کے تمام پہلوؤں کو محسوس کرتا ہے اور اس المیہ احساس کو انسانی ذہن میں اجاگر کرتا ہے۔ دلبر کے شعروں میںالمیہ کا احساس مختلف صورتوں میں نمایاں ہوا ہے۔
جس باغ کو سینچا ہے سدا میں نے لہو سے
اس باغ پہ اب کیا مرا ادھیکار نہیں ہے
اجالوں نے دیے دھند لکے کچھ اتنے
رہا شکوہ نہ دلبر تیرگی سے
اسی المیہ سے جڑا ہوا طربقیہ بھی ہے کہ انسان کے نصیب میں صرف دکھ یا درد نہیں ہے بلکہ مسرتیں بھی ہیں کہ ذہن ایک ہی کیفیت میں منجمد نہیں رہتا، ذہن اک اکائی یاجزو نہیں بلکہ کئی اجزاء کامجموعہ ہے۔ ایک ہی لمحہ میں ذہن دکھ اور سکھ دونوں کیفیتوں سے گزر سکتا ہے۔ ذہن کے اسی مختلف النوع تفاعلی نظام اور تحرک کا اشارہ ہے یہ شعر:
خوشیاں سبھی کو بانٹ رہا ہے وہ آدمی
دامن غموں سے جس کا بہت تار تار ہے
دلبر کے یہاں جذبات و احساسات کے متنوع رنگ ہیں تو اس لیے کہ صرف ان کے ذہن میں نہیں بلکہ زندگی میں بھی ’تغزل‘ ہے۔ شاعر کا پورا وجود غزل کی تہذیب میں رچا بسا ہے۔ اردو غزل کے تہذیبی نظام سے ان کے ذہن کا بہت مضبوط رشتہ ہے۔ شاعر اور اردو تہذیب کے درمیان کسی قسم کی اجنبیت یا ثنویت کا احساس ہی نہیں ہوتا، دلبر کے ضمیر میں غزل کی تہذیب شامل ہے۔ دلبر کو جذبے کی اخلاقیات کا بھی عرفان ہے اور اظہار کی جمالیات کا شعور بھی ہے:
دلبر یہ ماں کی دعائوں کا اثر ہے
جو بھی بلا آتی ہے گزر جاتی ہے سر سے
سمجھتے کیا ہو تم ماں کی دعا کو
بڑی اس سے دعا کوئی نہیں ہے
اب بھی ہیں یاد گائوں کے شام و سحر مجھے
بھولے نہیں بنے ہوئے مٹی کے گھر مجھے
یہ اشعار، دلبر کے ذہن کے موسموں کا بھی پتہ دیتے ہیں۔ وہ تخلیقی ذہن جو آلودگی، آلائش اور کثافت سے پاک ہے، جو پوری انسانیت کے بارے میں سوچتا ہے۔ جمہوری طرز احساس اور طرز فکر رکھنے والا ذہن جس سے اس نوع کے اشعار وجود میں آتے ہیں:
بشر کا خون سستا ہورہا ہے
مگر پانی تو مہنگا ہورہا ہے
دلبر ہمارے دیش میں کب آئے گا وہ دن
مجرم جو اصل میں ہو اسی کو سزا ملے
یہ ایسی شاعری ہے جس میں ذہن اور ضمیر کی روشنی ہے کہ ذہن کی تاریکی میں تہذیبیں اور قدریں سبھی کچھ کھو جاتی ہیں۔ دلبر کی شاعری روشنی سے وصال کی شاعری ہے۔ تاریک عہد میںیہی اشعار روشنی کا استعارہ بن جاتے ہیں اوریہی روشنی ان کے لفظیاتی نظام میں بھی ہے کہ قاری کے ذہن میں ترسیل کے سارے سلسلے روشن ہوجاتے ہیں۔
مجھے یقین ہے کہ دلبر کے کچھ شعر ضرور زندہ رہیںگے جب کہ انٹرنیٹ ایج اور کمپیوٹر کلچر کے اس عہد میں ذہن و دل سے بیشتر شاعری کو Deleteہوتے دیر نہیں لگتی۔ عجب المیہ ہے کہ شاعری ذہن میں Saveہی نہیں ہوپاتی۔ خدا کاشکر ہے کہ دلبر کے دل سے نکلی ہوئی کچھ آوازوں میں اتنی قوت ہے کہ اپنے لیے کوئی نہ کوئی Spaceضرور پیدا کرلیںگی۔آج جب کہ خیال و احساس کی زمین بھی تنگ ہوتی جارہی ہے اور اظہار کا افق بھی۔تو ایسے میں تھوڑا سا Space بھی بہت ہوتا ہے۔
ٹی این راز کے تخلیقی تیرونشتر
تخیل اور تحیر —طنزو مزاح کے دو مرکزی نقطے ہیں اور یہی دونوں اسے معنویت عطا کرتے ہیں۔ تخیل کی قوت پر طنزو مزاح کا سارا انحصار ہے اور یہ قوت آزاد فضا میں پروان چڑھتی ہے کہ بقول ممتاز شیریں ’تخیل قید میں بارآور نہیں ہوسکتا۔ ذہنی آزادی فنا ہوجائے تو ادب مرجاتا ہے۔‘یہ قوت جتنی شدید ہوگی، طنزو مزاح اتنا ہی گہرا ہوگا اور تحیر جتنا زیادہ ہوگا طنزو مزاح کی کیفیت اور اس کے طلسماتی اثر میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ تخیل کے نئے جزیرے کی جستجو کے بغیر طنز نگار کا کام مکمل نہیں ہوتا۔ غیر محسوس منقطے تک رسائی صرف اور صرف طنز و مزاح نگار کی ہوتی ہے۔ ایک عبقری اور جینئس ہی سچا طنز نگار ہوسکتا ہے کہ طنز و مزاح قوت ادراک کی آزمائش کا نام ہے۔ اس کا سارا تعلق ذہنی نظام اور اس کی ڈائنامکس سے ہے۔
ہرعہد میں طنز ومزاح کے موضوعاتی مرکز و محور بھی الگ رہے ہیں۔زمانہ بدلاتوموضوعات بدلے، ترجیحات تبدیل ہوئیں، طرز فکر و احساس میں تغیر رونما ہوا۔ لسانی تکثیریت کے تجربے بھی ہوئے اور قدیم شاعر وں کے مضامین کو نئی شکلیں بھی دی گئیں۔ قدیم زمانے میں طنزو مزاح کے موضوعات بہت محدود تھے۔ شیخ اور واعظ ہی ان کے طنز کا محورتھے، مگر نئے زمانے میں موضوعات کی کثرت ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آج کے زمانے میں ہر سطح پر ناہمواریاں زیادہ ہیں۔
ٹی این رازطنزومزاح کے معتبر شاعر ہیں جنہیں اقدار کا گہرا شعور ہے۔ ان کا مشاہدہ وسیع ہے اور تجربہ میں تنوع ہے۔بدلتی ہوئی نفسیات، تبدیل ہوتی سائیکی خاص طورپر سماج اور سیاست کی سائیکی پر ان کی گہری نظر ہے۔ معاشرتی تضادات، کشمکش، تناؤ، استحصال، ظلم، مفاد پرستی، روز مرہ کے مسائل، سماج کی شعبدہ بازیاں، منافقت، رشوت، رجعت، دقیانوسیت یہ ان کے موضوعات ہیں۔ ان کے موضوع افراد اوراشخاص نہیں بلکہ سماج اور سیاست کے احوال اور مسائل ہیں۔
راز نے اظہار اور ابلاغ کی سطح پر دوسروں سے الگ تجربے کیے ہیں۔ اور یہ تجربے معمولی نہیں ہیں۔ ان تجربوں کے لیے ذہن کو بہت سی ریاضتوں اور مشقتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ سوزش ذہن کی بہت سی منزلیں سر کرنی پڑتی ہیں۔ ایک خیال یا احساس کو معرض اظہار میں لانے کے لیے آگ کے دریا سے گزرنا پڑتا ہے۔ خیال کی وسیع کائنات میں نئے خیالات کی جستجو کوئی آسان عمل نہیں ہے۔ ٹی این راز نے خیالات کی متصادم کائنات میں ذہنی اذیتیں برداشت کی ہیں تب کہیں جاکر ایک نقطہ خیال ان کی گرفت میں آیا ہے کہ خیال کو اظہار اور شعور کا حصہ بنانے کے لیے تگ وتاز کرنی پڑتی ہے۔راز نے صحراؤں میں بھٹکتے ہوئے عمومی خیال میں بھی صرف اس لہر اور اس رو کو ہی دریافت کیا جو عمومیت سے ممتاز اور مختلف بنادیتی ہے۔ راز نے اس کے لیے ایک نئی تکنیک کا استعمال کیا۔ لفظی، معنوی تضادات اور تصرفات کی تکنیک- ٹی این راز کے ذہن کی زرخیزی اور حقائق کی تہہ تک بہ کیفیت تحیر پہنچنے کی قوت کا اندازہ ان کے اشعار سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک تخلیق کار کی جستجو کی منزل اور اس کی سطح کا پتہ چلانا آسان نہیں ہے۔ اشعار سے ہی اندازہ ہوسکتا ہے کہ ذہن رسا کی رسائی کہاں تک ہے۔ٹی این راز کی شاعری میں ادراک کی اعلیٰ سطح ملتی ہے اور ان کے اشعار سے ان کے ادراک اور مشاہدے کی قوت وسعت اور شدت کو ماپا جاسکتا ہے۔ لفظوں کے سہارے خیال سے کھیلنے کے ہنر میں مشاق ٹی این راز کے اندر کسی بھی شے کی حقیقت، ماہیئت اور تضادات کی شناخت کرنے کی قوت موجود ہے۔ انہوںنے مختلف سماجی موضوعات میں مضحک پہلو تلاش کیے ہیں۔ وہ سارے معاشرتی کردار جو اپنے اعمال وحرکات کے سبب مضحکہ خیز بن جاتے ہیں یا سماجی اور سیاسی عدم موزونیت کی علامت بن جاتے ہیں، ٹی این راز کی شاعری میں موجود ہیں۔راز کی شاعری میں سرپرائزنگ شفٹ کی شکلیں بھی نمایاں ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے تخیل میں تحیر کا عنصر اور ’جوہر اندیشہ‘ کی گرمی کس حد تک ہے۔
آہِ عاشق سے نہ گرجائے کہیں دیوارِ چین
کیا پتہ مل جائے کب ٹھیکہ مجھے تعمیر کا
بیوی نے منہ کو پیٹ دیا میرے جاگ کر
اک بوسہ اس کا میں نے لیا تھا جو خواب میں
جھیل سی آنکھوں میں مَیں تو ڈوبنے والا ہی تھا
چنری میرے دل ربا کی بادباں سی ہوگئی
بس اس لیے کہ ذائقہ میں ایک تڑپ رہے
اِک زندہ مچھلی ہم نے ملادی کباب میں
ٹھنڈک سے اپنے ہونٹ ہیں سکڑے ہوئے جناب
اب سینک کر ہی ہوگی کوئی بات جاڑے میں
معاشرتی اور عائلی مسائل پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔ بیوی سالی، ساس اور سسر جیسے کرداروں کے ذریعہ بھی انہوںنے مزاح کی خوبصورت کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کی ہے رشتوں کی نزاکت اور نفسیات پر مزاح کا تڑکا لگایاہے۔یہ محض مزاح کے اشعار نہیں ہیں ،ان میں رشتوں کے خوبصورت سلسلوں کا بیانیہ بھی ہے اور رشتوں کا پیمانہ بھی ہے۔ یہ وہ معاشرتی پیچیدگیاں ہیں جو ہرگھر کا حصہ بن چکی ہیں۔ ٹی این راز نے ان پیچیدگیوں کو مزاح کے رنگ میں کچھ یوں پیش کیا ہے اور دل کے نشاط آہنگ کا سامان کیا ہے۔ قاری ان ا شعار سے بقدر لب و دنداں محظوظ ہوسکتا ہے:
بے کسیِٔ عشق کا اس طرح عنواں ہوگئیں
پہلے محبوبہ تھیں اب بچوں کی امّاں ہوگئیں
رشتہ اپنی بیوی سے اک عجب پہیلی ہے
کہنے کو سہاگن ہے ویسے وہ اکیلی ہے
بیوی جاتی ہے جب بھی مائیکے کو
کوئی بھی سالی گھر نہیں آتی
ٹی این راز نے کرپشن، بدعنوانی، رشوت خوری اور دیگر سماجی امراض پر نشتر زنی کی ہے۔ اس طرح سماج کے ناسوروں سے ان ذہنوں کو روشناس کرایا ہے جو اس طرح کی بیماریوں کو سماج کی صحت کے لیے مہلک سمجھتے ہیں۔
رشوتوں کا ختم ہوپائے نہ کوئی سلسلہ
سی بی آئی ڈھونڈتی ہو پر نشاں کوئی نہ ہو
چپو ہو رشوتوں کا جب نیتا کے دست ناز میں
کشتی ہماری قوم کی پھر سے نہ ڈگمگائے کیوں
فائلیں چلتی ہیں کچھوا چال سے
نوٹ برسیں تو روانی اور ہے
لفظی تصرف، معنیاتی تحریف سے بھی انہوںنے خیال کے نئے گل بوٹے کھلائے ہیں اور اظہار وابلاغ کی نئی شاخوں سے آشنا کیا ہے۔ ٹی این راز نے اپنے ذہن کو مدام متحرک رکھا اور اسی تحرک کا ثمرہ ہے کہ انہوںنے مضامین نو کے انبار لگادیے۔ راز نے لسانی سطح پر بھی جو تجربے کئے وہ قابل قدر ہیں۔ لسانی تکثیریت کا تجربہ گوکہ پہلے بھی بہت سے مزاح نگاروں نے کیا ہے مگر ٹی این راز نے ان لفظوں کو جس طرح برتا ہے، اس سے ان کے لسانی درک کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مہنگائی سے شہر میں یارو جب سے دونا رینٹ ہوا
ان کا دل ہی اپنی خاطر بنگلہ جھگی ٹینٹ ہوا
خوش قسمت ہیں وہ سب جوڑے اس دنیا میں دنیا والو
جن کی شادی ہو نہیں پائی لیکن سیٹل مینٹ ہوا
ایک مزاح اور طنز نگار معاشرہ کو اس نگاہ سے دیکھتا ہے جس میں آفاقیت ہوتی ہے۔ ٹی این راز کی بینائی میں نگاہِ شوق بھی شامل ہے اور انہیں شوخیِ نظارہ بھی نصیب ہے۔ اس لیے ان کے آئینۂ ادراک میں مسائل کے تمام عکس اور زاویے روشن ہوجاتے ہیں اور ان زاویوں میں طنز کے عناصر کی شمولیت کی وجہ سے اشعار کی معنویت اور بڑھ گئی ہے۔
ٹاڈا میں بند ہوگئے ہم دیکھئے حضور
بچوں کی گھر میں رکھی تھی پسٹل حفاظتاً
ہے یہی جی میں کہ ہم سب خانہ جنگی میں مریں
ملک پہ مٹنے کی خاطر خانداں کوئی نہ ہو
راز کے ترکش میںایسے بہت سے تیر ہیں جن سے سماج اور سیاست کا جگر چھلنی ہوسکتا ہے۔ راز نے غالب کی زمینوں میں غزلیں ؍ہزلیں کہی ہیں اور غالب کے تخلیقی تجربوں کو اپنے تخلیقی شعور کا حصہ بنایا ہے۔راز کے تخلیقی شعور میں جو برق تجلی ہے، وہ غالب ہی کا فیض ہے۔ غالب کے باطنی وجود کے ساتھ انہوںنے بھی مستانہ رہ وادی خیال طے کیا ہے۔ ان کے Existenceاور Experieneمیں غالب شامل ہیں۔ ان کے شعور اور حسیت میں فکر غالب کا حاوی حصہ ہے۔
’غالب اور درگت‘ میں انہوں نے غالب سے ہم رشتگی کا ثبوت دیا ہے اور یہ احساس دلایا ہے کہ غالب کی تخلیقی حسیت ہر رنگ میں بہار کا اثبات کرتی رہتی ہے۔ ’غالب اور درگت‘ میں بیشتر مزاحیہ غزلیں غالب کی سنجیدگی کو مزاح کے پیرائے میں پیش کرنے کی عمدہ کوشش ہے مگر ٹی این راز نے غالب کے علاوہ ذوق، فانی، جگر اور دوسرے شعرا کی زمینوں میں بھی شعر کہے ہیں اور فکری سنجیدگی کو مزاحیہ پیکر میں ڈھالا ہے۔ راز نے تقابلی ذہن یا تضاد کی تکنیک کا بہت ہی خوبصورت استعمال کیا ہے۔
ان کے یہاں خیال کی شادابی نظر آتی ہے۔ دراصل انہوںنے اپنی شاعری میں جہاں معاشرہ کو طنز کا نشانہ بنایا ہے، وہیں اپنی ذات کو بھی تمسخر کا نشانہ بنانے سے گریز نہیںکیا اور یہی ایک طنز ومزاح نگار کا کمال ہوتا ہے کہ وہ خود کو معاشرہ کا ایک کردار سمجھتے ہوئے اپنا مذاق آپ اڑاتا ہے۔ راز نے اپنے شعروں میں اپنا جو طنزیہ سیلف پورٹریٹ پیش کیا ہے، اس میں سماج کا ہر وہ فرد شامل ہے جس کی حرکتیں تمسخر کا نشانہ بن سکتی ہیں۔
تعریف اتنی کرتے ہو کیوں راز کی جناب
کیا جانتا نہیں ہوں بھلا اس لچر کو میں
جوتیاں کیوں کر نہ پڑتیں منچ پر مردود کو
لفظ ہر بیہودہ تھا کل راز کی تقریر کا
کاجو چراکر دوست کی شادی سے آج ہی
لائے جنابِ راز یہ سوغات جاڑے میں
خوش رنگ خیال کی خوشبو نلنی وبھا نازلی
زندگی سے موسیقیت غائب ہوجائے توذہنوں پر خواب کے بجائے عذاب اترنے لگتے ہیں!
مادیت اورصارفیت نے انسانوں سے سارے حسین خواب چھین لیے ہیں اور وہ زندگی جو کبھی ایک خوبصورت میلوڈی ہواکرتی تھی، وہ ایک اجاڑ اور ویرانے میں تبدیل ہوگئی ہے۔ شاعری ہمیشہ اسی میلوڈی کی تلاش اوروجود کے آہنگ کی جستجو کرتی رہی ہے مگر آج انسانی وجود سے آہنگ بھی گم ہوتا جارہاہے۔
ڈاکٹرنلنی وبھانازلی کی شاعری اسی میلوڈی اور آہنگ سے عبارت ہے اور اس موسیقیت کی تلاش میں ہے جو اپنے اندرتھریپیائی اثررکھتی ہے۔ نازلی کی شاعری کی خاص بات یہی ہے کہ احساس کی موسیقیت ہمہ دم ان کے ساتھ رہتی ہے۔وہ کسی بھی خیال یاجذبہ کے اظہار میں عدم توازن کی شکارنہیں ہوتیں۔ ان کے خیالات میں ایک ربط تسلسل اور آہنگ ہے۔
نازلی کی شاعری میں آواز اور خموشی کابہترین امتزاج ہے۔ جہاں ان کی شاعری آواز کے وسیلے سے بہت سے احساسات کااظہار کرتی ہے وہیں ان کی خاموشی عرفان وآگہی کا ایک نیا سرچشمہ بن جاتی ہے۔ ان کی خاموشی میں جوقوت، جوتاثیر، جو تسخیر ہے وہ ہر قاری محسوس نہیں کرسکتا۔ خاموشی کوسمجھنے کے لیے بھی ذہن رساچاہیے۔ وہی ذہن جوکائنات کی خاموشیوں کو ایک نئے مفہوم اور معانی عطا کرسکتاہے۔
نازلی کے اشعار میں خاموشی کی وہ کیفیت محسوس کی جاسکتی ہے اور یہی خاموشی کبھی کبھی بلند آہنگ میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ذرایہ اشعار دیکھئے:
جانے رکھ دی خوشی کہاں ہم نے
ڈھونڈتے ڈھونڈتے صدی گزری
یاد کرکے نشاط ماضی کو
روز آنکھوں سے اک ندی گزری
کھو گئی پھر کہیں اندھیروں میں
اک ذرا چھو کے روشنی گزری
رونقیں اجلے دنوں کی گم ہوئیں
ڈس رہی پل پل ہے تنہائی مجھے
نازلی کی شاعری میں نسائی احساس کی کوملتا ہے اور اظہار کی دوشیزگی۔ ان کی شاعری داخلی واردات کا اظہاریہ بھی ہے اور خارجی وقوعات کا منظریہ بھی۔ داخل و خارج کے امتزاج سے وہ کائنات کی بہت سی حقیقتوں کا انکشاف کرتی ہیں۔ خاص طور پر ان کی شاعری میں آج کی زندگی کا منظرنامہ روشن ہے۔ وہی وحشتیں، وہی الجھنیں، وہی شکست خواب، وہی بے اعتباری، وہی بے یقینی اور روح کی وہی ویرانگی،انسانی وجود کا سناٹا اور کائنات سے گم ہوتا ہوا آہنگ۔ نازلی کے یہ وہ شعری موضوعات ہیں جن کی وجہ سے ان کی شاعری میں آج کے عصر کی روح بھی ہے اور آج کے زمانے کا احساس بھی۔یہ چنداشعار ان ہی موضوعات کے اردگرد طواف کرتے ہیں:
بے غرض کون یہاں چارہ غم کرتاہے
ہر کسی کو غم حالات بتایا نہ کرو
میٹھی باتوں میں بھی ہوتے ہیں دغا کے پھندے
ایسی باتوں میں کبھی لوگوں کے آیا نہ کرو
بستی میں زر پرستوں کی کیا ڈھونڈ رہے ہو
نادان ہو پتھروں میں وفا ڈھونڈ رہے ہو
عیاشیوں کو شیوہ یہ اپنا بنا چکے
کیوں ان میں غیرت اور اناڈھونڈ رہے ہو
صدق کی رشتوں میں اب خوشبو کہاں ہے؟
دوستوں میں اب وفا کی خوکہاں ہے؟
اب کہاں رشتوں میں ہے وہ پاسداری
اے وفا! آواز دے اب تو کہاں ہے؟
نازلی کی شاعری میں کائناتی شعور بھی ہے اور ماحولیات کا عرفان بھی۔ انھوں نے فطرت سے بیگانگی اوربیزاری کے مضراثرات کومحسوس کیا ہے اور فطرت سے اپنی وابستگی کااظہار بھی کیا ہے۔ یہ شاعری اس بات کا ثبوت ہے کہ تخلیق کاراپنے گردوپیش کے حالات یا ماحول سے بے خبر نہیں ہوتا بلکہ اسے اپنے احساس کاحصہ بناکر اظہار کے قالب میں ڈھالتا ہے۔ آج کی ماحولیاتی کثافت اور آلودگی کے حوالے سے یہ اشعار کس قدر معنی خیز ہیں اس کا اندازہ کوئی بھی لگاسکتا ہے:
آگ میں جلتے ہیں جنگلات، کوئی روکے تو
کتنے بدتر ہوئے حالات، کوئی روکے تو
کچے آنگن کی مہک اب کہاں سے پاؤگے؟
کھو چلے شہروں میں دیہات، کوئی روکے تو
آرے کلہاڑیاں ہاتھوں میں ہیں بن مافیا کے
کر رہے ہیں یہ خرافات، کوئی روکے تو
جھیل دلدل بنی بنجر بنی سرسبز زمیں
اٹھ کھڑے کتنے سوالات، کوئی روکے تو
اب نہ شاداب زمیں ہوگی نہ خوشبو ہوگی
ہیں سمگلر بڑے بد ذات، کوئی روکے تو
عیش کے واسطے دھن چاہیے، جنگل کاٹے
اور چلے سوئے خرابات، کوئی روکے تو
دیکھی آلودہ فضائیں تو میری آنکھوں سے
اشک بن کربہے جذبات، کوئی روکے تو
نازلیؔ گھلنے لگا زہر ہوا پانی میں
موت کی یہ ہیں علامات، کوئی روکے تو
ڈاکٹرنلنی وبھانازلی کوتخلیق کی ابدیت پریقین ہے۔ اس لیے انھوں نے اپنے سارے احساسات وجذبات کوتخلیق کی صورت میں ڈھال کر دنیا کے حوالے کردیاہے کہ کم ازکم ان کے احساس اور اظہار کی موسیقیت تو دنیا کی سماعتوں میں گونجتی رہے گی۔ اپنے اس احساس کو انھوں نے اس شعر کے حوالے سے بھی پیش کیاہے:
ہاتھ جل جائیں گے پھر بھی دستخط رہ جائیں گے
اہل فن کے جو ہیں فن پارے نہ وہ مٹ پائیں گے
میرا فن، اشعار میرے اور میری نغمگی
قدر دانوں کے دلوں کو نازلیؔ مہکائیں گے
نازلی کا شعری مجموعہ ’دستخط رہ جائیں گے‘ اسی احساس کا ایک ثبوت ہے۔ اس سے پہلے بھی ان کے مجموعے ’ریزہ ریزہ آئینہ‘ اور ’حرف حرف آئینہ‘ شائع ہوچکے ہیں۔ اردو اور دیوناگری دونوں میں شاعری کرتی ہیں۔ان کا تعلق شاعری کے سرچشمہ موسیقی سے ہے۔اس تعلق سے انھوں نے ایک نظم میں بھی موسیقی کی معنویت اور آفاقیت کے حوالے سے یوں اظہار خیال کیا ہے:
سکون دل مرا غزلیں ارمان موسیقی
مرے جی جان ہیں سرتال اور ایمان موسیقی
جو ہے آواز باطن کی تھرکتی ہے وہ تانوں میں
کہ ہے جذبات کے اظہار کا سامان موسیقی
حقیقت ہے کہ بن اس کے مرا دشوار ہے جینا
بھلانا رنج و کلفت کرتی ہے آسان موسیقی
فقط انسان کیا پنچھی بھی اس پر جان دیتے ہیں
کہ جھوم اٹھتا ہے سن کے سانپ سا حیوان موسیقی
بڑھائے رونق محفل، عبادت میں اثر لائے
کرے جب خالق کونین کا گن گان موسیقی
اسی نے شاعری سے نازلیؔ رشتہ مرا جوڑا
مرا مذہب مرا مسلک مرا ایمان موسیقی
اس لیے ان کی شاعری میں موسیقیت بھی ہے، نغمگی بھی اور وہ میلوڈی بھی جو انسانی احساس کو تبدیل کرنے کی قوت رکھتی ہے۔ ان کے تعلق سے ڈاکٹرشباب للت نے جس خیال کا اظہار کیا ہے اس سے آگے کچھ لکھنا ممکن نہیں۔ ’نازلی کی فکری تخلیق کے اندر دھنشی رنگ قاری کے شعور کو رومانی اور روحانی کیف واسرار کی جمالیاتی وادیوں کی سیاحت کراتے ہیں۔ ان کی غزلوں میں جہاں روایتی کلاسیکیت کی دل نواز رنگ پاشیاں دلوں کو گدگداتی ہیں اورباہم چاہنے والے دلوں کی جواں دھڑکنیں، رازونیاز،شرنگار رس کے رومانی افقوں تک کی پرواز میں قاری کو ساتھ لے کر چلتی ہیں۔ وہاں ان میں شاعرہ کے دل کی گہرائی سے نکلے ہوئے اشعار اپنے خالق سے عقیدت،وابستگی، سپردگی، عبادت وخشوع کے پاکیزہ جذبے کوبھی مہمیز کرتے ہیں۔‘
برہم دیواورسات شہر
برہم دیو مدھر کے تخلیقی مزاج کی تشکیل میں ہندی شعریات کا عمل دخل زیادہ ہے مگر اردو کی تہذیبی روایت اور بوطیقا سے والہانہ شیفتگی نے ان کے تخلیقی ذہن کو نیا تحرک بخشا اور ان کے تخلیقی نظام کو تازگی، رعنائی، نزاکت اور نفاست عطا کی ہے۔ اردو غزلیہ شاعری کی ایمائیت، رمزیت اور تہ داری نے ان کے تخلیقی باطن کو مہمیز کیا ہے۔
’اور بھی غم ہیں ‘مدھر جی کا خوبصورت شعری مجموعہ ہے۔ اشعار کی قراْت کے طریق کار اور تفہیمی تناظر کو ذرا بدل کر دیکھیں اور ایک نئے نہج سے نظر ڈالیں تو اس شعری مجموعہ میں بہت سی معنوی خوبیاں نظر آئیں گی۔ اردو ہندی کا تہذیبی، لسانی وصال خوش جمال آنکھوں کو بھائے گا اور شاعری کے باطن میں جو زیریں لہریں ہیں وہ ذہنی وجود کو تابندگی بخشیں گی۔
برہم دیو مدھر کے تخلیقی باطن میں گنگا، جمنا، سرسوتی، گداوری، نرمدا، سندھو، اور کاویری جیسی مقدس ندیاں بہتی نظر آتی ہیں اور ان دریاؤں کی لہروں کا ملن بھی۔ اسی نقطہ وصال سے ان کے تخلیقی جمال کا چشمہ پھوٹتا ہے۔ ان سات دریاؤں کے ساتھ ان کی تخلیقی کائنات میں ایودھیا، متھرا، ہری دوار، کاشی، کانچی، اونتیکا (اجین )دوارکا جیسے شہر اپنے تہذیبی استعاروں اور امیجز کے ساتھ آباد نظر آتے ہیں۔ انسان کے باطن میں یہی سات مقامات بستے ہیں اور انہی مقامات سے انسانی جذبات، احساسات، تخیلات و تحیرات کا انسلاک ہے۔ سات کے طلسمی حصار ہی میں سارے جذبے، احساس اور اظہار قید ہیں۔
ہری دوار جو تلاش ذات کا نقطہ آغاز ہے، وہ شہر اپنے اسطوری تخیل اور تہذیبی تفاعل کے ساتھ اس شعر میں ہے :
تری تلاش میں نکلا تو کھو گیا ہوں میں
عجیب بات ہے اب خود کو ڈھونڈتا ہوں میں
متھرا اپنے تقدیسی صفات کے ساتھ کرشن کے لئے گوپیکاؤں کی محبت اور کنس کے لیے نفرت اور خوف کے جذبات سمیت ان کی شاعری میں یوں منور نظر آتا ہے :
بچوں کو ماں کی کوکھ ہی میں چن دیا گیا
چارہ گروں کو قاتلوں کا گن دیا گیا
آئے مدھر کو یاد نہ کیوں اپنی رادھکا
بنسی میں کوئی درد جو ٹیرے کبھی کبھی
ایودھیا امن، عدل، فراق و وصال، رام کے ایثار اور کیکئی کی سازش کی علامتوں کے ساتھ ان کے بہت سے شعروں میں نمایاں ہے :
ملن بھی اک اوستھا ہے ورہ بھی اک اوستھا ہے
پھر اس کے بعد دل سنتا ہے انہد ناد جیون
ذہن بن باسی بنا ہے سارے رشتے توڑ کر
میرے سائے کے نکٹ پھر جنگلوں میں کون تھا
کاشی اپنے دھیان، گیان اور روحانی ریاضت کے ساتھ مدھر جی کے ان شعروں میں نظر آتا ہے :
جانے کتنے جنم کے ہیں بھٹکے ہوئے
ہم نے بدلے تیرے واسطے تن کئی
باہر ندی کی پھیلی ہوئی ریت کال ہے
پانی بھی مچھلیوں کے لئے ایک جال ہے
اسے اچھی طرح معلوم ہے آنند پیڑا کا
دیکھا ہے پیار میں جس نے ورہ کا سواد آجیون
کانچی نشاط زیست کے تصور اور کام دیوی کامکشی کے ساتھ ان اشعار میں مصور ہے :
خواہشوں کے سانپ مجھ سے لپٹے رہتے ہیں مدھر
آپ نے ناحق بنایا نیم سے صندل مجھے
وصل کے لمحات میری سوچ میں آتے ہیں جب
ایسا لگتا ہے کھجراہو کے بت خانے میں ہوں
کالی داس اور وکرمادتیہ کی سرزمین اجین اپنے ارفع تخیل، تہذیب، ثقافت اور آرٹ کے امیج کے ساتھ مدھر جی کے ان ان شعروں میں روشن ہے :
کبھی تو آئے گی تیرے بدن کو چھوکے ادھر
کھلا کواڑ میں رکھتا ہوں اس پون کے لئے
جو خود ہے آگ اس کو جلائے گی آگ کیا
مجھ کو ڈر ہے کہ وہ کہیں پانی سے جل نہ جائے
دوارکا جو آزادی اور نجات کا نقطہ اختتام ہے۔ جہاں کرشن جی نے اپنا جسم تیاگ دیا تھا۔ ان شعروں میں کتنی خوبصورتی کے ساتھ visualiseہوا ہے :
زندگی گر نہ ہوتی شو سادھنا
ہم کو مرگھٹ کے سائے نگلتے نہیں
موت جب آئی نظر مجھ کو دکھی
میں نے اپنی زندگانی سونپ دی
آتما سے ملی آتما اس طرح
خود ہی درشن ہوا خود نین ہو گیا
یہ ساتوں شہر اپنے تمدنی تلمیحات، تہذیبی اشارات کے ساتھ مدھر جی کے شعروں میں نظر آتے ہیں۔ بس تلاش و جستجو شرط ہے۔ یہ شاعری ان کے شخصی اکتشاف کی اوڈیسی ہے۔ انہوں نے کچھ نئی تلمیحات، علامتیں اور تراکیب بھی استعمال کی ہیں اور اظہار و احساس کے نئے در وا کئے ہیں :
میٹنی شو دیکھ کر آئی ہوا
گاؤں میں کرتی ہے ڈسکو رات بھر
جگنوؤں نے لے لیا بن باس اب
ٹیوب لائٹ کے لگے جب سے شجر
ان کی غزلوں میں ہندی تلمیحات اور استعارات کا حسن بھی ہے اور لفظیات کا جمال بھی :
بھسم جیون کا ہر آورن ہو گیا
آگ من میں لگی تن ہون ہو گیا
دیکھا ہے اپنے آپ کو درپن میں نروسن
ٹوٹے ہیں جب بھی عکس کے گھیرے کبھی کبھی
عصری صورت حال، مذہبی جنون و تشدد، منافقت مکاری، عیاری، آتنک واد کے تعلق سے بھی بہت سے اشعار ان کے یہاں ملتے ہیں جن سے ان کے انقلابی تیور کا پتہ چلتا ہے اور ان کی آتما کی خوبصورتی کا بھی :
ہر سمت ایک غول ہے آتنک واد کا
مجھ کو کہیں بھی پیار کا سنسد نہیں ملا
اس شعری مجموعہ میں برہم دیو مدھر جی کی پوئٹک جینئس کے ڈائمنشن منور ہیں۔ ان کی شعری قوت اور تخیل کی بلندی سے انکار کسی طور پر ممکن نہیں۔ مدھر کی شاعری کومل، نرمل، شفاف اور سوکچھ ہے۔ اس شعری تخلیق کے باطن کی سیر کریں تو اس میں تلسی داس، رادھا، رے داس، رحیم، رس کھان، رمن، سدامہ، شبری، میرا اور کبیر کی آنکھیں نظر آئیں گی۔ اور یہ آنکھیں بہت ہی پاک و صاف، پر سوز اور درد مند ہیں اور یہی شفافیت اور درد مندی مدھر جی کی تخلیق کے آئینہ خانہ میں تمام تر جمالیاتی زاویوں کے ساتھ روشن ہیں۔
غم کی جمالیاتی ترفیع’نصرت غم‘ [سنگیتا پی مینن ملہن کے حوالے سے]
سنگیتاکی ’نصرت غم‘ سے پہلے شاعر مشرق علامہ اقبال کا ’فلسفہ غم‘:
غم جوانی کو جگادیتا ہے لطف خواب سے
ساز یہ بیدا ر ہوتاہے اسی مضراب سے
طائر دل کے لیے غم شہپر پرواز ہے
راز ہے انساں کا دل غم انکشاف راز ہے
غم نہیں غم روح کا ایک نغمۂ خاموش ہے
جو سرود بربط ہستی سے ہم آغوش ہے
ان اشعار کی راہ سے ہی اس منزل تک رسائی ہوسکتی ہے جو سنگیتاپی مینن ملہن کا فکری پڑاؤ ہے۔ سنگیتا کے یہاں غم ایک قوت محرکہ،ایک مہیج (stimulus)کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ غم کی بنیادی قدر (Intrinsic Value)سے واقف ہیں۔ان کے لیے غم ایک طرز احساس بھی ہے۔ دراصل سنگیتا مینن غم کی مابعدالطبیعاتی اساس سے آگاہ ہیں اور ان کی فکر میں اونامونو کا وہ تصور تخلیقی رنگ وروپ لیے ہوئے جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ’غم زندگی کی حقیقت جاننے کا ذریعہ ہے۔‘ سنگیتا نے غم کے ذریعہ حیات وکائنات کا عرفان حاصل کیا اور ادراک کی اس منزل تک پہنچیں جو بدھ ازم کی اصطلاح میں نروان کہلاتی ہے اور یہ نروان کرب اور اذیت کی آگ کے دریا سے گزر کر ہی حاصل ہوتاہے۔ سنگیتا کے یہاں غم ایک توانائی بخش عنصر کے طور پرسامنے آتا ہے۔ وہ غم جس کے بارے میں فانی بدایونی نے کہاتھا کہ ’غم‘ وہ راحت ہے جسے قسمت کے دھنی پاتے ہیں۔‘
سنگیتاپی مینن نے اسی غم کے فلسفے سے اپنی حیات و کائنات کے زاویے روشن کیے ہیں اور یہی غم ان کے لیے ایک متاع بے بہاہے۔ انھوںنے غم کی طاقت کو محسوس کیا اور اسے نشاط حیات کا وسیلہ بنایا۔دیکھاجائے تو اٹھارہویں صدی کے غالب کا جو ’نشاط الم‘ ہے وہی اکیسویں صدی کی سنگیتا کا ’نصرت غم‘ ہے۔
غالب نے کہاتھا:
جوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شام فراق
میںیہ سمجھوں گا کہ دو شمعیں فروزاں ہوگئیں
سنگیتا کے شعری مجموعہ کا سرنامہ ’نصرت غم‘ ایک استعبادی طرزفکر اور اسلوب اظہار کا عکاس ہے۔ اس مجموعہ میںنظمیہ صورت میں سنگیتا کے فلسفیانہ ڈسکورس، باطنی ارتعاشات اور داخلی تموجات ہیں۔ ایسی نظمیں سوچ سمندر میں غوطہ زن ہوکر ہی لکھی جاسکتی ہیں۔ ان نظموں میں وجودی تجربوں کا اظہار ہے اور وجودیاتی تشویش (Existential Anxiety)کی صورتیں بھی نمایاں ہیں۔ کہیں کہیں ان کا ایکسپریشن بالکل مسٹیکل ہوجاتاہے۔ جہاں وہ فنا اور موت کے بارے میں بات کرتی ہیں۔ فنا اور زندگی کے تعلق سے ان کی نظمیں پڑھتے ہوئے فانی بدایونی کی یاد آتی ہے۔ جنھوں نے موت اور زندگی کے مابین رشتوں کی ایک نئی جہت تلاش کی ہے اور Paradoxicalانداز اختیار کرتے ہوئے کہا:
اے موت تجھ پہ عمر ابد کا مدار ہے
تو اعتبار ہستی بے اعتبار ہے
ہر لمحہ حیات ہے بے گانہ حیات
فانی حیات سے ہی عبارت عدم نہ ہو
توسنگیتا مینن نے بھی اسی احساس کونظمیہ پیکرمیں یوں ڈھالاہے:
زندگی سے جو نہ حاصل ہوئی
وہ شہرت
موت لے آئی ہے
جیتے جی تویہ بھی نہ نصیب ہوا
آج لیکن میرے شعر پڑھے گئے
اے موت!
تو باربارکیوں نہیں آتی
تجھی سے تو ہے میرا وجود
ہم جیسے لوگوں کی تو
تو ہی سرپرست ہے
تیرا ہی سہارا لے کر جیتے ہیں
تیرے علاوہ
میرااپنا
اورکون ہے؟
آخر کے نثری ٹکڑے پڑھتے ہوئے پھرفانی بدایونی کی غزل کا یہ شعرصفحۂ ذہن پر جگمگانے لگتا ہے:
دیار عمر میں اب قحط مہر ہے فانی
کوئی اجل کے سوا مہرباں نہیں ملتا
اسی طرزفکر کی غماز ان کی ایک نظم ہے ’زندگی موت سی ہے یہاں‘:
سیاسی طاقتوں نے یوں ہاتھ موڑ رکھا ہے
کہ فقیری کے قابل بھی نہیں چھوڑ رکھا ہے
کمر ٹوٹی ہے سانس مدھم ہے، امید کب کی تمام ہوچکی ہے
آنکھیں نم ہیں
کہیں بھی تو کس سے کہیں ہم
ہر ایک رہنما میرے قتل کا گنہگار ہے
اورجس خدا کو قادر مطلق سمجھتے تھے
اب جانا کہ وہ بھی ایک ظالم دھوکہ ہے
اس آس سے گھسیٹتا ہے مردہ جسم اپنی ہی لاش کو
دو گزملے گی اسے زمین خاک ہونے کو
مگر قبرستان جو پہنچے تو معلوم ہوا کہ محافظ نے وہاں پر بھی
بازکرلگارکھاہے
سنگیتامینن نے فانی کوپڑھاہے یانہیں مگر فانی کا تصور الم ان کی فکر میں نمایاں ہے مگر ان کے اور فانی بدایونی کے تصورغم میں بنیادی فرق یہ ہے کہ فانی کے یہاں غم ایک سلبی تصورہے جبکہ سنگیتا کے یہاں مثبت تصور کی حیثیت رکھتاہے۔یہ غم ارتفاع(Sublimation)اور ترفیع کی علامت ہے۔ جس طرح دانتے کی ڈیوائن کامیڈی اور ہندوستان کاتاج محل غم کی جمالیاتی ترفیع ہیں۔ اسی طرح سنگیتا نے بھی اپنی شاعری میں غم کی ترفیع کو ایک وسیلہ کے طورپراستعمال کیاہے۔ ’نصرت غم‘ ان کے اسی احساس ارتفاع کاآئینہ دار ہے:
لوگوں کی ایک باڑھ امڈ آئی ہے
میرے مے خانے میں جیسے دنیاسمائی ہے
ہے جشن یہ کہ تماشا کوئی عام
شور بھی ہے اورسناٹابھی
روح بے چین ہے مگر حوصلہ بلند
میرے جنازے کو کاندھا دینا میری قسمت
انھیں یہاں لائی ہے
کروں ذکربربادی کا
یابیاں کروں قصے نصرت غم کے
یہ کیا کم ہے کہ بے مروّت بے رحم زمانے نے
بے کس کی دعایوں قبول کی ہے
سنگیتا کے یہاں Negative Capabilityکی صورت بھی یوں نمایاں ہے کہ بیرونی حقیقت کو بھی اپنی ذات میں محسوس کرنے لگتی ہیں۔ان کی کئی نظمیں اس کی مثال کے طورپر پیش کی جاسکتی ہیں۔ ’نصرت غم‘ میں بہت سی نظمیں ایسی ہیں جوذہن،ذات اور ضمیر کو مرتعش کرنے والی ہیں۔ دراصل یہ ساری نظمیں سنگیتاپی مینن کے کیتھارٹک تجربے ہیں۔ منفی جذبات واحساسات سے باہر نکلنے کی ایک راہ جوانھوں نے خودتلاش کی ہے۔ انھوں نے لکھاہے کہ ’وہ خیالات جو 2011کی چھ ماہ کی مدت تک قدرتی طورپرمجھ میں جاں گزیں تھے ان منفی اثرات سے میں یکسر پاک ہوگئی۔ ’نصرت غم‘ نے مجھے آزاد کردیا اورمیرانجات دہندہ بن گیا۔‘
سہ لسانی(ہندی،رومن اور اردو)شعری مجموعہ ’نصرت غم‘ ایک ایسی شاعرہ کا کلام ہے جس نے اردو کو اپنے اظہارکے ایک میڈیم کے طورپرانتخاب کیاہے،جبکہ وہ اردو کے لسانی کلچر، اس کے رموز و علائم سے مکمل طورپر واقف بھی نہیں ہیں،مگراس زبان کی کشش نے ایک ایسی ذہنی قربت پیدا کردی کہ انھوں نے اردو میں شاعری کی اوراس کی قوت کو اپنے اندر محسوس کیا۔ انھوں نے خود لکھاہے کہ:
The intoxicating beauty of poetry and the sheer power of the Urdu language have been my Moksh
’موکچھ‘ کا یہ تصور معنی خیز بھی ہے اور آج کے تناظرمیں بہت گہری رمزیت کاحامل بھی۔ بشرطیکہ اس تصور کو اس کی مکمل صورت میں سمجھاجائے۔ ’نصرت غم‘ موکچھ کی کس منزل تک لے جائے گی یہ کہانہیں جاسکتا لیکن معاشرے کی کیتھارسس کی ایک سبیل اس سے ضرور نکل سکتی ہے۔ انگریزی کی ایک مقتدر صحافی اور شاعرہ کا اردوزبان میں پرجوش خیرمقدم کیا جانا چاہیے کہ اسی طرح زبانوں کو نئے منطقے ملتے ہیں اور نئی فکری منطق نصیب ہوتی ہے۔
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ
سید اکبر رضا نقوی (ولادت 5؍ جولائی 1944ء) قلمی نام اکبر رضا جمشید بن سید علی جواد وسکینہ خاتون بی اے، بی ایل، سبکدوش ڈسٹرکٹ جج ساکن افضل پور، پچھم گلی نزد مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ ، پٹنہ کا شمار بہار کے انگلیوں پر گنے جانے والے محبتیں اردو میں ہوتا ہے ، وہ بغیر کسی تنظیم اور فرد کے تعاون کے اردو کی خدمت کرنے والے کو ہر سال ’’اکبر رضا جمشید ایوارڈ ‘‘سے نوازتے ہیں، اردو کے نام پر تقریبات کا انعقاد کرتے ہیں، اور سارا صرفہ اپنی جیب خاص سے کرتے ہیں، اب تک 2013ء سے وہ ترسٹھ (63)لوگوں کو ایوارڈ دے چکے ہیں، جن میں بقول ثوبان فاروقی بابائے اردو ویشالی انوار الحسن وسطوی ان کے صاحب زادہ عارف حسن وسطوی اور دوسرے نامور شعراء ادباء شامل ہیں، ان میں علیم اللہ حالی ، شوکت حیات، عطا عابدی ، اشرف استھانوی مرحوم، کامران غنی صبا ، انوار الہدیٰ ، ڈاکٹر ظفر انصاری ظفر ، حسن نواب حسن کے اسماء گرامی شامل ہیں، افسوس کی بات یہ ہے کہ اردو کی اصل خدمت مدارس کے علماء کرتے ہیں، اور اردو اصلاً وہیں زندہ ہے، اکبر رضا جمشید کے انصاف کی عدالت میں کوئی مولوی اب تک ایوارڈ کا مستحق نہیں قرار پایا یا تو جج صاحب نے اس حقیقت سے اپنی آنکھیں موند لی ہیں، یا ان کے مشیر انہیں اپنے ہی گرد الجھائے رکھنا چاہتے ہیں، حقیقت جو بھی ہو دیو مالائی روایت میں انصاف کی دیوی کی آنکھیں کالی پٹی سے بندھی ہوتی ہیں، بغیر دیکھے بھی مولانا ابو الکلام قاسمی شمسی کو ایک پلڑا میں ڈال دیا جائے تو دوسری طرف کے پلڑے میں رکھے کئی’’ بٹکھرے‘‘ پر وہ تنہا بھاری پڑیں گے ، رونا صرف اسی کا نہیں ہے، اس کا بھی ہے کہ اردو کے حقیقی خادموں کی ہر سطح پر ان دیکھی ہو رہی ہے، کیا سرکاری اور کیا غیر سرکاری ۔
زیر مطالعہ کتاب انہیں اکبر رضا جمشیدسے انٹر ویو اور مصاحبہ پر مشتمل ہے، جسے ڈاکٹر عطاء اللہ خان، عرفی نام علوی اور ادبی نام ڈاکٹر اے کے علوی (ولادت 23؍ ستمبر 1955ئ) صدر جمہوریہ ایوارڈ یافتہ ابن ڈاکٹر اٰل حسن خان مرحوم نے مرتب کرکے ادارہ فکر ونظر ، صمد منزل ، کرن سرائے، سہسرام کے زیر اہتمام ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس نئی دہلی سے شائع کرایا ہے ، ایک سو چار صفحہ کی قیمت دوسو روپے جج صاحب کی آمدنی کے اعتبار سے تو زائد نہیں ہے، لیکن یہ قیمت اردو کے عام قاری کے لیے خرید تے وقت بوجھ ثابت ہوگا، آپ کہہ سکتے ہیں کہ خرید تاکون ہے، اب تو اہل علم تک پہونچانا بھی مصنف ہی کی ذمہ داری ہوتی ہے، جس کا تذکرہ خود اکبر رضا جمشید نے ایک سوال کے جواب میں کیاہے ، جو اسی کتاب میں مذکور ہے، اگر ایساہے تو جتنی قیمت چاہیے رکھ دیجیے، فرق کیا پڑتا ہے، لیکن کتاب ملنے کے جو چار پتے درج ہیں ان میں بک امپوریم سبزی باغ ، پٹنہ، شاید مفت دینے کو تیار نہ ہو بقیہ تین پتے جن کا تعلق موضوع کتاب اورمصنف سے ہے ، شاید وہاں سے حصول مطلب حسب منشاء ہو سکے، کتاب کا انتساب جناب اکبر رضا جمشید کی اہلیہ محترمہ ارشاد بیگم اور ان کے دونوں صاحب زادگان کے نام ہے، اس کے بعد اکبر رضا جمشید کے سوانحی کوائف کا اندراج کیا گیا ہے،جس کا نصف کم سے کم مکررہے، کیوں کہ ٹائٹل کے آخری پیج پر بھی وہ تفصیلات درج ہیں، بلکہ سوانحی کوائف میں تصنیفات کی تعداد دس اور ٹائٹل پر تصانیف کا ذکر ہے، جن میں چار کم ازکم ڈرامے ہیں، اور ایک کتاب اردو شعراء کی حب الوطنی پرزیر طبع ہے، سوانحی کوائف میں اکبر رضا جمشید کے فن اور شخصیت پر ایک اور کتاب کا علم ہوتا ہے ، جسے پرویز عالم نے مرتب کیا ہے ، ایک درجن میں دو کم، ایوارڈ اور اعزازات بھی جج صاحب کو دیے گیے ، اس کا بھی ہمیں سوانحی کوائف سے پتہ چلتا ہے ، پھر اکبر صاحب کے ذریعہ مختلف سالوں میں ایوارڈ یافتگان کا ذکر بھی اس کتاب میں ملتا ہے۔
اے کے علوی صاحب کے قلم سے ہی اس کتاب کا پیش لفظ تحریر ہوا ہے، یہ بیانیہ اور داستانی انداز میں ہے ، جس میں اے کے علوی صاحب نے جمشید اکبر صاحب کا حلیہ، اردو کے قارئین کے ذریعہ کتابوں کی ناقد ری اور ان کے والد صاحب کی خدمات کا بھی قدرے تفصیل سے ذکر کیاہے، لیکن اتنا بھی نہیں کہ اسے اطناب سے تعبیر کیا جائے ، تین صفحہ کے پیش لفظ کو ایجاز ہی کہناچاہیے، اس کے بعد اکبر رضا جمشید وکثیر الجہت شخصیت کے عنوان سے وہ انٹر ویو ہے، جو اس کتاب کا اصل موضوع ہے ، اے کے علوی صاحب نے سوالات ایسے مرتب کیے تھے کہا کبر صاحب کی پرت در پرت ، شخصیت کھل کر سامنے آجاتی ہے ، اکبر رضا صاحب نے بھی سوالات کے جوابات میں اپنی شخصیت ، خدمات تصنیفات اپنے مقدس سفر ایوارڈ کے دائرہ کا زایوارڈ میں دی جانے والی چیزوں کا تذکرہ کیا ہے ، البتہ دی جانے والی رقم کو صیغۂ راز میں رکھا ہے ، کچھ تو خفا میں رہے تاکہ قاری کا تجسس بڑھتا رہے، یہ انٹر ویو چودہ سے باون صفحات پر جا کر ختم ہوتا ہے، اس کے بعد تاثرات کا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جن میں بیش تر ایوارڈ کی تقریبات اکبر رضا صاحب کی کسی کتاب کے اجراء پر اظہار خیال سے ماخوذ ہے، جن لوگوں کے تاثرات کو اس کتاب میں جگہ دی گئی ہے ان میں سابق صدر جمہوریہ اور اس وقت کے وزیر خوراک حکومت ہند فخر الدین علی احمد قاضی عبد الودود ، مولانا سید کلب عابد، پروفیسر اجتبیٰ حسین رضوی، شکیلہ اختر، عابد رضا بیدار ، سرور علی ، شوکت حیات، شفیع قریشی ، ہارون رشید ، مولانا ظفر عباس ، مولانا اسد رضا ، میجر بلبیر سنگھ، نذرا حسن ، منیر حسین، پروفیسر علیم اللہ حالی، سید شاہ شمیم الدین احمد منعمی،پروفیسر شمشاد حسین ، ڈاکٹر قمر الحسن ، انیل سلبھ، اعجاز علی ارشد ،ریحان غنی، محفوظ عالم، نتیش کمار، فخر الدین عارفی، ریاض عظیم آبادی، محمد نعمت اللہ ، اشرف استھانوی، مولانا محمد محسن ، ہیمنت شریواتسو، پروفیسر منظر اعجاز، ڈاکٹر ارمان نجمی، سیدشہباز عالم ، سید ارشاد علی آزاد، پروفیسر کلیم الرحمن ، امتاز احمد کریمی ، معین کوثر، پروفیسر قیام منیر، اسماعیل حسین نقوی، انوار الحسن وسطوی، آفتاب احمد اور سلطان آزاد کے تاثرات شامل ہیں، جو سب کے سب ان کی تقریروں سے ماخوذ ہیں، اس فہرست کو آپ دیکھیں، اس میں مسلم بھی ہیں، غیر مسلم بھی ، سیاسی حضرات بھی ہیں اور صحافی بھی ، شیعہ بھی ہیں اور سنی بھی، ادیب بھی ہیں اور شاعر بھی، ان میں کئی وہ بھی ہیں، جو اکبر رضا جمشید ایوارڈ پا چکے ہیں، اتنے حضرات کی گواہی جب اکبر رضا جمشید کی شخصیت اور خدمات کے حوالہ سے سامنے آگئی ہیں تو ان کی شخصیت کے کثیر الجہات ہونے اور ان کی خدمت کی وقعت اور عظمت کس کے دل میں جاںگزیں نہیں ہوگی، اور کون ان کے اخلاق وکردار کا اسیر نہیں ہوگا، اسلام میں دوہی کی گواہی ثبوت کے لیے کافی ہوتی ہے، یہ اتنے بڑے بڑے اساطین علم کی شہادت اور اتنی بڑی تعداد میں اکبر رضا جمشید کی محبوبیت ومقبولیت کی بین دلیل ہے، خدا انہیں سلامت رکھے اور خوب کام لے۔
اس کتاب کو میرے پاس لے کر اکبر رضا جمشید خود تشریف لائے تھے، میری ان سے پہلی ملاقات تھی، تپاک سے ملے، محبت سے پیش آئے ، اعترف کیا کہ میں آپ تک نہیں پہونچ سکا تھا،ا لبتہ آپ کی تحریریں دیکھتا رہا ہوں۔ کتاب کے مصنف نے انتہائی کی تھی، اے کے علوی بھی محبت کرتے ہیں، اس کتاب کی ترتیب میں جو سلیقہ انہوں نے برتا ہے وہا ں کی سلیقہ مندی کا حسین مظہر ہے۔
پٹنہ میں ایم اے انگلش کا امتحان دینے سلطان گنج آیا ہوا تھا تو خواہش ہوئی کہ کیوں نہ خانقاہ منعمیہ کا بھی دورہ کرلیا جائے اور مولانا شمیم احمد منعمی صاحب سجادہ نشیں خانقاہ منعمیہ سے ملاقات کی جائے، جب سلطان گنج سے خانقاہ کی جانب روانہ ہوا تو راستہ گنگا کنارے تھا، بے حد خوش نما منظر دکھائی دیا، بالکل ساحل سمندر والی فیلنگ آرہی تھی، کاش ٹورزم اور سیاحت کا فروغ سرکار کی ترجیحات میں شامل ہوتا تو معیشت کی ترقی میں اس کا ایک اہم کردار ہوتا، بہرحال گھاٹ پر پہلے سے زیادہ رونق نظر آئی، اور ایسا محسوس ہوا کہ اس جانب پیش رفت کا آغاز ہوچکا ہے۔
خانقاہ بالکل لبِ گنگا واقع ہے، داخل ہوا تو مولانا شمیم احمد منعمی صاحب اپنے اندازِ دلبرانہ میں خطاب فرما رہے تھے، مولانا سے واقفیت پہلی مرتبہ سوشل میڈیا پر یو سی سی کے موضوع پہ اپنے خطبے کے حوالے سے ہوئی تھی، اور ان کی گفتگو بڑی سلیس، سلجھی ہوئی، شستہ اور دانش مندانہ معلوم ہوئی جس کے بعد ان سے ملاقات کا اشتیاق پیدا ہوگیا تھا، پھر خانقاہ رحمانی میں ان کی آمد ہوئی اور ملاقات ہی نہیں تعارف و تفصیلی گفتگو کا موقع بھی ملا، وہاں معلوم ہوا کہ مولانا صرف خانقاہ کے سجادہ نشیں ہی نہیں بل کہ اورینٹل کالج پٹنہ کے پروفیسر بھی ہیں، مندرجہ ذیل کتابوں کے مصنف و مترجم ہیں: 1۔ شیخ الشیوخ شہاب الدین سہروردی- حیات وخدمات 2۔ تاریخ صوفیاء بہار جلد:اول دوم(اول غیر مطبوعہ) 3۔ مخدوم جہاں جیون اور سندیش( ہندی) 4 ہندوستان کے صوفیاء اور عربی زبان میں ان کی خدمات( غیر مطبوعہ) باقی اب تک بتیس کتابوں پر تقدیم و تحقیق کا کام بھی کرچکے ہیں، اور ایک کتاب پر تحقیق کرتے ہوئے ان کو رات میں معلوم ہوا کہ اس تحقیق کا مرجع کتاب صرف خانقاہ رحمانی میں موجود ہے صبح ہوکر گاڑی لے کر نکل گئے، میں تو حیران و ششدر رہ گیا کہ اس زمانے میں بھی کتابوں کے ایسے رَسِیا اور باذوق احباب موجود ہیں؟ وہ بھی کسی خانقاہ کے پیر کے تئیں اس قسم کا شوق میرے لیے کسی الف لیلوی داستان سے کم نہ تھا، بے حد دلی مسرت ہوئی اور دعا نکلی کہ اللہ ایسے باذوق افراد کو سلامت رکھے اور ان جیسوں کی تعداد میں روز افزوں اضافہ فرمائے۔
جمعہ کے بعد ملاقات ہوئی، حضرت نے دیکھتے ہی پہچان لیا، مصافحہ و معانقہ سے شرف یابی نصیب ہوئی، پھر اپنے بازو میں بٹھاکر ظہرانہ کرایا، دسترخوان پر پھر ان کے آفس میں مسلکی ہم آہنگی کو لے کر گفتگو ہوئی کہ مسلمانوں کو اب یہ سمجھنا پڑے گا کہ مسلک مسلک کھیل کر ہم اپنی ہی ناؤ میں سوراخ کررہے ہیں، اور عجیب بات یہ ہے کہ پہلے علما میں مسلکی تعصب زیادہ تھا عوام میں کم لیکن اب دھیرے دھیرے علما کے درمیان کم ہوتا جارہا ہے اور عوام میں شدت بڑھ رہی ہے جس پر سنجیدگی کے ساتھ غور و خوض کی ضرورت ہے، اور برملا کہا کہ ہم بریلوی نہیں خانقاہی ہیں، ساڑھے تین سو سال پرانی خانقاہ کو دیڑھ دو سو سال پرانے مسلک بریلویت سے انتساب کی کوئی تک نہیں بنتی، اور اسی وجہ سے یہاں نہ فجر کے بعد سلام پڑھا جاتا ہے اور نہ ہی جمعہ کے بعد سلام پڑھا گیا جو کہ مسلک بریلویت کا طغرائے امتیاز سمجھاجاتا ہے۔
اس کے بعد آفس میں مولانا نے نائب صدر مدرس مفتی محب اللہ مصباحی صاحب کو بلایا ان سے تعارف کرایا کہ مفتی قیام الدین صاحب قدیم و جدید کا حسین سنگم ہیں، مفتی بھی ہیں، انگریزی داں بھی ہیں اور پروجیکٹ مینیجر بھی ہیں، انہیں خانقاہ گھما لائیے، مفتی صاحب نے پورے خانقاہ کا دورہ کرایا، مسجد تقریباً ساڑھے تین سو سال پرانی ہے جسے ملا بدیع الدین عالم گیری معروف بہ ملا میتن نے عہد شاہجہاں میں قائم کیا تھا، اور پھر قطب دوراں مولانا منعم پاک نے 1162 ہجری بمطابق 1748کے قریب اسے اپنا آستانہ بنایا، اس کا تہ خانہ متصوفین کے مراقبے اور خشوع و خضوع کے لیے نیز قرآن کی تلاوت کے لیے بہت موزوں معلوم ہوا، خانقاہ کا رقبہ کافی لمبا چوڑا ہے الحمدللہ، صرف خانقاہ نہیں بل کہ یہاں مدرسہ بھی، اسکول بھی ہے، دارالافتاء بھی ہے، شفا خانہ بھی ہے، لائبریری بھی ہے الحمدللہ، خانقاہ کی جن خصوصیات کا میں نے مشاہدہ کیا وہ درج ذیل تھیں:
1 خانقاہ تو عوامی ہوا کرتی ہے لیکن یہاں تقریباً آدھے ایک کلومیٹر تک مسلمانوں کی آبادی نہیں ہے اس کے باوجود جمعہ میں نمازیوں کے ایک جم غفیر کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اللہ نے اس خانقاہ اور سجادہ نشیں کی محبت کس قدر لوگوں کے دلوں میں پیوست کردی ہے۔
2 یہاں کا شفاخانہ بھی عوامی ہے جہاں روزانہ 120 لوگوں کا چیک اپ ہوتا ہے وہ بھی صرف دس روپے کی رعایتی فیس پر
3 یہاں کی عظیم الشان لائبریری بھی عوامی ہے، اولا تو یہ کہ مولانا کتابوں کے اتنے دل دادہ ہیں کہ بیس سے پچیس اصحاب خیر حضرات نے اپنی پوری زندگی میں جمع کیا ہوا ذخیرۂ کتب ان کی لائبریری کو ہدیہ کردیا ہے، 32000 کے قریب مطبوعات اور 1000 مخطوطات یہاں موجود ہیں، ثانیا یہ لائبریری صرف مدرسے کے طلبا کے لیے مخصوص نہیں بلکہ 80 ٹیبل کرسیاں لگی ہوئی ہیں جہاں باہر سے مختلف اسکولوں کالجوں میں پڑھ رہے طلبا اور مقابلہ جاتی امتحانات میں شرکت کرنے والے مساہمین جوق در جوق اس لائبریری میں آکر اپنی علمی پیاس بجھاتے ہیں اور ان کے مطلب کی ساری کتابیں یہاں مہیا کی گئی ہیں تاکہ وسائل کی کمی کی بنا پر کتابیں نہ خریدپانے والا نوجوان، اپنا مستقبل، تاب ناک بنانے سے محروم نہ رہ سکے، اس بات پر مجھے اس خانقاہ سے قلبی لگاؤ محسوس ہوا۔
مفتی محب اللہ صاحب مصباحی نے تقریباً آدھا پون گھنٹہ پورے خانقاہ کا دیدار کرایا، آڈیٹوریم کی خوب صورتی دیکھ کر بندہ دم بخود رہ گیا، گھومتے ہوئے مختلف موضوعات پر گفتگو بھی جاری رہی ، ان سے بات چیت کرکے ذرہ برابر بھی محسوس نہیں ہوا کہ ہم دو الگ الگ مسلک کے ماننے والے ہیں، ایک وقت تھا جب شاید مصافحہ کرنا بھی نکاح ٹوننے کے مترادف گردانا جاتا تھا اور آج وہ خیر والا زمانہ ہم نے پایا کہ ہمارا مسلکی اختلاف ہمارے تعلقات و محبت میں دڑار کا سبب نہ بن سکا فللہ الحمد علی ذلک، بڑی خوش اخلاقی و ملن ساری سے پیش آئے، ہم نے بھی انہیں خانقاہ رحمانی تشریف لانے کی دعوت دی، مفتی صاحب نے بتایا کہ جامعہ رحمانی خانقاہ کے استاذ مولانا وسیم صاحب ایران کے سفر میں ہمارے ساتھ تھے انہوں نے بھی دعوت دی تھی لیکن اب آپ سے ملاقات ہوگئی تو خانقاہ کی زیارت کا مزید شوق پیدا ہوگیا ہے، ان شاءاللہ جلد ہی خانقاہ حاضری ہوگی۔
آفس میں پھر مولانا کے سامنے اپنی کتاب "امت کی مجموعی ترقی کا لائحۂ عمل” (فہرست کے مطالعے اور آرڈر کے لیے واٹس ایپ کریں 7070552322) پیش کی تو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ کتاب کا ٹائٹل اور عنوان ہی اتنا دل چسپ اور فکر انگیز ہے کہ امت کی ترقی سے دل چسپی رکھنے والا ہر کہ و مہ اس کو پڑھنے پر مجبور ہو جائے، میں نے بھی شکریہ ادا کیا اور عرض کیا کہ آپ پہلے شخص ہیں جنہیں میں نے کتاب ہدیہ کی ہے صرف اس لیے کہ آپ باذوق قاری و مصنف ہیں، مولانا نے کہا یہ آپ کا حسنِ ظن ہے لیکن ہم اپنے چھوٹوں کی حوصلہ افزائی ضرور کریں گے ان شاءاللہ، اور پھر گاڑی پر بیٹھتے وقت مفتی محب اللہ صاحب نے مولانا منعمی صاحب کی جانب سے ایک لفافہ چپکے سے پیش کیا، امارت آکر دیکھا تو الحمدللہ کتاب میں مرقوم پورے 550 روپے لفافے میں موجود تھے اور یوں ہمارا پٹنہ سے مونگیر تک کے پٹرول کا انتظام ہوگیا الحمدللہ، فجزاہ اللہ خیرا۔
رخصت ہوتے وقت ہم نے مولانا سے گزارش کی کہ خانقاہ میں موجود بلڈنگس کا ایک بڑا حصہ ایسا ہے جہاں بہت سے ٹریننگ کورسز کروائے جاسکتے ہیں، اور قوم کے نوجوانوں کی ترقی کا ایک بڑا کام یہاں سے انجام دیا جاسکتا ہے کیوں کہ اس زمانے میں شہر میں انفراسٹرکچر و عمارتیں کھڑی کرنا تو دور زمین خریدنا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، ایسے میں اللہ نے نہ صرف آپ کو اتنے بڑے رقبے بل کہ کئی خوبصورت و دیدہ زیب عمارتوں سے بھی نوازا ہے تو اس کا فائدہ اٹھایا جائے اور کئی سارے ووکیشنل کورسز ہیں جو بڑی ہی عمدگی کے ساتھ یہاں انجام دئیے جاسکتے ہیں تو مولانا نے فرمایا بالکل ہم ہمہ وقت اس کے لیے تیار ہیں، آپ آکر یہاں کچھ دن قیام کریں اور پورا نظام مرتب کردیں ان شاءاللہ آپ کے لیے بھی صدقہ جاریہ رہے گا یہ، دعا کریں اللہ ہمارا یہ منتھن امت کے بندھن کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بنائے۔
آخری بات یہ کہ کئی بار جب کچھ لوگوں کے سامنے مولانا کا تذکرہ کیا تو ان کی برائیاں کرنے لگے کہ یہ نتیش کے بہت قریبی ہیں، نیتاؤں سے قریب رہ کر اپنا الو سیدھا کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں وغیرہ وغیرہ، مگر میرا تجربہ اس کے بالکل برعکس تھا، میں تو ان سے بطور خطیب و محقق متعارف ہوا تھا اور جب ملا تو انہیں امت کے لئے مسلکی اختلافات کو ختم کرنے کے لیے فکر مند و دردمند پایا، علم و تحقیق کا جویا پایا، اور امت کی تقویت و ترقی اور مادی و سیاسی منافع اگر نیتاؤں کی قربت سے حاصل کئے جاسکتے ہیں جیسا کہ مولانا نے کیا پھر تو ہم بھی رب کریم سے ایسی قربت کی دعا مانگتے ہیں، پتہ نہیں کیوں لوگ کسی کی ایک دو خود مزعومہ کمیوں کی بنا پر اس کی ساری خوبیوں پر پردہ ڈال دیتے ہیں، اسی لیے میرے ہم عصروں اور نئی نسل کو میرا مشورہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اگر کسی بڑے ذمہ دار و قائد کے تعلق سے آپ کے ذہن کو خراب کرنے کی کوشش کریں اور دماغ میں بھوسا بھرنے کی کوشش کرے تو کہ دیجئے کہ بھائی آپ اپنی سنی سنائی باتیں اپنے پاس رکھیے، ہم کسی کی تعریف پر تو یقین کریں گے لیکن کسی کی کمیوں پر اس وقت تک اعتماد نہیں کریں گے جب تک کہ ہم خود مشاہدہ و تجربہ نہ کرلیں، یقین جانیں اس طریقے کو اپنا کر غیبت و چغلی و حسد جیسی کئی بیماریوں اور کبیرہ گناہوں سے اپنی زندگی کو پاک کیا جاسکتا ہے، نیز کما تدین تُدان، جب آپ دوسروں کے ساتھ یہ رویہ اختیار کریں گے تو آپ کے ساتھ بھی یہی رویہ اختیار کیا جائے گا ان شاءاللہ کہ آپ کی خامیوں سے صرف نظر کر لوگ آپ کی خوبیوں کا تذکرہ کریں گے اور اس سے استفادہ کریں گے کیوں کہ کوئی انسان خامیوں سے خالی نہیں۔
یہ بات خوش آئند ہے کہ جامعۃ الفلاح ، بلریا گنج ، اعظم گڑھ کے فارغین نے زندگی کے تمام میدانوں میں کام یابی کے جھنڈے گاڑے ہیں۔ تعلیم و تدریس کا میدان ہو یا تحقیق و تصنیف کا ، طب کا میدان ہو یا قانون کا ، صحافت کا میدان ہو یا سیاست کا ، ادب اور شاعری کا میدان ہو یا سائنس اور آئی ٹی کا ، ہر جگہ وہ اپنے امتیاز اور تخصص کے ساتھ موجود ہیں – بعض جامعات میں ان پر ڈاکٹریٹ بھی ہوچکی ہے ، مثلاً ڈاکٹر انعام الدین فلاحی نے ‘فارغین جامعہ کی نثری و شعری خدمات’ پر کوٹہ ہونیورسٹی راجستھان سے پی ایچ ڈی کی ہے اور ڈاکٹر غلام نبی فلاحی کشمیری نے شعبۂ اسلامک اسٹڈیز ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اپنی پی ایچ ڈی تھیسس میں جامعہ کی ابتدائی تاریخ ، تعارف ، اغراض و مقاصد ، دستور العمل ، نصاب اور تعلیمی سرگرمیوں کا جائزہ لیا ہے۔
ان خدمات کو دیکھتے ہوئے جامعہ کے مہتمم تعلیم و تربیت ڈاکٹر جاوید سلطان فلاحی مدنی اور معاون مہتمم مولانا عبید اللہ طاہر فلاحی مدنی نے مختلف میدانوں میں فارغین جامعہ کی خدمات کے تعارف کا منصوبہ بنایا اور پہلے مرحلے میں ان کی ادبی خدمات کے تعارف کی ذمے داری ڈاکٹر امتیاز احمد اور ڈاکٹر عمیر منظر کو سونپی۔ ان حضرات کے تیار کردہ مواد کو زیر نظر کتاب کی صورت میں شائع کیا گیا ہے۔
ابتداء میں جامعۃ الفلاح کی ابتدائی تاریخ اور موجودہ سرگرمیوں کا تعارف کرایا گیا ہے۔ اس کے بعد 142 ان فارغین جامعہ کا مختصر تعارف ہے جنھوں نے اردو زبان و ادب ، تراجم اور صحافت کے میدانوں میں کام کیا ہے – ساتھ ہی ان کے رابطہ نمبر اور ای میل بھی درج کیے گئے ہیں ، تاکہ خواہش مند ان سے رابطہ کرسکیں۔
کون فارغین جامعہ ایم فل اور پی ایچ ڈی مقالات کے نگراں رہے ہیں؟ یا انھوں نے پوسٹ ڈاکٹریٹ فیلوشپ پر کام کیا ہے؟ یا ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کی ہیں ، ان کی فہرست پیش کرنے کے بعد 45 پی ایچ ڈی مقالات کے خلاصے درج کیے گئے ہیں۔ فارغین جامعہ کن ادبی رسائل کے ایڈیٹر رہے ہیں؟ اس کی فہرست بھی دی گئی ہے۔ آخر میں ادب اطفال ، تاریخ ، تحقیق و تنقید ، تدوین و ترتیب ، تراجم ، جغرافیہ ، سفرنامہ ، خود نوشت ، سیر و سوانح ، شعر و سخن ، صحافت ، فرہنگ سازی ، فکشن (افسانہ / ناول) ، لائبریری سائنس ، معاشیات ، مونوگراف اور نصابیات میں ان کی تصانیف کی فہرست پیش کی گئی ہے۔
یہ کتاب جامعۃ الفلاح کے اشاعتی ادارہ ‘ادارۂ علمیہ’ سے شائع ہوئی ہے۔ صفحات : 240 ، قیمت : 200 روپے۔
رابطہ نمبر :
ڈاکٹر امتیاز وحید
8583870891
[email protected]
ڈاکٹر عمیر منظر
9818191340
[email protected]
ادارۂ علمیہ
[email protected]
ضرورت ہے کہ دیگر میدانوں میں بھی فارغین جامعہ کی خدمات کی تفصیلات فراہم کی جائیں اور انہیں عام کیا جائے۔ امید ہے کہ ذمے داران جامعہ اس جانب بھی توجہ دیں گے۔
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بانی امارت شرعیہ مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کاشماربیسویں صدی کی اہم علمی ،سماجی، مذہبی اور سیاسی شخصیتوں میں ہوتا ہے،علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ انہیں فقیہ النفس عالم کہا کرتے تھے ،واقعہ یہ ہے کہ بیسویں صدی کے نامور اور بافیض لوگوں کی مختصر سے مختصر کوئی فہرست تیار کی جائے گی تو اس میں مولانا ابو المحاسن محمد سجاد رحمۃ اللہ علیہ کا نام ضرور ملے گا ،وہ ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے اور ان کا میدان عمل میں علم، سماج، مذہب، دین و سیاست سب کا گزر تھا، ان کے مضامین و مقالات ان کی علمی گہرائی اور گیرائی کا پتہ دیتے ہیں، جمعیت علماء اور امارت شرعیہ اپنے وجود میں مولانا کی مرہون منت ہے، ان اداروں کے قیام کے خاکے بنانا، ان خاکوں میں رنگ بھرنے کے لیے اپنی پوری زندگی داؤ پر لگا دینا ان کی زندگی کی بڑی خصوصیات میں سے ایک ہے ،جس کے لیے پوری ملت مولانا کی مرہون منت ہے ۔
ان خصوصیات کی وجہ سے مولانا کی حیات و خدمات محققین کی توجہ کا مرکز رہا ہے اور بہت ساری کتابیں ان پر طبع ہو چکی ہیں، ان کتابوں میں مولانا مسعود عالم ندوی کی محاسن سجاد، مولانا عبدالصمدرحمانی کی حیات سجاد انہیں دونوں کتابوں سے اخذ کردہ مضامین کا مجموعہ حیات سجاد مرتبہ مولانا انیس الرحمن قاسمی ،انہیں کی مولانا ابوالمحاسن محمد سجاد حیات و خدمات (سیمینار میں پڑھے گئے مقالات کا مجموعہ) مولانا اختر امام عادل کی حیات ابو المحاسن اور مولانا طلحہ نعمت ندوی کی حضرت مولانا ابو المحاسن محمد سجاد، انتہائی مستند محقق اور قابل قدر مجموعے ہیں ،ان میں ایک مجموعہ جمعیت علماء کی جانب سے منعقد ان پر سیمینار کے مقالوں کا ہے اور دو خالص تحقیقی نوعیت کا کام ہے، ان میں مولانا اختر امام عادل کی کتاب حیات ابو المحاسن کا جواب نہیں۔
اب ڈاکٹر مولانا عبدالودود قاسمی کی نئی کتاب مولانا محمد سجاد ۔حیات اور کارنامے کے نام سے سامنے آئی ہے، یہ دراصل ان کا پی ایچ ڈی کا تحقیقی مقالہ ہے جسے انہوں نے پی ایچ ڈی کے مقالوں میں جو رطب ویابس ہوتا ہے، اسے حذف کر کے مقالہ کی تلخیص منظر عام پر لانے کا کام کیا ہے، اور اچھا کیا ہے۔
ڈاکٹر عبدالودود قاسمی اپنے اصلی نام سے زیادہ اور قلمی نام واؤ قاسمی سے کم جانے جاتے ہیں ،16؍ اکتوبر 1973کو الحاج ماسٹر محمد یوسف رحمہ اللہ کے گھر ڈلوکھر، مرزا پور، تھانہ لدنیا ضلع مدہو بنی میں آنکھیں کھولیں، دارالعلوم دیوبند سے فاضل اور متھلا یونیورسٹی سے ایم اے،بی ایڈ، پی ایچ ڈی کیا، یو جی سی کا نیٹ نکالا اور ان دنوں سی ایم بی کالج ڈیوڑھ، گھوگھر ڈیہا، مدھوبنی میں اسسٹنٹ پروفیسرکے عہدے پر فائز ہیں، عمر فرید میموریل ایوارڈ برائے ادب اور انور جلال پوری ایوارڈ برائے نقابت حاصل کر چکے ہیں ،ایوارڈ میں کیا سب ملا،دوستوں کو بھی نہیں بتاتے، اس لیے اسے پردۂ خفا میں ہی رہنے دیجیے، عکس سخن، درسگاہ اسلامی۔ فکر و نظر کی بستی، صدائے اعظم، دربھنگہ کا محرم تاریخ و تجزیہ، موصوف کی مطبوعہ کتابوں میں شامل ہے،یہ تو رہا مصنف کا تعارف، اب رخ کتاب کی طرف کرتے ہیں۔
227 صفحات کی اس کتاب کا پیش لفظ خود مصنف نے لکھا ہے، جس میں احوال واقعی کا ذکر ہے، قطعۂ تاریخ پروفیسر سید شاہ طلحہ رضوی برق کا ہے، کتاب کا انتساب والدین مرحومین کے نام ہے،جو مصنف کی سعادت مندی کی دلیل ہے ’’جن کی بے پناہ محبتوں اور دعاؤں کے صدقے‘‘ وہ علمی کاموں کے لائق بنے۔
ڈاکٹر عبدالودود قاسمی نے اس کتاب میں مولانا کے خاندانی حالات ،نام و نسب ، تحصیل علم ،تدریسی خدمات اور تبحر علمی کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے، مولانا سجاد کی ازدواجی زندگی، جسمانی خد و خال ،اخلاق و عادات، اساتذۂ کرام، تلامذہ، رفقائے کار اور معاصرین پر روشنی ڈالی ہے، مولانا سجاد کی سیاسی و سماجی خدمات، ان کی سیاسی بصیرت اور نقطۂ نظر کو بھی موضوع بحث بنایا ہے، انجمن علماء بہار، جمعیت علماء ہند ،خلافت کمیٹی اور مسلم انڈیپینڈنٹ پارٹی کے قیام، مقاصد اور خدمات کو زیر بحث لا کر اس عہد کی ملی اور سیاسی تنظیموں کی خدمات اور طریقۂ کار پر کلام کیا ہے،’’ وفات سجاد‘‘ ’’یاد سجاد‘‘ ’’ماتم سجاد‘‘ ’’ذکر سجاد‘‘ اور قطعۂ تاریخ وفات کو بھی اس کتاب میں جگہ دی گئی ہے۔
کتاب کا بڑا حصہ مولانا سجاد کی اردو تصانیف ،ان کے نثر کی خصوصیات اور ان تصانیف کی اہمیت کے جائزے پر مشتمل ہے جن کتابوں پر گفتگو کی گئی ہے اس میں حکومت الٰہیہ، فتاوی امارت شرعیہ، مقالات سجاد، سیاسی مقالات، مکاتیب سجاد، قانونی مسودے، خطبۂ صدارت، قضایا سجاد،امارت شرعیہ :شبہات و جوابات، خاص اہمیت کی حامل ہیں ،مولانا کے افکار و خیالات ان کتابوں کی روشنی میں جاننے کی کوشش کی گئی ہے۔
آخر میں مولانا سجاد کے بارے میں ہم عصر ادبی و مذہبی اور دور حاضر کے دانشوروں کی آرا قلم بند کی گئی ہیں اور اس نتیجے پر پہنچا گیا ہے کہ ایک عالم دین، ایک مفکر ،ایک مدبر و محقق اور انشاء پردازی کی تمام خوبیاں ان میں بدرجۂ اتم موجود تھیں۔
روشان پرنٹرس دہلی کے مطبع میں چھپی اس کتاب کا ناشر ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس دہلی ہے، 200 روپے دے کر الفاطمہ ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر ٹرسٹ ڈیوکھر ،بابو برہی ،مدھوبنی بہار، بک امپوریم سبزی باغ پٹنہ، ناولتی بکس و بک گیلری قلعہ گھاٹ دربھنگہ سے حاصل کر سکتے ہیں، مفت لینے کی خواہش ہو( جو اچھی نہیں ہو تی)تو مصنف کے موبائل 9534590987پر فون کر لیں۔
پروفیسر عتیق اللہ کا اصل میدان تحقیق و تنقید ہے مگر اس کے علاوہ اور بھی اصناف ہیں ،جن میں انھوں نے اپنے کمال ہنر کا ثبوت دیا ہے۔ ان میں شاعری، ڈراما نگاری، ترجمہ نگاری کے علاوہ خاکہ نگاری بھی ہے۔ اس مشہور صنف کو پروان چڑھانے والوں میں مرزا فرحت اللہ بیگ، رشید احمد صدیقی، مولوی عبدالحق، عصمت چغتائی، سعادت حسن منٹو وغیرہ کے نام لیے جاسکتے ہیں۔ اسی سلسلے سے ایک اور نام عتیق اللہ جڑ گیا ہے کہ خاکوں پر مشتمل ان کی دو کتابیں ’جن کو یاد نہ کرنا بھی یاد کرنا ہے‘ اور ’کچھ یاد رہا کچھ بھول گئے‘ حالیہ دنوں میں ہی منظر عام پر آئی ہیں۔ خاکوں کی ان دونوں کتابوں میں عتیق اللہ کی شخصیت ایک بہترین خاکہ نگار کی حیثیت سے سامنے آتی ہے۔
زیر نظر کتاب’کہ جن کو یاد نہ کرنا بھی یاد کرنا ہے‘ میں 25 خاکے شامل ہیں جن میں خواجہ احمد فاروقی، جوگندر پال، شمس الرحمن فاروقی، گوپی چند نارنگ، قمر رئیس، قاضی سلیم، شمیم حنفی، فضیل جعفری، کمال احمد صدیقی، ابوالکلام قاسمی، عابد سہیل، مجتبیٰ حسین، بلراج کومل، عصمت جاوید، بشر نواز، شمیم نکہت، خلیق انجم، ابن کنول، فضل تابش، اسلم پرویز، شاہد علی خاں، کنیز فاطمہ، علی جاوید، تلاوت علی، آمنہ بائی کے نام قابل ذکر ہیں۔ ان میں زیادہ تر عتیق اللہ کے معاصر بزرگ ہیں اور کچھ ایسی شخصیات بھی جن سے ان کا ذہنی اور قلبی رشتہ رہا ہے۔ ان میں ایک تو کنیز فاطمہ ہیں جو ان کی شاگردہ تھیں اور کم عمری میں وفات پاگئیں۔ دوسرا خاکہ آمنہ بائی المعروف اطہر دانی کا ہے جن کا ادب سے تو دور کا بھی رشتہ نہیں ہے، مگر عتیق اللہ کی ذات سے انھیں بہت انسیت تھی۔ دماغی طور پر ایک معذور خاتون جنھوں نے اجین کو اپنی قیام گاہ اور عتیق اللہ صاحب کے گھر کو ایک طرح سے پناہ گاہ بنا لیا تھا۔ یہ عتیق اللہ صاحب کی والدہ کی بہت چہیتی تھیں اس لیے اکثر ناشتے کے وقت ان کے گھر آجایا کرتی تھیں۔ عتیق اللہ صاحب نے اپنے اس خاکے میں رشید احمد صدیقی اور عبدالحق مرحوم کی یاد تازہ کردی کہ انھوں نے بھی کچھ ایسے لوگوں کے خاکے لکھے جو سماجی اعتبار سے معمولی حیثیت کے حامل تھے۔
خاکے کی اس کتاب میں کچھ کی نوعیت تعزیتی تحریر کی ہے۔ کچھ خاکے کورونا دور کی وحشت ناکیوں کی یاد بھی تازہ کراتے ہیں۔کورونا جیسی مہلک وبا کے دوران جن کی وفات ہوئی ہے انھیں اپنے خاکوں کے ذریعے عتیق اللہ صاحب نے نئی زندگی عطا کی ہے۔
عتیق اللہ نے خاکے کی پرانے روایت سے استفادہ ضرور کیا ہے مگر انھوں نے اپنے خاکوں میں اپنے انفرادی فکر و اسلوب کا جادو بھی جگایا ہے اور اپنے خاکوں کا رنگ بھی جداگانہ رکھا ہے۔ خاکے تعلق سے عتیق اللہ کا خیال یہ ہے کہ:
’’خاکہ نگاری کے لیے بھی تخلیقی شعور لازمی ہے۔ خاکہ محض خاکہ ہوتاہے، خواہ مزاحیہ ہو یا سنجیدہ۔ اپنی آسانی کے لیے ہم اس کی تعریف کا خاکہ بنانے کی کوششیں بھی کرتے ہیں، لیکن کسی بھی ادبی صنف کی تعریف کی طرح اس کی بھی کوئی حتمی تعریف ممکن نہیں۔ ‘‘ (کہ جن کو یاد نہ کرنا بھی یاد کرنا ہے، ص 12)
عتیق اللہ صاحب نے روایتی تکنیک سے گریز کرتے ہوئے سوانحی معلومات سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کی ہے۔ اور زیادہ تر شخصیت کے ساتھ ادبی پہلوؤں کو نمایاں کیا ہے۔ ان خاکوں میں شوخیاں بھی ہیں اور شاید کچھ شرارتیں بھی۔دوستوں سے چہل بازی بھی ہے، طنز و مزاح کی جھلکیاں بھی ہیں، صرف خوبیاں نہیں کچھ خامیاں بھی ہیں اور کچھ خاکے تو ایسے ہیں جن میں گھریلو الجھنوں کو بھی بہت ہی سلیقے سے بیان کیا ہے۔
اس کتاب کا پہلا خاکہ خواجہ احمد فاروقی پر ہے۔ ان کی ذات و صفات کو دیکھیے، انھوں نے کتنے خوبصورت طریقے سے بیان کیا ہے:
’’…کچھ دیر ہی میں ان نوجوانوں میں کھلبلی مچ گئی کہ خواجہ صاحب تشریف لارہے ہیں۔ سب تعظیماً کھڑے ہوگئے۔ خواجہ صاحب پرنسپل صاحب کے ساتھ وارد ہوئے تھے اور دو قدم ان سے آگے چل رہے تھے۔ ان کی چال سے اردو استاد کے بجائے آئی اے ایس آفیسر کا تاثر ابھر رہا تھا۔ چہرے پر ایک خفیف سی طنز آمیز مسکراہٹ چسپاں تھی۔ سن زیادہ رہے تھے بولنے میں تامل برت رہے تھے۔ ان کی آنکھیں نسبتاً غزال نما تھیں اور ان میں ایک عجیب سی چمک محسوس کررہا تھا۔ خواجہ صاحب کی نظریں سامنے اپنی منزلِ مقصود پر تھیں۔ ‘‘(ایضاً، ص 14)
شمس الرحمن فاروقی مرحوم نے اردو ادب میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، ان کا اعتراف پوری اردو دنیا کو ہے۔ وہ اعلیٰ پایے کے ناقد اور محقق تو تھے ہی، ایک تخلیق کار کی حیثیت سے بھی انھوں نے اپنا لوہا منوایا۔ ’کئی چاند تھے سرآسماں‘ جیسا مشہور ناول انہی کی تخلیق ہے۔ شاعر اور مترجم کی حیثیت سے بھی انھوں نے اپنی منفرد شناخت بنائی۔ ماہنامہ ’شب خون‘ کا ذکر یوں بھی ضروری ہے کہ اس رسالے کے ذریعیشمس الرحمن فاروقی نے ’جدیدیت‘ کی بنیاد ڈالی۔ یہ رسالہ تواتر کے ساتھ 40برسوں تک شائع ہوتا رہا۔ فاروقی صاحب کی بیش بہا خدمات کے اعتراف میں پروفیسر عتیق اللہ نے انھیں ’استاد ہمہ وقت‘ جیسے لقب سے ملقب کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’ ایک خودساختہ مشن کے تحت تنقید کے ذریعے ذہن سازی کو انھوں نے اپنا مقصود بنایا اور اردو ادب کے قاری کو ادب فہمی کے ہزار طریقے بتاتے رہے۔ انھوں نے ہر سطح پر ایک استاد کا کردار ادا کیا۔ جو تنبیہ کرتا ہے، ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہے اور جابجا چمکارتا بھی ہے۔ فاروقی آخری لمحے تک اپنے مشن پر قائم رہے۔ ہمیشہ اوور لوڈیڈ رہے جب عارضہ قلب نے آدبوچا تو بھی اپنے مشن سے تساہل نہیںبرتا۔ ان کی زندگی میں ماندگی کا وقفہ کبھی نہیں آیا۔ انھوں نے درحقیقت اپنے سرتاپا وجود کو ادب کے لیے نہ صرف وقف کردیا تھا بلکہ یہ ثابت کردکھایا کہ ایک زندگی میںکئی زندگیوں کے برابر کتنا سیکھا اور سکھایا جاسکتا ہے۔ فاروقی کسی ایک دورکے معلم نہیں تھے بلکہ میں انھیں ’استاد ہمہ وقت‘ کہا کرتا تھا اور یہی لقب ان کے شایانِ شان بھی ہے۔ ‘‘(ایضاً، ص 31)
جوگندرپال ان کے ہمعصر بھی تھے اور ان سے دوستانہ مراسم بھی تھے۔ ان کے ساتھ جو محفلیں سجتی تھیں ان کا نقشہ انھوں نے بہت خوبصورت انداز میں کھینچا ہے:
’’پال اورنگ آباد کے ایک معروف مقامی کالج میں پرنسپل تھے۔ نیروبی (افریقہ) کی پینشن مٹھیاں بھر بھر کے مل رہی تھیں۔ پال کی تقدیر پر رشک آتا، مگر ان کی خالی جیب دیکھ کر بڑی کوفت بھی ہوتی۔ گاڑی گھنی ذمہ داریوں میں اٹا ہوا پال اکثر سرکس کے بوڑھے شیر کی طرح لنج پنج نظر آتا۔ پال کہتے’’اب جب کہ ہر طرح سے فارغ البال ہوں، حج کرنے کو جی چاہتا ہے۔ مگر عتیق کیا تمہارے مسلمان اجازت دیں گے۔‘‘ پال کے اس سوال اور خیال پر مجھے کوئی حیرت نہیں ہوئی۔ ’’اجازت تو بعد کی بات ہے پال صاحب پہلے یہ دیکھیے آپ کی جیب بھی اجازت دینے کے لیے تیار ہے کہ نہیں۔ آجکل حج کے لیے لاکھوں سے کم صرفہ نہیں آتا۔‘‘
’’باسٹرڈ، تم مجھے جانے کیا سمجھتے ہو۔ارے بھائی خدا کی قسم میں قلندر طبیعت رکھتا ہوں۔میں نے جو کچھ کیا ہے انہی بال بچوں کے مستقبل کے لیے ورنہ آگے چل کر یہی بدمعاش مجھے گالیاں دیں گے …‘‘ (ایضاً، ص22-23)
قمر رئیس پر تو اتنے مزاحیہ انداز میں خاکہ لکھا ہے کہ رشید احمد صدیقی کے ایک جملے کی وجہ سے قمر رئیس صاحب کی شخصیت کا ایک بہت ہی خوبصورت پہلو سامنے آجاتا ہے۔ جب انھوں نے اپنی پی ایچ ڈی کا پہلا باب تیار کرکے رشید احمد صدیقی کوپیش کیا توعتیق اللہ صاحب نے اس کی بہت ہی خوبصورت منظر کشی کی ہے:
’’انھوں (قمر صاحب)نے بڑے اطمینان و اعتماد کے ساتھ وہ باب اپنے استاد کو پیش کیا اور داد طلب سماعت کھلی رکھی۔ انتظار کرتے رہے مگر استادِ محترم کی زبانِ خاموش جب کچھ دیر تک نہیں کھلی اور ان کی نگاہیں پہلے ہی صفحے پر جمی رہیں تو قمر صاحب کو کچھ شبہ ہوا اور انھوں نے بے چینی کے ساتھ پوچھا ڈاکٹر صاحب کیا بہت خامیاں ہیں؟‘‘ یہ تو بعد کا مرحلہ ہے۔ پہلے آپ یہ بتائیں کہ آپ پاؤں سے کیسے لکھ لیتے ہیں۔‘‘ یہ سن کر قمر صاحب کو بھی ہنسی آگئی۔ رشید صاحب کے چہرے پر مسکراہٹ کی خوشبو، دیکھ کر قمر صاحب بھی شرمندگی کے جھٹکے سے بال بال بچ گئے۔ انھوں نے بتایا کہ اس وقت سے آج تک میں خوش خطی کی مشق کرتا رہتا ہوںلیکن پیروں سے لکھنے کی عادت ایک بیماری بن گئی ہے۔‘‘(ایضاً، ص 55)
شیخ عصمت جاوید بھی ان کے خاص دوستوں میں تھے۔ عمر کے آخری پڑاؤ میں وہ جس درد و کرب سے گزرے اس درد کو عتیق اللہ صاحب نے جو زبان دی ہے اسے پڑھ کر سنگ دل لوگوں کی آنکھیں بھی نم ہوجائیں گی۔ وہ لکھتے ہیں:
’’بڑی شفقت سے پوچھتے عتیق اللہ آپ کا کیا خیال ہے۔ صادق کیسے ہیں، آپ لوگ بہت یاد آتے رہتے ہیں۔ ابھی یہ باتیں چل ہی رہی تھیں کہ دروازے کے باہر اوپر کی سیڑھیوں سے ان کا بیٹا فیصل اپنی گردن موڑے ہوئے تیزی کے ساتھ نکل گیا۔ بھابی نے کہا عتیق صاحب دیکھیں یہی وہ بچہ ہے نا جسے اپنا دودھ ہی نہیں خون پلا پلا کر بڑا کیا تھا۔ ان کے لیے ہم نے اپنی ہڈیوں کو سکھا دیا تھا، سارا عیش و آرام تگ دیا تھا، راتوں کو رات نہیں سمجھا اور دن کو دن نہیں۔ یہی بچہ بالغ ہوکر، تعلیم پاکر، معزز روزگار پاکر، شادی کے بعد اپنا رخ اتنا بدل لے گا یہ وہم و گمان بھی نہیں تھا۔ شیخ صاحب نے پھر ایک فارسی کی رباعی سنائی کہ تمھارا صرف حال ہے نہ کوئی ماضی تھا اور نہ کوئی مستقبل‘‘۔ (ایضاً، ص 122)
درد و غم کی اسی کیفیت کا اظہار آمنہ بائی المعروف اطہر دانی کے خاکے میں ملتا ہے۔ انھوں نے اداسی کے اس رنگ کو دیکھیے کس حزنیہ آہنگ میں پیش کیا ہے:
’’آمنہ بائی کیا گئیں ایسا لگا گھر ہی کا کوئی فرد رخصت ہوگیا۔ ہماری اماں کی وہ بہت لاڈلی تھیں۔ آج بھی جب ان کا خیال آتا ہے تو اماں کی یاد بھی تازہ ہوجاتی ہے۔ اس طرح کے رشتوں کی مہک دائمی ہوتی ہے۔ اس مہک میں اداسی کا بھی کچھ رنگ شامل ہوا کرتا ہے، اسے میں کبھی گنوانا نہیں چاہتا، یہ بڑا مقدس ہے۔‘‘(ایضاً، ص 198)
عتیق اللہ صاحب کے خاکے اسلوب اور زبان و بیان کے اعتبار سے بھی عمدہ ہیں۔ خاکوں میں اس قدر تسلسل اور روانی ہے کہ قاری کسی خاکہ کو شروع کرنے کے بعد ختم کرکے ہی دم لے گامیری ذاتی رائے ہے کہ عتیق اللہ صاحب کے یہ خاکے قارئین کو چونکانے کے ساتھ مہمیز بھی کریں گے۔
اس کتاب کے مرتب فاروق مضطر صاحب جو ایک بہترین شاعر اور ادیب ہیں ۔ ’دبستان ہمالہ‘ اور’آبشار‘ جیسے رسالے کی ادارت کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ انھوں نے ’عرض مرتب‘ کے تحت لکھا ہے کہ:
’’عتیق اللہ نے محض شخصیت کو پیش نظر رکھا ہے۔ وہ شخصیت کے ظاہری پہلوؤں کے ساتھ باطنی پہلوؤں کو بھی کرید کرید کر سامنے لاتے ہیں۔ ان میں وہ احباب بھی ہیں جن کے ساتھ ان کا رویہ لبرل ہے، کہیں مزاح کی چٹکی بھی لی ہے اور کہیں ان کے ادبی کارناموں کا مختصر جائزہ بھی لیا ہے۔‘‘ (ایضاً، ص 6)
فاروق مضطر صاحب شکریہ اور مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انھوں نے عتیق اللہ صاحب کے ان خاکوں کو کتابی صورت میں شائع کرکے انھیں ضائع ہونے سے بچا لیا اور قارئین کو ایک قیمتی سرمایے سے روبرو کرایا۔
198صفحات پر مشتمل اس کتاب کی قیمت 300 روپے ہے۔ سرورق نہایت دیدہ زیب ہے۔ دبستانِ ہمالہ، راجوری (جموں اینڈ کشمیر) کے زیراہتمام اس کتاب کی اشاعت ہوئی ہے۔ مجھے امید ہے کہ خاکوں سے شغف رکھنے والے اس کتاب کا ضرور مطالعہ کریں گے۔
محشر فیض آبادی سے پہلی ملاقات خوب یاد ہے ۔
بات ۱۹۸۴ء کی ہے ،جب میں نے سرفرازآرزو کے روزنامے ’ ہندوستان ‘ سے اپنی صحافتی زندگی کی شروعات کی تھی ، وہاں چند روز ہی بیتے تھے کہ معروف صحافی سعید حمید مجھے ہفت روزہ ’ اخبارِ عالم ‘ لے آئے جسے ’ قومی آواز ‘ کے ممبئی ایڈیشن کے مدیر ، سینئر صحافی خلیل زاہد نے ، مذکورہ اخبار بند ہونے کے بعد شروع کیا تھا ، وہیں ایک روز محشر فیض آبادی اپنے کلام کے ساتھ آئے تھے اور ہماری ملاقات ہوئی تھی ، جو بعد کے دنوں میں قریبی تعلقات میں بدل گئی ۔ قریبی تعلقات کے دو سبب تھے ، حالانکہ محشر بھائی( میں ان سےاسی طرح مخاطب ہوتا ہوں ) سے قریبی تعلقات بنانے کے لیے کسی بھی وجہ کی ضرورت نہیں ہے ، وہ ایسے بھلے آدمی ہیں کہ ایک بار کا ملنے والا بھی انہیں اپنا دیرنیہ رفیق سمجھنے لگتا ہے ، لیکن ان کے بھلے ہونے کے ساتھ ، ان کا کلام ، میرے ان سے تعلقات کے گہرے ہونے کا ایک سبب بنا ۔ چونکہ میرےبابا مرحوم چھیلا بدنام پوری طنز ومزاح کے شاعر تھے ، اس لیے محشر بھائی کا طنزیہ و مزاحیہ کلام میرے لیے کشش کا باعث بنا ، اور میں ان سے ہر ملاقات میں مزید کلام کی فرمائش کرتا رہا ۔ تعلقات کے بڑھنےکا دوسراسبب ان کا فیض آباد سے ، جو میرے اپنے ضلع سلطانپور کا پڑوسی ضلع ہے ، ہونا تھا ۔ اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے اب سلطانپور کو اس طرح سے تقسیم کر دیا ہے کہ میرا گاؤں اب امیٹھی ضلع میں آ گیا ہے ، مایاوتی کے دور میں اس کا نام چھترپتی شاہو جی مہاراج ضلع تھا ۔ فیض آباد ضلع کا نام بھی بدل گیا ہے ، یوگی نے اسے ایودھیا ضلع کر دیا ہے ۔ لیکن مجھے پورا یقین ہے کہ یوگی چاہے جو کر لیں فیض آباد کا نام محشر فیض آبادی کے نام کے ساتھ ہمیشہ زندہ رہے گا ۔ اٖسی طرح جیسے سلطانپور ہمیشہ مجروح سلطانپوری کے نام کے ساتھ امر رہے گا ۔
محشر بھائی ، اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہیں ہوگا ، مشاعرے لوٹ لیتے ہیں ، لیکن وہ مشاعروں میں کم ہی کم جاتے ہیں ۔ شاید اس کی وجہ مشاعروں کی دنیا کی سیاست ہو ! اب تو ہر جگہ سیاست نے اپنے پیر پھیلا دیے ہیں ، کوئی شعبہ زندگی کا ایسا نہیں رہ گیا ہے جو اس گندگی سے خالی ہو ۔ ویسے ان کا مشاعروں میں کم کم جانا ، ان کے لیے بھی اور ان کی شاعری کے لیے بھی ، اچھا ہی ثابت ہوا ہے کہ ان کی پوری توجہ اپنے فن پر رہی ہے ۔ وہ محکمۂ ڈاک سے ریٹائرمنٹ کے بعد ، جوگیشوری چھوڑ کر میرا روڈ میں شعر و شاعری کی محفلیں سجانے اور ساتھ ہی ساتھ اپنے کلام کو بہتر سے بہتر بنانے پر لگے ہوئےہیں ۔ اردو زبان میں طنزیہ و مزاحیہ شاعری نے ایک لمبا سفر طئے کیا ہے ، اس سفر میں اچھے شاعر بھی آئے اور کچھ کم اچھے بھی ۔ اکبر الہ آبادی سے لے کر دلاور فگار اور رضا نقوی واہی اور شاد عارفی تک شاعروں کی ایک انجمن ہے ، یہ نام کبھی بھی فراموش نہیں کیے جا سکیں گے ۔ آنکھیں بند کر کے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہم نےطنزیہ و مزاحیہ شاعری کا ایک بہترین دور دیکھا ہے ۔ لیکن آج طنز و مزاح کے نام پر گھٹیا اور سوقیانہ تک بندی کی جا رہی ہے ، ٹھٹول اور ہنسی مذاق نے ان حدود کو پار کر لیا ہے جنہیں اخلاق کہا جاتا ہے ۔ ایسے میں جب ہم محشر بھائی کے کلام پر نظر ڈالتے ہیں تو سکون اور اطمینان کی سانس لیتے ہیں کہ کوئی تو ہے جس نے اپنے طنزیہ و مزاحیہ کلام کو گھٹیا اور پھوہڑ تُک بندی سے بچائے رکھا ہے ۔ محشر بھائی کا کلام ، اپنے کاٹ دار طنز اور اپنے گدگداتے مزاح کے لیے ، باذوق ادب نوازوں کےلیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے ۔ وہ لفظوں کو برتنے کا اور لفظوں کے استعمال سے مزاح پیدا کرنے کا ہنر خوب جانتے ہیں ۔ انہیں یہ بھی پتہ ہے کہ لفظ کب اور کیسے کاٹ دار طنز میں تبدیل ہوتے یا ہو سکتے ہیں ۔ اگر یہ کہا جائے تو درست ہوگا کہ وہ لفظوں کے استعمال پر پوری طرح سے قادر ہیں ۔ چند مثالیں ملاحظہ کریں:
میں نے بیگم سے کہا دیکھو ذرا کیا بات ہے
پیسے والا سیر کو نکلا تو کتّا ساتھ ہے
دیکھ کر بیگم یہ بولی اس کا مجھ کو غم نہیں
آپ کے ہوتے ہوئے کتّے کی کیا اوقات ہے
گھر سے یوں بھاگ کے آئے سرِ بازار گرے
دیکھ کے دوستو مہنگائی کی رفتار گرے
دوڑے ہر بار مگر دیکھئے ہر بار گرے
دام چیزوں کے نہ گر پائےخریدار گرے
چند متفرق اشعار ملاحظہ کریں؎
وہ میرے گھر پہ کئی مہمان چھوڑ گیا
میری تباہی کا اچھا پلان چھوڑ گیا
کہاں کہاں پڑے جوتے کہاں کہاں نہیں
نشے میں دھت تھا مجھے اتنا دھیان تھوڑی ہے
روٹھ کر مجھ سے وہ کچھ اس طرح اپنے گھر چلے
جس طرح کوئی جھونپڑپٹی پہ بلڈوزر چلے
محشر بھائی نے بہت سے شعراء کے مصرعوں کا اپنی شاعری میں خوبصورت استعمال بھی کیا ہے ، راحت اندوری کے ایک مشہور مصرعے کا استعمال ملاحظہ کریں ؎
وہ رہ کے گھر میں کبھی لون لے سکتا نہیں
کرایے دار ہے ذاتی مکان تھوڑی ہے
ایک شعر اور دیکھیں ؎
مجھے دیکھتے ہی دروغہ یہ بولا
حضور آتےآتے بڑی دیر کر دی
محشر بھائی نے نظمیں خوب کہی ہیں ، ان کی نظموں کے عنوان بھی خوب ہیں ،’ پانچویں شادی ‘، ’ ساس مر گئی ‘، ’ دیدارِ چٹنی ‘ وغیرہ وغیرہ ۔ اب تک ان کے تین مجموعے ،’ پچنول ‘ ، ’ ہنسو گے تو جرمانہ ‘ اور ’ نوک جھونک ‘ شائع ہوکر عوام و خواص سے دادِ تحسین وصول کر چکے ہیں ۔ انہیں مہاراشٹرا اردو ساہتیہ اکاڈمی کا انعام بھی مل چکا ہے ۔ اب یہ ایک نیا مجموعہ ’ ہنسی کا انجکشن ‘ منظرِ عام پر آیا ہے ۔ ہم سب محشر بھائی کے چاہنے والوں کی دعا ہے کہ اللہ اس نئے مجموعے کو بھی پہلے کے مجموعوں جیسا ہی مقبول کرے ،آمین ۔
( یہ مضمون محشر بھائی کی کتاب میں شامل ہے ۔ کتاب ابھی کچھ پہلے ہی شائع ہوئی ہے ، اس میں مرحوم ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی کے محشر بھائی کی شاعری پر منظوم تاثرات شامل ہیں ، اور کینیڈا کے صالح اچھّا م، بھوپال کے ڈاکٹر طارق منظور ، علی گڑھ کے ڈاکٹر رضی امروہی ، کراچی کی زیب النساء زیبیؔ ، جرمنی کے شفیق مراد ، دہلی کے احمد علوی ، کینیڈا کے عبدالباسط طاہرؔ اور امریکہ کے تنویر پھولؔ کے محشر بھائی کی شاعری پر مضامین شامل ہیں ۔ کتاب کا انتساب انہوں نے اپنی مرحومہ بیوی حجن رضیہ بانو کے نام کیا ہے ۔ کتاب 160 صفحات پر مشتمل ہے ، قیمت 300 روپے ہے ۔ کتاب موبائل نمبر 8097407554 پر رابطہ کر کے حاصل کی جا سکتی ہے ۔)
یوں تو جنوبی ایشیا کے انتہائی بدقسمت خطہ کشمیر پر لاتعداد کتابیں تحریر کی جا چکی ہیں، تاہم امریکی ریاست پنسلوینیہ کی یونیورسٹی میں پروفیسر حفصہ کنجوال کی حال ہی میں شائع کتاب’کولونائزنگ کشمیر’ تحقیق کے حوالے سے ایک اہم اضافہ ہے۔ (بھارت میں اس کو مختلف ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے)
یہ کتاب مجموعی طور پر 1953کے بعد کے واقعات کا احاطہ کرتی ہے، جب جموں وکشمیر کے پہلے وزیر اعظم (ان دنوں وزیر اعلیٰ کے بجائے وزیر اعظم کی پوسٹ ہوتی تھی) شیخ محمد عبداللہ کو برطرف اور گرفتار کرکے بخشی غلام محمد کو مسند پر بٹھایا گیا تھا۔
اگلے دس سال تک بخشی اقتدار میں رہے اور ان کا واحد مقصد کشمیریوں کو چانکیہ کے سام، دام، ڈنڈ اور بھید کے ذریعے رام کرنا یا سبق سکھانا تھا، جس سے وہ رائے شماری یا جمہوری حقوق کے مطالبہ سے تائب ہوکر بھارتی یونین میں ضم ہونے کے لیے تیار ہوجائیں یا کم از کم اس کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کے قابل نہ رہ جائیں۔
اس کتاب کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ 5اگست 2019کے بعد آئے دن جو اقدامات کیے جا رہے ہیں، کم وبیش اسی طرح کے اقدامات، جن میں مقامی آبادی کو محصور کرنے، میڈیا پر قدغن اورمفت یا کم قیمت پر چاول فراہم کروانا وغیرہ شامل رہے ہیں، بخشی دور میں بھی کشمیر میں آزمائے گئے ہیں۔
کتاب پڑھ کر لگتا ہے کہ جیسے مصنف نے موجودہ دور کی ہی عکاسی کی ہے۔
تین سو چوراسی صفحات پر مشتمل کتاب میں بتایا گیا ہے کہ جموں و کشمیر کے بھارت کے ساتھ الحاق میں کلیدی کردار اپناکر جب شیخ محمد عبداللہ کو وزیر اعظم بنایا گیا، تو 1949میں ہی وہ ہندوستانی حکمرانوں کے رویے سے دلبرداشتہ ہو چکے تھے۔
ان کو لگتا تھا کہ نہرو کے سیکولرازم کے بعد کشمیریوں اور مسلمانوں کا جینا ہندوستان میں دوبھر ہونے والا ہے۔ دوسری طرف جواہر لال نہرو ان کو بار بار تاکید کررہے تھے کہ آئین ساز اسمبلی کے ذریعے مہاراجہ کے دستخط شدہ الحاق کی توثیق کروائیں، جس کو شیخ ٹال رہے تھے۔ 1953 تک ہندوستانی لیڈروں بشمول شیخ کے انتہائی قریبی دوست نہرو کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور 9 اگست کو رات کے اندھیرے میں جب شیخ گلمرگ سیر و تفریح کرنے کے لیے گئے تھے، ان کو معزول اور گرفتار کرکے زمام اقتدار بخشی غلام محمد کے سپرد کی گئی۔ جس کو ابھی تک کشمیری بکاو اور غدار کے نام سے یاد کرتے ہیں، گو کہ تعمیر و ترقی کے حوالے سے ان کا دور نہایت ہی امتیازی رہا ہے۔
کنجوال کا کہنا ہے کہ ستم ظریفی ہے کہ سری نگر کی حضرت بل درگاہ کے قریب واقع نسیم باغ کے قبرستان میں جہاں شیخ عبداللہ کی قبر ہے،کی رات دن، پولیس کے دستے حفاظت کرتے ہیں۔کشمیریوں کے حق خودارادیت کے چیمپیئن،قد آورلیڈر ہونے اور جیل جانے کے باوجود، 1990 کی دہائی میں جب مسلح عوامی بغاوت شروع ہوئی تو عبداللہ کی قبر کی حفاظت ایک ایشو بن گئی۔
کشمیر کی نئی نسل نے ان کو نئی دہلی کے ساتھ 1975 کے معاہدے کے لیے معاف نہیں کیا، جبکہ ان کے دور اقتدار میں ہی شاید پہلی بار کشمیریوں کو بااختیار ہونے اور اپنے ووٹ کی قدر کا احساس ہوا۔ اس کے برعکس سرینگر کے مرکز میں واقع میر سید علی ہمدانی یا شاہ ہمدان کی خانقاہ کے احاطہ سے ذرا دور بخشی غلام محمد کی قبر ہے، جس کی حفاظت کے لیے انتظامیہ کو کبھی پولیس کی مدد نہیں لینی پڑی۔ شاید کسی کو اس قبر کے بارے میں معلوم بھی نہیں ہے۔
کتاب کے مطابق 1952 میں نہرو نے شیخ کو ایک خط میں بتایا تھا کہ دستاویز الحاق کی آئین ساز اسمبلی میں توثیق کرنا ضروری ہوگئی ہے، کیونکہ بیرونی طاقتیں، جمو ں و کشمیر میں استصواب کروانے پر دباؤ ڈال رہی ہیں اور اس دباؤ کا مقابلہ کرنے کے لیے کسی قانونی اور عوامی تائید والے دستاویز کی ضرورت ہے۔ ان کی تجویز تھی کہ چونکہ آئین ساز اسمبلی عوامی ووٹ سے منتخب ہوئی ہے اس لیے عوام کے منتخبہ نمائندوں کے ذریعے کی گئی توثیق کو ہندوستان رائے شماری کے متبادل کے بطور پیش کرے گی۔
مگر جب شیخ نے ان کو یاد دلایا کہ رائے شماری کے حوالے سے جو وعدے مختلف فورمز پر کیے گئے ہیں، تو ان کا کیا ہوگا؟، تو نہرو نے بتایا کہ ‘وادی کشمیر اور اس کے آس پاس کے علاقوں کے لوگ، اگرچہ ذہین اور ہنر مند ہیں، وہ کسی قسم کے تشدد اور غیض و غضب سے دور رہنے والے ہیں۔’ انہوں نے مزید کہا،’وہ (کشمیری) نرم مزاج کے مالک اور آسان زندگی گزارنے کے عادی ہیں۔عام لوگ بنیادی طور پر چند چیزوں میں ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔ایک ایماندار انتظامیہ، سستی اور مناسب خوراک۔’ چونکہ یہ قوم صدیوں سے قحط اور کم خوراک کی شکار رہی تھی، نہرو کا کہنا تھا کہ،’اگر وہ یہ حاصل کرتے ہیں، تو وہ کم و بیش مطمئن رہیں گے اور حق خود ارادیت اور رائے شماری کو بھول جائیں گے۔’ نہرو کی اسی منطق کو اگلے دس سال تک بخشی غلام محمد نے اپناکر اپنی حکومت کی اساس بنادیا۔
بخشی غلام محمد 20 جولائی 1907 کو سری نگر کے مرکز میں صفاکدل نامی محلے میں پیدا ہوئے۔ اپنے چچا کی مالی مدد سے، بخشی نے مقامی عیسائی مشنری اسکولوں میں تعلیم توحاصل کی،مگر آٹھویں جماعت مکمل کرنے کے بعد اسکول چھوڑ دیا۔
اپنی تحقیق کے دوران کنجوال نے کئی ایسی کہانیاں ریکارڈ کی ہیں، جن میں بتایا گیا کہ بخشی سڑک پر گاڑی کھڑ ی کرکے لوگوں کو بلا کر ان کی استعداد معلوم کرتے تھے، جونہی معلوم ہوتا تھا کہ مذکورہ شخص کسی طرح پڑھا لکھا ہے، تو وہیں پر تقرری کا پروانہ تھما دیتے تھے۔
تقرری کے پروانے لکھنے کے لیے وہ کاغذ ڈھونڈنے کا تکلف بھی نہیں کرتے تھے۔ کبھی ماچس کی ڈبیہ پر اور تو کبھی سگریٹ پیکٹ کے کاغذ کو پھاڑ کر اسی پر متعلقہ محکمہ کو اس شخص کی تقرری کا حکم نامہ صادر کردیتے تھے۔ انہوں نے ہفتہ وار اپنے دفتر میں عام لوگوں سے ملاقات کا اہتمام بھی کیا ہوا تھااور موقع پر ہی انتظامیہ کو حکم دےکر اس کو فالو اپ بھی کرتے تھے، جب تک سائل کا مسئلہ حل نہیں ہوتا تھا۔
اپنے دور میں شیخ عبداللہ نے مرکزی حکومت سے فنڈز لینے سے احتراز کیا تھا۔ ان کے دور میں کشمیر جانے کے لیے پرمٹ لینا پڑتا تھا۔ اسی طرح کسٹم کا سسٹم قائم تھا۔ جس سے ریاست کو آمدن ہو جاتی تھی۔
وہ کشمیریوں کو باور کرارہے تھے کہ وہ چاول کھانا ترک کرکے آلو کو بطور غذا اپنائیں، کیونکہ چاول درآمد کرنے پڑتے تھے۔ اپنے جدید ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھنے اور نئے کشمیر کے منشور کے مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے بخشی نے جب نئی دہلی سے مالی امداد طلب کی۔تو ان کو بتایا گیا کہ الحاق کی توثیق کے بعد ہی وہ مالی امداد فراہم کرسکتے ہیں۔
رائے شماری کے کسی بھی امکان کو روکنے کے لیے، فروری 1954 میں، بخشی نے دستور ساز اسمبلی سے ریاست کے ہندوستان کے ساتھ الحاق کی توثیق کرنے کی قرارداد پیش کی، جس کو منظور کیا گیا اور معاشی طور پر کشمیر کو ہندوستان کے ساتھ ضم کیا گیا۔
بخشی کو احساس تھا کہ کشمیر ی عوام کو قابو میں رکھنے کا واحد طریقہ یہ تھا کہ گرفتاریوں اور سخت نگرانی وغیرہ کے ساتھ ساتھ خطے کو معاشی خوشحالی فراہم کرنے کے علاوہ عوام کو مصروف بھی رکھا جائے ، جس کے لیے ہر سال جشن کشمیر منانے کی روایت قائم ہوئی اور تقریباً ہر نئے دن بالی ووڈ کے اداکاروں کو کشمیر کے دورے کرائے جاتے۔
خوراک کی سبسڈی بخشی کا ایک بڑا کارنامہ تھا، جس کی وجہ سے اس کو اب بھی یاد کیا جاتا ہے۔ کشمیر کے ایک معمر صحافی پران ناتھ جلالی نے ایک بار راقم کو بتایا کہ وہ شیخ محمد عبداللہ سے جیل میں ملاقات کے لیے گئے تھے، تو شیخ نے شکوہ کیا کہ،کشمیریوں کا پیٹ بخشی نے چاولوں سے بھر دیا ہے۔ وہ مجھے بھول گئے ہیں اور مجھے جیل میں سڑ نے کیلئے چھوڑدیاہے۔’
آئین ساز اسمبلی سے الحاق کی توثیق کرواکے بخشی کا کام دنیا کو باور کروانا تھا کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے اور عوا م نے تبدیلی کودل و دماغ سے تسلیم کردیاہے۔مصنف کے مطابق کشمیر کے تناظر میں نارملائزیشن کا مطلب یہ تھا کہ ریاست کے لوگوں نے ہندوستان کے ساتھ الحاق کو قبول کر لیا ہے اور ریاست کا سیاسی اور اقتصادی فائدہ ہندوستانی یونین میں ضم ہونے میں ہی ہے۔ اس کے علاوہ تعلیم کے شعبہ میں اسکول و کالج کی ٹیکسٹ کی کتابو ں میں سیکولرازم پر ازحد زور اور کشمیر اور ہندوستان کے درمیان زمانہ قدیم رشتوں کا بار بار ذکر کرنا اور کشمیر کو ہندو دیوی دیوتاوں کا مسکن قرار دینا اسی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ تھا۔
بخشی دور کشمیر میں بدعنوانی کے لیے بھی بدنا م ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اگر کوئی بخشی دور میں دولت حاصل نہیں کرسکا، وہ کبھی نہیں کرسکتا ہے۔بتایا جاتا ہے کہ کسی ٹھیکہ دار کو ایگزیکٹو انجینیر نے بطور رشوت کسی مخصوص قالین کی فرمائش کی۔ قالین توٹھیکہ دار نے فراہم کرادیا، مگر اس نے تہیہ کیا تھا کہ اس انجینیر کی شکایت بخشی سے ضرور کرےگا۔ جب اپائنٹ منٹ لےکر وہ مقررہ وقت پر وزیر اعظم کی رہائش گاہ پر پہنچا تو دیکھا کہ وہی قالین وہاں بچھا ہو ا تھا۔
تعمیر وترقی اور خوراک کی سبسڈی کے علاوہ بخشی نے اپنی ایک فورس پیس بریگیڈز کے نام سے بناکر ایک وسیع انٹلی جنس نیٹ ورک ترتیب دیا تھا۔ ان کا کام مخالفین کی سن گن لینا، ان پر حملہ یا ہراساں کرنا ہوتا تھا۔
اختلاف رائے کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ پیس برگیڈمیں گلی محلے کے غنڈو ں کو بھرتی کردیا گیا تھا۔ وہ مخالفین کے منہ میں گرم آلو ڈالنے، ان کے سینے پر بھاری پتھر رکھنے اور گرم لوہے سے داغدار کرنے کے لیے مشہور تھے۔
ان کو مقامی زبان میں خفتن فقیر یا رات کے بھکاری کے نام سے جانا جاتا تھا، کیونکہ عشاء کی نماز کے بعد وہ گشت کرکے معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے، کہ کوئی ریڈیو پاکستان تو نہیں سن رہا ہے۔
ایسے شخص کا ریڈیو ضبط ہوتا تھا اور اس کو گرفتار کیا جاتا تھا یا مارپیٹ کر چھوڑا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ علیحدہ سرکاری ملیشیا بھی بنائی گئی تھی، جن کا کام شیخ عبداللہ کے حامیوں سے متعلق خفیہ معلومات حاصل کرنا تھا۔ یہ خاص محلوں کو کنٹرول کرتے تھے، اور ان کو کشمیری میں گوگہ کہتے تھے۔
ان دونوں ملیشاز کی بربریت کی داستانیں جب نئی دہلی پہنچی، تو اس وقت کے وزیر داخلہ، گووند بلبھ پنت نے بخشی سے ان کی سرگرمیوں کے بارے میں استفسار کیا۔ میر قاسم، جو کشمیر کے وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں اور بخشی حکومت میں وزیر تھے کے مطابق،بخشی نے پنت کو بہلانے کی کوشش کرتے ہوئے بتایا کہ یہ دونوں گروپ غیر مسلح ہیں، تو کیسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے مرتکب ہو سکتے ہیں؟ ہندوستانی وزیر داخلہ نے بتایا کہ سرکاری سرپرستی میں پلنے والا ایک غنڈہ، ہزاروں لوگوں کی زندگیان اجیرن بنا سکتا ہے۔مگر کنجوال کے مطابق اس طرح کے تحفظات کے باوجود ہندوستانی حکومت نے بخشی کو کھلی چھوٹ دے رکھی تھی اور کبھی ان گروپوں پر لگام نہیں لگائی۔
مزید مصنف کنجوال کے مطابق نہرو کشمیر کو ایک خوبصورت عورت کے ساتھ تشبہہ دیتے تھے، جو ‘امیدوں اور خواہشات’ کو بھڑکاتی ہے اور اس کے کئی عاشق ہیں۔ ان کے مطابق کشمیر کی یہ جنسی تصویر کشی، ہندوستان میں اب زیادہ ہی زور و شور کے ساتھ کی جا رہی ہے۔ 5 اگست 2019کے اقدامات بعد تو کئی لیڈروں نے بیانات داغے کہ اب خوبصورت کشمیری لڑکیوں کے ساتھ شادی کرنا آسان ہوگیا۔
کشمیر کے تصور کو ایک نسائی جنت کے طور پرابھارا جاتا ہے، جس کو دریافت کرنا اور جس کے اندر گھسنا ضروری ہے۔ جنسی زبان کا استعمال کرکے کشمیرکے پہاڑوں اور مناظر کو نسوانی بنا دیا گیا ہے۔ مصنف کا استدلال ہے، خواتین کے اجسام کے ساتھ کشمیر کے منظر نامہ کا موازنہ کرنا اور پھر ہندوستانی فوج کی مردانگی بیان کرنا، جو ان مناظر اور وادیوں کو پاوں تلے روندتے رہتے ہیں، ایک طرح کے تعصب اور غیض و غضب کی نشاندہی کرتا ہے۔
یہ کتاب ان واقعات اور پالیسیوں کا ایک جامع تجزیہ فراہم کرتی ہے جو اس نازک دور میں کشمیر میں رونما ہوئے، ۔کتاب کا مرکزی موضوع سیاست ہے اور اس کو کس طرح کشمیری باشندوں کے روزمرہ کے معمولات ، بشمول روزگار، خوراک، تعلیم اور بنیادی خدمات سے متعلق مسائل کے ساتھ نتھی کردیا گیا ہے۔
یہ طے کردیا گیا ہے کہ اگر کوئی کشمیری روزگار یا زندگی کے مسائل کے لیے جدو جہد کرتا ہے یا اس کا طالب ہوتا ہے، تو اس کو حق خود ارادیت سے دستبرداری یا ہتھیار ڈالنے سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ جس سے ایک پیچیدہ اور اکثر متضاد منظر نامہ پیدا ہوجاتا ہے۔ کنجوال نے ان طریقوں کا بھی جائزہ لیا ہے جن میں بخشی دور میں کشمیر میں ہندوستان کے کنٹرول کومضبوط کرنے کے لیے ‘سیکولر’ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ اسی کے ساتھ مسلم تاریخ کو مٹانے اور ‘اچھے’ مسلم اور ‘برے’ مسلم کے فرق کو واضح کیا گیا۔
پروفیسر حفصہ کنجوال نے یقیناً ایک چونکا دینے والی تحقیق دنیا کے سامنے پیش کی ہے۔
یہ کتاب نوآبادیاتی اور مابعد نوآبادیاتی قوم کی تشکیل کے روایتی دہرے معیار کو چیلنج کرتی ہے۔ اس کتاب کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت بھی ہندوستانی حکومت کشمیر میں پرانے آزمائے ہوئے طریقوں کو ہی آزما رہی ہے۔ یہ سبھی اقدامات بخشی دور کی ہی طرح تاریخ کے اوراق میں گم ہو جائیں گے۔
بخشی کے دس سال اقتدار کے بعد 1963میں حضرت بل میں موئے مقدس کی گم شدگی کو لےکر جب کشمیر ابل پڑا، تو بخشی اور اس کے حواریوں کو کہیں جائے پناہ بھی نہیں مل پا رہی تھی۔ نہرو کو سب سے زیادہ حیرانی اس بات پر تھی کہ دس سال تک جس نسل کو سیکولرازم اور کشمیر کے ہندوستان کے ساتھ قدیمی رشتوں کا پاٹھ پڑھایا گیا اور جس کی ذہن سازی کی گئی تھی، وہی اس ایجی ٹیشن میں پیش پیش تھی۔
جن افراد نے بخشی کو شیخ عبداللہ کے متبادل کے بطور اقتدار میں بٹھایا تھا، انہوں نے ہی اس کے خلاف بدعنوانی اور دیگر کئی معاملوں میں کیس درج کرکے اس کو جیل میں پہنچا دیا۔ 1972میں ایک تنہا اور غیر مقبول شخص کے روپ میں اس کا انتقال ہوگیا۔
یہ موجودہ حکمرانوں کے لیے ایک بھی سبق اور تازیانہ ہے، جو اختراعی اقدامات کے بجائے جز وقتی اقدامات کا سہارا لے کر ایک پریشر کوکر جیسی صورت حال پیدا کرکے اس کو نارملائزیشن کا نام دیتے ہیں۔ یہ وقت ہے کہ ماضی سے سبق سیکھ کر خطے میں دیرپا اور حقیقی امن قائم کرنے کے لیے ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے نہ قبرستان کا امن نافذ کرواکے ڈگڈگی بجاکر اپنے آپ کو دھوکہ دیا جائے۔