نظم
جشنِ حماقت اک شور ہر طرف ہے نیا سال آ گیا لیکن نئے پرانے کی منطق نہیں پتہ سانسیں نئی
موبائل: 9810841086 یہ ہدایت ہے رب کی یہ قرآن ہے اپنے بندوں پہ مالک کا احسان ہے یہ اندھیروں میں
اک نجم سحرنماہوا خاموش سکتے میں ہیں خادمِ جلال الدین وہ فرض نبھارہے تھے اپنا خوب ہوئی مرگ مزاحم جلال
وہ ایک لڑکی جو ٹکرا گئی تھی راہوں میں وہ گھومتی ہے ابھی تک مری نگاہوں میں بھلی سے شکل
خواب کی سہیلیاں لڑکیاں پہیلیاں کانچ کی پیالیاں درد کی جیالیاں سرخ رنگ چوڑیاں دوستی میں گوڑھیاں تیریاں نہ میریاں
آپ کا نام عقیدت کی علامت ہے مگر آپ کا نام محبت ہی محبت ہے مگر آپ کے نام میں
تاریخ وفات : 28 مارچ 2022 ہے شفیع الرحمں کی رحلت نہایت دلفگار ان کے غم میں آج دنیائے
میں اکثر سوچتی ہوں ہمارے بعد کی نسلیں خدا جانے اداسی بے بسی کی کیسی رُت دیکھیں گی جنھیں
ہندی سے ترجمہ: ایس ایم حسینی فون نمبر 8960512979 میں ایک گہرا گڑھا کھودنا چاہتا ہوں اتنا گہرا جس میں
ترجمہ : سعدیہ ہاشمی میں پڑھوں گی میں لکھوں گی مجھے کیا کچھ پہننا ہے یہ خود میں طے کروں
وہ اکیلی تھی وہ ایک عورت تھی وہ حجاب میں تھی اس کے گرد درجنوں بھوکے بھیڑیے پاگلوں کی طرح
صفحۂ وقت پہ لکھے ہیں فسانے کیا کیا کتنی آوازوں کا مسکن ہے یہ ماضی کا دیار بھاگتے لمحوں میں
تیزگام وقت کی دسترس سے کوئی لمحہ پھسل جائے اور انگلیوں کی پوروں پرٹھہرجائے بے یقینی کے خاردار جنگل
جو فیضؔ سے شرفِ استفادہ رکھتے ہیں کچھ اہلِ درد سے نِسبت زیادہ رکھتے ہیں رُمُوزِ مُملکتِ حرف جاننے والے
وہ ایک ایسا شخص جس کے لیے بس ایک رائے سب کی تھی پیارا بُہت پیارا ہے وہ سپنے سُہانے
میں بچہ ہوں اداکاری تو کرتا ہوں ریاکاری نہیں کرتا عداوت کس کو کہتے ہیں سیاست کس کو کہتے ہیں
اے مری اردو زباں اے نازش ہندوستاں ناز کرتے ہیں حلاوت پر تری اہل جہاں تو بہار گلستاں ہے، تو
سوچیے کچھ سوچیے جمہوریت خطرے میں ہے آج ہندستاں کی ہندستانیت خطرے میں ہے دھرم اور ایمان کی باتیں تو
چائے خانہ میں ہم روز ملتے ہیں اگلے دن پھر ملنے اور جدا ہونے کے لیے چائے خانہ میں آملیٹی
9167679924 نظر کو روشنی دل کو اجالا کون دیتا ہے اندھیری رات کو جگنو سا شیدا کون دیتا
شہادت کی بدولت وہ کئی معنوں میں زندہ ہے زمیں پر سرخرو ہو کرفلک والوں میں زندہ ہے مری
لکھ سکتے ہو پڑھ سکتے ہو اونچے زینے چڑھ سکتے ہو تم چاہو تو بڑھ سکتے ہو جان ابھی
عبدِ خالق سنبھلی بھی رب کی جانب چل بسے علم و فن میں دوسروں پر تھے جو غالب چل بسے
ہزاروں راستے، گلیاں، محلے، کھڑکیاں، اسباب ہزاروں رنجشیں، الجھاؤ، رشتے، قربتیں، احباب کئی محبوب چہرے، باغ، کونجیں، تتلیاں، جگنو جھیل،
نظم مجھ سے روٹھ رہی تھی قافیہ مجھ سے دور بھاگنے لگا تھا اور شعر نے مجھ سے اپنا رابطہ
نیلم جیسی آنکھیں تیری، ریشم جیسے بال سب مٹی کا مال ہے سائیں سب مٹی کا مال سونے کا کٹ
مرے دل مرے مسافر ہوا پھر سے حکم صادر کہ وطن بدر ہوں ہم تم دیں گلی گلی صدائیں کریں
تبصروں تقریظ پر مبنی ہے یہ ایسی کتاب جس میں ہے ادبی کتب کا روح پرور احتساب ہے عیاں حقانی
بات یہ پھیل گئی ہے کہ بُرا دور ہے یہ اور یہ بات کہ گزرا ہوا دور اچھا تھا بات
شہد ہے وقت کے نقرئی جار میں ذائقے دار ہے رات کی امرِتی فصل گندم کی تیار ہے! بھوک