غزل
حسیں تو ہے ، مگر حسنِ وفاداری نہیں ہے وہ لڑکی لاکھ اچھی ہو ،مگر پیاری نہیں ہے ہے اس
گھول جا دن بھر کا حاصل اس دل بے تاب میں ڈوب جا اے ڈوبتے سورج! مِرے اعصاب میں آنکھ
مری جستجو بھی کیا تھی، میں یہی نہ ڈھونڈ پائی "نہ سراغ فہم روشن، نہ چراغ آشنائی” یہی وصل کی
خزاں کی رُت میں لمحۂ جمال کیسے آگیا یہ آج پھر سنگھار کا خیال کیسے آگیا ہنسی کو اپنی سُن
ہنستے گاتے روتے پھول جی میں ہیں کیسے کیسے پھول اور بہت کیا کرنے ہیں کافی ہیں یہ تھوڑے پھول
جاؤ! مجھے ڈراؤ نہ کارِ ملال سے یہ کام کر رہا ہوں میں بتیس سال سے پہلے تو ناخنوں سے
خوشیوں میں بھی سو رنج کے پہلو نکل آئے اتنا میں ہنسا، آنکھ سے آنسو نکل آئے گلیاں ہیں کہ
وہ مدتوں کے بعد سرِ راہ مل گیا ایسا لگا کہ جیسے کوئی زخم چھل گیا اس کے تو جیسے
دیکھ لے، آج تری بزم میں بھی تنہا ہوں میں جو گزرے ہوئے ہنگاموں کا خمیازا ہوں جانے کیا ٹھان
سخن میں صبح کو ڈھالا تو شب بھرم سے گری سیاہ صفحے پہ کچھ روشنی قلم سے گری گِرا دیے
میانِ عرصۂ موت و حیات رقص میں ہے اکیلا میں نہیں، کل کائنات رقص میں ہے ہر ایک ذرہ، ہر
شہروں کے چہرہ گر جنہیں مرنا تھا مر گئے پیڑوں کو کاٹنے کی وبا عام کر گئے اونچی مسہریوں
یاد کیا آئیں گے وہ لوگ جو آئے نہ گئے کیا پذیرائی ہو اُن کی جو بُلائے نہ گئے
راہی کو راہ دیتا ہوا آگے بڑھ گیا ہر موڑ پہ چراغ رکھا آگے بڑھ گیا دو ٹوک سچّی
کہوں کس سے رات کا ماجرا نئے منظروں پہ نگاہ تھی نہ کسی کا دامنِ چاک تھا نہ کسی کی
شام آئی تو کوئی خوش بَدَنی یاد آئی مجھے اک شخص کی وعدہ شکنی یاد آئی مجھے یاد آیا کہ
ساتھ چلنا تھا دو قدم اس کے وہ ہمارا نہ تھا نہ ہم اس کے راستہ ختم کس طرح ہوتا
ہمارا عشق سلامت ہے یعنی ہم ابھی ہیں وہی شدید اذیت ہے یعنی ہم ابھی ہیں اسی پرانی کہانی میں
ترے تن کے بہت رنگ ہیں جانِ من اور نہاں دل کے نیرنگ خانوں میں ہیں لامسہ، شامہ ، ذائقہ،
تم ہمیں ایک دن دشت میں چھوڑ کر چل دیے تھے تمھیں کیا خبر یا اخی کتنے موسم لگے
ادائے حسن نہیں سادگی کی بات کرو جو بھا رہا ہے مجھے بس اسی کی بات کرو پڑا ہے جسم
آج پھر ان کی یاد آئی ہے تحفةً اشک ساتھ لائی ہے کوئی خوبی نہیں یہ خوبی ہے بس
مریضِ عشق کا کیا ہے جیا جیا، نہ جیا ہے ایک سانس کا جھگڑا لیا، لیا، نہ لیا بدن ہی
اب نہ کیجے خواہشِ برگ وثمر کی جستجو چھوڑیے کشتی بنانے کے ہنر کی جستجو عمر رفتہ جا کسی
حوالہ وہ محبت کا ہوا ہے کہ جس نے بھی تجھے دیکھا ہوا ہے یہ کشتی کیوں کنارے پر لگی
دل نہیں ہے تو کوئی احساس بھی زندہ نہیں ہے اب ہماری ذات میں اخلاص بھی زندہ نہیں ہے
حصارِ گل میں نہایت اداس دیکھا گیا دنوں کے بعد وہ انجم شناس دیکھا گیا جو عکس ِ تازہ کے
کچھ ایسے قلندر جو کہا کچھ نہیں کرتے اپنی پہ جو آ جائیں تو کیا کچھ نہیں کرتے کچھ لوگوں
تم اصل ہو یا خواب ہو تم کون ہو تم مہر ہو مہتاب ہو تم کون ہو جو آنکھ بھی