زیرِ محراب ، نہ بالاے مکاں بولتی ہے
خامشی آکے سرِ خلوتِ جاں بولتی ہے
یہ مرا وہم ہے یا مجھ کو بلاتے ہیں وہ لوگ
کان بجتے ہیں کہ موجِ گزراں بولتی ہے
لو، سوالِ دہنِ بستہ کا آتا ہے جواب
تیر سرگوشیاں کرتے ہیں ، کماں بولتی ہے
ایک میں ہوں کہ اس آشوبِ نوا میں چپ ہوں
ورنہ دُنیا مرے زخموں کی زباں بولتی ہے
ہوُ کا عالم ہے گرفتاروں کی آبادی میں
ہم تو سنتے تھے کہ زنجیرِ گراں بولتی ہے
درد کے باب میں تمثال گری ہے خاموش
بن بھی جاتی ہے تو تصویر کہاں بولتی ہے