غزل
کتنے گنجل پڑ جاتے ہیں ایک گرہ سلجھانے میں عمر ٹھکانے لگ جاتی ہے ریت پہ پھول بنانے میں تخت
اپنی باتیں کہا نہیں کرتے ہم خموشی کو وا نہیں کرتے خود سے جو رابطہ نہیں کرتے زندگی سے
خدا! بہشت سے جانے کا بہت رنج ہوا تری زمین پہ آنے کا بہت رنج ہوا تجھے یہ رنج
نرم خوئی ہے اپنی عادت بھی اور پھر تم سے ہے محبت بھی بات دیمک زدہ صحیفوں کی جن میں
ہر کوئی گریہ بہ لب ہے ہر کوئی مشکل میں ہے محوِحیرت ہے جنوں اور آگہی مشکل میں ہے
نمکین ہے کہیں تو کہیں بے نمک نمی اُتری ہوئی ہے مجھ میں بڑی دور تک نمی ہوتا ہے ہجر
فقط چراغ نہیں اب چراغشار ملے سیاہ رُت میں کوئی صبحِ اعتبار ملے غمِ حیات کی فرسودگی ہے جاں
خداوندا !یہ حیرانی ہماری کِسے سونپی نگہبانی ہماری تمھارے بعد ہم تنہا نہیں ہیں اداسی بھی ہے دیوانی ہماری بہت
چھوڑ دی جلوتِ دنیا کہ یہ ہرجائی ہے باعثِ امن و سکوں گوشۂ تنہائی ہے آج پھر گل پہ ہے
ہمی تھے عشق میں ایسے جفا طلب ٹھہرے ادب کا دعویٰ جنہیں تھا وہ بے ادب ٹھہرے تو ماہتاب ہے
چاہتا ہوں کہ تیرا ہجر مصیبت نہ لگے اب کوئی زخم ترے غم کی بدولت نہ لگے اس کی یادوں
فقر کی راہ میں ایسا بھی مُقام آتا ہے رقص و مستی کے لیے عرش سے جام آتا ہے گریہ
اسے قبول نہیں یہ بھی ،آئینہ دیکھے بس ایک میں اسے دیکھوں یا پھر خدا دیکھے میں چاہتا ہوں کہ
سائے جو سنگِ راہ تھے رستے سے ہٹ گئے دل جل اٹھا تو خود ہی اندھیرے سمٹ گئے دن بھر
اپنا غصہ ٹھنڈا کرکے دیکھتے ہیں نقد و نظر کو رستا کرکے دیکھتے ہیں یوں بھی انا کو رسوا کرکے
ہاتھ اوروں کے خرابوں میں نہ ڈالا کیجے اپنے ملبے میں دبے شعر نکالا کیجیے میری مانیں تو پرندوں کی
اک چمکتا ہوا ستارہ ہے ہر طرف نام جو ہمارا ہے قید رکھنے کی جب دی ہے سزا پھر
جارہی ہے جو زندگانی ہے رائیگانی سی، رائیگانی ہے اب دعاؤں پہ چل رہا ہے جو دل آپ ہی کی
کیسے سمجھاؤں میں جنت کی طرح ہوتی ہے یہ جو عورت ہے محبت کی طرح ہوتی ہے ایک تو وصل
نقشے اسی کے دل میں ہیں اب تک کھنچے ہوئے وہ دور عشق تھا کہ بڑے معرکے ہوئے اتنا تو
زندگی تھی ہی نہیں، زخم کسی یاد کے تھے ہم نے وہ دن بھی گزارے جو ترے بعد کے تھے
شہر کی دھوپ سے پوچھیں کبھی گاؤں والے کیا ہوئے لوگ وہ زلفوں کی گھٹاؤں والے اب کے بستی نظر
سنگ اور موم میں ڈھلنے والے لوگ تھے روپ بدلنے والے دیکھ سیال شفق کی جگمگ جس طرح رنگ پگھلنے
لرزتا رہتا ہوں کردے نہ پاش پاش مجھے تراشتا ہے عجب طَور بُت تراش مجھے کہیں تلاش کا حاصل ترا
داس ہوں حسینوں کا عاشقوں کا مُرشد ہوں غم کا معتقد ہوں بس رند ہوں نہ زاہد ہوں راس ہو
سب انتظار میں تھے، کب کوئی زبان کُھلے پھر اُس کے ہونٹ کُھلے اور سب کے کان کُھلے بھلے ہو
مرنے سے عار ہے مجھے جینے کو میرا جی نہیں دونوں میں کوئی چیز بھی میرے مزاج کی نہیں مجھ
وقت کی دھن بنانا چاہتا ہوں اور اسے خود ہی گانا چاہتا ہوں وقت سے پہلے آ گیا
دعا کے جیسی بہت با اثر رہی ہوں میں کسی منڈیر پہ اچھی خبر رہی ہوں میں دھڑک رہی ہوں
ہیں آنسو بدگماں ہم سے ہمارے اداسی مسئلے سمجھے ہمارے دیا ہے لمس کا تحفہ بدن کو کسی نے کاڑھ