Home اسلامیات قرآن مجید کامیابی کی شاہ کلید – سالم برجیس ندوی

قرآن مجید کامیابی کی شاہ کلید – سالم برجیس ندوی

by قندیل

(ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڑھ)

بیسویں صدی میں جب سلطنت عثمانیہ کا سورج غروب ہو اتو پورا عالم مغرب کی سامراجی طاقتوں کے زیر تسلط آگیا۔ ایسے نازک وقت میں اسلام کا مشعل صرف چند نفوس قدسیہ نے اپنے ہاتھوں میں تھام رکھا تھا۔ ان میں دو شخصیتوں کے نام نمایاں طور پر بیان کیے جاتے ہیں۔ ایک عالم عرب میں امام حسن البناء شہید کی شخصیت اور دوسری ہندوستان میں سید ابو الاعلی مودودی ؒکی ذات مبارک۔ سید مودودیؒ نے جن حالات میں اسلام کا علم بلند کیا، وہ یقیناً بہت سخت تھے۔ ایک طرف قدیم و جدید علوم کی کشش نے مسلمانان ہند کو بکھیر دیا تھا تو دوسری جانب ملک میں سیاسی اتھل پتھل مچی ہوئی تھی اور ہندوستانی مسلمانوں کی دین و دنیا سے دوری بھی تشویش کا باعث تھی۔ ایسے نازک وقت میں مولانا مودودی علیہ الرحمہ امت کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلانے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور اسے دوبارہ اقبال و سر بلندی کا تاج پہنانے کے لیے اپنے مشن پر لگ گئے۔ اولین اجلاس میں قوم کو خطاب کر کے اس تحریک کا مقصد واضح کرتے ہوئے کہا: ” ہماری یہ جماعت جس غرض کے لیے اٹھی ہے وہ یہ ہے کہ دنیا میں اور آغاز کار کے طور پر اس ملک میں ایک ایسی سوسائٹی منظم کی جائے جو اسلام کے اصلی اصولوں پر شعور و اخلاص کے ساتھ خود عامل ہو۔ دنیا کے سامنے قول و عمل سے اس کی صحیح نمائندگی کرے اور بالآخر جہاں جہاں بھی اس کی طاقت جڑ پکڑ جائے وہاں کے افکار، اخلاق، تمدن، معاشرت، سیاست اور معیشت کے نظام کو موجودہ دہریت و مادہ پرستی کی بنیادوں سے اکھاڑ کر سچی خدا پرستی یعنی توحید کی بنیاد پر قائم کر دے۔

سید مودودی نے اس تحریک کی بنیاد کلمہ توحید پر رکھی اور قرآن و حدیث کو اصل مرجع قرار دیا۔ وہ جانتے تھے کہ قرآن ہی اصل کامیابی کا راز ہے۔ وہ بندوں کو زمین پر خدا کا خلیفہ بنانے آیا ہے۔ اگر اس پر عمل نہ کیا گیا اور اس سے رہنمائی حاصل نہ کی گئی تو مسلمانوں کو نہ کبھی غلبہ میسر ہو سکتا ہے اور نہ ہی یہ امت اپنے دعوتی فریضہ کا حق ادا کر سکتی ہے۔ اپنی ایک تقریر میں انھوں نے یہی بات کہی: ’’جو قوم خدا کی کتاب رکھتی ہو اور پھر ذلیل و خوار اور محکوم و مغلوب ہو تو سمجھ لیجیے کہ وہ ضرور کتاب الہی پر ظلم کر رہی ہے اور اس پر یہ سارا وبال اسی ظلم کا نتیجہ ہے۔ خدا کے اس غضب سے نجات پانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ اس کی کتاب کے ساتھ ظلم کرنا چھوڑ دیا جائے اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر آپ اس گناہ عظیم سے باز نہ آئیں گے تو آپ کی حالت ہر گز نہ بدلے گی خواہ آپ گاؤں گاؤں کالج کھول دیں اور آپ کا بچہ بچہ گر یجو یٹ ہو جائے اور آپ یہودیوں کی طرح سود خوری کر کے کروڑ پتی ہی کیوں نہ بن جائیں ‘‘۔

یہی وجہ تھی کہ جب جماعت اسلامی کا دستور تیار ہوا تو اس میں بھی اسی بات کو فوقیت دی گئی کہ ہر ہر فرد تلاوت قرآن کو یقینی بنائے اور قرآن کو اپنی زندگیوں میں نافذ کرے۔ دستور کے دفعہ 9 میں درج ہے: ’’ہر رکن جماعت کو کوشش کرنی ہو گی کہ وہ اللہ تعالی سے اپنے تعلق کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرے اور اس کے لیے فرض عبادات کے علاوہ نوافل، اذکار اور تلاوت قرآن وغیرہ کا بھی اہتمام کرے۔ تمام معاملات میں اپنے نقطہ نظر ، خیال اور عمل کو ہدایت الہی کے مطابق ڈھالے۔ اپنی زندگی کے مقصد، اپنی پسند اور قدر کے معیار اور اپنی وفاداریوں کے محور کو تبدیل کر کے رضائے الہی کے موافق بنائے اور اپنی خود سری اور نفس پرستی کے بت کو توڑ کر تابع امر رب بن جائے‘‘۔

ارکان و کارکنان کی تربیت:

جماعت اسلامی ہند اور اس کی طلبہ ونگ سے وابستہ افراد کے لیے قرآن کریم کی تلاوت و تدبر کو لازم سمجھا جاتا ہے۔ اس کے لیے ابتداء میں انہیں چھوٹے چھوٹے ٹاسک دے کر تفہیم القرآن کا مطالعہ کرایا جاتا ہے ، تاکہ کم از کم ان کے اندر قرآن فہمی کا شعور بیدار ہو اور جب اس میں ذرا شوق پیدا ہو جائے تو انہیں دیگر اہم تفسیروں کی طرف بھی رہنمائی کی جاتی ہے۔ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی لکھتے ہیں: ’’ جماعت نے اپنے ارکان و کارکنان کے لیے مطالعہ قرآن کا ایک نصاب طے کیا ہے۔ مولاناسید جلال الدین عمری نے ارکان و متوسلین کے لیے جو تربیتی خاکہ تیار کیا تھا اس میں جماعت کے ذمہ داران ( امرائے حلقہ ، حلقوں کی مجالس شوری کے ارکان، نظما اضلاع، نظمائے علاقہ اور مقامی امراء) مشورہ دیا تھا کہ وہ مولانا مودودی کی تفہیم القرآن کا ایک بار مطالعہ کر لیں۔ ساتھ ہی یہ بھی ہدایت کی تھی کہ جن رفقاء پر درس و تدریس کی ذمے داری آتی ہو، یا جنہیں تقریر وخطاب کے مواقع حاصل ہوں وہ موضوع سے متعلق آیات کے ترجمہ و تشریح کے لیے مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر تقدیر قرآن اور شیخ الہہند مولانا محمود حسن کا ترجمہ قرآن اور اس پر مولانا شبیر احمد عثمانی کے حواشی بھی دیکھ لیں۔ بعض دوسری تفاسیر موجود ہوں تو ان سے بھی استفادہ کریں۔ جو رفقاء عربی زبان سے واقف ہوں وہ ضروری کتب تفسیر کا خود ہی انتخاب کر سکتے ہیں ‘‘۔

اجتماعی مطالعہ قرآن کا آغاز:

در اصل یہ طریقہ قرآن کریم کی تفہیم میں بڑا معاون ہے۔ ارکان و کارکنان جو ذاتی طور پر قرآن کریم کا مطالعہ کرتے ہیں، انہیں صحیح رخ پر چلانے اور ان کی تربیت کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا گیا کہ وہ اپنے دن کی ابتداء اجتماعی مطالعہ قرآن سے کریں۔ تاکہ نوخیز کارکنان قرآنی آیات کی صحیح طور پر تفہیم کر سکیں اور تلاوت و تدبیر کی راہ سے واقف ہوں۔ اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص چند مخصوص آیتوں کی تلاوت کر کے اس کا ترجمہ و تفسیر پیش کرتا ہے۔ دیگر شرکا، مختلف تفاسیر کے ترجمے پیش کرتے ہیں، جس سے آیت کی معنویت ظاہر ہو جاتی ہے۔ یہ عمل روز ترتیب وار جاری رہتا ہے اور ایک ماہر شخص کی نگرانی میں طے پاتا ہے، تا کہ جہاں غلطی ہو وہاں سر دست اس کی صحیح تشریح کی جائے۔

درس قرآن کے حلقے:

جماعت اسلامی ہند کے مقامی حلقوں میں ہفتہ واری ماہانہ اور سہ ماہی پروگراموں میں درس قرآن کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان دروس کا مقصد فرد کا تزکیہ اور اس کی تربیت ہے۔ اس میں علماء و دانشوران، عامۃ الناس، بوڑھے، بچے اور خواتین الغرض ہر طرح کے افراد شریک ہوتے ہیں۔ بعض دفعہ دیگر علوم سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھی موقع دیا جاتا ہے، جنہیں درس قرآن پر عبور حاصل ہو۔ اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے اختصاص کی روشنی میں ان آیات کی عمدہ تفسیر کرتے ہیں۔ مثلا: اگر ایک ڈاکٹری پیشہ شخص ایسی آیات کی تشریح کرے جس میں انسانی اعضاء کو موضوع بنایا گیا ہو اور اس کی خلقت پر غور و فکر کی دعوت دی گئی ہو تو وہ ان آیات کی گہرائی میں جا کر اس طرح تفسیر کرتا ہے کہ سننے والا سنتا چلا جاتا ہے اور خدا پر اس کا ایمان بڑھتا جاتا ہے۔

قرآن کے پیغام کی تبلیغ:

عام انسانوں تک قرآن کریم کے پیغام کی تبلیغ کے لیے جماعت اسلامی ہند نے پروجیکٹ کے تحت مختلف زبانوں میں تراجم قرآن کا اہتمام کیا۔ ۱۹۷۸ء کے ایک اجلاس میں تقریبا ۲ تراجم قرآن پیش کیے گئے اور اب تک ہندوستان کی مختلف ستر وزبانوں میں اس کے ترجمے شائع ہوئے۔ جماعت کا یہ مشن ہے کہ قرآن کے پیغام کو زیادہ سے زیادہ انسانوں تک پہنچایا جائے اور اسے صحیح معنوں میں عام کیا جائے۔

مہم رجوع الی القرآن

جماعت اسلامی وقتا فوقتا اس طرح کی مہم چلاتی رہتی ہے، اس سے عام مسلمانوں تک نہ صرف قرآن کا پیغام پہنچتا ہے، بلکہ ان کے اندر یہ شعور بیدار ہوتا ہے کہ قرآن انہیں بھی مخاطب کرتا ہے اور غور و فکر کی دعوت دیتا ہے۔ اس سے ان کے اندر قرآن کریم کی تلاوت اور اس کے معانی میں تدبر کا ذوق و شوق بھی جاگتا ہے۔ ۲۰۲۲ء کے اخیر میں ۱۴تا ۲۳ اکتوبر دس روزه مہم "رجوع الی القرآن” کے نام سے چلائی گئی، جس میں تمام حلقوں میں چھوٹے بڑے پروگرام کیے گئے اور لوگوں کو قرآن کی جانب دعوت دی گئی۔

قرآن سب کے لیے:

جماعت اسلامی نے جس طرح ارکان و کارکنان اور عامۃ المسلمین کو قرآن سے جوڑے رکھنے کی کوششیں کیں ، وہیں اس نے غیر مسلموں کو اس سے الگ نہیں رکھا، بلکہ قرآن کے پیغام کو ان تک پہنچانا بھی اپنا فرض منصبی سمجھا اور اس کے لیے بڑی کوششیں صرف کیں۔ ۱۷ تا ۲۴ نومبر ۱۹۹۶ء کو جماعت کی جانب سے ہفتہ تعارف قرآن کا بڑے پیمانے پر اہتمام کیا گیا۔ اس کا ایک اہم مقصد وسیع پیمانے پر برادران وطن کے ہر طبقے سے دعوتی روابط پیدا کرنا اور ان کے سامنے اسلام اور قرآن کی تعلیمات پیش کرنا تھا۔ اس کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہ پروگرامس 400مقامات پر کیے گئے۔ ۸۰ / اہم مقامات پر مرکزی ذمہ داروں نے شرکت کی۔ جب کہ باقی مقامات پر صوبائی اور علاقائی سطح کے ذمہ داروں نے پروگراموں میں حصہ لیا۔ ان پروگراموں میں براہ راست استفادہ کرنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز رہی۔ اس میں تقریبا ۲۰ فیصد مسلمان اور ۸۰ فیصد غیر مسلم برادران وطن نے شرکت کی۔جماعت اسلامی ہند کا یہ اہم کارنامہ ہے کہ اس نے قرآن کے پیغام کو صحیح معنوں میں عام کرنے کی کوشش کی ہے اور مسلم و غیر مسلم دونوں کو اس کا بھولا ہوا سبق یاد دلا کر سنت نبوی ﷺپر عمل پیرا رہی ہے اور تا قیامت وہ اس مشن پر قائم رہنے کے لیے عازم سفر ہے۔ وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلى اللَّهُ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ المُسْلِمِينَ (فصلت: ۳۳)

’’جو قوم خدا کی کتاب رکھتی ہو اور پھر ذلیل و خوار اور محکوم و مغلوب ہو تو سمجھ لیجیے کہ وہ ضرور کتاب الہی پر ظلم کر رہی ہے اور اس پر یہ سارا وبال اسی ظلم کا نتیجہ ہے۔ خدا کے اس غضب سے نجات پانے کی اس کے سوا کوئی صورت نہیں کہ اس کی کتاب کے ساتھ ظلم کرنا چھوڑ دیا جائے اور اس کا حق ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر آپ اس گناہ عظیم سے باز نہ آئیں گے تو آپ کی حالت ہر گز نہ بدلے گی خواہ آپ گاؤں گاؤں کالج کھول دیں اور آپ کا بچہ بچہ گر یجو یٹ ہو جائے اور آپ یہودیوں کی طرح سود خوری کر کے کروڑ پتی ہی کیوں نہ بن جائیں ‘‘۔(مولانا مودودیؒ)

You may also like

Leave a Comment