اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن مجید میں اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی احادیث میں مسلمانوں کو بہت تاکید کے ساتھ یہ حکم دیا ہے کہ وہ اپنے آپ کو، اپنے اہل خانہ کو اور اپنے گھر کے ماحول کو دیندار بنائیں، سورہ تحریم میں ارشاد ہوا ہے: ” يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ…” (تحریم:6) [اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس (جہنم کی) آگ سے بچاو جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے]. یعنی انسان کی ذمہ داری جس طرح یہ ہے کہ وہ خود اللہ کو راضی کرے اور جنت حاصل کرے اسی طرح اس پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ اپنے اہل خانہ کو دیندار بنانے کی فکر کرے تاکہ وہ بھی جنت کے مستحق بنیں اور جہنم کی آگ سے بچیں.
اسی طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں ارشاد فرمایا ہے کہ: ” وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ” (بخاری:893) [اور مرد اپنے گھر والوں کا ذمہ دار اور ان کی بابت جواب دہ ہے). اس حدیث میں جس ذمہ داری اور جواب دہی کا تذکرہ ہے اس میں ان کی دنیوی ضرورتوں کے ساتھ آخرت میں ان کی کامیابی کو یقینی بنانا بھی ہے، یعنی اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان سے اس بابت بھی سوال ہوگا کہ اس نے اپنے گھر والوں کو جنت میں پنہچانے اور جہنم سے بچانے کی کیا کوشش کی تھی؟ اور اگر اس سلسلہ میں اس سے کچھ کوتاہی ہوئی تھی تو اس سے مواخذہ ہوگا.
قرآن مجید نے کئی انبیا ومقبولان بارگاہ الہی کے سلسلے میں بتایا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کی دینی تربیت کیسے کرتے تھے اور اسے کتنا ضروری خیال کرتے تھے.
اس سلسلہ میں قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ حضرات اپنے اہل خانہ کو وعظ ونصیحت کا اہتمام بطور خاص کیا کرتے تھے، مثلا سیدنا ابراہیم علیہ الصلاة والسلام کے سلسلہ میں ارشاد ہوا ہے: ” وَوَصَّىٰ بِهَا إِبْرَاهِيمُ بَنِيهِ وَيَعْقُوبُ” [بقرہ: 132] (اور ابراہیم ویعقوب نے اس [صحیح دین پر کاربند رہنے] کی نصیحت اپنے بیٹوں کو کی).
حضرت اسماعیل علیہ السلام کی صفات حسنہ کا تذکرہ کرتے ہوئے قرآن مجید نے ان کی ایک صفت بطور خاص یہ بتائی ہے کہ: "وَكَانَ يَأْمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّلَاةِ وَالزَّكَاةِ” (مريم:55) (اور وہ اپنے گھر والوں کو نماز اور زکات کا حکم دیتے تھے).
اسی طرح حضرت یعقوب کی بابت قرآن مجید نے بتایا ہے کہ جب ان کا آخری وقت آگیا تو انہوں نے اپنی اولاد کو اپنے بعد توحید خالص پر قائم رہنے کی نصیحت فرمائی، یا بالفاظ دیگر انہوں نے بوقت رخصت یہ اطمینان فرمانا چاہا کہ ان کی اولاد ان کے بعد بھی توحید پر ہی قائم رہے گی، اور اللہ کی اطاعت والی زندگی گزارے گی (بقرہ:133).
حضرت لقمان (جن کے نام پر قرآن مجید کی ایک سورت کا نام ہی پڑگیا ہے) کے بارے میں یہ تو طے نہیں کہ وہ نبی تھے یا نہیں، لیکن قرآن نے جس طرح ان کا تذکرہ فرمایا ہے اس سے یہ تو طے ہوجاتا ہے کہ وہ خاصان خدا اور مقبولان بارگاہ الہی میں سے تھے، سورہ لقمان میں ان کا ایک پورا وعظ نقل فرمایا گیا ہے جو انہوں نے اپنے بیٹوں کو کیا ہے، ہم اسے طوالت کے خوف سے یہاں نقل نہیں کررہے لیکن وہ اس قابل ہے کہ ہر گھر کا ذمہ دار اس کی روشنی میں یہ جاننے کی کوشش کرے کہ اسے اپنے اہل خانہ کو کس قسم کی نصیحتیں کرتی رہنی چاہییں.
اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ: ” وَأْمُرْ أَهْلَكَ بِالصَّلَاةِ” (طہ: 132) [اور اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیجیے].
اوپر ذکر کی گئی ان آیات قرآنی پر غور فرمائیے، اپنے اہل خانہ کو نصیحت کرنے والے یہ کون حضرات ہیں، اور ان کے وہ اہل خانہ کون ہیں جن کو یہ دین پر گامزن رہنے کی نصیحت کرنے کا اہتمام کررہے ہیں.
حضرت ابراہیم اللہ تعالی کے ایسے محبوب ہیں کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں انہیں اپنا "خلیل” (قریبی دوست) قرار دیا ہے، عبد ومعبود کے درمیان کے تعلق کو جب دوستی کے لفظ سے تعبیر کردیا جائے تو ہر صاحب عقل سمجھ سکتا ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک اس بندہ کا کیسا مقام بلند ہے، وہ اپنے صاحبزادگان کو دین پر چلنے اور اسی پر گامزن رہنے کی نصیحت کررہے ہیں، اور صاحبزادگان کون ہیں؟ حضرت اسماعیل وحضرت اسحاق علیہما السلام، یعنی ایسے صاحبزادگان جو خود انبیا ہوئے، لیکن خلیل اللہ ان کو بھی دینی نصیحت فرمانے کا اہتمام کررہے ہیں، ان عالی مقام صاحبزادگان میں سے حضرت اسماعیل کے سلسلے میں بھی ہم نے قرآن کا بیان پڑھا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز وزکات (جیسے دینی احکام) کی پابندی کرنے کی نصیحت کرتے رہتے تھے، ان کے بھتیجے یعنی حضرت اسحاق کے بیٹے حضرت یعقوب کے بارے میں ہم نے پڑھا کہ وہ بھی اہل خانہ کو وعظ ونصیحت کا خاص طور پر اہتمام کرتے تھے، اور بوقت وفات انہوں نے بطور خاص یہ اطمینان کرنا چاہا کہ ان کی اولاد (جن میں سے ایک حضرت یوسف بھی تھے) ان کے بعد توحید پر ہی قائم رہے گی.
جب خلیل اللہ کے خانوادہ کے بڑے نسل در نسل اپنی اولاد کے دین کے لیے ایسے فکر مند رہتے تھے تو ہمیں اس سلسلہ میں کتنا فکرمند ہونا چاہیے، اور اس کے لیے کس قدر اہتمام کرنا چاہیے.
انبیائے کرام کے اس اسوہ سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ مسلمان گھرانوں میں وعظ ونصیحت کا مسلسل اہتمام ہونا چاہیے… اگر سربراہ خانہ یہ کام کرسکتا ہو تو وہ خود یہ کام کرے اور اگر وہ خود اس کی اہلیت نہیں رکھتا تو پھر اہل خانہ کو کسی وقت جمع کرکے دینی کتابوں (قرآن، حدیث کی کتابوں یا علما کے مواعظ وغیرہ) کو پڑھ کر سنانا اس کا بہترین بدل ہوسکتا ہے، اور تجربہ سے نہایت کامیاب ثابت ہوا ہے. اس کا اہتمام نہایت ضروری اور لازمی ہے، اس کے بغیر گھروں میں دینی ماحول بننے کی کوئی زیادہ امید نہیں کی جاسکتی ہے. جن گھروں میں اس کا اہتمام ہوجاتا ہے وہاں چند ہی ہفتوں میں نہایت مبارک تبدیلیاں وجود میں آنے لگتی ہیں، یہ انبیا کا وہ اسوہ ہے جس کا تذکرہ قرآن نے بہت اہتمام کے ساتھ کیا ہے، اور جس پر عمل بہت آسان اور بڑی مبارک تبدیلیوں کا باعث ہے. اللہ سبحانہ وتعالی ہم سب کو توفیق عطا فرمائے.