Home اسلامیات رزق میں کشادگی کے اسباب – محمد طارق بدایونی

رزق میں کشادگی کے اسباب – محمد طارق بدایونی

by قندیل

اللہ تعالیٰ کا ایک صفت ’’رزّاق‘‘ہے، عربی زبان میں اس کے معنیٰ رزق دینے یا پہنچانے والے کے آتے ہیں۔رب العزت کے اس نام کو صحیح طور پر سمجھنے کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ رزق کے ذرائع اور اسباب کیا کیا ہیں۔
بلاشبہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ نے ہر بندے کے لیے رزق مقرر کر رکھا ہے، خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم، عیسائی ہو یا یہودی، مجوسی ہو یا صابی، زن ہو یا مرد۔ وہی ہے جو چاہتا ہے تو بے حد و حساب رزق عطا فرماتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِيَجْزِيَھُـمُ اللّـٰهُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَيَزِيْدَهُـمْ مِّنْ فَضْلِـهٖ وَاللّـٰهُ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَآءُ بِغَيْـرِ حِسَابٍ [النور: ۳۸] (تاکہ اللہ انھیں ان کے عمل کا اچھا بدلہ دے اور انہیں اپنے فضل سے اور بھی دے، اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب روزی دیتا ہے۔) اور وہ وہی جو اگر چاہتا ہے تو بندہ کا رزق روک کر، مال میں کمی کرکے آزماتا ہے تو کبھی بھوک اور خوف سے بھی آزماتا ہے۔ ارشاد وارد ہے:وَلَنبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْأَمْوَالِ وَ الْأَنْفُسِ وَ الثَّمَرَاتِ۔ [البقرہ: ۱۵۵]
اس لیے انسان کو چاہیے کہ اس کی زندگی اعمالِ صالحہ سے مزین ہو۔ دنیاوی و اخروی تمام معاملات میں اللہ ہی پر بھروسہ ہو، رزق میں تنگی ہو تو کشادگی کے لیے اللہ سے دعا کرے اور وہ کام نہ کرے جس سے رب کی نارضی وابستہ ہو، کیوں کہ روزی کا حساب و کتاب رزاق دو جہاں کے قبضۂ قدرت میں ہے:
وَمَامِنْ دَابَّۃٍ فِي الْاَرْضِ اِلَّا عَلَي اللہِ رِزْقُھَا (ھود: ۶)
(اور زمین پر چلنے والے ہر جاندار کارزق اللہ کے ذمے ہے۔)
اس آیت کریمہ کے تحت ڈاکٹر اسرار احمد صاحبؒ کا لکھا ہوا اقتباس قابل مطالعہ ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے اس کائنات کے اندر تقسیمِ رزق کا جو نظام بنایا ہے، اس میں ہر جاندار کے لیے اس کی ضروریاتِ زندگی فراہم کر دی ہیں۔ بچے کی پیدائش بعد میں ہوتی ہے، مگر اس کے لیے ماں کی چھاتیوں میں دودھ پہلے پیدا ہو جاتا ہے۔ لیکن جہاں کوئی انسان یا انسانوں کا کوئی گروہ اللہ کے اس نظام اور اس کے قوانین کو پسِ پشت ڈال کر کوئی ایسا نظام یا ایسے قوانین وضع کرے، جن کے تحت ایک فرد کے حصے کا رزق کسی دوسرے کی جھولی میں چلا جائے تو رزق یا دولت کی تقسیم کا خدائی نظام درہم برہم ہو جائے گا۔ اس لوت کھسوٹ کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ کہیں دولت کے بے جا انبار لگیں گے اور کہیں بے شمار انسان فاقوں پر مجبور ہو جائیں گے۔ لہذا جہاں کہیں بھی رزق کی تقسیم میں کوئی کمی بیشی نظر آئے تو سمجھ لو کہ اس کا ذمہ دار خود انسان ہے۔‘‘ (بیان القرآن،ڈاکٹر اسرار احمد، ج ۴، تفسیر آیت مذکورہ)
موجودہ معاشرے میں دیکھا جاتا ہے کہ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو رزق میں اضافہ اور بڑھوتری کی خاطر طرح طرح کے جادو ٹونے، غیر اللہ کے نام پر ناز و نیازیں، تعویذگنڈے، قرآنی آیات کو بڑی بے حرمتی کے ساتھ گھروں میں ٹانگنے جیسے شرکیہ اعمال کرتے ہیں اور اس میں مشرکین باباؤں کی امداد لیتے ہیں۔اس طرح لوگ اللہ تعالیٰ کے خلاف جاتے ہیں، اس کے فرمان کی نفی کرتے ہیں، اس پر اپنے بھروسے کو کمزور کرتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن یہ سب بے سود ہے؛ کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے تمام حیلے، ایسے تمام مشرکانہ طریقے اور تمام ایسے بے ہودہ کاموں سے انھیں ذرا بھی فائدہ نہیں ہوتا ، یہ سب چیزیں بے اختیار ہیں۔ صرف اللہ ہی ہے جو فعال لما یرید اور ان اللہ علیٰ کل شیئ قدیر ہے۔قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد ربانی ہے:
وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا وَجَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَزْوَاجِكُمْ بَنِينَ وَحَفَدَةً وَرَزَقَكُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ أَفَبِالْبَاطِلِ يُؤْمِنُونَ وَبِنِعْمَتِ اللَّهِ هُمْ يَكْفُرُونَ وَيَعْبُدُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَھُمْ رِزْقًا مِنَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ شَيْئًا وَلَا يَسْتَطِيعُونَ (النحل: ۷۲، ۷۳)
(اور اللہ نے تمہارے واسطے تمہاری ہی قسم سے عورتیں پیدا کیں اور تمہیں تمہاری عورتوں سے بیٹے اور پوتے دیے اور تمہیں کھانے کے لیے اچھی چیزیں دیں، پھر کیا جھوٹی باتیں تو مان لیتے ہیں اور اللہ کی نعمتوں کا انکار کرتے ہیں۔اور اللہ کے سوا ان کی عبادت کرتے ہیں جو آسمانوں اور زمین سے انہیں رزق پہنچانے میں کچھ بھی اختیار نہیں رکھتے اور نہ رکھ سکتے ہیں۔)
کرنے کا کام یہ ہے کہ انسان قرآن و حدیث میں ان اسباب کو تلاش کرے جو رزق میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ آدمی کے رزق میں بڑھوتری کے لیے ضروری ہے ،وہ ان اعمال کو بجا لائے جس کے عوض رب العالمین کی جانب سے رزق میں اضافہ کا وعدہ کیا گیا ہے۔ ذیل میں بعض ایسے اعمال اور اسباب کو ذکر کیا جاتا ہے۔
۱- توبہ و استغفار:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّكم اِنَّه كَانَ غَفَّارًا، يُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَيْكُمْ مِّدْرَارًا، وَيُمْدِدْكُمْ بِاَمْوَالٍ وَّ بَنِيْنَ وَ يَجْعَلْ لَّكُمْ جَنَّاتٍ وَّ يَجْعَلْ لَّكُمْ اَنْھَارًا۔(سورة نوح: ۱۰،۱۱،۱۲)
(پس میں نے کہا: اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے ۔ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گا، اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا، اور تمہارے لیے باغ اور نہریں بنائے گا۔)
ان آیات میں حضرت نوح علیہ السلام کی زبانی بتلایا گیا ہے کہ استغفار کے ذریعہ غریبی اور تنگ دستی دور ہو جاتی ہے۔ امام قرطبي رحمہ اللہ نے حضرت ابن صبیح سے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضرت حسن بصریؒ کے پاس چار لوگ آئے ان میں سے ایک نے قحط سالی کی شکایت کرتے ہوئے دعا کی درخواست کی، حضرت حسن بصری نے فرمایا: استغفار کرو۔ دوسرے نے غربت و افلاس کی شکایت کی، اس سے بھی یہی فرمایا۔ تیسرے نے اپنی بے اولادی کی شکایت کرتے ہوئے دعا کی درخواست کی، اس پر بھی انھوں نے کہا کہ اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ اور چوتھے نے شکایت کی کہ اس کا باغ خشک سالی کا شکار ہو گیا ہے، اس پر بھی انھوں نے جواب دیا کہ اللہ سے اپنے گناہوں کی بخشش کراؤ۔ ربیع ابن صبیح نے پوچھا کہ چاروں کو آپ نے ایک ہی بات کا حکم دیا تو انھوں نے جواب دیا کہ میں اپنی طرف سے انھیں کوئی بات نہیں بتلائی، اور یہی آیات پڑھ کر انھیں مطمئن کر دیا۔
۲- کمزوروں کے ساتھ حسنِ سلوک:
حضرت مصعب بن سعد بن ابی وقاص کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کو خیال گزرا کہ انھیں ان لوگوں پر فضیلت حاصل ہے، جو مالی لحاظ سے ان سے کم تر ہیں۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: ”یہ تم میں سے کمزور لوگ ہی تو ہیں، جن کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے اور تمہارا رزق بڑھا دیا جاتا ہے“۔ ’’رأى سعد أنَّ له فَضلاً على مَن دُونَه، فقال النبي صلى الله عليه و سلم : هَل تُنْصَرون وتُرْزَقُون إِلاَّ بِضُعَفَائِكُم؟‘‘۔
اسی طرح حضرت ابو الدرداء رضي الله عنہ سے ایک روایت نقل کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: ”(مالی و جسمانی طور پر) کمزور لوگوں کی تلاش میں میری مدد کرو۔ تم میں سے کمزور لوگوں ہی کی وجہ سے تمہاری مدد کی جاتی ہے‘‘۔ ”عن أبي الدرداء عويمر رضي الله عنه مرفوعاً: ابغُونِي الضُعَفَاء؛ فَإِنَّما تُنصَرُون و تُرزَقُون بِضُعَفَائِكُم “۔
اس حدیث میں حسن سلوک اور کمزوروں کی مدد کرنے کی تلقین و ترغیب ہے۔ اس سے دو باتیں سمجھ میں آتی ہیں کہ حسنِ سلوک اور امدادِ ضعفاء ایک طرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوش نودی کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف اس کے مادی فوائد بھی ہیں؛ کیوں کہ دنیاوی منفعتوں میں اضافہ حسن سلوک کے ذریعہ ہوتا رہتا ہے اور جہاں ہٹ دھرمی و کبر کا مظاہرہ کیا جائے وہاں سے پھر انسان کی نہ پسندیدہ چیزیں حاصل ہوتی ہیں اور نہ رب کی جانب سے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔
۳- اللہ کے راستے میں خرچ کرنا:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
قُلْ اِنَّ رَبِّىْ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ مِنْ عِبَادِه وَ يَقْدِرُ لَه وَ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ شَىْءٍ فَھُوَ يُخْلِفُه وَ هُوَ خَيْرُ الرَّازِقيْنَ۔ [سورۃ سبأ: ۳۹]
(کہہ دو بے شک میرا رب ہی اپنے بندوں میں سے جسے چاہے روزی کشادہ کر دیتا ہے اور جسے چاہے تنگ کر دیتا ہے، اور جو کوئی چیز بھی تم خرچ کرتے ہو سو وہی اس کا عوض دیتا ہے، اور وہ سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔)
اس آیت کے ضمن میں پہلی بات یہ جان لینے کی ہے کہ مال داری و غریبی کسی کی عزت و بے عزت ہونے کا معیار نہیں ہے۔ اللہ کے نزدیک معیار اصل میں تقویٰ ہے۔ کیوں کہ بسا اوقات وہ ظالمین کو زیادہ دے کر عذاب کا مستحق بنا دیتا ہے اور فرماں برداروں کو کم دے کر اخروی آسائشوں کے درجات بلند فرما دیتا ہے۔
دوسری چیز یہ کہ جب انسان اللہ کے راستے میں مال و دولت خرچ کرتا ہے تو اس کے مال میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے، بس شرط یہ ہے کہ جو بھی خرچ کیا جائے خلوصِ نیت کے ساتھ خرچ کیا جائے۔وہ خرچ کیے ہوئے مال سے زیادہ کس طرح عنایت فرماتا ہے، اس کی مادی توجیہ سے ہم قاصر ہیں۔
امام بخاری کتاب الزکوٰۃ میں ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’اے ابن آدم! تو (محتاج اور غریب لوگوں پر) خرچ کر میں تجھ پر خرچ کروں گا‘‘۔
۴- ہجرت فی سبیل اللہ:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
(وَمَنْ يُّھَاجِرْ فِىْ سَبِيْلِ اللّهِ يَجِدْ فِى الْاَرْضِ مُرَاغَمًا كَثِيْرًا وَّسَعَةً ۚ وَمَنْ يَّخْرُجْ مِنْ بَيْتِهٖ مُھَاجِرًا اِلَى اللّهِ وَرَسُوْلِهٖ ثُمَّ يُدْرِكْهُ الْمَوْتُ فَقَدْ وَقَعَ اَجْرُه عَلَى اللّهِ وَكَانَ اللّهُ غَفُوْرًا رَّحِيْمًا [النساء: ۱۰۰) (اور جو کوئی اللہ کی راہ میں وطن چھوڑے وہ اس کے عوض بہت جگہ اور وسعت پائے گا، اور جو کوئی اپنے گھر سے اللہ اور رسول کی طرف ہجرت کر کے نکلے پھر اس کو موت پالے تو اللہ کے ہاں اس کا ثواب طے ہو چکا، اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔)
کبھی ایسے حالات بن جائیں کہ دین پر عمل کرنا مشکل ہو جائے، تو تحفظِ دین کے لیے ہجرت کرنا عین فريضہ ہے۔ مال و جائداد سے محروم ہو جانے، گھر بار سے جدا ہو جانے کی وجہ سے ہجرت نہ کرنا بے وقوفی کہلائی گی؛ کیوں کہ اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے کہ ہجرت دین کی خاطر کی جائے تو وہ نوازے گا۔
۵- صلہ رحمی:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے سنا: ”جو اس بات کا خواہش مند ہو کہ اس کی روزی میں فراخی ہو اور اس کی عمر دراز کر دی جائے، اسے چاہیے کہ صلہ رحمی کیا کرے“۔ عن أنس بن مالك رضي الله عنه قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:’’من أحبّ أن يُبْسَطَ عليه في رزقه، وأن يُنْسَأَ له في أَثَرِهِ؛ فَلْيَصِلْ رحمه‘‘
ایک روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی آئی ہے، وہ اس طرح ہے۔
’’مَن سَرَّه أنْ يُنسَأَ له في أثرِه، ويُبسَطَ له في رزْقِه، فلْيَصِلْ رَحِمَه‘‘
۶- تقویٰ
” وَمَنْ يَّتَّقِ اللّهَ يَجْعَلْ لَّه مَخْرَجًا، وَيَرْزُقْه مِنْ حَيْثُ لَا يَحْتَسِبُ“ (اور جو اللہ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے نجات کی صورت نکال دیتا ہے۔اور اسے (ایسی جگہوں سے) رزق دیتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہ ہو۔)
حدیث مبارکہ میں اس آیت کی تشریح میں یہ الفاظ رقم ہیں کہ:
مخرَجا من شبھات الدنیا ومن غمرات الموت و شدائد یوم القیامۃ۔
(اللہ تقویٰ کی وجہ سے دنیا میں شبہات اور موت کی سختیوں سے اور قیامت کے شدائد سے نکلنے کا راستہ بناتا ہے۔) تقویٰ اختیار کرنے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان حرام مال کمانے سے اپنے آپ کو بچائے رکھتا ہے اور طیب مال کی خاطر اپنی ترجیحات کی بھی پرواہ نہیں کرتا۔ یہ خیال کہ اتنا (زیادہ) تقوے والے بن جائیں گے تو کھائیں گے کہاں سے بالکل فاسد ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنے متقی بندوں کو ایسی جگہوں سے رزق فراہم کرا دیتا ہے کہ انسان کے وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔
۷- حصول علم کے لیے اپنے آپ کو وقف کرنے والوں پر خرچ کرنا:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺکے زمانے میں دو بھائی تھے۔ ان میں سے ایک تو نبی ﷺ کی خدمت میں رہا کرتا تھا اور دوسرا کوئی کام کرتا تھا۔ کام کرنے والے نے اپنے بھائی کی نبی ﷺ کے حضور شکایت کی۔ اس پر آپ ﷺنے فرمایا: ”ہو سکتا ہے کہ اسی کی وجہ سے تمھیں رزق دیا جاتا ہو“۔
’’كان اخوانِ على عھدِ النَّبيِّ ﷺ، وكان أحَدُهُما يَأتي النَّبيَّ ﷺ، والآخَرُ يَحترِفُ، فشَكا المُحترِفُ أخاهُ للنَّبيِّ ﷺ، فقال: لعلَّك تُرزَقُ به‘‘
اس حدیث کی شرح میں ملا علی قاری نے بڑی اہم بات لکھی ہے کہ:
’’(تُرْزَقُ) صیغہ مجہول ہے، اس سے مراد یہ ہے، کہ مجھے امید ہے یا اندیشہ ہے، کہ تجھے رزق ملنے کا سبب تیری ہنر مندی یا کاریگری نہیں، بلکہ تجھے تو اپنے طلبِ علم میں مشغول بھائی کی برکت کی وجہ سے رزق مل رہا ہے، لہٰذا تم اس پر اپنی ہنر مندی کا احسان نہ جتلاؤ۔‘‘
۸- کثرت سے اللہ کی عبادت کرنا:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بے شک اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے ابن آدم! میری عبادت میں لگ جا، میں تیرے سینہ کو بے نیازی سے بھر دوں گا اور تیری غربت مٹا دوں گا، اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے سینے کو مسائل اور کاموں سے بھر دوں گا اور تیری غربت بھی دور نہیں کروں گا۔
” عن ابي هريرة: أن النبي – صلى الله عليه وسلم قال: يقولُ اللهُ سبحانَه يا ابنَ آدمَ تفرَّغْ لعبادتي أملأْ صدرَك غِنًى وأسدَّ فقرَك وإن لَم تفعَلْ ملأتُ صدرَك شُغلًا ولم أسدَّ فَقرَكَ.“
واضح ہو کثرت سے اللہ کی عبادت میں لگ جانا جہاں مستحسن ہے وہیں یہ بھی ضروری ہے اعتدال قائم رہے، ایسا نہ ہو کہ کثرت کی انتہا کر دی جائے اور اپنے جسم و صحت، بیوی بچوں، پڑوسیوں اور دیگر تقاضہائے زندگی ضائع ہوتے چلے جائیں اور حقوق کی ادائی صحیح ڈھنگ پر نہ ہو پائے تو یہ طریقہ مزاجِ شریعت کے خلاف ہے، اتنی کثرت سے احتیاط لازم ہے۔
۹- توکل علی اللہ:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”اگر تم اللہ پر ویسے بھروسہ کرو جیسا کہ بھروسہ کرنے کا حق ہے تو تمہیں ایسے رزق دیا جائے جیسے پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو آسودہ حال واپس آتے ہیں“۔
عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: ’’لو أنكم كنتم توَكلون على الله حق توَكُّلِهِ لرزقكم كما يرزق الطير، تَغْدُو خِمَاصَاً، وتَرُوحُ بِطَاناَ‘‘
۱۰- نکاح کرنا:
وَأَنْكِحُوا الْأَيَامَى مِنْكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِنْ يَكُونُوا فُقَرَاءَ يُغْنِھِمُ اللَّهُ مِنْ فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِيمٌ (النور: ۳۲) (اور تم لوگ اپنے میں سے اکیلے (بغیر بیوی والے مرودوں اور بغیر شوہر والی عورتوں)اور اپنے نیک غُلاموں اور باندیوں کے نکاح کر دیا کرواگر وہ غریب ہیں( تو اس سے مت گھبراو) اللہ انھیں اپنے فضل سے مالدار کر دے گا اور اللہ بہت وسعت والا اور بہت علم والا ہے۔)
اس آیت کریمہ سے اس بات کا علم ہو جاتا ہےکہ غربت کی وجہ سے شادی نہ کرنا یا مال کی فراوانی نہ ہونے کی وجہ سے شادی میں تاخیر کرنا، کسی بھی صورت میں مناسب نہیں ہے، یہ توکل علی اللہ کے خلاف اور ایمان میں ضعف کی علامت ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ نکاح میں عجلت سے کام لیا جائے؛ تاکہ بد نگاہی، بد کاری، بد کلامی وغیرہ سے محفوظ رہا جاسکے۔
علامہ ترمذی نے کتاب النکاح میں ایک روایت نقل کی ہے، جس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ شادی نہ کرنا زمین میں فتنوں اور فساد کا سبب ہے۔اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلاَّ تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الأَرْضِ، وَفَسَادٌ عَرِيضٌ۔ (اگر تم لوگوں سے کوئی ایسا شخص رشتہ طلب کرے جس کا دین اور کردار تم لوگوں کو اچھا لگے تو اس کی(اپنی لڑکی، بہن بیٹی جس کا اس نے رشتہ طلب کیا ہو ، اس سے)شادی کر دو ، اگر تُم لوگ ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ ہو جائے گا اور بہت بڑا فساد ہو جائے گا۔)
یقیناً فساد کے عموماً دو ہی سبب ہوتے ہیں۔ ایک نفسانی خواہش، یہ امیر و غریب سب کے لیے برابر ہے۔ دوسرا بھوک، اس کا زیادہ تر تعلق غربت سے ہے، یعنی انسان جب غریب ہوتا ہے اور اسے اس کا حق نہیں پہنچ پاتا تو پھر وہ جرائم کرنے لگتا ہے۔

You may also like