Home اسلامیات نیٔ نسل کی تربیت – اسامہ غنی 

نیٔ نسل کی تربیت – اسامہ غنی 

by قندیل

متعلم پٹنہ کالج، پٹنہ یونیورسٹی

ہم جب کسی اچھے یا برے دور کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد اس دور کے لوگ ہوتے ہیں۔ بلکہ دور اور زمانے کو اچھا یا برا اس دور کے لوگ ہی بناتے ہیں‌۔ لوگوں کو اچھا یا برا بنانے میں تربیت کا اہم رول ہوتا ہے ۔ خواہ وہ تربیت ماں باپ سے ملی ہو یا کسی استاد سے ۔ اگر تربیت بہترین ہوتی ہے تو وہ دوسری تمام کمیوں پر غالب آجاتی ہے‌‌۔ اگر کسی شخص کی زبان میں کچھ نقائص ہوں یا کسی شخص کے علم میں کمی نظر آۓ مگر تربیت بہترین ہو تو پھر وہ شخص بھی باادب کہا جاتا ہے ۔ آج بے شمار لوگ علم کی جدو جہد میں لگے ہوئے ہیں بلکہ بہت جگہ علم اب آپسی مقابلہ بن کر رہ گیا ہے۔ آج ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ بہت کم عمر سے ہی بچوں کو بہت دور اسکول کی پڑھائی کے لیے بھیجا جاتا ہے جبکہ کچھ سال پہلے تک بچوں کو گھروں میں قرآن اور دین کی بنیادی باتیں اور سبق آموز کہانیاں سنائی جاتی تھیں ۔ اس کے بعد انہیں دیگر علوم حاصل کرنے میں لگا دیا جاتا تھا، جس سے وہ اچھے اور برے، حلال و حرام کا فرق باآسانی سمجھ پاتے تھے ۔ ان کے سامنے سخت سے سخت آزمائش بھی آتی تھی تو وہ اس کا سامنا کرتے تھے کیونکہ ان کی بنیادی تربیت ہی بہترین ہوا کرتی تھی ۔ آج والدین کو اپنی اولاد سے شکایت کیوں رہتی ہے ؟ کیوں والدین اپنے بچوں سے خوش نہیں رہتے؟مخدوم جہاں شیخ شرف الدین احمد یحییٰ منیری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے شاگرد مولانا مظفر بلخی رحمۃ اللہ سے کہا کہ تمہاری کوئی اولاد نہیں ہوگی مگر لوگ تمہارے بھتیجے حضرت مخدوم حسین نوشہ توحید بلخی رحمۃ اللہ کو تمہاری اولاد سمجھیں گے۔ کیونکہ ان کی تربیت میں تمہارا بہت بڑا ہاتھ ہوگا۔ مخدوم حسین نوشہ توحید بلخی بتاتے ہیں کہ جب میں دس برس کا تھا تو میرے چچا جان نے کیسے تربیت کی تھی۔ مخدوم حسین کہتے ہیں کہ مجھے "سرید” کھانے میں بہت پسند تھا۔ میرے چچا مولانا مظفر بلخی رحمۃ اللہ علیہ رات میں سرید تیار کیا کرتے تھے جب ہم سو رہے ہوتے تب۔ پھر مجھے وہ اٹھاتے "بھتیجے سرید تیار ہے اٹھ جاؤ”، میں نیند سے بیدار ہوتا تو وہ مجھے کہتے کہ وضو کرلو‌ بھتیجے تاکہ اور لطف اندوز ہوکر کھاؤ ۔ جب میں وضو کرلیتا تو آپ کہتے کہ وضو بھی کر چکے ہو تو دو رکعت نماز ادا کرلو پھر آرام سے کھانا۔ مخدوم حسین کہتے ہیں کہ اتنی کم عمر سے ہی میرے چچا نے مجھے تہجد کی نماز کا پابند بنا دیا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے لوگ تو پیدائشی بزرگ ہوا کرتے تھے ، ایسا ہرگز نہیں ہے بزرگوں نے بہت محنت کی تھی اپنے آنے والی نسل کی تربیت پر۔ آج والدین کی اپنے بچوں سے شکایت اور ناراضگی کی وجہ کہیں نہ کہیں والدین خود ہیں۔ کیوںکہ انہوں نے بچوں کی دنیا سنوارنے میں دل و جان سے لگا دیا، بےشک دنیا میں بھی آگے رہنا اور معاشی اعتبار سے مظبوط ہونا ضروری ہے لیکن اگر ان بچوں کی تربیت دین کے آغوش میں نہیں ہوگی تو والدین کتنی بھی جدوجھد کرلیں آخر میں انہیں بے شمار تکالیف اور مایوس درپیش آئیں گی۔ اگر ابتدائی تربیت بہترین ہوتی ہے تو آپ کسی بھی اسکول، کالج اور یونیورسٹی میں چلے جائیں، آپ اپنے ایمان اور کردار دونوں کو محفوظ رکھ کر کامیابی حاصل کرتے جاءیں گے۔ انسان چاہے جس بھی مقام پر پہنچ جائے اگر اس کی تربیت اعلی درجے کی ہے تو وہ والدین کے حقوق کو ہمیشہ یاد رکھے گا۔ آج بہت سارے طلبہ وطالبات ایسے ملتے ہیں جو اپنے دکھ اور پریشانی کا اظہار والدین سے نہیں کرپاتے، شروع سے ان کے دل میں والدین کا خوف اور دبدبہ اس طرح سما جاتا ہے کہ وہ ان سے کھل کر بات نہیں کرپاتے۔ انہیں ایسا لگتا ہے کہ اگر اپنے اس مسائل کا اظہار والدین سے کیا تو میری جان پر آفت آئے گی میں ہی برا سمجھا جاؤں گا ۔ اور ان کی پریشانی ان کو اندر ہی اندر والدین سے دور کردیتی ہے ۔ آج کا دور جلدبازی ، بے اطمینانی اور بے صبری کا دور ہے ہر کوئی خود میں ہی بے چین نظر آتا ہے جس سے آپسی میل میلاپ بہت خراب ہوتا جا رہا ہے ۔ پہلے والدین بیٹھ کر اپنے بچوں سے روز مرہ کی باتیں کرتے تھے انہیں اچھے برے کی تہذیب سکھایا کرتے تھے مگر اب ایسی باتیں کسی گھر میں نہیں ہوتیں، جس کی وجہ سے ایک ساتھ رہ کر بھی لوگ الگ ہیں ایک دوسرے سے اور اسی غلطی کا فائدہ غیر لوگ اٹھا کر بچوں کو والدین سے دور کردیتے ہیں، ان کے ہمدرد بننے لگتے ہیں اور دھیرے دھیرے ان کو برایٔ کے دلدل میں کھینچ لیتے ہیں جس سے نہ صرف ایک شخص متاثر ہوتا ہے بلکہ دھیرے دھیرے پورا خاندان، معاشرہ اور پوری قوم متاثر ہوجاتی ہے ۔

You may also like