اسلام کے نزدیک انسانی معاشرے میں پانچ قسم کے طبقات پائے جاتے ہیں۔ پہلا طبقہ جو دین اسلام پر ایمان رکھتا ہے،اس کے حاملین مومن اور مسلمان کہلاتے ہیں، دوسرا طبقہ اہل کتاب کا جو براھیمی مذاہب کو مانتے ہیں جیسے عیسائی اور یہود، تیسرا طبقہ مشرکین کا جو خدا پر یقین تو رکھتے ہیں مگر اس کےساتھ شریک بھی ٹھہراتے ہیں، چوتھا طبقہ ملحدین اور منکرین کا ہے جو خدا کا سرے سے انکار کرتے ہیں اور پانچواں طبقہ منافقین کا جو صرف اپنی انا اور نفس کے بندے ہوتے ہیں۔ اولذکر چاروں طبقے کے لوگ اپنے اپنے عقیدے اور بنیادی اصول پر کھل کر عمل کرتے ہیں اور اپنی شناخت ظاہر کرنے میں کبھی ہچکچاتے نہیں لیکن جو پانچواں طبقہ ہے وہ اپنے ظاہری مطلب اور مفاد کے لئے ہر سانچے میں ڈھلنے کے لئے ہمیشہ تیار رہتا ہے۔ اس طبقے کے لوگوں کا خدا یا تو ان کی انا ہوتی ہے یا پھر مفاد ، جس کی بندگی میں یہ ہر اصول ہر سرحد پار کرجانے کو اپنی اصل عبادت سمجھتے ہیں۔
منافقین کا یہ طبقہ جس کا ظہور پیغمبر اسلام کی موجودگی میں مدنی معاشرے میں ہوا آج بھی ہمارے درمیان اپنی پوری عیاریوں کے ساتھ موجود ہے۔ چونکہ یہ طبقہ ہمشہ اپنی اصلیت چھپائے رکھتا ہے اس لئے اس کی پہچان بہت مشکل ہے۔ دور نبوت میں یہ ہر طریقے سے اسلام کو نیچا دکھانے کے لئے سازشیں کرتے تھے ، مشرکین کے خلاف لڑی جانے والی غزوات میں یا تو یہ شریک ہونے سے کتراجاتےیا اگر مصلحتاً شریک بھی ہوتے تو ان کی پوری کوشش مسلمانوں کو زک پہنچانے کی ہی ہوتی تھی۔ یہ آپﷺ کا حسن اخلاق تھا کہ ان کی تمام ریشہ دوانیوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ برداشت کرتے رہے اور اف تک نہ کیا بلکہ ان کے ظاہر پر ہی ان کے ساتھ معاملات کرتے رہے۔ پیغمبر اسلام کے وصال کے بعد ان کی فتنہ انگیزی اور بڑھ گئی۔ چاروں خلفائے راشدین کے دور میں جتنے بھی آپسی خلفشار ہوئے وہ تمام ان منافیقن کی ہی کارستانیاں تھیں۔ اس دور میں ان کی تمام کوششیں اسی ایک نکتے پر مرکوز رہیں کہ کسی بھی طرح اسلام کو نیست و نابود کردیا جائے یا اس کی بنیادی اصولوں میں ایسی تبدیلیاں پیدا کر دی جائیں کہ اس کی اصل پوری طرح مجروح ہوجائے۔ دور ملوکیت میں ان کی شرارتیں عروج پر پہنچ گئی اور اکثر علاقوں میں زمام حکومت بھی ان کے ہاتھوں میں آگئی تھی جس کا فائدہ اٹھا کر انہوں نے مسلمانوں کو ان گنت فرقوں میں اس بری طرح تقسیم کردیا کہ آج تک انہیں پھر سے یکجا کرنے کی کوئی بھی کوشش کارگر نہیں ہوسکی۔ یہ اور بات ہے کہ امت میں موجود دور اندیش طبقے نے ہر دور میں ان کی فتنہ انگیزیوں کو پہچان کر ان کی گمراہیوں کا سد باب کرتے ہوئے عوام کو ان کے شر سے محفوظ رکھنے کی بھر پور کوشش کی۔
منافقین کا یہ طبقہ آج بھی ہمارے درمیان شر اور فساد کی حشر سامانیوں اور اسلام کو مکمل سبوتاژ کرنے کے واحد مقصد کےساتھ اسی طرح جلوہ گر ہے جس طرح اپنے شروع دور میں تھا۔ ممکن ہے زمانے کے ساتھ ساتھ اس کے رنگ و روپ میں تبدیلی آگئی ہو لیکن اس کا مقصد آج بھی اسلام اور مسلمانوں کی بیخ کنی ہی ہے۔ ہمارے درمیان ہماری صفوں میں ہماری پارٹیوں میں ہمارے اداروں میں ہمارے مدرسوں اور تعلیم گاہوں میں یہ لوگ ہم سے زیادہ خود کو مخلص بنا کر پیش کرتے ہوئے چھائے ہوئے ہیں۔ ان کی پہچان ظاہری طور پر بہت مشکل ہے مگر ان کی کچھ صفتوں سے ان کی نشاندہی ممکن ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے،
"چار صفتیں ایسی ہیں کہ جس شخص میں پائی جائیں وہ خالص منافق ہے اور جس میں کوئی ایک صفت ان میں سے پائی جائے تو اس کے اندر نفاق کی ایک خصلت ہے جب تک کہ وہ اسے چھوڑ نہ دے۔ وہ یہ کہ جب امانت اس کے سپرد کی جائے تو اس میں خیانت کرے اور جب بولے تو جھوٹ بولے اور جب عہد کرے تو اس کی خلاف ورزی کرجائے اور جب لڑے تو اخلاق و دیانت کی حدیں توڑ ڈالے۔” (بخاری و مسلم)
یہاں امانت میں خیانت کا مطلب صرف روپیہ پیسہ میں خرد برد نہیں بلکہ اصول اور قاعدے قوانین میں اپنے مفاد اور انا کی تسکین کے لئے من چاہی تبدیلیاں بھی مراد ہیں۔ اسی طرح باقی باتیں بھی اپنے اندر ایک وسیع تصور رکھتی ہیں۔ اس حدیث کی روشنی میں ہم بآسانی ہمارے درمیان موجود کالی بھیڑوں کو پہچان سکتے ہیں جو پارسائی اور للہیت کا نقلی لبادہ اوڑے ہمارے سوسائٹی کو کھوکھلا کر رہی ہیں۔ ایسوں کو بے نقاب کرنا اور ان کے فتنوں سے قوم کو بچانا موجودہ نازک دور میں جب کہ امت چاروں طرف سے دشمنوں کے نرغے میں پھنسی ہوئی ہے بے حد ضروری ہوگیا ہے۔ یہ ایسے بدترین صفت لوگ ہیں کہ قرآن مجید میں ان کے تعلق سے کھل کر صاف لفظوں میں آیات اترے ہیں۔ سورہ توبہ میں حکم خداوندی ہے "اے نبیؐ! کفار اور منافقین دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ، آخر کار ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور وہ بدترین جائے قرار ہے‘‘ (سورہ توبہ:73)۔
مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: منافقین کے خلاف جہاد اور سخت برتاؤ سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان سے جنگ کی جائے۔ در اصل اس سے مراد یہ ہے کہ ان کے منافقانہ روش سے اگر چشم پوشی برتی گئی ہے، جس کی وجہ سے یہ مسلمانوں میں ملے جلے رہے اور عام مسلمان ان کو اپنی ہی سوسائٹی کا ایک جز سمجھتے رہے اور ان کو جماعت کے معاملات میں دخل دینے اور سوسائٹی میں اپنے نفاق کا زہر پھیلانے کا موقع ملتا رہا، تو اس کو آئندہ کیلئے ختم کر دیا جائے۔ اب جو شخص بھی مسلمانوں میں شامل رہ کر منافقانہ روش اختیار کرے اور جس کے طرز عمل سے بھی یہ ظاہر ہو کہ وہ خدا اور رسولؐ اور اہل ایمان کا مخلص رفیق نہیں ہے تو اسے کھلم کھلا بے نقاب کیا جائے، اعلانیہ اس کی ملامت کی جائے، سوسائٹی میں اس کیلئے عزت و اعتبار کا کوئی مقام باقی نہ رہنے دیا جائے، معاشرت میں اس سے قطع تعلق ہو، جماعتی مشوروں سے وہ الگ رکھا جائے، عدالتوں میں اس کی شہادت غیر معتبر ہو، عہدوں اور مناصب کا دروازے اس کیلئے بند رہیں، محفلوں میں اسے کوئی منہ نہ لگائے، ہر مسلمان اس سے ایسا برتاؤ کرے جس سے اس کو خود معلوم ہوجائے کہ مسلمانوں کی پوری آبادی میں کہیں بھی اس کا کوئی وقار نہیں اور کسی دل پر پردہ نہ ڈالا جائے، نہ اسے معاف کیا جائے، بلکہ علیٰ رؤس الاشہاد اس پر مقدمہ چلایا جائے اور اسے قرار واقعی سزا دی جائے”۔
آج ہمارا سب بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے صفوں میں موجود منافقین کو پہچانتے ہوئے بھی ان کے خلاف سخت قدم اٹھانے سے اس لئے پیچھے ہٹ جاتے ہیں کہ کہیں ہمارا کوئی ذاتی مفاد زد میں نہ آجائے اور اس طرح غیر محسوس طریقے سے ہم بھی ان کی صفوں میں شامل ہو کر غضب خداوندی کو اپنی جانب متوجہ کر بیٹھتے ہیں۔ ہمارے مسلسل زوال کا ایک کارن یہ بھی ہے کہ ہم ظاہری حلیے اور چکا چوند سے متاثر ہو کر اپنی قیادت ایسے لوگوں کے حوالے کر دیتے ہیں جن کی منافقا نہ روش مثل آفتاب روشن ہوتی ہے۔ جب تک ہم اپنے درمیان موجود کالی بھیڑوں کو اپنی صفوں سے نکال باہر نہیں کریں گے، مولانا مودودیؒ کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے اعلانیہ ان کی ملامت نہیں کریں گے، محفلوں میں انہیں منہ نہیں لگائیں گے، عہدوں اور مناصب کےدروازے ان پر بند نہیں کریں گے، ہمارے مصائب اور آلام کا سلسلہ دراز ہی ہوتا رہے گا۔ اللہ ہمیں صحیح سمجھ دے۔