نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
ہندوستان میں خانگی تشدد کے واردات میں اضافہ ہوا ہے، یہ تشدد مرد وعورت دونوں کی طرف سے ہوتا ہے ، مردوں کی طرف سے جسمانی تعذیب اور ہراسانی اور عورتوں کی طرف سے عموما ذہنی اذیت کے، یہ معاملات معاشی کمزوری اور ہر دو کے کسی دوسرے سے غیر قانونی تعلقات کی بنیاد پر ہوتے ہیں، غیر قانونی تعلقات کی ایک شکل ہمارے نزدیک بغیر شادی کے ایک ساتھ رہنے اور زندگی گذارنے کی بھی ہے ، تیس فی صد سے زیادہ معاملات کا تعلق اسی غیر قانونی تعلق سے ہے ، اس کی وجہ سے خانگی زندگی اجیرن بن رہی ہے اور گھر کا سکون درہم برہم ہو کر رہ جاتا ہے ۔
اس بے سکونی کے ماحول سے اگر نکلنا ہوتو اس کی واحد شکل یہ ہے کہ غیر قانونی رشتوں سے خود کو بچا کر رکھا جائے، ایک دوسرے پر اعتبار اور اعتماد قائم کیا جائے، اور شریعت نے میاں بیوی کے جو حقوق وفرائض بیان کیے ہیں اس پر سختی سے عمل کیا جائے، قرآن کریم میں میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے ، لباس آرام بھی پہونچاتا ہے، جسمانی عیوب کو بھی چھپاتا ہے، اس کی رعایت کی جانے لگے تو گھر ٹینشن فری زون ہوگا اور میاں بیوی دونوں ایک دوسرے سے سکون پائیں گے ۔
خواتین واطفال
جماعت اسلامی ہند ، شاہین باغ کی جانب سے شاہین مسجد (جامعہ نگر ، نئی دہلی) میں ہر ہفتہ اتوار کو بعد نماز مغرب کسی دینی موضوع پر خطابِ عام کا انتظام کیا جاتا ہے ۔ عزیزی ابو الاعلی سبحانی نے خواہش کی کہ اس بار میں وہاں ‘ گھروں کا ماحول دینی کیسے بنائیں ؟’ کے عنوان پر تقریر کردوں ۔ میں نے اس پروگرام میں شرکت کی ۔ میری گفتگو کے نکات درج ذیل تھے :
(1) سب سے پہلی چیز یہ ہے کہ ہمیں اپنے گھر کا ماحول دینی بنانے کی فکر ہونی چاہیے _ اگر فکر ہوگی تو اس کی کوشش کی جائے گی اور اس کے لیے تدبیریں اختیار کی جائیں گی _ اگر فکر ہی نہیں ہوگی تو گھر کا ماحول چاہے جیسا رہے ، ہمیں کوئی پروا نہ ہوگی ۔
(2) ہمیں برابر اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہمارے اہلِ خانہ کے اندر تقویٰ اور صالحیت پیدا فرمائے اور انہیں ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے ۔ اہلِ ایمان کو یہ دعا سکھائی گئی ہے :
رَبَّنَا هَبۡ لَـنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّيّٰتِنَا قُرَّةَ اَعۡيُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِيۡنَ اِمَامًا ( الفرقان : 74)
” اے ہمارے ربّ ! ہمیں اپنی بیویوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک دے اور ہم کو پرہیزگاروں کا امام بنا ۔“
‘ہم کو پرہیز گاروں کا امام بنا’ یہ دعا اپنے لیے نہیں ، بلکہ اپنے اہلِ خانہ کے لیے ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں بھی ہماری طرح متّقی و پرہیز گار بنا دے۔
(3) ہمارا گھرانہ دین دار ہو ، اس کے لیے ہمیں نکاح سے قبل ہی منصوبہ بندی کرنی چاہیے _ چنانچہ رشتہ طے کرتے وقت ہی دین داری کو ترجیح دینی چاہیے _ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے :
” عورت سے نکاح کرتے وقت اس کا مال ، اس کا حسب و نسب ، اس کی خوب صورتی اور اس کی دین داری دیکھی جاتی ہے _ تم دین داری کو ترجیح دو ، اللہ تمہارا بھلا کرے _” ( بخاری : 5090)
(4) زوجین کو ایک دوسرے کے ساتھ حسنِ معاشرت کا معاملہ کرنا چاہیے _ خاص طور سے شوہر پر لازم ہے کہ وہ بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے _ قرآن میں حکم دیا گیا ہے :
وَعَاشِرُوۡهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ(بخاری :19)
” ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔”
اللہ کے رسول ﷺ نے بھی تاکید فرمائی ہے :
” میں تمھیں عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی تاکید کرتا ہوں _” ( بخاری :3331)
بیوی پر رعب جمانے ، ڈانٹ ڈپٹ کرنے اور حکم چلانے سے ماحول خوش گوار نہیں رہ سکتا اور اس پر جبر کرکے گھر کا ماحول دینی نہیں بنایا جاسکتا _
(5) زوجین کو چاہیے کہ وہ دین پر چلنے کے معاملے میں ایک دوسرے کا تعاون کریں _ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے :
” اللہ اس مرد پر رحم کرے جو رات میں بیدار ہو ، نماز پڑھے ، اپنی بیوی کو جگائے ، اگر وہ اٹھنے میں آناکانی کرے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے دے ، وہ اٹھ جائے تو دونوں مل کر نماز پڑھیں _ اللہ اس عورت پر رحم کرے جو رات میں بیدار ہو ، نماز پڑھے ، اپنے شوہر کو جگائے ، اگر وہ اٹھنے میں آناکانی کرے تو اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے دے ، وہ اٹھ جائے تو دونوں مل کر نماز پڑھیں _ (ابوداؤد : 308 ، نسائی : 1610)
(6) مرد کو خاندان کا ‘قوّام’ بنایا گیا ہے ۔ قوّام کا مطلب ہے نگرانی کرنے والا ، حفاظت کرنے والا ، ضروریاتِ زندگی پوری کرنے والا ۔ اس میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آدمی اپنے اہلِ خانہ کی دینی اعتبار سے بھی نگرانی کرے _ وہ انہیں دین پر چلانے کی کوشش کرے ، بے دینی سے ان کی حفاظت کرے _ دیکھے کہ ان میں دین کے معاملے میں کوئی کوتاہی تو نہیں پائی جا رہی ہے ، اگر ہو تو ان کی اصلاح کی کوشش کرے ۔
(7) اگر کوئی شخص اپنے اہلِ خانہ میں دین کے معاملے میں کچھ کوتاہی یا انحراف یا لاپروائی دیکھے تو وقتاً فوقتاً تذکیر و تنبیہ سے کام لے _ اللہ کے رسول ﷺ اپنی ازواج اور گھر کے بچوں سے بہت محبت کرتے تھے ، لیکن احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ انہیں نصیحتیں کرتے رہتے تھے اور کبھی سخت الفاظ میں تنبیہ بھی فرمایا کرتے تھے ۔
(8) گھر میں نوافل کا اہتمام کرنا چاہیے ۔ آدمی کو نماز پڑھتا دیکھ کر گھر کے دیگر افراد ، خاص طور پر بچے متوجہ ہوں گے اور ان میں بھی نماز کا اشتیاق پیدا ہوگا _ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے :
"گھروں کو قبرستان نہ بناؤ ۔ ”
(ابوداؤد :2042)
اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ جس طرح قبرستان میں نہ نماز پڑھنی درست ہے نہ قرآن پڑھنا ، اسی طرح کا معاملہ گھر کے ساتھ نہ کرو ۔
(9) گھروں میں قرآن مجید کی تلاوت کا بھی اہتمام کرنا چاہیے _ اللہ تعالیٰ نے امہات المؤمنین کو مخاطب کرکے فرمایا تھا :
وَاذۡكُرۡنَ مَا يُتۡلٰى فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ مِنۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالۡحِكۡمَةِؕ (الأحزاب :34)
” یاد رکھو اللہ کی آیات اور حکمت کی باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں ۔”
قرآن کی تلاوت خود کی جائے اور دوسرے سے بھی سنا جائے _ بچوں سے کہا جائے کہ انہیں جو قرآن یاد ہے اسے سنائیں _ اس طرح گھر میں قرآن سننے اور سنانے کا ماحول بنے گا اور اگر بچوں سے یاد کرنے یا پڑھنے میں کچھ غلطی ہوئی ہو تو اس کی بھی اصلاح ہوجائے گی ۔
(10) بچوں کی دنیاوی اور عصری تعلیم کی جتنی فکر کی جاتی ہے اتنی ہی یا اس سے کچھ زیادہ ہی ان کی دینی اور اخلاقی تعلیم و تربیت کی فکر کرنی چاہیے _ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
مَا نَحَلَ وَالِدٌ وَلَداً مِن نَحْلٍ اَفْضَلَ مِن اَدَبٍ حَسَنٍ (ترمذی : 1952)
” والدین نے اپنے بچے کو اچھے ادب و اخلاق سے بہتر اور کسی چیز کا تحفہ نہیں دیا۔”
بچوں کو وقتاً فوقتاً نصیحت کرتے رہنا چاہیے _ سورۂ لقمان میں بہت تفصیل سے ان نصیحتوں کو نقل کیا گیا ہے جو حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو کی تھیں _ اگر بچوں کی طرف سے کبھی دینی معاملات میں عدمِ دل چسپی اور لاپروائی کا مظاہرہ ہو تو بہ قدر کفایت ان کی تنبیہ اور ان پر سختی بھی کی جاسکتی ہے _ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے :
"بچے سات برس کے ہوجائیں تو انہیں نماز کے لیے کہو اور اگر دس برس کے ہوجانے کے باوجود نماز نہ پڑھیں تو انہیں مارو ۔” (ابوداؤد : 495)
(11) اہل خانہ کی دینی تربیت کے لیے ضروری ہے کہ ہم ان کے سامنے اچھا نمونہ پیش کریں۔ ہم جیسا انہیں بنانا چاہتے ہیں ویسا ان کے سامنے خود بن کر دکھائیں۔ اگر ہم اپنے گھر والوں کو نماز کا پابند بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں خود اس کا پابند بننا ہوگا _ کوئی ہم سے ملنے آیا ہے۔ اگر ہم نے بچے سے کہہ دیا :” جاؤ ، کہہ دو ، ابّا گھر پر نہیں ہیں۔” اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے بچے کے ذہن میں یہ بات راسخ کردی کہ وقتِ ضرورت جھوٹ بولا جاسکتا ہے ۔
(12) گھر والوں اور خاص طور پر بچوں کو قابلِ لحاظ وقت دینا چاہیے _ ہم دین کی اشاعت اور تبلیغ کے لیے خود کو وقف کردیں اور ہمارے زیادہ تر اوقات گھر سے باہر گزریں تو چاہے پوری دنیا کو ہماری ذات سے فائدہ پہنچ جائے ، لیکن ہمارے اہلِ خانہ محروم رہیں گے اور ‘چراغ تلے اندھیرا’ والی مثل صادق آئے گی _ قرآن میں حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہما السلام کے بارے میں ہے :
فَلَمّا بَلَغَ مَعَہٗ السَّعْیَ ( الصافات : 102)
"جب اسماعیل ابراہیم کے ساتھ دوڑنے بھاگنے کی عمر کو پہنچ گیا۔”
(13) گھروں میں ‘فیملی اجتماع ‘ کو رواج دینے کی کوشش کرنی چاہیے _ ہفتہ میں دو دن یا کم از کم ایک دن وقت متعیّن کرکے گھر کے تمام افراد اکٹّھا ہوں۔ کسی بچے سے کہا جائے کہ وہ قرآن سنائے ، کسی سے حدیث سنی جائے ، کوئی دعا سنائے ، کوئی کسی کتاب کی خواندگی کرے۔ کوئی کسی تفسیر کی مدد سے یا زبانی چند آیات کی تشریح کرے _ بچوں کو انعامات دیے جائیں تو ان کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ مثلاً جو بچہ فلاں سورۃ کو یاد کرلے گا اسے یہ انعام دیا جائے گا _ اس طرح بچوں کے درمیان منافست کا جذبہ پیدا ہوگا۔
ہم سب کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا گھرانہ دینی بنے ، لیکن ہم اس کے لیے کوشش نہیں کرتے اور تدابیر نہیں اختیار کرتے ، چنانچہ ہماری خواہش دل ہی میں دبی رہ جاتی ہے اور اس کی تکمیل نہیں ہوپاتی۔ اگر ہم اس کے لیے تدابیر اختیار کریں تو ان شاء اللہ ضرور ہمیں کام یابی ملے گی _ اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے، آمین۔
موجودہ عہد جدید ٹیکنالوجی اور ترقیات کا ہے۔ آج کے بچوں میں اخذ و اکتساب کی صلاحیت بہ نسبت پہلے کے بچوں کے بہت زیادہ ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے ٹیکنالوجی کا استعمال بہتر انداز میں کرتے ہیں اور ان سے بھرپورفائدہ بھی اٹھاتے ہیں۔ آج تقریباً ہر گھر میں ٹی وی، کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، انٹرنیٹ، اینڈرائڈ موبائل وغیرہ موجود ہیں۔ ان کے استعمال سے بچے جہاںاپنے اسکول کا کام پورا کرتے ہیں اور دنیا و جہان کی معلومات حاصل کرتے ہیں تو دوسری جانب کارٹون، گیمزاور ہر طرح کے تفریحی پروگرام سے بھی لطف اٹھاتے ہیں۔
موبائل تو بچو ں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں ہے، ان کا استعمال تقریباً ہر عمر کے بچے کرتے ہیں۔کورونا اور لاک ڈاؤن کی وجہ سے تو ان کا استعمال مزید بڑھ گیا ہے، کیونکہ اسکول بند ہونے کے سبب بچوں کی پڑھائی کا ذریعہ بس یہی موبائل ہیں۔ کچھ بچے تو موبائل کا استعمال پڑھنے، لکھنے اور اپنے علم میں اضافے کے لیے کرتے ہیں مگر بہت سے بچے موبائل اور انٹرنیٹ کا بیجا استعمال بھی کرتے ہیں۔ ایسے میں بچے کی صحیح رہنمائی، تعلیم و تربیت اور درست اخلاق و عادات کے تئیں والدین کی ذمے داریاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔ ضروری ہے کہ والدین ٹیکنالوجی کے فوائد اور نقصانات کے مابین فرق کو سمجھائیں اور اس کے بہتر استعمال سے ان کے کیریئر پر کس طرح کے مثبت اثرات نمایاں ہوں اس سے بھی واقف کرائیں کیونکہ بچے قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ولادت کے بعد بچے کا پہلا اسکول ماں کی گود ہی ہے، اس لیے بچہ وہی کچھ سیکھتا ہے جو ماں اسے سکھاتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ابتدائی پانچ سال تک بچوں میں سیکھنے کی رفتار بہت زیادہ ہوتی ہے، ایسے میں والدین کو خاص طور پر بچے کی نگہداشت کرنی چاہیے کیونکہ ہر والدین کا یہ خواب ہوتا ہے کہ ان کا بچہ آگے چل کر ڈاکٹر، انجینئروغیرہ بنے۔اس خواب میں حقیقت کا رنگ بھرنے میں سب سے اہم کردار والدین کا ہی ہوتا ہے۔ اس لیے عموماً یہ دیکھا بھی گیا ہے کہ بعض والدین بچوں کے کیریئر اور مستقبل کو بہتر بنانے کے لیے شروع سے ہی کوشاں نظر آتے ہیں اور ایسا ہونا بھی چاہیے کیونکہ والدین کی کوششوں سے ہی بچے کو مستقبل کی مشکل راہ روشن نظر آسکتی ہے۔
موجودہ عہد میں والدین کو بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت کی خاطر مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔ گھر، اسکول اور کھیل کود جیسے مقامات پر بچے کی یکساں نگہداشت ایک مشکل مرحلہ ہے۔ جو والدین پڑھے لکھے اور سمجھدار ہوتے ہیں وہ ان چیلنجز کا مقابلہ بخوبی کرپاتے ہیں، مگر بہت سے والدین کم پڑھے لکھے ہوتے ہیں، جس کی بنا پر انھیں بہت سی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس تعلق سے کچھ ضروری نکات کی طرف والدین کی توجہ بہت ضروری ہے۔ بنیادی امر یہ ہے کہ گھر میں بچے کو خوشگوار ماحول فراہم کیا جائے، والدین اپنے بچوں میں کسی قسم کا امتیاز نہ برتیں، کچھ بچے بہت ذہین ہوتے ہیں تو کچھ کم، ان میں موازنے سے گریز کریں، اگر آپ کا بچہ ابھی اسکول جانے کی عمر کو نہیں پہنچا ہے اور آپ اسے گھر پر ہی تعلیم دے رہے ہیں تو بچے کو سمجھانے کے لیے ایسی کتابوں کا استعمال کریں جن میں تصاویر ہوں، کیونکہ تصاویر کے ذریعے بچوں کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے۔ اسی طرح جب بچے اسکول جانے لگیں، تو گھر واپسی کے وقت اسکول میں پڑھائے گئے اسباق کے بارے میں اور ان کے ہوم ورک اور اسائنمنٹ کے جانکاری حاصل کرنا بھی ضروری ہے، اگربچے کو کہیں دشواری پیش آرہی ہے تو اس کی رہنمائی کریں، بچے جب پانچویں یا چھٹی کلاس میں پہنچ جائیں تو انھیں اسکول میں ہونے والے پروگرام، مقابلوں اور کھیلوں میں حصہ لینے کی ترغیب دلائیں۔
جب بچے مڈل یا ہائی اسکول میں پہنچ جائیں تو انھیںان کے سبجیکٹ کے فائدے بتانا اور انھیں یہ سمجھانا بھی ضروری ہے کہ اس موضوع کو اپنا کر وہ اپنے مستقبل کو کس طرح تابناک بنا سکتے ہیں۔ اسی طرح بورڈ کے جب امتحانات قریب آئیں تو والدین بچوں پر پڑھائی کا زیادہ بوجھ نہ ڈالیں، حسب استطاعت انھیں پڑھنے کی تلقین کی جائے۔ان کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ان کی مشکلات کو کم کرنے کی تدبیر اور امتحان میں اچھے رزلٹ لانے کے مثبت طریقے بتائے جائیں۔ کچھ بچے امتحان کے نام سے خوف کھاتے ہیں، والدین کو چاہیے کہ انھیں امتحان گاہ تک پہنچائیں اور ان کے دلوں سے خوف کو دور کریں۔ ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے بچے امتیازی نمبرات سے پاس ہوں، اچھے نمبرات کی خاطر چوری اور نقل کے نقصانات سے ضرور آگاہ کریں۔ اگر بچے کا رزلٹ ان کے مطابق نہ آئے تو بھی بچوں کو ڈانٹنے کی ضرورت نہیں ہے، بلکہ انھیں یہ نصیحت کرنی چاہیے کہ بیٹے دیکھو آپ کی کلاس میں جو بچے اچھے نمبرات سے پاس ہوئے ہیں، ان سے آپ مشورے کریں اور سیکھنے کی کوشش کریں۔ جب بچے گیارہویں کلاس میں پہنچ جائیں اور انھیں سبجیکٹ طے کرنے میں دشواری پیش آئے تو اس میں رہنمائی کریں۔ اگر سبجیکٹ کی مکمل جانکاری والدین کو بھی نہیں ہے تو کسی ماہر تعلیم سے مشورہ بہتر ہے۔ بارہویں کلاس کے اگزام سے پہلے بچوں کو اسکول اور یونیورسٹی کے فرق کو سمجھائیں اور بچوں کو یہ بتائیں کہ اگر بارہویں میں آپ اچھے نمبرات لاتے ہیں تو آپ اپنی پسند کے سبجیکٹ خود چن سکتے ہیں۔
بارہویں کے بعد زیادہ تر یونیورسٹیز کے پروفیشنل کورسز میں داخلے کے لیے کمپی ٹیشن ضروری ہوتا ہے، ایسے میں والدین کو چاہیے کہ کمپی ٹیشن کی تیاری کے طریقے بتائیں اور اس راہ میں آنے والی دشواریوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ ان سب کے باوجود اگر بچہ کامیاب نہیں ہوپاتا اور ناکامی سے وہ اداس رہنے لگتا ہے تو والدین کے لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ وہ بچے کو اداسی سے نکلنے کا راستہ بتائیں اور یہ تلقین کریں کہ بیٹا! اداس مت ہو، حوصلہ رکھو، راستے آپ کے لیے ابھی بند نہیں ہوئے ہیں،خوب محنت کرو، ان شاء اللہ آنے والا وقت آپ کاہوگا۔ اگر کسی کے والدین حکومت کے اعلیٰ منصب پر فائز ہیں اور اپنے بچے کو اپنے جیسا ہی دیکھنا چاہتے ہیں، لیکن بیٹاان سب کے علاوہ کچھ اور ہی راستہ اختیار کرنا چاہتا ہے، تو ایسے میں والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو مجبور نہ کریں، انھیں ان کی پسند کی منزل طے کرنے میں ان کی مدد کریں۔
اسکول میں بچے کی بہتر تعلیم اور تربیت کی خاطر والدین کو ہمیشہ حساس اور بیدار رہنا چاہیے کیونکہ گھر میں صرف والدین بھائی بہن ہی ہوتے ہیں مگر اسکول میں ہر قسم کے بچے ہوتے ہیں، ان میں کچھ اچھے ہوتے تو کچھ برے۔ ایسے میں والدین بچے میں غلط ماحول کے اثرات دیکھیں تو اس سے وجہ دریافت کریں، اوریہ سمجھائیں کہ بیٹا آپ غلط بچوں کے ماحول سے اجتناب برتیں، اچھے اور ذہین بچوںکی صحبت اختیار کریں۔کبھی کبھاروالدین خود اسکول جائیں، اسکول میں بچے کی حاضری، کلاس میں پڑھائی، استاد کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی، اور اسکول سے متعلق دیگر سرگرمیوں کی جانکاری استاد سے حاصل کریں، اگر استاد کی طرف سے کوئی شکایت ہے تو اسے دور کرنے کی کوشش کریں۔ اسکول میں PTAجیسے پروگرام میں والدین ہر حال میں شریک رہیں۔
تعلیم کے ساتھ بچوں کے لیے کھیل کود اور تفریح بھی ضروری ہے کہ اس سے ذہن تازہ اور جسم صحت مند اور توانا رہتا ہے۔ اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ بچوں کو کھیل کود سے نہ روکیں، بلکہ اگر ان کے پاس وقت ہے تو انھیں خود پارک میں لے کر جائیں اور انھیں کھیل کود کا مزہ لینے دیں۔لیکن موجودہ دور میں والدین اور بچے دونوں کے پاس وقت کی کمی ہے۔ ابو صبح سویرے آفس یا تجارت کے لیے نکل جاتے ہیں پھر شام یا رات کو ہی گھر واپس ہوتے ہیں۔ اسی طرح بچے بھی صبح سویرے اسکول پہنچ جاتے ہیں۔ دوپہر اسکول سے آنے کے بعد ٹیوشن یا کوچنگ کلاسز پر چلے جاتے ہیں۔ اپنے اپنے کام سے دونوں اس قدر تھک جاتے ہیں کہ انھیں ایک دوسرے کی ذمے داریوں کا احساس ہی نہیںہوتا۔ بعض گھروں میں تو ماں باپ دونوں ملازمت کرتے ہیں۔ ایسے میں بچے خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں، اور ان کے مزاج میں چڑچڑا پن آجاتا ہے۔ ایسے میں والدین خاص کر باپ کو چاہیے کہ کام سے فراغت کے بعد گھر پہنچنے پر بچوں سے حال چال دریافت کریں، ان کے ساتھ بات چیت کریں، اپنے ساتھ بٹھا کر کوئی تفریحی پروگرام بھی دکھائیں، اور اس کے متعلق اس سے سوالات بھی کریں۔
ذہنی تھکاوٹ کو دور کرنے کے لیے چھٹیوں کے اوقات بچوں کے ساتھ ہی گزاریں، تفریح کے دوران بچے کی ذہنی سطح کی آزمائش کے لیے آپ ریاضی، سائنس اور سماجی علوم جیسے سبجیکٹ سے سوالات بھی کریں، اور ان موضوعات کے فائدے بھی سمجھائیں۔ سائنس کے میدان میں آپ آسمانی اجسام جیسے سورج، چاند، ستارے کی ضرورت اور اہمیت کے بارے میں واقف کرائیں، بچے کو اپنی حفاظت کے لیے طوفان،آگ، زلزلہ جیسے آفات کے بچنے کے طریقے بتائیں۔کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، موبائل، انٹرنیٹ کے استعمال کے فوائد سے آگاہ کریں، ساتھ ہی ان کے غلط استعمال سے کیرئیر اور صحت پر پڑنے والے مضر اثرات کا بھی ذکر کریں۔ یہ تمام خوبیاں ایک بہتر ماپ باپ کے اندر ہی پائی جاتی ہیں۔ اس لیے اگر آپ اپنے بچے کا مستقبل روشن اور تابناک دیکھنا چاہتے ہیں، توآپ کو اپنی زندگی بچوں کے لیے وقف کرنی ہوگی کیونکہ بچہ آپ کو صرف باپ کی حیثیت سے جانتا ہے، اسے آپ کے عہدے اور رتبے سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ اس لیے آپ ان کے حوصلے کو ٹوٹنے نہ دیں اور انھیں یہ احساس دلائیں کہ بچو! ہمیشہ ہم تمھارے ساتھ کھڑے ہیں۔ اس موقعے پر مجھے جون ایلیا کی بیٹی فینانہ فرنام کا لکھا ہوا مضمون ’جون ایلیا: تصویر کا دوسرا رخ‘ یاد آگیا جسے انھوں نے اپنے باپ کی انیسویں برسی کے موقعے پر لکھا تھا۔ اس مضمون میں ایک باپ کی اپنے بچوں کے تئیں کیا ذمے داریاں ہوتی ہیں اس کا احساس دلایا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ بچے کا اپنے باپ سے جو جذباتی رشتہ ہوتا ہے اس کی قدرباپ کو بھی کرنی چاہیے کیونکہ وہ اپنی زندگی میں کتنے بھی بڑے منصب پر فائز ہوں وہ اپنے بچوں کے لیے صرف باپ ہوتے ہیں۔ اس مضمون کا یہ اقتباس بہت اہمیت کا حامل ہے۔ آپ بھی ملاحظہ کریں:
’’میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ ابو کے مداح ابو کے بچوں سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ ہم ابو کو سرکار ، مرشد جون ایلیا سمجھیں ہم ان کے چاہنے والوں کو کیسے سمجھائیں کہ ہمارے لیے وہ فقط باپ تھے،ہمیں ان سے صرف محبت اور شفقت چاہیے تھی، ایک اولاد اپنے باپ سے اتنا تو چاہ ہی سکتی ہے، باپ شاہ ہو یا گدا، اولاد کے لیے صرف باپ ہوتا ہے؟ ہم تینوں بھی صرف اپنے باپ سے ان کی محبت چاہتے تھے۔‘‘ (قندیل ڈاٹ کام، 9 نومبر 2021)
موجودہ عہد میں بچوں کے تعلق سے والدین کی سوچ میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ اس لیے والدین کوچاہیے کہ وہ بچوں کے سامنے کوئی ایسا عمل نہ کریں جس کے منفی اثرات بچوں پر پڑیں۔ کبھی کبھار بچوں کے ساتھ دوستانہ برتاؤ بھی ضروری ہے، کہ اس طرح کے برتاؤ سے بچے اور والدین دونوں ایک دوسرے کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔
پرانے زمانے میں والدین بچوں کے تعلق سے بہت حساس رہتے تھے، ان کے ہر عمل پر والدین کی کڑی نظر رہتی تھی۔ گاؤں میں تو یہ بھی چیزیں دیکھنے میں آتی تھیں کہ بلا ضرورت مغرب کے بعد بچے گھر سے باہر جانے کی جرأت بھی نہیں کرسکتے تھے۔اگر کوئی بچہ بلا ضرورت رات کے اندھیرے میں گھر سے باہر ٹہلتا گھومتا پایا جاتا تو اس کی سخت سرزنش کی جاتی اور اس سے توبہ یا عہد کرایا جاتا کہ اس طرح کا عمل دوبارہ سرزد نہ ہو۔گویا والدین بچوں کے عادات و اطوار کو سدھارنے کے لیے برابر کوشش کرتے رہتے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے والدین کی عزت کے ساتھ ان کا ادب و احترام کرتے تھے، ہمیشہ یہ خیال رکھتے کہ میری کسی بات یا کسی عمل سے والدین کو کوئی تکلیف نہ ہو۔ بعض دفعہ تو ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ اگر ابو گھر کے باہر بیٹھے ہوئے ہیں تو بچے ان کے سامنے سے گزرتے ہوئے بھی ڈرتے تھے، کہ کہیں یہ سوال نہ کرلیا جائے کہ کہاں جارہے ہو؟
پیارے بچو! والدین کی پوری زندگی اپنے بچوں کے لیے وقف ہوتی ہے۔ ان کی بھاگ دوڑ آپ کے مستقبل کو تابناک بنانے کے لیے ہوتی ہے۔ وہ ہر پل بس آپ کے لیے جیتے ہیں اور آپ ہی کے بارے میں سوچتے ہیں۔ اس لیے پیارے بچو! آپ کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ اپنے والدین کے احسانات کو سمجھیں، ان کے ہر اچھے مشورے کو اپنے ذہن میں محفوظ کرلیں، ان کی ڈانٹ ڈپٹ سے آپ کبھی ناراض نہ ہوں، ان کے کہنے کے مطابق ہی اپنا راستہ متعین کریں، کیونکہ والدین کے بتائے ہوئے راستے ہمارے لیے کامیابی کا زینہ ثابت ہوں گے۔ والدین کی باتوں پر عمل کرکے ان شاء اللہ آپ ہمیشہ خوش رہیں گے اور سکون محسوس کریں گے۔
والدین اور بچے، دونوں نئے سال میں یہ عہد کریں کہ ہم اپنی اپنی ذمے داریوں کو سمجھیں گے اور اسے نبھانے کی حتی الامکان کوشش کریں گے، اسی میں دونوں کے لیے بھلائی اور کامیابی ہے۔
برادر عزیز ڈاکٹر سلمان مکرّم امیر مقامی جماعت اسلامی ہند اورنگ آباد(جنوب) نے ایک ہفتے کا آن لائن پروگرام ترتیب دیا ، جس کا مرکزی موضوع تھا : "خوش گوار زندگی کی منصوبہ بندی : قرآن کے سایے میں ” اس موضوع کے تحت انفرادی ، خانگی ، سماجی ، معاشی اور تحریکی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر اظہار خیال طے کیا گیا ۔ کچھ لیکچر ہو گئے ہیں ، کچھ باقی ہیں۔ طے کیا گیا کہ ہر لیکچر ایک گھنٹے کا ہو ، اس کے بعد نصف گھنٹہ سوالات و جوابات کے لیے ہو ۔ یہ پروگرام نو سے ساڑھے دس بجے شب تک جاری رہتا ہے ۔
مجھے اس پروگرام میں شرکت کرنے اور 7 دسمبر 2021 کو ” میاں بیوی میں خوش گوار تعلقات : کیوں اور کیسے؟” کے عنوان پر اظہارِ خیال کرنے کا موقع ملا۔ میری گفتگو کے نکات درج ذیل تھے :
(1) نکاح کا مقصد نسلِ انسانی کا تسلسل ، جنسی تسکین اور باہم محبّت و مودّت کے ساتھ اور مل جل کر تمدّن کے ارتقاء کی کوشش ہے۔ زوجین کے درمیان خوش گوار تعلقات ہوں تبھی یہ مقاصد بہتر طور پر حاصل کیے جاسکتے ہیں _
(2) اسلام نے خاندان کا جو دائرۂ کار متعین کیا ہے اور جو ضوابط طے کیے ہیں ان کی پاس داری ضروری ہے _ مرد کو خاندان کا ‘قوّام’ ( نگراں/ Boss) بنایا گیا ہے اور عورت پر اس کی اطاعت لازم کی گئی ہے _ ان ضوابط کی پامالی سے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔
(3) ضروری ہے کہ شوہر تمام کاموں میں بیوی کو شریکِ مشورہ رکھے۔ وہ گھر کا نظم داروغہ کی طرح نہ چلائے ، جہاں دوسرے افرادِ خانہ اس کے اشاروں پر چلیں اور وہ کسی کی بات نہ سنے ، لیکن باہم مشاورت کے بعد جب شوہر کی طرف سے کوئی بات طے کردی جائے تو بیوی بچوں کے لیے اس کی پابندی لازمی ہے۔ قرآن مجید میں ہے : ” نیک عورتیں شوہروں کی اطاعت گزار ہوتی ہیں۔” (النساء : 34)
(4) اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کے حقوق متعین کردیے ہیں اور فرائض بھی بتا دیے ہیں _ عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَلَهُنَّ مِثۡلُ الَّذِىۡ عَلَيۡهِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ (البقرۃ : 228)
” عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پر ویسے ہی حقوق ہیں ، جیسے مَردوں کے حقوق ان پر ہیں ۔”
گویا عورتوں کے حقوق مردوں کے فرائض ہیں اور مردوں کے حقوق عورتوں کے فرائض ہیں _ ہر ایک اگر اپنے فرائض ادا کرنے پر توجہ دے تو دوسرے کے حقوق خود بہ خود ادا ہوں گے اور انہیں طلب کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔
(5) ازدواجی تعلق کی بنیاد محبت اور ایثار پر استوار ہوتی ہے _ اگر محبت نہ ہو تو خود غرضی پیدا ہوتی ہے اور آدمی ہر معاملے میں اپنا مفاد دیکھتا ہے _ محبت ہو تو اپنا سب کچھ دوسرے پر نچھاور کردیتا ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے : ” دو محبت کرنے والوں کے درمیان نکاح سے زیادہ مضبوط رشتہ نہیں ہوتا۔ ( ابن ماجہ : 1847)
(6) زوجین کے درمیان ایک دوسرے پر اعتماد انتہائی ضروری ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر شک و شبہ کرنا ازدواجی زندگی کے لیے سمِّ قاتل ہے ۔ دل میں کوئی شک پیدا ہو تو فوراً اپنے جوڑے سے اس کا اظہار کرکے معاملہ صاف کر لینا چاہیے۔ اسے دل میں چھپائے رہنے سے وہ بڑھتا رہتا ہے ،یہاں تک کہ بسا اوقات نوبت علیٰحدگی تک جا پہنچتی ہے۔
(7) مردوں کو خاص طور پر تاکید کی گئی ہے کہ بیویوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں _ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” ان (عورتوں) کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔( النساء : 19) اور اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے :” میں تمہیں عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنے کی تلقین کرتا ہوں۔ ” (بخاری :3331 ، مسلم : 1468) آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر جہاں اپنے اصحاب کو دین کی بنیادی باتوں کی تعلیم دی وہیں عورتوں کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنے پر بھی زور دیا۔ ” ( ابن ماجہ :1513)
(8) میاں بیوی دونوں کو یہ حقیقت ہمیشہ اپنے سامنے رکھنی چاہیے کہ اس دنیا میں کوئی بھی Perfect نہیں ہے _ ہر انسان خوبیوں اور خامیوں کا مجموعہ ہے _ شوہر یا بیوی جیسی بھی ہو اسے اسی طرح قبول کرنا چاہیے ، اسے اپنے تصورات اور خوابوں میں بنائی گئی تصویر پر نہیں ناپنا چاہیے _ اس سلسلے میں خاص طور پر مردوں کو ہدایت دی گئی ہے کہ اگر بیویوں میں کچھ خامیاں دیکھیں تو انہیں اپنی نگاہوں سے گرا نہ دیں ، بلکہ ان کی خوبیوں کو اپنے پیشِ نظر رکھیں _ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” اگر وہ(بیویاں) تمہیں ناپسند ہوں تو ہوسکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بَھلائی رکھ دی ہو ۔ ” ( النساء : 19)
(8) زبان کی حفاظت ازدواجی زندگی میں خواش گواری کی کلید ہے۔ شوہر ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ کرتا ہو ، یا غصہ اس کی ناک پر رہتا ہو ، یا وہ اپنی مردانگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے بیوی پر ہاتھ اٹھا دیتا ہو ، یا بیوی زبان کی تیز ہو ، وہ پلٹ کر جواب دے دیتی ہو تو ازدواجی زندگی میں تلخی گھل جاتی ہے۔ بیوی جہیز نہ لائی ہو تو اسے طعنے دیے جائیں ، وہ قبول صورت ہو تو اس پر بد صورتی کی پھبتی کسی جائے تو دل ٹوٹ جاتا ہے اور اس میں محبت کی جگہ نفرت پیدا ہوجاتی ہے ، اس لیے اگر ازدواجی زندگی کو خواش گوار رکھنا ہو تو زبان کو قابو میں رکھنا ہوگا۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا ہے : "جو شخص مجھے ضمانت دے اس چیز کی جو اس کے دونوں جبڑوں کے درمیان ہے (یعنی زبان) اور اس چیز کی جو اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان ہے (یعنی شرم گاہ) ، میں اسے جنّت کی ضمانت دیتا ہوں۔ ( بخاری : 6474)
(9) اسلام میں صلہ رحمی یعنی رشتے داروں کے ساتھ اچھے سلوک کا حکم دیا گیا ہے۔ شوہر کے ماں باپ بھائی بہن بیوی کے رشتے دار ہیں اور بیوی کے ماں باپ بھائی بہن شوہر کے رشتے دار ہیں۔ شوہر کو چاہیے کہ بیوی کے سامنے اس کے ماں باپ کی کوئی برائی نہ کرے اور بیوی کو چاہیے کہ شوہر کے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرے۔ ساس سسر کو بھی چاہیے کہ بہو کے کاموں کو خردبین لگا کر نہ دیکھیں ، بلکہ اس کے اچھے کاموں پر اس کی تعریف کریں اور اس کی کوتاہیوں کو نظر انداز کریں۔
(10) بیوی شوہر کی نظرِ التفات کی بھوکی رہتی ہے _ وہ اس کا مرکزِ توجہ بنے رہنا چاہتی ہے _ اس لیے شوہر کو چاہیے کہ بیوی کے ساتھ اچھا وقت گزارے _ اس کے ساتھ خوش طبعی سے پیش آئے اور ہلکا ہنسی مذاق کرے ، اس کے ساتھ کبھی کبھی سیر و تفریح پر جائے _ ایک حدیث میں ہے کہ ام المؤمنين حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اللہ کے رسول ﷺ کو گیارہ عورتوں کا قصہ سنایا _ آپ صبر و سکون سے سنتے رہے _ ان میں سے ایک عورت کا نام ام زرع تھا ، جس کا شوہر اس سے بہت پیار کرتا تھا _ پورا قصہ سننے کے بعد آپ نے فرمایا : ” میں تمھارے لیے اسی طرح ہوں جیسے ام زرع کے لیے ابو زرع تھا۔”( بخاری : 5189 ، مسلم : 2448) آپ ام المؤمنين کے ساتھ صحرا میں جاتے اور دوڑ کا مقابلہ کرتے۔ کبھی ام المؤمنين آگے نکل جاتیں کبھی آپ، ام المؤمنین کی دل جوئی کے لیے کبھی آپ انہیں حبشیوں کے کرتب دکھاتے۔
عورت و مرد کے بعض حقوق کے مختلف ہونے کی وجہ ـ مفتی محمد خالد حسین قاسمی نیموی
اسلام نے خواتین کے لیے ترقی و کامیابی کے بلند سے بلند درجے تک پہونچنا جس طرح ممکن بنایا اور انھیں جیسے وسیع تمدنی و معاشی حقوق دیے ہیں، عزت و شرف کے جو بلند مراتب عطا کیے ہیں اوران حقوق و مراتب کی حفاظت کے لیے اپنی اخلاقی اور قانونی ہدایات میں جیسی پائدار ضمانتیں مہیا کی ہیں، ان کی نظیر دنیا کی کسی بھی قدیم و جدید نظام معاشرت میں نہیں ملتی۔
البتہ اسلام کی نظر میں مرد، مرد ہے اور عورت، عورت، زندگی کا نظام چلانے میں دونوں برابر کے شریک ہیں، مرد اور عورت ایک دوسرے سے مل کر نظام انسانی کی تکمیل کرتے ہیں۔ دونوں صنفیں ایک دوسرے کا تکملہ و تتمہّ (Complements) ہیں، ایک دوسرے کا مثنیٰ (Duplicates) یعنی نقل نہیں، دونوں میں ناقابل عبور قسم کے حیاتیاتی فرق پائے جاتے ہیں۔ ان امور کی رعایت کرتے ہوئے دونوں صنفوں میں جس حدتک مساوات قائم کی جاسکتی تھی، وہ اسلام نے قائم کردی؛ لیکن وہ اس مساوات کا قائل نہیں، جو قانون فطرت کے خلاف ہو اور خدا تعالیٰ کے تقاضۂ عدل کے معارض ہو، یا اس کی وجہ سے اس صنف نازک، جس کی نزاکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ کے رسولؐ نے اس کو ’’قواریر‘‘ یعنی آبگینہ اور شیشہ قرار دیکر اس کے ساتھ رفق اور نرمی کا حکم دیا۔ لہذا جہاں جہاں حقوق کی بنیاد اور اختیارات کے منشاء میں یکسانیت ہوتی ہے، وہاں شریعت اسلامیہ،حقوق کے حوالے سے مرد اور عورت کے درمیان مکمل مساوات قائم کرتی ہے۔ اور جہاں جہاںمنشاء حقوق مختلف ہوتے ہیں وہاں دونوں کے حقوق و اختیارات بھی مختلف ہوجاتے ہیں، یہی اللہ تعالیٰ کے عدل کا تقاضا ہے اور اسی میں دونوں کے ساتھ انصاف بھی ہے۔
مثلاً شریعت اسلامیہ، واجبات ایمان لوازم عقائد اور عبادات: نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ وغیرہ کی فرضیت اور اس کی ادائیگی پر مرتب ہونے والے ثواب میں مرد و عورت کے درمیان مکمل مساوات قائم کرتی ہے؛ اس لیے کہ عقائد و اعمال کے مکلف ہونے کی بنیاد عاقل و بالغ ہونے پر ہے۔ اور یہ صفت مرد اور عورت دونوں میں مشترک ہے۔ اسی طرح جان ومال میں تصرف اور نکاح کا اختیار اور اشیاء کی ملکیت، دوسروں کو مالک بنانے اور دیگر مالی لین دین کا حق بھی اسے مردوں کی طرح حاصل ہے۔ اس لیے کہ اس کی بنیاد شخصی آزادی پر ہے اور شخصی آزادی میں مرد و عورت دونوں برابر ہیں۔
تعدد ازدواج کا حق:
لیکن تعدد ازدواج، یعنی ایک سے زیادہ شادی کرنے اور ایک وقت میں ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کاحق شریعت اسلامیہ چند شرطوں کے ساتھ صرف مردوں کو دیتی ہے، عورت کو نہیں، اس لیے اگر یہ حق عورتوں کو بھی دے دیا جاتا تو اس صورت میں سماج میں بدترین خرابیاں پیدا ہوتیں۔ پیدا ہونے والے بچوں کا نسب خلط ملط ہوجاتا۔ ناجائز اولاد کی کثرت ہوجاتی۔ جب کہ مرد کو یہ حق دینے میں مذکورہ خرابیاں لازم نہیں آتیں۔
پھر یہ کہ تعدد ازدواج کا حق مرد کو یوں ہی تفریحاً نہیں دیا گیا۔ بلکہ یہ حق ضرورت کی بنیاد پر ہے۔ کیوں کہ ہر شخص برابر نہیں، بلکہ ایک دوسرے کے بنسبت زیادہ قوی الشہوہ ہوتا ہے لہذا بعض اوقات مرد کے لیے ایک سے زیادہ عورت کی طلب ایک فطری تقاضا ہوتا ہے۔ اگر اس تقاضے کو مہذب اور قانونی طور پر پورا نہیں کیا جائے تو اس صورت میں مرد چور دروازے سے گناہ میں مبتلا ہوکر بے راہ روی کا شکار ہوجائے گا اور معاشرے میں بدکاریاں عام ہوتی چلی جائیں گی۔ (جیسا کہ آج کل عملی طور پر مغربی ممالک کے اخلاق باختہ معاشرے میں ہورہا ہے) اس کے علاوہ ایک سبب یہ بھی ہے کہ دنیا میں ہمیشہ مردوں کی تعداد عورتوں کی تعداد سے کم رہی ہے۔ اس لیے کہ جنگوں اور حادثوں میں عام طور پر مردوں کی جان کا اتلاف زیادہ ہوتا ہے۔ اور ایک حدیثع میں بھی اس کی پیشین گوئی کی گئی ہے (بخاری ۲؍۷۸۷) اگر مرد کو ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کی اجازت نہیں دی جائے تو بہت سی عورتیں غیرشادی شدہ رہ جائیں گی۔
اسی طرح ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ بسا اوقات پہلی بیوی خطرناک مہلک بیماری میں مبتلا ہوجاتی ہے اور شوہر کے لیے اس سے صحبت کرنا ممکن نہیں رہتا۔ یا اگر بیوی بانجھ ہو اور شوہر خاندان کی بقاء کے لیے اولاد کی شدید خواہش رکھتا ہو، تو ایسی صورت میں دوسری عورت سے شادی کرنا ایک واقعی ضرورت بن جاتی ہے اور اس ضرورت کی تکمیل ہی میں انسانیت اور معاشرے کی بھلائی ہے۔ اسلام نے اس فطری اور واقعی ضرورت کی تکمیل کی۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ایک سے زیادہ بیوی رکھنے کے لیے مرد پر سخت شرطیں بھی عائد کردیں کہ وہ تمام بیویوں کے ساتھ یکساں برتائو کرے اور شوہر پر لازم قرار دیا کہ وہ دونوں بیویوں کے تمام واجب حقوق ادا کرے۔ اور ان کے درمیان خوراک و پوشاک اور شب گذاری میں برابری کرے، ورنہ پھر وہ ایک بیوی پر اکتفا کرے۔ جس کی طرف قرآن کریم نے ’’فواحدۃ‘‘ سے اشارہ کیا ہے۔ فان خفتم ان لاتعدلوا فواحدۃ (النساء۳) تو اگر تمہیں خوف ہو کہ تم بیویوں کے درمیان عدل نہیں کر پاؤ گے تو صرف ایک پر اکتفا کرو۔
بچوں کی پرورش کا حق:
کبھی مرد و عورت کے احکام اس لیے مختلف ہوتے ہیں کہ عورتیں اس ذمہ داری کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے انجام دے سکتی ہیں۔ مثلاً: حضانت یعنی بچوں کی پرورش و پرداخت کا حق اسلام نے صرف عورتوں کو دیا ہے۔ مردوں کو نہیں؛ اس لیے کہ بچوں کی پرورش کے لیے جو صلاحیتیں درکار ہیں؛ وہ عورتوں میں بدرجہ اتم پائی جاتی ہیں۔ جب کہ مردوں میں ناقص ہوتی ہیں۔ وہ صحیح طور پر بچوں کی پرورش نہیں کرسکتا ہے۔
تنہا سفر کرنے کا حق:
بعض اوقات مرد اور عورت کے احکام میں اس وجہ سے فرق ہوتا ہے کہ اگر دونوں میں مساوات کردی جائے تو مفاسد پیدا ہوسکتے ہیں اور عورت کی بے عزتی و بے حرمتی یا دوسرے نقصانات کا خطرہ ہوتا ہے۔ جیسے کہ عورت کے لیے تنہا بغیر محرم کے حج کرنے یا اڑتالیس میل سے زیادہ کا سفر کرنے، (ترمذی ۱؍۲۲۰) غیر محرموں کے ساتھ آزادانہ میل و جول رکھنے اور مخلوط مجالس و محافل میں شرکت کی ازروئے شریعت اجازت نہیں ہے۔ اس لیے کہ مذکورہ صورتوں میں اگرچہ بعض فوائد بھی محتمل ہیں؛ لیکن نقصان کا خطرہ زیادہ ہے۔ اور شرعی قاعدہ ہے: ’’دفع المضرّۃ اولیٰ من جلب المنفعۃ‘‘ یعنی مضرت کی چیزوں کو دور کرنا منفعت کو حاصل کرنے سے بہتر ہے۔
طلاق کا حق:
طلاق دینے کا حق صرف مردوں کو دیا گیا ہے، عورتوں کو نہیں دیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ طلاق کے نتیجے میں سراسر مادی ومالی نقصان مرد ہی کا ہوتا ہے کہ اسے مہر کی صورت میں ایک خطیر رقم کی ادائیگی کرنی پڑتی ہے، عدت خرچ دینا پڑتا ہے، اگر اس عورت کے زیر پرورش بچے بھی ہوں؛ تو اگر لڑکا ہو تو سات سال کی عمر تک اور اگر لڑکی ہو تو بالغہ ہونے تک، پرورش و پرداخت کا حق تو ماں کا ہوتا ہے؛ البتہ بچہ اور اس کی ماں کے تمام تر اخراجات بھی باپ کو برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ (ردالمحتار باب الحضانہ) جب کہ عورت کے لیے مالی مدد کی متعدد شکلیں نکل آتی ہیں۔ لہذا اگر عورت کو طلاق کا حق دیا جاتا تو بہت سارے فتنے پیدا ہونے کا امکان تھا۔ اس لیے کہ وہ بسااوقات اپنی مالی منفعت اور مادّی فائدے کے حصول کی خاطر ایک شوہر کو طلاق دے کر دوسرے مرد سے شادی کرلیتی اور پھر اس سے مادی اغراض حاصل کرکے اسے بھی طلاق دے دیتی۔ اس طرح وہ طلاق دینے کو ایک طرح کی تجارت اور پیشہ بناسکتی تھی۔ ظاہر ہے کہ اس سے معاشرتی نظام ٹوٹ پھوٹ کر رہ جاتا اور اس کے تاروپود منتشر ہو جاتے۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ عورت کو مجبور محض بنادیا گیا ہے۔ بلکہ اگر واقعتا شوہر سے اسے جائز شکایت ہو اور وہ اس سے جدا ئی کی خواہاں ہو تو اس کے لیے اسلام نے اسے خلع کرنے اور نکاح فسخ کرانے کا اختیار دیا ہے۔ یہ بھی قابل لحاظ ہے کہ مرد کو جو طلاق کا اختیار دیاگیا ہے، وہ بھی علی الاطلاق نہیں؛ بلکہ مختلف مراحل سے گذرنے کے بعد آخری چارۂ کارکے طور پر ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر بیوی کی کسی غلطی کی وجہ سے زوجین کے درمیان کچھ تنائو پیدا ہوجائے تو قرآن کریم نے اس کا حل یہ بتایا ہے کہ بیوی کو سب سے پہلے سمجھایاجائے، پندوموعظت سے کام لیا جائے، اگر بیوی اس کے باوجود نافرمانی پر کمربستہ ہو تو چند دنوں بستر الگ کرلیاجائے، تاکہ اسے اپنی کوتاہی کا احساس ہو، اگر اس سے بھی کام نہ چلے اور عورت میں اصلاح کے آثار نمایاں نہ ہوں تو معمولی سرزنش کی بھی اجازت دی گئی ہے، اگر مذکورہ تمام مراحل سے گذرنے کے باوجود تعلقات میں سدھار نہ آئے تو سماج کے سمجھ دار لوگوں کا فریضہ ہے کہ وہ بیچ میں پڑ کر صلح کرانے کی کوشش کریں، اگر مذکورہ تمام کوششوں کے باوصف باہمی اختلاف دور نہ ہوسکے اورنباہ کے آثار نظر نہ آئیں تو اس آخری مرحلہ میں اسلام نے مرد کو طلاق کی اجازت دی ہے، معلوم ہوا کہ طلاق ایک ناخوش گوار ضرورت ہے اسی لیے طلاق کو ’’ابغض الحلال‘‘ یعنی جائز چیزوں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ قراردیا گیا۔
ترکہ میں عورت کا حق:
وراثت کے حوالے سے یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا کے کسی بھی مذہب، قوم اور ملک نے عورت کو ترکہ کا مستحق نہیں قرار دیا ہے۔ عورتوں کی وراثت کے حوالے سے عربوں کی حالت کچھ زیادہ ہی ابتر تھی۔ ان کے ہاں ’’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ کا اصول کارفرما تھا کمزوروں، بچوں، بوڑھوں، عورتوں، غریبوں اور یتیموں کو قریب نہیں پھٹکنے دیاجاتا، ان کا کہنا تھا ’’کیف نعطی المال من لا یرکب فرسا ولا یحمل سیفا ولا یقاتل عدوا‘‘ (المواریث، ص:۱۲) یعنی میراث کے مستحق وہ لوگ کیسے ہوسکتے ہیں جو نہ گھوڑے پر سوار ہوتے ہیں؛ نہ تلوار اٹھاتے ہیں اور نہ ہی دشمنوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ اسلام نے اس ظالمانہ قانون کا خاتمہ کیا اور اس نے بالکل مرد ہی کی طرح عورت کو بھی ترکہ کا مستحق قراردیا ہے؛ بلکہ مردوں کے بالمقابل عورتوں کو ایک گونہ فوقیت حاصل ہے کہ عورت عام طور پر وراثت سے محروم نہیں ہوتی ہے، تاہم اسلام نے بعض ضروری مصالح کی بناء پر مرد اور عورت کو ملنے والے حصے میں فرق کیا ہے۔ کہ عورت کو زیادہ تر صورتوں میں مرد سے آدھا حصہ ملتا ہے اور مرد کو عورت کے مقابلے میں دوگنا حصہ ملتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ’’للذکر مثل حظّ الأنثیین‘‘ اس فرق کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی قانون کی رو سے عورت پر کوئی خرچ، یہاں تک کہ اپنا خرچ بھی لازم نہیں ہے؛ بلکہ شادی سے پہلے اس کے اخراجات کی ذمہ داری اس کے اولیاء پر اور شادی کے بعد اس کے شوہر کے ذمہ ہوتی ہے۔ لہذا اسے جتنا کچھ بھی مل رہا ہے، وہ محض اس کی دل جوئی اور عزت افزائی کے لیے ہے۔ اس کے برعکس مردوں پر کئی گنا زیادہ مالی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، وہ نہ صرف یہ کہ اپنے معاش کے سلسلے میں خود کفیل ہوتا ہے؛ بلکہ رشتہ داروں، بال بچوں کے طعام، کپڑے، ادویات تعلیم وغیرہ کا خرچ اور دیگر لازمی اخراجات کا بار بھی اسی پر ہوتا ہے۔ بیوی کے مہر کی ادائیگی پر بھی ایک خطیر رقم صرف کرنی پڑتی ہے۔ اپنی لڑکیوں کی شادی کرنا بھی اسی کے فرائض میں شامل ہے۔ تو ہرچند کہ مرد کو ترکہ میں سے دوگنا حصہ ملتا ہے؛ لیکن اس لازمی اخراجات کے سامنے اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ اور عورت کو اگرچہ مرد کے حصہ کا نصف ملتا ہے؛ لیکن چوں کہ واجبی اخراجات کے لیے اس کے پاس کوئی مصرف نہیں ہے۔ اس لیے وہ نصف بھی اس کے لیے بہت زیادہ ہے۔ اس مصلحت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: الرِّجال قوّامونَ علی النساء بما فضّلَ اللّٰہ بعضَہم علی بعض وبما انفقوا من اموالہم (النساء،۳۴) مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بنا پر کہ مرد (عورتوں کی حاجت پر) اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔ معلوم ہوا کہ اسلام کے نظام وراثت میں عورت اور مرد کے مابین جو فرق ہے؛ وہ اللہ تعالیٰ کے عدل کے عین مطابق ہے۔
عورت کے لیے پردہ کا حکم کیوں؟
اسلام ایک ایسے عفت مآب پاکیزہ معاشرے کی تعمیر کرنا چاہتا ہے، جس میں عورت کی عفت و عصمت محفوظ ہو، اس کی پاک دامنی اور دوشیزگی کو سلامتی حاصل ہو، اس کی معصومیت پر کوئی غلط نگاہ نہ ڈالے، اس کی فطری خوبصورتی کو کوئی شہوت پرست، بیہودگی کے ساتھ نہ گھورے اور اسے ہوسناک نگاہوں کا شکار نہ بنائے۔ اسلام ایک ایسی سوسائٹی دیکھنا چاہتا ہے، جس میں پاکیزہ خیالی اور نیک نیتی کا چلن ہو، صنفی انتشار، لامرکزی ہیجانات اور فحاشی و آوارگی کا رجحان نہ ہو۔ جس کا اصل مقصد یہ ہے کہ معاشرے میں کبھی زنا کاری اور بدکاری کے واقعات قطعاً پیش نہ آئیں؛ اس لیے کہ فواحش و زناکاری ایسی مہلک بیماری ہے؛ جس کے خطرناک اثرات صرف اشخاص و افراد ہی تک محدود نہیں رہتے؛ بلکہ پورے پورے خاندان اور قبیلہ کو اور بعض اوقات بڑی بڑی آبادی کو تباہ کردیتے ہیں۔
تو جس طرح دیگر معاملات میں اسلام کا یہ اصول ہے کہ اس نے جن چیزوں کو بھی انسانیت کے لیے مضر اور نقصان دہ قراردے کر قابل سزا جرم قرار دیا تو صرف اسی پر نہیں؛ بلکہ ان کے مقدمات پر بھی پابندی عائد کردی۔ اسی طرح شریعت نے زنااور بدکاری کے انسداد کلی اور اس کے مکمل روک تھام کے لیے اس کے مبادیات پر بھی پابندی عائد کردی۔ اور اس مقصد کے لیے مرد و عورت میں سے ہر ایک کو چند لازمی ہدایات دی گئیں:
مردوں کو غض بصر یعنی نگاہیں نیچی رکھنے اور پاکیزہ خیالی کا حکم دیاگیا اور بدنظری کو آنکھ کا زنا قراردیا گیا؛ قال رسول اللّٰہ ﷺ: زنا العینین النظر۔(ابودائود:۱؍۲۲۹)
اسی طرح عورتوں کو بھی نظریں بچانے، خیالات پاکیزہ رکھنے اور اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کرنے کا حکم دیاگیا۔ قل للمومنین یغضوا من أبصارہم و یحفظوا فروجہم ذلک ازکی لہم ان اللّٰہ خبیربما یصنعون وقل للمؤمنات یغضضن من ابصارہن و یحفظن فروجہن (النور:۳۱)اے نبی! مومن مردوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کریں یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کا طریقہ ہے۔ یقینا اللہ جانتا ہے جو کچھ وہ کرتے ہیں۔ اور مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت و عفت کی حفاظت کریں۔
مرد و عورت کے بے محابا اختلاط اور میل جول کو ممنوع قرار دے کر عورتوں کو بنیادی طور پر گھر کی چہاردیواری میں رہنے کی ہدایت کی گئی۔ اور زمانۂ جاہلیت کی طرح حسن و جمال کی آرائش اور زیب و زینت کے اظہار کو ممنوع قراردیا گیا۔ وقَرنَ فی بُیوتِکُنَّ ولا تبرَّجنَ تَبَرُّجَ الجاہلیۃِّ الأولیٰ (الأحزاب:۳۳) تم اپنے گھروں میں وقار کے ساتھ بیٹھی رہو۔اور قدیم زمانۂ جاہلیت کے دستور کے موافق بنائو سنگار دکھلاتی نہ پھرو۔
عورتوں کے لیے جھنکار اور آواز والے زیورات کے استعمال، بھڑک دار لباس اور خوشبو کے استعمال اور مخفی زیب و زینت کے اظہار کو ممنوع قرار دے دیا گیا:
ولا یضربن بارجلہن لیبدین ما یخفین من زینتہن (النور:۳۱) اور اپنے پائوں زمین پر اس طرح مارتی ہوئی نہ چلیں کہ جو زینت انہوں نے چھپا رکھی ہے وہ معلوم ہوجائے۔
بوقت ضرورت خواتین کو گھر سے نکل کر ضرورت کی تکمیل کے لیے باہر جانے کی اجازت دی گئی؛ لیکن اس کو اس شرط کے ساتھ مشروط کردیاگیا کہ نکلنا بے محابا نہ ہو؛ بلکہ نکلتے وقت پوری طرح باپردہ ہوکر نکلیں؛ برقع یا لمبی چادر سے پورے بدن کو چھپا لیں۔
یایہا النبی قل لازواجک و بناتک ونساء المؤمنین یدنین علیہن من جلابیبہن، ذٰلک ادنیٰ ان یُعرفن فلایوذین۔(الأحزاب:۵۹)
اے پیغمبر! اپنی بیویوں، بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے گھونگھٹ ڈال لیا کریں۔ اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ پہچان لی جائیں گی اور انہیں ستایا نہیں جائے گا۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی عورتوں کو حکم دیا کہ جب وہ کسی ضرورت سے اپنے گھروں سے نکلیں تو اپنے سروں کے اوپر سے ’’جلباب‘‘ یعنی لمبی چادر لٹکاکر چہروں کو چھپالیں اور راستہ دیکھنے کے لیے صرف آنکھ کھلی رکھیں‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر)
پردے کے سلسلے میں اس قدر تاکیدی احکامات اس لیے دیے گئے ہیں کہ خواتین کی صنف پوری طرح ’’عورت‘‘ یعنی پردے کی چیز ہے؛ جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: المرأۃ عورۃ فاذا خرجت استشرفہا الشیطان (ترمذی:۱؍۲۲۲) کہ عورت سراپا پوشیدہ رہنے کی چیز ہے۔ جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے تو شیطان نما انسان اس کی تاک میں لگ جاتا ہے۔ لہذا شیطان کی فتنہ سامانیوں سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ بلا ضرورت گھر سے نکلیں ہی نہیں۔ اور اگر ضرورت کے تحت نکلنا ہی پڑے تو پوری طرح پردے میں لپٹ کر نکلیں۔
پردہ خواتین کی عفت و عصمت کا محافظ:
حیا کسی بھی سلیم الفطرت عورت کا سب سے بڑا سرمایہ ہے۔ اور اس سرمایہ کاسب سے بڑا محافظ پردہ ہے۔ عورت کی حیاو شرم طبعی کا تقاضہ ہے کہ وہ اپنوں کے سوا غیر مردوں سے پردے میں رہے۔ نہ وہ کسی اجنبی کو دیکھے، نہ کوئی اجنبی اس کو دیکھے۔ بے حیائی، بے پردگی، عریانیت خواتین کی نسوانیت کو مجروح اور اس کی فطرت کو مسخ کرنے والی چیز اور فتنہ و فساد کی داعی ہے۔ بے پردگی اور حیا کبھی بھی ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتی اور کوئی باغیرت خاتون کبھی بھی بے پردگی کو برداشت نہیں کرسکتی۔
چنانچہ ابودائود میں ام خلاّد رضی اللہ عنہا کا یہ واقعہ منقول ہے کہ ان کا بیٹا حضور ﷺ کے ساتھ ایک غزوے میں گیا ہوا تھا۔ جنگ کے بعد جب ان کا بیٹا واپس نہیں آیا تو بے تابی کے عالم میں وہ حضورؐ کی خدمت میں اس حال میں پہنچیں کہ وہ چہرے پر نقاب ڈالے ہوئی تھیں۔ وہاں پہنچ کر دریافت کیا یا رسول اللہ! میرے بیٹے کا کیا ہوا؟ صحابہ کرامؓ نے جواب دیا کہ تمہارا بیٹا تو اللہ کے راستے میں شہید ہوگیا۔ یہ اطلاع ان پر بجلی بن کر گری۔ تاہم انہوں نے مثالی صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ اسی حالت میں کسی شخص نے ان سے پوچھا کہ تم اتنی پریشانی کے عالم میں اپنے گھر سے نکل کر آئی ہو، پھر بھی تم اپنے چہرے پر نقاب ڈالی ہوئی ہو۔ اس ہنگامی موقع پر بھی تم نقاب ڈالنا نہ بھولیں۔ جواب میں امّ خلاّدؓ نے کہا: ان ازرأ ابنی فلن أزرأ حیائی یعنی میرا بیٹا تو فوت ہوگیا ہے لیکن میری حیا کا ابھی جنازہ نہیں نکلا ہے کہ میں بے پردہ یہاں آجاتی۔ (ابودائود کتاب الجہاد، ۳۳۷)
اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک روز میں آں حضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر تھا۔ آپ نے صحابہ سے سوال کیا کہ بتلائو کہ عورت کے لیے کون سی بات سب سے بہتر ہے؟ صحابہ کرامؓ خاموش رہے۔ کسی نے جواب نہیں دیا۔ پھر جب میں گھر گیا اور حضرت فاطمہؓ سے میں نے یہی سوال کیا تو انہوں نے فرمایا کہ: لا یرین الرجال ولا یرونہنکہ عورت کے لیے سب سے بہتر چیز یہ ہے کہ نہ وہ مردوں کو دیکھیں، نہ مرد ان کو دیکھیں۔ میں نے ان کا جواب رسول اللہ سے نقل کیا تو آپ نے فرمایا کہ فاطمہؓ میری لخت جگر ہیں، اس لیے وہ خوب سمجھیں۔(مسند بزار، دارقطنی) معلوم ہوا کہ جنتی عورتوں کی سردار کی نگاہ میں عورتوں کے لیے سب سے بہتر چیز پردہ ہے۔
صحابیات کا یہ حال تھا کہ زندگی تو زندگی، شدت حیا کی بنیاد پر مردوں سے ان کی موت کے بعد بھی پردہ کیا کرتی تھیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جس حجرۂ مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں اس کمرہ میں میں جب داخل ہوتی تو میں پوری طرح پردہ نہیں کرتی تھی۔ میرا یہ خیال تھا کہ اس حجرے میں میرے شوہرؐ اور میرے والد ابوبکرؓ کے علاوہ کوئی اور مدفون نہیں ہے۔ اور ان دونوں سے پردہ نہیں ہے؛ لیکن جب ان کے ساتھ حضرت عمرؓ بھی دفن کردیئے گئے تو بخدا اس کے بعد میں جب بھی حجرۂ مبارکہ میں جاتی تو حضرت عمرؓ سے حیا کی وجہ سے پوری طرح باپردہ ہوکر جاتی تھی۔ (مسند احمد بن حنبل)
معلوم ہوا کہ پردہ وجہ حبس و قید نہیں، بلکہ شرم حیا کا آئینہ دار اور عزت و عصمت اور نزاکت و لطافت کامحافظ ہے۔ اور کسی بھی شریف خاتون کے لیے ایک متاع گراں مایہ ہے۔ لیکن جب کسی سے حیا کا مادہ ختم ہوجائے؛ تو لازمی طور پر وہ پردہ کو بوجھ سمجھے گی۔ اور بے پردگی کو آزادی خیال کرے گی۔ اور آزادی کے زعم کے تحت وہ سب کچھ کرے گی جس سے انسانیت کا سرشرم سے جھک جائے۔ حقیقت ہے: اذا فاتک الحیاء فاصنع ماشأت۔ بے حیا باش! ہرچہ خواہی کن! اور یہ کوئی مفروضہ نہیں بلکہ بے پردگی اور بے حیائی کے نتیجے میں پوری دنیا، بالخصوص یورپ و امریکہ میں فحاشی و بدکرداری کا ایسا مکروہ ترین سیلاب آیا ہوا ہے اور جنسی بے راہ روی اور اخلاق باختگی کا ایسا طوفان آیا ہوا ہے؛ جسے دیکھ کر شیطان شرماجائے!
شعبئہ اردو نیتیشور کالج مظفرپور
ہم جس عہد میں زندگی گزار رہے ہیں وہاں خاندان اور سماج کا بکھراؤ ہمارے سامنے ایک بڑا چیلنج ہے۔ ہمارے سماج کی یہ ایک کھلی ہوئی حقیقت ہے کہ بیشتر خاندان انتشار و افتراق کا شکار ہیں۔ یہاں تک کہ بعض انتہائی مذہبی خانوادے بھی آپسی انتشار اور رنجشوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ قابلِ مبارکباد ہیں وہ خانوادے جہاں اتحاد و اتفاق اور محبت کی فضا قائم ہے۔قرآن و حدیث اور سیرتِ النبیﷺ وسیرت الصحابہؓ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں عبادات (نماز، روزہ، حج ، زکوۃ وغیرہ) کے ساتھ ساتھ رشتہ داروں اور قرابت داروں سے معاملات پر بھی بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ آج ہمارے معاشرہ کی صورت حال یہ ہے کہ عبادات کے معاملہ میں ہم قدرے بہتر ہیں۔ مساجد بہت حد تک آباد ہیں۔نماز کے پابند افراد الحمد للہ ہر جگہ موجود ہیں۔ مسلمانوں میں عبادت سے رغبت پیدا کرنے کے لیے باضابطہ محنتیں بھی کی جاتی ہیں۔ لوگوں کو مساجد تک لانے کے لیے جماعتیں نکلتی ہیں۔ دروس ِ قرآن و حدیث کی محفلیں ہر جگہ آراستہ کی جاتی ہیں۔تزکیہ اور تصفیہ کی مجالس بھی قائم کی جاتی ہیں۔ یقینا ان کاوشوں کے مثبت اثرات بھی سامنے آتے ہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود ہمارے سماج میں ایسے افراد ڈھونڈنے سے ملتے ہیں، جن کے معاملات قرابت داروں سے اچھے ہوں۔ کسی کو بھائی سے شکوہ ہے تو کسی کی دوسرے رشتہ داروں سے رنجش ۔افرادِ خانہ کا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا ممنوع ہے۔ المیہ تو یہ ہے کہ بعض ایسے گھرانے جو ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کا فریضہ انجام دیتے ہیں وہاں بھی رنجشوں کے بتوں کی پرستش کی جاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں بے شمار ایسے افراد موجود ہیں جو گھر سے باہر کی دنیا میں انتہائی خوش اخلاق،ملنسار، دیندار اور مثالی نظر آتے ہیں،لیکن اندرون خانہ ان کی دنیا بالکل مختلف ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ باہر کی دنیا کے لوگوں سے ہمارا تعلق جزوقتی ہوتا ہے۔ تھوڑی دیر کے لیے تصنع کے پردے میں خوش اخلاقی کا نمونہ پیش کرنا نسبتاً آسان ہوتا ہے۔ اس کے برعکس افرادِ خانہ سے ہمارا تعلق کل وقتی ہوتا ہے۔ ان سے ہمارے معاملات زیادہ پیش آتے ہیں۔ اس لیے ان کے سامنے اپنا حقیقی چہرا چھپا کر رکھنا ممکن نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں قرابت داروں سے تعلق استوار رکھنے پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
’’اور تم سب اللہ کی بندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، ماں باپ کے ساتھ نیک برتائو کرو، قرابت داروں، یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسنِ سلوک کے ساتھ پیش آئو۔(سورۃ النساء)
’’اُس خدا سے ڈرو جس کا واسطہ دے کر تم ایک دوسرے سے اپنا حق مانگتے ہواور رشتہ و قرابت کے تعلقات کو بگاڑنے سے پرہیز کرو۔ یقین جانو کہ اللہ تم پر نگرانی کر رہا ہے۔(سورۃ النساء)
ایک حدیث میں تو یہاں تک کہا گیا کہ’’اللہ کے نزدیک سب سے برا عمل رب کائنات کے ساتھ شرک کرنا، پھر رشتہ داری توڑنا ہے۔‘‘(صحیح الجامع الصغیر، رقم 166)
ایک حدیث کے الفاظ تو اتنے سخت ہیں کہ ’’سیدنا ابوہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا اولاد آدم کے اعمال جمعرات کی شام اور جمعہ کو اللہ تعالیٰ کو پیش کیے جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ رشتہ توڑنے والے شخص کا کوئی عمل قبول نہیں کرتا۔‘‘
مسلم شریف کی ایک حدیث میں فرمایا گیا کہ ’’رشتہ عرش الٰہی سے آویزاں ہے، وہ پکار پکار کر کہتا ہے کہ جس نے مجھے جوڑا اللہ اسے جوڑے اور جس نے مجھے توڑ دیا اللہ اسے توڑ دے۔‘‘(مسلم 2555)
احادیث شریفہ صلہ رحمی کے انعام اور قطع رحمی کی وعیدوں سے بھری پڑی ہیں۔ افراد خانہ اور رشتہ داروں سے تعلق میں پائداری کے لیے درج ذیل نکات اگر ملحوظ رکھیں جائیں تو ان شاء اللہ بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔
تعاون کا جذبہ: انسان کو سماجی زندگی میں ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ انسان کی فطرت ہے کہ وہ کسی کی عبادت و ریاضت سے جتنا متاثر نہیں ہوتا اس سے کہیں زیادہ متاثراسے لوگوں کا اخلاق و کردار کرتا ہے۔ جو لوگ اچھے برے وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوتے ہیں، فطری طور پر ہمارے دل میں ان کے لیے احترام کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
جذبۂ ایثار : افرادِ خانہ اور رشتہ داروں کے لیے چھوٹی بڑی قربانی پیش کرنے والوں کا تعلق اپنے متعلقین سے اچھا ہوتا ہے لیکن بسا اوقات سب کچھ کرنے کے باوجود ہماری ذرا سی لغزش تعلقات میں کشیدگی کا سبب بن جاتی ہے۔ بعض افراد کے اندر ایثار و قربانی کا جذبہ تو خوب ہوتا ہے لیکن وہ اسے پوشیدہ نہیں رکھ پاتے۔ مثال کے طور پر ایک شخص نے اپنے کسی غریب رشتہ دار کی مالی طور پر مدد کی لیکن وہ اسے پوشیدہ نہیں رکھ پایا اور اپنے دوسرے رشتہ داروں سے اس کا ذکر کر ڈالا۔ یقینا ایسا کرنے سے اُس غریب رشتہ دار کی عزت نفس مجروح ہوگی جس سے رشتے میں کشیدگی اور کدورت پیدا ہو سکتی ہے۔
صبر اور برداشت: صبر اور برداشت کے بغیر کوئی بھی تعلق کبھی پائدار نہیں ہو سکتا۔ بیشتر خاندان میں کشیدگی کی سب سے اہم وجہ افراد خانہ کا عدم برداشت ہے۔چھوٹی چھوٹی باتیں بسا اوقات بڑی بڑی رنجیدگیوں کی وجہ بن جاتی ہیں۔ ایک صاحب اپنے ایک قریبی رشتہ دار کو اپنی بیٹی کا شادی کارڈ دینا بھول گئے۔دونوں گھروں سے پہلے سے انتہائی اچھے مراسم تھے لیکن ایک چھوٹی سی چوک اور دوسری طرف برداشت کی کمی اچھے خاصے تعلق میں بگاڑ کا سبب بن گئی۔
اپنی گھریلو حیثیت کا ادراک: کچھ لوگ گھر سے باہر کی دنیا میں بہت مشہور ہوتے ہیں۔ دنیا انہیں عالم، استاد، دانشور، فنکار وغیرہ کے نام سے جانتی ہے۔ باہر کی دنیا میں ان کی بڑی قدر و منزلت ہوتی ہے۔ ایسے لوگوں کو لگتا ہے کہ گھر میں انہیں ویسی عزت نہیں ملتی۔ اردو میں ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی باضابطہ ایک محاورہ وضع ہو چکا ہے’’گھر کی مرغی دال برابر‘‘۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ باہر کی دنیا میں ہم کتنے ہی بڑے اور مشہور انسان کیوں نہ ہوں گھر میں ہماری حیثیت ایک باپ، بیٹا، بھائی ، ماں ، بہن، بہو وغیرہ ہی کی ہوتی ہے۔ ہمارا گھر اور باہر کا کردار یکساں کبھی نہیں ہو سکتا۔ اگر ہمیں اپنی گھریلو حیثیت کا اداراک نہیں ہوگا تو افرادِ خانہ کے تئیں ہمارے دل میں رنجش پیدا ہوگی۔
ازدواجی زندگی کے مسائل حل کرنے میں کئی ایک پہلو اہم کردار ادا کر سکتے ہیں، ان میں سے ایک مرد اور عورت کی شخصیت کا مطالعہ ہے۔ دونوں کی نوع (gender) چونکہ فرق ہے لہذا میاں بیوی کو عموماً اس بات کا احساس نہیں ہو پاتا کہ دونوں کا مزاج اور سوچنے کا انداز تک فرق ہے۔ وہ ایک ہی بات کو مختلف طرح سے لیتے ہیں؛ ایک بات ایک کے نزدیک اہم تو دوسرے کے نزدیک فضول ہے۔ تو مرد کے لیے ضروری ہے کہ عورتوں کی نفسیات کو جانتا ہو یعنی ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں پر نظر رکھتا ہو۔ اور عورت کے لیے ضروری ہے کہ مردوں کی دنیا سے واقف ہو یعنی ان کی نفسیات سے آگاہی رکھتی ہو۔
دونوں جب تک ایک دوسرے کی شخصیت سے واقف نہیں ہوں گے تو مسائل اپنی جگہ برقرار رہیں گے۔ دونو ں کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ مردوں کی اپنی دنیا ہے اور عورتوں کی اپنی دنیا ہے۔ دونوں ازدواجی زندگی کے بعد ایک دوسرے کی دنیا دیکھنے کا آغاز کرتے ہیں لیکن اس کو سمجھنے میں انہیں کبھی ایک دو سال اور کبھی آٹھ دس سال بھی لگ جاتے ہیں ۔ اور یہ سمجھ اس لیے جلد مکمل نہیں ہو پاتی ہے کہ دونوں کا رشتہ مسابقت اور مقابلے کا ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر حالت حیض میں عورت کی تلون مزاجی (mood swings) کو سمجھنا مرد کے لیے ممکن نہیں ہے کیونکہ اسے کبھی اس کا تجربہ ہی نہیں ہوا ہے۔ عورت صرف اسے بتا سکتی ہے لیکن اسے اپنی تکلیف اور حالت ریئلائز نہیں کروا سکتی ہے۔ البتہ مذہبی مرد کو کچھ اندازہ ہو سکتا ہے کیونکہ جب وہ قرآن مجید میں یہ پڑھتا ہے کہ حیض عورتوں کے لیے ایک تکلیف دہ مرحلہ ہے تو وہ اس قدر ضرور سمجھ لیتا ہے کہ اگر اللہ عزوجل نے اپنی کتاب میں اس تکلیف کا ذکر کیا ہے تو مجھے اسے کنسڈر کرنا ہے کہ ایک اہم معاملہ ہے۔
اسی طرح مرد کی جنسی احساس محرومی (sexual frustration) میں کیا کیفیت ہوتی ہے، یہ بیوی کے لیے سمجھنا مشکل ہے۔ البتہ مذہبی عورت کو کچھ اندازہ ہو سکتا ہے کیونکہ جب وہ حدیث کا مطالعہ کرتی ہے تو اسے نظر آتا ہے کہ حدیث میں یہ ہے کہ جب کوئی بیوی اپنے شوہر کے بستر پر آنے سے ناں کر دے تو اس پر ساری رات فرشتے لعنت بھیجتے ہیں۔ اس سے اس کو اندازہ ہو جاتا ہے کہ مسئلہ حساس ہے اور اسے شوہر کے اس مسئلے کو کنسڈر کرنا ہو گا کیونکہ اس کے دین نے اسے سنجیدہ لیا ہے۔
اللہ سبحانہ تعالٰی نے ہمیں،آپ کو، دنیا کے تمام انسانوں، چرندوں،پرندوں اور دیگر تمام مخلوقات کو پیدا فرماکر اپنے لامحدود انعامات و نوازشات سے سرفراز فرمایا۔ جن میں سے کسی ایک نعمت کا بھی مکمل احاطہ پوری دنیا کے انسان اور جنات ملکر نہیں بھی نہیں کر سکتے ارشاد خداوندی ہے "اگر تم اللہ تعالٰی کے انعام شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے” (ابراہیم) انہیں بیش بہا نعمتوں میں سے ایک بہت بڑی نعمت آل و اولاد بھی ہے۔
جس نعمت کے حصول کی دعا اللہ تعالٰی کے پیارے نبی حضرت ابراھیم خلیل اللہ اورحضرت زکریا علیہما السلام بھی ساری زندگی کرتے رہے، جب بڑھاپے کی عمر کو پہنچے تو اللہ رب العزت نے انہیں بھی اولاد جیسی عظیم الشان نعمت سے نوازا۔
یہی وہ انعام ہے جس کے ذریعے سارا عالم آباد و شاداب ہے، نسل انسانی کے پھلنے،پھولنے، ساری دنیا کو حسن و جمال بخشنے،تاقیامت اولاد آدم کے اضافے اور بقا کا سبب ہے، جو ہماری آن، بان اور شان ہے، جو ہمارے لئے صدقہ جاریہ، ہمارا مستقبل اور ہماری آخرت کا سامان ہے۔
بچے دین فطرت پر پیدا ہوتے ہیں یعنی ہر بچہ پیدائشی طور پر مسلمان ہوتا ہے اور حق کو قبول کرنے کی صلاحیت بڑوں کے بالمقابل بچوں میں زیادہ ہوتی ہے،بچے نرم مٹی کے مانند ہوتے ہیں، ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ ہم بچپن ہی سے اسلامی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کریں، کیونکہ جیسی تربیت ہم بچپن میں دیں گے اسی کا نتیجہ ہم مستقبل میں پائیں گے،جو پودا ہم بچپن میں لگائیں گے اسی کا پھل بڑھاپے میں کھائیں گے۔ نظام قدرت یہی ہے کہ جو چیز زیادہ اعلی و ارفع ہوتی،
اس کے متعلق خداوند قدوس کے احکامات بھی بہت زیادہ اور بڑی تاکید کے ساتھ بیان کئے جاتے ہیں، لہذا دین اسلام میں اولاد کی تعلیم و تربیت، فلاح دنیا و آخرت، عمدہ صفات، صلاح و تقوی، تزکیہ نفس، اچھے اخلاق اور بہترین پرورش پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے، چنانچہ قرآن کریم میں اللہ سبحانہ تعالٰی کا ارشاد ہے: "اے لوگوں! بچاؤ اپنے آپ کو اور اھل و عیال کو ایسی آگ سے جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہے جو انکار کرنے والوں کیلئے تیار کی گئی ہے۔ سورةالتحریم”۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت شریفہ کی توضیح اس طرح فرمائی ہے کہ "ان کو (اپنی اولاد) کو تعلیم دو اور ان کو ادب سکھاؤ”.
فقہائے کرام نے کہا ہے ہر شخص پر فرض ہے کہ اپنے بیوی بچوں کو فرائض شرعیہ اور حلال و حرام کے احکام کی تعلیم سکھا ئے اور اس پر عمل کرانے کی کوشش کرے۔ اولاد کی تعلیم و تربیت کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اس حدیث شریف سے بھی لگایا جاسکتا ہے: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صاحب کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ والدین کے حقوق تو ہم نے جان لیا،اولاد کے کیا حقوق ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کا اچھا سا نام رکھو اور اس کی اچھی تربیت کرو۔ (سنن بیہقی) ایک دوسری حدیث شریف میں نبی علیہ السلام کا ارشاد ہےکہ "کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس اچھے آداب سکھلائے”۔ (بخاری) یعنی اچھی تربیت کرنا اچھے آداب سکھانا اولاد کیلئے سب سے بہترین عطیہ ہے۔
بچے مستقبل میں قوم کے معمار ہوتے ہیں، اگر ان کو صحیح تربیت دی جائے تو اس کا مطلب ایک اچھے اور مضبوط معاشرے کیلئے ایک صحیح بنیاد ڈال دی گئی ہے،بچوں کی اچھی تربیت سے ایک مثالی معاشرہ وجود میں آتا ہے؛ اس لیئے کہ ایک اچھا پودا ہی مستقبل میں تناور درخت بن سکتا ہے۔ بچپن کی تربیت نقش علی الحجر کی طرح ہوتی ہے، بچپن میں اگر بچے کی صحیح دینی و اخلاقی تربیت اور اصلاح کی جائے تو بڑے ہونے کے بعد بھی ان عمل پیرا ہوگا۔ اس کے برعکس اگر درست طریقے سے ان کی تربیت نہ کی گئی تو بلوغت کے بعد ان سے بھلائی کی زیادہ توقع نہیں کی جا سکتی، نیز بڑے ہونے کے جن برے اخلاق و اعمال کا وہ مرتکب ہوگا، اس کے ذمہ دار اور قصور وار والدین ہی ہوں گے، جنہوں نے ابتداء ان صحیح راہنمائی نہیں کی، اولاد کی اچھی اور دینی تربیت کرنا دنیا میں والدین کےلیے نیک نامی کا باعث اور آخرت میں کامیابی کا سبب ہے، جب کہ نا فرمان و بے تربیت اولاد دنیا میں بھی والدین کیلئے وبال جان ہوگی اور آخرت میں بھی رسوائی کا سبب بنے گی۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ: ” اپنی اولاد کو ادب سکھلاو، قیامت کے دن تم سے تمہاری اولاد کے متعلق سوال کیا جائے گا کہ تم نے ان کو کیا ادب سکھایا؟ اور کیسی تعلیم دی؟(شعب الایمان للبیہقی)
لفظ "تربیت” ایک وسیع مفہوم والا لفظ ہے، اس لفظ کے تحت افراد کی تربیت، خاندان کی تربیت، معاشرہ اور سوسائٹی کی تربیت، پھر ان قسموں کی بہت سی ذیلی اقسام داخل ہیں، ان سب اقسام کی تربیت کا اصل مقصد و غرض، عمدہ، پاکیزہ، با اخلاق اور باکردار معاشرہ کا قیام ہے، تربیت اولاد بھی انہیں اقسام میں سے ایک بڑی اہم قسم ہے۔ بالفاظ دیگر "تربیت” کی تعریف یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ برے اخلاق و عادات اور غلط ماحول کو اچھے اخلاق و عادات اور ایک صالح، پاکیزہ ماحول میں تبدیل کرنے کا نام تربیت ہے”۔
بچوں کی تعلیم و تربیت، پرورش و پرداخت، کردار سازی میں سب سے اہم اور مرکزی کردار ماں کا ہوتا ہے، بچوں کیلئے سب سے پہلا مدرسہ(تربیت گاہ) ماں کی گود ہے، بچے کی ذات و صافت میں غیر محسوس طریقے پر ماں کے اقوال و افعال اور اچھے برے اعمال کا مکمل اثر پڑتا ہے؛ چنانچہ ماں اگر دیندار، پرہیز گار، امانت دار، وفا شعار، ضرورت مندوں کی خدمت گار، ضعیفوں کی غمگسار، غریبوں، مفلسوں کی غمخوار، تعلیمی اعتبار لحاظ سے باوقار اور تربیت یافتہ ہو تو بچوں کے اندر بھی وہ تمام عمدہ صفات، اعلی اخلاق، اچھے اطوار بڑی تیزی کے ساتھ سرایت کر جاتے ہیں اور بچہ ایک باکمال، عالی صفات، اور مکارم اخلاق کا نمونہ بن کر معاشرے اور سماج میں آفتاب و ماہتاب کے مانند چمکتا ،دمکتا ہے، اور اپنی پر نور شعاؤں سے بے شمار انسانوں کی راہنمائی و دستگیری کرتا ہے۔
اسی مقصد کے پیش نظر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا "کہ جب تم نکاح کرو تو مال و دولت، جاہ و جلال اور عزت شہرت کو نہیں بلکہ دین دار اور پرہیز گار گھرانے کی لڑکی کو ترجیح دوں تاکہ تمہاری نسلیں بھی دیانت دا اور اخلاق حمیدہ اور صفات عالیہ سے شرسار ہوں۔
ماضی میں بھی جتنی عبقری، انقلابی، عالمی، اور روحانی شخصیات گزریں ہیں، ان میں اکثر حضرات کی ذات و صفات اور تربیت سازی میں ماں کا بہت اہم کردار رہاہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی رحمة اللہ علیہ دنیا جنہیں غوث اعظم کے نام سے بھی جانتی ہے۔ بہت بڑے بزرگ اور ولی کامل تھے، آپ کی ساری زندگی تبلیغ و اشاعت اسلام میں گزری، بے شمار لوگوں نے آپ سے روحانی فیض حاصل کیا۔ آپ کی والدہ ماجدہ بھی بہت زیادہ اللہ تعالٰی سے ڈرنے والی، خلوص و وفا کی پیکر، نیک سیرت، خاتون تھیں۔ جب آپ رحمہ الله شکم مادر میں تھے تو وہ بہت کثرت کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کیا کرتیں تھیں
اور صوم و صلوات کی بہت زیادہ پابند تھیں۔
ماں کی نیک صفات ہی کے نتیجے اور اللہ تعالٰی کے خاص فضل و کرم سے آپ کو قرآن کریم کے اٹھارہ پارے ماں کے پیٹ ہی میں یاد ہوگئے اور آپ جب پیدا ہوئے تو آپ کو قرآن مجید کے اٹھارہ پارے حفظ یاد تھے۔ یہ سب ماں کی نیک نیتی، اور تعلیم و تربیت سے آراستہ ہونے کا ہی نتیجہ تھا۔ حضرت شیخ سیّدنا عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ بچپن میں ایک دفعہ مجھے جنگل جانے کا اتفاق ہوا اور میں ایک بیل کے پیچھے کھڑا ہو کر عام کسانوں کی طرح ہل چلانے لگا میری حیرانگی کی اِنتہا نہ رہی جب اُس بیل نے مجھ سے کلام کیاکہ تم کاشتکاری کے لئے پیدا نہیں ہوئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے تمہیں اِس کا حکم بھی نہیں دیا۔ آپ کو بچپن ہی سے علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا، آپ نے ابتدائی تعلیم تو اپنے قصبہ جیلان میں ہی حاصل کی؛ لیکن دین کی اعلی تعلیم حاصل کرنے کےلیے بغداد جانا پڑتا تھا۔ فرماتے ہیں کہ جب میری عمر ١٨ سال ہوئی تو میں نے اپنی والدہ سے عرض کیا کہ مجھے اِجازت دیجئے تاکہ میں بغداد شریف جا کر علماء کرام سے علم‘ مشائخ طریقت سے طریقت کا فیض حاصل کروں۔
ایک ماں کے لئے ایسے ہونہار‘ اِطاعت شعار اور پیدائشی ولی بیٹے کو اپنے سے جدائی کی اجازت دینا کوئی آسان کام نہ تھا۔ مگر والدہ نے اپنے بیٹے کے اشتیاق کو دیکھتے ہوئے بغداد شریف جانے کی اِجازت مرحمت فرمادی۔ اس زمانے میں گاڑیاں اور موٹر کاریں نہ تھیں اس لیئے لوگ قافلوں کی صورت میں پیدل سفر کرتے تھے۔ چنانچہ آپ کی والدہ نے آپ کو بھی بغداد جانے والے ایک قافلے کے ہمراہ روانہ کردیا، سفر پر روانہ ہونے سے پہلے والدہ نے خوراک اور چالیس اشرفیاں خرچہ کےلیے عنایت فرمائیں، والدہ نے یہ اشرفیاں آپ کی قمیص کی تہ میں سی دیا تاکہ محفوظ رہیں۔
چلتے وقت خاص طور پر آپ کو یہ نصیحت کی کہ بیٹا! "ھمیشہ سچ بولنا اور جھوٹ کے قریب بھی نہ جانا۔ آپ نے ماں کی اس نصیحت کو غور سے سنا اور سفر پر روانہ ہوگئے، قافلہ ڈرتے ڈرتے سفر کیلئے روانہ ہوا، لوگوں کو اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ کہیں راستے میں ڈاکو قافلے پر حملہ نہ کردیں کیوں کہ ان دنوں راستے غیر محفوظ تھے اور ڈاکو اکثر قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے۔ آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا قافلے نے ابھی سفر کی دو منزلیں ہی طے کی تھیں کہ ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے رات کی تاریکی میں اس پر حملہ کر دیا، تمام قافلے میں افراتفری اور بھگدڑ مچ گئی اور ڈاکوؤں نے اہل قافلہ کو خوب لوٹا، ایک ڈاکو شیخ عبدالقادر جیلانی کے پاس آیا اور کہنے لگا: ” لڑکے تیرے پاس کیا ہے؟” آپ نے جواب دیا "میرے پاس چالیس اشرفیاں ہیں جو میری قمیص کی تہ میں سلی ہوئی ہیں”۔ ڈاکوؤں نے آپ کی اس بات کو مذاق سمجھا اور ہنستا ہوا آگے چلاگیا، اس کے بعد ایک اور ڈاکو آپ کے پاس آیا اور وہی سوال کیا، پھر آپ نے وہی جواب دیا، وہ ڈاکو یہ جواب سن کر حیران ہوا اور آپ کو پکڑ کر اپنے سردار کے پاس لے گیا، ڈاکو کے سردار نے تعجب سے آپ کو دیکھا اور پو چھا "لڑکے سچ مچ بتا تیرے پاس کیا ہے”؟
آپ نے وہی بات دہرائی، آپ کی یہ بات سن کر سردار کے حیرت کی انتہا نہ رہی، آپ نے اپنی قمیص کی تہ کو کھولا تو پوری چالیس اشرفیاں زمین پر گر پڑیں، اشرفیاں دیکھ کر ڈاکو کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں، اس نے آپ سے مخاطب ہوکر کہا "لڑکے! تونے سچ بول کر اپنا راز کیوں فاش کر دیا حالانکہ تو آسانیاں سے اپنی اشرفیاں بچا سکتاتھا؟‘‘ آپ نے جواب دیا "میری ماں نے مجھے نصیحت کی تھی کہ بیٹا! ہمیشہ سچ بولنا، میں نے اپنی ماں کی نصیحت پر عمل کیا”۔ آپ کا یہ جواب سن کر سردار اس قدر متاثر ہوا کہ بے ساختہ اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، وہ سوچنے لگا کہ ایک طرف یہ لڑکا ہے جسے اپنی ماں کی نصیحت کا اس قدر خیال ہے، اور دوسری طرف میں ہوں کہ اپنے مالک حقیقی کے احکام سے غافل ہو کر بے گناہ لوگوں کو لوٹتا ہوں۔
اس کے دل سے غفلت کا پردہ اٹھ گیا، اس نے فورا توبہ کرلی اور قافلے کا لوٹا ہوا مال واپس کر دیا، اس طرح آپ کی سچائی اور اور والدہ کی صحیح تعلیم و تربیت کے بدولت ڈاکوؤں کی اصلاح ہو گئی، وہ لوگ نیک، متقی اور پرہیز بن کر اچھی طرح زندگی گزارنے لگے۔
دوستو! یہ ہے حقیقی تعلیم و تربیت کا نتیجہ جس نے ڈاکوؤں کو بھی نور ہدایت سے سرفراز فرمایا اور آج بھی دنیا آپ کے تعلیمات سے فیض یاب ہو رہی ہے،مشرق و مغرب، شمال و جنوب، ہر جانب آپ کے نام کا ڈنکا بج رہاہے۔
تربیت کی دو قسمیں ہیں: 1۔ ظاہری تربیت 2۔ باطنی تربیت
اولاد کی تربیت میں ظاہری اعتبار سے، وضع قطع، لباس، کھانا، پینا، نشست و برخاست، میل جول، اس کے دوست و احباب اور تعلقات و مشاغل کو نظر میں رکھنا، اس کے تعلیمی حالات کی جانکاری اور بلوغت کے بعد ان کے ذرائع معاش کی نگرانی وغیرہ امور اس میں شامل ہیں ، آج کل جو بازاروں میں کھانے کی اشیاء جیسے چائنیز فوڈ، فاسٹ فوڈ، جھنگ فوڈ یعنی میگی، نوڈلز، پیزا، چپس وغیرہ اور پینے کی اشیاء جیسے سوفٹ ڈرنک، کول ڈرنکس یعنی پیپسی، کوکاکولا،سیون اپ، اسپرائٹ اور اس طرح کے تمام ماکولات و مشروبات صحت کے لیے انتہائی مضر اور نقصان دہ ہیں لہذا ان سب چیزوں کے کھانے اور پینے سے حتی الامکان بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
باطنی تربیت سے مراد ان کے عقیدہ، اخلاق کی اصلاح و درستگی، نماز، روزے، سچ بولنے،چھوٹ سے بچنے، اور ایک دوسرے کی عزت و احترام کرنے کی عادات و اطوار اس میں شامل ہیں۔ اولاد کی ظاہری اور باطنی دونوں قسم کی تربیت کے ذمہ فرض ہیں
ماں باپ کے دل اپنی اولاد کےلیے بے حد رحمت و شفقت کا فطری جذبہ اور پایا جاتا ہے وہی فطری جذبات و احساسات ہیں جو بچوں کی دیکھ بھال، تربیت اور ان کی ضروریات کی کفالت پر انہیں ابھارتے ہیں، ماں باپ کے دل میں یہ جذبات راسخ ہوں اور ساتھ ہی ساتھ اپنی دینی ذمہ داریوں کا بھی احساس ہو تو وہ اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن طریقے سے اخلاص کے ساتھ ادا کر سکتے ہیں۔
ارشاد نبوی ہے "اپنی اولاد کو جب وہ سات سال کی ہو جائیں تو نماز کا حکم دو، اور جب وہ دس سال کی ہو جائیں، تو نماز چھوڑنے پر سرزنش وتادیب کرو اور خواب گاہ کو علیحدہ کرو.” (ابوداود)
ایک اور حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے "جو چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں”۔
بچے نرم گیلی مٹی کی طرح ہوتے ہیں، ہم ان سے جس طرح پیش آئیں گے ان کی شکل ویسی ہی بن جائے گی، بچے اگر کوئی اچھا کام کریں تو ان کی حوصلہ افزائی کےلیے تعریف سے دریغ نہ کرنا چاہیے، اس موقع پر انہیں شاباشی اور کوئی ایسا تحفہ وغیرہ ضرور دینا چاہیے جس سے بچیں خوش ہو جائیں اور آئندہ بھی اچھے کام کا جذبہ اور شوق ان کے دلوں میں پیدا ہوجائے-
بچوں سے خطا ہو جانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں، غلطی تو بڑوں سے بھی ہو جاتی ہے، ماحول کا بچوں پر اثر ہوتا ہے، ممکن ہے کہ غلط ماحول کی وجہ سے بچوں سے کوئی غلطی سرزد ہو جائے، تو اس صورت حال کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ بچوں سے غلطی کسی وجہ سے ہوئی؟ اسی اعتبار سے انہیں سمجھایا جائے، تربیت میں میانہ روی اور اعتدال کا راستہ اختیار کرنا چاہیے، مربی کو اس بات سے باخبر ہونا چاہیے کہ اس وقت ان کےلیے نصیحت کارگر ہے یا سزا؟
تو جس قدر سختی اور نرمی کی ضرورت ہو اسی قدر کی جائے، بہت زیادہ سختی اور بہت زیادہ نرمی بھی بعض اوقات بگاڑ کا سبب بنتی ہے۔ پیار و محبت سے بچوں کی تربیت و اصلاح کا ایک واقعہ: حضرت عمر بن ابی سلمہ سے منقول ہے کہ ، میں بچپن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر تربیت اور زیر کفالت تھا، میرا ہاتھ کھانے کے برتن میں ادھر ادھر گھوم رہا تھا، یہ دیکھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ” اے بچے! اللہ کا نام لے کر کھانا شروع کرو، دائیں ہاتھ سے کھاؤ اور اپنی طرف سے کھاؤ”۔ تربیت میں تدریجی انداز اختیار کرنا چاہئے، غلطی پر تنبیہ کی ترتیب یوں ہونی چاہیے: ١ سمجھانا ٢ ڈانٹ ڈپٹ کرنا ٣ مارکے علاوہ کوئی سزا دینا، ۴ مارنا، ٥ قطع تعلق کرنا۔
بچوں کی تربیت کے لیے ماں، باپ یا استاذ کا انہیں ہلکا پھلکا مارنا نہ صرف یہ کہ جائز ہے؛ بلکہ بعض اوقات ضروری ہوجاتاہے، اس معاملے میں افراط و تفریط کا شکار نہیں ہونا چاہیے، غصہ میں بے قابو ہوجانا اور حد سے زیادہ مارنا یا بچوں کے مارنے ہی کو غلط سمجھنا دونوں باتیں غلط ہیں، پہلی صورت میں افراط اور دوسری میں تفریط ہے، اعتدال کا راستہ وہی ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک حدیث میں بیان فرمایا (جو پہلے بھی ذکر کی جاچکی ہے) کہ "بچوں کو نماز کا حکم دو جب وہ سات سال کے ہو جائیں اور ان کو نماز نہ پڑھنے پر مارو جب وہ دس سال کے ہو جائیں” ۔ اس حدیث شریف سے مناسب موقع پر حسب ضرورت مارنے کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔ مارنے میں بھی اس بات کا خیال رکھا جائے کہ اس حد تک نہ مارا جائے کہ جسم پر مار کا نشان پڑجائے۔ نیز جس وقت غصہ آرہا ہو اس وقت بھی نہ مارا جائے؛ بلکہ بعد میں جب غصہ ٹھنڈا ہو جائے تو اس وقت مصنوعی غصہ ظاہر کرکے مارا جائے؛ کیونکہ طبعی غصہ کے وقت مارنے میں حد سے تجاوز کر جانے کا خطرہ ہوتا ہے اور مصنوعی غصہ میں یہ خطرہ نہیں ہوتا، مقصد بھی حاصل ہوجاتاہے اور تجاوز بھی نہیں ہوتا۔
تربیت کے ساتھ ساتھ بچوں کےلیے جو سب سے اہم اور ضروری چیز ہے وہ تعلیم ہے، تعلیم ہی کے ذریعہ انسان کو دنیا میں آنے کا صحیح مقصد معلوم ہوتا ہے، خدا اور اس کے رسول کی پہچان، آخرت، جنت ،جہنم، ملائکہ، بعث بعد الموت کا علم، نیز صحیح اور غلط کی تمیز، حرام و حلال کا تصور، حقوق اللہ اور حقوق العبادکی معرفت، آداب معاشرت کی اہمیت اسی علم دین کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے، علم دین ہی ایک ایسا نور جس کی روشنی سے انسان دنیا کی فلاح، آخرت کی دائمی کامیابی اور اللہ رب العزت کی رضا و خوشنودی حاصل کرسکتا ہے، اسی لیے خالق کائنات نے اپنے پیارے حبیب نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ جبرئیل امین کی معرفت انسانوں کو جو سب سے پہلا پیغام دیا وہ علم ہی کا ہی پیغام تھا، قرآن کریم کی سب سے پہلی آیت میں ارشاد باری تعالٰی ہے: "پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھرے سے پیدا کیا، تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑے کرم والا ہے، جس نے قلم کے ذریعے(علم) سکھایا، جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا”۔اقرا
اللہ تبارک و تعالٰی نے توحید و رسالت، عبادت و ریاضت، اخلاق حسنہ اور نیک صفات کا ذکر کرنے کے بجائے، محض علم کی برتری اور عظمت کے اظہار کےلیے اپنی مقدس کتاب کی سب سے پہلی آیت میں علم کا تذکرہ فرمایا تاکہ لوگ علم کی رفعت اور اہمیت و افادیت کو جان لیں اور اس نعمت عظمی کو سب سے پہلے حاصل کریں۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” علم و حکمت عزت دار آدمی کو اور زیادہ عزت بخشتا ہے اور غلام کو بلند کرتے کرتے بادشاہوں کے تخت پر بٹھا دیتاہے۔ کسی نے خوب کہا ہے: ” دلوں کےلیے علم اسی طرح زندگی ہے جس طرح مینہ سے زمین زندہ ہوجاتی ہے، علم جہالت کو دل سے اسی طرح زائل کر دیتا ہے جس طرح چاند گھنے اندھیرے کو-
علم ہی وہ نعمت ہے جس کی وجہ سے انسانوں کو ملائکہ (فرشتوں)جیسی عظیم الشان مخلوق پر فوقیت حاصل ہوئی
علم ہی وہ جوہر ہے جو انسانوں کی عزت و سر بلندی کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالٰی نے علم ہی کی بدولت انسانوں کو تمام کائنات میں افضل و اشرف بنایا اور زمین میں اپنی خلافت کا تاج پہنایا۔ علم کے بدولت ہی انسان کو اشرف المخلوقات(مخلوقات میں سب سے افضل)کا درجہ ملا ورنہ دیگر اوصاف میں تو حیوان بھی انسان کے شریک ہیں۔ حضرت عبداللہ ابن مبارک رحمةاللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حقیقت میں انسان علم ہی کی وجہ سے دوسرے حیوانات پر شرف رکھتا ہے نہ کہ طاقت و قوت کی وجہ سے کیوں کہ طاقت میں دوسرے جانور انسان سے بڑھے ہوئے ہیں، نہ موٹاپے کی وجہ سے کہ ہاتھی موٹاپے میں زیادہ ہے، نہ بہادری کے وجہ سے کہ درندہ انسان سے زیادہ بہادر ہوتا ہے، نہ کھانے کی وجہ سے کہ کھانے میں بیل انسان سے بڑھ کر ہے، اور نہ صحبت کی خواہش کی وجہ سے کہ چڑیا اس میں انسان سے آگے ہے، معلوم ہوا کہ صرف علم کی وجہ سے انسان یہ شرف رکھتا ہے، اور یہ علم صرف انسان ہی کو بخشا گیا ہے۔ دنیا میں چار ذی شعور مخلوقات ہیں، انسان، ملائکہ، جنات، اور حیوانات ان میں انسان کے علاوہ کسی کو یہ علم عطا نہیں کیا گیا، کسی کو قدر نصیب ہوا بھی تو انسان ہی کے طفیل اور اس کے واسطے سے ہوا۔
حضرت حسن بصری رحمة الله عليه کا ارشاد گرامی ہے کہ اگر علما نہ ہوتے تو لوگ جانوروں کے مانند ہوتے کیونکہ تعلیم اور علم ہی کے ذریعہ انسان حد بہیمیت سے نکل کر حد انسانیت میں کی طرف آتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک مشہور خطبے میں ارشاد فرمایا آدمی اپنے علم و ہنر سے ہی آدمی ہے، آدمی کا رتبہ اتنا ہی ہے جتنا کہ اس کا علم، لہٰذا علم میں گفتگو کرو تاکہ تمہارے رتبے ظاہر ہوں۔
انہیں کے یہ اشعار بھی ہیں جن کا ترجمہ یہ ہے: صورت کے لحاظ سے تمام آدمی یکساں ہیں، باپ آدم اور ماں حوا ہیں، سب میں ایک ہی قسم کی جان ہے، روحیں بھی مشابہ ہیں، سب میں ہڈیاں اور اعضا ہیں۔ ہاں! فضیلت ہے تو صرف علم کو ہے وہ طالبان ہدایت کیلئے راہنما ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا "آپ فرما دیجیے ! کیا اہل علم اور جاہل برابر ہو سکتے ہیں؟ یقینا عقل والے ہی نصیحت حاصل کرتے ہیں”۔(زمر) یعنی علم والے اور جاہل برابر نہیں ہو سکتے۔
نبی اکرم، شفیع اعظم، رحمت دو عالم، صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا "علم کا حاصل کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے”۔
لہذا تمام والدین کی یہ بنیادی ذمہ داری ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کی طرف خصوصی توجہ فرمائیں اور ان کے تمام حرکات و سکنات پر گہری نگاہ رکھیں اور انتہائی حکمت و دانائی کے ساتھ بچوں کی ذہن سازی بھی کی جائے تاکہ ایک اچھی نسل تیار ہو جو والدین کے ساتھ ساتھ پوری قوم اور ملک و ملت کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو، اللہ تعالٰی ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بیٹی کے قتل کرنے کا رجحان ماضی قریب میں تیزی سے بڑھاہے اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس رجحان نے ملک میں قدرتی اور فطری جنسی نیز صنفی توازن کو تہہ وبالا کرکے رکھ دیا ہے ، کئی صوبوں میں مسئلہ یہ پیدا ہوگیا ہے کہ لڑکوں کو دلہن بنانے اور بیاہ لانے کے لئے لڑکیاں دستیاب نہیں ہیں ، اور انہیں دوسرے صوبوں کی طرف دیکھنا پڑ رہا ہے۔
صنفی توازن کواپنے طور پر غیر متوازن کرنے کی کئی وجوہات ہیں ، پہلی وجہ تو یہ ہے کہ لڑکی کی شادی کے لئے مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں گھوڑے ، جوڑے ، سلامی اورجہیز کی جو بیماری بڑھتی رہی ہے ، اس نے اس رحجان کو فروغ دیا کہ لڑکیوںکودنیا میں آنے نہ دیا جائے، الٹراسائونڈ اور جانچ کی دوسری سہولتوں کی وجہ سے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ حالت حمل میں ہی جنین کا پتہ چلالیا جائے ایسے میں شادی کے بکھیروں اورکمائی کا بڑا حصہ تلک وجہیز کے نام پر لڑکے والوں کو دینے سے بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اسے دنیا ہی نہ دیکھنے د ی جائے ۔سرکار کو اس مسئلے کی سنگینی کا احساس ہے، اس لیے اس نے الٹراساؤنڈ کے ذریعہ حالت حمل میں جنس کا پتہ چلانے کو غیر قانونی قرار دیا ہے، اور الٹرا ساؤنڈ سے متعلق دکانوں پر اس مضمون کا بورڈ آویزاں بھی رہتا ہے، لیکن اس کی پرواہ کو ن کرتا ہے ، دوسرے بہت سارے غیر قانونی کاموں کی طرح یہ کام بھی معقول رقم پکڑانے پر ہو جاتا ہے اور اگر بچی ثابت ہوئی تو ماں کے پیٹ کو ہی اس کی قبر بنا دی جاتی ہے، قیامت میں اس کے بارے میں بھی سوال ہوگا کہ کس جرم کی پاداش میں قتل کی گئیں۔
اسلا م میں معاملہ اس کا الٹا ہے ، یہاں بیٹی اللہ کی رحمت ہے ، جنت میں لے جانے کا سبب ہے ، بیٹی بیوی بن جائے تو شریک حیات بن کر گھرکوپرسکون بنانے کا ذریعہ ہے ، اور جب وہ ماں بن جائے تو اس کے قدموں تلے جنت ہے ، بہن ہے تو اپنے بھائیوں اور خاندان کے لئے مونس وغم خوار ہے اور یہ عورت ہی ہے جو بڑی مصیبت اٹھا کر ہمیں دنیا میں لانے کا ذریعہ بنی ۔یہاںشادیوں میںلڑکی والے پر کوئی مالی بوجھ نہیں ہے ،نان ونفقہ ، رہائش کے لئے مکان وغیرہ کی فراہمی لڑکے کے ہی ذمہ ہے ، خوشی میں بھوج دینا بھی جسے ولیمہ کہا جاتا ہے،اسی کی ذمہ داری، ان سارے اخراجات کے ساتھ مہر کی ادائیگی بھی نکاح کے بنیادی لوازمات میں سے ہے ، اس لئے مسلمانوں کے یہاں دختر کشی کا یہ عمل نسبتا ً کم ہے ،یہ اور بھی کم ہوسکتا ہے اگر ہم شریعت کے احکام کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے سلامی اور جہیز کے ذریعہ معیار زندگی بڑھانے کا خیال دل سے نکال دیں ، بدقسمتی سے یہ بیماری بہت سارے علاقوں میں مسلم سماج میںبھی داخل ہوگئی ہے ، جس کی وجہ سے بڑی عمر تک لڑکیوں کے ہاتھ پیلے نہیں ہو پارہے ہیں، حیدر آباد ، بھوپال وغیرہ میں بڑی تعدادمیں لڑکیاں کنواری بیٹھی ہوئی ہیں ، اس صورت حال میں دخل کفو کے نام پر غیر ضروری میچنگ دیکھنے کا بھی ہے ، دین داری اصل ہے ، اس میںبرابر ی کا تصور کم ہوتا جارہا ہے اور اس کی جگہ دوسری مختلف چیزوں کو ناک کا مسئلہ بنالیا گیا ہے ، شریعت کا مطالبہ صرف یہ ہے کہ ایسا رشتہ جس کے دین واخلاق سے اطمینان ہو ، اس کو قبول کرلینا چاہئے ، اگر ایسا نہیں کیا گیا تو زمین میں بگاڑ پیدا ہونے کا خطر ہ ہے ۔واقعہ یہ ہے کہ ہماری بدعقلی ، بے شعوری اور شرعی احکام کی ان دیکھی کی وجہ سے بگاڑ پیدا ہوچکاہے ، اور مختلف مذاہب کے مابین غیر شرعی شادی کا مزاج بڑھتا جارہاہے اور ہماری لڑکیاں محفو ظ نہیں ہیں ۔
ان دنوں لڑکیاں ایمان وعقیدہ کے اعتبار سے بھی غیر محفوظ ہو رہی ہیں، آئے دن غیر مسلموں کے ساتھ ان کے رشتے کی خبر آ رہی ہے ، فرقہ پرست طاقتور کی طرف سے اسے مہم کی شکل دی گئی ہے، پہلے وہ لوگ بھولی بھالی مسلم لڑکیوں کو پیار محبت کے جھانسے میں پھنساتے ہیں، پھر انہیں شادی کی پیش کش کرتے ہیں، اور جب وہ شادی کے لیے تیار ہوجاتی ہیں تو ان کا مذہب تبدیل کراکر ہندو رسم ورواج کے مطابق ان سے ساتھ پھیرے لگوائے جاتے ہیں، کچھ دنوں کے بعد جب جی بھر جاتا ہے تو ان لڑکیوں کا قتل کرادیا جاتا ہے اور لاش کسی ریل کی پٹری پر مل جاتی ہے، حکومتی سطح پر اسے خود کشی قرار دے کر فائل بند کر دی جاتی ہے ، بیٹیوں کی حفاظت کے لیے ہمیں ان اسباب وعوامل پر بھی غور کرنا چاہیے، جس کی وجہ سے اس قسم کے واقعات پیش آتے ہیں، مخلوط تعلیمی اداروں میں جوان لڑکے لڑکیوں کا ایک ساتھ پڑھنا، موبائل کا استعمال ، شادی میں تاخیر وغیرہ اس ارتداد کے بنیادی اسباب ہیں، گارجین اور والدین کی تعلیم وتربیت میں کمی اور نگرانی کے ختم ہوتے رجحانات بھی اس کلچر کو فروغ دینے میں بڑی حصہ داری نبھاتی ہے، اس لیے بیٹیوں کے ایما ن وعقیدہ، عزت وآبرو کی حفاظت کے لیے انتہائی مستعدی کی ضرورت ہے اور ظاہر ہے جو اسباب وعوامل ہیں اس کو دور کیے بغیر ہم بیٹیوں کی حفاظت نہیں کر سکتے۔
کونسلنگ کے لیے مسلم پرسنل لا سے واقفیت ضروری ـ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
جماعت اسلامی ہند نے پورے ملک میں فیملی کونسلنگ سینٹرس قائم کرنے کا منصوبہ بنایا ہے ، تاکہ نکاح کے کچھ عرصے کے بعد افرادِ خاندان اور خاص طور پر میاں بیوی کے درمیان جو اختلافات سر ابھارنے لگتے ہیں انہیں ابتدا ہی میں ختم کیا جاسکے اور خوش گوار تعلقات بحال کیے جاسکیں ـ اس کے لیے ہر ریاست میں ایسے سینٹرس قائم کیے گئے ہیں اور مزید کے قیام کا منصوبہ ہےـ یہ کام جماعت کے شعبۂ اسلامی معاشرہ اور شعبۂ خواتین دونوں کے ذریعے انجام پارہا ہےـ جو مرد حضرات اور خواتین کونسلنگ کے کام میں لگے ہوئے ہیں ان کی تربیت کے لیے وقتاً فوقتاً ورک شاپس منعقد کیے جاتے ہیں ـ ایسا ہی ایک دوروزہ آن لائن ورک شاپ راجستھان کے شعبۂ خواتین کی جانب سے منعقد ہوا ، جس میں ساٹھ (60)خواتین شریک ہوئیں ـ کونسلنگ کے موضوع پر ماہرین نے اظہارِ خیال کیا اور شریک خواتین کے گروپس بناکر انہیں کونسلنگ کی تربیت دی گئی ـ اس ورک شاپ میں راقمِ سطور سے ‘کونسلنگ کے کام میں مسلم پرسنل لا سے واقفیت کی اہمیت’ پر اظہارِ خیال کرنے کے لیے کہا گیاـ میری گفتگو درج ذیل نکات پر مشتمل تھی :
(1) کونسلنگ کے خواہش مندوں کی غالب اکثریت مسلمان ہوتی ہےـ وہ اسلامی شریعت کی روشنی میں اپنے اختلافات کا حل چاہتے ہیں ـ ویسے بھی مسلم کونسلر کی ذمے داری ہے کہ وہ شریعت کی روشنی میں ان کی رہ نمائی کرےـ
(2) مسلمانوں کو ان کے عائلی قوانین پر عمل کی آزادی دی گئی ہےـ دوسری جانب یکساں سِوِل کوڈ کے نافذ کیے جانے کی بات کہی جاتی ہے اور ملک میں جو سِوِل قوانین نافذ ہیں ان پر عمل کا بھی حق دیا گیا ہے ـ مسلمانوں کو حاصل شدہ آزادی سے فائدہ اٹھانے کی ترغیب دینی چاہیے کہ یہ ان کے دین و ایمان کا تقاضا ہےـ
(3) مسلم پرسنل لا مسلمانوں کے مکمل عائلی قوانین کا نام نہیں ہے ، بلکہ انگریزوں کے دور میں 1937 میں جو شریعت ایپلیکیشن ایکٹ منظور کیا گیا تھا اسی کو مسلم پرسنل لا کہا جاتا ہےـ
(4) مسلم پرسنل لا کے تحت 10 موضوعات آتے ہیں : نکاح ، طلاق ، خلع ، مباراۃ ، فسخِ نکاح ، حضانت ، ہبہ ، وصیت ، وراثت ، وقف ـ
(5) یوں تو کونسلر کو فنِ کونسلنگ ، علم نفسیات اور ملکی قوانین سے متعلق بنیادی اور ضروری معلومات ہونی چاہیے ، لیکن ان سے زیادہ ضروری ہے کہ اسے مسلم پرسنل لا سے متعلق معلومات ہو ـ
(6) اسلام کی عائلی تعلیمات سے متعلق مسلم سماج میں بہت سی غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں _ انہیں دور کیا جانا ضروری ہے _ اس لیے کونسلر کو ان سے واقفیت ہونی چاہیےـ مثال کے طور پر :
* نکاح میں ذات برادری دیکھی جاتی ہے اور اسے ‘کفو’ سے جوڑ دیا گیا ہے ، حالاں کہ کفو کا تعلق ہم آہنگی سے ہے ، اس کا ذات برادری سے کوئی تعلق نہیں ہےـ
نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو اپنا نکاح والدین یا سرپرستوں کی مرضی سے کرنا چاہیے ، لیکن اس معاملے میں آخری اختیار لڑکوں لڑکیوں کا ہی ہوتا ہے ، کیوں کہ انہی کو آئندہ اپنی زندگی گزارنی ہوتی ہے ، اس لیے والدین کو اپنی مرضی بچوں پر نہیں تھوپنی چاہیےـ
مہر شوہر کے ذمے بیوی کا قرض ہوتا ہےـ اگر تاخیر سے ادا ہو تو بھی اتنا ہی واجب الأداء ہے جتنا طے ہوا تھاـ
طلاق کا اختیار شوہر کو دیا گیا ہے ـ وہ طلاق زبانی دے ، یا تحریری ، تنہائی میں دے یا کسی کی موجودگی میں ، وہ نافذ ہوگی ـ طلاق کے وقت بیوی کا موجود رہنا ضروری نہیں ہےـ
خلع ایک طلاق بائن کے حکم میں ہےـ اس کے بعد دوبارہ نکاح ہوسکتا ہے ، لیکن اس کے لیے عورت کی مرضی ضروری ہےـ
خلع کی عدّت وہی ہے جو طلاق کی ہےـ
(7) کونسلر کو صرف اسلام کے عائلی قوانین بتانے پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے ، بلکہ اخلاقی تعلیمات بھی پیش کرنی چاہییں ـ قانون کا دائرہ بہت محدود ہے ، جب کہ اخلاقی تعلیمات بہت وسعت رکھتی ہیں ـ
(8) کونسلر کو چاہیے کہ صرف اسلامی قوانین ہی نہ بتائے ، بلکہ ان کی حکمتیں اور افراد اور سماج پر پڑنے والے اثرات کا بھی تذکرہ کرےـ مثلاً کسی مسلمان کے لیے غیر مسلم سے نکاح حرام ہونے کی کیا حکمتیں ہیں؟ ایک سے زائد نکاح کا حق صرف مرد کو کیوں دیا گیا ہے؟ طلاق کے حق سے عورت کو کیوں محروم کیا گیا ہے؟ وراثت کی بعض صورتوں میں عورت کا حصہ مرد کا نصف کیوں رکھا گیا ہے؟
(9) کونسلر کو چاہیے کہ وہ اختلافات کا شکار افرادِ خاندان کے سامنے ایثار اور قربانی کی تعلیمات پیش کرےـ اس سے ان کے دل نرم پڑیں گے اور اختلافات کی شدّت میں کمی آئے گی ـ
(10) کونسلنگ انفرادی کی جاسکتی ہے اور اجتماعی بھی ـ اجتماعی کونسلنگ کی صورتوں میں کمیٹی میں مختلف صلاحیتوں کے افراد کو شامل کیا جائے ، مثلاً فنِ کونسلنگ کے پروفیشنلس ، ماہرینِ قانون ، عالم دین ، خواتین وغیرہ ـ
یوں تو حضرت انسان پر ہمہ وقت اللہ جل جلالہ و عم نوالہ کی نوازشات و عطیات کا سلسلہ جاری و ساری ہے، جس کا احاطہ ہمارے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے جیسا کہ سورہ ابراہیم میں حق تعالٰی کا ارشاد ہے” اگر تم اللہ نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے”۔
لیکن باری تعالی کے کچھ انعامات ایسے بھی ہیں جو بہت ہی زیادہ اہمیت کے حامل اور توجہ کے قابل ہیں انہیں میں سے ایک اولاد کی نعمت عظمی بھی ہے۔ جو اپنے آپ میں بے مثال اور باکمال ہے، جو انسانیت کی بقا کی ضامن اور اس کائنات کے وجود کا سبب بھی ہے۔ لہٰذا اللہ سبحانہ تعالٰی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انسانوں کو اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا خاص طور پر اہتمام کرنے کا حکم فرمایا اور سنجیدگی کے ساتھ اس اہم فریضہ کو پورا کرنے کےلیے متعدد مقامات پر خصوصیت کے ساتھ اس کی تلقین فرمائی ہے۔
چناچہ خداوند قدوس نےاولاد کی بہترین تعلیم و تربیت اور انتہائی عمدہ ذہن سازی کا نمونہ اپنے مقدس کلام یعنی قرآن مجید میں سورہ لقمان کے اندر حکیم حضرت لقمان رحمة اللہ علیہ کے قصے میں کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے، ارشاد ربانی ہے” اور ہم نے یقینا لقمان کو حکمت عطا کی کہ تو اللہ تعالٰی کا شکر کر، ہر شکر کرنے والا اپنے ہی نفع کےلیے شکر کرتا ہے، اور جو ناشکری کرے وہ جان لے کہ اللہ تعالٰی بے نیاز اور لائق تعریف ہے”.(لقمان آیت 12)
حضرت لقمان رحمة الله عليه، اللہ کے نیک بندے تھے جنہیں اللہ تعالٰی نے حکمت یعنی عقل و فہم اور دینی بصیرت میں ممتاز مقام عطا فرمایا تھا، ان سے کسی نے پوچھا، تمہیں یہ فہم و شعور کس طرح حاصل ہوا ؟ انہوں نے فرمایا ” سچ بولنے، امانت کی حفاظت کرنے، بے فائدہ باتوں سے بچنے اور خاموش رہنے کی وجہ سے۔
دلچسپ واقعہ
ان کی حمکت و دانش پر مبنی ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ وہ غلام تھے، ان کے آقا نے کہا کہ بکری ذبح کر کے اس کے سب سے بہترین دو حصے لاؤ!، چنانچہ وہ زبان اور دل نکال کر لے گئے۔ دوسری مرتبہ آقا نے ان سے کہا کہ بکری ذبح کر کے اس کے سب سے بدترین دو حصے لاؤ، وہ پھر وہی زبان اور دل لے کر چلے گئے، آقا نے ان سے پوچھا کہ اس دفعہ بھی وہی کیوں لے کر آگئے ؟
انہوں نے جواب دیا کہ زبان اور دل اگر صحیح ہو تو یہ سب سے بہتر ہیں اور اگر یہ بگڑ جائیں تو اس سے بدتر کوئی چیز نہیں۔
پہلی نصیحت
حضرت لقمان کی سب سے پہلی وصیت جو انہوں نے اپنے لخت جگر کو فرمائی؛”اور جب لقمان نے بطور نصیحت اپنے بیٹے سے فرمایا کہ ائے میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، بیشک شرک بڑا بھاری ظلم”۔(13)
یعنی سب سے پہلے انہوں نے اپنے بیٹے کو شرک سے باز رہنے کی نصیحت کی،
جس سے یہ واضح ہوا کہ والدین کےلیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو شرک سے بچانے کی سب سے زیادہ کوشش کریں کیونکہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے اور دنیا و آخرت میں ناکامی سبب بھی ہے۔
دوسری نصیحت
” پیارے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو، پھر وہ بھی کسی چٹان میں، یا آسمانوں میں، یازمین میں ہو
اللہ تعالٰی ضرور اسے لائے گا، اللہ تعالٰی بڑا باریک بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے”۔ (16)
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اچھا یا برا کام کتنا بھی چھپ کر کرے، اللہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا، قیامت کے دن اللہ تعالٰی اسے حاضر کر لے گا، یعنی اس کا بدلہ دے گا، اچھے عمل کے عوض انعام سے نوازے گا اور برے عمل کے عوض عذاب دے گا،
یہ مضمون حدیث شریف میں بھی بیان کیا گیا ہے فرمایا
"اگر تم میں سے کوئی شخص بے سوارخ کے پتھر میں بھی عمل کرے گا، جس کا کوئی دروازہ ہو نہ کھڑکی، اللہ تعالٰی اسے بھی لوگوں پر ظاہر فرما دےگا، چاہے وہ کیسا ہی عمل ہو ۔
تیسری نصیحت
"پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا، اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا، اور جو مصیبت تم پر آئے صبر کرنا، یقین مان کہ یہ بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے”۔(17)
یہ تینوں باتیں اہم ترین عبادات اور امور خیر کی بنیاد ہیں، یہ وہ اعمال ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالٰی نے بہت تاکید فرمائی ہے اور بندوں پر انہیں فرض قرار دیا ہے۔
چوتھی نصیحت
"لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اتراکر مت چل، بیشک اللہ تعالٰی کسی تکبر کرنے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے”۔(18)
یعنی جب لوگوں سے بات کرے یا وہ تجھ سے بات کریں تو تکبر اور تحقیر سے منہ نہ موڑ بلکہ نرمی سے ان کی طرف متوجہ ہو کر بات سن، جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب تو مسلمان بھائی سے ملے تو کشادہ پیشانی سے اس کی طرف متوجہ ہو۔
یعنی ایسی چال یا رویہ، جس سے مال و دولت،جاہ و منصب اور قوت و طاقت کی وجہ سے فخر و غرور کا اظہار ہوتا ہو، یہ اللہ تعالٰی کو نا پسند ہے، اس لیے کہ انسان ایک بندہ عاجز و حقیر ہے، اللہ تعالٰی کو یہی پسند ہے کہ بندہ اپنی حیثیت کے مطابق عاجزی و انکساری ہی اختیار کرے، اس سے تجاوز کرکے بڑائی کا اظہار نہ کرے کہ بڑائی صرف اللہ ہی کےلیے زیبا ہے جو تمام اختیارات کا مالک اور تمام خوبیوں کا منبع ہے، اسی لیے حدیث شریف کے اندر فرمایا گیا ہے کہ "وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا، جس کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا۔(مسند احمد) البتہ تکبر کا اظہار کئے بغیر اللہ تعالٰی کے انعامات کا ذکر، اچھا لباس اور عمدہ خوراک وغیرہ کا استعمال جائز ہے۔
پانچویں نصیحت
"اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست کر یقینا آوازوں میں سب سے بدتر گدھوں کی آواز ہے”۔(19)
یعنی چال اتنی سست نہ ہو جیسے کوئی بیمار ہو اور نہ اتنی تیز ہو کہ شرف و وقار کے خلاف ہو۔ اسی کو سورة الفرقان میں اس طرح بیان کیا گیا: اللہ کے بندے زمین پر وقار اور سکون کے ساتھ چلتے ہیں”۔
یعنی چیخ یا چلا کر بات نہ کر، اس لیے کہ زیادہ اونچی آواز سے بات کرنا پسندیدہ ہوتا تو گدھے کی آواز سب سے اچھی سمجھی جاتی لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ: "جب گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے پناہ مانگو”(بخاری)
لہذا ہر صاحب ایمان کےلیے اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کی فکر کرنا ضروری ہے اور موجودہ وقت میں خاص طور پر دینی امور کی جانب بہت زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے مقصد حیات سے آشنا ہو سکیں، والدین کی خدمت و راحت کا سبب بنیں اور اپنے ایمان و یقین پر تا دم حیات قائم و دائم رہیں نیز یہ کہ آخرت میں کامیابی و کامرانی سے سرفراز ہو اور دنیا میں بھی نیک نامی کا ذریعہ بنیں۔
یوں تو حضرت انسان پر ہمہ وقت اللہ جل جلالہ و عم نوالہ کی نوازشات و عطیات کا سلسلہ جاری و ساری ہے، جس کا احاطہ ہمارے لیے مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے جیسا کہ سورہ ابراہیم میں حق تعالٰی کا ارشاد ہے” اگر تم اللہ نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کر سکتے”۔
لیکن باری تعالی کے کچھ انعامات ایسے بھی ہیں جو بہت ہی زیادہ اہمیت کے حامل اور توجہ کے قابل ہیں انہیں میں سے ایک اولاد کی نعمت عظمی بھی ہے۔ جو اپنے آپ میں بے مثال اور باکمال ہے، جو انسانیت کی بقا کی ضامن اور اس کائنات کے وجود کا سبب بھی ہے۔ لہٰذا اللہ سبحانہ تعالٰی اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے انسانوں کو اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کا خاص طور پر اہتمام کرنے کا حکم فرمایا اور سنجیدگی کے ساتھ اس اہم فریضہ کو پورا کرنے کیلئے متعدد مقامات پر خصوصیت کے ساتھ اس کی تلقین فرمائی ہے۔
چناچہ خداوند قدوس نےاولاد کی بہترین تعلیم و تربیت اور انتہائی عمدہ ذہن سازی کا نمونہ اپنے مقدس کلام یعنی قرآن مجید میں سورہ لقمان کے اندر حکیم حضرت لقمان رحمة اللہ علیہ کے قصے میں کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے، ارشاد ربانی ہے” اور ہم نے یقینا لقمان کو حکمت عطا کی کہ تو اللہ تعالٰی کا شکر کر، ہر شکر کرنے والا اپنے ہی نفع کیلئے شکر کرتا ہے، اور جو ناشکری کرے وہ جان لے کہ اللہ تعالٰی بے نیاز اور لائق تعریف ہے”.(لقمان آیت 12)
حضرت لقمان رحمة الله عليه، اللہ کے نیک بندے تھے جنہیں اللہ تعالٰی نے حکمت یعنی عقل و فہم اور دینی بصیرت میں ممتاز مقام عطا فرمایا تھا، ان سے کسی نے پوچھا، تمہیں یہ فہم و شعور کس طرح حاصل ہوا ؟ انہوں نے فرمایا ” سچ بولنے، امانت کی حفاظت کرنے، بے فائدہ باتوں سے بچنے اور خاموش رہنے کی وجہ سے۔
دلچسپ واقعہ
ان کی حمکت و دانش پر مبنی ایک واقعہ یہ بھی مشہور ہے کہ وہ غلام تھے، ان کے آقا نے کہا کہ بکری ذبح کر کے اس کے سب سے بہترین دو حصے لاؤ!، چنانچہ وہ زبان اور دل نکال کر لے گئے۔ دوسری مرتبہ آقا نے ان سے کہا کہ بکری ذبح کر کے اس کے سب سے بدترین دو حصے لاؤ، وہ پھر وہی زبان اور دل لے کر چلے گئے، آقا نے ان سے پوچھا کہ اس دفعہ بھی وہی کیوں لے کر آگئے ؟
انہوں نے جواب دیا کہ زبان اور دل اگر صحیح ہو تو یہ سب سے بہتر ہیں اور اگر یہ بگڑ جائیں تو اس سے بدتر کوئی چیز نہیں۔
پہلی نصیحت
حضرت لقمان کی سب سے پہلی وصیت جو انہوں نے اپنے لخت جگر کو فرمائی؛”اور جب لقمان نے بطور نصیحت اپنے بیٹے سے فرمایا کہ ائے میرے پیارے بچے! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا، بیشک شرک بڑا بھاری ظلم”۔(13)
یعنی سب سے پہلے انہوں نے اپنے بیٹے کو شرک سے باز رہنے کی نصیحت کی،
جس سے یہ واضح ہوا کہ والدین کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو شرک سے بچانے کی سب سے زیادہ کوشش کریں کیونکہ یہ سب سے بڑا گناہ ہے اور دنیا و آخرت میں ناکامی سبب بھی ہے۔
دوسری نصیحت
” پیارے بیٹے! اگر کوئی چیز رائی کے دانے کے برابر ہو، پھر وہ بھی کسی چٹان میں، یا آسمانوں میں، یازمین میں ہو
اللہ تعالٰی ضرور اسے لائے گا، اللہ تعالٰی بڑا باریک بین اور ہر چیز کی خبر رکھنے والا ہے”۔ (16)
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اچھا یا برا کام کتنا بھی چھپ کر کرے، اللہ سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا، قیامت کے دن اللہ تعالٰی اسے حاضر کر لے گا، یعنی اس کا بدلہ دے گا، اچھے عمل کے عوض انعام سے نوازے گا اور برے عمل کے عوض عذاب دے گا،
یہ مضمون حدیث شریف میں بھی بیان کیا گیا ہے فرمایا
"اگر تم میں سے کوئی شخص بے سوارخ کے پتھر میں بھی عمل کرے گا، جس کا کوئی دروازہ ہو نہ کھڑکی، اللہ تعالٰی اسے بھی لوگوں پر ظاہر فرما دےگا، چاہے وہ کیسا ہی عمل ہو ۔
تیسری نصیحت
"پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا، اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا، اور جو مصیبت تم پر آئے صبر کرنا، یقین مان کہ یہ بڑے ہمت کے کاموں میں سے ہے”۔(17)
یہ تینوں باتیں اہم ترین عبادات اور امور خیر کی بنیاد ہیں، یہ وہ اعمال ہیں جن کے بارے میں اللہ تعالٰی نے بہت تاکید فرمائی ہے اور بندوں پر انہیں فرض قرار دیا ہے۔
چوتھی نصیحت
"لوگوں کے سامنے اپنے گال نہ پھلا اور زمین پر اتراکر مت چل، بیشک اللہ تعالٰی کسی تکبر کرنے والے، فخر کرنے والے کو پسند نہیں کرتے”۔(18)
یعنی جب لوگوں سے بات کرے یا وہ تجھ سے بات کریں تو تکبر اور تحقیر سے منہ نہ موڑ بلکہ نرمی سے ان کی طرف متوجہ ہو کر بات سن، جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جب تو مسلمان بھائی سے ملے تو کشادہ پیشانی سے اس کی طرف متوجہ ہو۔
یعنی ایسی چال یا رویہ، جس سے مال و دولت،جاہ و منصب اور قوت و طاقت کی وجہ سے فخر و غرور کا اظہار ہوتا ہو، یہ اللہ تعالٰی کو نا پسند ہے، اس لیئے کہ انسان ایک بندہ عاجز و حقیر ہے، اللہ تعالٰی کو یہی پسند ہے کہ بندہ اپنی حیثیت کے مطابق عاجزی و انکساری ہی اختیار کرے، اس سے تجاوز کرکے بڑائی کا اظہار نہ کرے کہ بڑائی صرف اللہ ہی کیلئے زیبا ہے جو تمام اختیارات کا مالک اور تمام خوبیوں کا منبع ہے، اسی لیے حدیث شریف کے اندر فرمایا گیا ہے کہ "وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا، جس کے دل میں ایک رائی کے دانے کے برابر بھی کبر ہوگا۔(مسند احمد) البتہ تکبر کا اظہار کئے بغیر اللہ تعالٰی کے انعامات کا ذکر، اچھا لباس اور عمدہ خوراک وغیرہ کا استعمال جائز ہے۔
پانچویں نصیحت
"اپنی چال میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست کر یقینا آوازوں میں سب سے بدتر گدھوں کی آواز ہے”۔(19)
یعنی چال اتنی سست نہ ہو جیسے کوئی بیمار ہو اور نہ اتنی تیز ہو کہ شرف و وقار کے خلاف ہو۔ اسی کو سورة الفرقان میں اس طرح بیان کیا گیا: اللہ کے بندے زمین پر وقار اور سکون کے ساتھ چلتے ہیں”۔
یعنی چیخ یا چلا کر بات نہ کر، اس لیے کہ زیادہ اونچی آواز سے بات کرنا پسندیدہ ہوتا تو گدھے کی آواز سب سے اچھی سمجھی جاتی لیکن ایسا نہیں ہے، بلکہ حدیث میں آتا ہے کہ: "جب گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے پناہ مانگو”(بخاری)
لہذا ہر صاحب ایمان کیلئے اولاد کی بہترین تعلیم و تربیت کی فکر کرنا ضروری ہے اور موجودہ وقت میں خاص طور پر دینی امور کی جانب بہت زیادہ توجہ کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنے مقصد حیات سے آشنا ہو سکیں، والدین کی خدمت و راحت کا سبب بنیں اور اپنے ایمان و یقین پر تا دم حیات قائم و دائم رہیں نیز یہ کہ آخرت میں کامیابی و کامرانی سے سرفراز ہو اور دنیا میں بھی نیک نامی کا ذریعہ بنیں.
کورونا وبائی مرض آج نہ کل اپنے اختتام کو پہنچے گا مگر اس کے اثرات ذہن پربرسوں قائم رہیں گے اور نفسیاتی دبائو کی شکل میں بچوں اور نوجوانو ں کی صلاحیتوں کو متاثر کرتے رہیں گے۔نفسیاتی دباؤ کو بڑھانے میں لاک ڈاؤن نے آگ پر گھی کا کام کیا۔اس کی وجہ سے لوگوں کی ذہنی صحت اور خوشی بہت متاثر ہوئی ہے۔اسکولوں کی بندش، کورونا کے تکلیف دہ اثرات اور اپنے پیارو ں کو کھونے کے غم نے نوجوانوں بالخصوص بچوں کوذہنی کوفتی کا شکار بنا دیا۔یونیسیف نے اپنی ایک رپورٹ ’’ اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن 2021 ‘‘ میں کہا ہے کہ دنیا بھر میں10 سے 19 برس تک کی عمر کا ہر ساتواں نوجوان کسی نہ کسی ذہنی عاضے کا شکار ہے۔ اس عمر کے نوجوانوں میں پائے جانے والے نفسیاتی مسائل میں ڈپریشن، خوف اور ذہنی بے چینینمایاں ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کووڈ وبا کے اثرات نوجوانوں اور بچوں کی نفسیات اور ان کی دماغ پر آنے والے کئی برسوں تک برقرار رہ سکتے ہیں۔اس سلسلے میں معاشرے میں پائی جانے والی خاموشی کو توڑنا ،غلط فہمیوں اور مفروضے کو دور کرنا ، ذہنی صحت کی خواندگی کو بہتر بنانا اور بچوں ، نوعمروں اور نوجوانوں کے جذبات کو سمجھنا اور ان مسائل کا تدارک کرنا ضروری ہے۔ یہ مسئلہ ہندوستان سمیت دنیا بھر میں ایک اہم موضوع بناہوا ہے۔اس سے نوجوانوں اور بچوں کی صحت، تعلیم اور صلاحیتیں متاثر ہورہی ہیں‘‘۔ ہمارے ملک میں زیادہ تر نفسیاتی مریضوں کی مناسب تشخیص نہیں ہوپاتی ہے۔اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ نفسیات کا مریض خود کو کبھی مریض نہیں سمجھتا ۔ وہ اپنے مسائل دوسروں کے ساتھ شیئر کرنے سے ہچکچاتا ہے جس کی وجہ سے اس کا مناسب علاج نہیں ہوپاتا ۔بسا اوقات نفسیاتی مریض شاطر دماغ کے چنگل میں پھنس جاتے ہیں اور نقصان اٹھاتے ہیں۔میرا دہلی کے ’ الشفا ‘ اسپتال کے طراف سے بارہا گزر نا ہوتا ہے۔ یہاں آنے والے بہت سے ایسے مریض دیکھنے میں آتے ہیںجو گلے میں بہت سے تعویذات اور انگلیوں میں کئی کئی انگوٹھیاں پہن رکھے ہوتے ہیں ۔در اصل وہ جعلی پیروں اور بابا بنگالیوں سے لٹے ہوئے ہوتے ہیں ۔وہ نفسیاتی بیمار ہوتے ہیں۔ اپنی بیماریاں کا علاج ان باباؤں کے پاس تلاش کرتے ہیں اور جب پورے طور پر لٹ چکے ہوتے ہیں تب اسپتال یا کسی ڈاکٹر کی طرف رجوع کرتے ہیں۔اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ نفسیات کے مریض ناسمجھی میں بڑا نقصان اٹھا لیتے ہیں۔لہٰذا بچوں اور نوجوانوں کو نفسیاتی دباؤ سے باہر نکالنے کی سنجیدہ اور بھرپور کوشش ہونی چاہیے ۔ ایسے وقت میں والدین یا نگراں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان پر نظر رکھیں اور غور کریں کہ بچہ کسی نفسیاتی دباؤ کا شکار تو نہیں ہے۔بچوں میں نفسیاتی دباؤ کے اثرات کئی شکل میں رونما ہوتے ہیں۔ مثلا ًوہ پریشان، تناؤ کا شکار ، بے چین ، ناراض یا مشتعل نظر آتے ہوں ، ان میں بیزاری نظر آتی ہو۔لاک ڈاؤن کے دوران بچوں میں تنائو کی شکایتیں زیادہ پائی گئی ہیں ۔اس عرصے میں بہت سے بچوں اور نوجوانوں نے اپنوں کو بچھڑتے ہوئے دیکھا ہے۔ جب بچہ کسی حادثے سے گزرتا ہے تو ان میں جسمانی ، دماغی اور جذباتی صحت متاثر ہوسکتی ہے۔ عموماً کسی حادثے پر ان کا رد عمل نارمل ہوتا ہے لیکن اگر یہ رد عمل توقع سے زیادہ لمبا ہوجائے تو اس کے لیے طبی مدد کی ضروررت پڑ سکتی ہے۔اگر بچوں میں ان میں سے کوئی بھی علامت نظر آئے تو انہیں تنائو سے محفوظ ماحول دینے کی کوشش کریں جہاں وہ اپنے محسوسات کے بارے میں بلا خوف و خطر بات کرسکیں۔
بچوں میں نفسیاتی دبائو کا فوری طور پر تدارک ہوناضروری ہے تاکہ ان میں صحت مند سوچ پیدا ہو ۔جب تک صحت مند سوچ پیدا نہیں ہوگی تب تک صحت مند معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا۔کسی بھی معاشرے کو اعلیٰ اور معیاری ہونے کے لئے لازمی ہے کہ اس کے افراددماغی و جسمانی اعتبادر سے تندرست ہوں۔ ابھی حال ہی میں ’’ صحت مند دماغ، صحت مند جسم اور صحت مند سماج ‘‘ کے نام سے نئی دہلی میں ایک عالمی ویبنار منعقد ہوا تھا۔ اس میں دنیا بھر کے دانشوروں نے حصہ لیا تھا۔ اس ویبنار میں جماعت اسلامی ہند کے امیر سید سعادت اللہ حسینی نے کہا تھا کہ ’’ تعلیم ، غذا ، صحت ، علاج اور صاف ستھرا ماحول ہر شہری کا بنیادی حق ہے۔ صرف بیماری کا نہ ہونا صحت نہیں ہے بلکہ مکمل دماغی ، جسمانی تندرستی اور زندگی کی ضروریات کی فراہمی کا نام صحت ہے۔ یہ تبھی برقرار رہ سکتی ہے جب ہم ہر چیزکے استعمال میں اعتدال اختیار کریں۔ اگر ہم اعتدال سے تجاوز کرتے ہیں تو یہ ہمارے سوچ میں خرابی پیدا کرتا ہے۔دماغ کو منفی سوچ سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اعتدال اختیارکیا جائے ۔ انسان کا جسمانی اور نفسیاتی طور پر معتدل سوچ کا ہونا مثبت نتائج پیدا کرتا ہے ۔ اس سے ایک صحت مند معاشرہ وجود میں آتا ہے۔جب معاشرہ صحت مند ہوتا ہے تو ملک میں امن و خوشحالی یقینی ہوتی ہے‘‘۔ ماہرین کے مطابق صحت مند معاشرہ زندگی کی سلامتی اور ریاست کی ترقی کے کلیدی عوامل میں سے ہے جس کی وجہ سے ملک ترقی کرسکتا ہے۔اگر ہم ایک صحت مند معاشرہ چاہتے ہیں تو بچوں اور نوجوانوں پر نظر رکھنی ہوگی کہ وہ جسمانی اور ذہنی طور پر مکمل صحت مند ہیں یا نہیں؟ نفسیاتی دبائوں سے بچنے کےلیے کئی طریقے بتائے گئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق انسان کا اپنے مذہب سے تعلق ہونا اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا بے شمار نفسیاتی اور ذہنی دباؤ سے بچا لیتا ہے۔اس کے علاوہ کسی کو نیچا دکھانے کی آرزو کو پالنے کے بجائے دوسروں کے کام آنے کے جذبے سے سرشار لوگ کم ہی نفسیاتی دبائو کا شکار ہوتے ہیں۔یاد رکھنے والی بات ہے کہ نفسیاتی دبائو سے پاک معاشرہ خوشحال ملک کی ضمانت ہوتاہے لہٰذا ہمیں اپنے بچوں اور نوجوانوں کے نفسیات کا تجزیہ کرتے رہنا چاہیے ۔
کیا اسپرم ڈونیشن (Sperm Donation) کے ذریعے اولاد کا حصول جائز ہے؟ ـ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سوال:
نکاح کے بعد ہر جوڑے کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے یہاں اولاد ہو ۔ اگر شوہر سے اولاد نہیں ہو سکتی تو کیا اس صورت میں اسپرم ڈونر کے ذریعے اولاد کی پیدائش کروائی جا سکتی ہے؟
جواب:
نکاح کا ایک مقصد نسلِ انسانی کا تسلسل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آدم اور اس کے جوڑے کی تخلیق کی اور اس سے بے شمار مرد اور عورت دنیا میں پھیلا دیے ۔ (النساء :1) رشتۂ نکاح میں جڑنے کے بعد ہر جوڑے کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے یہاں اولاد ہو ، تاکہ اس کی آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سرور حاصل ہو ۔ (الفرقان : 74) لیکن اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ وہ کسی جوڑے کو اولاد سے نوازتا ہے ، کسی کو صرف لڑکے دیتا ہے ، کسی کو صرف لڑکیاں ، کسی کو لڑکے اور لڑکیاں دونوں اور کسی کو بانجھ بنا کر اولاد سے محروم رکھتا ہے ۔ یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا مظہر ہے ۔ قرآن مجید میں ہے :
لِّلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ یخْلُقُ مَا یشَاءُ یهَبُ لِمَن یشَاءُ إِنَاثًا وَیهَبُ لِمَن یشَاءُ الذُّكُوۡرَ ۔ أَوْ یزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا وَیجْعَلُ مَن یشَاءُ عَقِیمًا إِنَّهُ عَلِیمٌ قَدِیرٌ (الشوریٰ: 49 ـ 50)
’’اللہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے ۔ جو کچھ چاہتا ہے ، پیدا کرتا ہے ۔ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے ، جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے ، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کر دیتا ہے ۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے ۔ ‘‘
بانجھ پن کے اسباب مرد اور عورت دونوں میں ہو سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر :
مرد میں خصیے [جہاں مادۂ تولید(نطفہ/ sperm) بنتا ہے] بے کار ہوں ، اس وجہ سے اسپرم کی پیدائش نہ ہو رہی ہو ۔
اسپرم میں حیواناتِ منویہ (spermatazoas) کا تناسب کم ہو ۔
اسپرم کو خصیوں سے عضوِ تناسل تک لانے والی رگیں مسدود ہوگئی ہوں ۔
قوتِ مردمی میں کمی کی وجہ سے مرد مباشرت پر قادر نہ ہو ۔
عورت کے خصیۃ الرحم (ovary) میں کسی نقص کے سبب اس سے بیضہ (ovum) کا اخراج ممکن نہ ہو ۔
قاذفین(falloplian tubes) ، جن کے ذریعے بیضہ خصیۃ الرحم سے رحم (uterus) میں منتقل ہوتا ہے ، پیدائشی طور پر موجود نہ ہوں ، یا مسدود ہوگئے ہوں ۔
عورت پیدائشی طور پر رحم سے محروم ہو ، یا کسی مرض کے سبب اس میں بار آور بیضہ (fertilized ovum) کا استقرار ممکن نہ ہو ۔
اگر نکاح کے بعد کچھ عرصہ تک عورت میں استقرارِ حمل نہ ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے اور شوہر اور بیوی دونوں کو ضروری ٹیسٹ کروالینے چاہییں ، کیوں کہ نقص کسی میں بھی ہو سکتا ہے ۔ بسا اوقات یہ نقص بہت معمولی ہوتا ہے اور علاج معالجہ کے ذریعے بہ آسانی اس کا ازالہ ہو سکتا ہے ۔
اگر زوجین کے ازدواجی تعلق کے باوجود کسی سبب سے فطری طریقے پر اولاد کا حصول ممکن نہ ہوسکے تو مغرب میں اس کے لیے دیگر مصنوعی طریقے رائج ہیں ۔ مثال کے طور پر :
اگر مرد میں اسپرم تو بن رہا ہے ، لیکن اسے خصیوں سے عضو تناسل تک لانے والی رگیں مسدود ہو گئی ہیں ، تو مرد کا اسپرم اور عورت کا بیضہ حاصل کرکے اسے بیرونی طور پر کسی ٹیسٹ ٹیوب میں بار آور کیا جاتا ہے ۔ پھر ایک متعینہ مدت کے بعد اس بار آور بیضہ کو عورت کے رحم میں منتقل کر دیا جاتا ہے ۔ اسے (in-vitro fertilization IVF) کہا جاتا ہے ۔
اگر عورت میں بیضہ تو بن رہا ہے ، لیکن اس کے رحم میں کسی نقص کی بنا پر استقرار نہیں ہو پا رہا ہے تو کسی دوسری عورت کے رحم کو کرایے پر لے لیا جاتا ہے اور شوہر کے نطفے اور بیوی کے بیضہ کو بار آور کرکے اس میں منتقل کر دیا جاتا ہے _ دوسری عورت بچہ جنتی ہے ، جسے متعین رقم ادا کرکے بچہ حاصل کر لیا جاتا ہے ۔ اسے surrogacy کہا جاتا ہے ۔
اگر شوہر میں اسپرم نہ بن رہے ہوں ، یا اس میں حیواناتِ منویہ کا تناسب کم ہو تو کسی عطیہ دہندہ (donor) کے ذریعے اسپرم حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے عورت میں استقرارِ حمل کیا جاتا ہے ۔ اسے عطیۂ نطفہ (sperm donation)کہا جاتا ہے ۔ مغرب میں بڑے بڑے اسپرم بینک وجود میں آگئے ہیں ، جہاں افراد اپنے اسپرم جمع کروادیتے ہیں اور وہ خواتین جو ہم جنسیت میں مبتلا ہیں(lesbians) ، یا جن کا نکاح نہ ہوا ہو اور وہ ماں بننا چاہتی ہیں (single parent) ، یاجن کے شوہر کسی وجہ سے تولیدی صلاحیت سے محروم ہیں ، وہاں سے اسپرم حاصل کرکے اپنے اندر مصنوعی تلقیح (Artificial Insemination)کرواتی ہیں اور استقرارِ حمل کے بعد متعینہ ایام گزرنے پر بچے جنتی ہیں ۔
اسلامی نقطۂ نظر سے نسلِ انسانی کے تسلسل کا واحد جائز ذریعہ نکاح ہے ۔ نکاح کے بغیر مرد اور عورت کا جنسی تعلق حرام ہے ۔ اسی طرح شوہر کے علاوہ کسی دوسرے مرد کے نطفے سے عورت کے بیضے کی مصنوعی تلقیح بھی حرام ہے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
لَا یَحِلُّ لِامْرِیٍٔ یُؤْمِنُ بِاللَّہِ والْیَوْمِ الْآخِرِ أَنْ یَسْقِیَ مَاؤُہٗ زَرْعَ غَیْرِہِ.(ابو داؤد : 2158)
’’کسی شخص کے لیے ، جو اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو ، جائز نہیں ہے کہ اپنے پانی (مادۂ تولید) سے کسی دوسرے کے کھیت (یعنی غیر عورت) کو سیراب کرے ۔ ‘‘
اس بنا پر اسلام ضروری قرار دیتا ہے کہ جس مرد کے نطفے اور جس عورت کے بیضے سے جنین کی تخلیق ہو وہ لازماً رشتۂ ازدواج میں بندھے ہوئے ہوں ۔ اس کے نزدیک نہ شوہر کے نطفے سے کسی اجنبی عورت کے بیضے کی بارآوری جائز ہے ، نہ بیوی کے بیضے کو کسی اجنبی مرد کے نطفے سے بارآور کیا جا سکتا ہے ۔ البتہ اگر شوہر کا نطفہ صحت مند اور کارگر ہو اور بیوی کا بیضہ بھی ، البتہ کسی وجہ سے ان کے درمیان فطری طور پر جنسی تعلق قائم نہ ہو پا رہا ہو تو دونوں کو ٹیسٹ ٹیوب میں بارآور کرکے بیوی کے رحم میں منتقل کیا جا سکتا ہے ۔
اگر بیوی صحت مند ہو ، لیکن شوہر کے اندر تولید کی اہلیت نہ ہو اور اس سے اولاد کا حصول ممکن نہ ہو تو بیوی کو اس سے علیٰحدگی اختیار کرنے کا حق حاصل ہے ۔ البتہ اگر زوجین آپس میں گہرا جذباتی رشتہ رکھتے ہوں اور شوہر کی اس کم زوری کے باوجود وہ اس سے الگ نہ ہونا چاہتی ہو تو وہ کسی رشتے دار یا یتیم بچے کو اپنی پرورش میں لے کر روحانی مسرتیں حاصل کر سکتے ہیں ـ(یاد رہے کہ اس بچے سے ان کا ماں باپ اور اولاد کا رشتہ قائم نہ ہوگا) ۔
[ بشکریہ : ماہ نامہ زندگی نو نئی دہلی ، ماہ ستمبر 2021 ]
ایک ساس سے گفتگو( ساس بہو تعلقات کو خوش گوار بنانے کی کوشش ) ـ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
خاتون (روتے ہوئے) : مولانا صاحب! میں بتا نہیں سکتی ، مجھے کتنا دکھ ہے؟ میرے حقوق پامال ہوئے ہیں ، میری توہین ہوئی ہے ، میں کن الفاظ میں اپنا کیس آپ کے سامنے رکھوں؟!
مولانا : آپ جذباتی نہ ہوئیے ، صاف صاف بتائیے ، آپ کا مسئلہ کیا ہے؟
خاتون : میں نے 6 ماہ قبل اپنے بیٹے کا نکاح ایک لڑکی سے کیا تھا _ میں نے حتی الامکان تحقیق کی تھی ، لیکن دھوکہ کھا گئی _ لڑکی کی پھوپھی اور دادی نیک عورتیں ہیں _ میں نے سوچا ، لڑکی بھی نیک ہوگی ، لیکن نہ لڑکی نیک نکلی نہ اس کے ماں باپ ـ
مولانا : لڑکی کے ماں باپ کیسے ہیں؟ اس سے آپ کو کوئی خاص غرض نہیں ہونی چاہیے _ لڑکی میں کیا برائی آپ کو نظر آئی؟ یہ بتائیے _
خاتون : وہ ہر وقت موبائل چلاتی رہتی ہے ـ پتہ نہیں اس میں کیا کیا دیکھتی ہے؟
مولانا : موبائل میں ضرورت سے زیادہ انہماک اچھی چیز نہیں ، لیکن یہ خصلت اتنی بری تو نہیں کہ آپ کی بہو آپ کی نگاہوں سے گر جائے _
خاتون : وہ کالج کی پڑھی ہوئی ہے ، کالج کے لڑکوں سے اس کی اب بھی دوستی برقرار ہےـ وہ ان سے بات کرتی رہتی ہےـ
مولانا : کالج کی تعلیم یافتہ لڑکی اگر اپنے کسی کلاس فیلو لڑکے سے موبائل پر کبھی بات کرلے تو اس میں برائی کیا ہے؟
خاتون : وہ اپنے موبائل میں پاس ورڈ ڈالے ہوئے ہےـ شوہر کو بھی اپنا موبائل دیکھنے نہیں دیتی ـ اگر اس کے دل میں چور نہیں ہے تو وہ چھپاتی کیوں ہے؟
مولانا : آپ کو حسنِ ظن سے کام لینا چاہیےـ اگر وہ لڑکی موبائل میں پاس ورڈ نہ لگائے ، جس سے بات کرنا چاہے کرلے ، اس کے بعد اس کا نمبر اڑا دے تو کوئی کیسے اسے پکڑ سکے گا؟
خاتون : اس کے شوہر نے ایک مرتبہ اس کے موبائل کو اپنے موبائل سے کنکٹ کرلیا ، پھر اسے چیک کیا تو اس کی بعض حرکتیں مشتبہ لگیں ـ
مولانا : شریعت میں کسی کی اس حد جاسوسی پسندیدہ نہیں ہے ، خواہ شوہر ہی اپنی بیوی کی جاسوسی کیوں نہ کر رہا ہو _ میاں بیوی کا رشتہ ویسے بھی اعتماد پر قائم ہوتا ہےـ جاسوسی کرنے سے اعتماد کو ٹھیس پہنچے گی اور رشتے میں تلخی پیدا ہوگی ـ
خاتون : اس لڑکی میں شرم و حیا نام کو نہیں _ گھر میں سر پر دوپٹہ نہیں رکھتی _ اپنے سسر کے سامنے گھونگھٹ نہیں کرتی ـ
مولانا : سماجی قدریں تیزی سے بدل رہی ہیں ـ پرانی نسل کی خواتین مشرقی روایات کی جس حد تک پاس داری کرتی تھیں ، نئی نسل کی لڑکیوں سے اس کی امید نہیں کرنی چاہیے ـ اگر کوئی عمل غیر اسلامی نہ ہو تو اسے گوارا کرنا چاہیے اور پرانی قدروں پر عمل کرنے کا سختی سے مطالبہ نہیں کرنا چاہیے ـ
خاتون : وہ لڑکی میری نظروں سے گر گئی ـ میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اسے طلاق دے دو ، لیکن اس نے انکار کردیاـ اس نے کہا کہ میں اسے سدھارنے کی کوشش کروں گاـ
مولانا : آپ کا اتنی معمولی شکایات پر بیٹے سے مطالبہ کرنا کہ وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے ، درست نہ تھاـ آپ کے بیٹے نے دانش مندی کا ثبوت دیا کہ آپ کی بات نہیں مانی ـ ذرا سوچیے ، آپ طلاق دلواکر دوسری بہو لائیں گی تو کیا گارنٹی ہے کہ وہ آپ کے معیار پر پوری اترے گی؟!
خاتون : میں نے بہو کے ماں باپ کے گھر جاکر اس کی تمام شکایات ان تک پہنچادیں ، لیکن وہ لوگ کچھ سننے کو تیار ہی نہ تھےـ
مولانا : آپ نے اچھا نہیں کیا کہ لڑکی کے ماں باپ تک اس کی شکایات پہنچائیں ـ اس سے تعلقات میں کشیدگی پیدا ہوتی ہےـ وہ لڑکی اب آپ کی بہو ہےـ آپ کو اس کی شکایات اِدھر اُدھر کرنے کے بجائے اس کی اخلاقی و دینی تربیت کی فکر کرنی چاہیےـ
خاتون : میرا بیٹا اسی شہر میں ملازمت کرتا ہے جس میں بہو کا میکہ ہےـ بہو روزانہ اپنے میکے چلی جاتی ہےـ میں اسے پسند نہیں کرتی ـ
مولانا : آپ کا بیٹا صبح آفس چلا جاتا ہے ، وہاں سے 8 گھنٹے کے بعد آتا ہےـ اس عرصے میں لڑکی اکیلے گھر میں رہتی ہےـ اگر وہ کچھ وقت اپنے ماں باپ کے پاس چلی جائے تو اس میں حرج کیا ہے؟!
خاتون : لڑکا روزانہ شام کو آفس سے واپسی پر اپنی بیوی کو لینے سسرال چلا جاتا ہےـ یہ مجھے پسند نہیں ـ
مولانا : اگر لڑکے کو روزانہ اپنی سسرال جانے میں برا نہیں لگتا اور ایسا کرنے میں وہ اپنی سبکی محسوس نہیں کرتا تو آپ کو کیا پریشانی ہے؟
خاتون : میرے بیٹے کو اس کی بیوی اور سسرال والے مجھ سے بدگمان کررہے ہیں ، مجھ سے دور کرنے کی کوشش کررہے ہیں ـ
مولانا : یہ آپ کا سراسر وہم ہے _ کم از کم اپنے بیٹے سے تو اتنی بدگمانی نہ رکھیے کہ وہ اپنی سسرال والوں کے بہکاوے میں آکر اپنی ماں سے بدگمان ہوجائے گاـ
خاتون : میرا بیٹا بہت بھولا ہے ، جب کہ یہ لڑکی بہت تیز اور ہوشیار ہے _
مولانا : ہر ماں کی نظر میں اس کا بیٹا بہت بھولا ہوتا ہے ، چاہے جتنا بڑا ہوجائے اور ہر ساس کو بہو تیز طرّار لگتی ہےـ
خاتون : اس لڑکی کو کھانا پکانا نہیں آتا _ میں نے کہا تھا ، کوئی بات نہیں ، میں اسے اپنے پاس رکھ کر پکانا سکھا دوں گی ، لیکن وہ میرے پاس رہنے پر تیار ہی نہیں ہے _ چنانچہ کبھی دونوں لڑکی کے میکے میں کھالیتے ہیں ، کبھی ہوٹل سے کھانا منگالیتے ہیں ـ
مولانا : آپ نے بہو کو پیار نہیں دیا، بلکہ شکایات کا پٹارہ کھول دیا تو وہ آپ کے پاس رہنے پر کیوں آمادہ ہوگی؟ پھر اگر آپ کے بیٹے کو ہوٹل کا کھانا کھانے پر کوئی شکایت نہیں ہے تو آپ بلاوجہ دبلی ہورہی ہیں ـ
خاتون : پہلے میرا بیٹا اپنی بیوی کی شکایتیں مجھ سے کرتا تھا ، لیکن اب وہ اس کے چنگل میں پھنس گیا ہے ، اب وہ اپنی سسرال والوں سے ڈر گیا ہے ، اس لیے اب مجھ کو کچھ بتاتا نہیں ہےـ
مولانا : یہ آپ کی خام خیالی ہے کہ آپ کا بیٹا ڈر گیا ہےـ وہ بہت سمجھ دار ہے _ جب اس نے محسوس کیا کہ بیوی کی شکایتیں ماں سے کرنے سے دونوں کے درمیان تلخیاں پیدا ہورہی ہیں تو وہ رک گیاـ اس نے بہت سمجھ داری کا کام کیاـ
خاتون : مجھے اپنے شوہر سے بہت شکایات ہیں ـ انھوں نے کبھی میرا ساتھ نہیں دیاـ میں نے بہو کو طلاق دلانے کی بات کی تو انھوں نے مخالفت کی ، بہو کی شکایات اس کے ماں باپ تک پہنچانے کی بات کی تو اس پر بھی آمادہ نہیں تھے ، میرے بہت اصرار کرنے پر میرے ساتھ گئےـ اب بھی بیٹے بہو کی حمایت میں اور میرے خلاف رہتے ہیں _کہتے ہیں کہ دھیرے دھیرے وہ سدھر جائیں ـ
مولانا : آپ کے شوہر صحیح سوچتے ہیں ، اصلاح سے مایوس نہیں ہونا چاہیے ، اچھی امید رکھنی چاہیےـ
خاتون : میری بہو صبح دیر تک سوتی ہے ، جو مجھے بالکل پسند نہیں ـ
مولانا : آپ یہ کیوں نہیں سوچ لیتیں کہ ممکن ہے ، وہ رات میں دیر تک جاگتی ہو ـ پھر یہ ایسی عادت نہیں کہ اس کی اصلاح نہ ہوسکےـ
خاتون : میری بہو نمازوں کی پابند نہیں ، کبھی 3 وقت کی نماز پڑھتی ہے ، کبھی 4 وقت کی ـ میرا بیٹا بھی نمازوں کا پابند نہیں ـ
مولانا : بیٹا نماز کا پابند نہیں تو آپ کو بُرا نہیں لگتا ، پھر بہو کا نماز کی پابندی نہ کرنا کیوں بُرا لگتا ہے _ آپ کو تو دونوں کی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیےـ
خاتون : مولانا صاحب ، میں بہت زیادہ پریشان ہوں ـ بہو مجھے اپنی پسند کی نہیں ملی ـ
مولانا : بہو کو علیٰحدہ کرنے کا خیال دماغ سے نکال دیجیے _ اس کی دینی و اخلاقی تربیت کی فکر کیجیے _ آپ تھوڑی کوشش کرکے اسے اپنی پسند کا بنا سکتی ہیں ـ
خاتون : مجھے کیا کرنا ہوگا؟
مولانا : بہو کو اپنے اعتماد میں لیجیے ، اسے پیار دیجیے ، اس پر واضح کیجیے کہ آپ کی تمام شکایات دور ہوگئی ہیں ، مختلف مواقع پر اس کی تعریفیں کیجیے ، اس کے سامنے اس کے ماں باپ کی بُرائی نہ کیجیے ، وقتاً فوقتاً فون کرکے اس کی خیریت معلوم کیجیے ، اس سے کہیے کہ تمھیں دیکھے ہوئے بہت دن ہوگئے ہیں ، دو ایک روز کے لیے آجاؤ ، جب آپ اس کا دل جیت لیں گی تو وہ آپ کا کہنا مانے گی اور آپ کے اشاروں پر چلے گی ـ
خاتون : جب میں اسے پسند نہیں کرتی ہوں تو پھر یہ سب باتیں کیسے کہوں گی؟
مولانا : اگر آپ تعلقات میں خوش گواری چاہتی ہیں تو آپ کو یہ سب کہنا ہوگا ، خواہ اوپری دل سےـ
خاتون : کوشش کرتی ہوں ـ
طالب علم شعبۂ قانون، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی
تعلیم کو ہر مذہب میں اہمیت دی گئی ہے اور دنیا کے ہر دستور میں اس کو انسان کا بنیادی حق قرار دیا گیا ہے لیکن اسلام نے تعلیم پر کتنا زیادہ زور دیا ہے اس کا اندازہ اس تاریخی حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے اپنے پہلے پیغام میں تعلیم کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا "پڑھو” تاکہ انسانوں کے اندر سمجھ پیدا ہوسکے، وہ اس قابل ہو جائے کہ اپنی عقل کا استعمال کر کے صحیح اور غلط کے مابین تمیز کر سکے اور سماج کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکے۔ اسلام کے اس عالم گیر پیغام کی جامعیت یہ ہے کہ اس نے اس عالمی پیغام میں بلا تفریق جنس، مرد اور عورت دونوں کو شامل کیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کے ابتدائی دور میں خواتین تعلیمی میدان میں مردوں سے کبھی پیچھے نہیں رہیں؛لیکن زمانہ جیسے جیسے نبوت کے دور سے دور ہوتا چلا گیا، معاشرے میں برائیاں سر اٹھانے لگیں اور غیراخلاقی عناصر سماج میں جنم لینے لگے ۔ تب ضرورت اس بات کی تھی کہ اہل علم سنجیدگی سے ان سماجی برائیوں کے اسباب پر غوروفکر کرتے اور ایک جامع حل تلاش کرتے؛ لیکن بدقسمتی سے کچھ ایسا ہوا کہ جب کبھی کسی برائی نے سماج میں سر اٹھایا، لوگ اس غلط فہمی کے شکار ہوگئے کہ عورت ہی اس کی ذمے دار ہے، اس کی ہی وجہ سے سماج میں برائیاں پھیل رہی ہیں اور وہی ان ساری سماجی بگاڑ کی قصوروار ہے۔ لہذا اس برائی پر قابو پانے کے لیے ضروری سمجھا گیا کہ خواتین پر معاشرتی پابندیاں عائد کر دی جائیں اور ہوا یہ کہ معاشرے میں جب کبھی کسی برائی نے سر اٹھایا، تو خواتین کے اردگرد پابندی کی ایک مضبوط دیوار کھڑی کر دی گئی۔ اگر پھر کبھی کسی برائی نے سر اٹھایا تو اس پابندی کی دیوار کو اور اونچا اٹھا دیا گیا اور اس کو مضبوط سے مضبوط تر کر دیا گیا، حتیٰ کہ لڑکیوں کی تعلیم کو معیوب سمجھا جانے لگا، ان کو بنیادی تعلیم کے حصول کے لئے تعلیمی اداروں میں جانے سے منع کردیا گیا اور یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ عورت پڑھ لکھ کر کیا کرے گی اور اس طرح سے خواتین کو سماجی حصے داری اور دنیاوی معاملات سے کاٹ کر گھر کی چہار دیواریوں میں محصور کردیا گیا؛ لیکن سماجی برائیوں پر تب بھی قابو نہیں پایا جا سکا۔
پھر نتیجہ یہ ہوا کہ خواتین جو مسلم قوم کی آدھی آبادی تھی کو گھر میں محدود کر کے جاھل بنا دیا گیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس کا اعتراف ہمیں کرنا ہوگا کہ آج بہت سی مسلم مائیں ایسی ہیں جنہیں کلمہ تک یاد نہیں، بہت سی مسلم عورتیں ایسی ہیں جنہیں نماز و روزہ کا صحیح علم نہیں، بہت سی مسلم بہنیں ایسی ہیں جنہیں اپنا نام تک صحیح سے لکھنا نہیں آتا۔ غرض یہ کہ وہ ہر علم سے ناآشنا اور ہر طرح کی سماجی حصہ داری سے عاری ہیں۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ وہ قوم جس نے کبھی حضرت عائشہؓ، حضرت فاطمہؓ اور حضرت زینبؓ جیسی عظیم خواتین پیدا کی، آج اس قوم کی اکثر خواتین ناخواندہ ہیں۔
آخر اس کا ذمہ دار کون ہے؟ خواتین کو گھر میں محدود کرکے نہ ہی ہم نے دین کا بھلا کیا ہے اور نہ ہی دنیا کا۔ بلکہ اتنا ظلم ضرور کیا ہے کہ ہم نے نصف آبادی کو جاہل بنا دیا ہے، یہ ایک ایسا خلا ہے جس کو پر کرنے میں کئی صدیاں درکار ہیں۔ تعلیمی میدان میں ہم دوسری قوموں سے بہت پیچھے ہیں اور مسلم لڑکیاں دوسری قوموں کی لڑکیوں سے کہیں زیادہ پیچھے ہیں، اس لیے ہمیں لڑکیوں کی تعلیم پر بہت سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ذرا سوچئے تو سہی کہ آخر ایک وہ قوم جس کی پچاس فیصد آبادی کی اکثریت جاھل ہو، وہ دنیا میں کیسے ترقی کر سکتی ہے۔ یہ آفاقی نظام ہے کہ دنیا میں وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو تعلیمی میدان میں آگے ہوں۔
لہذا آج کے ایسے ماحول میں جہاں مسلم لڑکیاں ارتداد کا شکار ہو رہی ہیں اور دوسروں کے بہکاوے میں آکر اپنا مذہب تبدیل کر لے رہی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ انہیں تعلیم دی جائے اور اسلامی تعلیمات کی خوب صورتی سے روشناس کرایا جائے تاکہ ان کے عقیدے کی بنیاد مضبوط ہو اور وہ اپنے دین پر عمل پیرا ہونے میں ہی فخر محسوس کریں۔
یہ بڑی عجیب بات ہے کہ والدین جب بھی اپنے لڑکے کے لیے ضروری رشتہ تلاش کرتے ہیں، اس بات کو لازمی قرار دیتے ہیں کہ لڑکی پڑھی ہونی چاہیے لیکن وہی والدین اپنی بیٹیوں کو تعلیم یافتہ نہیں بناتے ہیں۔ بیٹی آپ کی ہو یا کسی اور کی، تعلیم تو ہر ایک کے لیے ضروری ہے اور اس کا بنیادی حق ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے وہ لڑکی جو آپ کو اپنے لڑکے کے لیے چاہیے، تعلیم اس کے لیے ضروری ہو لیکن آپ کی اپنی لڑکی جو سماج کے کسی گھر کی بہو بنے گی، کسی شخص کی بیوی بنے گی، کسی کی ماں بنے گی، تعلیم اس کے لیے ضروری نہ ہو؟
لہٰذا ان تمام مشکلات کا جامع حل یہ ہے کہ عورتوں کو دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم بھی دی جائے تاکہ وہ اپنے دینی اور دنیاوی معاملات کو بہتر سے بہتر سمجھ سکیں، کسی کی مدد اور مشورے کی محتاج نہ ہوں۔ یہ بات مردوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ ایک تعلیم یافتہ لڑکی انقلاب کے مانند ہے، جو گھر اور خاندان سے لے کر سماج تک کو بدل سکتی ہے اور اسے بہتر بنا سکتی ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسے گرلس اسکول یا تعلیمی ادارے کی بنیاد ڈالیں جہاں دینی تعلیم کے ساتھ عصری علوم بھی پڑھائے جاتے ہوں، تاکہ ہمارے قوم کی بچیاں محدود وقت میں ہر طرح کے علوم سے آراستہ ہو جائیں، صحیح اور غلط کے مابین فرق کرنے لگیں۔ اس کے لیے ذمہ داران کو بھی بچیوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے، ناکہ ان کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنایا جائے اور انہیں کسی بھی طرح کا عار محسوس نہ ہو۔ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو تے ہیں تب جا کر معاشرہ بدلے گا، اور آگے چل کر یہی بچیاں اپنی قوم اور اپنے ملک کا نام روشن کریں گی، پھر مسلم سماج سے جہالت کا خاتمہ ہوگا اور مسلمانوں کی موجودہ تعلیمی، سماجی، سیاسی اور معاشی صورتحال بہتر ہوگی۔
بیرونی اثرات اور داخلی کم زوریوں کی وجہ سے مسلمانوں کے خاندان بھی انتشار ، ابتری اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ـ نکاح ہونے کے بعد جلد ہی تنازعات شروع ہوجاتے ہیں ، جو بسا اوقات علیٰحدگی تک جا پہنچتے ہیں _ جماعت اسلامی ہند نے اس مسئلے کے حل کے لیے دو پروگرام بنائے ہیں : ایک ازدواجی تفہیمی کورس ، جس سے ان نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو گزارا جاتا ہے جن کا نکاح ہونے والا ہے ، یا ابھی حال میں ہوگیا ہوـ اس کورس میں اسلام کے عائلی نظام سے متعلق تمام موضوعات شامل کیے گئے ہیں ـ دوسرا خاندانی مفاہمتی مرکزـ اس کے تحت نکاح کے بعد افرادِ خاندان کے درمیان پیدا ہونے والے تنازعات کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہےـ جماعت وقتاً فوقتاً ما قبل نکاح والے کورس پر مبنی پروگرام منعقد کرتی ہے اور کونسلنگ مراکز چلانے والوں کی تربیت کے ورک شاپس بھی منعقد کرتی ہےـ
مغربی بنگال میں جماعت کے اس پروگرام کے تحت پچاس سے زائد فیملی کونسلنگ سینٹرز چلائے جا رہے ہیں _ کونسلرس کی ٹریننگ کے لیے دو روزہ ورک شاپ 21_ 22 اگست 2021 کو کلکتہ میں منعقد ہوا ، جس میں مرکز جماعت کی طرف راقم اور برادر عتیق الرحمٰن اسسٹنٹ سکریٹری شعبۂ HRD شریک ہوئے _ افتتاحی پروگرام میں کلیدی خطاب میرے ذمے تھا _ میں نے درج ذیل نکات میں گفتگو کی :
(1) اسلام پر کیے جانے والے اعتراضات میں سے ایک بڑا اعتراض اس میں عورت کی حیثیت اور حقوق پر ہے ، لیکن یہ اسلام کے نظامِ معاشرت کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہےـ
(2) اسلام نے اخروی اجر کے معاملے میں مرد اور عورت کے درمیان مساوات رکھی ہےـ کوئی بھی شخص ، چاہے وہ مرد ہو یا عورت ، نیک اعمال کرے گا تو اللہ کے انعام سے بہرہ ور ہوگا اور بُرے اعمال کرے گا تو اس کی سزا جھیلے گاـ
(3) لوگ مساوات کو یکسانیت کے مترادف سمجھتے ہیں ـ ان کا خیال ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان مساوات اس وقت ثابت ہوگی جب عورت مردوں جیسے کام کرنے لگےـ اسلام اس کا قائل نہیں ہےـ
(4) اسلام کے نزدیک مرد اور عورت دونوں کا دائرۂ کار الگ الگ ہےـ اس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ ایک کمپنی میں کچھ ملازمین اندرونی کام (پروڈکشن) کرتے ہیں اور کچھ بیرونی کام (مارکیٹنگ)ـ اسی طرح اسلام نے عورت کو اندرونِ خانہ کام (بچوں کی پیدائش و پرورش) پر لگایا ہے اور مرد کے حوالے بیرونِ خانہ کام ( مصارفِ زندگی کی فراہمی) کیے ہیں ـ
(5) اسلام نے مردوں اور عورتوں دونوں کے حقوق و فرائض بیان کردیے ہیں ـ نظامِ خاندان میں بیوی کو شوہر کی اطاعت کا حکم دیا ہے اور شوہر کو بیوی بچوں کی نگرانی کرنے ، ان کی ضروریات پوری کرنے اور انہیں تحفّظ فراہم کرنے کی تاکید کی ہےـ
(6) نظامِ خاندان میں اسلام نے خاص طور سے مردوں کو حکم دیا ہے کہ وہ عورتوں کے ساتھ اچھا بتاؤ کریں ـ اگر ان کی طرف سے ناگواری کی کوئی بات ظاہر ہو تو بھی برداشت کریں اور ان کی دیگر خوبیوں پر نظر رکھیں ـ
(7) اسلام نے عورت کو معاش کی ذمے داری سے مستثنیٰ رکھا ہے ، لیکن وقتِ ضرورت وہ گھر سے باہر جاسکتی ہے اور حدودِ شرع میں رہتے ہوئے ملازمت یا تجارت کرسکتی ہےـ
(8) اگر خاندان میں تنازعات سر ابھارنے لگیں تو اسلام حکم دیتا ہے کہ ابتدا میں زوجین خود انہیں حل کرنے کی کوشش کریں ، وہ کام یاب نہ ہو سکیں تو دونوں کے اہلِ خاندان آگے بڑھیں ـ اگر وہ اصلاح چاہیں گے تو اللہ انہیں اس کی توفیق دے گاـ
(9) اگر صلح و موافقت کی کوئی صورت دکھائی نہ دے تو اسلام اجازت دیتا ہے کہ وہ طلاق یا خلع کے ذریعے علیٰحدہ ہوجائیں ـ اس صورت میں پسندیدہ طریقہ یہ ہے کہ شوہر صرف ایک طلاق دےـ اس کا فائدہ یہ ہے کہ عدّت کے دوران وہ رجوع کرسکتا ہے اور عدّت پوری ہوجائے تو بعد میں بھی دونوں کا نکاح ہوسکتا ہےـ بعض لوگ ایک سانس میں تین طلاق دے کر خود کو ان سہولیات سے محروم کرلیتے ہیں جو شریعت میں انہیں دی گئی ہیں ـ
(10) وراثت میں اسلام نے مردوں اور عورتوں دونوں کا حصہ متعین کیا ہے اور تاکید کی ہے کہ چاہے مالِ وراثت کم ہو یا زیادہ ، اس میں تمام حصہ داروں کا حصہ اس میں لگایا جائےـ
راقم سطور کا ایک کتابچہ2017 میں ‘قرآن مجید کی عائلی تعلیمات’ کے نام سے مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوا تھاـ اس میں ان نکات سے بحث کی گئی ہےـ اس کا ہندی ترجمہ بھی طبع ہوا تھاـ جو حضرات اس کی پی ڈی ایف چاہتے ہوں وہ واٹس ایپ نمبر (9582050234_91+) پر رجوع کریں ـ
سوال
کیا شوہر کی اجازت کے بغیر بیوی کچھ دنوں کے لئے میکے جا سکتی ہے ؟
جواب :
بیوی کو شادی کے بعد وقفہ وقفہ سے اپنے میکے ضرور جانا چاہیےـ وہاں اس کے ماں باپ ، بھائی ، بھتیجے بھتیجیاں ، رشتے دار اور پورا خاندان رہتا ہےـ شادی کا مطلب یہ نہیں کہ سب سے رشتہ منقطع کرلیا جائے اور پلٹ کر ان کی خیر خبر نہ لی جائےـ جدید ذرائع نے اس کی سہولیات پیدا کردی ہیں ـ ہر ایک کے ہاتھ میں موبائل ہےـ بیوی کو چاہیے کہ اپنے میکے کے رشتے داروں سے موبائل پر رابطہ رکھے ، ان کی خیریت دریافت کرتی رہا کرے ، کبھی کوئی خوشی کا موقع ہو یا غم کا ، اس میں میکے جانے کی کوشش کرے _ ویسے بھی کچھ کچھ عرصے کے بعد میکے جاتے رہنا چاہیے _ اس سے تعلّقات میں خوش گواری قائم رہتی ہے اور ماحول بدل جانے سے صحت پر بھی اچھے اثرات پڑتے ہیں ـ
لیکن ضروری ہے کہ عورت جب اپنے میکے جانا چاہے تو شوہر سے اجازت لےـ محض اطلاع دینا کافی نہیں ہےـ اطلاع اور اجازت کے بغیر عورت کا گھر سے باہر نکلنا بالکل مناسب نہیں ہےـ اس سے ازدواجی زندگی میں خوش گواری باقی نہیں رہتی اور تعلقات میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں ، جنہیں اگر درست نہ کیا جائے تو بسا اوقات علیٰحدگی تک نوبت پہنچ جاتی ہےـ
بعض لوگوں کو یہ عجیب لگتا ہے کہ بیوی اپنے میکے جانے کے لیے شوہر سے اجازت کیوں لے؟ وہ کہتے ہیں کہ عورت اپنی مرضی کی مالک ہے _ خاندان میں وہ شوہر کے مساوی حیثیت رکھتی ہے _ جب وہ شوہر کے ماتحت نہیں ہے تو اجازت کے کیا معنیٰ؟ اسلامی نقطۂ نظر سے یہ بات درست نہیں ہےـ اسلام نے مرد کو خاندان کا ‘قوّام’ یعنی نگراں بنایا ہے _ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
اَلرِّجَالُ قَوَّامُوۡنَ عَلَى النِّسَآءِ ( النساء :34)
” مرد عورتوں پر ‘قوّام’ ہیں ـ”
مولانا سید ابو الاعلی مودودی رحمہ اللہ نے لکھا ہے : ” قوام اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہو ۔ ”
نظامِ خاندان میں مرد اور عورت کی حیثیت کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہےـ ایک کمپنی قائم کی جائے ، جس میں کچھ افراد کام کرنے والے ہوں تو ان میں سے ایک شخص کو ‘باس’ بنایا جاتا ہے اور دیگر تمام افراد کو اس کے ماتحت کرکے انہیں اس کا کہنا ماننے اور اس کی ہدایات کے مطابق کام کرنے کا پابند بنایا جاتا ہےـ اب اگر کسی ملازم کو کمپنی یا اپنے ذاتی کسی کام سے باہر جانا ہو ، یا کسی ضرورت سے رخصت لینی ہو تو وہ اپنے باس کو اس کی اطلاع دیتا ہے اور اس سے اجازت لیتا ہےـ اس سے نہ اس کی توہین ہوتی ہے نہ اس کی قدر گھٹتی ہے ، بلکہ یہ ایک ضابطہ کا عمل ہے ، جس سے کمپنی کو معمول کے مطابق چلانے میں مدد ملتی ہےـ ٹھیک یہی حال خاندان کا ہے کہ اس کا نظام درست طریقے سے چلانے کے لیے شوہر کو ‘باس’ بنایا گیا ہے اور بیوی بچوں کو اس کے ماتحت رکھا گیا ہے ـ شوہر کو تاکید کی گئی ہے کہ بیوی کا خیال رکھے ، اس کی دل جوئی کرے اور اس کی تمام ضروریات پوری کرے اور بیوی کو حکم دیا گیا ہے کہ شوہر کی اطاعت کرےـ اس لیے بیوی کو گھر سے باہر کہیں بھی جانا ہو ، ضروری ہے کہ وہ شوہر سے اجازت لےـ
بعض خواتین شکایت کرتی ہیں کہ ان کے شوہر انہیں میکے جانے نہیں دیتےـ یہی نہیں ، بلکہ وہ میکے والوں سے موبائل پر بات چیت کرنے پر بھی پابندی عائد کرتے ہیں _ یہ شکایت بجا ہےـ ایسے شوہروں کا رویّہ درست نہیں ، بلکہ سراسر قابلِ مذمّت ہےـ نکاح کے بعد بیوی کو اس کے میکے والوں سے کاٹنا غیر شرعی ہے _ ایسی پابندی بالکل ناروا ہےـ بیوی کوئی بکری یا گائے تو ہے نہیں ، کہ اسے خرید کر اپنے کھونٹے سے باندھ لیا ، اب سابق مالک سے اس کا کوئی تعلق باقی نہیں رہاـ بیوی کو نہ صرف اس کے میکے جانے کی اجازت دینی چاہیے ، بلکہ شوہرِ نام دار کو کبھی کبھی بیوی کے ساتھ اس کے میکے (اپنی سسرال) چلے جانا چاہیےـ جس طرح شوہر کے ماں باپ بیوی کے لیے اس کے ماں باپ کے درجے میں ہیں اسی طرح بیوی کے ماں باپ بھی شوہر کے لیے اس کے ماں باپ کے درجے میں ہیں ـ صلہ رحمی کا حکم بیوی اور شوہر دونوں کے لیے ہےـ قرآن و حدیث میں اس پر بہت زور دیا گیا ہے اور قطع رحمی کرنے والوں کو وعید سنائی گئی ہےـ
کیا بیوی کی مرضی کے بغیر اس سے مباشرت کی اجازت نہیں؟: اسلام کا نقطۂ نظرـ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
کیرلا ہائی کورٹ نے ایک ایسا فیصلہ سنایا ہے ، جسے ہندوستانی میڈیا نے ‘بریکنگ نیوز’ کی حیثیت دی ہے،چنانچہ تمام اخبارات اور پورٹلس میں اسے نمایاں جگہ دی گئی ہے اور اس پر مباحثے شروع ہوگئے ہیں ـ کورٹ کی ڈویژن بینچ نے کہا ہے کہ بیوی کے جسم کو شوہر کا اپنی ملکیت سمجھنا اور اس کی مرضی کے خلاف اس سے مباشرت کرنا ‘بالجبر جنسی عمل'( Merital Rape) ہےـ کورٹ نے یہ فیصلہ ایک شخص کی اپیل کو خارج کرتے ہوئے سنایا ہے جس نے فیملی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف اپیل کی تھی کہ بیوی کے ساتھ شوہر کے ذریعے زبردستی مباشرت کی صورت میں بیوی کو طلاق لینے کا حق ہے ـ
بینچ کے فاضل ججوں نے کہا ہے کہ اگرچہ قانون Marital Rape کو سزا کے دائرے میں نہیں لاتا ، لیکن کورٹ اسے ظلم ماننے سے نہیں رک سکتا _ اس کی نظر میں اس بنا پر بیوی کو حق ہے کہ وہ علیٰحدگی کا مطالبہ کرےـ کورٹ نے یہ بھی کہا ہے کہ ازدواجی زندگی میں جنسی عمل (Sex) زوجین کے درمیان گہرے تعلق کا عکّاس ہوتا ہے _ اِس کیس میں بیوی اپنی مرضی کے خلاف جنسی تشدّد کا شکار رہی ہے _ ہر انسان کا یہ بنیادی حق ہے جو اسے فطری قانون اور دستور نے دیا ہے کہ وہ اپنی نجی زندگی میں اذیّت کا شکار نہ ہو _ بینچ نے کہا ہے کہ اگر زوجین میں سے کسی کی جنسی خواہش بہت زیادہ بڑھی ہوئی ہو اور دوسرا اس کی تکمیل کا متحمّل نہ ہو تو وہ علیٰحدگی اختیار کرسکتا ہےـ
یہ موضوع مغرب میں کافی عرصہ سے زیرِ بحث ہے _ وہاں کے بعض ممالک میں قوانین بھی بن گئے ہیں کہ بیوی کی مرضی کے بغیر اس سے جنسی تعلق قائم کرنا غیر قانونی اور قابلِ تعزیر جرم ہےـ کچھ عرصہ قبل یہ موضوع ہندوستان کی سپریم کورٹ میں بھی زیر بحث آچکا ہے _ 2014 میں اسپیشل فاسٹ ٹریک کورٹ نے فیصلہ سنایا تھا کہ زنا بالجبر (Rape) سے متعلق ہندوستانی قوانین کا اطلاق شادی شدہ جوڑوں پر نہیں ہوتا _اس لیے بیوی کے ساتھ زبردستی جنسی عمل کو Rape نہیں کہا جاسکتاـ اب کیرلا ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا ہے کہ اگر شوہر بیوی کے ساتھ زبردستی کرے تو اس بنیاد پر وہ طلاق کا مطالبہ کرسکتی ہےـ
احباب دریافت کررہے ہیں کہ اس سلسلے میں اسلام کا کیا نقطۂ نظر ہے؟ ذیل میں نکات کی شکل میں اس کی وضاحت کی جارہی ہے :
(1) آزادی جدید دنیا کی بنیادی قدروں میں سے ہے _ مغرب میں بلا حدود و قیود آزادی کا چلن ہے _ وہاں ہر شخص کو آزادی حاصل ہے ، کسی دوسرے کو اس پر قدغن لگانے کا حق نہیں ہےـ کسی مرد یا عورت سے جنسی تعلق اس کی مرضی سے قائم کیا جاسکتا ہے ، اس کی مرضی کے بغیر نہیں ، حتی کہ بیوی کے معاملے میں شوہر کو بھی اس کا حق نہیں ـ اسلام بے محابا آزادی کا قائل نہیں ہےـ اس کے نزدیک اتنی آزادی قابلِ تسلیم نہیں ہے جس سے دوسرے کے حقوق پامال ہوں ـ
(2) جنس (sex) لڑکا / لڑکی ، مرد / عورت کی فطری ضرورت ہے _ اسلام نے اسے تسلیم کیا ہے ، لیکن اسے نکاح کا پابند کیا ہے _ اس نے نکاح کے بغیر کھلے اور چھپے ہر طرح کے جنسی تعلق کو حرام قرار دیا ہے :
مُحۡصِنِيۡنَ غَيۡرَ مُسَافِحِيۡنَ وَلَا مُتَّخِذِىۡۤ اَخۡدَانٍؕ ( المائدۃ :5)
” تم نکاح میں اُن (عورتوں) کے محافظ بنو ، نہ کہ آزاد شہوت رانی کرنے لگو ، یا چوری چُھپے آشنائیاں کرو۔”
مُحۡصَنٰتٍ غَيۡرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّلَا مُتَّخِذٰتِ اَخۡدَانٍ ؕ (النساء :25)
” تاکہ وہ (عورتیں) حصارِ نکاح میں محفوظ ہو کر رہیں ، آزاد شہوت رانی نہ کرتی پھریں اور نہ چوری چھُپے آشنائیاں کریں۔ ”
(3) زوجین کا باہم عملِ مباشرت ایک پسندیدہ اور مطلوب عمل ہےـ اس سے دونوں کو جسمانی اور نفسیاتی سکون ملتا ہےـ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَمِنۡ اٰيٰتِهٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَكُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِكُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡكُنُوۡۤا اِلَيۡهَا ( الروم : 21)
” اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے ، تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کروـ”
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جنسی عمل کو فرحت بخش قرار دیا ہے اور اسے ‘شہد جیسی مٹھاس’ سے تشبیہ دی ہے _( بخاری : 5825 ، مسلم : 1433) ایک حدیث میں آپ نے اسے ‘صدقہ’ سے تعبیر کیا ہے _ ارشاد ہے :
” وَ فِي بُضْعِ أحَدِكُم صَدَقَةٌ ”
(تمھارا اپنی بیوی سے مباشرت کرنا صدقہ ہے ـ)
یہ بات صحابۂ کرام کو عجیب سی لگی _ انھوں نے سوال کیا : ” اے اللہ کے رسول ! کیا ہم میں سے کوئی اپنی جنسی خواہش پوری کرے تو اس پر بھی اسے اجر ملے گا _؟” آپ نے اس سوال کا بڑا پیارا سا جواب دیا _ آپ نے فرمایا : ” اگر وہ حرام کاری کرتا تو اس کا گناہ اسے ملتا_ اسی طرح اگر اس نے جائز طریقے سے اپنی خواہش پوری کی تو اس پر اسے ضرور اجر ملے گا _” ( مسلم : 1006)
(4) اسلام زوجین کو حکم دیتا ہے کہ وہ ایک دوسرے کا خیال رکھیں ، ایک دوسرے کے ساتھ اچھا برتاؤ کریں اور ایک دوسرے کی ضرورتوں کو پورا کریں _ شوہر کو بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید کی گئی ہے _ قرآن مجید میں ہے :
وَعَاشِرُوۡهُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ (النساء :19)
” ان (عورتوں) کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو _”
اور بیوی کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ شوہر کا کہنا مانا اور اس سے سرتابی نہ کرے _ خاص طور سے اسے حکم دیا گیا ہے کہ جب شوہر اس سے جنسی تعلق کا تقاضا کرے تو اگر اسے کوئی عذر نہ ہو تو انکار نہ کرے _ ایک حدیث میں ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ” اگر شوہر بیوی کو (جنسی تعلق کے لیے) بلائے تو وہ فوراً چلی جائے ، چاہے وہ تنّور پر بیٹھی ہو _” ( ترمذی : 1160) ایک حدیث میں ہے کہ آپ ص نے فرمایا : ” اگر شوہر رات میں اپنی بیوی کو جنسی تعلق کے لیے بلائے ، لیکن وہ نہ جائے تو فرشتے صبح تک اس پر لعنت کرتے ہیں _” ایک روایت میں ہے کہ ” اوپر والا اس سے اُس وقت تک ناراض رہتا ہے جب تک شوہر کی ناراضی دور نہ ہوجائےـ” (مسلم : 1436)
ان احادیث کا خطاب اگرچہ عورت سے ہے ، لیکن ان کا اطلاق دونوں پر ہوتا ہے _ شوہر اور بیوی دونوں کو چاہیے کہ اپنے جوڑے کی جنسی خواہش کو پورا کرنے سے اعراض نہ کرے ، چاہے کسی وقت خود اس کی اپنی خواہش نہ ہوـ
(5) زوجین کے درمیان جنسی تعلق کے سلسلے میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس میں اعتدال ہونا چاہیےـ اعتدال کی کوئی حد نہیں قائم کی جا سکتی _ بعض اطباء نے ہفتہ میں ایک بار تعلق کو صحت کے لیے بہتر قرار دیا ہے ، لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اس معاملے میں زوجین خود فیصلہ کرسکتے ہیں اور اپنی مرضی سے اس میں کمی بیشی کرسکتے ہیں ـ
(6) اگر اس معاملے میں زوجین میں سے کسی کی طرف سے آمادگی نہ پائی جائےـ شوہر کی خواہش ہو ، لیکن بیوی آناکانی کرے ، یا بیوی کی خواہش ہو ، لیکن شوہر کسی دوسرے کام میں مصروف ہو تو دوسرے فریق کو کچھ رعایت دینی چاہیے اور اس پر اپنی مرضی تھوپنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیےـ اس معاملے میں شوہر پر زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ صبر و ضبط کا مظاہرہ کرے _ اس لیے کہ عورت مختلف مزاجی کیفیات سے گزرتی ہےـ حیض سے قبل اس میں چڑچڑاپن ہوسکتا ہے ، بچے کو دودھ پلانے کی مشقّت ہوسکتی ہے ، یا دوسرے گھریلو مسائل درپیش آسکتے ہیں ـ جبریہ جنسی تعلق یوں بھی لذّت بخش نہیں ہوتاـ لذّت کی فراوانی اس وقت ہوتی ہے جب دونوں فریق بھرپور طریقے سے ایک دوسرے کا ساتھ دیں ـ
(7) اگر کوئی عورت عملِ مباشرت پر آسانی سے آمادہ نہیں ہوتی اور مسلسل انکار کرتی ہے تو اس کے اسباب جاننے کی کوشش کرنی چاہیے ، پھر ان اسباب کو دور کرنا چاہیےـ اس موضوع پر اس سے کھل کر بات کرنی چاہیےـ بسا اوقات عورت کی شرم گاہ بہت تنگ ہوتی ہے ، جس کی بنا پر مباشرت سے وہ شدید اذیت محسوس کرتی ہے _ اگر ایسا ہے تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیے کہ معمولی آپریشن سے اس کی اصلاح ہوسکتی ہےـ
(8) اگر زوجین میں سے ایک کی جنسی ضرورت دوسرے سے مستقل طور پر نہیں پوری ہوپارہی ہو تو شریعت نے اس مسئلے کو بھی حل کیا ہےـ اگر بیوی کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جس کی وجہ سے وہ شوہر کی جنسی خواہش کی تکمیل سے قاصر ہو تو شوہر دوسری شادی کرسکتا ہے اور اگر شوہر کسی مرض کی وجہ سے بیوی کی جنسی خواہش کو پورا نہ کر پارہا ہو تو عورت خلع کا مطالبہ کر سکتی ہےـ
(9) عام حالات میں ، جب بیوی صحت مند ہو اور اسے کوئی عذر نہ ہو تو اس کے لیے جائز نہیں کہ اگر شوہر مباشرت کا تقاضا کرے تو اس سے انکار کردے ، محض یہ کہہ کر کہ اس کی مرضی نہیں ہےـ اس کا یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ جب وہ چاہے گی تبھی شوہر کو مباشرت کرنے دے گی ، ورنہ نہیں ـ اسے شوہر کی جنسی خواہش پوری کرنے کے لیے برضا و رغبت تیار رہنا چاہیے ، جس طرح شوہر کی ذمے داری ہے کہ جب بیوی مباشرت کی خواہش کا اظہار کرے تو اسے نہ ٹالےـ
(10) اگر شوہر جلد جلد جنسی عمل کا تقاضا کرتا ہو اور بیوی محسوس کرتی ہو کہ اسے شوہر کی بڑھی ہوئی جنسی خواہش کی تکمیل میں اذیّت ہوتی ہے تو وہ علیٰحدگی کا مطالبہ کرسکتی ہے اور اگر شوہر طلاق یا خلع پر آمادہ نہ ہو تو وہ دار القضاء میں کیس دائر کرکے نکاح کو فسخ کراسکتی ہےـ اسلامی شریعت نے تو عورت کو یہاں تک حق دیا ہے کہ شوہر سے اس کی منافرت کا کوئی بھی سبب ہو وہ اس سے گلو خلاصی حاصل کرسکتی ہےـ حضرت ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا : ” میں اپنے شوہر پر دین اور اخلاق کے معاملے میں کوئی الزام نہیں لگاتی ، لیکن میں ان کے ساتھ نہیں رہ سکتی ـ” چنانچہ آپ نے ان کا نکاح ختم کروادیاـ (بخاری : 5273 ، 5274 ، 5276)
مسلم لڑکیوں کے عقیدہ و عفت پر حملہ اور ہماری ذمے داریاں- مفتی نعمت اللہ ناظم قاسمی
ریسرچ اسکالر: ام القری یونیورسٹی،مکہ مکرمہ
’’اولاد‘‘ اللہ تعالیٰ کی ایک بڑی نعمت ہے ، جس کی خواہش ہر انسان کو ہوتی ہے، انسانوں کی مقدس ترین ہستی انبیاء کرام نے بھی اس کی خواہش کی ہے ، اور اولاد صالح کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کی ہیں، اولاد ہی کے ذریعہ نسل انسان کا تسلسل قائم ہے اور اسی میں اس کے بقاء کا راز مضمر ہے ، قرآن کریم نے انسان کے دلی کیفیت کے احساس کا اظہار کرتے ہوئے اسے وجہ زینت وسبب تفاخر بھی بتایاہے،
ظاہر ہے ’’اولاد‘‘ جتنی بڑی نعمت ہے ،اس قدرا ہم ان کے تئیں والدین کی ذمہ داریاں بھی ہیں، کیوں کہ اولاد اگرصالح اور نیک نہ بن سکے تو پھر ایسی اولاد باعث رحمت نہیں بلکہ سبب زحمت بن جاتے ہیں، اس لئے قرآن وحدیث میں اولاد صالح کی دعاء کا حکم ملتا ہے ،اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو واضح طور پر اولاد کی دینی تربیت کا حکم دیا ہے،ارشاد باری ہے: یآیہا الذین آمنو اقواَنفسکم واہلیکم نارا(التحریم:۶)، کہ اے مسلمانوں تم اپنی ذات اور اپنے اہل خانہ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ،اس آیت کی تفسیر میں تمام ہی مفسرین نے اپنی اولاد کی صحیح اسلامی تربیت کے حکم کو اس آیت سے ثابت کیاہے،
اہل علم بخوبی واقف ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے احادیث مبارکہ میں بچوں کی اسلامی تربیت کے واضح طریقہ کار سے ہمیں واقف کرایاہے،اور والدین پر یہ ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ صحیح طور پر اسلامی آداب واحکام کابچوں کو شروع سے ہی پابند بنائیں تاکہ بڑے ہوکر ان پر عمل کرناان کے کے لئے آسان ہو،اس پس منظر پہ اگر ہم غور کریں تو بہت سی مثالیں ہمیں حدیث پاک میں ملتی ہیں،چنانچہ سب سے پہلے مرحلہ میں پیدائش کے بعد بچوں کے کان میںاذان واقامت کے کلمات کاکہاجانا،پھر اچھے نام کی تلقین ،عقیقہ کا انتظام، سات سال کی عمر سے نماز کی تربیت اور دس سال کی عمر میں بھی نماز نہ پڑھنے پر تادیب وسرزنش،،ظاہر ہے کہ ان سب کا مقصد یہی ہے کہ بچوں اور بچیوں میں اسلامی شعور پیدا ہو اور وہ شرعی احکام کے مطابق اپنی زندگی گذارنے کے اہل ہوجائیں جس سے ان کی دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت بھی کامیا ب ہوجائے۔
اولاد کی تربیت میں سب سے پہلا مرحلہ بچوں میں اسلامی عقائد کی ترسیخ کا ہے ،اسلام کا بنیادی عقیدہ ،توحید، رسالت اور آخرت کاہے،اگر خدانخواستہ یہ بنیادی عقائد ہی متزلزل ہوگئے اورہم اپنے بچوں کی ایسی تربیت نہیں کرسکے جس سے ان کا ایمان محفوظ رہ سکے تو یقینا ہم خداکے سامنے جواب دہ ہوں گے۔
عصر حاضرمیں اسلام مخالف طاقتیں اس بات کے لئے بہت سرگرم ہیں کہ امت مسلمہ کی نئی نسل سے اسلام کا صفایاکردیں ،اور خاص طور پر ہندوستان میں بہت سی تنظیمیں منظم اندازمیں اس جہت پر کام کررہی ہیں کہ مسلم لڑکیوں کے ایمان پر ڈاکہ ڈالا جائے اور انہیں کفروشرک کی تاریکیوں میںدھکیل دیاجائے ،اور اسلام جیسی عظیم نعمت سے انہیں محروم کرکے ارتدادکے دلدل میں انہیں پھنسادیاجائے، پچھلے چند سالوں سے یہ کوشش بہت منظم انداز سے شہروں کے ساتھ ساتھ دیہاتوں میں بھی چل رہی ہے اور بہت سی مسلم لڑکیاں اس گندے کھیل کا شکار ہوکر اپنی دنیا وآخرت برباد کررہی ہیں۔آئے دن اخبارات میں ایسی خبر یں گردش کررہی ہیں جس میں مسلم لڑکی کسی غیر مسلم سے اسلامی احکام کو روندتے ہوئے کورٹ میں شادی کرلیتی ہے۔اور پھر اپنا مذہب تبدیل کرکے اسلام کی نعمت کو ٹھکراکر کفر کی ذلت ورسوائی کو قبول کرلیتی ہیں،
اللہ تعالیٰ نے مسلم والدین پر سب سے اہم ذمہ داری اپنے بچوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی عائد ہے جیساکہ آیت کریمہ میں اوپر مذکور ہوا ہے،اس پس منظر پر ہمارا یہ بنیادی فریضہ ہے ہم اپنے بچوں بچیوں کے ایمان کی حفاظت اور کفر وشرک وارتداد کی کھائی میں گرنے سے پہلے ان کو بچائیں، ورنہ قیامت کے دن ہم بھی قصوروار قرار پائیں گے۔
اگر ہم جائزہ لیں اور ارتدادکی اس لہر کے اسباب پر غور کریں تو چند باتیں کھل کر ہمارے سامنے آتی ہیں،کہ جن کی وجہ سے آج ہماری لڑکیاں اپنے ایمان وعقیدہ کا خطرناک سودہ بھی اپنے جذبات میں بہہ کر کرلیتی ہیں:
۱۔ ایمان کی کمزوری، خوف خداکی کمی،اور دینی آداب واحکام سے ناواقفیت
۲۔ گھروں میں دینی ماحول کا فقدان۔
۳۔ موبائل اور انٹر نیٹ کا بے جا استعمال
۴۔ اسکول ،کالجوں کوچنگ سینٹر میں لڑکوں اورلڑکیوں کاباہمی اختلاط
۵۔ بے پردگی اور لباس کے سلسلہ میں اسلامی آداب کی عدم رعایت۔
یہ وہ چند بنیادی اسباب ہیں جن میں ہماری کوتاہیوں نے آج ہمیں اس منزل پر کھڑا کردیاہے کہ جس کی وجہ سے ہماری لڑکیاں اسلام پر عمل تو درکنار خود اسلام سے ہی ہاتھ دھونے کے درپے ہیں، تو آئیے آج ہم یہ عہد کریں کہ :
۱۔ ہم مسلم قوم ہیں ہمارے لئے ایمان وعقیدہ سے بڑھ کر کوئی بھی چیز قیمتی نہیں ہے ،ہم اپنی جان قربان دیں گے مگر اپنے عقیدہ کا لمحہ کے لئے بھی سودہ نہیں کریںگے۔
۲۔ اسلام ہی ایسا مذہب ہے جوہمارے لئے دنیا وآخرت کی کامیابی کاضامن ہے، اسلام کو چھوڑ کرہم دنیا وآخرت کی سعادت کو حاصل نہیں کرسکتے ہیں۔
۳۔ ہم خود بھی دین اسلام کو اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریںاور اپنی اولاد کو بھی سمجھائیں۔
۴۔ خوف خدا، آخرت کا یقین ہم اپنی زندگی میں ہر لمحہ اپنے سامنے رکھیں اور بچوں کی بھی تربیت اسی نہج پر کریں۔
۵۔ خود بھی اپنے اندر دینی شعور پیدا کریں اور اپنے بچیوں میں بھی دینی شعور بیداراکریں،انہیں صحابہ وصحابیات کی جدو جہد سے واقف کرائیں۔
۶۔ ہم اپنے گھروں کو نماز ، تلاوت قرآن اور ذکر الٰہی سے روشن کریں ، اگر ہم نے یہ نہیں کیا تو پھر آہستہ آہستہ شرک وکفر کی نحوست وتاریکی ہمارے گھروں تک آجائے گی ۔
۷۔ ہم اپنے بچوں ،بچیوںکے دل میں اس بات کو مکمل طور پر راسخ کریں کہ ہم کسی بھی حال میں اپنے عقیدہ سے منحرف نہیں ہوں گے ، او ر کسی بھی دنیاوی لالچ او رمفاد کے خاطر اسلام کا سودا نہیں کریں گے۔
۸۔ آج انٹرنیٹ او ر موبائل کی دنیا نے ہمارے گھروں میں بے حیائی، فکری ارتداد کا دروازہ کھول دیاہے، آئیں ہم عہد کریں کہ ضرورت کے مطابق ہی ہم موبائل اورانٹر نیٹ کا استعمال کریں اور اپنے بچوں اور بچیوں کو اگر موبائل کی ضرورت کے لئے دیں بھی تو اس پر مکمل نگاہ رکھیں اور ان کی ذہن سازی بھی کرتے رہیں کہ اللہ انہیں دیکھ رہا ہے،اس لئے رات کی تاریکی یا دن کی تنہائی میں وہ کوئی خلاف شریعت کام نہ کریں ۔
۹۔ سوشل میڈیا ، یوٹیوب ،فیس بک وغیرہ تو آج ہمارے معاشرہ میں عام ہے، اگرہم نے اپنے نئی نسل میں اسلامی شعور بیدار نہیں کیا تو وہ اس جال میں پھنس کر کہاں چلے جائیں گے ہم سوچ بھی نہیں سکتے ہیں، اس لئے سب سے اہم کام بچوں او ر بچیوں کو نگرانی اور انہیں آخرت کا خوف دلاناہے ۔
۱۰۔ اسکولوں ، کالجوں میں ہم ایسے اداروں کا انتخاب کریں جہاں پر لڑکیوں اور اورلڑکیوں کے لئے علاحدہ تعلیمی انتظام ہو ا، اسی طرح کوچنگ سینٹر اور امتحانات کی تیاری کے لئے قائم کردہ اداروں میں وہاں ہم اپنی لڑکیوں کو بھیجیں جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے الگ پڑھائی کا انتظام ہو ،نیز ان کی خبر گیری بھی کرتے رہیں اور انہیں ہمیشہ عفت وعصمت کی تعلیم اور اجنبی لڑکوں سے بات چیت سے بالکلیہ منع کرتے رہیں ،نیز ان میں اللہ اوررسول اور آخرت کا خوف ہمیشہ پیدا کرتے رہیں ،
یاد رکھیں ایسی تعلیم اور ایسا ماحول جو اجنبی اور غیر مسلم لڑکوں سے مسلم لڑکیوں کے درمیان میں باہمی ربط اور فتنہ وفساد کا سبب بنے،اس سے وہ جہالت ہی زیادہ قابل قبول ہے ،جہاں مسلم لڑکیاں اپنے دین وایمان اور اسلامی احکام پر مکمل طور پر عمل پیرا ہوسکیں۔
اگر ہم نے نوشتر دیوار کونہیں پڑھا اور اپنی لڑکیوں کی صحیح تعلیم وتربیت، ان کی ذہنی وفکری اسلامی نشو ونما کی ترقی نہیں کی تو یقین جانیں ہم بھی اس جرم میں برابر کے شریک ہوں گے اور رب کے دربارمیں اس سلسلہ میں ہم سے پوچھ گچھ ہوگی۔
آج اسکول ،کالجوں ،بازاروں اور آفسوں میں مسلم لڑکیوں کو پیار ومحبت کے جال میں پھنسا کر ہند و لڑکے انہیں منظم سازش کے طور پر مرتد وکافر بنارہے ہیں ،یہ منظم سازش ہے جس کا اظہار ہندوستان کی بعض فرقہ پرست طاقتوں اور قوتوں نے مختلف اخبارات میں کیاہے ،بعض بے شعور اور اسلامی تہذیب وثقافت سے عار ی مسلم لڑکیاں جذبات میں آکرغیر مسلم لڑکوں کے جال میں پھنس جاتی ہیں ، بعض دفعہ چند پیسوں، نوکریوں کے لالچ میں وہ ایسا کربیٹھتی ہیں اور غیر مسلم لڑکوں سے شادی کرکے تا حیات زنا کاری میں ملوث رہتی ہیں کیوں کہ ایک مسلمان عورت کے لئے غیر مسلم سے شادی کرنے کی اسلام میں بالکل ہی اجازت نہیں اور یہ کار حرام ہے۔
ایسی لڑکی زنا کی جیسی حرام کاری کے مرتکب ہونے کے ساتھ ساتھ اپنا ایمان بھی گنوادیتی ہیں اور ہندورسم ورواج کے مطابق اپنی زندگی گذارنے کے لئے پیار کے جھوٹے نشہ میں تیار ہوجاتی ہیں ،جس کا انجام آخرت میں بد سے بدتر توہوگا ہی، دنیا میں بھی ایسے واقعات ہمارے سامنے پیش آتے ہیں جوہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں ،نہ جانے دسیوں بھٹکی ہوئی اس طرح کی لڑکیوں نے میڈیا کے سامنے آکر کھل اپنے ساتھ ان غیر مسلم لڑکوں کی ہوس پرستی، ظلم وزیادتی کی روداد کو بیان کیاہے، اور اس بات کو واضح کردیاہے کہ ان غیر مسلم لڑکوں کا صرف اور صرف مقصد وقتی طور پر جنسی تسکین اور مسلم لڑکیوں کے دین اسلام سے کھلوار کرکے انہیں کافر ومشرک بنانا ہے۔
ان حالات میں بھی اگر مسلم لڑکیاں ہوش کے ناخن نہ لیں ، اور اپنے اندرتبدیلی نہ پیداکریں ، اسلامی احکام کے مطابق عفت وپاکدامنی ، پردہ وحیاء کا دامن نہ تھامیں تو اس سے بڑی بے حسی او ر کیاہوگی؟۔
ایسے موقع پر والدین ،خاندان ،مسلم معاشرہ کی ذمہ داریاں ،بہت زیادہ بڑھ جاتی ہیں ،کہ اجتماعی طورپر مسلم لڑکیوں کے ایمان واخلاق کی حفاظت کے لئے محلہ کی سطح پر کوشش کی جائے ،ہر محلہ میں لڑکیوں اور عورتوں کے لئے دینی بیداری پروگرام چلایا جائے، اسلامی احکامات سے انہیں واقف کرایا جائے ،اور ان کے اندر اسلامی غیرت کوبیدار کیا جائے، ان ہی مثبت کوششوں سے اس منظم سازش کا مقابلہ کیا جاسکتاہے۔ واللہ ہو الموفق والمعین۔
مسلم خواتین میں تعلیمی بیداری کا مایوس کن تناسب : مسائل اور ان کا حل-پروفیسر صالحہ رشید
صدر شعبۂ عربی و فارسی،الہ آباد یونیورسٹی
نپولین کا قول ہے کہ تم ہمیں تعلیم یافتہ مائیں دو ، ہم تمھیں مہذب معاشرہ دیں گے۔اسی طرح ہندوستان کے سابق وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو کے مطابق کسی ملک کی کارکردگی کا اندازہ اس ملک کی خواتین کی حیثیت کو دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔ان دونوں ہی نامور ہستیوں کے خیال کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ خواتین معاشرہ سازی میں معمار اول کا کردار ادا کرتی ہیں۔یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ جب ایک خاتون تعلیم یافتہ ہوتی ہے تو وہ پورے خاندان کی مثبت تبدیلی کا سبب بنتی ہے۔یہی مثبت تبدیلی آگے بڑھتے ہوئے ہمارے ملک ہندوستان اور ہندوستانی مسلمانوں کے بہتر مستقبل کی ضامن قرار پاتی ہے۔با لفاظ دیگرایک تعلیم یافتہ خاتون ایک با شعور نسل تیار کرتی ہے جس پر کسی قوم کی ترقی و بہبود کا دارو مدار ہوتا ہے۔
تعلیم کے عموماً دو مراحل نظر آتے ہیں۔بنیادی تعلیم اور اعلیٰ تعلیم۔بنیادی تعلیم ابتدائی مرحلہ ہے تو اعلیٰ تعلیم انتہائی مرحلہ ہے۔ابتدائی تعلیم انسان کو ایک مضبوط بنیاد فراہم کرتی ہے جس پر اس کے پورے مستقبل کا انحصار ہوتا ہے۔اعلیٰ تعلیم جہاں ایک طرف انسان کے شعور میں بالیدگی پیدا کرتی ہے وہیں دوسری جانب اس کے ذریعہ اقتصادی مسائل بھی حل ہوتے ہیں۔اس سے انسانی رویے میں تبدیلی آنے کے ساتھ ہی خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے اور ایک خوش حال معاشرہ وجود میں آتا ہے۔یہ تمام عوامل باور کراتے ہیں کہ ترقی خواہ کسی ملک اور قوم کی ہو یا صنف کی ،اس کا تعلق تعلیم سے ہے۔
حکومت ہند کی Ministry of Statistics and ProgrammeکےNational Sample Survey officeکی اگست ۲۰۲۰ء کی جاری رپورٹ کے مطابق کل ہند خواندگی کی شرح 77.7%ہے۔جس میںمردوں کی خواندگی کی شرح84.7%اور خواتین کی خواندگی کی شرح70.3%ہے۔اس میں مسلم مردوں کی خواندگی کی شرح 81%اور مسلم خواتین کی خواندگی کی شرح 69%ہے۔یہ ریسرچ ۱۸۔۲۰۱۷ء میں کی گئی جس کے نتائج ۲۰۲۰ء میں عوام کے درمیان پیش کئے گئے۔ایک اور سروے کے مطابق مسلم خواتین میں تین سے پینتیس برس کی عمر کی 22%خواتین ایسی ہیں جنھوں نے اسکول کی شکل ہی نہیں دیکھی ۔مذہبی اعتبار سے یہ فی صد کسی بھی مذہب سے وابستہ خواتین کی شرح خواندگی میں سب سے کم ہے۔کرسچین خواتین کی شرح خواندگی 82%ہے۔
مسلم خواتین میں خواندگی کا تناسب کم ہونے کے اسباب معلوم کرنے سے قبل ایک حقیقت جان لینی ضروری ہے کہ تعلیم اور صحت کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔کسی معاشرے کے مہذب ہونے کا اندازہ مندرجہ ذیل نکات سے لگایا جا سکتا ہے :
(۱) اس معاشرے کی آبادی میں خواتین اور مردوں کا تناسب کیا ہے؟
(۲) ان میں خواتین کی خواندگی کی شرح کیا ہے؟
(۳) زچگی کے دوران ہونے والی اموات کی شرح کیا ہے؟
(۴) زچگی کے لئے کتنی سہولیات فراہم ہیں؟
مسلم خواتین کی تعلیمی شرح کے کم ہونے کے اسباب پر نگاہ ڈالیں تو واضح طور پر مذہبی ،اقتصادی اور سماجی تین وجہیں نظر آتی ہیں۔ان تینوں اسباب کا تعلق انسانی فکر سے ہے۔صنفی تفریق تقریباً ہر سماج میں پائی جاتی ہے۔ خواتین کو نظر انداز کرنے کی روایت صدیوں پرانی ہے خواہ وہ تعلیم کا میدان ہو یا صحت کا۔معاملہ عقل و فراست کا ہو تو اس کی رائے کو بالکل ہی غیر ضروری سمجھا جاتا ہے ۔حتیٰ کہ اسے ناقص العقل تک گردانا گیا ہے۔اس تفریق کا اثر اتنا گہرا ہوتا ہے کہ اکثر ایک خاتون جب حاملہ ہوتی ہے تو اس کے ذہن میں ایک سوال عموماً گردش کرتا رہتا ہے کہ اگر لڑکی پیدا ہوئی تو کیا ہوگا؟ اور جلدی سے وہ اپنے معبود کے سامنے دست بدعا ہو جاتی ہے کہ الٰہی لڑکی ہو تو اس کا نصیب اچھا لکھنا۔یہ تذبذب ساری زندگی اس کا پیچھا کرتا رہتا ہے کیونکہ مذہبی ، اقتصادی اور سماجی دشواریاں اسے آزادانہ جینے نہیں دیتیں۔ابھی ان والدین کی تعداد بہت کم ہے جو یہ کہیں کہ لڑکا ہو یا لڑکی ہمارے لئے دونوں یکساں ہیں۔یہ تو فکری سطح پر صنفی مساوات کی بات ہوئی۔لڑکی کے دنیا میں آتے ہی اس کو دیکھنے والے دعا بھی کچھ اس طرح دیتے ہیں ، اللہ نصیب اچھے کرے، جس گھر جائیں اسے جنت بنائیں، وغیرہ ۔گویا پیدا ہوتے ہی دوسرے گھر جانے کی نوید سنا دی گئی۔ساری زندگی اس کی تربیت اسی پرائے گھر کے تناظر میں کی جاتی ہے۔اس کا بچپن ، اس کا الہڑ پن، اس کی خواہشیں، اس کی صحت ، اس کی تعلیم، اس کی خود اعتمادی، اس کی خود کفیلی، اس کا نکاح، ان سب پر پرایا گھر ہی حاوی ہوتا ہے۔پورے وقت وہ اس دبائو میں جیتی ہے۔وہ ذرا ہوش سنبھالتی ہے تو گھر کے کام کاج نپٹانے کے بعد پڑھائی کرتی ہے۔اکثر مالی دشواری آنے پر لڑکی کی پڑھائی ہی منقطع کی جاتی ہے۔کئی مرتبہ سماجی اور اقتصادی دبائو میں بچپن میں ہی اس کی شادی کر دی جاتی ہے۔کبھی ایسے حالات بن جاتے ہیں کہ وہ جنسی تشدد اور ہراسانی کا شکار ہو جاتی ہے۔مزید بر آن اس کا گھر سنبھالنا اور بچوں کی پرورش اور تربیت، کام کے زمرے میں شمار ہی نہیں کئے جاتے۔
ہندوستان میں اگر ہم لیبر فورس پر نگاہ ڈالیں تو مجموعی طور پر اس میں پندرہ برس سے اوپر کی 25.8%خواتین شامل ہیںاور ہندوستان کا دنیا میں دسواں مقام ہے۔یہاں بھی مسلم خواتین کا فی صد 15.58ہے۔یہاں کی فقط دس فیصد خواتین منسٹر ہیں اور لوک سبھا میں چودہ فیصد خواتین ہیں۔تعلیم، صحت، سیاست، معیشت اور خود کفیلی کے اعتبار سے خواتین کی شمولیت میں ہندوستان کا دنیا میں 153میں112واں مقام ہے۔
خواتین بالخصوص مسلم خواتین کی تعلیم سے متعلق مسائل بے شمار ہیں۔ہر شخص اپنے تجربے کی بناء پر ان کی وجہیں بیان کرتا ہے۔مسلم خواتین میں تعلیمی شرح کی کمی کے اسباب کچھ بھی ہوں مگر ان کا حل ایک ہی ہے اور وہ ہے تعلیم کی شرح میں با لعموم اور مسلم خواتین کی تعلیمی شرح میں بالخصوص اضافہ کرنا ۔تعلیمی شرح کے گراف کو اوپر لے جانے کے لئے حکومت کی سطح پر بھی مختلف اقدام کئے گئے ہیںمثلاً ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم تک مختلف مالی مراعات کا اعلان جس میں جنسی تفریق نہیں کی گئی ہے۔اس کے علاوہ لڑکیوں کے لئے تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے خاص اسکالر شپ، شادی اور زچگی کے وقت مالی مراعات وغیرہ ہیں۔Government Scholarship for Education کلک کرنے سے انٹرنیٹ پر ایک لمبی فہرست دستیاب ہے جس سے واقف ہونا ضروری ہے۔ان میں سے چند ملاحظہ فرمائیں ؎
Pre & post matric merit cum means scholarship, Ministry of Minority Affairs, Human Resource Development
Pre & post matric scholarship for students with disabilities, Department of Empowerment of persons with disabilities
Merit cum means scholarship for professional and Technical courses CS, Minorities, Ministry of Minorities Affairs
Central sector scheme of scholarship for colleges and university students, Ministry of Human resource Development.
Prime Minister scholarship scheme, Kendriya Sainik Board Secretariat, Department of Ex Servicemen welfare, Ministry of Defence
اسی قسم کی کئی اسکیمیں ریلوے، ٹرائیبل افیئرس، سوشل جسٹس اینڈ امپاورمنٹ منسٹری وغیرہ کی موجود ہیں۔ ان کے علاوہ سب سے ضروری اور اہم کچھ اسکالرشپ ہیں جن پر توجہ دینے سے غریب نادار مزدور طبقے کے بچوں کی تعلیم کا مرحلہ آسان ہو سکتا ہے۔ان میں سے ایک یہ ہے ؎
Financial assistance for education of the wards of Beedi/Cine/IOCM/LSDM workers-post matric, Ministry of Labour and Employment
Prime Minister Research Fellowship
Kishor Vaigyanik Protsahan Yojana
Swarna Jayanti Fellowship Scheme
PG Scholarship for Professional courses, UGC
Post Graduate Indira Gandhi Scholarship for Single Girl Child, UGC
Women Scientist Scheme-C
AICTE Pragati Scholarship for Girls
AICTE Saksham Scholarship
اسی طرح صوبائی سطح پر Fee reimbursmentاور کیٹیگری وائز اسکالرشپ ہوتے ہیں۔
Department of School Education & Literacy, Ministry of Education نے مدرسہ اور اقلیتی طبقے کی تعلیم کے معیار کو بہتر کرنے کے لئے SPEMM, SPQEM, IDMIوغیرہ اسکیمیں چلا رکھی ہیں۔SPQEMدرجہ ایک سے بارہویں تک سائنس ، ریاضی، ہندی، انگریزی، سوشل سائنس وغیرہ کی تعلیم دینے کے لئے ہے۔IDMIیعنیInfra Structure Development in Minority Institutionsکے لئے ہے۔مدرسہ اور مکتب کے طلباء کے تعلیمی معیار کو عام اسکول کے طلباء کے برابر لانے کے لئے Remedial TeachingاورTeachers Trainingکا بھی بند و بست کیا گیا ہے۔ان سب کی نگرانی کے لئے راشٹریہ آوشکار ابھیان چلایا گیا ہے۔اس کے علاوہ اقلیتی طبقے کی لڑکی کی شادی اگر گریجویشن کر لینے کے بعد ہوتی ہے تو اسے پردھان منتری شادی شگن یوجنا کے تحت 51000روپئے کی رقم دی جاتی ہے۔اس کے ساتھ ہی شادی انودان اسکیم، سکنیا سمریدھی اسکیم وغیرہ سے بھی لڑکیوں کی بہبود میں مدد مل سکتی ہے۔بیگم حضرت محل اسکالر شپ پر اب تک 70کروڑ روپئے خرچ کئے جا چکے ہیں۔مقابلہ جاتی امتحانات کی تیاری کے لئے بھی گورنمنٹ کی جانب سے مفت کوچنگ اور رہائش کی سہولت دی جاتی ہے۔ابھیودے اسکیم اس کی تازہ مثال ہے۔اس طرح کی مزید اسکیمیں صوبائی سطح پر چل رہی ہیں جن میں نئی روشنی کنیا اتّھان وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔بہار سرکار نے لڑکیوں میں تعلیمی رجحان کو فروغ دینے کے لئے کئی قدم اٹھائے۔مثلاً وہاں لڑکیوں کے گریجویشن میں داخلہ لینے پر 50000ہزار روپئے اور انٹر میڈئیٹ میں داخلہ لینے پر 25000روپئے دئے جاتے ہیں۔مزید بر آن پنچایت انتخابات میں 50%سیٹیں خواتین کے لئے مختص کی گئیں۔سرکاری نوکریوں میں 33%حصہ خواتین کے لئے رکھا گیا۔اگر کوئی لڑکی BPSCیاUPPSCکا ابتدائی امتحان پاس کر لیتی ہے تو اسے آگے کے امتحان کی تیاری کے لئے 50,000روپئے کی مالی مدد کی جاتی ہے۔ان تمام میں ایک نام مولانا آزاد نیشنل اسکالرشپ کا بھی ہے جس سے کافی طلباء فیضیاب ہو رہے ہیں۔انگنت مخیر حضرات ہیں جو دامے درمے قدمے سخنے اپنی قوم کی بہبود کے لئے کام کر رہے ہیں۔ان سب کے باوجود جہالت اور ناداری ہمارے لئے ایک بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔سرکاری مراعات حاصل کرنے کے لئے طلباء کو کئی دستاویز کی ضرورت ہوتی ہے ۔جن میں اس کی پیدائش ، رہائش ، کیٹیگری اور بینک اکائونٹ وغیرہ ہیں۔ایک زبردست مسئلہ اسے تب درپیش ہوتا ہے جب وہ پرائیویٹ ادارے سے تعلیم حاصل کر رہا ہوتا ہے۔اکثر ایسے اداروں نے اپنے اکائونٹ شفاف نہیں رکھے ہیں۔فیس کی کثیر رقم وصول کرنے والے یہ ادارے طلباء کی مدد نہیں کرتے۔لاک ڈائون کے دوران یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی۔نتیجتاً بچوں کی تعلیم متأثر ہوئی اور اندراج کی شرح غیر معمولی طور پر کم ہو گئی ہے۔اس کا پہلا اثر بچیوں کی تعلیم پر پڑا ہے۔ان دشواریوں کے پیش نظر سرکاری مراعات کو حاصل کرنے کے مراحل کو آسان کرنا ہوگا جس میں تعلیمی اداروں کی دیانت اور شفافیت کا اہم کردار ہے۔ہماری دیہی آبادی زیادہ ہے۔جب شہر میں اتنی دشواریاں ہیں تو گائوں کی مشکلوں کا تو اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکتا۔ہمیں کسی رضا کار تنظیم کی مدد سے یا فرداً فرداً اس جانب قدم بڑھانا ہوگا۔
مسلم خواتین میں تعلیمی رجحان کی کمی کو مذہبی تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے۔قرآن میں اقرأ کا حکم بنا صنفی تفریق کے آیا ہے۔ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ علم کا تقاضہ گناہ سے بچنا ہے۔اس لئے تعلیم کے معاملے میںصنفی تفریق برتنا غیر مناسب ہے۔یہاں ہمیں فکری سطح پر خود کو بدلنے کی ضرورت ہے۔مسلم معاشرے میںتعلیم حاصل کرنے کے لئے مدارس کا جال بچھا ہوا ہے۔کیا شہر کیا گائوں، ہر جگہ مسجد اور مکتب موجود ہیں۔ان کا الگ تعلیمی نظام ہے۔حفظ اس کی انفرادیت ہے۔اس کے علاوہ وقف کی املاک بہت ہیں۔قبرستانوں کی زمین ہے۔اگر ان سب کا استعمال تعلیم و تدریس کے لئے کیا جائے تو ان جگہوں کی حفاظت کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔جہاں لڑکوں کے مدرسے چلتے ہیں وہیں دوسرے وقت لڑکیوں کی تعلیم کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔زکوٰۃ کی شکل میں ایک ایسا فنڈ موجود ہے جس کے صحیح مصرف سے یہ مشکلیں دور ہو سکتی ہیں۔ہم یہ عزم کریں کہ اپنی بچیوں کی عمر ،صحت ، تعلیم ، تحفظ اور نکاح پر توجہ دیں گے جہیز پر نہیں۔ان کے اندر تحفظ اور خود اعتمادی کا احساس جگائیں گے۔اچھی تعلیم پر سب کا حق ہے۔تعلیم پر کیا گیا خرچ سیدھے بچوں کی بہبود اور خود کفیلی سے جڑتا ہے۔جس سے ایک پر سکون معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔اس معاملے میں جامعہ اردو علی گڑھ کی خدمات قابل ذکر ہیں جس نے فاصلاتی تعلیم کا نظام اپنایا ہے اور سی بی ایس ای نصاب لاگو ہے۔نیز اردو میڈیم میں ابتدائی سے لے کر اعلیٰ تعلیم اور معلم کی سند بھی دیتا ہے جس کی بدولت بے شمار بچیاں خود کفیل بن پائی ہیں۔ہمیں اس نہج پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ہماری حکومت نے بیٹی بچائو بیٹی پڑھائو کا نعرہ دیا ہے اور ملک میں 56جنڈربجٹنگ سیل بھی قائم ہیں۔مگر لڑکیوں کی بہبود پر کئے جانے والے خرچ اور نتیجوں کاکوئی ڈاٹا نکل کر نہیں آتا۔نئی ایجوکیشن پالیسی میں حکومت کو بچیوں کی تعلیم و تربیت کے مزید راستے کھولنے ہوں گے جس سے ملک کو مضبوط کرنے والی ورک فورس تیار ہو سکے۔مسلم خواتین کو خود بھی غیر ضروری مذہبی سماجی اور اقتصادی بندشوں سے باہر نکلنے کے راستے تلاشنے ہوں گے۔انھیں نامساعدات کا مضبوطی سے مقابلہ کرنا ہے تاکہ مساوات کی راہیں ہموار ہوں۔اس کے لئے اولاً انھیں تعلیم کے زیور سے آراستہ ہونا ہو گا۔
کورونا وبا کی دوسری لہر نے پچھلے سال سے بھی زیادہ قہر برپا کیا ہے ۔ اس نے ملک کی معیشت سے لے کر غریب کے چولہے تک کا بجٹ بگاڑ دیا ۔ لوگوں کے روزگار برباد ہو گئے، یومیہ مزدوری کرنے والوں کی معیشت لگ بھگ ختم ہو گئی ۔ حکومت کے ذریعہ کی جا رہی کوششیں ناکافی ثابت ہو رہی ہیں ۔ راحت کا بڑا حصہ راشن کارڈ اور دستاویزات کے بیچ پھنس کر رہ جاتا ہے ۔ اس صورتحال کا سب سے زیادہ منفی اثر ملک کے نونہالوں پر پڑ رہا ہے ۔ ایک طرف مارچ 2020 سے اسکول بند ہیں ۔ دوسری طرف تالا بندی اور روزگار کی کمی نے غریب خاندانوں کے سامنے فاقہ کشی کے حالات پیدا کر دیئے ہیں ۔ اس سے ابھرا اقتصادی دباؤ نونہالوں کے ننھے ہاتھوں کو بھی کام کرنے کے لئے مجبور کر رہا ہے ۔ ملک میں ان لاک ہوتے ہی کام اور بھیک مانگنے کے لئے نکلی بچوں کی بڑی تعداد اس کی گواہ ہے ۔ ایسا صرف بھارت میں ہی نہیں ہے بلکہ کئی ترقی پذیر ممالک میں بھی یہ منظر دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس وبا نے دنیا بھر کے ممالک میں بچوں کی زندگی پر مزدوری کا شکنجہ کس کر مشکل بنا دیا ہے ۔
نجی اسکولوں نے آن لائن تعلیم شروع کر دی اور بچے مصروف ہو گئے ۔ سرکاری اسکولوں نے بھی بچوں تک پہنچنے کے کئی جتن شروع کئے جن میں محلہ کلاس اور دوردرشن موبائل کے ذریعہ پڑھانا وغیرہ شامل ہے ۔ مگر یہ تجربات کامیاب نہیں ہوئے ۔ بچوں کے پاس اینڈرائڈ موبائل کا نہ ہونا یا موبائل کسی بڑے کے پاس رہنا اور بچوں کی پڑھائی میں اپنی عدم دلچسپی کی وجہ سے وہ تعلیم سے دور ہوتے گئے ۔ ان لاک شروع ہونے پر بازار، مال، سیلون، سنیما گھر، میرج ہال، عبادت گاہیں وغیره سب کچھ کھل گیا نہیں کھلے تو اسکول ۔ اسکولوں کو نہ کھولنے کے پیچھے یہ دلیل دی گئی کہ بچوں کے لئے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا دشوار ہے ۔ ان کے اسکول جانے سے وبا کے پھیلنے کا خطرہ ہے ۔ شروع میں والدین بھی بچوں کو اسکول بھیجنے کے لئے تیار نہیں تھے ۔ لیکن اب والدین چاہتے ہیں کہ انتظامیہ اور حکومت کورونا سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرکے اسکول کھولے ۔ کیوں کہ بچوں کی تعلیم کا ناقابل تلافی نقصان ہی نہیں ہو رہا بلکہ اسکول نہ جانے سے ان کی ذہنی و جسمانی نشوونما پر بھی منفی اثر پڑ رہا ہے ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آن لائن تعلیم ریگولر تعلیم کی جگہ نہیں لے سکتی ۔ کیوں کہ اس طریقہ تعلیم میں بچوں کی صلاحیتوں کو پہچان کر نہیں پڑھایا جاتا بلکہ سب کو یکساں طریقہ سے تعلیم دی جاتی ہے ۔ پھر اس نے سماج کو بھی دو حصوں میں تقسیم کر دیا ۔ ایک وہ جن کے پاس انٹرنیٹ کے ذریعہ تعلیم حاصل کرنے کے تمام وسائل موجود ہیں ۔ دوسرے وہ جن کی ان وسائل تک محدود رسائی ہے یا پھر وہ ان سے محروم ہیں ۔ ایسی صورت میں دونوں ایک جیسی تعلیم حاصل نہیں کر سکتے ۔ جبکہ اسکول بچوں کے درمیان اس طرح کی تفریق پیدا نہیں ہونے دیتا ۔ گزشتہ دو برسوں سے کورونا کو پھیلنے سے روکنے کے پیش نظر بغیر امتحان کے ہی بچوں کو پاس کیا گیا ہے ۔ جن بچوں نے سال بھر دل لگا کر پڑھائی کی ہے امتحان نہ ہونے کی وجہ سے وہ مایوس ہوئے ہیں ۔ گو کہ حکومت نے غیر مطمئن طلبہ کے لئے امتحان دینے کا راستہ نکالا ہے ۔ مگر اس کا فائدہ سب بچے نہیں اٹھا پائیں گے ۔ ہونا یہ چاہئے تھا کہ جس طرح آن لائن تعلیم کا نظم کیا گیا اسی طرح امتحان کا انتظام کیا جاتا ۔ جن بچوں کو سہولیات دستیاب نہیں ہیں ان کے لئے حکومت سینٹر بنا کر سہولیات فراہم کرتی ۔ کئی حضرات آن لائن امتحان پر یہ کہہ کر اعتراض کرتے ہیں کہ بچے گھر پر بیٹھ کر امتحان کے سوالات کا کتاب دیکھ کر جواب دے سکتے ہیں ۔ انہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ کتاب سے جواب بھی وہی تلاش کر سکتا ہے جس نے پڑھا ہوگا ۔ دوسرے اس سے بچوں کو پڑھے ہوئے کو دوہرانے کا موقع مل جائے گا ۔ عارضی طور پر اسکولوں کے بند ہونے سے صرف بھارت کے نہیں بلکہ 130 سے زیادہ ممالک کے ایک ارب سے زیادہ بچے اس طرح کے مسائل سے دوچار ہیں ۔
اب جب اسکول کھلیں گے تو کچھ خاندان بچوں کی پڑھائی کا خرچ برداشت کرنے کی صلاحیت نہ رکھنے کی وجہ سے اپنے بچوں کو اسکول نہیں بھیج پائیں گے ۔ بچے اسکول نہیں جائیں گے تو ان کے مزدوری میں دھکیلے جانے کا امکان بڑھ جائے گا ۔ کیوں کہ لوگوں کی مالی حالت پہلے سے زیادہ خستہ ہوئی ہے ۔ غریب اور غریب ہو گیا ہے، اے ڈی بی کے اندازہ کے مطابق کورونا وبا کے دوران 24.2 کروڑ نوکریاں ختم ہوئی ہیں ۔ جس کا سیدھا اثر عام آدمی کی زندگی پر پڑ رہا ہے ۔ سماج اور سرکار کو اس کا کوئی پختہ حل نکالنا چاہئے ۔ ورنہ سماج کا ایک بڑا طبقہ جب اسکول فیس اور آن لائن کلاس کی تیاریاں کر رہا ہوگا تو دوسرا بڑا طبقہ اپنے معصوموں کا اسکول چھڑا کر انہیں روٹی کی تلاش میں لگا چکا ہوگا ۔ کیوں کہ بچہ مزدوری کی بڑی وجہ بھوک اور غریبی ہے ۔ امریکی سماجی کارکن گریس ایبٹ کا کہنا ہے کہ اگر آپ بچہ مزدوری کو غریبی مٹانے کے لئے استعمال کر رہے ہیں تو آپ بچہ مزدوری اور غریبی کے ساتھ آخر تک جئیں گے ۔ بچہ مزدوری اور غریبی ساتھ ساتھ چلتے ہیں ۔ بچہ مزدوری نو عمروں سے اسکول جانے کا حق چھین لیتی ہے ۔ وہ نسل در نسل غریبی کے چکرویو سے باہر نہیں نکل پاتے ۔ بچہ مزدوری تعلیم میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔
سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق بھارت میں 5 سے 14 سال عمر کے بچوں کی تعداد 260 ملین ہے، جن میں لگ بھگ 10 ملین (یعنی 4 فیصد) بچہ مزدور ہیں ۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ 15 سے 18 سال عمر کے قریب 29 ملین بچے کاموں میں لگے ہوئے ہیں ۔ بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن اور یونیسیف 2020 کی رپورٹ کا کہنا ہے کہ 2000 سے 2016 کے بیچ بچہ مزدوروں کی تعداد میں 9.4 کروڑ کی کمی آئی تھی ۔ پچھلے بیس سالوں میں پہلی بار پوری دنیا میں یہ تعداد بڑھتی ہوئی دیکھائی دے رہی ہے ۔ اس میں گزشتہ چار سال میں 84 لاکھ کا اضافہ ہوا ہے ۔ رپورٹ میں 5 سے 11 سال کے بچہ مزدوروں کی بڑھوتری پر تشویش ظاہر کی گئی ہے ۔ بال مزدوری مخالف مہم (سی اے سی ایل) مدھیہ پردیش کے کوارڈینیٹر راجیو بھارگو کہتے ہیں کہ کورونا کی وجہ سے پچھلے سال بھی بچوں کے کام پر جانے کی شرح میں اضافہ ہوا تھا ۔ اس سال بال مزدوروں کی شرح میں تیزی سے اضافہ ہونے کا شک ہے ۔ سی اے سی ایل کے 23 اضلاع (مدھیہ پردیش کے 21 ضلعے، چھتیس گڑھ کے 2 ضلعے) کے مطالعہ پر مشتمل مطابق 86 فیصد بچے کسی نہ کسی طرح کی اقتصادی سرگرمی میں ملوث پائے گئے ۔
انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن اور یونیسیف کی رپورٹ میں جو شک ظاہر کیا گیا تھا وہ اب سچ ثابت ہو رہا ہے ۔ اس کے مطابق کووڈ 19 متعدی وبا 2022 کے آخر تک دنیا میں 90 لاکھ نئے بچوں کو بال مزدور بنا دے گی ۔ جو بچے پہلے سے محنت مزدوری کر رہے ہیں ان کے کام دھندے کے حالات بھی اور زیادہ بگڑ سکتے ہیں ۔ سال 2011 کی مردم شماری کی رپورٹ کے مطابق اس وقت ایک کروڑ ایک لاکھ بچے بال مزدوری کر رہے تھے ۔ اس وقت بھارت میں بچوں کی کل تعداد 47 کروڑ 20 لاکھ ہے ۔ ان میں سے کتنے بال مزدوری کرتے ہیں اس کے اعداد موجود نہیں ہیں ۔ عام طور پر شکایت کی جاتی ہے کہ بھارت کی آبادی میں بچوں کا تناسب 40 فیصد ہے، مگر مرکزی حکومت کے 21-2022 کے بجٹ میں ان کی ترقی اور فلاح و بہبود کے لئے 2.46 فیصد کا التزام کیا گیا ہے ۔ مرکز کے ساتھ بچوں کی تعلیم وترقی اور فلاح و بہبود کی ذمہ داری ریاستی سرکاروں کی بھی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اپنا فرض پوری لگن اور ایمانداری سے ادا کر رہی ہیں یا نہیں؟
بھارت کے بال مزدوری قانون میں ترمیم نے بچہ مزدوری کا راستہ صاف کیا ہے ۔ قانون کے مطابق 5 سے 14 سال کے بچوں کو کسی طرح کے کام میں نہیں لگایا جا سکتا لیکن اگر وہ اپنے خاندانی کام میں مدد کر رہے ہیں تو انہیں بال مزدور کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا ۔ آئی ایل او یونیسیف کی رپورٹ کا ماننا ہے کہ بچہ مزدوری سماجی نابرابری اور بھید بھاؤ کو بڑھاوا دیتی ہے ۔ بچے محنت مزدوری کے کام کرتے ہیں تو ان کی جسمانی و ذہنی نشوونما پر منفی اثر پڑتا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق بال مزدوری کا غریبی سے سیدھا تعلق ہے، بچہ مزدوری پر قابو پانے کے لئے غریبی کو کنٹرول کرنا ہوگا ۔ غریبی پر انکش لگانے کے لئے لوگوں کی آمدنی بڑھانی ہوگی ۔ یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ سیاست دان عوام کے مفاد کو ترجیح نہ دیں ۔ بچوں کی بہتر نشوونما اور تعلیمی ترقی کے لئے حکومت کو جنگی سطح پر کوشش کرنی ہوگی ۔ اس سے مزدوری میں لگے اور آگے آنے والے بچوں کا مستقبل محفوظ ہو گا ۔ اگر مرکزی و ریاستی حکومتیں اپنی ذمہ داری ایمانداری سے نبھائیں تو بچے جو ملک کا مستقبل ہیں ان کی بہتر زندگی کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکتا ہے ۔
زیر نظر سطور بہت تکلیف دہ ہیں۔ مجھے اس موضوع پر سوچتے ہوئے برسوں گزر گئے۔نہ جانے کتنے ذمہ داروں سے بات کی لیکن شریعت کے پاسبانوں پر کوئی اثر نہیں پڑا۔
آج ایک واقعہ ایسا علم میں آیا کہ میں نے عواقب وعوامل کی پروا کئے بغیر لکھنے کا ارادہ کرلیا۔اب شاید سوشل میڈیا ہی سب سے موثر ہتھیار بن گیا ہے۔اب شاید اسی کے ذریعہ اپنے ’بڑوں‘ کو مجرمانہ خواب غفلت سے جگایا جاسکتا ہے۔
ایک بچی کی شادی کو دس سال کا عرصہ گزر گیا۔پچھلے 8 برس سے اس کے شرابی شوہر نے اس کی شکل نہیں دیکھی۔بیوی کا قصور اتنا تھا کہ اس نے صرف شراب پینے کو منع کیا تھا۔وہ اس کے ساتھ ہر تنگی میں گزر بسر کرنے کو تیار تھی۔لیکن وہ اس مردود عادت کو چھوڑنے کیلئے تیار نہ ہوا۔آخر کار تنگ آکر بیوی نے مطالبہ کیا کہ اگر وہ شراب چھوڑنے کوتیار نہیں تو مجھے ہی چھوڑ دے۔
دل تھام کر سنئے گا۔ جس پر پڑ رہی ہے وہ تو سہہ رہی ہے۔لیکن جن پر یہ افتاد نہیں آئی ہے (اور خدا کرے کہ کسی پر یہ افتاد نہ آئے) وہ اپنی بچی کو اس بچی کی جگہ رکھ کر سوچیں۔دہلی کایہ مردود شرابی شوہر مغربی یوپی سے تعلق رکھنے والی اپنی بیوی کو نہ تو اپنے گھر لانے کو تیار ہے اور نہ ہی اس کو طلاق دینے کو تیار ہے۔ بیوی کہتی ہے کہ طلاق نہیں دینا چاہتے تو میں خلع لینے کو تیار ہوں۔لیکن وہ کہتا ہے کہ”میں تجھے بڑھیا کردوں گا لیکن طلاق نہیں دوں گا۔” اس مردود شرابی کی ایک بچی بھی ہے۔لیکن اسے آج تک اپنی بچی کا نام بھی معلوم نہیں۔
اب علمائے کرام اور مفتیان عظام بتائیں کہ شریعت میں ایسی مظلوم عورت کیلئے راحت کا کیا راستہ ہے؟
میں نے صاحب واقعہ سے اس کی اجازت لے لی ہے کہ ان کا نام پتہ بتائے بغیر اس واقعہ کا ذکر اپنی پوسٹ میں کردوں۔ اس طرح کے واقعات کا مستقل شرعی حل طے کرنے کیلئے ایک مہم کھڑی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس مہم میں احباب اور علماء کا تعاون درکار ہے۔ یہ کام ہم اِس طرح نہیں کریں گے تو پھر ہمارے دشمن اُس طرح کریں گے۔ وہ طلاق ثلاثہ کی طرح اس اشو کو بھی ایک مہم بنائیں گے۔اور اس کی ساری ذمہ داری علماء کی ہوگی‘ شریعت کے ان پاسبانوں کی ہوگی جو دارالقضاء تو لے کر بیٹھ گئے ہیں لیکن جنہیں نہ ایسی مظلوم بچیوں سے ہمدردی ہے اور نہ جنہیں قضا سے ہی کوئی شغف ہے۔
کچھ دن پہلے ایک ایسی بچی کا معاملہ میرے پاس آیا جس کی شادی کو سات سال گزر گئے تھے۔اس نے اپنے ماں باپ کو بدرجہ مجبوری بتایا کہ جیسی وہ سات سال پہلے اپنے شوہر کے گھر آئی تھی آج تک ویسی ہی ہے۔اس کا شوہر ازکار رفتہ ہے۔۔ اگر صرف اتنا ہی ہوتا (حالانکہ یہ سراسر ظلم ہے) تو روا تھا لیکن اس بچی کو سسرال والے طرح طرح کے طعنے دیتے ہیں۔انہیں اپنے لڑکے میں کوئی کمی نظر نہیں آتی۔ ایسے میں اس پر دوہرا ظلم ہو رہا ہے۔میں نے علماء وقضاۃ سے رابطہ کیا۔ اس بچی کی داستانِ رنج والم سنائی۔ اُن سے بھی ملا جو "شرعی عدالتیں” لئے بیٹھے ہیں۔ اُن سے بھی ملا جنہیں عالم و فاضل اور قاضئیِ کامل کہاجاتا ہے۔۔ لیکن کسی کے پاس راحت بخش حل نہیں تھا۔مزید براں وہ شرعی مقدمہ کا جو طریقہ اختیار کرتے ہیں وہ لڑکی کیلئے انتہائی ذلت آمیز ہوتا ہے اور اس میں بھی ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مدد کا رجحان مرد کی طرف ہے۔
جن افراد کو میرا یہ لکھا سمجھ میں نہ آئے یہ تحریر ان کیلئے نہیں ہے۔انہیں اس پر تبصرہ کرنے کی زحمت نہیں کرنی چاہئے۔
میری عرض براہ راست آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ‘ امارت شرعیہ‘ آل انڈیا فقہ اکیڈمی‘ جمعیت علما‘ جماعت اسلامی اور دوسرے تمام کبار علما سے ہے۔ میں نے اولین سطور میں جس سنگین مسئلہ کا ذکر کیا ہے مطلوبہ شرعی اجتہاد کے ذریعہ اس کا فوری طور پرحل نکالا جانا بہت ضروری ہے۔ایسی نہ جانے کتنی بچیاں ہوں گی جو فتین اور شرپسند شوہروں اور ان کے اہل خانہ کے ظلم کا شکار ہوں گی۔
مجھے نوجوان عالم دین اور القرآن اکیڈمی کے بانی مفتی اطہر شمسی کی یہ بات اہم لگی کہ قرآن قانون کی نہیں بلکہ اصول کی کتاب ہے۔اس نے جو اصول بتادئے ہیں ہر دور کے تقاضوں کے مطابق ان اصولوں کی روشنی میں قوانین وضع کرنا علماء کی ذمہ داری ہے۔
آئیے اس مہم کو آگے بڑھاتے ہیں۔اولین واقعہ میں شرعی عدالت کوئی باعزت شرعی حل پیش کرنے میں مجرمانہ حد تک ناکام اور مظلوم بچی کی کوئی مدد کرنے سے قاصر رہی ہے۔ایسا کرنا بلاشبہ ظالم شوہر کی مدد کرنے کے مترادف ہے۔کیا ہم امید کریں کہ مذکورہ تمام ادارے اور افراد اس طرح کے مسائل کا کوئی مستقل حل طے کرکے مسلمانوں کے سامنے پیش کریں گے؟
جہیز ایک ایسی لعنت ہے جس کے خلاف بولتا ہر کس و ناکس ہے لیکن اس گھنائونے کام میں تقریباً ہر شخص ملوث ہے۔اس لعنت کی شکار بن کر کتنی بیٹیوں کی زندگیا تباہ و برباد ہوگئیں اور بے شمار بیٹیاں گھٹ گھٹ کر زندگی گزار رہی ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ جہیز کی اس لعنت کا سد باب کیسے ہو؟ اس لعنت کو ختم کرنے کے لئے جہاں لڑکے کی جانب سے پہل کرنے کی ضرورت ہے وہیں لڑکی اور اس کے گارجین کی جانب سے بھی موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔عموماًرشتہ ٹوٹنے کے خوف سے بیٹی والے بیٹے والے کے مطالبات کو پورا کرتے جاتے ہیں اور اپنی کمائی کا خطیر حصہ جہیز کے نام پر داماد کو دے دیتے ہیں۔کیا ہی اچھا ہوتا اگر شادی کے اس مبارک موقع پر دنیا کے رسم و رواج کو دیکھنے کے بجائے شریعت مطہرہ کی ہدایات کا ایک بار مطالعہ کرلیا جاتا جس میں لڑکے کو مہر ادا کرنے کا پابند بنایا گیا ہے اور لڑکی کو اپنے ساتھ جہیز لے کر جانے کا کوئی تصور نہیں ملتا ہے۔آج سماج میں جو لوگ ببانگ دہل جہیز کو ختم کرنے کی بات کرتے ہیں وہ بھی عملی طور پر اسے مال غنیمت سمجھ کرجائز بنا لیتے ہیں ۔اس میں کیا دیندار اور کیا بے دین ،سب برابر ہیں الا ماشاء اللہ ۔ جب ہم سماج میں پائے جانے والے اس رسم کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اس کو باقی رکھنے میں نہ صرف لڑکا، بلکہ لڑکی کے گارجینوں کا بھی مساوی کردار ہے۔وہ بیٹی کو اپنی جائیداد میں سے وراثت دینے میں ناک بھنوں چڑھاتے ہیں جبکہ اسی جائیداد کو بیچ کر جہیز دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں بلکہ کتنا جہیز دیا اور شادی کے مصرف میں کتنا خرچ کیا ، رشتہ داروں کو فخر کے ساتھ بتاتے ہیں۔لڑکی والوں کی یہی جھوٹی شان اس لعنت کو سماج سے ختم کرنے میں رکاوٹ بن رہی ہے۔اگر لڑکی والے یہ عہد کرلیں کہ وہ جائیداد میں شریعت کا مقرر کردہ حصہ اپنی بیٹیوں کو دیں گے اور جہیز نہیں دیں گے تو لالچی داماد بھی لڑکی والوں کے اس فیصلے کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوں گے۔بہت سے لوگوں سے یہ کہتے ہوئے بھی سنا گیا ہے کہ وہ وراثت کے بدلے جہیز دے چکے ہیں۔یاد رکھیں علماء کرام نے توضیح کردی ہیں کہ اگر ماں باپ نے بیٹی کو جہیز دیا ہے تو اس سے وراثت کا حکم شرعی ہرگز ہرگز ختم نہیں ہوگا۔اگر ماں باپ یا بھائیوں نے جہیز کے عوض وراثت سے لڑکی کو محروم کر دیا تو یہ ظلم ہوگا اور قیادمت کے دن اس کا پورا پورا حساب دینا ہوگا۔لہٰذا بیٹی کو جہیز نہیں، وراثت میں حصہ دیں اورسماج میں جھوٹی شان کی خاطر اپنی آخرت کو برباد نہ کریں۔
جہیز کی روک تھام کے لئے قانون موجود ہے مگر یاد رکھیں کہ قانون اپنا کام اسی وقت کرتا ہے جب سماج میں اس قانون کے تئیں بیداری ہواور اس قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کا عزم ہومگر افسوس کی بات یہ ہے کہ زبان سے تو سب جہیز کو برا کہتے ہیں مگر عملی طور پر اس کو بہت ہلکے میں لیتے ہیں ۔جب سماج میں یہ سوچ رائج ہو تو بیٹیوں کو اذیت پہنچانے اور قتل کرنے کی راہیں تو کھلیں گی ہی ، اور جہیز کے مطالبات پورے نہ ہونے پر یومیہ 19 بیٹیوں کی اموات( نیشنل کرائم کی رپورٹ کے مطابق )کو روکنا مشکل ترین امر بن جائے گا۔جہیز کی لعنت پر مسلم دانشوران، علماء کرام اور تنظیمیں مسلسل بیداری مہم چلا رہی ہیں مگر قوم بیدار ہونے کے لئے تیار نہیں ہے۔ جماعت اسلامی ہند کی جانب سے ’ جہیز کی لعنت اور مسلم نوجوان‘ کے عنوان سے ایک پروگرام منعقد کیا گیا تھا۔ اس میں امیر جماعت سید سعادت اللہ حسینی نے بنفس نفیس شرکت کی تھی۔ اس پروگرام میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی تھی کہ آج کے دور میں جہیز پر خوب مباحث ہوتے ہیں، مقالات لکھے جارہے ہیں، مساجد میں اس کی روک تھام کے لئے تقریریں کی جارہی ہیں سمیناریں منعقد کی جارہی ہیں پھر بھی جہیز کو سماج سے ختم کرنے میں ناکامی ہورہی ہے ۔ اس کی متعدد وجوہات ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ اس کے خلاف بولنے والے لوگ بھی اسے تحفہ اور ہدیہ کے نام پر لینے سے گریز نہیں کرتے ہیں۔جب تک اس طرح کی سوچ پر قدغن نہیں لگے گا ،سماج سے اس لعنت کو ختم نہیں کیاجاسکتا ہے‘‘۔
دراصل جہیز بیٹیوں کو ہدیہ یا تحفے کے طور پر نہیں بلکہ ناموری اور شہرت کی غرض سے دیا جاتاہے ۔یہی وجہ ہے کہ اس کی خوب نمائش کی جاتی ہے اور گائوں ، سماج کو خاص طور پربرادری کے لوگوں کوبڑے فخر کے ساتھ دکھایا جاتاہے ۔ اس کے علاوہ بارات کی بھی خوب خاطر مدارات کی جاتی ہے اور پرتکلف کھانے کا اہتمام ہوتا ہے جو کہ سراسر اسراف میں داخل ہے۔ اس کا جو نقصان شرعی طورپر ہے وہ تو علماء کرام بیان کرتے ہی رہتے ہیں لیکن ایک بڑا نقصان ان غریب خاندان کو پہنچتا ہے جو اپنی بیٹی کو اتنے جہیز کے ساتھ رخصت نہیں کرسکتے اور حسرت بھری نظروں سے امیروں کے گھر سے بیٹیو ںکو رخصت ہوتی ہوئی دیکھتے ہیں۔یاد رکھیں جہیز ایک غیر مذہبی رسم ہے جو ہمارے ملک کے رگ و ریشہ میں سما گیا ہے ۔ اس کا مذہب سے دور تک کوئی واسطہ نہیں۔ہندوستان کی قدیم روایات میں سے جو برائیاں ہندوستانی مسلمانوں میں داخل ہوئی ہیںان میں جہیز بھی ہے۔اس رسم کو ختم کرنے کے لئے دل سے لالچ کو نکالنا ہوگا تبھی یہ لعنت ہمارے سماج سے ختم ہوگی۔
کیا زوجین کے لیے ایک دوسرے کا موبائل چیک کرنا جائز ہے؟-ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سوال:
کیا شوہر کے ذریعہ بیوی کی موبائل پرائیویسی کو چیک کرنا ، یا بیوی کے ذریعہ شوہر کی موبائل پرائیویسی کو چیک کرنا درست ہے؟
جواب:
زوجین کے درمیان خوش گوار تعلقات کی بنیاد باہم اعتماد پر استوار ہوتی ہے ۔ کام یاب عائلی زندگی گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے پر مکمل اعتماد ہو ۔ ان کے درمیان ذرا بھی اجنبیت اور غیریت باقی نہ رہے ۔ عائلی زندگی کے ہر معاملے میں وہ ایک دوسرے پر بھروسہ کریں ۔ نہ بیوی شوہر پر کچھ شک و شبہ کرے اور نہ شوہر بیوی کے معاملے میں اندیشوں میں مبتلا رہے ۔ دونوں کی زندگی ایک دوسرے کے لیے کھلی کتاب کے مثل ہو ۔ اگر کسی گھر میں زوجین کے درمیان مکمل اعتماد کی فضا قائم نہ ہو تو وہ اچھا اور مثالی گھر نہیں بن سکتا ۔
میاں بیوی کے قریبی تعلقات کو قرآن مجید میں لباس سے تعبیر کیا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ (البقرۃ: 187) ”وہ (یعنی تمہاری بیویاں) تمھارے لیے لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو ۔ “ یعنی جس طرح جسم اور لباس کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوتا ، اسی طرح تمھارا اور تمھاری بیویوں کا تعلق انتہائی قریبی ہونا چاہیے ۔
جب زندگی کے تمام معاملات میں زوجین کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہونا چاہیے تو اس کا لحاظ موبائل کے استعمال کے سلسلے میں بھی کیا جانا چاہیے ۔ شوہر اپنے موبائل پر کن لوگوں سے رابطہ کرتا ہے؟ یا بیوی اپنے موبائل کے ذریعہ کن لوگوں سے بات چیت کرتی ہے؟ اس سلسلے میں دونوں کو بے بنیاد شبہات قائم نہیں کرنے چاہئیں اور بلا ضرورت کھود کرید سے بچنا چاہیے ، لیکن اگر ان میں سے کوئی دوسرے سے کچھ دریافت کرتا ہے تو اسے بلا جھجھک صاف صاف بتا دینا چاہیے ۔ اس معاملے میں پردہ پوشی اور غلط بیانی سے شکوک و شبہات جنم لینے لگتے ہیں اور خوش گوار تعلقات میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں ۔
احادیث میں بلا ضرورت ٹوہ میں لگنے سے منع کیا گیا ہے ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: لَا تَجَسَّسُوا (بخاری: 5143 ، مسلم : 2543 ) ”کسی کی ٹوہ میں نہ لگو ۔“
ایک مرتبہ آپؐ نے حکم راں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
انَّکَ اِنِ اتَّبَعتَ عَورَاتِ النَّاسِ اَفسَدتھُم (ابو داؤد: 4888)
”اگر تم لوگوں کے پوشیدہ معاملات کی ٹوہ میں لگوگے تو ان کو بگاڑ کر رکھ دو گے ۔“
ایک مرتبہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ سے ایک شخص کے بارے میں شکایت کی گئی کہ وہ شراب پیتا ہے ، یہاں تک کہ اس کی ڈاڑھی شراب سے تر رہتی ہے۔ انھوں نے جواب دیا:
اِنَّا قَد نَھِینَا عَنِ التَّجَسُّسِ ، وَلٰکِن اِن یَّظھُر لَنَا شَيءٌ نَاخُذ بِہٖ (ابو داؤد: 4890)
”ہمیں ٹوہ لگانے سے منع کیا گیا ہے ، لیکن اگر کوئی چیز کھلے عام ہمارے سامنے آئے گی تو ہم اس پر گرفت کریں گے ۔“
اسلام کا یہ اصول جہاں زندگی کے ہر معاملے میں اور ہر شخص پر لاگو ہوتا ہے وہیں اس کا اطلاق زوجین پر بھی ہوتا ہے ۔ شوہر اور بیوی دونوں کو اپنے ساتھی کی ٹوہ میں لگنے اور اس کی کمزوریاں پڑنے سے بچنا چاہیے ۔
زوجین کا ایک دوسرے پر اعتماد بحال رکھنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ اپنا موبائل اپنے ساتھی کی دست رس سے بچانے اور اس سے کچھ چھپانے کی کوشش نہ کریں ۔ اگر انھوں نے پاس ورڈ لگا رکھا ہے تو اسے بلا تکلّف اپنے ساتھی کو بتا دیں ، تاکہ اگر اسے کبھی کوئی شک و شبہ لاحق ہو تو اسے دور کر سکے ۔
سوال:
میں ملک سے باہر جاب کرتا ہوں ۔ عید کے موقع پر وطن آیا ہوا تھا ۔ ایک مہینہ بعد واپس جانا ہے۔ پندرہ روز قبل والدِ محترم کا انتقال ہوگیا ۔ والدہ عدّت میں ہیں ۔ میرا ایک جگہ نکاح طے کردیا گیا ہے ۔ تقریبِ ِنکاح میں شرکت کرنے کے لیے والدہ نہیں جاسکتی ہیں ۔ کیا اس صورت میں آن لائن نکاح ہوسکتا ہے؟
برائے مہربانی جواب سے نوازیں۔
جواب:
نکاح کے ارکان میں سے ایجاب و قبول ہے ۔ نکاح کرنے والے مرد اور عورت میں سے پہلے کا کلام ’ایجاب‘ اور دوسرے کا ’قبول‘ کہلاتا ہے _ دونوں کا ایک مجلس میں ہونا ضروری ہے ۔ اسی طرح صحتِ نکاح کے لیے مجلسِ نکاح میں گواہوں (دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں) کی موجودگی شرط ہے ۔ نکاح کا یہ روایتی طریقہ ہے ، جس پر آج تک عمل ہوتا آیا ہے ۔
موجودہ دور میں بسااوقات یہ صورتِ حال سامنے آتی ہے کہ لڑکا کسی دوسرے ملک میں بہ سلسلۂ ملازمت مقیم ہے ۔ وہ اپنے وطن ، جہاں اس کا نکاح ہونا ہے ، سفر نہیں کر سکتا ۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا آن لائن نکاح ہوجائے ، نکاح کی دستاویزات تیار ہوجائیں ، جن کی بنیاد پر وہ اپنی بیوی کے لیے ویزا حاصل کرلے ، اس کے بعد بیوی سفر کرکے اس کے پاس آجائے ۔ کبھی اندرونِ ملک بھی یہ صورت پیدا ہوتی ہے کہ وبائی مرض ، لاک ڈاؤن یا کسی اور وجہ سے دولہا ، دلہن یا دلہن کے ولی کا یکجا ہونا ممکن نہیں ہوتا تو سوال پیدا ہوا کہ کیا جدید ذرائعِ مواصلات کو اختیار کرکے نکاح کیا جاسکتا ہے؟
یہ عصرِ حاضر کے جدید مسائل میں سے ہے ۔ علماء نے اس پر غور کیا تو ان کی آراء میں اختلاف ہوا ۔ بعض علما نے آن لائن نکاح کو ناجائز قرار دیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ زوجین کا حقیقی طور پر ایک مجلس میں ہونا ضروری ہے ۔ اگرچہ انٹرنیٹ اور ویڈیو کال کے ذریعہ باہم رابطہ کی صورت میں حکماً اتحادِ مجلس کی شکل پیدا ہوجاتی ہے ، لیکن جدید مواصلاتی ذرائع سے دھوکہ دہی اور عدمِ تحقّق کے امکان کو بالکلیہ خارج نہیں کیا جاسکتا ، جب کہ بعض دیگر علما کہتے ہیں کہ سمعی و بصری ذرائع قابلِ اعتماد ہیں ۔ اگر اطمینان کرلیا جائے کہ دولہا اور دلہن وہی ہیں جن کے درمیان نکاح ہونا ہے اور گواہ ان کی طرف سے ہونے والے ایجاب و قبول کو سن لیں اور توثیق کر دیں تو آن لائن نکاح جائز ہے ۔
برِّ صغیر ہندو پاک کے علما نے عموماً آن لائن نکاح کو ناجائز قرار دیا ہے ۔ اس کی دلیل انھوں نے یہ دی ہے کہ جدید مواصلاتی ذرائع میں تلبیس اور اشتباہ کے کافی امکانات رہتے ہیں اور مختلف مناظر کو مصنوعی طریقے سے خلط ملط کرنے کی گنجائش رہتی ہے ۔ دوسرے ، اتحادِ مجلس بھی مفقود رہتا ہے ، جو صحتِ نکاح کے لیے شرط ہے ۔ ہندوستان میں دار العلوم دیوبند اور پاکستان میں جامعہ علوم اسلامیہ ، بنوری ٹاؤن کراچی اور دیگر دار الافتاء کے اس موضوع پر متعدد فتاویٰ موجود ہیں ۔
ان تمام فتاویٰ میں ایک بات یہ کہی گئی ہے کہ اگر فریقینِ نکاح (مرد اور عورت) میں سے کوئی کسی آدمی کو اپنا وکیل بنا دے ، جو گواہوں کی موجودگی میں اپنے مؤکل کی طرف سے ایجاب کرلے اور دوسرا فریق اسی مجلس میں قبول کر لے تو نکاح صحیح ہوجائے گا ۔
اس موضوع پر اسلامک فقہ اکیڈمی (انڈیا) کا تیرھواں فقہی اجلاس 13_14؍ اپریل 2001ء میں جامعہ سید احمد شہید ، کٹولی ، ملیح آباد ، لکھنؤ میں منعقد ہوا تھا ۔ اس میں یہ قرارداد منظور کی گئی تھی:
’’نکاح کا معاملہ بہ مقابلۂ عقدِ بیع کے زیادہ نازک ہے ۔ اس میں عبادت کا بھی پہلو ہے اور گواہان کی شرط بھی ہے ، اس لیے انٹر نیٹ ، ویڈیو کانفرنسنگ اور فون پر راست نکاح کا ایجاب و قبول معتبر نہیں ، البتہ ان ذرائعِ ابلاغ پر نکاح کا وکیل بنایا جائے اور وہ گواہان کے سامنے اپنے مؤکل کی طرف سے ایجاب و قبول کرلے تو نکاح درست ہوجائے گا ۔ اس صورت میں یہ بات ضروری ہوگی کہ گواہان وکیل بنانے والے غائب شخص سے واقف ہوں ، یا ایجاب و قبول کے وقت اس کا نام مع ولدیت ذکر کیا جائے ۔‘‘ (نئے مسائل اور فقہ اکیڈمی کے فیصلے، اسلامک فقہ اکیڈمی[انڈیا]، 2016 ، ص 113)
میری رائے میں ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ حکماً اتحادِ مجلس کی شرط پوری ہوجاتی ہے ، اس لیے بوقت حاجت آن لائن نکاح جائز ہے ، البتہ بہتر ہے کہ کسی کو نکاح کا وکیل بھی بنا لیا جائے ، تاکہ تمام فقہا کی رو سے نکاح درست ہوجائے ۔
جہاں تک درج بالا سوال میں مذکور صورت کی بات ہے تو والدہ کی شرکت نکاح کے انعقاد کے لیے ضرورت یا حاجت کے حکم میں نہیں ہے ، لڑکے کے گھر سے صرف لڑکے کی شرکت کافی ہے ۔ اس لیے مذکورہ صورت میں آن لائن نکاح کی صورت اختیار نہیں کرنی چاہیے ۔
[ بشکریہ : ماہ نامہ زندگی نو، نئی دہلی، جولائی 2021 ]
ازدواجی رشتہ کی سب سے بڑی اور کامیاب ٹرک "لچک ” ہے۔زوجین کے مابین معاشرتی معاملات میں لچک ہونی چاہیے ۔
زندگی میں اسی سے نکھار ہے ، آپسی مفاہمت ، سکون واعتبار ہے ۔ شریک سفر کی پسند ناپسند کا خیال تو رکھا ہی جائے لیکن اسے شوہر مان کر
” مال مقبوضہ ” ہرگز نہ سمجھیں اور اسے انسان ہونے پورا مارجن دیں۔
ٍ مندرجہ ذیل چند باتوں پر عمل ضرور کریں اور چند سے پرہیز کریں۔مثلا ً :
ہر آدھے گھنٹے پر فون کھٹکانا لازمی نہیں کہ "کہاں ہو ؟ ہر بات میں دخل دینا لازمی نہیں کہ ” کہاں گئے تھے ؟کس سے ملے ، کیوں ملے ؟اسے کیوں بلایا ، اس سے بات کیوں کی ؟اپنے دوستوں کو چھوڑدو ، فلاں مجھے زہر لگتا ہے ۔کتنا کمایا ، منافع کا حساب دو ، سیونگ کا ریکارڈ دکھاؤ؟شوہر کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا ہے یعنی معاملات اور جذبات کی مکمل پارٹنر شپ ہے۔وہ آپ کا مقروض نہیں کہ آپ قرض وصولنے کی خاطر اس پر C.C.T.V فِٹ کروادیں اور مانیٹر کرتی رہیں۔اور جب جھگڑے ہوں تب آپ اپنے اس انتہائی عمل کو شدید محبت اور کئیر کا نام دیں ۔ایسی محبت شوہر کو راحت کم پہنچاتی ہے اور اس کا دم زیادہ گھوٹتی ہے۔
یہ سب فضول قسم کے اسٹریس ہیں جنہیں آپ بسا اوقات پوری زندگی لادے پھرتی ہیں جب کہ ہوتا یہ ہے کہ سامنے والے کی زندگی اجیرن ہونے سے بہت پہلے آپ کی اپنی خوشیاں اور سکون اجڑجاتا ہے ۔اور سب سے اہم بات کہ اگر بار بار شوہر اپنی ازدواجی زندگی کے دائرہ کو وسیع کرنے کی جہد مسلسل میں لگا ہو۔ہر دوسری لڑکی میں دلچسپی لینے لگا ہو،آپ کی موبائیل گیلری سے آپ کی سہیلیوں کی تصاویر زوم کرتا ہو یا کہ کانٹیکٹ لسٹ سے نمبرز لیتا ہو۔اور آپ نے کئ بار اسے رنگے ہاتھوں پکڑا ہو۔کئ افئیرز بھی آپ کے سامنے آچکے ہوں، توبہ تلافی کے بعد اب بھی موصوف سدھرنے کا نام نہ لے رہے ہوں ۔اور آپ انہیں تِیر کی طرح سیدھا کرنے کے لیے کمر پر دوپٹہ باندھ چکی ہوں تو کوئی فائدہ نہیں۔ اسی دوپٹہ کو کھول کر سر پر اوڑھ لیجیے۔ ٹھنڈے پانی کا ایک گلاس لیجیے ،صوفہ پر بیٹھ جائیے اور میری بات پر ذرا زیادہ دھیان دیجئے!
آپ میکہ سسرال اکٹھا کرلیں ،رو دھولیں محلہ کی ہمدردیاں بھی سمیٹ لیں ۔حالات اس طرح کبھی نہیں بدلیں گے۔جوں ہی گھر ،خاندان والے موصوف کی نگرانی بھول کر اپنی زندگی میں مصروف ہوں گے موصوف پھر سے پرانے دھندے پر لگ سکتے ہیں اس لیے۔۔۔
میرا اپنا ذاتی مشورہ ہے کہ اسے اس کے حال پر چھوڑدیجیے ۔ہاں! چھوڑدیجیے دیکھیے ماہی بے آب کی لاش کس کنارے لگتی ہے؟بندہ کہیں کا تو ہوجائے ،آپ کا ہوجائے یا محبوبہ کو ہی بیوی بنالے ۔ آپ کا بے وفا اس شر میں ہی کوئی خیر کرلے۔
بہنو! !! شوہر اگر بار بار چور راستوں سے بھاگتا ہو۔ہر وقت اسے ایڈونچر ، تھرل کی جستجو ہو۔سیدھی سادھی بیوی اور نارمل لائف اسے ہضم نہیں ہوپارہی ۔حلال اس کے گلے کا کانٹا بن چکا ہو تو پھر اس انسان کو جبرا خود سے باندھ کر آپ کس طرح خوش رہ سکتی ہیں ؟خود کو
ذہنی مریضہ نہ بنائیں ۔نہ ہی ہر دوسرے روز شوہر کے رابطوں پر پہنچی رہیں ۔بار بار بَھگنے والے کو بھاگنے ہی دو تب تک جب تک یہ مِلیکھا سنگھ نہ بن جائے۔آپ بار بار اسے کھینچ کر جبرا لاتی ہیں ، وہ بار بار دوسروں کی تلاش کرتا ہے ۔اس کا صاف مطلب ہے اسے جس چیز کی تلاش ہے وہ آپ کے پاس نہیں ہے کسی کے گناہ کی ذمہ دار نہ بنیں ۔ شادی کرنا چاہتا ہے کرنے دیں اسے اپنا دم خم بھی آزمالینے دیجیے۔ اس کا پیچھا کرنے میں خود کو خوار نہ کریں اپنی جسمانی اور ذہنی صحت نہ بگاڑیں ۔بچوں پر فوکس کریں اللہ کی امانت کو کماحقہ ادا کرنے کی جان توڑ کوشش میں لگ جائیے۔
دوسروں سے چغلی بازی کی بجائے اللہ کے سامنے اپنا دکھ رولیں۔آپ کی یہ محنت ہرگز ضائع نہیں ہوگی ۔
مسئلہ کی سنگینی کو سمجھیں ۔دل کو جبرا کسی کی طرف مائل نہیں کیا جاسکتا یے۔شوہر کی بھاگم بھاگ صاف اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ شاید کہیں کوئی کمی ہے جسے آپ سمجھ نہیں پارہی ہیں ۔ محبت تو مان ہوتی ہے جب کوئی آپ کا مان برقرار نہ رکھنا چاہے تو پھر گڑگڑاکر خود ترسی سے کیا حاصل ہوگا؟ صرف آپ اذیت میں ہوں گی کسی پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ بس یہی سوچ کر اسے چھوڑدیں آب حیات پی لینے دیں دنیاوی زندگی میں ہی اسے حوروقصور کے مزے لینے دو۔سماج کے جوتے چپل کھانے کے بعد تو اچھّے اچھّوں کی عقل ٹھکانے پر آہی جاتی ہے-
الجھتی ہیں ، ناراض ہوتی ہیں ، بگڑتی ہیں اور پھر آپ کے ہی قدموں میں بکھر جاتی ہیں ، اور سب کچھ آپ کے پاؤں میں ہار دیتی ہیں –
روپیہ روپیہ جوڑتی ہیں ، کبھی آپ کی جیب سے بچا بچا کے اور کبھی اپنی وراثت میں ملا روپیہ – ایسی بھولی گائیں ہوتی ہیں یہ کہ خاوند پر احسان چڑھاتی ہیں ، لیکن کرتی ہمیشہ "گھاٹے کا سودا” ہے – وہ یوں کہ سینت سینت کر جوڑا روپیہ آپ کی اولاد پر لگا چھوڑتی ہیں – کبھی بہت ہوا تو اپنے دو چار جوڑے بنا لیے ، لیکن اکثر جانتے ہیں کیا کرتی ہیں ؟
جی ہاں بہت شوق سے بازار جا کر گھر کی کوئی شے ، کوئی آرائش کی ، یا استعمال کی چیز لے آتی ہیں – بہت سیانی بنتی ہیں ، ایک جملے کو ، صرف ایک تحسین کے جملے کو اس ” جوڑ توڑ ” کا حاصل سمجھتی ہیں – آپ کے حصے کا کام کر رہی ہوتی ہیں اور بدلے میں صرف اک نظر ، محبت بھری مسکراہٹ اور تسلیم پر راضی ہو جاتی ہیں –
دیکھئے نا اصول کی بات ہے کہ گھر بنانا اور چلانا مرد کی ذمے داری ہے ، اور اس کو سنبھالنا ، سجانا ، سنوارنا عورت کی –
اب یہ عورت مرد کے حصے کا کام کرتی ہے اور تحسین کے دو بول محض دو بول مانگتی ہے اور جانتے ہیں ؟ انہی پر راضی ہو جاتی ہے –
اگلے روز ہمارے ایک فیس بک کے دوست کا آپریشن تھا – دوست کے دونوں گردے ناکارہ ہو چلے تھے – تبدیلی کا فیصلہ ہوا – ان کی پوسٹ دیکھی دل مضطرب تھا – کیسا خوبصورت ، ہنستا چہرہ ، سچی بات ہے مجھے بہت اندیشے تھے – اللہ نے زندگی دی ، لوٹ آئے – ایک دوست نے ان سے پوچھا کہ جس نے گردہ عطیہ کیا وہ کیسا ہے ؟
اگلا سوال کسی نے کیا :
"بھائی آپ کو گردہ کس نے دیا ؟”
ان کا جواب تھا :
” میری اہلیہ نے ”
میری آنکھیں بھر آئیں – کہ یہ کیسی کمال کی نعمت اللہ نے ہم کو دی ہے – بھلا ایسا بھی ہوتا ہے –
ہم سے محبت کرتی ہیں ، پھر الجھتی ہیں ، اور پھر اپنا سب کچھ ہم پر ہی ہار دیتی ہیں ، اگر وقت آن پڑے تو اپنی جان بھی وار دیتی ہیں –
کبھی تو ہم ایسے بے پرواہ ہو جاتے ہیں کہ کہ تعریف تو کیا تسلیم سے بھی مکر جاتے ہیں ، لیکن یہ ایسی ہوتی ہیں کہ اس بے پرواہی کا علاج بھی مزید محبت سے کرتی ہیں – کہ شائد اب کے شام کا بھولا جلدی لوٹ آئے –
اگلے روز ایک ویڈیو دیکھی کہ خاوند بیوی کی بے جا ضد سے ہارا ، کہ جو ساتھ جانے کو تیار نہ تھی – اس نے اسے موٹر سائیکل پر باندھا اور ساتھ لے چلا ، راستے میں لوگوں نے اس عمل پر اس مرد کو شرمندہ کیا تو اس نے اسے کھولا – اب وہ عورت لوگوں کو یقین دلا رہی تھی کہ کوئی ایسا مشکوک معاملہ نہیں وہ اس کی بیوی ہی ہے ، بس لڑائی ہو گئی تھی – اور ساتھ ساتھ میں اپنے خاوند کے منہ سے پسینہ کمال محبت سے صاف کر رہی تھی – لوگوں کے تیور دیکھے تو سب لڑائی بھول گئی ، بس یہی فکر کہ کوئی اس کے خاوند کو کچھ نہ کہے –
جگ تے توں جیویں ، تے تری آس تے میں جیواں
ایسی "جھلی ” ہوتی ہیں کہ کھانے کا بہترین حصہ ہمارے لیے بچا کے رکھتی ہیں اور ہم بسا اوقات یہ پوچھنا بھی بھول جاتے ہے کہ اس نے کھانا بھی کھایا یا نہیں –
ہم بھلے تمام دن دوستوں میں بتا کے آئیں ، یہی سمجھتی ہیں کہ سرتاج دن بھر کام کاج کے تھکے آئے ہیں – پاؤں بھی دھیرج رکھتی ہے کہ مزاج کے نازک آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے – ہم ایسے بے توفیق ہووے کہ نازک آبگینے خود بن کے رہ گئے – اور اس کو بہت آسانی سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ:
” آپ تمام دن کرتی کیا ہو ”
مجھے اپنے ایک ملنے والے یاد آ گئے کہ جب بھی آتے ایک آٹھ دس برس کا بچہ ہمراہ ہوتا ، اک روز بتانے لگے کہ :
"اس کی ماں نہیں ، کھانا بھی خود بناتا ہوں ، اکٹھے رہتے ہیں ایک کمرہ لیا ہوا ہے ، نوکری لاہور میں ہے – میں ملازمت پر چلا جاتا ہوں اس کو حفظ کے مدرسے میں چھوڑ کے آتا ہوں ، تب کچھ کام کر پاتا ہوں -”
میں سوچ کے رہ گیا کہ ہم کیسے بے فکر ہو کے کام پر چلے آتے ہیں –
ایسی سادہ ہوتی ہیں کہ شادی کی اگلے روز اپنا حق مہر معاف کر کے بیٹھی ہوتی ہیں ، اور اگر کوئی زیادہ مسکین شکل بنا لے یا محبت سے بازوں میں بھر لے تو وہی رقم اس کو دے کر کہتی ہیں:
” لیں آپ برت لیجئے گا ، میں نے کیا کرنی ہے ، آپ ہیں نا -”
یار دیکھیے نا ، کیسی اللہ کی نعمت ہوتی ہیں ، زمانے بھر کا دکھ سہتی ہیں کہ ماں باپ کو چھوڑ کے آپ کے پاس آ جاتی ہیں ، پھر آپ کے ماں باپ ، بہن بھائیوں کی خدمت کرتی ہیں – آپ ایک لمحہ جس تکلیف کو نہ سہہ سکیں ، اس کو سہار کر آپ کے بچے پیدا کرتی ہیں – اور سب سے بڑا انعام آپ کو یہ دیتی ہیں کہ ان کی اچھی سے اچھی تربیت کرتی ہیں ، اور پھر آپ بوڑھے ہوتے ہیں تو بھی ان سے آپ کے لیے لڑتی ہیں کہ :
” باپ کا خیال کیا کرو ”
اور بتاؤں سب سے بڑی عنایت ان کی تب ہوتی ہے کہ جس سے میں بھی ہر دم نہال ہوتا ہوں ، کہ آپ کی آخرت کی بھی سوچتی ہیں – کیسی مہربان اور شفیق – میری اہلیہ تب تو ایسی تلخ ہو جاتی ہے جب میں نماز میں سستی کرتا ہوں ، کبھی سستی کے مارے گھر میں پڑھنے کو جی چاہتا ہے تو یوں ناراض ہوتی ہے کہ جیسے میں نے اس کے بچاے پیسے چرا لیے ہیں – پھر اٹھ کے مسجد جانا ہی پڑتا ہے ـ ہیں نا بہت ظالم بیویاں کہ آپ کا ساتھ چھوڑتی ہی نہیں ، آخرت کی فکر میں بھی رہتی ہیں ۔
آج ایک تحریر نظر سے گزری جس میں بعض احادیث، آثار اور اہل علم کے اقوال کا سہارا لیتے ہوئے صاحب تحریر نے ایک نامناسب انداز میں ثابت کرنے کی کوشش کی کہ” بیوی شوہر کے لیے ایک طرح سے لونڈی ہی ہوتی ہے”، مجھے ایسے لگا جیسے کوئی مستشرق اسلام کی تعبیرات کو سیاق وسباق سے ہٹا کر اپنا من پسند نتیجہ اخذ کررہا ہوـ اس پس منظر میں چند سطریں رقم کی ہیں، امید ہے صاحب تحریر اپنی تعبیرات پر نظر ثانی کریں گےـ
سب سے پہلے ہم قرآن مجید کی خوب صورت، فصیح وبلیغ تعبیرات کو دیکھتے ہیں، تاکہ اندازہ ہو سکے کہ بیوی کا حقیقی سٹیٹس قرآن مجید کی روشنی میں کیا ہے؟
اس کائنات میں اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو جوڑا جوڑا پیدا کیا ہےـ
کہیں وہ جوڑے متضاد صفات کے حامل ہیں اور مل کر خالق کائنات کی تدبیر کے مطابق کسی مقصد کی تکمیل کرتے ہیں، جیسے دن اور رات، تاریکی اور روشنی ـ کہیں یہ جوڑے اس معنی میں ہیں کہ وہ ایک دوسرے کے مماثل ہیں ، لیکن متنوع بھی ہیں اور ایک دوسرے کے بغیر ادھورے بھی رہتے ہیں اور مل کر ایک مقصد کی تکمیل کرتے ہیں ـ ومن کل شیئ خلقنا زوجین میں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہےـ
اس معنی میں انسانوں میں مرد و عورت ایک دوسرے کا جوڑا ہیں ـ
وأنه خلق الزوجين الذكر َالأنثی، مرد و خواتین میں سے جو رشتہ نکاح میں منسلک ہوجائیں وہ ایک دوسرے کا خصوصی جوڑا ہیں ـ بیوی اپنے شوہر کے لیےزوج ہے اور شوہر اپنی بیوی کا زوج ہے، زوج سے مراد بالکل مماثل، ساتھ رہنے والی شخصیت، قرآن مجید کی متعدد آیات میں اس خوب صورت رشتے کو "زوج” کی تعبیر دی گئی ہےـ جو کہ جوڑے، ساتھی اور مماثل ہونے کا مفہوم دیتا ہے، بلکہ عورت کو مرد کا زوج اور مرد کو عورت کا زوج کہا گیا ہےـ
{وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا…} [النحل : 72]
قرآن مجید نے اس رشتے کو غلامی، جبر، زبردستی، تسلط، خرید وفروخت کی سطحی تعبیر کہیں نہیں دی، بلکہ کیا حسین پیرایہ اختیار کیا؟! اس کا اندازہ آپ درج ذیل آیت مبارکہ سے لگا سکتے ہیں:
{وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُم مِّنْ أَنفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُم مَّوَدَّةً وَرَحْمَةً ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ} [الروم : 21]
گویا اس جوڑے کا رشتہ راحت، سکون، ہمدردی، رحم دلی اور محبت پر استوار ہےـ غلامی اور اسیری پر نہیں ـ
جس طرح ادارے کے نظم وضبط، مینجمنٹ اور تنسیق میں درجہ بندی ضروری ہوتی ہے، ایک اسکول کا ہیڈ ماسٹر ہوتا ہے دوسرے اس کے ماتحت افراد، ایک کالج کا پرنسپل اور دوسرے اس کے ماتحت سٹاف ممبرز، اسلامی وانسانی تکریم میں وہ سب یکساں ہیں، لیکن انتظامی لحاظ سے ہیڈ ماسٹر اور پرنسپل کا درجہ برتر ہےـ
اسی طرح گھر کے ادارے کو چلانے کے لیے میاں بیوی عزت واحترام میں یکساں ہیں، لیکن انتظامی لحاظ سے مرد قوام ہےـ
ازدواجی رشتے کی اس جہت کو واضح کرنے کے لیے قرآن مجید کی بیان کردہ ان ان دو حقیقتوں کو ملا کر پڑھیےـ ولهن مثل الذي عليهن..
جیسے عورتوں پر فرائض ویسے ہی ان کے حقوق ہیں اور دوسری حقیقت
الرجال قوامون على النساء،مرد عورتوں کے منتظم ہیں ـ
اس تناظر میں قرآن مجید اور سنت رسول میں خواتین کو ازدواجی زندگی میں اپنے خاوند کی اطاعت اور فرماں برداری کی تلقین کی گئی ہےـ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوۡنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعۡضَہُمۡ عَلٰی بَعۡضٍ وَّ بِمَاۤ اَنۡفَقُوۡا مِنۡ اَمۡوَالِہِمۡ ؕ فَالصّٰلِحٰتُ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ. النساء ﴿۳۴﴾
مرد عورتوں کے منتظم اور کفیل ہیں کیونکہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس لیے (بھی) کہ مردوں نے ان پر اپنے مال خرچ کیے سو نیک عورتیں فرماں بردار ہوتی ہیں۔
ازدواجی زندگی کے حقوق وفرائض کا تعین تمدن کا ایک معرکۃ الآرا بنیادی ایشو رہا ہے اور اس وقت بھی ہے. ، دین اسلام نے اس میں جو راہ اختیار کی ہے وہ عدیم النظیر ہےـ ہمارا دین نہ تو موجودہ مغربی کلچر کی طرح انہیں ہر لحاظ سے یکساں قرار دیتا ہے اور نہ ہی ہندوانہ معاشرت کی طرح عورت کو ایک لونڈی قرار دیتا ہے، ان دونوں انتہاؤں کے بیچ میں ہمارا دین ایک انتہائی معتدل، متوازن اور عادلانہ تصور دیتا ہے، جس کے مطابق اکثر حقوق وفرائض میں میاں بیوی یکساں ہیں، اور گھر کے نظم ونسق،ادارہ نکاح کی بست وکشاد میں خاوند کو عورت پر ایک درجہ فضیلت حاصل ہےـ
مزید برآں ان حقوق وفرائض کے تعین میں بھی دین اسلام ہر سوسائٹی کے عرف، حالات کی تبدیلی اور وقت کے طے شدہ معیارات کو بھی ایک جائز، محدود مقام دیتا ہے، اور انہیں ملحوظ خاطر رکھنے کی جابجا تلقین بھی کرتا ہےـ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ لَہُنَّ مِثۡلُ الَّذِیۡ عَلَیۡہِنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۪ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیۡہِنَّ دَرَجَۃٌ ؕ وَ اللّٰہُ عَزِیۡزٌ حَکِیۡمٌ البقرہ. ۲۲۸
اور معروف کے مطابق ان (عورتوں) کے لیے اسی طرح حق ہے جیسے ان کے اوپر حق ہے اور مردوں کو ان پر ایک درجہ حاصل ہے اور اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والا ہے۔
عظیم مفسر علامہ سعدی رحمہ اللہ اس آیت مبارکہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وللنساء على بعولتهن من الحقوق واللوازم مثل الذي عليهن لأزواجهن من الحقوق اللازمة والمستحبة. ومرجع الحقوق بين الزوجين يرجع إلى المعروف، وهو: العادة الجارية في ذلك البلد وذلك الزمان من مثلها لمثله، ويختلف ذلك باختلاف الأزمنة والأمكنة، والأحوال، والأشخاص والعوائد.
یعنی ازدواجی زندگی کے حقوق وفرائض طے کرنے میں معروف ایک بنیادی مصدر ومرجع ہے اور معروف طے کرنے میں علاقے، افراد، اشخاص، خاندان، زمانے کے حالات، اور نتائج وعواقب کا دخل ہوتا ہےـ
مضمون نگار نے بدلتے حالات اور موجودہ دور کے مجموعی عرف کو بالکل ہی نظر انداز کردیا ہےـ یہی وجہ ہے کہ اس تحریر سے عورتوں کے جذبات تو مجروح ہوئے ہی ہیں، بہت سارے دین دار باپ، بھائی اور خاوند بھی موصوف کی تعبیرات سے چونک اٹھے ہیں ـ
دین اسلام چند مستثنیات کے علاوہ مجموعی طور پر تمام احکام ومسائل میں مرد و خواتین کو ایک جیسا قرار دیتا ہے، جیسا کہ درج ذیل حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں وضاحت ہے:
"إِنَّمَا النِّسَاءُ شَقَائِقُ الرِّجَالِ”
خواتین تو مردوں ہی کی طرح ہیں ـ (ترمذی، ابوداؤد )
اس رشتے میں جو قربت، مناسبت، دکھ سکھ میں شراکت، گرم، سرد حالات میں ایک دوسرے کی حفاظت کا پہلو پایا جاتا ہے، اس لحاظ سے قرآن مجید میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیتا ہےـ
(ھن لباس لکم وأنتم لباس لہن)
اس رشتے میں جو رفاقت، ہمنشینی اور ساتھ ساتھ رہنے کا جو ایک انداز ہے، اس نظر سے قرآن مجید بیوی کے لیے "صاحبہ” کی منفرد تعبیر پیش کرتا ہےـ
قرآن کریم ہی کی طرح احادیث مبارکہ میں بھی رشتہ نکاح کی نوعیت واضح کرنے کے لیے مختلف اسالیب دکھائی دیتے ہیں ـ
احادیث مبارکہ میں مرد کو اپنے گھر والوں کا "سید”، سردار ، سرپرست ، ذمہ دار اور عورت کو گھر کی "سیدہ” یعنی سرپرست، ذمہ دار اور ملکہ کہا گیا ہےـ
(ﻛﻞ ﻧﻔﺲ ﻣﻦ ﺑﻨﻲ ﺁﺩﻡ ﺳﻴﺪ، ﻓاﻟﺮﺟﻞ ﺳﻴﺪ ﺃﻫﻠﻪ، ﻭاﻟﻤﺮﺃﺓ ﺳﻴﺪﺓ ﺑﻴﺘﻬﺎ ".)
ﺃﺧﺮﺟﻪ اﺑﻦ اﻟﺴﻨﻲ ﻓﻲ ” ﻋﻤﻞ اﻟﻴﻮﻡ ﻭاﻟﻠﻴﻠﺔ ” (382)،الصحيحة 2041
اسی طرح مسئولیت اور ذمہ داری کی جہت کو واضح کرتے ہوئے، مرد کو” راعی”اور عورت کو راعیہ کہا گیا ہے:
وَالرَّجُلُ رَاعٍ فِي أَهْلِهِ وَهُوَ مَسْئُولٌ عَنْ رَعِيَّتِهِ، وَالْمَرْأَةُ رَاعِيَةٌ فِي بَيْتِ زَوْجِهَا وَمَسْئُولَةٌ عَنْ رَعِيَّتِهَا.
صحیح بخارى 893.
نزاکت اور حساسیت کے لحاظ سے عورتوں کو(قوارير) آبگینے کہا گیا ہےـ
دین اسلام ایسا عظیم دین ہے کہ زر خرید غلام کے بارے میں بھی اس کی نفسیات کا لحاظ کرتا ہے اور اسے بھی، میرا بندہ ، میرا بندہ کہ کر پکارنے کی اجازت نہیں دیتا:
وَلَا يَقُلْ أَحَدُكُمْ : عَبْدِي، أَمَتِي، وَلْيَقُلْ : فَتَايَ وَفَتَاتِي وَغُلَامِي ".
صحیح بخارى ٢٥٥٢
بلکہ زر خرید لونڈی سے بھی اگر اولاد ہوجائے تو اس کا سٹیٹس یکسر بدل جاتا، احکام تبدیل ہوجاتے ہیں، اب اسے بچے کی ماں کہتے ہیں (أم الولد)، لیکن ہمارے ہندوستانی بھائی مصر ہیں کہ آزاد عورت، منکوحہ بیوی، پانچ بچوں کی ماں کا سٹیٹس بھی بہر حال لونڈی ہی کی طرح ہے، یا للعجب!
صاحب تحریر نے ان تمام تعلیمات اور اخلاقیات کو یکسر نظر انداز کردیا ہے، اور بیوی کو لونڈی ہی کی طرح بنا دیا ہےـ
پرابلم نصوص میں نہیں ہے، نصوص شرعیہ علی الرأس والعين، اصل مسئلہ صاحب تحریر کے مجموعی تاثر اور نصوص کی نامناسب تعبیر میں ہے اور اس سے بڑھ کر مذکورہ نصوص کو یکسر نظر انداز کرنے سے اس رشتے کے بہت سارے خوب صورت پہلو صاحب تحریر نے یکسر نظروں سے اوجھل رکھے ہیں، جس بنا پر تحریر میں بر صغیر پاک وہندکاایک روایتی، ہندی کلچر کا خاوند ابھر کر سامنے آیا ہے، وہ خاوند جو اپنی بیوی کو کوئی عزت دینے کا روادار نہیں، اسے کبھی پاؤں کی جوتی کہتا ہے اور کبھی لونڈیوں کی طرح ایک لونڈی، مردانہ تحکم اور جبر زیادہ نمایاں ہو گیا ہے،اور اسلامی توازن کہیں گم ہو کر رہ گیا ہےـ
صورت حال کی سنگینی میں سب سے زیادہ اضافہ اس وجہ سے ہوا ہے کہ صاحب تحریر نے احادیث کو سیاق وسباق سے ہٹا کر پیش کیا ہےـ کاتب کی پوری تحریر میں عورت کو لونڈی کی طرح ثابت کرنے کے لیے بنیادی طور پر صرف دو احادیث ہیں؛ ایک میں بیوی کو قیدی سے دوسری روایت میں نکاح کو غلامی سے تشبیہ دی گئی ہےـ
جس حدیث میں بیوی کو قیدی کہا گیا ہے ـ صاحب تحریر نے اس حدیث میں سے ایک ٹکڑا لیا ہے، وہ بھی ادھورا، اور اس سے نتیجہ سیاق سے ہٹ کر کشید کیا ہے، صاحب تحریر نے صرف یہ الفاظ نقل کیے ہیں :
"سنو! عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو، اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں”ـ
اور پھر اپنے مخصوص انداز میں اس سے مردوں کی حاکمیت ثابت کی ہے، جبکہ حدیث کا پورا سیاق وسباق پکار پکار کر کہتا ہے کہ یہاں مردوں کی بالادستی بیان کرنا اصل مقصود نہیں ہے، بلکہ عورت کی ایک عظیم قربانی کا حوالہ دے کر مرد کو حسن سلوک پر ابھارنا مطلوب ہےـ جس طرح ایک آزاد مرد کو کہیں قید کردیا جائے، تو اس کے اختیارات محدود ہوجاتے ہیں، اسی طرح عورت اپنے والدین کے گھر کو خیر باد کہہ کر اپنے شوہر کے پاس قیدیوں کی طرح رہ رہی ہوتی ہےـ اس کی اس کیفیت کو تشبیہ کے انداز میں بیان کرتے ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ،خطبہ حجۃ الوداع میں ارشاد فرمایا:
: أَلَا وَاسْتَوْصُوا بِالنِّسَاءِ خَيْرًا، فَإِنَّمَا هُنَّ عَوَانٌ عِنْدَكُمْ لَيْسَ تَمْلِكُونَ مِنْهُنَّ شَيْئًا.
سنو! عورتوں کے ساتھ خیر خواہی کرو۔ اس لیے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔ تم اس ( ہمبستری اور اپنی عصمت اور اپنے مال کی امانت وغیرہ ) کے علاوہ اور کچھ اختیار نہیں رکھتے ۔
(جامع ترمذی، 1163)
آپ غورکیجیے کس طرح "لیس تملكون منہن شیئا” کے الفاظ اڑا دئے گئے؟ اور سیاق وسباق کو بھی غائب کردیا گیاـ
دوسری حدیث جس میں نکاح کو غلامی سے تشبیہ دی گئی، درج ذیل ہے:
ﺇﻧﻤﺎ اﻟﻨﻜﺎﺡ ﺭﻕ ﻓﻠﻴﻨﻈﺮ ﺃﺣﺪﻛﻢ ﺃﻳﻦ ﻳﺮﻕ ﻋﺘﻴﻘﺘﻪ ﻭﺭﻭﻱ ﺫﻟﻚ ﻣﺮﻓﻮﻋﺎ ﻭاﻟﻤﻮﻗﻮﻑ ﺃﺻﺢ.(السنن الكبرى للبيهقي)
نکاح تو محض ایک قسم کی غلامی ہوتا ہے، تمہیں خوب سوچ لینا چاہیے کہ اپنی پیاری آزاد بیٹی کو کس کی غلامی میں دینا ہےـ
اولا تو اہل علم کے ہاں اختلاف ہے کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مرفوع فرمان ہے یا کسی صحابی کا قول، ثانیاً بہر حال اس حدیث کو بھی بالکل غلط رنگ میں پیش کیا گیا ہے. یہاں بھی اصل مقصود منکوحہ کی غلامی بیان کرنا نہیں، نہ ہی بیوی کو لونڈی کہا گیا ہے، بلکہ اسے "عتیقہ” کہا گیا ہے، مخاطب بھی خاوند نہیں بلکہ باپ اور ولی ہے، غرض عورت کی غلامی بیان کرنا نہیں، بلکہ اس کے رشتے کے لیے مناسب مرد کو تلاش کرنے کی ترغیب دی گئی، ترغیب دیتے ہوئے نکاح کو غلامی سے تشبیہ دی گئی ہےـ
علم بلاغت میں طے شدہ حقیقت ہے کہ تشبیہ من کل الوجوہ نہیں ہوتی، بلکہ اس میں کسی ایک یا متعدد پہلوؤں میں مماثلت بیان کرنا مقصود ہوتا ہےـ
اور مذکورہ احادیث میں نکاح کو غلامی سے تشبیہ دے کر عورت کی کمزوری، اور اختیارات کی محدودیت اس غرض سے بیان کی گئی ہے، کہ اس کے سرپرست رشتہ دیتے ہوئے عورت کی اس کمزوری کو مد نظر رکھیں اور اس کے بارے میں اچھا فیصلہ کریں ـ
اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو شیر کہتا ہے تو اس کامطلب بالعموم یہ ہوتا ہے کہ میرا بیٹا بہادری اور قوت میں شیر کی طرح ہے ، کوئی صاحب لفظ "شیر” کی بنیاد پر اس کے بیٹے کو جانور، درندہ کہنا شروع کردے اور تشبیہ کو مقصود حقیقی سے ہٹا دے تو کہاں کا انصاف ہے؟
بس اسی طرح نکاح کو غلامی اور بیوی کو قیدی سے تشبیہ دی گئی ہے تاکہ متعلقین کو اس صنف نازک کی کمزوری بیان کرکے، انہیں خواتین کے ساتھ حسن سلوک کی ترغیب دی جائے، لیکن ہمارے محترم بھائی نے اس تشبیہ کو کوئی اور ہی رنگ دے دیا ہے، ایسا رنگ جو قرآن وسنت کی مجموعی تعلیمات سے یکسر صرف مختلف ہے، طرفہ تماشا یہ ہے کہ اتنی بڑی بات صرف دو احادیث کو سیاق وسباق سے ہٹا کر کہ دی گئی ہے ، سیاق وسباق سے ہٹا کر دو احادیث سے اخذ کردہ نتیجہ ایسا ہے جو ہندوانہ کلچر کے زیادہ قریب ہے اور اس میں دیگر تمام آیات اور احادیث کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا ہےـ
واللہ الموفق وبہ الثقۃ وعلیہ التکلان وهو المستعان وصلى الله وسلم على النبي .
اللہ نے اسلامی شریعت میں مسلم خواتین کے لیے بہت سی رعایتیں رکھی ہیں اور آخری حد تک انہیں سہولیات عطا کی ہے۔شریعت نے مرد کے لیے مساجد میں نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا جبکہ عورتوں کے لیے ان کے گھروں میں ہی نماز ادا کرنے کو بہتر بتایا، مردوں کو محنت ومشقت اور دوڑ دھوپ والے کام دیےجبکہ عورتوں کو معاش کی ذمہ داریوں سےمتثنیٰ رکھا۔ ان کے سپرد ایسے کام کیے جہیں وہ موسم کی سختیوں کو جھیلے بغیراور دوڑ دھوپ کی مشقتوں سے بچتے ہوئے ، کسی قدر اطمئنان اور آرام سے رہ کر انجام دے سکیں۔اور کام کاج کے ساتھ ساتھ بچوں کی پرورش پر بھی اچھی طرح دھیان دے سکیں۔ اللہ نے فطری اور شرعی طورپر مسلم خواتین کے لیے جو آسانیاں فراہم کی ہیں اور جو ذمہ داریاں انہیں دی ہیں ان سب میں عورتوں کے لیےترحم اور سہولیات کا پہلو نکلتا ہے۔ عورتوں کے مقام ومرتبے کو گھٹانے کا پہلو کسی طرح بھی نہیں نکلتا۔[
اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورتوں کو کمائی (earning money)سے پوری طرح آزاد رکھا ہے، کمانے کی ساری ذمہ داری مردوں پر ہی رکھی ہے، پھر بھی مجبوری کی صورت میں عورتوں کو گھر سے نکل کر کمائی کے ذرائع اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔ شریعت نے عورتوں کو ان کے خاندان کے کسی بھی فرد کی کفالت کا ذمہ دار نہیں بنایا ہے۔ نہ وہ اس بات کی مکلف ہیں کہ اپنے بوڑھے والدین کی کفالت کریں، نہ اس بات کی کہ اپنے نسبتی والدین کو اپنے ذاتی پیسے سے کھلائیں پلائیں، حتیٰ کہ خود اپنی اولاد کی کفالت بھی ان کے ذمے نہیں ہے، اس سے بھی آگے بڑھ کر وہ خود اپنے شوہروں کی کفالت میں ہیں۔ یعنی ان کی تمام جائز ضروریا ت کا پورا کرنا ان کے شوہروں کے ذمے ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر شریعت نے ان کے لیے یہ کیا کہ انہیں ان کے والد اور شوہروں کی جائداد میں ایک متعین حق دیا۔ ان کے والد اورشوہروں کی یہ جائدادچاہے خواہ ان کی خود کی کمائی ہو یا انہوں نے وراثت میں پائی ہو ، اس میں بہر حال زیر کفالت عورتوں کا متعین حق ہے۔ جب شریعت نے یہ چاہا کہ عورتیں پیسہ کمانے کی دوڑ دھوپ سے آزاد اور بے فکر ہوکر اپنے گھروں کی آرائش وزیبائش میں لگیں اور اپنے بچوں کی پرورش کریں تولازما شریعت کو انہیں یہ رخصت دینی ہی تھی کہ ان پر کسی بھی فرد کی کفالت کا ذمہ نہ ہو، مزید برآں انہیں گھرکے کاموں کی خدمت کے صلے میں والد اور شوہر کی جائداد میں حصہ بھی ملے۔جو عورتیں صاحب حیثیت ہیں وہ اپنی خوشی سے اپنے بچوں، والدین ، بھائی بہن اور شوہر پر جتنا چاہیں خرچ کرسکتی ہیں مگر وہ اس کی مکلف نہیں ہیں۔ جس طرح شوہر اس کا مکلف ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو کھلائے پلائے اور ان کے علاج معالجے پر پیسہ خرچ کرے ۔ اگر وہ پھر بھی ایسا کرتی ہیں تو یہ ان کی طرف سے احسان ہے۔
جن عورتوں کے خاوند فوت ہوگئے ہیں اور وہ محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہیں، انہیں تعلیم دلاتی ہیں، یقینا ایسی عورتیں اللہ کی نظر میں بڑا درجہ رکھتی ہیں اور ان کے لیے اللہ کے یہاں بڑا اجر ہے۔ ایسی عورتیں معاشرے میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھی جانے کی مستحق ہیں، بنسبت ان عورتوں کے جو موروثی طورپر صاحب ثروت ہوں اور انہیں اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم کے لیے محنت مزدوری کی حاجت نہ پڑے۔ بے شک ان کے لئے بھی نیکیاں کمانے کے بہت سے راستے ہیں، ضعیفوں اور کمزوروں کی مدد اور ان کا مالی تعاون کرنا،موروثی طورپر صاحب ثروت عورتوں کے لیے ایک اضافی موقع ہے۔جبکہ دیگر کے پاس دو ہی مواقع ہیں، ایک عبادت اور دوسرے خدمت ۔ مگر یہ بڑے درجے کی بات ہے کہ کسی عورت کا خاوند فوت ہوگیا ہو،یا بیمار ہو یا اور کوئی مجبوری ہو اور وہ عورت کم از کم شریعت کے بنیادی اور اساسی احکام کی پابندی کرتے ہوئے محنت ومزدوری یا ملازمت کرکے حلال روزی کمائے اور اپنے بچوں کی پرورش کرے۔ایسی عورت ہر طرح سے انعام واکرام کی مستحق ہے۔کیونکہ ایسا کرکے نہ صرف یہ کہ وہ اپنے بچوں کو پال پوس رہی ہے اور پڑھا لکھا رہی ہے،بلکہ مسلم معاشرے کو معاشی اور علمی سطح پر مستحکم کرنے میں بھی اپنا سا رول ادا کررہی ہے۔
بچوں کی پرورش اور گھرگرھستی کے کام کاج بھی بڑے کام ہیں بلکہ تھکادینے والے کام ہیں۔اگر عورتیں یہ سب کام خوش دلی اور محنت ولگن کے ساتھ کرتی ہیں تو ان کے لیے اللہ کے یہاں بڑا اجر وثواب ہے ۔ مرد حضرات اپنی عورتوں کے آرام وراحت کے لیے بھلے ہی زیادہ نہ سوچیں اور بھلے ہی وہ ان کی طرف سے بے پروا بنے رہیں ،مگر اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی طرف سے بالکل بھی بے پروا نہیں ہے۔ اللہ کوخود ان کا، ان کے کاموں کا اور انسانی معاشرے کی تعمیر وتشکیل میں ان کی بنیادی ذمہ داریوں اور عملداریوں کا ، ان کے درد کا اور ضعف کا،پھر ان کے ذمے جو کام ہیں ان کی مشکلات کا اور نزاکتوں کا خوب خوب علم ہے۔ آخر اللہ علیم وخبیر ہے اور اسی کا فرمان ہے ’’ أَلَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ‘‘ جس نے پیدا کیا ہے ،کیاوہی اپنی تخلیق (انسان)کے بارے میں نہ جانے گا ؟ ۔ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (الملک: 14(
بے شک اللہ جانتا ہے اور خوب جانتا ہے، اسی لیے اللہ نے اپنی شریعت میں مسلم خواتین کے لیے بہت ساری رخصتیں رکھی ہیں۔ ان رخصتوں کو مرد حضرات ان کے لیے کمزوری، عیب، بلکہ ان کے لیے بے وقعتی تصور کررہے ہیں۔اور ان پر ناقصات العقل والدین کی بھپتی کستےرہتے ہیں۔یہ جانے بغیر کہ ان الفاظ سے رسول اللہ ﷺ کی واقعی منشا ومراد کیا تھی۔ناقصات العقل والدین والی حدیث کی وضاحت میں شیخ بن باز ؒ فرماتے ہیں:(.. ولا يلزم من هذا أن يكون نقص عقلها في كل شيء، ونقص دينها في كل شيء.وإنما بين الرسول ﷺ أن نقص عقلها من جهة ما قد يحصل من عدم الضبط للشهادة، ونقص دينها من جهة ما يحصل لها من ترك الصلاة والصوم في حال الحيض والنفاس، ولا يلزم من هذا أن تكون أيضا دون الرجل في كل شيء، وأن الرجل أفضل منها في كل شيء(
وہ سمجھتے ہیں کہ دوعورتوں کی گواہی کاایک مردکی گواہی کے مساوی ہونا، انہیں نمازوں اور روزوں میں رخصتوں کا ملنا، اسی طرح ان کا صاحبِ کفالت نہ ہونا بلکہ خود مردوں کی کفالت میں ہونا، مساجد وعید گاہوں میں جانے کے لیے رخصتوں کا رکھا جانا، یہ سب شرعی احکام عورتوں کی عظمتوں کو گھٹاتے ہیں اور مرد کے مقابلے میں انہیں کم تر ثابت کرنے کے لیے کافی وجہ جواز رکھتے ہیں۔ لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہے۔اللہ نے عورتوں کی عظمتوں میں کچھ کمی نہیں کی ہے۔ البتہ ایسا ضرور ہے کہ اللہ نے یہ کائنات فطری یا تخلیقی فرق کے ساتھ بنائی ہے، یہاں ایک کمزور ہے اور ایک طاقتور ہے، ایک انگلی چھوٹی ہے اور دوسری بڑی ہے،دماغ کی ساخت اور اس کے اعمال بالکل الگ ہیں اور دل کی ساخت اور اس کے اعمال بالکل مختلف ہیں۔ یہی فطری یا تخلیقی فرق اللہ نے ہر ایک جنس اور نوع میں رکھا ہے، خواہ وہ جاندار ہویاغیر جاندارہو، اسی طرح ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان رکھا ہے اور جس طرح ایک مرد اور دوسرے مرد اورایک عورت اور دوسری عورت کے درمیان رکھا ہے اسی طرح اللہ نے یہی فطری و تخلیقی فرق مرد اور عورت کے درمیان بھی رکھا ہے۔ اور اس سے اللہ کی منشاء کسی کی اہمیت کوگھٹانا اور بڑھانا نہیں ہے بلکہ دنیا کے کاروبار کو احسن طریقے پر چلانا ہے۔ اگر ذمہ داریاں اور عہدے مختلف نہیں ہوں گے تو کوئی بھی کام پائے تکمیل کو نہیں پہنچ پائے گا۔ نہ عمارتیں تعمیر ہوسکیں گی، نہ کھیت کھلیانوں میں رونقیں رہیں گی اور نہ ہی نسلیں پروان چڑھیں گی۔اس کے علاوہ اللہ نے ہر ایک کے ذمے وہی اعمال لگائے ہیں جنہیں وہ بحسن وخوبی انجام دے سکتا ہے اور اپنی بنیادی ذمہ داری کو متاثر کیے بغیر انجام دے سکے۔
مردو عورت، دونوں میں سے ہر ایک کی کچھ بنیادی ذمہ داریاں ہیں اور کچھ اضافی ۔ دنیا کے کاروبار کو مستقل اورمسلسل رکھنے کے لیے خاندان کی سطح پر عورتوں کی بنیادی ذمہ داری بچوں کی پیدائش اور پرورش ہے، جبکہ مردوں کی ذمہ داری گھر کے باہر کے محنت ومشقت والے کام ہیں ۔ اسلام کی یہ تقسیم عمومی نوعیت کی ہے نہ کہ کلی نوعیت کی، جزوی اعتبار سے اس میں فرق واقع ہوسکتا ہے، جزوی طورپر یہ تقسیم الٹ بھی سکتی ہے، ایک مرد گھر کا کام کاج بھی کرسکتا ہے اور ایک عورت باہر کا کام کاج بھی سنبھال سکتی ہے ۔اور یہ سب وقت اور حالات پر منحصر ہوگا۔اگرعورتوں کو پرامن ماحول میسر ہو ، بطورخاص اسلامی ماحول میسر ہو ،ان کی عزت وآبرو محفوظ ہو اور ان کے جان ومال کو کوئی خطرہ نہ ہوتو ان کے لیےباہر کے کام کرنے میں بھی کچھ مضائقہ نہیں، بشرطیکہ ان پر دوہری ذمہ داری نہ آن پڑے۔
اس کے علاوہ مرد وعورت دونوں کی جواضافی ذمہ داریاں ہیں وہ مختلف اور متنوع ہیں، مگر یہ ذمہ داریاں ان کی بنیادی ذمہ داریوں کو سپورٹ کرنے والی ہیں۔ اللہ نے عورتوں کو گھر گرہستی سنبھالنے کی جو اضافی ذمہ داری دی ہے وہ ان کی بنیادی ذمہ داریوں یعنی بچوں کی پیدائش اور پرورش کوپورا کرنے اور بحسن وخوبی ادا کرنےمیں معاون ہے۔ بچوں کی پیدائش اورپھر پرورش شاید دنیا کا سب سے مشکل او ر نازک کام ہے۔عورتیں جتنی زیادہ سوجھ والی ، پڑھی لکھی اور دیندار ہوں گی وہ اپنے بچوں کی پرورش اتنے ہی زیادہ بہتر طریقے پر کرسکنے کی اہل ہوں گی۔ اگرعورتوں پر انسانی نسل آگے بڑھانے کی بنیادی ذمہ داری نہ ہوتی توپھر ان کے ساتھ جو فطری امور لگے ہوئے ہیں وہ بھی نہ ہوتے اورپھر ان کے مخصوص شرعی احکام بھی نہ ہوتے۔ پھر تو بہت ساری چیزیں نہ ہوتیں۔اس کا مطلب یہی ہے کہ ان کی اسی ایک بنیادی ذمہ داری کے اردگرد خاندان کا سارامعاشرتی ، معاشی اور اخلاقی سسٹم گھوم رہا ہے۔اور اسی پر ان کے جسمانی نظام کی بنا ہے۔
عورتوں کا جسمانی نظام ، جو تھوڑا بہت مردوں سے مختلف ہے، اللہ نے اسے بھی ان کی اسی ایک بنیادی ذمہ داری کو مدنظر رکھ ہی تخلیق کیا ہے ۔اس کے علاوہ ان کی اسی بنیادی ذمہ داری کو سپورٹ دینے کے لیے اللہ نے اسلامی شریعت میں مسلم خواتین کے لیے بہت سی رعایتیں رکھی ہیں اور آخری حد تک انہیں سہولتیں عطا کی ہیں۔مرد کے لیے مساجد میں نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا جبکہ عورتوں کے لیے ان کے گھروں میں ہی نماز ادا کرنے کو بہتر بتایا، مردوں کو محنت ومشقت اور دوڑ دھوپ والے کام دیےجبکہ عورتوں کو معاشی ذمہ داریوں سےمتثنیٰ رکھا۔ ان کے سپرد ایسے کام کیے جنہیں وہ موسم کی سختیوں کو جھیلے بغیراور دوڑ دھوپ کی مشقتوں سے بچتے ہوئے ، کسی قدر اطمئنان اور آرام سے رہ کر انجام دے سکیں۔اور کام کاج کے ساتھ ساتھ بچوں کی پرورش پر بھی اچھی طرح دھیان دے سکیں۔ اللہ نے فطری اور شرعی طورپر مسلم خواتین کے لیے جو آسانیاں فراہم کی ہیں اور جو ذمہ داریاں انہیں دی ہیں ان سب میں عورتوں کے لیےترحم اور سہولیات کا پہلو نکلتا ہے۔ عورتوں کے مقام ومرتبے کو گھٹانے کا پہلو کسی طرح بھی نہیں نکلتا۔ رسول اللہ ﷺ سے جہاد میں عورتوں کی شرکت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ حج ہی ان کا جہاد ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث بخاری ومسلم میں آئی ہے اور اس کی حکمت یہ ہے کہ اللہ عورتوں پر بہت مہربان ہے، اللہ ان کو اضافی مشقتوں میں نہیں ڈالنا چاہتا اور انہیں ایسی خدمات پر مأمور نہیں کرنا چاہتا جو فطرتا ان کے لیے موزوں نہ ہوں، اللہ نے ان کے لیے فضیلتوں اور ثواب میں کمی کیے بغیر انہیں یہ سب رخصتیں دی ہیں اور ایسا کرنے میں خود انہیں کی بھلائی اور آسانی اللہ کے پیش نظر ہے۔
مگربدقسمتی سے ہوا یوں ہےکہ عورتوں کے لیے اسلامی شریعت میں رکھی گئیں سہولیات کو لوگوں نے، اپنوں نے بھی اور غیروں نے بھی، عورتوں کے خلاف سمجھ لیا اور ان کو ایک طرح سے عورتوں کی حق تلفی قرار دیا۔یہ رویہ اچھی چیزوں سے برے معانی پیدا کرنے جیسا ہے۔ عورتوں کو گھروں میں رہنے کی اضافی تاکید ہو ،ان کے لیےپردہ کا حکم ہو ، گھروں میں نماز پڑھنے کے جواز بلکہ فضیلت کی بات ہو، غیر محرم اور اجنبی لوگو ں سے ملنے سے احتراز اور خاص طورپر تنہائی میں ملنے کی ممانعت ہو،یہ سب ان کے لیے تحفظ، سہولیات اور بہتر سے بہتر ماحول فراہم کرنے کے نقطۂ نظرکے سبب سےہے۔ یہ کسی کی فضیلت گھٹانے یا بڑھانے کی وجہ سے نہیں ہے۔ اسی لیے اللہ نے صاف اعلان فرمایا دیا۔ إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُم [الحجرات:13] اللہ کے نزدیک زیادہ معزز ومحترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے۔خواہ مرد ہو یا عورت۔
رسول اللہ ﷺ نے آخری خطبے میں عورتوں اور غلاموں کا خاص طورپر ذکر کیا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انسانی معاشرتی زندگی میں یہ دو طبقات سب سے زیادہ کمزور رہے ہیں، ان کا ہمیشہ سے استحصال ہوتا رہا ہے۔ گھریلو ہنسا( Domestic Vilance) کی شکار زیادہ تر عورتیں ہوتی ہیں یا پھر بچے اور گھروں کے ملازم۔ ہمارے اِس مرد اساس معاشرے میں جو غالب قوت ہے وہ مرد کی ہے، مرد جسمانی طورپر بھی مضبوط ہوتا ہے، مزید یہ کہ دنیا کا معاشرتی سسٹم بھی مرد ہی کو زیادہ سپورٹ کرتا ہے اورعورت کے مقابلے میں وہ مرد کی طاقت کو زیادہ بڑھاتا ہے۔ کسب معاش انسانی حیات کے لیے اسی طرح ہے جس طرح جسم کے لیے روح اور کسب معاش کے ہر میدان میں مرد کو توفق حاصل ہے، اس باعث مرد کے لیے یہ کافی آسان ہوجاتا ہے کہ وہ عورتوں کو من چاہے طریقے پر ستائے اور عورتوں کے لیے یہ مجبوری بن جاتی ہے کہ وہ ظلم وزیادتی سہتی رہیں۔بس اسی خدشے کے پیش نظر رسول اللہﷺ نےاپنی وفات کے قریبی وقت میں بھی خاص طورپر عورتوں کا ذکرکیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کے ساتھ پیش آنے کی تلقین کی۔
رسول اللہ ﷺ ظاہر ہے یہ تو نہیں کرسکتے تھے کہ وہ عورت کو مرد بنادیتے یا اسے بھی اتنا ہی طاقتور بنادیتے جتنا کہ مرد ہے،یہ تو کوئی بھی نہیں کرسکتا، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کو دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں بدل سکتی۔ اس لیے رسول اللہﷺ نے یہ کیا کہ عورتوں کے معاملات میں مرد کو قانونی اوراخلاقی بندشوں سے باندھ دیا تا کہ وہ ظلم سے باز رہے اور عورتیں مردوں کے گھروں میں محفوظ ومامون رہ سکیں۔
بالکل اسی طرح جس طرح ہر ملک کے اپنے قوانین ہوتے ہیں، حکومتیں ہوتی ہیں، پارلیمنٹ ہوتی ہے اور عدالتیں ہوتی ہیں۔ اب یہ حکومتیں، پارلیمنٹ اور عدالتیں یہ تو نہیں کرسکتیں کہ وہ اپنے ملک کے لوگوں کو یکساں طاقتور بنادیں، عورتوں کو بھی مردانہ قوت وجاہت دے دیں ،اس لیے انہوں نے قوانین بنادیے، عدالتوں میں جج بٹھادیے اور کمزوروں کے لیے ایک متبادل طاقت فراہم کردی تاکہ وہ کمزوروں کے ساتھ کھڑی رہے۔ اور جب بھی کوئی طاقت ور آدمی کسی کمزور آدمی پر ظلم کرے تو کمزور اپنی پشت پر اخلاق اور قانون کی طاقت کھڑی ہوئی محسوس کرے۔اورایک کمزور شہری اس طاقتور شہری سے قانون اور عدالت کے سہارے اپنا حق وصول کرلےاور وہ اسے بھی اسی طرح کی تکلیف سے دوچار کردے جس طرح کی تکلیف سے طاقتور آدمی کے ذریعہ خود اسے گزرنا پڑا تھا۔
یہی عمل شریعت اسلامی نے کیا ہے، اس نے مرد کی ظالمانہ روش اور بے لگام غیض وغضب کو لگام لگانے کے لیے، اسلامی اخلاق وقوانین میں باندھ دیا ہے۔ اگر اسلامی قوانین کسی ملک میں پوری طرح نافذ ہوں اور ان کے ساتھ قوت نافذہ بھی ہو تو ظالم سے ظالم مرد بھی بلکہ شیطان بھی ان قوانین کے ہوتے ہوئے، کمزور مردوں ، غلاموں اور عورتوں کو ستانے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔اور جو مسلمان مرد اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے لیے کسی طرح کی قوت نافذہ اور فوجداری قوانین کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان کے لیے اخلاقی قوانین ہی بہت ہیں۔ان کے لیے ہر طرح کے ظلم سے باز رہنے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں اور اس کی پکڑ سے ڈرتے ہیں۔ اسی ضمن میں مردوں کے لیے اللہ کا یہ حکم بھی ہے:وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ [النساء:19]اور نبیﷺ کا یہ فرمان بھی: استوصوا بالنساء خيرا۔ اور یہ بھی: النساء شقائق الرجال[رواه البخاري (3331) ومسلم (1468)] عورتیں مردوں ہی کے مثل ہیں۔ اس کا صاف مطلب ہوا کہ تخلیق میں اور حقوق میں مردو عورت کے دمیان کچھ فرق نہیں، جس طرح دومردوں کی تخلیق اور حقوق میں کچھ فرق نہیں۔
مرد اورعورت، دونوں کو ایک مرد ایک ایک عورت سے پیدا کیا گیا ہے، دونوں ہی تخلیق میں برابر سرابر کی اہمیت کے حامل ہیں اور نہ صرف ان کی خود کی تخلیق میں بلکہ روئے زمین پر انسانی نسل کے بقا وتحفظ میں اور پرورش میں بھی دونوں برابر کے حصے دار ہیں، بلکہ اللہ کے تخلیقی پلان کی تکمیل میں برابرسرابر کی ذمہ داری نبھا نے والے ہیں۔ چنانچہ قرآن میں ہے: یٰـٓاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی [النساء: 1] اس آیت میں آدم وحوا کی تخلیق کے بعداللہ نے دنیا میں جو تخلیقی عمل جاری وساری کیا ہے ، اس کا بیان ہے۔اور اس بیان کی غایت یہ ہے کہ جب تمام انسان (مرد وعورت )ایک مرداورایک عورت سے پیدا ہوئے ہیں تو ان میں کسی طرح کی کوئی تفریق کیسے روا رکھی جاسکتی ہے؟ دونوں کی تخلیق دونوں کے اجتماعی عمل سے وجود پذیر ہوئی ہے اور دونوں ہی روئے زمین پر اللہ کے تخلیقی منصوبے کو جاری ساری رکھنے میں یکساں عملداری رکھتے ہیں۔
کوئی بھی قانون ہو ، اس کا بنیادی مقصد کمزورانسانوں کے حقوق کو پامالی سے بچانا ہے۔ معاشرے میں جو طاقتورفرد ہے وہ تو مخالف کی ناک توڑ کر اپنا حق خود ہی حاصل کرلے گا مگر جو کمزور ہے وہ طاقتور سے اپنے حقوق نہیں لے سکتا۔ دنیا میں اسی لیے قانون بنائے جاتے ہیں ، قانون کی بنیادی شق یہی ہے کہ وہ کمزور کے ساتھ کھڑا رہے۔ اللہ کی شریعت بھی اخلاق وقوانین کا مجموعہ ہے۔ قرآن میں تاریخ ،واقعات، حکمت ،موعظت، سائنس اور غیب کی باتوں کے علاوہ اخلاق وقوانین بھی ہیں۔ اور قانون کے اساسی ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا مناسب ہے کہ قرآن کمزوروں کے لیے ہے اور ہمیشہ کمزوروں کے ساتھ کھڑا ہے۔ اسی لیے قرآن میں امن اور انصاف قائم کرنے کی بات باربار دہرائی گئی ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ جب خلیفہ بنائے گئے ، اس وقت انہوں نے جو پہلا خطبہ دیا ہے، ذرا اس کےیہ عظیم الشان الفاظ دیکھیں:
’’أَيُّها الناسُ فَإِني قد وُلِّيتُ عليكم ولست بخيركم فإِنْ أَحْسَنْتُ فَأَعِينُونِي وإِنْ أَسَأْتُ فَقَوِّمُوني.الصِدْقُ أمانةٌ والكَذِبُ خِيَانَةٌ . والضعيفُ فيكم قويٌّ عندي حتى أرجعَ إليه حقَّه إن شاء اللّه، والقويّ فيكم ضعيفٌ عندي حتى آخذَ الحقَّ منه إن شاء اللّه‘‘۔[سيرة ابن هشام : 4/240، عيون الأخبار لابن قتيبة : 2/ 234.[
اس خطبے سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت کےبنیادی اہداف میں ایک بڑاہدف اور خلیفۃ المسلمین کے اساسی ذمہ داریوں میں ایک بڑی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ مسلمان رعایا میں انصاف قائم کیا جائے اورظالم ومغرور انسانوں سے کمزور وغریب انسانوں کے حقوق دلوائے جائیں۔اب اگرکسی مسلم معاشرے میں عورتوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں تواللہ، اللہ کا قانون یعنی قرآن ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑا ہوا ہے۔اب اس کے بعد جو کچھ رہ جاتا ہے وہ اسلام کے احکام کو مسلم معاشرے میں نافذ کرنے کی عظیم ذمہ داری رہ جاتی ہے۔