خواتین واطفال
سماج کی سب سے چھوٹی اکائی خاندان ہوتا ہے، فرد سے خاندان اور خاندان سے سماج وجود میں آتا ہے، خاندان کو انگریزی میں فیملی اور عربی میں اُسرۃ کہتے ہیں، اسرۃ الانسان کا مطلب انسان کا خاندان ہوتا ہے جس میں والدین، بیوی بچے اور دوسرے اقربا بھی شامل ہوتے ہیں، خاندان کا ہر فرد ایک اکائی ہونے کے باوجود خاندان سے رشتوں کے اعتبار سے جڑا ہوتا ہے اور ایک دوسرے سے خوشی وغمی میں مربوط رہتا ہے، اس ارتباط سے ایک کو دوسرے سے قوت ملتی ہے اس لیے اس کو اسرۃ کہتے ہیں، کیوں کہ اس لفظ میں قوت وطاقت کا مفہوم پوشیدہ ہے۔
میرے علم ومطالعہ کی حد تک قرآن کریم اور فقہاء کرام کے یہاں یہ لفظ مستعمل نہیں ہے اس کی جگہ آل، اہل وعیال، ذریۃ، ابن، بنت وغیرہ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں، موجودہ دور میں اسرۃ کا اطلاق مرد، اس کی بیوی اور اس کے ان اصول وفروع پر ہوتا ہے، جس کا نفقہ اس کے ذمہ ہو، البتہ ابو جعفر نحاس صرف مرد کے پدری رشتہ دار کو ’’اسرۃ‘‘ مانتے ہیں، جو بدیہی طور پر صحیح نہیں ہے۔ قرآن کریم میں جہاں اللہ ورسول سے سب سے زیادہ محبت کا ذکر کیا گیا ہے، وہاں باپ، بیٹا، بھائی، بیوی اور قبائل کا ایک ساتھ ذکر موجود ہے، جن کی محبت زیادہ ا نسان کے دلوں میں جا گزیں ہوتی ہے، اس اعتبار سے دیکھیں تو خاندان میں یہ سب آجاتے ہیں، البتہ ان میں سے بعض کا نفقہ واجب ہوتا ہے اور بعض کا نہیں، بعض کی کفالت ضرورتا کی جاتی ہے اور بعض اس دائرے سے بھی باہر رہ جاتے ہیں، لیکن خاندان کا اطلاق ان سب پر ہوتا ہے، ہمارے یہاں کا یہ عرف عام ہے اور فقہ میں عرف عام کا بھی اعتبار ہوتا ہے، بخلاف مغرب کے کہ ان کے یہاں فیملی کا مطلب میاں بیوی اور بیٹے، بٹیاں ہوا کرتے ہیں، ان کے خاندان میں والدین کی جگہ نہیں ہوتی ہے یا تو وہ اکیلے رہتے ہیں یا انہیں اولڈ ایج ہوم میں ڈال دیا جاتا ہے، اسلام میں سماجی زندگی میں جو خاندانی نظام اور خاندانی ڈھانچہ ہے اس کا والدین کے بغیر کوئی تصور نہیںہے ۔ یہ خاندانی نظام سماج میں دو طرح رائج ہے، ایک مشترکہ خاندانی نظام اور دوسرا انفرادی خاندانی نظام۔
مشترکہ خاندانی نظام میں ایک میاں بیوی کے تمام لڑکے، بلکہ بسا اوقات بھائی اور بچے ان کے بھی ساتھ ہوتے ہیں، اس نظام میں اگر آپس میں الفت ومحبت رہے اور چھوٹی چھوٹی رنجشیں حائل نہ ہوں تو مشترک ہونے کی وجہ سے یہ بڑا طاقتور ہوتا ہے، لوگ اس کی طرف آنکھ اٹھانے کی جرأت نہیں کرتے، اس لیے کہ ان کی لاٹھی مضبوط ہوتی ہے اورمالی اعتبار سے بھی وہ عموما فائق ہوتے ہیں، اور وہ اس پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ دیہاتی زبان میں ان سے ’’پھریا نا‘‘آسان نہیں ہوتا اس لیے لوگ ان سے خوف کھاتے ہیں اور ان کی قوت کی وجہ سے ان پر کوئی ظلم نہیں کر سکتا۔
اس نظام کی چند خرابیاں بھی ہیں، اس میں خاندان کے بہت سارے ارکان دوسرے کی کمائی پر بھرسہ کرنے لگتے ہیں، ایک کماتا ہے اور سب بیٹھ کر کھاتے ہیں، اس کی وجہ سے خاندان کے بہت سارے افراد کاہل ہوجاتے ہیں اور وہ معاش کے حصول میں تگ ودو کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
دوسری خرابی اس مشترکہ خاندانی نظام میں یہ ہے کہ شریعت کے پردہ کے اصول پر عمل یہاں دشوار ہوتا ہے، ایک آنگن اور ایک چہار دیواری میں رہنے کی وجہ سے پردہ کا نظام باقی نہیں رہتا اور کبھی کبھی اس بے پردگی اور غیر محرموں سے اختلاط کی وجہ سے بہت سارے مسائل پیدا ہوتے ہیں، خصوصا آج کے دور میں جہاں رشتوں کا احترام باقی نہیں ہے اور رشتوں کی پاکیزگی کو تار تار کرنے کے واقعات کثرت سے پیدا ہو رہے ہیں، بظاہر مشترکہ خاندانی نظام میں اختلاط سے بچنا ممکن نہیں ہے۔
تیسرا نقصان یہ ہے کہ مشترکہ خاندان میں فیصلہ لینے کی قوت کم ہوجاتی ہے اور نفسیاتی طور پر وہ کمزور ہوجاتے ہیں، اس لیے کہ مشترکہ خاندان میں فیصلے گھر کے گارجین لیتے ہیں اور اسی فیصلے پر سب کو چلنا پڑتا ہے، گارجین کے یہ فیصلے کبھی تو مشورے سے ہوتے اور کبھی بغیر مشورہ کے ہی خاندان کے مفاد میں فیصلہ لے لیا جاتا ہے، اس سے خاندان میں اجتماعی مزاج پیدا ہوتا ہے اور سمع وطاعت کی ڈور میں سارے افراد خانہ بندھے ہوتے ہیں یہ مشترکہ خاندانی نظام کا ایک مثبت پہلو ہے۔
اس کے مقابلے جو انفرادی خاندان ہوتا ہے، اس میں آپس میں ربط وہم آہنگی کی کمی ہوتی ہے، ایک دوسرے سے حسد اور جلن کا مزاج پیدا ہوتا ہے ہر افراد خود کو آگے بڑھانے کے جذبہ سے سرشار ہوتا ہے، یہ جذبہ اس قدر بڑھا ہوتا ہے کہ حلال وحرام کی تمیز بھی مٹ جاتی ہے اور ترکہ وغیرہ کی تقسیم میں بھی لوگ آنا کانی کرنے لگتے ہیں، اس کا یہ فائدہ تو ضرور ہوتا ہے کہ خاندان کے افراد میں خود کمانے کھانے آگے بڑھنے اور اپنے مفادات میں فیصلہ لینے کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے، انہیں سر براہ اور گارجین بننے کے لیے اپنے سے بڑے کی موت کا انتظار نہیں کرنا پڑتا اور وہ بڑوں کی موجودگی میں ہی اپنے بیوی، بچوں کے گارجین ہونے کی حیثیت سے بڑے ہوجاتے ہیں، انفرادی خاندانی ڈھانچے میں جھگڑے لڑائی کا مزاج بھی کم ہوتا ہے، اس لیے کہ ان کے ساتھ رہنے والے ان کے دست نگر ہوتے ہیں اور جھگڑے کے لیے دوسراکوئی موجود نہیں ہوتا۔
مشترکہ خاندانی نظام میں ساس، بہو، نند، دیور وغیرہ کے جھگڑے عام ہوتے ہیں، امراء کے یہاں چوں کہ کسی چیز کی محرومی نہیں ہوتی، ان کے یہاں وافر مقدار میں دولت ہوتی ہے، جس سے گھر کا ہر فرد اپنے ذوق کی چیزیں خرید لیتا ہے اور بات آگے نہیں بڑھتی؛ لیکن اوسط آمدنی والے یا غریب خاندان میں قوت لا یموت کے ساتھ زندگی گذرتی ہے، ایسے میں من پسند آرائشی چیزوں کے لیے گنجائش یا تو ہوتی نہیں ہے او رہوتی ہے تو کم ہوتی ہے، چنانچہ چِک چِک شروع ہوتی ہے اور پورا خاندان اس کی زد میں آجاتا ہے۔
خاندانی نظام اور خاندانی ڈھانچہ میں بیوی کی حیثیت مرکزی ہوتی ہے، مرد کی قوامیت اپنی جگہ، لیکن گھر پُر سکون رہ ہی نہیں سکتا اگر گھر کی خاتون بد سلیقہ، زبان دراز اور پھوہڑ ہو، یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک جہاں خاندان میں مرد کو اہمیت دی جاتی ہے، مسلمان اور اسلامی ممالک جہاں’’الرجال قوامون علی النسائ‘‘ کی جڑیں بہت گہری ہیں وہاں بھی مردوں پر تشدد اور استحصال روز مرہ کی بات ہے، مغربی ممالک میں جو کچھ مردوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کا تو ذکر ہی فضول ہے، برطانیہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم میں کائنڈ (Menkind)ہے جس کی ایک رپورٹ کے مطابق گھریلو تشدد کے متاثرین میں ہر تین میں ایک مرد ہوتا ہے، اس تنظیم کا یہ بھی ماننا ہے کہ مردوں کا خواتین کے ذریعہ جذباتی، جسمانی، دماغی اور معاشی استحصال ہوتا ہے، یہ تعداد زیادہ بھی ہو سکتی ہے، کیوں کہ مردوں میں تشدد بر داشت کرنے کا خاموش مزاج ہوتا ہے، وہ اسے دوستوں کی مجلسوں میں بھی بیان کرنے میں شرم، جھجھک، خوف اور قباحت محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ ان واقعات کے بیان کرنے سے دوستوں میں ان کا وزن کم ہوتاہے اور مذاق کا موضوع بن جاتے ہیں۔
مرد کی قوامیت کی ایک وجہ اللہ رب العزت نے عوتوں پر ان کے ذریعہ انفاق مال کو قرار دیا گیا، اب ایسی بیویاں جو متمول گھرانوں کی ہوتی ہیں یا ملازمت پیشہ ہوتی ہیں، ان کے شوہر ان کی کمائی پر گذارا کرتے ہیں، عورتوں کا نفقہ بوجہ نکاح مرد پر ہے، لیکن یہاں معاملہ الٹا ہوتا ہے، مرد عورت کے نفقہ پر پلنے لگتا ہے، ایسے میں اس کی حیثیت زر خرید غلام کی ہوجاتی ہے، اگر اس نے شادی میں تلک جہیز لیا ہوتا ہے، اس میں مزید پختگی آجاتی ہے، ایسے شوہر کی مصیبت صرف بیوی تک محدود نہیں رہتی، بیوی کے سارے خاندان والے موقع بموقع لعن طعن کرتے رہتے ہیں، اور عورت اپنے میکہ والے کے کہنے پر شوہر کے لیے نئی نئی مصیبیں کھڑی کرتی رہتی ہے ۔
مردوں پر گھریلوتشدد کرنے والی عورتوں کی ایک قسم وہ ہوتی ہے، جسے لو’’ میریج‘‘ کے نام پر بیوی بنایا جاتا ہے، محبت، پیار، عشق کبھی اچھی چیز رہی ہوگی، ان دنوں لڑکیوں اور عورتوں کے حوالہ سے یہ ہوسناکی کا دوسرا نام ہے، در اصل یہ جسم کی بھوک ہے، شادی کے بعد جسم کی یہ بھوک مٹ جاتی ہے تو مرد کے ہر کام میں خامی نظر آنے لگتی ہے، پھر حالت یہ ہوجاتی ہے کہ پہلے سال شوہر بولتا رہتا ہے، بیوی سنتی رہتی ہے، دوسرے سال بیوی بولتی ہے، شوہر سنتا ہے اور تیسرے سال دونوں بولتے ہیں اور پورا محلہ سنتا ہے،ا س قسم کی عورتیں اپنے بچوں کو بھی اپنے ساتھ کر لیتی ہیں اور شوہر اس قدر مظلوم ہوجاتا ہے اس کے لیے گھر میں رہنا محال ہوجاتا ہے، میں ایک ایسے خاندان سے واقف ہوں، جس کے شوہر نے ایک مکان میں رہتے ہوئے ڈھائی برسوں سے اپنی منکوحہ کا چہرہ نہیں دیکھا، سارے بچے بھی ماں کے ساتھ ہیں، ہاں میں ہاں ملاتے رہتے ہیں اور شوہر گھر کے بر آمدے کے ایک حصے میں کس مپرسی کی زندگی گذاررہا ہے۔
خاندان کے ٹوٹنے، بکھرنے کے جو اسباب وعلل ہیں، ان میں لڑکیوں کی اسلامی تعلیم وتربیت سے دوری بھی ہے، وہ اپنے شوہر کو وہ مقام دینے کو تیار نہیں ہیں جو شوہر کو اسے دینی چاہیے، لڑکیوں کے مدارس میں بھی جو کچھ ا نہیں پڑھایا جا رہا ہے اس سے وہ ان بیلنس ہو رہی ہیں، ان میں اپنے حقوق کے تئیں حساسیت زیادہ آجاتی ہے اور فرائض کا خیال باقی نہیں رہتا، اس لیے عالمہ، فاضلہ لڑکیوں میں بھی طلاق کا تناسب کم نہیں ہے ۔ خاندانی نظام میں مرد کی قوامیت تسلیم کرنے کے باوجود ان دونوں کو ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے، ’’ھن لباس لکم وانتم لباس لھن‘‘ ان دونوں کے درمیان الفت ومحبت رہے گی تو خانگی زندگی پُر سکون گذرے گی، ورنہ گھر جہنم کا نمونہ ہوجائے گا۔ اللہ رب العزت نے گھر کو ٹینشن فری زون بنایا ہے، جس کی طرف ’’وجعلنا بینکم مودۃ ورحمۃ ‘‘ کہہ کر اشارہ کیا ہے، ہمیں اس اشارہ کی معنویت کو سمجھنا چاہیے۔
گلی محلہ میں بچوں کی آپسی لڑائی ہوتی ہے پھر تھوڑی دیر بعد ان کے والدین ایک دوسرے پر چیختے چلاتے نظر آتے ہیں، جبکہ یہ سراسر حماقت اور جہالت ہے، انہیں سمجھنا چاہیے کہ والدین کے علاوہ خدا کی عطاء کردہ فطرت بھی ان کی تربیت کرتی ہے اور بچوں کی آپسی رنجش، لڑائی جھگڑا، اٹھا پٹک بھی اس تربیت کا حصہ ہے۔
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ بچوں کی اصل تربیت ماں باپ کرتے ہیں، حدیث پاک سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے، فابواه يهودانه ويمجسانه، "بچے کے والدین انہیں یہودی اور مجوسی بنادیتے ہیں” لیکن یہ بھی طے شدہ ہے کہ فطرت بھی اس کی تربیت کرتی ہے، خالق نے ہر جاندار کی فطرت کچھ ایسی بنائی ہے جو اس کی جسمانی نشو و نما کے ساتھ فکری ساخت میں بھی معاون ہوتی ہے، انسان کا ماحول سے متاثر ہونا بہت واضح ہے :
یہ سچ ہے کہ صحبت کا اثر پڑتا ہے ضرور
آدمی کیا چیز ہے درو دیوار بدل جاتے ہیں
بالخصوص انسانی طبیعت صحبت کا تقاضا کرتی ہے، پیدائش کے بعد بہت کچھ اسے سیکھنا پڑتا ہے، "وعلم الانسان ما لم يعلم” "انسان جو باتیں نہیں جانتا تھا وہ اللہ نے اسے سکھایا” ، نیز انسان زندگی کے بہت سارے طور طریقے دوسروں سے سیکھتا ہے، اردگرد جو کچھ دیکھتا ہے اس سے سبق حاصل کرتا ہے، حتی کہ چرند و پرند کی حرکات سے بھی زندگی کے سبق سیکھتا ہے،چناں چہ ہابیل اور قابیل کے واقعہ میں دیکھیے قابیل نے ہابیل کو قتل کرنے کے بعد کوے سے تدفین کا طریقہ سیکھا۔
فَبَـعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا يَّبۡحَثُ فِىۡ الۡاَرۡضِ لِيُرِيَهٗ كَيۡفَ يُوَارِىۡ سَوۡءَةَ اَخِيۡهِؕ
تو اللہ نے ایک کوّا بھیجا جو زمین کریدنے لگا تاکہ (اللہ) اسے دکھادے کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیسے چھپائے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ پیدائش کے بعد انسان زندگی کے طور طریقے دوسروں سے ہی سیکھتا ہے۔
بچوں کی تربیت کا بڑا حصہ وہ ہوتا ہے جو وہ دوسرے بچوں سے سیکھتے ہیں، تنہائی پسند بچوں کی بہ نسبت دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلنے والے زندگی کے ہنر سے زیادہ واقف ہوتے ہیں، آپ نے دیکھا ہوگا جانور بھی اپنے بچوں کو لڑنے بھڑنے اور بچنے کیے ہنر سکھاتے ہیں، کبھی گردن دبوچ کر کبھی پنجہ مار کر، اور کبھی پیترے بدلنے کی تدبیریں سکھاکر، اسی طرح بچے جب آپس میں لڑتے ہیں تو وہ دشمنی کی وجہ سے نہیں، بلکہ فطرت اس کی تربیت کر رہی ہوتی ہے، کھبی کھلونے پر قبضہ کیلئے، کسی کی "ظاہری زیادتی” کے خلاف اور کبھی کسی اور بات پر، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ان بن ہوتی ہے، حتی کہ بھائی بہن میں کھلونوں کی تقسیم میں نا انصافی نظر آتی ہے تو بھی بحث کرتے ہیں، روتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں، یہ ان کی شرارت یا خباثت نہیں بلکہ نا انصافی سے لڑنے کا مزاج تشکیل پارہا ہوتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کےلیے وہ ایک دوسرے سے بھڑ جاتے ہیں، اس لڑائی جھگڑے میں وہ دوسروں کے ساتھ تعامل کے طریقے سیکھتے ہیں، نیز اس اچھل کود اور دھکا مکی میں اس کی ورزش بھی ہوتی رہتی ہے، اعصاب کی مضبوطی کا مدار کلی طور جسمانی حرکت پر ہے، بچوں کی بھاگ دوڑ سے اس کا جسمانی و اعصابی نظام مضبوط ہوتا ہے، آپ نے دیکھا ہوگا عموما بچے دوڑ بھاگ کر ہی اپنا کام کرتے ہیں،کچھ بچے چلنا جانتے ہی نہیں دوڑنا ان کی فطرت ہوتی ہے، دراصل انہیں چاق و چوبند رکھنے کا یہ خدائی نظام ہے، جو بچے ہنستے بولتے کم ہیں، اچھل کود نہیں کرتے، ہر وقت گود میں پڑا رہنا چاہتے ہیں ایسے بچوں کو طبی مراجعت کی صلاح دی جاتی ہے، نیز انہیں بچوں کو کھیل کود میں دلچسپی پیدا کرنے کے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ عام طور پر ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ بچہ شریر ہے، بے ادب ہے، لیکن یہ شرارت دراصل ان کی فطرت ہوتی ہے، جو مستقبل کےلیے انہیں تیار کرتی ہے۔
لہذا اگر بچہ چین سے نہیں بیٹھتا نہ سکون سے کام کرنے دیتا ہے تو سمجھ لیجئے بچہ تیز ہے، اس کی تربیت پر توجہ دیجئے، لڑائی جھگڑا کرتا ہے تو آپ والدین آپس میں نہ الجھیں، بلکہ ماہرین کی رائے کہ کہ جب تک بچے تشد پر نہ اتریں انہیں لڑنے دیں، کیوں کہ وہ دفاع کے طریقے سیکھ رہے ہوتے ہیں، کچھ بچے الٹے سیدھے سوال کرتے ہیں، بسا اوقات آپ بوجھل محسوس کرتے ہیں، اور انہیں نئر انداز کردیتے ہیں، تو ایسا نہ کریں، آپ ان سوالات پر نہ تو مذاق اڑائیں اور نہ انہیں خاموش کرنے کی کوشش کریں، بلکہ ان کے قوت فہم کا خیال رکھتے ہوئے مناسب جواب دینے کی کوشش کریں، بچہ سوال کرتا ہے تو یہ ان کے ذہین ہونے کی علامت ہے۔
مشہور مصری ادیب طہ حسین کہتے ہیں، کہ دس سال کی عمر میں کوئی سوال کیا، جواب میں ڈانٹ پڑی تب سے جب بھی کوئی سوال ذہن پر ابھرتا تھا تو پوچھنے سے پہلے ڈانٹ کا خوف ذہن پر سوار ہوجاتا تھا، اور سوال نہ پوچھنے میں ہی عافیت محسوس ہوتی تھی۔
بچے جب بات کریں، الٹی سیدھی بے جوڑ کہانیاں سنائیں، تو توجہ سے سنیں، تاکہ ان کے اندر یہ احساس یہ پیدا ہو کہ ان کی باتیں قابل توجہ ہیں۔
جذباتی فیصلہ ازدواجی زندگی کو تباہ و برباد کردیتا ہے – ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
میں عموماً رات ساڑھے دس بجے کے بعد فون نہیں اٹھاتا – ایک رات سونے کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک موبائل کی گھنٹی بجی – فون نمبر سے تھا ، اس کا مطلب کہ وہ کسی غیر شناسا کا تھا – میں نے اٹھا لیا تو ایک خاتون کی آواز تھی :
” مولانا صاحب ! میں بہت پریشان ہوں – مجھے مناسب مشورہ دیجیے – ”
میں نے کہا :” اپنی پریشانی بتائیے – “
خاتون نے روتے ہوئے کہا :” میری شادی کو ڈیڑھ برس ہونے کو ہیں – سسرال مجھے اچھی نہیں ملی – میری ساس ہر وقت مجھے طعنہ دیتی رہتی ہیں – مجھے کام چور اور نکمّی کہتی ہیں – میرے سر میں درد رہتا ہے ، لیکن وہ کہتی ہیں کہ میں بہانہ بناتی ہوں – میرے شوہر چپ رہتے ہیں ، وہ کبھی میری طرف سے نہیں بولتے – چھ مہینے ہوئے ، میں ناراض ہوکر اپنے میکے آگئی ہوں – انھوں نے میری خبر نہیں لی – “
خاتون تھی کہ بولے چلی جارہی تھی ، ایسا معلوم ہورہا تھا کہ ٹیپ ریکارڈر کھل گیا ہے – درمیان میں اس کی سسکیاں بھی سنائی دے رہی تھیں –
میں نے اسے مزید بولنے کا موقع نہیں دیا اور الٹا سوال کردیا : ” یہ بتائیے ، اس عرصے میں آپ نے کتنی بار اپنے شوہر کی خبر لی؟ کتنی بار اپنی ساس کا حال معلوم کیا؟ “
خاتون نے فوراً کہا :” میں کیوں خبر لوں؟ وہ لوگ مجھے بالکل نہیں چاہتے – مجھے تو معلوم ہوا ہے کہ میری ساس اپنے بیٹے کے لیے دوسرا رشتہ دیکھ رہی ہیں – “
میں نے اس کی بات پر توجہ نہ دیتے ہوئے کہا :” آپ کی ساس اچھا کررہی ہیں – وہ دیکھ رہی ہیں کہ ان کی بہو اپنے شوہر کا بالکل خیال نہیں کررہی ہے؟ شادی کس لیے کی جاتی ہے؟ بیٹا شادی کے بعد بھی بیوی سے محروم ہے تو اگر ماں اس کے لیے دوسرا رشتہ دیکھ رہی ہے تو اس میں غلط کیا ہے؟ “
خاتون کو شاید میری یہ بات پسند نہیں آئی ، لیکن اس نے اس سے بے پروا ہوکر کہا :” میں اس رشتے کو بالکل پسند نہیں کرتی تھی ، لیکن میرے ماں باپ نے زبردستی میری شادی یہاں کردی – میں تو دوسرے سے محبت کرتی تھی – اس نے مجھ سے نکاح کا وعدہ بھی کرلیا تھا – “
میں نے کہا :” آپ نے غلط کیا کہ شادی کے بعد بھی سابقہ محبت کو اپنے دل میں بسائے رہیں – شادی کے بعد اپنی محبت کو صرف شوہر اور سسرال والوں سے وابستہ کرلینی چاہیے – شوہر کے پاس بھی وہی کچھ مل سکتا ہے جسے محبوب سے ملنے کی امید ہوتی ہے – کیا آپ کی ماں نے آپ کو کبھی نہیں ڈانٹا تھا ؟ کیا انھوں نے کبھی نہیں جھڑکا تھا ؟ اگر ماں کی ڈانٹ ڈپٹ آپ کو بری نہیں لگی تھی تو ساس کی کیوں بری لگتی ہے؟ “
” مولانا صاحب ! میں اب کیا کروں؟ “ خاتون کی آواز بھرّائی ہوئی تھی –
میں نے جواب دیا :” آپ کسی کے ساتھ اپنی سسرال پہنچ جائیے ، وہاں ساس کے گلے لگ کر رو لیجیے اور معافی مانگ لیجیے – سارے گلے شکوے دوٗر ہوجائیں گے – “
“ مولانا صاحب ! یہ کرنا تو بہت مشکل معلوم ہورہا ہے – میں سوچتی ہوں ، کر پاؤں گی یا نہیں _“
” مولانا صاحب ! میری خلع ہوگئی ہے – “
میرے منھ سے فوراً نکلا :” انا للہ وانا الیہ راجعون “
آخر کیوں؟
خاتون نے بتایا :” میں نے اپنے شوہر سے گھر واپسی کی یہ شرط رکھی تھی کہ مجھے الگ گھر لے کر دیجیے – میں ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی – انھوں نے یہ شرط ماننے سے انکار کردیا – کہا : میری ماں اکیلی ہے – میں اسے اپنے سے اکیلے نہیں رکھ سکتا – اس بنا پر میں نے خلع لے لی – اس دوران میرے یہاں ولادت ہوگئی – وہ بچہ میرے ہی ساتھ ہے – میرے بھائی بھابھی میرا بہت خیال رکھتے ہیں – “
میں نے کہا : ” آپ نے بہت غلط شرط رکھی اور بہت نامناسب فیصلہ کیا – بیس پچیس برس کے بعد آپ اپنے اس بیٹے کی شادی کریں گی اور بہو گھر میں آتے ہی کہے گی کہ میں ساس کے ساتھ نہیں رہ سکتی تو آپ کے اوپر کیا گزرے گی؟! بھائی اور بھابھی چاہے جتنا خیال رکھیں ، لیکن وہ شوہر کا بدل نہیں بن سکتے – “
” مولانا صاحب! میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا ہے؟ میں کیا کروں؟ میں بہت پریشان ہوں – ڈپریشن کا شکار ہوگئی ہوں – “
” اللہ تعالیٰ آپ کے مسائل حل کرے – “ میں نے یہ کہہ کر گفتگو ختم کردی –
چند ماہ گزر گئے – ایک دن پھر فون آیا -” مولانا صاحب ! میں بہت زیادہ پریشان ہوں – میرے محبوب نے مجھے دھوکا دیا – “
میں نے کہا :” کہیے ، کیا ہوا؟ “
خاتون نے بتایا : ” جس شخص سے مجھے محبت تھی ، میں نے اس سے اسی وقت رابطہ کیا تھا جب میرا شوہر اور سسرال سے تنازعہ چل رہا تھا – اسی کے اکسانے پر ہی میں نے خلع کا مطالبہ کیا تھا – خلع ہوجانے کے بعد بھی اسے بتایا – اس نے کہا :” میں اپنے ماں باپ سے بات کروں گا – “ کچھ کچھ وقفے سے اس سے رابطہ کرتی رہی ، لیکن وہ برابر ٹالتا رہا – اس دوران میں نے اپنا خرچ چلانے کے لیے کچھ کام کرنا شروع کردیا – اب اس سے رابطہ کیا تو وہ کہتا ہے کہ میں کام کرنے والی لڑکی سے شادی نہیں کروں گا –
” مولانا صاحب ! بتائیے ، جس کے لیے میں نے اپنی ازدواجی زندگی برباد کی ، اسی نے مجھے دھوکا دے دیا – “
میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا – میں کیا کہوں؟ کیا مشورہ دوں؟ میں نے ہمّت جُٹاکر کہا :” ماضی پر پچھتانے سے اب کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے – اب آپ اپنی نئی زندگی کی شروعات کیجیے – جیسا بھی رشتہ مل جائے ، انکار نہ کیجیے – کوئی کنوارا نوجوان مل جائے تو بہتر ہے ، نہ ملے اور شادی شدہ ملے ، ایسا شخص ملے جس کی بیوی کا انتقال ہوچکا ہو ، جو بھی ملے ، اس سے نکاح پر تیار ہوجائیے – بے نکاحی زندگی گزارنا بہتر نہیں ہے اور بھائی بھابھی کے سہارے زندگی گزارنا بھی ٹھیک نہیں – اللہ تعالیٰ آپ کے حالات سازگار کرے ، آمین – “
شادی کے بارے میں ہمیں غلط بتایا گیا۔ شادی صرف جوتوں کپڑوں میک اپ کا نام نہیں ہوتی۔ شادی ہیپلی ایور آفٹر نہیں ہوتی۔ کوئی رومانس نہیں ہوتا۔ گجرے، خوشبو، ہنی مون، لانگ ڈرائیو اور سیریں نہیں ہوتیں وغیرہ وغیرہ ۔
یہ درست ہے کہ ڈائجسٹوں اور فلموں کی کہانیوں نے محبت اور شادی کے ساتھ ایک غیر حقیقی تصور وابستہ کردیا، جس کی وجہ سے وہ لڑکیاں جو بس یہی تصورات باندھ لیتی ہیں جب حقیقی زندگی میں وہ سب نہیں دیکھتیں تو تکلیف ہی نہیں ہوتی بلکہ "حقیقی زندگی” کو کو جھیلنا مشکل بھی لگتا ہے اور ظلم بھی ، مگر پھر شادی ہے کیا؟
عورت کا کوئی گھر نہیں ہوتا، مرد ظالم اور بے حس ہوتا ہے، بچے پالنا مشکل ہے، بس سمجھ لو، جو عیش مزے کرنے تھے، جو پڑھائی کرنا تھی، دوستوں کے ساتھ گھومنا تھا وہ سب ختم ۔
زندگی ہی ختم۔ اپنے لیے جینے کا تصور بھول جاؤ۔ اپنی مرضی بھول جاؤ، وغیرہ وغیرہ
کیا یہ شادی ہے؟ یہ تصور بلکہ اس سے بھی بھیانک تصویریں کھینچی جاتی ہیں کہ آج میں پاکستان ہی نہیں کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی لڑکیوں سے ملتی ہوں تو وہ شادی سے بے زار ہی نہیں خوفزدہ نظر آتی ہیں۔ تو کیا شادی یہ ہے؟
میں سمجھتی ہوں یہ دونوں ہی جزوی سچائیاں ہیں۔
اگر آپ دوسری صورت کی بے شمار مثالیں پیش کرسکتے ہیں تو پہلی صورت کی بھی بہت ساری مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں۔
شادی اسی طرح ہوتی ہے جیسے ہماری باقی زندگی۔ جیسے جاب، جیسے یونیورسٹی۔ کچھ سخت، کچھ مشکل، کچھ مزیدار۔ کبھی امتحان، کبھی کامیابی اور کبھی ناکامی مگر بہت سے پر لطف لمحات بھی آتے ہیں ۔ اس زندگی کی مشکلات کے باوجود اگر کوئی آپ سے کہے کہ یونیورسٹی میں نہ پڑھیں یا جاب چھوڑ دیں تو آپ کیا کریں گی؟ چھوڑ دیں گی؟ نہیں۔ آپ کہیں گی بہت سی اچھی باتیں بھی ہیں۔
میری عزیز لڑکیو! شادی کے ساتھ فینٹسی تصورات وابستہ نہ کرو ۔ مگر خدا کے لیے اپنی خوشیوں کو ڈر ڈر کر اور برے برے واقعات سن سن کر برباد بھی نہ کرو ۔
شریف لڑکے بھی اسی طرح ڈرتے ہیں شادی اور تعلق سے جیسے لڑکیاں۔ شریف لڑکوں کا تو زیادہ مسئلہ ہے۔ ان کو کوئی سمجھانے اور بتانے والا نہیں۔ ماں باپ بھی لڑکیوں کو سمجھا لیتے ہیں، لڑکوں سے تو بس توقع اور ڈراوے ہوتے ہیں کہ بیوی کے غلام نہ بن جانا۔
شریف لڑکوں کے دلوں میں بھی خواب ہوتے ہیں۔ مگر روایات کی وجہ سے وہ بھی اپنے جذبات کے اظہار میں جھجھکتے ہیں ۔
مگر ان کا بھی دل چاہتا ہے کہ خوشی اور سکون والی زندگی ہو۔
میرے عزیز نوجوانو! لڑکو اور لڑکیو! خواب دیکھنا بھی تمہارا حق ہے۔ اس لیے خواب ضرور دیکھو۔ لیکن اگر تم مضبوط ہو تو مضبوطی یہ ہوگی کہ ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اس زندگی کو خوبصورت بنانا تمہارا کام ہوگا۔
میں نے شادی سے گھبرائی کچھ لڑکیوں کی کاؤنسلنگ کی۔ اور الحمدللہ وہ خوش ہیں۔ مانتی ہیں کہ محبت ہوتی ہے، البتہ اس کے اظہار کے طریقوں میں فرق ہوتا ہے۔ ان چیزوں کو ٹھیک کرنے کہ ضرورت بھی ہے۔ لیکن یہ تعلق خوبصورت ہے۔ اللہ کریم کے بنائے رشتوں میں سب سے پہلا تعلق یہی تھا۔ اس میں مسئلے آئیں تو ٹھیک کرلیتے ہیں ۔ اس پر بات کرلیتے ہیں۔ اپنی اصلاح کرلیتے ہیں مگر شادی کی خوبصورت تعلق کو ختم نہیں کرتے ۔
مجھے علم ہے کہ ہمیں سماج کی بدصورتی دکھاتی تلخ تحریریں زیادہ اپیل کرتی ہیں کیونکہ وہ ہمارے خوف اور غصے کو باہر نکال کر ہمیں validation and relief کا ایک راستہ عطا کرتی ہیں ۔ مگر صرف غصہ اور نفرت تو حل نہیں۔ سرجن کا کام صرف کاٹ کر کھول کر چھوڑنا نہیں ۔ سینا بھی ہے۔ میں ذرا سینے کی بات کرنا چاہتی ہوں۔
میرے تجربے کے مطابق، شادی کے ناکام هونے کا سب سے بڑا سبب لڑکی کے ماں باپ کا غلط رول ہے۔ میں نے پایا ہے کہ ماں باپ شادی کے وقت تو خوب دهوم مچاتے ہیں۔ وه اپنی استطاعت سے زیاده پیسہ خرچ کرتے ہیں۔ حتی کہ فضول خرچی کا وه کام کرتے ہیں جس کو قرآن میں شیطانی کام بتایا گیا ہے (الاسراء 27)- لیکن لڑکی کے ماں باپ کے لئے اس سے زیاده ضروری ایک اور کام ہے، اس کو وه بلکل انجام نہیں دیتے- اور وه ہے لڑکی کو اس اعتبار سے تیار کرنا کہ وه شادی کے بعد خوشگوار زندگی گزار سکے- تقریبا تمام ماں باپ کا یہ حال ہے کہ وه اپنی لڑکیوں کے ساتهہ لاڈ پیار تو خوب کرتے ہیں، لیکن وه حقیقی محبت کے معاملے میں ناکام رہتے ہیں۔
ماں باپ کو یہ جاننا چاہیے کہ وه اپنی لڑکی کو ہمیشہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے- ایک وقت آئے گا جب کہ وه اپنے خاندان سے باہر کے ایک مرد سے اس کا نکاح کریں گے، اور اس کے ساتهہ رہنے کے لئے لڑکی کو بهیج دیں گے- یہ ایک کهلی هوئی بات ہے کہ ماں باپ کے ساتھ جس ماحول میں لڑکی رہتی ہے، وه اس سے بلکل مختلف هوتا ہے جو بعد کو شوہر کے ساتھ رہنے کی صورت میں اسے پیش آتا ہے- یہ بهی ایک واضح بات ہے کہ لڑکی کا اپنے ماں باپ کے ساتھ رہنا عارضی هوتا ہے اور شوہر کے ساتھ مستقل- ایسی حالت میں ماں باپ کو چاہیے کہ اپنی لڑکی کو وه آداب سکهائیں جو اس کے لیے بعد کی زندگی میں کام آنے والے ہیں- وه اس کو تربیت دے کر شوہر کی رفیق حیات بنائیں، نہ کہ محض والدین کی نور نظر۔
میرا تجربہ ہے کہ ننانوے فی صد سے زیاده ماں باپ اس معاملے میں اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے سے قاصر رہتے ہیں- ان کی اس کوتاہی کی سزا ان کی لڑکی کو ساری عمر اپنی بعد کی زندگی میں بھگتنی پڑتی ہے- مثلا عورت اپنی غیر حقیقی تربیت کی بنا پر ہمیشہ اپنے میکے کو اپنا گهر سمجھتی رہتی ہے، حالانکہ صحیح یہ ہے کہ وه شادی کے بعد اپنی سسرال کو اپنا گهر سمجھے۔ اسی طرح والدین شادی کے بعد بھی اپنی لڑکی پر اپنا حق سمجھتے ہیں اور غیر ضروری مداخلت کرتے رہتے ہیں۔ والدین کا یہ رویہ محبت کے نام پر دشمنی ہے- وه صرف نادان دوستی ہے اور نادان دوستی ہمیشہ الٹا نتیجہ پیدا کرتی ہے۔
آپ نے کسی مسجد یا درگاہ کے سامنے یا کسی پبلک مقام پر گداگروں (بھکاریوں) کو ہاتھ پھیلائے اور بھیک مانگتے ہوئے ضرور دیکھا ہوگا _ ان کے انداز الگ الگ ہوتے ہیں _ کچھ اپنی غربت کی فریاد کرتے ہیں ، کچھ بیماری کا تذکرہ کرکے مدد طلب کرتے ہیں ، کچھ آپریشن کے خطیر مصارف کی بھرپائی چاہتے ہیں ، کچھ بیٹی کے سیانی ہونے کا ذکر کرکے اس کی شادی کے لیے پیسہ مانگتے ہیں ، کچھ قدرتی آفات یا فرقہ وارانہ فسادات میں لُٹ پِٹ جانے کا رونا روتے ہیں ، کچھ بس خاموش کھڑے رہتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ گزرنے والے ان کے حال پر ترس کھاکر انہیں کچھ نہ کچھ ضرور دیتے جائیں گے۔ ان بھکاریوں کی ہیئت ان کی غربت اور ضرورت کی چغلی کھاتی ہے _ اگر وہ غریب اور ضرورت مند نہ ہوں تو بھی ایسی ہیئت بنانا ان کی مجبوری ہوتی ہے کہ اس کے بغیر انہیں بھیک نہیں مل سکتی۔
آج کل سماج میں گداگروں (بھکاریوں) کی ایک نئی قسم وجود میں آگئی ہے۔ یہ لوگ سُوٹِڈ بوٹِڈ ہوتے ہیں۔ ان کے پاس پیسے کی کمی نہیں ہوتی اور یہ فاقہ میں مبتلا نہیں ہوتے ، لیکن ذہنی دیوالیہ پن کا شکار ہوتے ہیں _ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے بہت کچھ دے رکھا ہوتا ہے ، لیکن یہ سماج کی ظالمانہ رسوم کے غلام بن کر اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے بھیک مانگتے ہیں۔ ان کے بھیک مانگنے کے انداز بھی نرالے ہیں۔ کچھ لوگ خاموش رہ کر آس لگائے رہتے ہیں _ کچھ اوپری دل سے کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے ، لیکن اندرونی طور پر بہت کچھ ملنے کی تمنا رکھتے ہیں ، کچھ پوری عیّاری سے اپنی طلب کا اظہار کرتے ہیں ، کچھ کو حیا و شرم کی ذرا بھی ہوا نہیں لگی ہوتی ہے ، وہ پہلے سے تیار لسٹ تھما دیتے ہیں کہ انھیں کون کون سے چیزیں کس کس کمپنی کی مطلوب ہیں۔ یہ جہیز کے طلب گار لوگ ہیں۔ ان میں اور اوّل الذکر بھکاریوں میں ذرا بھی فرق نہیں ہے _ وہ لوگ فقر و فاقہ کی وجہ سے ہاتھ پھیلانے پر مجبور ہوتے ہیں اور یہ لوگ بغیر فقر و فاقہ کے ہاتھ پھیلاتے ہیں۔ وہ لوگ چند سکّوں کے بھکاری ہیں اور یہ لوگ لاکھوں کے جہیز کے بھکاری ہیں۔
جہیز سماج کا ناسور ہے _ اگرچہ اس کا چلن غیر مسلم سماج میں زیادہ ہے ، لیکن تشویش ناک حد تک مسلم سماج بھی اس میں ملوّث ہوگیا ہے۔ دوسروں کی تو مجبوری ہے کہ وہ نکاح کے موقع پر اپنی لڑکیوں کو ‘ دان’ کرتے ہیں ، ان کے یہاں لڑکیوں کا وراثت میں حصہ نہیں ، اس لیے وہ ان کے نکاح ہی کے موقع پر کچھ دے دلاکر رخصت کرتے ہیں ، لیکن افسوس کہ اسے ان لوگوں نے بھی اختیار کرلیا ہے جن کے دین نے لڑکیوں کا رشتہ ان کے ماں باپ اور نسبی رشتے داروں سے تاحیات باقی رکھا ہے ، ان کا وراثت میں حصہ متعین کیا ہے اور نکاح کو آسان بنانے کا تاکیدی حکم دیا ہے۔
اسلام میں نکاح کو انتہائی آسان بنایا گیا ہے اور زنا کو انتہائی مشکل ، اس لیے کہ زنا کی انتہائی درد ناک اور عبرت ناک سزا متعین کی گئی ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں بہت آسانی سے نکاح ہوجانے کی بہت سی مثالیں پیش کیں _ اسلام میں جہیز کا کوئی تصور نہیں ہے _ مال دار صحابہ ہوں یا غریب ، کسی نے اپنی یا اپنے بیٹوں کی شادی میں جہیز لیا نہ اپنی بیٹیوں کی شادی میں جہیز دیا _ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کیا تو گھر گرہستی کا ضروری سامان خود انہی کے پیسوں سے منگوایا۔
مسلم سماج نے جہیز کی رسم کو قبول کرکے نکاح کو دشوار بنادیا ہے _ جیسے عہدِ جاہلیت میں لڑکی کی پیدائش کو عار سمجھا جاتا تھا اسی طرح آج کل بھی اسے بوجھ سمجھا جانے لگا ہے۔ لڑکی پیدا ہوتے ہی باپ کو اس کے لیے جہیز اکٹھا کرنے کی فکر ستانے لگتی ہے اور وہ اپنا اور اپنی فیملی کا پیٹ کاٹ کاٹ کر پیسہ پیسہ جٹانے میں لگ جاتا ہے۔
جہیز کے لین دین کے خلاف ماحول بنانے اور بیداری لانے کی ضرورت ہے _ اس کے لیے مختلف تدابیر اختیار کی جاسکتی ہیں :
1_ علماء اور دینی شخصیات عوامی اجتماعات میں آسان نکاح کی ترغیب دیں اور جہیز کے سراسر غیر اسلامی ہونے کا تذکرہ کریں۔
2_ وہ مُسرفانہ رسوم اور جہیز کے لین دین کے ساتھ ہونے والی شادیوں کا بائیکاٹ کریں _
3_ وہ سادہ اور آسان نکاح کے عملی نمونے پیش کریں _ اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کے نکاح کے موقع پر جہیز کے لین دین سے اجتناب کریں۔
4_ مسلمانوں کو تقسیمِ وراثت پر آمادہ کیا جائے اور لڑکیوں کو ان کا حصہ دلوایا جائے _
5_ اجتماعی اداروں اور این جی اوز (NGO’S) کے ذریعے جہیز کے ناپسندیدہ اور نامطلوب ہونے کا پرچار کیا جائے۔
6_ سادہ اور آسان نکاح کے جو نمونے سامنے آئیں ان کی خوب تشہیر کی جائے اور اس کا اقدام کرنے والوں کی تحسین کی جائے _
7_ نوجوانوں کی ایسی دینی اور اخلاقی تربیت کی جائے کہ بغیر جہیز کے شادی کرنے پر بہ خوشی آمادہ ہوں۔
8_ ایسا ماحول فروغ دیا جائے کہ بغیر جہیز کے آنے والی لڑکی کو سسرال میں عزّت و احترام کا مقام ملے ، شوہر اور اہلِ سسرال کے ذریعے اس کی تمام ضروریات پوری کی جائیں ، اس کی آسائش کا خیال رکھا جائے اور جہیز نہ ملنے پر اسے طعنے نہ دیے جائیں ۔
جہیز کے لین دین کے خلاف مہم چلانا موجودہ وقت کا اہم تقاضا ہے _ قابلِ مبارک ہیں وہ لوگ جو اس مہم کا حصہ بنیں اور قابلِ مبارک ہیں وہ نوجوان جو اس مہم کو تقویت بخشیں ۔
حضرت عبداللہ بن جعفر نے نکاح کے وقت اپنی لڑکی کو نصیحت کی- انھوں نے کہا کہ اے میری بیٹی، تم غیرت اور نخوت سے بچو کیونکہ وه طلاق کا دروازه کهولنے والی چیز ہے اور تم غصہ اور ناراضگی سے بچو، کیونکہ اس سے کینہ پیدا ہوتا ہے۔
یہ بہترین نصیحت ہے جو ایک باپ اپنی بیٹی کو شادی کے وقت کر سکتا ہے۔ شادی کے بعد لڑکی ایک غیر شخص کے گھر جاتی ہے، اس سے پہلے وه خونی رشتہ داروں کے درمیان ره رہی تھی۔ اب وه ایسے لوگوں کے درمیان جاتی ہے جن سے اس کا خون کا رشتہ نہیں، خونی رشتے دار (باپ، ماں، بھائی، بہن ) لڑکی کی ہر بات کو برداشت کرتے ہیں۔ وه اپنے میکے میں نخوت دکھا کر بھی بے قدر نہیں ہوتی، وه غصہ دکھائے تب بھی لوگ اس سے بیزار نہیں ہوتے، مگر سسرال کا معاملہ اس سے مختلف ہوتا ہے۔
سسرال میں لوگوں کے دلوں میں اس کےلیے وه پیدائشی نرمی نہیں ہوتی جو میکے کے لوگوں میں ہوتی ہے- نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ سسرال میں اس کا ہر عمل ایک ردعمل پیدا کرتا ہے، میکے میں لوگ اس کی نخوت کو نظر انداز کر دیتے تھے، مگر سسرال میں اس کی نخوت کو لوگ اپنی یادوں میں رکھ لیتے ہیں،میکے میں لوگ اس کے غصہ کو بھلا دیتے تھے، مگر سسرال میں کوئی شخص اس کے غصے کو بھلانے کے لئے تیار نہیں هوتا۔
ایسی حالت میں سسرال میں نباه کی واحد شرط یہ ہے کہ لڑکی اپنے مزاج کو نئے ماحول کے مطابق بنا کر رہے۔ وه ایسے عمل سے بچے جو ناموافق ردعمل پیدا کرنے والا ہو۔ کوئی بات اپنی پسند کے خلاف ہو تو اس کو گواره کرے، کسی بات سے اس کے دل کو رنج پہنچے تو اس کو دل ہی دل میں ختم کر دے، کسی سے امید کے خلاف سلوک کا تجربہ ہو تو اس کی اچھی توجیہ کر کے اس کو دماغ سے نکال دے، ایک لڑکی کے لئے سسرال میں کامیاب زندگی بنانے کی یہی واحد تدبیر ہے، اس کے سوا سسرال کے مسئلے کا کوئی حل نہیں-
آج کے ماں باپ اپنی بیٹی کو یہ سبق دیتے ہیں کہ سسرال میں اکڑ کر رہنا ورنہ لوگ تم کو دبا لیں گے۔ اس کے برعکس پہلے زمانے کے والدین اپنی بیٹی کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ سسرال میں دب کر رہنا ورنہ لوگ تم سے اکڑیں گے، انھیں دو فقروں میں ماضی اور حال کے فرق کی پوری کہانی چھپی ہوئی ہے-
شمیم سلطانہ ایک نوجوان خاتون ہیں، سنگاپور کی شہری ہیں اور جامع ازہر کی فارغ۔ جو بات انہیں قابل ذکر بناتی ہے وہ ہے ان کا منصب، خاص کر کسی ہندوستانی سیاح کے لئے۔ یہ سنگاپور حکومت کے ذریعے تسلیم شدہ ادارہ "دارارقم” میں ‘رجسٹرار آف کنورژن’ ہیں۔ یعنی کوئی شخص اگر روبہ اسلام ہونا چاہے تو یہ اسے کلمۂ شہادت پڑھواتی ہیں۔ پھر ان کا ادارہ ان کے دستخط سے ایک سرٹیفکیٹ جاری کرتاہے جسے نیا مسلمان سنگاپور میں اور دیگر ممالک میں سند کے طور پر استعمال کرتا ہے اپنا نام بدلوانے اور دیگر قانونی کاروائی کے لئے۔
دارارقم کا انگریزی نام اس کے کام کی صحیح تشریح کرتا ہے اور ہندوستان کے تناظر میں دیکھا جائے تو ذرا چونکانے والا ہے: مسلم کنورٹس اسوسی ایشن آف سنگاپور۔ اس ادارے کی سالانہ رپورٹ کے مطابق یہاں ہر سال سات سو کے قریب لوگ اسلام قبول کرتے ہیں، یعنی اوسطاً دو سے تین لوگ ہر روز، اگر سنیچر اور اتوار کی ہفتہ وار چھٹی اور سال کی باقی چھٹیاں جوڑ لی جائیں تو۔ مسلمان ہونے والوں میں سنگاپور کے شہری ہوتے ہیں اور وہاں رہ رہے دیگر ممالک کے شہری بھی۔ دارارقم کے ایک ذمہ دار نے بتایا کہ ان کے یہاں تمام ہی مذاہب کے ماننے والے آتے ہیں گو اسلام قبول کرنے والوں میں بڑی تعداد عیسائیوں کی ہے، اس کے بعد بدھ مت اور ہندو مت کے ماننے والے ہوتے ہیں۔
جب میں شمیم سلطانہ کے دفتر میں داخل ہوا تو وہاں ایک برطانوی مرد اپنی منگیتر جو کہ سنگاپور کی مسلمان شہری تھی اور اس لڑکی کے چند رشتہ داروں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ ہم اس کمرے میں نہیں گئے جہاں قبول اسلام کا عمل جاری تھا کیونکہ دارارقم کا جو ذمے دار ہمیں لے کر گیا تھا اس نے کہا کہ ایک اجنبی کا وہاں جانا کسی کی پرائیویسی میں دخل دینے جیسا ہوگا۔
تھوڑی دیر میں جب یہ کارروائی ختم ہوگئی اور وہ انگریز نومسلم باہر آیا تو ہم لوگوں نے اسے مبارکباد دی اور پھر رجسٹرار کے دفتر میں داخل ہوئے۔ یہاں ایک نہایت ہی خوش اخلاق نوجوان خاتون سے ہمارا تعارف ہوا۔ شمیم سلطانہ جو کہ فراٹے دار انگریزی بول رہی تھیں، نے اپنے بارے میں بتایا کہ انہوں نے بنیادی تعلیم سنگاپور کے اسکول میں حاصل کی، پھر انڈونیشیا کے ایک مدرسے سے عربی کی تعلیم مکمل کی اور اس کے بعد مصر جا کر جامعہ ازہر سے فقہ میں گریجویشن کیا۔ اس وقت وہ دارارقم جہاں اسلام میں دلچسپی رکھنے والے غیر مسلموں اور نو مسلموں کے لئے دینی تعلیم کا نظم ہے وہ فقہ پڑھاتی ہیں۔ ‘رجسٹرار آف کنورژن’ کی ذمہ داری انہیں حال ہی میں ملی ہے جب سنگاپور کے سرکاری ادارہ "موعیس” یعنی اسلامک ریلیجیس کاؤنسل آف سنگاپور نے یہ فیصلہ کیا کہ عورتوں کو بھی یہ ذمے داری دی جائے۔ دارارقم اپنے نام سے اسلام کے ابتدائی دور کی یاد دلاتا ہے جب صحابی رسول ابو عبداللہ ارقمؓ نے اپنے گھر کو اشاعت اسلام کے لئے وقف کر دیا تھا۔ اگست 2005 سے دارارقم کو موعیس کے ذریعے "ون اسٹاپ سینٹر فار کنورٹس” کے طور پر مقرر کیا گیا ہے۔
شمیم سلطانہ کا کہنا تھا کہ کنورٹ ہونا کسی کی زندگی کا بہت بڑا فیصلہ ہوتا ہے۔ اکثر لوگ میرے سامنے بیٹھ کر بہت زیادہ جذباتی ہو رہے ہوتے ہیں۔ میں پہلے انہیں نارمل کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔ اس موقع پر گھر والوں یا قریبی دوستوں کی موجودگی بہت اہم ہوتی ہے اور ان کے لئے اموشنل سپورٹ کا کام کرتی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کسی شخص کو کلمۂ شہادت پڑھوانے سے پہلے وہ تنہائی میں اس سے بات کر کے یہ اطمینان کرتی ہیں کہ اسلام قبول کرنے کا اس کا فیصلہ کسی دباؤ یا لالچ میں نہیں ہو رہا۔ اکثر لوگ شادی کی غرض سے کنورٹ ہوتے ہیں۔ وہ ان سے کہتی ہیں کہ تمہاری شادی ٹوٹ بھی سکتی ہے، مگر اسلام سے جو رشتہ تم جوڑنے جا رہے ہو وہ ہمیشہ باقی رہنے والا ہے، اس لئے جلد بازی میں کوئی فیصلہ مت کرو۔ دارارقم میں کل بیس رجسٹرار آف کنورژن ہیں، جن میں بشمول شمیم سلطانہ چار عورتیں ہیں۔
’’خدا جانے میں نے کونسی ایسی خطا کی تھی کہ اس نے تم جیسی نالائق اولاد دے دی‘‘۔
’’میری ساری اولاد نالائق نکل گئی‘‘۔
’’مجھ سے دوبارہ اس طرح بات مت کرنا، ورنہ تمہاری زبان کھینچ لوں گا‘‘۔
’’جنت تمہاری ماں کے قدموں تلے ہے۔ جب تک میں تمہیں معاف نہ کر دوں، تم جہنم میں ہی رہوگے‘‘۔
یہ چند ایسے جملے ہیں جو اکثر ہمارے آس پاس بدسلوکی کے شکار اور نظرانداز کیے جانے والے بچے اپنے والدین یا بزرگوں سے سنتے رہتے ہیں۔ اکثر اوقات ایسی زیادتی کو لوگ اسلامی حقوق کی آڑ میں چھپا نے کی کوشش کرتے ہیں۔ زبانی بدسلوکی یا جسمانی زیادتی نا دانستہ طور پر سرزد ہو جاتی ہے اور ہمیں اس کے خطرناک اثرات کا علم تک نہیں ہوتا۔ یقینا یہ ایک قابل رحم رویہ ہے کہ کوئی شخص اپنے اعمال کے نتائج کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہ ہو۔ بعض لوگ توشخصیت پر اس کے نفسیاتی اور سائنسی اثرات کے بھی منکر ہوتے ہیں ۔
بچوں کے ساتھ بدسلوکی کو نظرانداز کرنا، خاص طور پراس وقت جب اسے مذہب کے نام پر انجام دیا جارہا ہوبہت خطرناک ہے کیونکہ بسااوقات یہ دور رس اثرات کے حامل ہوجاتے ہیں۔ اس منفی رویے کا اثر بدسلوکی کے شکار شخص کی جوانی یہاں تک کہ پڑھاپے تک باقی رہ سکتا ہے جو زندگی بھر انسان کو جلاتا، گھلاتا اور تباہ کرتا رہتا ہے۔والدین یا بڑوں کی بات تو چھوڑئیے کئی مرتبہ یہ رویہ اسلام اور خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے نعوذ باللہ بیزاری کا سبب بن سکتا ہے۔
اس کے باوجود یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے معاشرے میں والدین یا خاندان کے بزرگوں کی طرف سے بچوں کے ساتھ بدسلوکی، بد تمیزی اور تشدد کو جائزبلکہ ان کی تربیت کے لیے مناسب عمل تصور کیا جاتاہے، حالانکہ یہ ہمارے معاشرے کا ایک ایسا روگ ہے جو مستقل ہمارے گھر اور خاندان کو تباہ کر رہا ہے اور ہمیں اس کا احساس تک نہیں۔
والدین کے ساتھ ساتھ دیگر رشتہ داروں کی جانب سے بھی کئی مرتبہ اس قسم کا رویہ روا رکھا جاتا ہے اور خاندان کی عزت کے نام پر ہم خاموش رہتے ہیں یا پھر بچے کو ہی عتاب کا شکار بنا دیتے ہیں۔اپنائیت کے نام پر بچوں کو جو جی آیا کہہ دیا جاتا ہے اور ہم اس کا نوٹس تک نہیں لیتے۔ یقین جانیں اس طرح کے ظلم اور اذیت کے سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں، جو بچے کو اس کی بڑھتی عمر کے دوران منفی طور پر متاثر کر سکتے ہیں اور اس کے اثرات ان کے ذہنی یا جسمانی صحت پر بھی پڑ سکتے ہیں۔ہماری سو سائٹی میں تو خیر یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے لیکن مغرب میں بچوں کے ساتھ بدسلوکی کے طویل مدتی نتائج کی تحقیق کے لیے متعدد مطالعات کئے گئے ہیں،جن میں سے چند کا ذکر یہاں کیا جا سکتا ہے:
دماغی نشوونما میں خرابی، زبان میں بگاڑ اور تعلیمی معذوری کا باعث بننا، خراب جسمانی صحت جیسے دل کی بیماری، ہائی بلڈ پریشر اور ذیابیطس جیسی سنگین بیماریوں کا شکار ہونا، نفسیاتی مرض، کمزور اعصاب اور سماجی مشکلات کا پیدا ہونا وغیرہ۔
اسی طرح طرز عمل سے جنسی بے راہ روی (خاص طور پر جنسی زیادتی کے معاملے میں)، منشیات، شراب نوشی اور دوسروں کے ساتھ بدسلوکی جیسے مسائل جنم لینے لگتے ہیں۔ اپنے والدین یا خاندان کے دیگر افراد کی طرف سے بدسلوکی کے بعد ان بچوں کا اپنے بزرگوں کے ساتھ جو رشتہ ہوتا ہے وہ بھی کمزور یا ٹوٹ جاتا ہے، کئی مرتبہ ہمیشہ کے لیے یہ رشتہ خراب ہو جاتا ہے۔ بعض اوقات ان کا اعتماد واپس حاصل کرنا ایک ناممکن کام بن جاتا ہے۔
نئی تحقیقات کے بعد اب ہارورڈ یونیورسٹی کے سائنس داں بھی کہہ رہے کہ بچوں کو بات بات پر مارنے سے گریز کریں کیونکہ یہ رویہ ان میں ڈپریشن، بے چینی، رویے میں تبدیلی اور یہاں تک کہ کسی لت کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ بچوں کو مارنا ان کے دماغ پر عین اسی طرح اثرڈالتا ہے جس طرح شدید نوعیت کا تشدد یا زیادتی اثرانداز ہوتی ہے۔ہارورڈ یونیورسٹی میں سماجی علوم کی ماہر ڈاکٹر’ کیٹی مک لافلن‘ اور ’جان لوئب ‘نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ تھپڑ مارنا اور جسمانی تشدد سے بچوں کی دماغی نشوونما کو عین اسی طرح نقصان ہوتا ہے جس طرح شدید تشدد میں ہوتا ہے۔ اس سے بچوں کی دماغی صحت متاثر ہوسکتی ہے، علاوہ ازیں دماغ کے وہ حصے بھی متاثر ہوتے ہیں جو فیصلہ سازی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اگرچہ یہ مطالعہ مختصر ہے لیکن اس میں 147 ایسے بچوں کا انتخاب کیا گیا جو اسکول یا گھر میں مار کے شکار ہورہے تھے۔ ایسے بچوں کے ایک دماغی گوشے پری فرنٹل کارٹیکس (پی ایف سی) کی سرگرمی متاثر ہوتی ہے۔ بچوں پر تشدد سے ان کی نشوونما متاثر ہوتی ہے اور جوانی تک اس کے اثرات برقرار رہتے ہیں۔ ماہرین نے کہا ہے کہ بچوں کی پٹائی ڈپریشن، اداسی اور بے چینی کی وجہ بنتی ہے۔
اسلام میں والدین کو بہت اعلیٰ مقام حاصل ہے ۔ والدین کی عزت و تکریم کانہ صرف حکم دیا گیاہے بلکہ انھیں اف تک نہ کرنے کو کہا گیا ہے ۔ تاہم احترام کے نام پر کسی بھی قسم کی زیادتی کی اجازت بھی نہیں دی گئی ہے۔جہاں قرآن میں والدین کے حقوق کا تذکرہ کیا گیا، اسی طرح انصاف اور عدل کو بھی قائم کرنے کے لیے کہا گیا ہے، چاہے کسی کو اپنے والدین یا رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ بولنا پڑے،(پڑھیے سورۃ النسا ء آیت نمبر 135)۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اتقوا اللہ واعدلوا بین اولادکم (صحیح بخاری) -’’اللہ سے ڈرو،اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔‘‘
ایک اور روایت کے الفاظ یوں ہیں:
فلا تشہدنی اذا فانی لا اشھد علی جور (صحیح بخاری و صحیح مسلم) – ’’تب مجھے گواہ مت بناؤ،میں ظلم پر گواہ نہیں بن سکتا۔‘‘
یہ چند مثالیں ہیں کہ کس طرح خاندان کے بزرگوں کی طرف سے بدسلوکی بچوں کو متاثر کر سکتی ہے۔ ہر معاملے میں بدسلوکی نے ایسے رویے کے شکار فرد کی ذہنی صحت کو نقصان پہنچایا اور کبھی کبھی مذہب اور عام طور پر زندگی کے بارے میں ان کے نقطہ نظر کو بھی نقصان پہنچاہے۔
یہاں پر ہم کچھ اپنے سماج سے مثالیں پیش کرتے ہیں، جن میں دیکھیں گے کہ والدین یا سرپرستوں کی جانب سے بچوں کے ساتھ اس قسم کا رویہ اپنایا گیا تو ان کے ساتھ کیا ہوا، احتیاط کی خاطر ہم نے ان کی شناخت ظاہر کرنے سے گریز کیا ہے۔
میرے والد نشے کے عادی ہیں۔انھوں نے ماضی میں اپنے والدین کے رویے کی وجہ سے لوگوں کو دھوکہ دیا،چوری کی اور ہر وہ غلط کام کیا جو وہ کر سکتے تھے۔ پھر بھی اگر میں نے ان پر کبھی کوئی تبصرہ کیا تو لوگ مجھے صبر سے کام لینے کو کہتے ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کچھ بھی ہے وہ تمہارا باپ ہے۔وہ مجھے اور میرے بہن بھائیوں کو مجبور کرتے ہیں کہ ہم انھیں بڑی رقم دیں، خاص طور پر جب ہمیں اپنی یونیورسٹی سے وظیفہ ملتا ہے تو ان کی نگاہیں شعلے برسانے لگتی ہیں کہ وہ رقم انھیں کیوں نہیں دی گئی۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے میں نے اپنی والدہ کو اس رقم کے بارے میں بتایا جو میں نے انھیں دیا تھا تو گھر پر قیامت بر پا ہو گئی، غصے میں انھوں نے اماں کو طلاق دے دیا اور آج بھی میرے والد مجھ پر ان سے طلاق کا الزام لگاتے ہیں۔
جب مجھے ان کی لت کے بارے میں پتہ چلا تو میں نے گمنام سپورٹ گروپس کے بارے میں معلومات حاصل کیں اورانھیں لے کر ہر ہفتے ان کے ساتھ جانے لگا۔ یہ دورے مجھے کسی بھی منفی رویہ کا مظاہرہ کرنے کے بجائے میرے لئے راحت بخش تھے کہ مجھے انھیں تبدیل کرنا تھا۔
وہ کھانا خریدنے یا اپنا اپارٹمنٹ صاف کرنے کی میری پیش کش سے انکاراب بھی کرتے ہیں اور مجھ سے کہتے ہیں کہ وہ مجھ سے خوش نہیں ہیں اس لیے میں کبھی جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھوں گا۔
کئی مرتبہ مجھے نروس بریک ڈاؤن ہوا اور مجھے گھبراہٹ کے دورے پڑنے لگے۔ ایک مرتبہ تو مجھے یقین ہو گیا کہ میرے والد نے جو کہا تھا وہ سچ تھا۔ میں نے اس وقت بہت برا محسوس کیا،یہاں تک کہ خود کشی کے بارے میں سوچا تاکہ میں اپنے آس پاس کے لوگوں پر بوجھ نہ بنوں۔ اب بھی صرف ایک ہی بار ان کی آواز سنتا ہوں جب انھیں پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میرا بیٹا ہوا اور ہسپتال میں آ کروہ ہم سے نہیں ملے۔ انہوں نے مہینوں بعد مجھے فون کیا اور کہا کہ وہ اپنے پہلے پوتے سے ملنا چاہتے ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں انہیں کچھ پیسے ادھار دوں۔ جب میں نے انکارکیا اور اپنی مجبوری بتائی تو انہوں نے کہا کہ وہ ہمیں نہیں دینا چاہتے۔
کئی سال کے بعد، میں نے محسوس کیا کہ ایک مسلمان بیٹے کے طور پر اپنا فرض ادا کرنے کے لیے اپنے والد کی زندگی میں میری مستقل جسمانی موجودگی کی ضرورت نہیں ہے۔ میں اب جانتا ہوں کہ ان کے لیے میری دعا سب سے اہم ہے ۔یہ عمل جاری ہے اورمجھے امید ہے کہ اللہ انہیں ہدایت دے گا۔
ایک اور نوجوان کا کہنا تھاکہ ماں باپ سے اولاد کے تعلق کے بارے میں کچھ بولنے یا بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا پورا وجود والدین کے لیے سپاس گزاری کا اعلان ہے۔ ہم میں سے کتنے ہی لوگ ہیں جن کے دل میں تمام بچپن اپنے باپ کی طرف سے میل رہتا ہے۔ اس کی ایک ہزار ایک وجہیں ہو سکتی ہیں۔ اگر میں اپنی ماں کے ساتھ بدتمیزی کرتے ہوئے کسی کو مسلسل دیکھوں گا، اولادوں کے ساتھ گالم گلوچ کرتے دیکھوں گا تو میرا دل اس شخص کے لیے آئینہ کیسے ہو سکتا ہے؟ بھلے ہی رشتے میں وہ میرا باپ ہو اور اس کا میرے ساتھ رویہ برا ہو۔ کیا کسی کے لیے ممکن ہے کہ وہ اپنی ماں کی سسکیاں، اس کی تذلیل، چہرے پر طمانچے سے پڑے نیل یا پھر کھانے میں معمولی نمک کی کمی پر دیگچی اٹھا کر پھینک دینے اور گالم گلوچ کی اذیت کو بھول جائے؟۔
ہم سب کے حافظہ میں ایسے واقعات یا اس سے ملتی جلتی وارداتیں محفوظ ہوتی ہیں۔ جس وقت ہماری ماں کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہوتی ہے اس وقت ہم اس لائق تو نہیں ہوتے کہ باپ کا ہاتھ پکڑ لیں لیکن دل میں گانٹھ تو پڑ ہی جاتی ہے، اس کے بعد اگر ہم ایک مخصوص دن ابا جان پر جاں نثار ہونے کا مظاہرہ کریں تو اس حرکت کو کیا کہا جائے گا؟ منافقت؟۔
ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ہمارے یہاں ان نصیحتوں کا تو انبار ہے کہ باپ کے سامنے اف تک نہ کرو، باپ کی فلاں فضیلت ہے، وہ اگر ہڈیاں بھی توڑ دے تو یہ اس کا حق ہے لیکن تعجب ہیکہ یہی واعظین اس پہلو سے گفتگو تقریبا نا کے برابر کرتے ہیں کہ اولاد کا باپ پر کیا حق ہے؟ اب تک تو یہی بتانے پر زور ہے کہ سارے حقوق و فضائل باپ کے ہیں، ساری تعلیمات کا زور اولاد کو یہ باور کرانے پر ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے؟ باپ ہونے کے ناطے اولاد کے تئیں اس کی ذمہ داریوں کی یاد دہانی کراتے رہنے کو شائد ہم فضول جانتے ہیں۔
اس طرح کی ہزاروں مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں جو ہم آئے دن اپنے آس پاس دیکھتے ہیں۔ کیا اس کے ذمہ دار محض بچے یا اولاد ہیں یامساوی طور پر وہ والدین ہیں جنھوں نے اپنی اولاد کو مستقل اذیت دے کر ان کی زندگیوں کو تباہ و برباد کیا ہے۔ اس حوالے سے ہمیں سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ کہیں ہم غیر شعوری طور پر اپنی اولاد کی نظروں میں وِلن اور مکروہ صفت انسان تو نہیں بن رہے ہیں۔ اس بابت جمعہ کے خطبے اور دیگر ذرائع سے بھی لوگوں کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم والدین کے حقوق کے بارے میں تو ہر جگہ سنتے ہیں لیکن بچوں کے حقوق اور عزت نفس کے تئیں عموما ہمارے سماج میں خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ اس صحت مند معاشرے کے قیام کے لئے ہمیں اس رویے کو نہ صرف ختم کرنا ہوگا بلکہ جہاں کہیں بھی اس قسم کا رویہ دیکھیں ایسے والدین اور سرپرستوں کی ہمت شکنی کرنی ہوگی۔
اسلام نے بہتر معاشرے کے قیام پر زور دیا ہے اور یہ معاشرہ اسی وقت ممکن ہے جب سب کے حقوق کا تحفّظ ہو۔یہ بات ہمیں بچپن سے ہی بتائی جاتی ہے کہ بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے پیار اسلامی تعلیمات کا اہم حصہ ہے ۔بدقسمتی سے بڑوں کے ادب کا خیال تو رہتا ہے مگر بچے پیار سے محروم رہ جاتے ہیں ۔
خواتین کے خلاف زیادتی ایک ایسا موضوع ہے جس کے تئیں ہر کوئی خود کو حساس اور پریشان ثابت کرنے کی کوشش تو ضرور کرتا ہے لیکن ان کے تحفظ کے لئے عملی سطح پہ کوشش کرنے کے لئے اس طرح مستعد نہیں ہوتا جیسے کہ ہونا چاہئے یہی وجہ ہے کہ خواتین کے خلاف جرائم کی شرح گذرتے وقت کے ساتھ کم ہونے کے بجائے بڑھتی ہی جا رہی ہے آج سے دس سال پہلے 16 نومبر 2012 کو نربھیا جو کہ پیرا میڈیکل کی طالبہ تھی جب وہ درندوں کے ہتھے چڑھی تو پورے ملک میں جس طرح کا ردعمل سامنے آیا تھا یوں لگتا تھا کہ اب اس طرح کے واقعات کو جڑ سے اکھاڑ کر ہی عوام اور انتظامیہ دم لیں گے لیکن ہر کوئی شاہد ہے کہ ایسا نہیں ہوا اس کے بعد کھٹوعہ اور ہاتھرس جیسے بےشمار دل دہلا دینے والے حادثات رونما ہوئے جس کی چیخیں ہر باضمیر انسان نے سنی لیکن افسوس کہ پھر بھی یہ واقعہء آخر نہیں ثابت ہوا بلکہ اس کی شرح کم ہونے کے بجائے بڑھتی جا رہی ہے۔
خواتین کے خلاف کئے جانے والے مظالم و جرائم کا جائزہ لینے کا بعد نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے اس کے اعداد و شمار کو ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک میں خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ این سی آر بی کی تازہ رپورٹ کے مطابق 2020 سے 2021 کے درمیان خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات میں 15 فیصد کا اضافہ ہوا۔
اعداد و شمار کے مطابق 2021 میں ملک میں خواتین کے خلاف جرائم کے مجموعی طور پر 428278 معاملے درج کیے گئے، جو 2020 میں 371503 تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر ہم گزشتہ پانچ سالوں میں خواتین کے خلاف جرائم کے این سی آر بی اعداد و شمار کو دیکھیں تو 2020 کے لاک ڈاؤن سال کو چھوڑ کر ہر سال خواتین کے خلاف مظالم کے معاملوں میں اضافہ درج کیا گیا ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم کی شرح یا فی 1 لاکھ آبادی پر واقعات کی تعداد بھی اسی طرح کے ہیں۔ خواتین کے خلاف جرائم کی شرح 2020 میں 56.5 فیصد سے بڑھ کر 2021 میں 64.5 فیصد ہو گئی۔
جہاں تک مختلف ریاستوں میں خواتین کے خلاف جرائم کی بات ہے، تو این سی آر بی کے اعداد و شمار کے مطابق جہاں ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش نے 2021 میں سب سے زیادہ 56083 معاملے درج کیے، وہیں آسام میں سب سے زیادہ جرائم کی شرح 168.3 دیکھی گئی۔
ان سارے اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے عوام سے سوال کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ اس طرح کے سنگین جرائم انسانی معاشرے میں اس قدر تیزی کے ساتھ پنپ رہے ہیں اس کے جواب میں 65 فیصد رائے دہندگان نے حکومت ہند کو مورد الزام ٹھہرایا بےشک یہ بات صحیح ہے کہ کسی بھی ملک کا لا اینڈ آرڈر اس ملک کے نظم و نسق کو چلانے اور امن و امان کو قائم رکھنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن ہم میں سے کوئی اس پہلو سے قطعی انکار نہیں کر سکتا کہ معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں ہر فرد کا ایک کردار ہوتا ہے، افراد کی تربیت سازی اور ان کے اندر تعمیری و تخلیقی عناصر کی نشوونما کی ذمے داری اہل خانہ پہ عائد ہوتی ہے اور اس کے بعد تعلیمی ادارے اس میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ایسے میں سب سے پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم بشمول خواتین اپنے گھر کے سبھی افراد کی خواتین کے تئیں برتے جانے والے رویے کی نوے سے سو فیصد ذمےداری لے سکتے ہیں کہ وہ خواتین کے ساتھ قطعی کوئی زیادتی نہیں کر سکتے میں یہ بات پورے دعوے کے ساتھ کہہ سکتی ہوں کہ ہم میں سے بیشتر لوگ اس بات کی یقینی ضمانت نہیں دے سکتے ایسے میں میرا سوال یہ ہے کہ اگر ہم ایک محدود دائرے میں لوگوں کو اپنی مثبت فکر سے متاثر نہیں کر سکتے ان کے اندر غلط اور صحیح کی تمیز نہیں پیدا کر سکتے تو ہم کیسے 130 کروڑ آبادی کی ذمےداری کے تئیں غفلت کا ٹھیکرا حکومت کے سر پھوڑ سکتے ہیں مختلف عناصر کے ساتھ تشکیل پانے والے معاشرے کے تعمیری ارتقاء کے ضروری ہے کہ ہر عنصر اپنی ذمے داری بحسن خوبی نبھائے، بےشک حکومت کے اوپر یہ ذمےداری فرض عین کی طرح واجب ہوتی ہے کہ وہ ملک کے تمام شہریوں کے جان و مال اور عزت آبرو کے تحفظ کو یقینی بنائے اور مجرمین کے خلاف سخت کارروائی کرنے سے پس و پیش نہ کرے جس کا کہ ہم سب مطالبہ کرتے رہتے ہیں لیکن اس مطالبے کے ساتھ ہمی اپنی ذمےداریوں سے غافل نہیں ہو سکتے کیوں کہ ایک سچ ہے کہ ایک صحتمند اور مستحکم معاشرہ عوام کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں، حکومت کو چاہئے کہ وہ لا اینڈ آرڈر کے ساتھ ملک میں اعلی تعلیمی نظام کو فروغ دے، ملک کی سالمیت اور عوام کو تحفظ کو ہر حال میں اپنے سیاسی مفاد پہ فوقیت دے اس کی یہ غفلت انسانی معاشرے کو جنگل راج میں تبدیل کر سکتا ہے جو کہ عوام کسی بھی طرح قبول نہیں کر سکتے ہمیں چاہئے کہ ہم بغاوت کر کے ماحول کو بدتر بنانے کے بجائے حکمت کی راہ اپنا کر حالات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں۔
اس وقت میں ان چند عناصر کو زیر قلم لانے کی کوشش کررہی ہوں جو خواتین کے خلاف جرائم کو بڑھاوا دینے میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں جس کا تعلق عام عوامی زندگیوں سے ہے جو لوگ زیادتی کرتے ہیں وہ ہمارے ہی انسانی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں ان کی شخصیت کا تربیتی خلا کی ذمےداری بھی اسی معاشرے پہ عائد ہوتی ہے، ہمارے یہاں بچوں کی مثبت تعمیری تربیت کے حوالے سے کوئی خاص بیداری نہیں پائی جاتی بچے کے افکار و خیال کو چنداں اہمیت نہیں دی جاتی مائیں اپنے معمولات کو سرانجام دینے کے لئے چاہتی ہیں کہ بچے بس کسی بھی طرح چپ رہیں انھیں تنگ نہ کریں اس کے لئے وہ انھیں موبائل فون، ٹیلی ویژن کے سامنے گھنٹوں بٹھانے پہ کوئی تامل محسوس نہیں کرتیں اسکرین کی دنیا جس کی وسعت زمین و آسمان کی وسعت کے جیسی ہے جو ساحری دنیا کی طرح پرکشش ہوتی ہے بچے کے ذہن کو اس طرح ایٹریکٹ کر لیتی ہے کہ وہ اس کی اولین ضرورت بن جاتی ہے۔ (یہاں ماؤں کو میں اس لئے مخاطب کررہی ہوں کیوں کہ انھیں عورتوں کے دکھ کو بآسانی سمجھ سکتی ہیں اور ایک بچے کی شخصیت سازی میں ان کا سب سے مؤثر کردار ہوتا ہے باپ ایک درجہ کم سہی لیکن وہ بھی اس میں اہم کردار کرتاہے) پھر جب بچے تھوڑا بڑے ہو جاتے ہیں تو مائیں چاہتی ہیں کہ اب بچے فون وغیرہ چھوڑ کر ان کے کہنے پہ کتابوں کی دنیا میں کھو جائیں وہ وہی کچھ کریں جو ہم ان سے کہیں کیا ایسی سوچ رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف نہیں۔ بچے بھی بچے ہوتے ہیں انھیں بھی معلوم ہوتا ہے کہ اپنے والدین کو کیسے زیر کرنا ہے اور والدین ایموشنل ہتھکنڈوں سے شکست کھا کے انھیں ان کے حال پہ چھوڑ دیتے ہیں ایسے میں بچے سوشل میڈیا اور غلط دوستوں کی صحبت میں رہ کر اپنے منتشر جذبات کی تسکین کے لئے کسی بھی حد تک جانے میں عار نہیں محسوس کرتے۔ ماں باپ اگر چاہتے ہیں کہ ان کے بچے معاشرے کے مفسد اور منفی عناصر سے محفوظ رہیں تو پہلے وہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ دوسروں کے بچے آپ کے بچوں کے شر سے محفوظ رہیں اور یہ کام تربیت سازی کے بغیر ممکن نہیں ہمیں دنیا کے ساتھ آخرت کی زندگی کی حقیقت سے بچوں کو متعارف کروانا ہوگا کیوں کہ آپ ہمیشہ اپنے بچوں کے ساتھ نہیں ہو سکتے لیکن اللہ کا تصور ہمیشہ اس کے ساتھ ہو سکتا ہے ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا یہاں خدا کا تصور بہت غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے یوں لگتا ہے کہ نعوذباللہ خدا محض قہار و جبار ہی ہے جو ہر وقت اپنے بندوں پہ نظریں جمائے ان کو سزا دینے کا موقع ڈھونڈ رہا ہے یہی وجہ ہے کہ نوخیز اذہان اس سے متنفر ہونا شروع ہو جاتے ہیں اگر آپ چاہتے ہیں کہ خدا کا تصور اور اس کا خیال آپ کے بچوں کے اندر ہو تو آپ کو چاہئے کہ آپ ان کو خدا کی محبت اس کی رحمت و شفقت اور عفو درگذر کی صفات سے بھی متعارف کروائیں یہ جرائم کو روکنے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔ خواتین کے ساتھ جرائم کی روک تھام کے ضمن میں میں تربیت سازی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتی ہوں کیوں کہ یہ عادتیں جو ہم بچوں کے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یہی عادتیں بعد میں انھیں سنبھالتی ہیں اور ان کے اعمال و اقدام کا محرک بنتی ہیں اس پہ توجہ نہ دینے کی وجہ سے ہی معاشرہ یہاں تک کہ خاندانی نظام بھی متاثر ہو رہے ہیں ہم منافق لوگ ہیں ہمارے گھر کے افراد اگر دوسروں کے ساتھ زیادتی کریں تو ہم اسے بچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے ہیں لیکن اگر ہمارے ساتھ زیادتی ہو تو مجرم کو تختہء دار تک پہنچانے کے لئے بضد ہوتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ جس نے ہمارے اپنوں کے ساتھ زیادتی کی ہے ان کا بھی ہماری طرح ایک خاندان ہے۔ اس رویے کو فروغ دینے کی وجہ بھی یہ معاشرہ ہے اگر کوئی خاندان ہمت کر کے اپنے اپنوں کے خلاف کھڑا ہوتا ہے تو زمانہ اسے لعن طعن کر کے زندہ درگور کرنے کی کوشش کرتا ہے اس خاندان کے ساتھ ہمدردی کرنے کے بجائے اس سے نئے تعلق بنانے سے گریز کرتا ہے اب آپ ہی بتائیے کہ ایسے جرائم کے ذمے دار کیا ہم نہیں کیا ہم منافق نہیں بےشک اس معاشرے میں انسانیت اب بھی زندہ ہے کچھ خاندان ایسے ہوں گے جو اس طرح کی منافقت سے پاک ہیں لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہی ہوگی۔
خواتین کے ساتھ جرائم کی ایک بڑی وجہ سوشل میڈیا بھی ہے جس میں ہمارے ہی انسانی معاشرے کے لوگ فحش مواد ڈال کر ان بیمار ذہنیت لوگوں کو غذا اور شہہ فراہم کرتے ہیں جب ان کی سوچیں مسلسل ایسی ہی سوچوں کے گرد گھومیں گی تو بےشک اس بھوک کی تسکین کے لئے چند سال یا چند مہینے کے بچوں کو نشانہ بنانے سے کیوں چوکیں گے جیسے شرابی کو شراب چاہئے اس کے لئے پیسہ نہ دینے والی ماں بھی کسی ڈائن سے کم نہیں ہوتی کیوں کہ اس کے لئے اس وقت سب سے اہم اس کا نشہ ہوتا ہے۔ اس لئے اگر ہم چاہتے ہیں کہ خواتین اور کم عمر بچیوں کے ساتھ زیادتی نہ ہو تو ہمیں اس پلیٹ فارم کو مثبت آگاہی کے لئے استعمال کرنا ہوگا بےشک مفسد عناصر اپنے کام سے بآسانی پیچھے نہیں ہٹنے والے لیکن ان کی تعداد امن پسند عوام سے کم ہی ہوگی تو ہم اکثریتی امن پسند لوگ کیوں کر ان کے آگے ہتھیار ڈالیں انسان اور انسانیت کو تحفظ فراہم کرنا ہم سب کی یکساں ذمےداری ہے جسے ہمیں قبول کرنا ہوگا۔ یہ موضوع ایک تفصیل طلب موضوع ہے جس کو ایک مختصر کالم میں سمیٹنا مشکل ہے۔
سوال :
زوجین میں سے ایک فریق بدعات و خرافات میں مبتلا ہے ، مزاروں پر اس کی آمد و رفت رہتی ہے ۔ اس کی جانب سے مُردوں سے حاجت طلبی اور شرکیہ اعمال کا صدور ہوتا ہے ، جب کہ دوسرا فریق موحّد ہے ۔ اس طرح کے اعمال سے اسے ذہنی کوفت ہوتی ہے ۔ اس بنا پر ان کے درمیان ازدواجی تعلقات خوش گوار نہیں ہیں ۔ ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟
جواب:
نکاح کے ذریعے دو اجنبی افراد ملتے ہیں اور پوری زندگی ایک ساتھ گزارنے کا عہد کرتےہیں ۔ اس لیے ان کے درمیان مزاجی ہم آہنگی ہونا ضروری ہے ۔ رشتہ طے کرتے وقت اس کا خیال رکھنا چاہیے ۔ ہمارے سماج میں عموماً ’کفو‘ کے نام پر صرف ذات برادری دیکھی جاتی ہے اور مال داری کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے ، دیگر پہلوؤں کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے ، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نکاح کے بعد معمولی معمولی باتوں پر ٹکراؤ ہوتا ہے ، تنازعات سر ابھارتے ہیں اور ازدواجی رشتے میں خوش گواری باقی نہیں رہتی ۔ لیکن جب نکاح ہوجائے تو زوجین میں سے ہر ایک کو رشتہ نبھانے کی پوری کوشش کرنی چاہیے ۔ قرآن مجید میں مَردوں کو مخاطب کرکے کہا گیا ہے :
وَعَاشِرُوھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِھْتُمُوھُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَھُواْ شَیْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْراً کَثِیْرا(النساء : 19)
(ان (عورتوں) کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔ اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو ، مگر اللہ نے اس میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو -)
اور اللہ کے رسول ﷺ نے عورتوں کے بارے میں فرمایا :
المنتزعات والمختلعات ھن المنافقات (النسائی : 3461 )
(بغیر کسی عذر کے شوہروں سے طلاق یا خلع کا مطالبہ کرنے والی عورتیں منافقوں جیسی ہیں ۔)
اسلام توحید کا علم بردار ہے ۔ وہ شرک کا سخت مخالف ہے ۔ قرآن میں ہے : ’’اللہ تعالیٰ شرک کو کبھی معاف نہیں کرے گا ۔ اس کے ماسوا دوسرے گناہ جس قدر بھی ہوں ، وہ جس کو چاہے گا ، معاف کردے گا ۔‘‘ (النساء : 48) اسی طرح اہلِ ایمان کو بدعات و خرافات سے بھی دور رہنا چاہیے ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :’’جس شخص نے ہمارے دین میں کوئی ایسی نئی چیز پیدا کر دی جو اس میں سے نہ ہو وہ قابلِ ردّ ہے ۔‘‘ (بخاری : 267 ، مسلم : 1718) لیکن افسوس کہ مسلمانوں کی بہت بڑی تعداد شرکیہ اعمال اور بدعات و خرافات میں مبتلا ہے ۔ مزاروں پر آمد و رفت اور مُردوں سے حاجت طلبی اور استمدادکا شمار بھی ایسے ہی ناجائز کاموں میں ہوتا ہے ۔ ایسے لوگوں سے بالکلیہ تعلقات منقطع کرلینے کے بجائے ان کی حتی الامکان اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے ۔
زوجین میں سے اگر کوئی شرکیہ اعمال اور بدعات و خرافات میں مبتلا ہے اور دوسرا موحّد ہے ، جسے ان کاموں سے سخت تنفّر ہے ، تو مؤحّد کو اپنے شریک زندگی کی اصلاح اور تربیت کی فکر کرنی چاہیے ۔ عام انسانوں کے مقابلے میں وہ اس کا زیادہ مستحق ہے ۔ قرآن مجید میں کہا گیا ہے :
یَٰآیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَھْلِیْکُمْ نَاراً (التحریم:6 )
(اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہلِ عیال کو جہنم کی آگ سے۔)
رشتے کو ختم کرنے کی بات آخر میں اور بہ درجۂ مجبوری سوچنی چاہیے ۔ رشتے کو ختم کرنا بہت آسان ہے ، لیکن اصلاح کا کام بڑا صبر آزما ہوتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔
( شائع شدہ : خواتین کا آن لائن ماہ نامہ ہادیہ ، جنوری 2023 )
ہر شخص کے اندر ایک ‘ظِلِّ اِلٰہی’ بیٹھا ہوا ہے جو چاہتا ہے کہ خدا کی طرح اسکی چاہت کے مطابق سب کچھ ہو اور رسول کی طرح اسکی کسی بھی بات سے اختلاف کو کفر صریح سمجھا جاۓ۔ اس چاہت کا اظہار قول سے ہو نہ ہو، عمل میں اکثر دکھائی دیتا ہے۔ فرعون کی مغرور سرکشی پر لعنت کرتے ہوئے بھی وہ یہ نہیں سوچتا کہ خود اس کے اندر بھی ایک فرعون موقع کی تاک میں گھات لگاۓ بیٹھا ہے. اپنے ماتحتوں پر اپنی بات کو اونچی رکھنے کی غیر ضروری ضد نے بڑا نقصان کیا ہے۔ اس جال میں ایسے ایسے مخلصین پھنسے ہیں جن کے اخلاص پر شک کرنا بھی بسا اوقات گناہ لگتا ہے۔ بڑے بڑے سیاسی قائدین، علماے دین اور مفکرین و مصلحین لمحے بھر کی ‘انانیت’ کے شکار ہوئے اور انکے غلط فیصلوں نے صدیوں پر بد قسمتی کی کالک پوت دی۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بس ہماری ایک خواہش ہے اور ہمیں اپنی خواہش کو پورا کرنے کی مکمل آزادی اور اختیار حاصل ہے۔ لیکن ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اپنی آزادی اور اختیار کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہم اپنے زیر دستوں کی آزادی چھین کر نہ صرف یہ کہ انکے حقوق کی پامالی کر رہے ہیں بلکہ انکی تشکیل ذات میں معاون بننے کے بجاۓ الٹا معاند بن رہے ہیں۔
اولاد کے بناؤ اور بگاڑ کی کہانی والدین کی شفیق گودوں سے شروع ہوتی ہے۔ اسی لئے بچوں کی تعلیم و تربیت میں یہ انتہا پسند غلطی سب سے پہلے والدین سے سرزد ہوتی ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اپنے بچوں کے مستقبل کا فیصلہ کرنے میں وہ ہمیشہ حق بجانب ہیں۔ اور یہ بھول جاتے ہیں کہ انکے غلط فیصلوں کے اثرات نسلوں کو اپنی چپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ یہ ایک ایسی نادانی ہے جو دانائی کے انگنت بیجوں کو نادانی کا برگد بنا دیتی ہے۔ ان پھولوں کو کانٹوں میں تبدیل کر دیتی ہے جنکی خوشبو سے گلستان عالم کو مشکبار ہونا تھا۔ والدین کی یہ طرز پرورش انکے بچوں کی ان صلاحیتوں کو اپنی ضدی اور انا پرست خواہشوں کی قبر میں دفن کر دیتی ہے جن کو انکی حمایت و نصرت کی باد بہاری میں پروان چڑھنا تھا۔ عمر کے آغاز سے لیکر جوانی تک باپ کا ہر بات پہ ‘ڈکٹیٹر’ بن جانا اور ماں کا ذرا ذرا سی بات پہ "دودھ نہ بخشنے” کی دھمکی دیکر بہو کو طلاق تک دلوا دینا آج ایک معاشرتی المیہ بن گیا ہے۔
اکثر یہ دیکھا گیا ہے کہ باپ نے بچوں پر اپنی خواہش مسلط کی اور انھیں وہ نہیں بننے دیا جو وہ خود بننا چاہتے تھے، انھیں وہ کرنے نہیں دیا جو شاید وہ بہتر طریقے پر کر سکتے تھے۔ انکی تعلیم و تربیت سے لیکر شادی بیاہ تک والدین کے سخت فیصلے ان پر اس قدر اثر انداز ہوئے کہ الٹا انکی زندگی اجیرن بن گئی۔ اور آسمان کی بلندیوں پر چمکنے کی صلاحیت رکھنے والے یہ بچے زمین کی بھیڑ میں گم ہوکر اک ذرۂ بے نشاں بن گئے۔ والدین نے کبھی یہ نہیں سوچاکہ انکو یہ مقام ایک ننھے سے پودے کو گلشن زیست کا سب سے زیادہ بارآور اور نتیجہ خیز شجر بنانے کے لئے دیا گیا تھا، انھیں یہ اتھارٹی اک سنگ ناتراشیدہ کو سنوار کر شاہراہ حیات کا وہ سنگ میل بنانے کے لئے دی گئی تھی جس سے نسلوں کی نسلیں راہ یاب ہوتیں۔ مگر انہوں نے ان کو فطری راہوں پر پروان چڑھانے کے بجاۓ اور انکی فکری آبیاری کرنے کے بجاۓ ان پر اپنے فیصلے تھوپ کر گویا انکے اندر دبی ہوئی انکی قوت پرواز ہی چھین لی۔ اس طرح گھر کا پہلا مدرسہ اور مکتب ہی اس بچے کی ‘قتل گاہ’ بن گیا جو قوموں کی حیات کا امین بن سکتا تھا۔
خاوند ہمارے معاشرے کا معروف ترین ‘ظِلِّ اِلٰہی’ ہے۔ بیوی کو اپنے پاؤں کی جوتی سمجھنے والے اس قسم کے ‘صاحب بستر’ خاوند کو اپنی "قوّامی” پر بڑا ناز ہوتا ہے۔ اسے اپنی منکوحہ کے حق میں شریعت کے دیئے گئے حقوق کبھی یاد نہیں رہتے۔ صرف اتنا یاد رہتا ہے کہ اسکی بیوی بس ایک ‘سلطنت خداداد’ ہے جس کی سلطانی نے اسے ‘ظِلِّ اِلٰہی’ بنا دیا ہے اور بیوی کی تمام تر دینداری اس ایک بات سے مشروط ہے کہ وہ اپنے "مجازی خدا” کی خوشنودی کے لئے اپنے وجود کو خاک وخا شاک کر دے۔
ایک ‘ظِلِّ اِلٰہی’ استاد بھی ہے جو شاگرد کو اپنی من چاہی راہ پر چلانے پر بضد رہتا ہے۔ ایک استاد کی حیثیت بلا شبہ سپریم ہونی چاہیے مگر وہ جوہر شناس تو آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ملتے جن کی تربیتیں رجل عظیم پیدا کرتی ہیں۔ اب روح انسانی کی تعمیر میں ‘شیخ مکتب’ کا رول شہر کی ڈولپمنٹ اتھارٹی میں کام کرنے والے سول انجنیئر جیسی ہے۔ جسے صرف اپنے ‘پروجیکٹ’ کے اختتام کی فکر لاحق ہوتی ہے۔ افسوس یہ ہے کہ تعلیم مکمل طور پر براۓ معاش ہو چکی ہے۔ لہذا نہ ہار جانے والے کو اپنی ہار کا ادراک ہوا نہ جیت جانے والے کو یہ شعور حاصل ہوا کہ اسکی جیت کتنی بلندیاں سر کر نے سے محروم رہ گئی۔ استاد کا ‘مشفقانہ جبر’ شاگرد کے مستقبل کو اپنی من چاہی دنیا میں دھکیلتا رہا۔ جو وہ بن سکتا تھا وہ نہ بن پایا مگر افسوس کہ وہ یہ بھی نہ جان پایا کہ وہ کیا بن سکتا تھا!
مذہبی پیشوا کے سامنے دین و ایمان کا خزانہ بطور نذرانہ رکھ دیا گیا۔ اس نے مریدوں پر اندھی عقیدت کا ایسا جادو چلایا کہ اگر رات کی سیاہی پر اپنی انگشت شہادت رکھ کر اسے دن کہا تو مرید وں نے اسکی تصدیق کی۔ اور پھر دن ہو یا رات اپنے مقدس جبر کی چکی پر وہ ساری زندگی مریدوں کو گھن چکر کی طرح نچاتا رہا۔ مرید خوش ہوتے ر ہے کہ پیر ان کی عاقبت سنوار رہا ہے۔
سیاست دانوں اور حکمرانوں نے اپنی رَعِیَّت کو ہمیشہ اپنے فیصلوں کی سولی پر چڑھایا۔ جنگ کا فیصلہ ہو یا امن کا، کہا گیا کہ "زبان خلق کو نقارہء خدا سمجھو” مگر ہوا وہی سب کچھ جس نے خلق کے حلق میں سیندور ڈال کر اسے گونگا بناۓ رکھا۔ فیصلے ایوانوں میں ہوئے نام عوام کا لیا گیا۔ پیروی فرعون کی ہوئی اور حوالے موسیٰ کے دیے گئے۔ غرض جبر کے ان سیاسی خداؤں نے اپنے فیصلوں کا تاوان ہمیشہ رعایا سے ادا کروایا۔ جبر کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایک فرد نے اپنی پوزیشن کے زعم میں ایک لمحے کی خطا کی اور پوری قوم نے صدیوں تک سزا پائی۔
الغرض جبر کی یہ تمام چھوٹی بڑی ‘حکومتیں’ اپنے اپنے دائرہء اختیار کا جی بھر کے فائدہ اٹھاتی رہی ہیں۔ خدا کی دی ہوئی رعایتوں کو جھپٹ جھپٹ کر لوٹنے والے خود اپنے ماتحتوں کو معمولی سی بھی رعایت دینے کے روادار نہیں۔ خدا کی مہلتوں پر پر لگا کر اڑنے والے ہر کسی کی آزادی نوچ لینا چاہتے ہیں۔ حکومتیں اک لفظ اختلاف پر برہم ہوتی ہیں تو اہل مذہب معصوم سی اک چوک پر چراغ پا ہو جاتے ہیں ۔ کوئی کسی کو معاف کرنے کو تیار نہیں۔
خدا کی وسیع و عریض زمین پر دندانے والے لوگ اپنے سامنے کھڑے ہر کمزور سے ایک ایک انچ زمین چھین لینا چاہتے ہیں۔ چاہے وہ کمزور انکا اپنا بھائی، انکی اپنی بہن، انکا کوئی یتیم بھتیجا، بھانجا اور سگا رشتے دار کیوں نہ ہو۔ اپنی ذات کے اندر مراقبے میں بیٹھا ہوا فرعون محلے کی مسجد سے نکلتے ہی غیروں کے پلاٹ پر، بہن کے حصے کی زمین پر اور بھائی کے حصے کی جائیداد پر ایسے نظر ڈالتا ہے جیسے قوت ملتے ہی انکے حقوق اپنے پنجۂ استبداد میں جکڑ لے گا۔
یعنی سب کے سب ‘ظل الہی’ اپنے اپنے سلیم پر جبرکے پہاڑ توڑنے کی تاک میں رہتے ہیں، کوئی کسی ‘انار کلی’ کو دیواروں میں چنوا دینے کی حسرت لئے پھرتا ہے ، کوئی اپنے وقت کے سقراط کے حلق میں زہر انڈیل دینے کو بیتاب ہے تو کوئی کسی سرمد کا سر قلم کر دینے کی تمنناۓ شدید رکھتا ہے۔
گھر سے لیکر ایوان سیاست تک اور انفراد سے لیکر اجتماع تک اپنی مرضی تھوپنے والے اس ‘ظل اللہی’ رویے نے انسانی معاشرے کی زرخیزی کو بانجھ پن میں تبدیل کر دیا ہے۔ اس نے اپنے سوا ہر کسی پر آزادی اظہار کے دروازے بند کر دیے ہیں۔ اس نے نوجوانوں کو شکوہ کناں کر کے حسرتوں کا قبرستان بنا دیا ہے۔ ان حالات کو اگر ٹھیک کرنا ہے تو اصلاح کا سفر ہر گھر سے شروع ہونا ضروری ہے۔ آنے والی نسلوں کی تیاری کے لئے اسکی پہل والدین کو کرنی ہوگی۔ انھیں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں اس جوہری کا رول ادا کرنا ہوگا جو ہیروں کی تراش خراش اور اسکی تزئین و سجاوٹ میں آخری درجےکی ہنر مندی اور کمال برت کر اسے شاہوں کے سر کا تاج بنا دیتا ہے۔ ایسا کرنے کے لئے ‘خدا’ بننے کی نہیں بلکہ صرف خدا کا سچا خدمتگار بننے کی ضرورت ہے !!!
آل انڈیا ملی کونسل پھلواری شریف پٹنہ
یہ کون نہیں جانتا کہ مذہب اسلام اعلیٰ واشرف ہے اور اسی مذہب کے اندر کمی زیادتی بد کی ترین چیز سمجھی جاتی ہے اور اسی پر عمل کرنے والے شریعت کے تقدس کو پامال کررہے ہیں۔حالاں کہ اسلام ایک برستاہوا بادل ہے،جس نے دنیا کے ذرہ ذرہ کو سر سبز وشاداب کیا،امن و آشتی کا پیغام دیا اور انسانی زندگی کے تمام شعبوں کی ہر ہر مر حلہ میں رہنمائی کی،چنانچہ اسلام نے رشتہئ منا کحت کا حکم دیا؟پھر اس کی پختگی کے لئے ہر ایک کے الگ الگ حقوق متعین کر دئیے،کیوں کہ نکاح معاشرے کی بنیاد اور تعمیر تمدن کی پہلی اینٹ ہے،جب تک یہ صحیح اور مضبوط نہ ہو گی اس وقت تک معاشرے کی عمارت نہ تعمیر ہوسکتی ہے،اور نہ ہی مضبوط ومستحکم ہو سکتی ہے۔
ذرا غور کریں گے تو معلوم ہو جائے کہ بانیئ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام باتوں کو عملی طور پرکرکے دکھلایا اور بتلادیا ہے اور کبھی بھی کوئی ایسے کام کو نہ کیا ہے،جس میں امت کے لئے پریشانی اور دشوار ی ہو،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیاری اور لاڈلی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی کی،نہایت سادگی کے ساتھ،صحابہ کر ام رضی اللہ عنہم اجمعین جمع ہوئے،اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نکاح پڑھا یا،اور سامانِ جہیز میں ایک مشکیزہ،اور ایک چکی،اور ایک چمڑے کا تکیہ جس میں کھجور کی چھا لیں بھری تھیں اور ایک چادر جن کے اوپر سولہ پیوند لگے ہوئے ہیں،انہیں چادر کو دے کر بیٹی کو رخصت کردیا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تو مال کا ایک بڑا ذخیرہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دے روانہ فرماتے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دربار میں کمی کس چیز کی تھی!ایک اعلان پر سارا شہر مال کا ایک ڈھیر لگا دیتا،مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ہماری امت کو سہولت اور آسانی ہو،تنگی اور پر یشانی جھیلنا نہ پڑے،
اس لیے ہو نا تو یہ چاہیے کہ نکاح کی تقریبات میں شرعی حدود کا مکمل خیال رکھا جائے،اور کوئی ایسا عمل اس میں شامل نہ کیاجائے جو شرعاً ممنوع ہو،لیکن نہایت افسوس کا مقام ہے کہ آج کل نکا ح کی تقریبات میں کھل کر شرعی احکام کی پامالی کی جاتی ہے،اور خوشی کی مد ہوشی میں ہم اپنے خالق و مالک اللہ رب العزت اور اپنے محبوب پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات کو قطعاً نظر انداز کر جاتے ہیں۔
خصوصاً جس شخص کے پاس ذرا مالی وسعت ہوتی ہے تو وہ اپنے یہاں شادی کی تقریب اس انداز میں منانے کی کوشش کرتا ہے جو پورے علاقہ کے لئے بے مثال اور بے نظیر بن جائے،لاکھوں لاکھ روپے شادی ہال کے کرایوں،لائٹنگ اور ڈیکوریشن پر خرچ کردیے جاتے ہیں،کھانے پینے کی اشیاء کے تنوع میں ہر ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی فکر کرتا ہے،پھر ایک ایک مرد وعورت مہمان کی,,مووی اور ویڈیو،،بناء جاتی ہے۔مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے،اور کہیں کہیں اسکرین لگا کر مردوں کا مجمع عورتوں میں اور عورتوں کا مجمع مردوں میں دکھایا جاتا ہے،اورحیا باختہ نو جوان ان باتوں سے لذت اندوز ہوتے دکھائی دیتے ہیں،ان باتوں کی وجہ سے شادی کی تقریب منکرات و فواحش کی آماج گاہ بن کر رہ جاتی ہے۔
اس کے علاوہ جہیز کا دکھاوا،ٹونے ٹوٹکے والی رسومات کی پا بندیاں اور برادری اور معاشرے کے دباؤ میں جاہلانہ اور فرسودہ باتوں پر اعتماد یہ ایسی دلخراش چیزیں ہیں،جن کی بنا پر ہمارے معاشرے میں ’شادی‘اب (شادی کے بجائے)بر بادی بنتی جارہی ہے،اور ان خود ساختہ پابندیوں کی بنا پر خصوصاً متوسط اور غریب طبقہ کے لیے شادی کرنا ایک بڑا بوجھ بنتا جارہاہے،جس کی وجہ سے کتنی ہی لڑکیاں شادیوں سے محروم بیٹھی ہیں،اور ماں باپ کی راتوں کی نیند اور دن کا چین ختم کرنے کا سبب بن چکی ہیں۔
آج شادی کے موقع پر ہماری خواہش ہوتی ہے کہ خاندان،پا س پڑوس،دوست واحباب حتیٰ کہ گھر کے نوکر چاکر سب کے سب خوش ہوجائیں کوئی ناراض نہ رہے،اسی لیے اگر کسی رشتہ دار سے ناچاقی ہوتی ہے،تو تقریب سے پہلے اس کی خوشامد کرکے اسے تقریب میں شرکت پر آمادہ کیا جاتا ہے،ملازموں کی منہ مانگی مرادیں پوری کی جاتی ہیں،کیوں،،شادی،،کی خوشی میں سب کو شامل کر نا مقصود ہو تاہے،لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہم اپنی تقریبات میں جس طرح رشتہ داروں اور دوستوں کی خوشنودی کا خیال رکھتے ہیں،کیااسی طرح اللہ اور اس کے مقدس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی کے حصول کا جذبہ بھی ہمارے اندر پایا جاتا ہے؟کیا ہم نے کبھی سوچا کہ اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہماری منکر ات بھری تقریبات دیکھ لیں توآپ کو خوشی ہوگی یا ناگوار ی؟ظاہر ہے کہ اسراف اور فضول خرچی اور منکرات دیکھ کر ہمارے آقا علیہ الصلاۃ والسلام کو ہر گز خوشی نہیں ہوسکتی،بلکہ یقیناً ناگوار ی ہوگی،اس لیے کہ قرآن کریم میں اسراف و تبذیر کی صراحتاً ممانعت وارد ہے۔ارشادخداوندی ہے:
’اور اپنے مال کو فضول اور بے موقع مت اڑاؤ،یقینا بے جا اڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں،اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے۔‘
اسی بناء پر پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
’سب سے بابرکت نکاح وہ ہے جو خرچ کے اعتبار سے آسان ہو اورہلکا پھلکا ہو۔‘(مشکوۃ شریف)
تو جب شریعت کا حکم اسراف و تبذیر سے بچنے کا اور نکاح کو آسان بنانے کا ہے تو ہماری نکاح کی تقریبات جن میں کھل کر فضول خرچیاں ہوتی ہیں اور احکام شریعت کی دھجیاں اڑائی جا تی ہیں،ان سے پیغمبر علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خوشی کیسے نصیب ہو سکتی ہے؟
اور جس تقریب سے اللہ اور اس کے رسول راضی نہ ہوں،تو اگر اس سے پوری دنیا بھی خوش ہوجائے،مگر اس تقریب میں برکت نہیں آسکتی،اس کے بر خلاف جس تقریب سے اللہ اور اس کے پیغمبر خوش ہوں تو وہی بابرکت ہوگی اگر چہ پوری دنیا ناراض ہو جائے،ہر صاحب ایمان کو یہ حقیقت ضرور پیش نظر رکھنی چاہیے اور اپنی سبھی تقریبات کو شریعت کے دائر ہ میں رہ کر انجام دینے کا عزم کرنا چاہیے۔خاص طور پر اگر برادری کے با اثر حضرات اور علماء کرام اس بارے میں مسلسل سنجیدہ کوشش کریں،تو انشاء اللہ معاشرے اور سوسائٹی سے یہ قبیح رسم و رواج خو د بخود ختم ہو جائے گا۔
لہذا تقریب نکاح کی مسنون صورت یہی ہوگی کہ اس میں تمام رسوم ورواج تکلفات اور معاصی سے بالکلیہ اجتناب کیا جائے اور ہر اعتبار سے سادگی کا مظاہرہ کیا جائے،نکاح کی مجلس مسجد میں منعقد کرنا افضل ہے،تاہم نکاح کے دوران مسجد کے آداب کو ملحوظ رکھنا بھی ضروری ہے، مثلاً وہاں شور وشغب نہ مچایا جائے اور مسجد کے فرش وغیرہ کو خراب نہ کیا جائے، اللہ تعالیٰ پورے امت مسلمہ کو سنت کے مطابق زندگی اور شادی کو سادی بنانے کی تو فیق عنایت فرمائیں۔آمین۔
مسلم لڑکیوں کا غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ نکاح ایک سنگین مسئلہ–مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اس وقت جن مسائل نے ملت کے رہنماؤں کو تشویش میں ڈال رکھا ہے، ان میں سر فہرست بعض مسلمان لڑکیوں کے غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ نکاح کا مسئلہ ہے، یہ رشتہ اگرچہ شرعی اعتبار سے معتبر نہیں ہے؛ لیکن قانون کی نظر میں اس کا ا عتبار ہے، یوں تو اس طرح کے واقعات ہمیشہ سے پیش آتے رہے ہیں: مسلمان مردوں کا غیر مسلم عورتوں سے اور مسلمان عورتوں کا غیر مسلم مردوں سے نکاح، فلمی دنیا اور سیاست کی دنیا میں اس طرح کے واقعات زیادہ پیش آیا کرتے رہے ہیں؛ لیکن اب اس میں دو ایسی باتیں شامل ہو گئی ہیں، جن کی وجہ سے بجا طور پر زیادہ تشویش پائی جاتی ہے، ایک یہ کہ پہلے اس طرح کے واقعات اتفاقی طور پر پیش آیا کرتے تھے اور زیادہ تر شخصی پیار ومحبت کا نتیجہ ہوتے تھے؛ لیکن اب فرقہ پرست عناصر کی طرف سے منصوبہ بندی کے ساتھ اس کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کا اعلان واظہار بھی کیا جاتا ہے ؛ تاکہ مسلمانوں کو زیادہ سے زیادہ رسوا کیا جائے، دوسرا سبب یہ ہے کہ بہت سے مسلمان رہنما بھی اس کے عواقب پر غور کئے بغیر بہت بڑھا چڑھا کر مبالغہ کے ساتھ ایسے واقعات کے اعدا دوشمار اپنی تقریروں اور تحریروں میں نقل کر رہے ہیں؛ حالاں کہ اِس بڑی تعداد میں ایسے واقعات کا کوئی معتبر ثبوت موجود نہیں ہے، میرج رجسٹریشن آفس میں ضرور اس کا ریکارڈ ہوتا ہے؛ لیکن وہ اتنا نہیں ہے جو کہا جاتا ہے، اور اس میں دونوں طرح کے واقعات ہیں، جیسے مسلمان لڑکیوں کے غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ رشتۂ ازدواج کے رجسٹریشن ہو رہے ہیں، اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر غیر مسلم لڑکیوں کے بھی مسلمان لڑکوں کے ساتھ نکاح کے واقعات درج ہوتے ہیں.
یہ سمجھنا بھی درست نہیں ہوگا کہ نعوذ باللہ مسلمان لڑکیوں کی بڑی تعداد مرتد ہو رہی ہے، اور مرتد ہونے کے بعد وہ اپنا جوڑا غیر مسلم سماج میں تلاش کر رہی ہے، جیسا کہ نو مسلم لڑکیاں مسلمان ہونے کے بعد مسلمان لڑکوں سے شادی کی خواہاں ہوتی ہیں؛ بلکہ زیادہ تر وہ صرف اپنی شادی کسی خاص سبب کے تحت غیر مسلم آشنا سے کرنا چاہتی ہیں، یا اس پر آمادہ ہو جاتی ہیں، عام طور پر وہ اپنا مذہب بدلنا نہیں چاہتیں، تعلیمی اداروں میں مغرب کا کلچر تیزی سے آرہا ہے کہ وقتی پیار ومحبت کو نکاح کی شکل دے دی جائے اور دونوں اپنے اپنے مذہب پر قائم رہیں؛ اس لیے ایسے سارے واقعات ارتداد پر مبنی نہیں ہیں؛ بلکہ زیادہ تر بوالہوسی پر مبنی ہیں، دوسرے یاد رکھنا چاہیے کہ ایسے واقعات کا چرچا کرنے سے ملت میں شکست خوردگی کا احساس بڑھ جاتا ہے اور قوم اجتماعی سطح پر مرعوبیت کا شکار ہو جاتی ہے، یہ احساس کمتری اس میں بزدلی اور سپر اندازی کا مزاج پیدا کر دیتی ہے؛ اس لیے ایسی غیر مصدقہ باتوں کو زیادہ مشتہر کرنا بحیثیت مجموعی امت کے لیے نقصاندہ ہے، اور جب بد قماش لوگ سنتے ہیں کہ اتناے سارے لوگوں نے یہ راہ اپنا لی ہے تو پھر اس کی برائی کا احساس بھی ان کے دل میں کم ہو جاتا ہے؛ اس لئے اصلاحی کوششیں تو ضرور کرنی چاہیے؛ لیکن اس کو ایسا موضوع نہیں بنا دینا چاہئے کہ جو نوجوان اس قسم کی بات سوچ رہے ہوں، گناہ کے ارتکاب میں اُن کی ہمت بڑھ جائے کہ جب قوم کے اتنے سارے لوگ اس میں مبتلا ہیں تو اگر میں بھی اس حمام میں اتر جاؤں تو کیا برا ہے؟
اسلام کا تصور یہ ہے کہ رشتۂ نکاح میں دونوں فریق کے درمیان زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی ہونی چاہئے، یہ ہم آہنگی رشتوں کو پائیدار بناتی ہے، جو لوگ وقتی طورپر کسی پر دل پھینک دیتے ہیں اور اس بنیاد پر ازدواجی رشتہ سے بندھتے ہیں، عموماً ان کے درمیان تعلق میں استحکام باقی نہیں رہتا ، ہم آہنگی کے لیے ایک ضروری شرط فکر و عقیدہ کی موافقت بھی ہے، سوچئے کہ اگر ایک شخص اللہ کو ایک مانتا ہو اور اللہ کے سوا کسی کے سامنے اپنی پیشانی رکھنے کو سب سے بڑا جرم تصور کرتا ہو، اس کی اس شخص کے ساتھ 24؍گھنٹے کی زندگی میں کیسے موافقت ہوسکتی ہے، جو سینکڑوں مخلوقات کا پجاری ہو، جب دونوں کے مذہبی تہوار آئیں گے تو اگر وہ اپنے نظریہ میں سنجیدہ اورسچا ہوتو کیا ان کے درمیان نزاع پیدا نہیں ہوگی ؟ جب اولاد کی تعلیم و تربیت اور ان کی مذہبی وابستگی کا مسئلہ آئے گا تو کیا آپس میں کھینچ تان کی نوبت نہیں آئے گی؟ یقیناً آئے گی؛ اسی لئے اسلام میں جو چیزیں نکاح میں رکاوٹ مانی گئی ہیں ، جن کو فقہ کی اصطلاح میں’’ موانع نکاح‘‘ کہا جاتا ہے، ان میں ایک اختلاف دین بھی ہے.
اگر گہرائی کے ساتھ غور کیا جائے تو غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی کے واقعات کے بظاہر چار بنیادی اسباب ہیں ، اول : شادی کی فضول خرچیاں، دوسرے : مسلمان لڑکوں کی تعلیمی پسماندگی، تیسرے : مخلوط تعلیم، چوتھے : مخلوط ماحول کی ملازمت — شادی میں فضول خرچی اس درجہ بڑھ گئی ہے کہ اب عام لوگوں کی شادیاں پرانے نوابوں اور راجاؤں کی شادیوں میں ہونے والے تزک و احتشام کو بھی مات کررہی ہیں، دولت مند طبقوں نے اس کو اپنی مالی فراوانی کے مظاہرہ کا ذریعہ بنالیا ہے، درمیانی طبقہ اس کی وجہ سے بعض اوقات در ودیوار تک بیچنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور کمزور طبقہ اگر دین سے بے بہرہ ہو تو چاہتا ہے کہ کسی طرح اپنے جگر گوشہ کے بوجھ سے نجات پاجائے، خواہ وہ کسی مسلمان کے گھر میں جائے یا غیر مسلم کے، جب تک معاشرہ کے دولت مند لوگ سادگی کو اختیار نہ کریں گے، اس صورت حال میں کسی تبدیلی کا امکان نہیں ، اس کے لئے ضروری ہے کہ جیسے قدرتی آفات کے مواقع پر مدد اور بچاؤ کی مہم شروع کی جاتی ہے، اسی طرح نکاح میں سادگی پیدا کرنے کے لیے علماء و مشائخ، سماجی وسیاسی رہنما، صحافی اور اہل علم و دانش، مذہبی تنظیموں اور جماعتوں کے کارکنان ایک مہم چلائیں اور گھر گھر دستک دے کر انھیں سادہ طریقہ پر تقریب نکاح انجام دینے کی دعوت دیں.
تعلیمی صورت حال یہ ہے کہ لڑکیاں تعلیم میں آگے بڑھتی جاتی ہیں اور لگتا ہے کہ لڑکوں نے پیچھے کی طرف اپنا سفر شروع کررکھا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ لڑکیوں کو ان کے جوڑ کے لڑکے میسر نہیں ہوتے، موجودہ حالات میں لڑکیوں کو اس پر مجبور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ تعلیم کو ترک کردیں ، بالخصوص ان حالات میں کہ زندگی کے تمام شعبوں میں خواتین کے لیے ۵۰ فیصد حصہ داری کی کوشش کی جارہی ہے، ان حالات میں اگر مسلمان لڑکیاں تعلیم ترک کردیں تو ۵۰ سیٹیں بغیر کسی جد وجہد کے دوسروں کے ہاتھ میں چلی جائیں گی، اور پھر حصول تعلیم میں جو مسابقت جاری ہے، خاص کر لڑکیوں کو جو سہولت دی جارہی ہے، اس کے بعد اس سلسلہ میں آپ کی نصیحت نتیجہ خیز بھی نہیں ہوسکتی؛ اس لیے لڑکوں میں یہ مزاج پیدا کرنا ہوگا کہ وہ تعلیمی جدوجہد میں اپنے قدم آگے بڑھائیں، اگر ہر مسلمان گھر میں یہ فکر جاگ جائے تو اس کی نوبت نہیں آئے گی کہ تعلیم یافتہ نوجوان لڑکیوں کو ان کے جوڑ کا رشتہ نہیں مل پائے، دوسری طرف تعلیم یافتہ لڑکیوں کی ذہنی اور فکری تربیت کرنے کی ضرورت ہے کہ ایک مسلمان کے لیے اصل وجہ افتخار اس کا صاحب ایمان ہونا ہے، نہ کہ اس کا زیادہ تعلیم یافتہ اور اونچے ذریعہ معاش کا حامل ہونا؛ کیوںکہ تعلیم اور دولت کی کوئی نہایت نہیں، ایمان اس سے بھی قیمتی جوہر ہے، کسی مسلمان لڑکی کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی عار کی بات نہیں ہوسکتی کہ اس نے ایمان سے محروم شخص کو اپنا رفیق زندگی بنا رکھا ہو۔
ان واقعات کا تیسرا سبب ’’مخلوط تعلیم‘‘ ہے، لڑکوں اور لڑکیوں کا اختلاط نہ صرف اخلاقی اعتبار سے نقصاندہ ہے؛ بلکہ تدریسی نفسیات کے اعتبار سے بھی مضر ہے، مگر افسوس کہ مسلمانوں کے زیر انتظام جو درسگاہیں قائم ہیں، ان میں بھی بڑے فخر کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ یہاں ’’کو ایجوکیشن‘‘ (مخلوط تعلیم) ہے، مخلوط تعلیم کا یہ نظام نہ صرف مسلمانوں کو بلکہ پورے ہندوستانی سماج کو غیر معمولی اخلاقی نقصان پہنچارہا ہے؛ اس لیے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کم سے کم جونیئر کالج کی سطح تک زیادہ سے زیادہ الگ الگ درسگاہیں قائم کریں اور پیشہ وارانہ تعلیم کے کالجوں میں اگر جداگانہ درسگاہوں کا قیام دشوار ہو تو کم سے کم کلاس روم میں ایسی عارضی دیواریں رکھی جائیں، جو لڑکوں اور لڑکیوں کی نشست گاہوں کو الگ رکھتی ہوں، نیز مسلم علاقوں میں گورنمنٹ سے گرلس اسکول اور گرلس کالج قائم کرانے کی کوششیں کی جائیں، اللہ کا شکر ہے کہ اس وقت ملک کے اکثر چھوٹے بڑے شہروں میں مسلمان تعلیمی ادارے قائم کررہے ہیں، اگر تمام مسلمان طے کرلیں کہ وہ پرائمری اسکول کی سطح سے اوپر لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے الگ الگ درسگاہوں کا نظم کریں گے تو اندازہ ہے کہ ۵۰ فیصد مسلمان طلبۂ و طالبات انشاء اللہ مخلوط تعلیم کی برائیوں سے بچ جائیں گے۔
ایسے ناخوشگوار واقعہ کا چوتھا سبب مسلمان لڑکیوں کا مخلوط ماحول میں بالخصوص کال سینٹروں میں ملازمت کرنا ہے، جو لڑکے اور لڑکیاں کال سینٹروں میں ملازمت کرتے ہیں ، اکثر وہ رات کے وقت ایک ہی ٹیکسی میں سفر کر کے اپنے دفتر پہنچتے ہیں، ان کی رات ایک دوسرے کے ساتھ تنہائی میں گزرتی ہے، آپس میں مستقل طور پر گفتگو کی اور ساتھ کھانے پینے کی نوبت آتی ہے، اس طرح جو ان لڑکوں اور لڑکیوں کا ایک ساتھ مل کر کام کرنا آگ اور پٹرول کو ایک جگہ جمع کرنا ہے؛ اس لیے ماں باپ اور گارجین کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس معاملہ میں پوری احتیاط سے کام لیں، لڑکیوں کو ایسی ملازمت کی اجازت نہیں دیں اور اپنے بچوں کی تربیت کریں۔
گو ایسے ناخوشگوار حالات کے لیے اور بھی اسباب ہیں؛ لیکن وہ اِکا دُکا واقعات کا سبب بنتے ہیں، یہ چار اسباب زیادہ اہم ہیں، اور ضروری ہے کہ مسلمان اس پر توجہ دیں اوراُمت کے ارباب حل و عقد پوری سنجیدگی کے ساتھ اس ناگفتہ صورت حال پر غور کریں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آج کی غفلت کل کے سیلاب کا پیش خیمہ بن جائے اور پھر اس پر بند باندھنا ممکن نہ رہے !!
میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ حسنِ معاشرت اختیار کریں!- قاضی محمدفیاض عالم قاسمی
8080697348
میاں بیوی میں کے حقوق میں سے ایک اہم حق یہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ حسن معاشرت قائم کرے۔خوش اسلوبی سے پیش آئے۔ نکاح کے مقاصد میں سے جس طرح جسمانی سکون وراحت حاصل کرناہے، اسی طرح ذہنی اورقلبی سکون کی فراہمی بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ کاارشادہے: ترجمہ:اور اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تم ہی میں سے تمہارے جوڑے بنائے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرسکو اور تمہارے درمیان پیارومحبت اور رحمت کو رکھا۔ بے شک اس میں غوروفکر کرنے والوں کے لئےنشانیاں ہیں۔ (سورہ روم:٢١)دوسری ارشاد ہے: اوربیویوں کے لیے بھی دستور کے موافق حقوق ہیں جس طرح ان پر ان کے شوہروں کے لیے ہیں۔(بقرہ: ۲۲۸)تیسر جگہ ارشادہے: اوربیویوں کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی گزارو۔(نساء: ۱۹)
علامہ ابوبکر جصاص ؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کافرمان عاشروھن بالمعروف کاحکم مردوں کو دیاگیاہے۔ معاشرت بالمعروف کامفہوم یہ ہے کہ وہ اپنی بیویوں کے ساتھ معروف طریقے پربودباش اختیارکرے، اورمعروف طریقہ یہ ہے کہ اس کاحق مہر،نان ونفقہ اورباری صحیح طورپر اداکرے،سخت گفتگوکے ذریعہ تکلیف دیناچھوڑدے،اس کی طرف سے بے توجہی اوردوسرے کی طرف مائل ہوکراسے تکلیف نہ دے۔اور نہ ہی بیوی کے کسی گناہ یا قصورکے بغیراس کے ساتھ ترش روئی اوراظہار ناگواری کے ساتھ پیش آئے۔(احکام القرآن۳/۴۷)علامہ آلوسی ؒ فرماتےہیں: معروف کے سلسلے میں ایک قول یہ ہے کہ بیوی کو نہ مارے اورنہ اس کے ساتھ بد کلامی کرے؛ بلکہ اس کے ساتھ ہنس مکھ رہے۔(روح المعانی:۲/٤۵۱)
بیوی کا اپنے خاوند کے ساتھ خوش اسلوبی سے پیش آنا:
بیوی پربھی لازم ہے کہ وہ اپنے شوہرکے ساتھ حسن معاشرت قائم کرے، اچھے سلوک سے پیش آئے، ان کی عزت وتکریم کرے، ان کو برابھلانہ کہے۔ڈانٹ ڈپٹ نہ کرے، ترش روئی اختیار نہ کرے،اپنے شوہرکی استطاعت سے زیادہ خرچہ کامطالبہ نہ کرے۔قناعت اورصبر سے کام لے۔
اس کی دلیل اللہ تعالی کا فرمان ہے:اورعورتوں کے بھی ویسے ہی حقوق ہیں جیسے ان پر مردوں کے لئے ہیں۔ (البقرۃ ( 228 ) ۔
امام قرطبی ؒ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ عورتوں کےلئے مردوں پر جس طرح کے حقوق ہیں اسی طرح مردوں کے لئے بھی عورتوں پر حقوق ہیں۔چنانچہحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ ہروہ حق جو میرابیوی پرہے وہ بیوی کے لئے میرے اوپربھی ہے۔ (تفسیرقرطبی:١/١٢٣)
اورحضرت ابن زید رحمہ اللہ کہتے ہيں :تم اپنی بیویوں کے بارے میں اللہ تعالی سے ڈرتے رہواوربیویوں پر بھی ہے کہ اپنے شوہروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈریں۔ (تفسیرقرطبی:١/١٢٤)۔ حضرت قتادہؓ فرماتے ہیں کہ ہم نے حضرت کعبؓ کا یہ قول سنا ہے کہ قیامت کے دن عورت سے پہلے اس کی نماز کے متعلق سوال ہوگا پھر خاوند کے حقوق کے متعلق سوال ہوگا۔اس لئے مردوعورت دونوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے کے حقوق کوبحسن وخوبی اداکیاکریں۔
ایک دوسرے پر ظلم وستم کرنا:
حضرت ابوذرغفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب سے نقل کرتے ہوئے ارشادفرمایاکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپراوراپنے بندوں پر ظلم کو حرام قرار دیاہے، پس بندوں کو چاہئے کہ ایک دوسرے پر ظلم وستم نہ کرے۔(صحیح مسلم نمبر:٢۵۷۷)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ بے شک ایک ظلم قیامت کے دن بہت سارے ظلم کے برابر ہوجائیں گے۔(صحیح مسلم حدیث نمبر:٢۵۷۹)
پس میاں بیوی میں ہر ایک کادوسرے کے ساتھ کسی بھی طرح کاظلم وستم کرناجائز نہیں ہے۔ ظلم وستم کرنے کی بہت ساری شکلیں ہیں، مثلا جھگڑاکرنا،گالم گلوچ کرنا، مارپیٹ کرنا، چھوٹی چھوٹی باتوں پر لعن طعن کرنا،شک کرنا،بیوی کاخرچہ نہ دینا،یاپوراخرچہ نہیں دینا، یاجہیز کامطالبہ کرنا، کسی بھی طرح کا بے بنیاد الزام لگانا ، اس کو اپنےمیکہ میں یاقریبی رشتہ داروں کےیہاں نہ جانے دینا،اس کو دینی احکام بجالانےسے روکنا ،فیشن پرستی کاحکم دینا، یہ سب ظلم میں داخل ہے۔
بیوی کےساتھ لعن طعن اورگالم گلوج کرنا:
کسی مسلمان خاص طور پر بیوی کے ساتھ گالم گلوچ کرنااوراسے ذہنی اذیت دیناحرام ہے۔ جیساکہ نبی کریم ﷺ کاارشادہے:کسی مسلمان کو گالی دیناگناہ ہے اوراس سے جنگ کرناکفر ہے۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر:۱۶۱)آپ ﷺ نے ارشادفرمایا:تم میں وہ آدمی سب سے اچھاہے جو اپنی بیوی کے لئے اچھاہو۔ گویا کہ نبی کریم ﷺ نے اچھاہونے کامعیار بیوی کے ساتھ حسن سلو ک کو قرار دیا۔(سنن ترمذی، حدیث نمبر:۳۸۹۵)
حضرت حکیم بن معاویہ قشیری اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ میں نے پوچھااے اللہ کے رسول! بیوی کاکیاحق ہے؟ تو آپ ﷺ نے جواب دیاکہ جب تم کھاؤ اسے بھی کھلاؤ،جب تم پہنوتو اسے بھی پہناؤ،اس کے چہرہ پر نہ مارو،اس کوبرانہ جانو،اوراسےصرف گھر ہی میں چھوڑو۔(سنن ابوداؤد،حدیث نمبر:٢١٤٢)
نبی کریم ﷺ نے عورتوں کے ساتھ حسن معاشرت اختیارکرنے کی مردوں کووصیت کی ہے، چنانچہ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا: تم مجھ سےعورت سے متعلق وصیت حاصل کرو، کیوں کہ عورت پسلی سے پیداکی گئی ہے، اورپسلیوں میں اوپروالی پسلی ٹیڑھی ہوتی ہے،اگر تم کو اس سے فائدہ اٹھاناہے تو اٹھالو،اور اگر تم اس کو سیدھاکرناچاہوگے تو توڑدوگے،اوراگر اس کے حال پر چھوڑدوگے تو ٹیڑھی ہی رہے گی، اس لئے تم عورتوں سے متعلق میری اس نصیحت کوقبول کرو۔(صحیح بخاری:٣٣٣١، مسندحمیدی:١٢۰٢)
دوسری جگہ نبی کریم ﷺ نے بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والوں کو بہترین آدمی قراردیا، آپ نے کہاکہ تم سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے لئے اچھاہو،کیوں کہ ان کی ذہنی اورجسمانی کمزوری اورنزاکت کے باعث ان کے ساتھ نہایت ہی شفقت والامعاملہ کرناچاہئے۔ (سنن ترمذي:١١۶٢،تحفۃ الاحوذی:٤/٢۷٣)
بیوی کے ساتھ مارپیٹ کرنا:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشادفرمایاکہ اگرتمہاری بیویاں نافرمانی کریں تو پہلے تو ان کو سمجھاؤبجھاؤ، نہ مانیں تو بستر میں ان سے لاتعلقی برتو، پھربھی نہ سمجھیں تو انھیں ہلکی سی مارمارسکتے ہیں۔ (سورۃ النساء:٣٤)
اس آیت کریمہ میں چوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی بیویوں کومارنے کی اجازت دی ہے،اس لیے لوگ اس پرخوب عمل کرتے ہیں، مگر جس مارکی اجازت دی گئی ہے، اس کی وضاحت حدیث میں ضرب غیرمبرح سے کی گئی ہے۔
نبی اکرم ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقعہ پر فرمایا: اے لوگو! عورتوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو،اس لیے کہ تم نے ان کو اللہ کے امان میں حاصل کیاہےاور اللہ کے ایک کلمہ(ایجاب وقبول) کے ساتھ ان کی شرمگاہیں تمہارے لئے حلال کی گئی ہیں، تمہارے لیے ان پر یہ حق ہے کہ تمہارے بستروں پروہ کسی کو آنے نہ دیں، پس اگر وہ اس طرح نازیبا حرکت کریں تو انھیں اس طرح ہلکی مار ماروکہ نہ سخت ہو اور نہ نشان پڑے، اور ان کا نان ونفقہ اور بودو رہائش کابہتر طریقہ پر انتظام کر نا تم پر لازم ہے۔ (صحیح مسلم:حدیث نمبر١٢١۸)۔
اس حدیث کے تحت علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں کہ یعنی ایسی مار مارناجائز ہے جو سخت نہ ہو اور تکلیف دہ بھی نہ ہو۔ (شرح نووی علی صحیح مسلم: ۸/١۸٤، بیروت)
دوسری روایت اس طرح ہے: حضرت عبداللہ بن زمعہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے مردوں کوسختی سے منع فرمایاکہ تم میں سے کوئی اپنی بیوی کوغلام کی طرح کوڑے نہ مارے پھر اس کے ساتھ رات میں صحبت کرے۔(صحیح بخاری،حدیث نمبر:٥٢٠٤)یعنیاس حدیث میں نبی اکرم ﷺ نے مردوں کو غیرت دلائی کہ اگر تمہار ی بیوی سے تھوڑی بہت کوتاہی ہوجاتی ہے تو تم اسے مارنے لگتے ہو، اور پھرعجیب بات ہے کہ تم اس کے ساتھ جنسی خواہش پوری کرکے سکون حاصل کرتے ہو!! لہذا تم کوشرم آنی چاہئے اور اس حرکت سے باز آجانا چاہیے۔ان احادیث سے معلوم ہواکہ بیوی کے ساتھ سخت مارپیٹ کرناجائز نہیں ہے ۔
پٹائی کی حداوراس کاطریقہ:
پٹائی کی کیفیت اورحدبیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺنے ارشادفرمایا: جب بیوی اپنے گھرکسی اجنبی کوبلائے تب ہی ان کو مارو۔(صحیح مسلم:١٢١۸) غیرمبرح کی تشریح کے بارے امام احمدسے پوچھاگیاکہ غیرمبرح کیاہے؟ آپ نے جواب دیا کہ سخت نہ ہو،اورچہرہ پرنہ مارے، کیوں کہ مقصودتادیب ہے،نہ کہ ہلاک کرنا۔ ( المغنی:۷/٣١۹) علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں کہ ضرب مبرح سخت تکلیف دہ مارپیٹ کوکہتے ہیں۔ (شرح مسلم للنووی:۸/١۸٤)امام فخرالدین رازی ؒاس آیت کی تفسیرمیں کہتے ہیں کہ بعض لوگوں کاکہناہے کہ رومال لپیٹ کرمارے ،یاہاتھ سے مارے، ڈنڈے یاکوڑے سے نہ مارے۔ بعض لوگوں نے کہاہے کہ مسواک سے مارے۔آپ مزیدفرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے اخف سے اشق کاحکم دیاہے، لہذااگراخف کے ذریعہ مقصودحاصل ہوجائےتواشق پرعمل کرناجائزنہیں۔(تفسیررازی:١٠/۷٢)
حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرمﷺنےفرمایاکہ جب تم میں سے کوئی لڑائی کرے تو چہرے پرمارنے سے بچے،دوسری روایت میں ہے کہ چہرے پر طمانچہ نہ مارے۔(مسلم:٢۶١٢) حضرت امام نووی ؒ اس حدیث کی شرح میں تحریر کرتے ہیں کہ اس ممانعت میں بیوی، خادم ، اور اولاد وغیرہ شامل ہیں۔(نووی شرح مسلم:١۶/١۶٥)عورت تو اشرف المخلوقات ہے، لہٰذا کسی بھی مرد کے لئے کسی بھی صورت میں عورت کےچہرہ پرمارنا جائزنہیں ہے؛بلکہ گناہ کبیرہ ہے۔
خلاصہ یہ ہےکہ اگربیوی کسی اجنبی کوگھرمیں بلائے،یااجنبی سےبات چیت کرےیابہت زیادہ نافرمانی کرے تواولاًاسے سمجھایاجائے، نہ مانے تو بسترمیں لاتعلقی برتی جائے،یابسترہی الگ کرلیاجائے پھر بھی نہ مانےتوسرزنش کے طورپر ہلکی مارمارنے کی گنجائش ہے۔یادرہے کہ بیوی کو مارنانہ فرض ہے، نہ واجب اورنہ مستحب ہے، بلکہ نہ مارناافضل ہے۔چنانچہ حضرت امام نووی ؒ نے اس حدیث کی شرح میں تحریر کیا ہے کہ بیوی یا خادم کو (فحش غلطی کرنے پر ) مارنے کی گنجائش ضرور ہے لیکن نہ مارنا ہی افضل وبہتر ہے۔(شرح النووی علی مسلم:١٥/۸٤،ش) ملا علی قاری ؒ نے تحریر کیا ہے کہ بیوی اور خادم کو مارنے کی گنجائش ہے، مگرنہ مارنابہتر ہے ،اوران کے ساتھ عفوودرگزرکامعاملہ کرناہی بہتر ہے۔(مرقات المفاتیح:۹/٣۷١۶)
رسول اللہ ﷺ کااپنی بیویوں اورخادموں کے ساتھ معاملہ:
نبی کریمﷺ نے اپنی کسی بھی بیوی یا خادم کوان کی کسی بھی غلطی پرنہ کبھی لعن طعن کیانہ ڈانٹا، اورنہ ماراہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت کے رسول اللہ ﷺ نے کبھی بھی کسی بیوی یا خادم کو ہاتھ سے بھی نہیں مارا،۔(صحیح مسلم)اس لیے صبرکرنااولیٰ اورمستحسن ہے۔صبراوربرداشت کرنے پر بھی ثواب حاصل ہوتاہے۔قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نےمسلمانوں کو صبر اورنماز کے ذریعہ مدد حاصل کرنے کاحکم دیاہے، اورصبرکرنے والے کی مدد اورمعیت کاوعدہ کیاہے۔(سورۃ البقرۃ)
تعلیم و تربیت کے معاملے میں اکثریت کو دیکھا ہے کہ جب بچے تین سے چار سال کے ہوتے ہیں تو ان کی اس عمر سے فائدہ اٹھانے کی بجائے والدین مکمل طور سے نظر انداز کرتے ہیں۔’’ابھی تو چھوٹے ہیں سیکھتے سیکھتے ان کو سب آجایے گا۔اسکول جائیں گے تو سیکھ لیں گے۔بچہ ابھی پہلی دوسری میں ہے ابھی تو عمر پڑی ہے سیکھنے کو ‘‘ کچھ اس طرح کی باتیں ہمیشہ سننے میں آتی ہیں ۔پھر ہوتا یہ ہے کہ بچے بڑی جماعتوں میں چلے جاتے ہیں لیکن انہیں تب بھی کسی ایک زبان کو ہی پڑھنے، سنانے میں مہارت حاصل نہیں ہو پاتی ۔بلکہ بسا اوقات اپنے نصابی اسباق کو بھی ایسے بچے درست ڈھنگ سے نہ پڑھ پاتے نہ ہی یاد کر پاتے ہیں ۔
در اصل بچوں کی یہ بنیادی اشد کمزوری ایک دن یا کچھ مہینوں کی غفلت کا خمیازہ نہیں ہوتی ،بلکہ اوائل عمری میں موزوں طریقہ تدریس کا نہ ہونا ان بچوں کو پہلی جماعت سے لے کر اعلیٰ جماعتوں تک مسلسل کئی ایک سطحوں پر کمزور بناتا چلا جاتا ہے۔
آئیے سمجھ لیتے ہیں کس طرح چار سے ،چھ سال کی عمر ۔۔۔یہ عمر اپنے اندر ایک حیرت انگیز اور ناقابل تسخیر،جوش و ولولہ رکھتی ہے۔تخلیقی صلاحیتوں کی کاشت کاری کے لیے یہ سب سے زر خیز وقت ہوتا ہے ۔آپ سکھاتے جائیں بچہ سیکھتا جائے گا ۔آپ سکھاتے سکھاتے تھک جائیں گے لیکن بچہ پھر بھی آپ سے ’’ھل من مزید‘‘ کا تقاضا کرتا رہے گا۔ہر پل بچہ کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنا چاہتا ہے ۔
ایک صحت مند، اوسط ذہن کا بچہ بیک وقت پانچ الگ الگ زبانوں کو سیکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔مگر والدین اور اساتذہ اس عمر کو نظر انداز کر جاتے ہیں ۔پھر شکوہ کناں بھی ہوتے ہیں کہ ہمارے بچے کو READINGنہیں آتی اس لیے ہر امتحان میں اس کے نمبرات کم آتے ہیں ۔
اس سلسلے کی سب سے کامیاب ترکیب یہ ہے کہ پِری پرائمری یعنی ابتدائیہ میں بچے حروف تہجی بڑی تفصیل سے سیکھیں ۔اور پھر اول جماعت کے ختم ہوتے ہوتے یہ بچے آسان اسباق کو روانی سے پڑھنے کے قابل ہوجائیں ۔
بچے سیکھیں گے کیسے ؟آپ کو سکھانا ہوگا ،مسلسل بنا اکتائے ان بچوں پر سخت محنت اور توجہ دینی ہوگی ۔کیوں کہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بچوں کی حروف کے ساتھ شناسائی ہوتی ہے درست طریقہ کار سے بچوں کو حروف کی شکل کی شناخت ،مختلف و متفر ق صوتیات پر بھی توجہ دلائی جائے تو ایک الہام کی طرح یہ سارے حروف بچوں کے دل و دماغ پر ثبت ہوجاتے ہیں ۔اور بچے پھر پڑھنے کی کوشش کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔
ان کے ساتھ لگ کر دن بھر ان کے اردگرد کی چیزوں کے نام انہی سے پڑھوانا بھی ایک بہترین طریقہ ہے ۔جو زبان بچے کو سکھائی جارہی ہو کوشش کی جائے کہ اسی زبان کا زیادہ استعمال ہو ۔ اور بیک وقت اگر دو لسانی مشقیں ہوں تو پھر ہر نئی چیز کا معنیٰ دونوں زبانوں میں بتایا جائے ۔
یہ ایمان رکھنے والی بات ہے کہ آپ کی یہ چھ مہینے اور سال بھر کی محنت ان شا ء اللہ آپ کے بچے کو زندگی بھر کی روانی دیتا ہے۔اور آپ کی یہ مسلسل کوشش ہی ان کی کامیابی کی کلید ہے۔
بچے ان حروف و الفاظ سے کھیلتے ہیں ،ان کی دلچسپی عروج پر ہوتی ہے کہ اس قدر کہ نہاتا ہوا بچہ بھی آکر پوچھنے لگتا ہے کہ صابن ’’ص‘‘ سے آتا ہے یا ’’س‘‘
سے چونکہ ہر وقت حروف تہجی ان کے دل و دماغ میں رقص کررہے ہوتے ہیں ۔یعنی کچھ نہ کچھ سیکھنا اور بولتے رہنا اور الگ الگ آوازوں میں فرق کرنا ۔
ایک المیہ یہ ہے کہ اتنے اہم موڑ پر والدین نے نرسریز اور اسکولوں پر تکیہ کیا ہوتا ہے ۔جب کہ یہ آرام کا نہیں کام کا وقت ہوتا ہے ۔آج اسکولوں میں تعلیم نہیں فقط نصاب تھمایا جاتا ہے ۔اور اسی نصاب کی آپ سے منہ مانگی قیمت وصولی جاتی ہے۔اس لیے خود اپنے بچوں کی فکر کریں ۔ان کے ان بیش قیمت ایام کو کسی قیمت ضائع نہ ہونے دیں ۔
میرے خیال سے اس عمر میں پڑھنا ،سیکھنا اور سکھانا ایک چیلنج ہے۔والدین کو احساس کمتری سے باہر نکل کر خود اپنے بچوں کا معاون بننا چاہئے اور اس چیلنج کو قبول کرنا چاہیے۔
یہاں لکھنے سے پہلے اس تکنیک کومیں سالوں سے بروئے کار لارہی ہوں ۔کبھی طلباء کے ساتھ تو کبھی خود اپنے بچوں کے ساتھ۔ ابتدائیہ میں زیر تعلیم میری بچی بیک وقت چار زبانیں سیکھ رہی ہے الحمدللہ۔عربی اور انگریزی میں روانی ہے کیونکہ دن بھر ان کا استعمال زیادہ ہوتا ہے ۔اردو اور ہندی کی مشقوں میں سلسلہ جوڑ حروف تک پہنچا ہے۔
لہٰذا چھوٹے بچوں کے سر پرست اس عمر کے بچوں کو ہر گز بھی کم نہ سمجھیں ۔موبائل اور ٹی وی کی دنیا سے باہر لاکر ان کے ساتھ عملی مشق کریں کروائیں ۔انہیں چھوٹا بچہ سمجھنے کی غلطی ہر گز نہ کریں ۔ ان کے ان قیمتی ایام کو ضائع کرنے اور ہونے سے بچائیں ۔اور اپنے بچوں کے سنہرے مستقبل کی راہیں ہموار کریں ۔اپنے بچوں سے باربار بات کریں ،بلکہ دن بھر ان سے کسی نہ کسی موضوع پر بات کرتے رہیں ۔تاکہ وہ نئے لفظوں کو بھی روز مرہ کی بول چال میں سیاق و سباق کے ساتھ آسانی سے سمجھ سکیں ۔کچھ الفاظ لے کر ان کی چھوٹی چھوٹی کہانیاں ذہن میں مرتب کرلی جائیں ۔اور بچوں کو باتوں ہی باتوں میں یہی کہانیاں سنائی جائیں ۔ پھر آپ ان شاء اللہ ان سب کے نتائج دیکھ کر حیران رہ جائیں گے ۔بچہ الفاظ پہچانے گا بھی ،پڑھے گا بھی،سمجھے گا بھی اور عبارت پر بھی اس کی اچھی گرفت ہوجائے گی۔
در اصل حروف اور ہمارے بچے ،دونوں ہی ناتواں سے ہوتے ہیں ۔انہیں ساتھ کردیا جائے تو ایک بڑی طاقت تیار ہوسکتی ہے ۔
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اس وقت ذرائع ابلاغ اسلام پر جو اعتراضات کر رہا ہے ،اس میں اسلام کے حوالے سے عورت کو بڑی اہمیت حاصل ہے ، ہمارے نام نہاد دانشور بھی اس کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آتے ہیں، ہمارے وکلاء بھی ان اعتراضات کو حق بجانب قرار دینے میں کسی سے پیچھے نہیں ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ وہ اپنی ذہنی ساخت کی وجہ سے اسلام سے دور جاپڑے ہیں، ہو سکتا ہے بعض خاص شخص کے بارے میں معاملہ یہی ہو ، لیکن عمومی احوال ایسے نہیں ہیں ، بڑی تعداد ان دانشوروں اور وکلاء کی ہے ،جس کی ذہنی ساخت تو ٹھیک ٹھاک ہے، لیکن مسلم پرسنل لا کے بارے میں ان کی معلومات سطحی اور نا قص ہیں، اس لیے کہ جن کتابوں کو اس کام کے لیے انہوں نے مطالعہ میں رکھا اور جن کے مندرجات سے وہ استفادہ کرتے رہتے ہیں وہ اسلامی اسکالر کی نہیں ہیں، وہ ان لوگوں کی تیار کردہ ہیں، جنہیں اسلام اور اس کی تعلیمات میں کیڑے نکال کر نفسیاتی تسکین ملتی ہے، عجیب وغریب بات یہ ہے کہ سارے علوم میں تحقیق کے لیے جن حوالوں کو دیکھاجاتا ہے وہ فرسٹ ریفرنس بک FIRST REFRENCE BOOKہوا کرتا ہے،لیکن اسلام کا مطالعہ کرتے وقت وہ لوگ اس حقیقت کو بھول جاتے ہیں اور سکنڈ ریفرنس بک سے کام چلاتے ہیںجو ایتھنٹک(Authentic) نہیں ہیں، شاید اسکی وجہ یہ ہے کہ قرآن وحدیث کی زبان سے وہ واقف نہیں ہیں، اور انگریزی زبان کے واسطے سے ترجمہ پڑھنا اور ڈائرکٹ اسی کو دیکھ کر کوئی نتیجہ اخذ کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے ساری توجہ ان کتابوں پر رہتی ہے جومسلم پرسنل لا کے نام سے مرتب کی گئی ہیں اور بہت ساری غلط چیزیں اس میں بھر دی گئیں ہیں، اس معاملہ میں تو بعض لوگوں نے مستشرقین کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے، ان حالات میں مسلم اسکالروں اور علماء کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ان اعتراضات کی حقیقت کوسامنے لائیں اور بتائیں کہ عورت کے مسئلے اور ان سے متعلقہ احکامات میں صحیح اور درست وہی ہے جو اسلام نے کہا ہے، دقت یہ ہے کہ قرآن واحادیث سے حوالہ دے کر انہیں سمجھائیے تو اسے قدیم کہہ کر جان بچانے کی کوشش کرتے ہیں ، ان کی بحث کا سارا رخ منطقی ہوتا ہے، اور قرآن واحادیث کو بالائے طاق رکھ کر ہوتا ہے ، حالانکہ مسلمانوں کے لیے یہ بات کافی ہے کہ بات سمجھ میں آئے یا نہیں، اللہ رسول کے حکم کے آگے سرجھکا دیاجائے،کیونکہ ہماری سمجھ کمزور ہو سکتی ہے،لیکن قرآن واحادیث کی تعلیم کی معقولیت میں کوئی کمزوری نہیں ہے۔
مثال کے طور پر لڑکے لڑکیوں کی نابالغی میں شادی کا مسئلہ ہے ، مسلم پرسنل لا کے علاوہ نا بالغی کی شادی قانوناً جرم ہے،لیکن یہی قانون داں حضرات اس بات کو جائز قرار دیتے ہیں کہ اگر نا بالغ لڑکے اور لڑکی نے آپسی رضا مندی سے جنسی تعلق قائم کر لیا تو اس میں داروگیرکی گنجائش نہیں ہے، البتہ چونکہ یہ تعلق رضا مندی سے ہوا ہے ، اس لیے اسے ریپ (Rape)زنا بالجبر قرار نہیں دیا جاسکتا،جائز طریقے سے نا بالغی میں کی جانے والی شادی دنیاوی قانون میں درست نہیں ، البتہ نا جائز طریقے سے نا بالغی کی عمر میں رضا مندی سے زنا کرنا ان کے نزدیک جائز ہے، شریعت کہتی ہے کہ جائز طریقہ سے نکاح نابالغنی میں بھی جائز ہے، کیونکہ نابالغ کا نکاح بھی رضا مندی سے ہوتا ہے، فرق یہ ہے کہ اس میں دونوں کے ولی کی رضا مندی معتبر ہے ، کبھی مصلحتیں ایسی ہوتی ہیں کہ کم عمری میں شادی کرنی ہوتی ہے ، اس لیے کسی بھی طرح اس عمل کو غیر منطقی اور غیر عقلی نہیں کہاجا سکتا ۔
اسی طرح چار شادیوں کا مسئلہ ہے، یہاں یہ بات رکھنے کی ہے کہ شریعت نے چار شادی کرنے کا نہ تو حکم دیا ہے اور نہ ہی اسے لازم قرار دیا ہے، یہ تو صرف ایک اجازت ہے جو عدل جیسی سخت شرط کے ساتھ دی گئی ہے، اسی لیے چار شادیوں کا رواج کم ہے ، اور اس اجازت سے فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد اقل قلیل ہے، ہر آدمی اپنے گاؤں اور محلوں میں ایک سے زائد شادی کرنے والوں کا سروے کرکے اس حقیقت کی تصدیق کر سکتا ہے، لیکن میڈیا نے اس کا پروپیگنڈہ اس طرح کر رکھا ہے گویا سارے مسلمان چار شادیاں کرتے ہیں، دوسری طرف دنیاوی قانون میں ساتھ رہنے کا تصور پایا جاتا ہے، بیوی نہیں ہے، لیکن بیوی کی طرح ہی مرد کے ساتھ رہ رہی ہے ، رکھیل بن کر ، قانون نہ صرف اس کی اجازت دیتا ہے، بلکہ وہ جائیداد جو مرد نے ذاتی جد وجہد سے حاصل کیا ہے وہ اس کے ترکہ میں حصہ پالے گی ، ناجائز تعلق زندگی بھر رکھا ، وہ اس کی کمائی میں حصہ پارہی ہے،پھر ان رکھیلوں کی تعداد بھی مقرر نہیں ، جتنی کو زندگی کا پارٹنر بنا لو، اسلام جائز طریقے سے چار کی اجازت دیتا ہے تو اس پر سوالات کھڑے کیے جاتے ہیں، اور دانشور طبقہ ناک بھئوں چڑھانے لگتا ہے ،دونوں کی صورت حال پر غور کرکے فیصلہ خود ہی کر سکتے ہیں کہ نکاح والی عزت کی زندگی بہتر ہے یا رکھیل والی ذلت کی، زندگی یہ لا تعداد رکھیل کے مطابق چار نکاحی عورت میں ہی آپ کو عزت نظر آئے گی ۔
ایک سوال طلاق کے حوالہ سے اٹھایا جاتا ہے،یہ چاہتے ہیں کہ طلاق کا حق عورتوں کو بھی دے دیاجائے ،جس طرح نکاح اس کی مرضی سے ہوتا ہے طلاق میں بھی اس کی مرضی شامل رہے،مردوں کو طلاق کا حق دینے میں خود عورتوں کا تحفظ ہے، خاندان کو ٹوٹنے سے بچانے کے لئے شریعت نے یہ حق مردوں کو دیا ہے ، اگر یہ حق عورتوں کومل جائے تو جذباتیت کی وجہ سے خاندان زیادہ ٹوٹیں گے ، پھر ایسا بھی نہیں ہے کہ اسے بالکلیہ اسے اس حق سے محروم کر دیا گیا ہے، اسے اس کا پابند کیا گیا کہ اگر رشتے کو پسند نہیں کرتی تو اس کے وجوہات بتا کر بعض حالتوں میں قاضی سے اپنا نکاح فسخ کر اسکتی ہے اور بعض حالتوں میں خلع لے کر جان خلاصی کر واسکتی ہے، اس طرح رشتے ٹوٹیں گے بھی تو ان کی وجوہات معقول ہوں گی ، اور بہت نا گزیر حالت میں ایسا ہوا کرے گا۔
اسی طرح تین طلاق پر کثرت سے سوالات اٹھائے جا تے ہیں اور اچھے اچھے پڑھے لکھے لوگوں کو کہتے سنا کہ اگر تین کو ایک طلاق ما ن لیں تو کیا حرج ہے، خاندان ٹوٹنے سے بچ جائے گا ،یہ عجیب وغریب منطق ہے کہ تین کو ایک مانا جائے ، یہ تو نہ عقلی ہے نہ منطقی، تین تو تین ہے اور ایک ، ایک ہے، اس تین کو ایک کہنے کا جواز کسی طور سمجھ میں نہیں آتا، لیکن اسلام نے تین کو تین کہہ دیا تو اب اس کے خلاف کرنا ہے، اس لیے ساری طاقت تین کو ایک ثابت کرنے میں لگائی جا رہی ہے،کسی نے تین روپے دیا تو آپ کس طرح ایک روپے کہہ کر دو کو القط کر دیں گے ،کسی نے تیس ہزار روپے دیا تو آپ ایک لاکھ اسے کس طرح تسلیم کریں گے معلوم ہوا کہ نہ تین ایک ہو سکتا ہے اور نہ ایک تین، اتنی واضح سی بات کو تسلیم کرنے میں اسلام دشمنوں کو تردد ہوتا ہے ۔
ایک سوال تین طلاق کے نفاذ پر بھی اٹھایاجاتا ہے ، کہ تین طلاق ایک مجلس میں دینا شریعت کے مقررکردہ طریقے کے خلاف ہے ، اس لیے اس کو نافذ نہیں ہونا چاہیے، یہاں اعتراض کرنے والے یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ایک ہے کسی چیز کا غلط استعمال اور ایک ہے غلط استعمال کے نتائج واثرات ، دو نوں الگ الگ چیز ہے کسی کو گولی مارنا غلط ہے ، بندوق کا استعمال غلط کیا گیا، کسی کو چاقو مار دی گئی ، چاقو کاغلط استعمال ہوا، لیکن کون عقلمند یہ کہے گا کہ بندوق اور چاقوکے غلط استعمال کی وجہ سے آدمی بھی محفوظ رہ جائے گا ، اس کی جان نہیں جائے گی ، کیونکہ آلہ کا غلط استعمال ہوا ہے ، جس طرح گولی اور چاقو لگنے کے بعد آدمی کی جان جا سکتی ہے آدمی زخمی ہو جاتاہے، اسی طرح تین طلاق کا یک بارگی استعما ل واقعۃً غلط ہے، لیکن استعمال کے غلط ہونے کی وجہ سے اثرات کے طور پر نکاح ٹوت جائے گا اور عدد کے اعتبارسے حکم لگایا جائیگا۔طلاق کا نفقۂ عدت شوہر کے ذمہ ہے ، اسے اچھے طریقہ پر اپنے گھر سے الوداع کہنا بھی اس کی اخلاقی ذمہ داری ہے، لیکن جب تک وہ دوسری شادی نہ کرلے یا تا حیات، سابق شوہر سے کھانا خرچہ دلانا کون سی عقلمندی ہے، جب شوہر نے عورت کو چھوڑ دیا ، اور اسے اپنی زندگی سے نکال پھینکا تو اب وہ دوسری عورتوں کی طرح غیر ہے، سابق شوہر سے اس کاکوئی رشتہ کسی درجہ میں باقی نہیں ہے، اس لیے عدت گذرنے کے بعد وہ اپنے نفس کی مجاز ہے ،کسی بھی مؤمن مرد سے رشتہ کر سکتی ہے ، پھر بھلا مرد کیوں اس نفقہ کا ذمہ دار ہوگا، اور کیوں اسے Maintenance دلایا جائے گا، یہ عورت کی غیرت کے بھی خلاف ہے کہ جس نے اپنے نکاح میں باقی نہیں رکھا اس کے کھانا خرچہ پر وہ زندگی گذارے، کھانا خرچہ لازم کرنے کی وجہ سے عورت کے گناہ میں مبتلا ہونے کا بھی خطرہ ہے، طلاق کے بعد کھانے خرچہ کا تعلق اسے کبھی بھی معصیت میں مبتلا کر سکتا ہے۔
ایک سوال یہ بھی کھڑا کیاجاتا ہے کہ عورت بوڑھی ہو گئی اور اس کے شوہر نے طلاق دیدی ، عمر کی اس منزل میں اس کی شادی بھی نہیں ہو سکتی پھر وہ کہاں رہے گی ، کس طرح زندگی بسر کرے گی ، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ شریعت نے کسی کو لاوارث نہیں چھوڑا ہے، اس حالت میں اس کا کھانا خرچہ ان لوگوں پر لازم ہے جو عورت کے پاس مال ہونے کی صورت میں اس کے وارث ہوتے، وہ والد بھی ہوسکتے ہیں اور بھائی وغیرہ بھی ، میکے میں بھی کوئی نہیں ہو تو حکومت اور امارت شرعیہ کے امیر اس کے ولی ہوں گے ، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : أنا ولی من لا ولی لہ۔ جس کا کوئی ولی نہیں ، میں اس کا ولی ہوں، یعنی حکومت اور امیر اس کی کفالت کے لیے فکر مند ہوں گے ، اسی وجہ سے علماء نے لکھا ہے کہ اسلام میں کوئی لا وارث نہیں ہے ، جس کی دیکھ ریکھ کی ذمہ داری کسی پر نہ ہو ۔
طلاق کے حوالہ سے یہ بات بھی کہی جاتی ہے کہ غصہ اور نشہ کی طلاق کونافذ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ان دونوں حالت میں آدمی اپنے آپ میں نہیں رہتا ، یہ اعتراض بھی لایعنی اور فضول ہے ،کبھی آپ نے سنا کہ کسی نے اپنی بیگم کو محبت میں طلاق دیا ہو، طلاق تو غصہ ہی میں دی جاتی ہے ، غصہ کی طلاق کو نافذ نہ ماننے کا مطلب ہوگا کہ طلاق تماشہ بن کر رہ جائے اور اس کے اثرات واقع نہ ہوں ، اسی طرح نشہ کی طلاق کا معاملہ ہے ، نشہ میں جو شخص طلاق دے رہا ہے، وہ اس قدر ہوش وحواس میں ضرور ہے کہ وہ طلاق بیوی کو دیجاتی ہے ،ماں بہن کو نہیں ، اگر نشہ میں اس کی عقل نے جواب دے دیا تو اس نے ماں بہن کے لیے طلاق کے الفاظ کیوں نہیں استعمال کئے ،بیوی کو طلاق دینے کا سیدھا اور صاف مطلب ہے کہ نشہ کے با وجود اس کے اندر تمیز کی صلاحیت ہے اور تمیز کی صلاحیت کی وجہ سے ہی نشہ کے حالت کی طلاق نا فذ ہوجاتی ہے۔
طلاق کبھی جبر واکراہ کے ساتھ بھی دی جاتی ہے ، اگر جبر واکراہ میں تحریر کے ساتھ زبان کا استعمال بھی کرلیا تو طلاق نافذ ہوجائے گی۔ حالانکہ جبر واکراہ کی صورت میں کلمۂ کفر قابل اعتبار نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان کا محل قلب ہے اور طلاق کا محل زبان ، جب چیز اپنے محل سے نکل جائے گی تو اس کا اثر پڑے گا ، جبر واکراہ اگر کلمہ ٔ کفر کے کہنے پر ہوا اور قلب مطمئن ہے تو صرف کلمہ کفرکے کہنے سے ایمان نہیں جائے گا ، اس کے بر عکس طلاق کا محل زبان ہے اور جبر واکراہ میں طلاق اس نے زبان سے کہہ دیا تو اب یہ طلاق محل سے ادا ہو جانے کی وجہ سے نافذ ہوگی۔
اس کا ایک دوسری طرح جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ حالت جبر طلاق میں پایا ہی نہیں جاتا اس لیے کہ اگر کسی نے گردن پر بندوق رکھ کر طلاق دینے کوکہا تو اس نے اسے اختیار دیا کہ تم اپنی جان دے دو یا بیوی سے دست بردار ہوجاؤ ۔ میں نے اس اختیار سے فائدہ اٹھاکر اپنی جان بچالی اور بیوی کو چھوڑ دیا یہ دو چیزوں کے درمیان اختیار اور پسند کا معاملہ ہے وہ یہ بھی کر سکتا تھا کہ جان دیدے اور بیوی کو باقی رکھے تاکہ اس کے ترکہ سے اس کو قاعدے سے حصہ مل جائے، لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔
سوالات عورت کی آزادی اورمساوات کے حوالہ سے بھی اٹھائے جاتے ہیں، عورتوں کو آزادی دے کر مغرب نے اس سے لطف اندوزی کاسامان کر لیا ،اسے قحبہ خانوں اور کوٹھوں کی زینت بنا دیا ، ماچس کی ایک ڈبیہ بھی بغیر اس کی تصویرکے نہیں بیچنے کا تصور دیا ، اس آزادی نے عورت کو ایک مظلوم بنا کر رکھ دیا ،اسلام نے اسکا ساراکھانا خرچہ مرد پر ڈالا تھا، مرد نے اپنی جان بچانے کے لیے اس سے کموانا شروع کر دیا ، اب وہ دفتری اوقات میں ڈیوٹی بھی کرتی ہے بچے بھی پیدا کرتی ہے ، گھر آنے کے بعد با ورچی خانہ بھی اسی کا منتظر رہتا ہے ،بال بچوںکی پرورش وپرداخت اور شوہرکی خدمت گذاری بھی اسے کرنی پڑتی ہے ، یہ آزادی کے نام پر عورتوںپر ظلم ہے،جسے اسلام کسی طرح برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے ۔
یہی حال مساوات کا ہے ،مساوات کا مطلب صرف یہ ہے صلاحیت وقوت کے مطابق اس کو ترقی کے یکساں مواقع ہوں، اب مساوات کا مطلب یہ لیا جائے کہ مردوں کی طرح عورتوں کو بھی چار شادی کی اجازت ہو ،تومساوات کا یہ بھی مطلب ہوگا کہ ایک بچہ ایک سال عورت پیدا کرے اور دوسرا بچہ دوسرے سال مرد پیدا کرے، چیر مین کی کرسی پر ایک دن چیر مین صاحب بیٹھیں اور دوسرے دن چپراسی اس کرسی پربراجمان ہو جائے کیونکہ مساوات کا تقاضہ یہی ہے،ظاہر ہے اس قسم کے مساوات کاکوئی قائل نہیں ہے،لیکن ہمارا دانشور طبقہ بار بار اس بات کو اٹھاتا رہتا ہے،بلکہ ماضی قریب میں تو ایک جج صاحب نے عورتوںکو چار شادی کی اجازت دینے کی تجویز رکھی تھی،اس پر ایک صاحب نے ان سے گذارش کی تھی کہ یہ نیک کام آپ اپنے گھر سے ہی شروع کریں۔
اعتراضات اور بھی ہیں، سب الٹی سوچ کا نتیجہ ہے،جولوگ اسلامی قانون کو نہیں ماننا چاہتے وہ اسلامی قانون میں ترمیم کے بجائے دوسرا متبادل تلاش لیں انہیں کوئی یہ نہیں کہتا کہ لازمامسلم پرسنل لا ہی سے چمٹے رہو ،مسلم پرسنل لا اسلامی قوانین کا حصہ ہے اور یہ خدائی قانون ہے اس لیے اس میں کسی قسم کی ترمیم وتنسیخ نہیں ہو سکتی، خواہ عورت کی آزادی کے تعلق سے ہو یامساوات کے تعلق سے، اسے سماجی اصلاح کا نعرہدیا جائے یا یکساں سول کوڈ کا ، معاملہ نکاح وطلاق کاہویا دیگر عائلی اور خاندانی مسائل کااسلام کا قانون نا قابل تبدیل ہے،جو لوگ تبدیلی چاہتے ہیں ، ان کے لیے اسلام سے باہر تبدیلی کے بڑے مواقع ہیں، اگر انہیں کفر کا راستہ ہی پسند ہے تو ان کو نہ کوئی دلیل کام آسکتی ہے اور نہ کوئی منطق۔
حضرت زینب کی حضرت زید سے علیٰحدگی اور رسول اللہ ﷺ سے نکاح کا قضیہ:اعتراض کا جائزہ-ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
رسول اللہ ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ام المومنین حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا سے آپ کے نکاح کا واقعہ بھی کافی اہمیت رکھتا ہے ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ آپ نے اپنی پھوپی زاد بہن حضرت زینب کا نکاح اپنے آزاد کردہ غلام حضرت زید رضی اللہ عنہ سے کردیا تھا ، لیکن نباہ نہ ہوسکا اور حضرت زید نے انہیں طلاق دے دی تو ان سے آپ نے خود نکاح کرلیا ۔ اس سیدھے سادے واقعہ میں مخالفینِ اسلام نے خوب خوب رنگ آمیزی کی ہے اور آں حضرت ﷺ کی پاکیزہ سیرت کو داغ دار کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی ہے ۔ سطور ذیل میں اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی جارہی ہے ، تا کہ حقیقت واضح ہو سکے ۔
حضرت زید کون تھے؟
حضرت زید کا تعلق قبیلۂ کلب سے تھا ۔ بچپن میں ایک مرتبہ ان کے قبیلے کے پڑاؤ پر دشمنوں نے حملہ کیا اور لوٹ مار کے ساتھ جن لوگوں کو غلام بنا کر لے گئے ان میں زید بھی تھے ۔ پھر انہوں نے انہیں عکاظ کے بازار میں بیچ دیا ۔ حکیم بن حزام نے انہیں خرید کر اپنی پھوپی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو ہبہ کر دیا ۔ پھر جب حضرت خدیجہ کا نکاح آں حضرت ﷺ سے ہوا تو انہوں نے زید کو آپ کی نذر کر دیا ۔ اس وقت حضرت زید کی عمر آٹھ سال تھی ۔ حضور کے یہاں انہیں ایسی محبت ملی کہ وہ وہیں کے ہو کر رہ گئے اور بعد میں ایک موقع پر جب ان کے باپ اور چچا انہیں ڈھونڈتے ہوۓ آپہنچے اور آپ کی اجازت سے انہیں اپنے ساتھ چلنے کو کہا تو انہوں نے انکار کر دیا اور آزادی پر حضور کی غلامی کو ترجیح دی ۔ یہ دیکھ کر آپ نے انہیں آزاد کر دیا اور انہیں اپنا متبنّیٰ (منہ بولا بیٹا) بنا لیا ۔ یہ بعثت سے پہلے کا واقعہ ہے ۔ (اسد الغابۃ :281/2)
آں حضرت ﷺ کی جانب سے دعوئ نبوت سنتے ہی جن چار ہستیوں نے بغیر کسی ادنیٰ شک و تردّد کے اسے فوراً تسلیم کر لیا تھا ، حضرت زید ان میں سے ایک تھے ۔ وہ رسول اللہ ﷺ کے منظورِ نظر اور معتمدِ خاص تھے ۔ہجرتِ مدینہ کے بعد آپ نے مہاجرین اور انصار کے درمیان مواخات کرائی تھی ۔ اس موقع پر آپ نے استثنائی صورت میں حضرت زید اور اپنے محبوب چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ ( دونوں مہاجر) کو بھائی بھائی قرار دیا تھا ۔ ( سیرۃ ابن ہشام : 124/2) غزوۂ بدر سے قبل غزوۂ سفوان ( غزوہ بدر الاولی) میں آں حضرت ﷺ صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ نکلے تو انہی کو مدینہ کا عامل (گورنر) بنایا تھا ۔ ( سیرۃ ابن ہشام : 138/2) غزوۂ بدر میں جب اللہ تعالٰی کی تائید ونصرت سے مسلمانوں کو فتحِ عظیم حاصل ہوئی تو اہلِ مدینہ کو اس کی خوش خبری دینے کے لیے آں حضرت ﷺ نے انہی کو بھیجا تھا ۔ (سیرۃ ابن ہشام : 285/2) غزوۂ بدر کے بعد آں حضرت ﷺ نے اپنی صاحب زادی حضرت زینب کو مکہ سے لانے کے لیے حضرت زید ہی کو مامور کیا تھا ۔(سیرۃ ابن ہشام : 297/2) متعددمواقع پر آپ نے ان کی سربراہی میں سرایا روانہ کیے تھے( 429/2 ، 284/4 ، 285 ، 290 ، 312 ) بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تو یہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ کو جس سریہ میں بھی بھیجا اس کی سربراہی انہی کے حوالے کی – ( اسد الغابۃ : 283/2) آں حضرت ﷺ نے ان کا نکاح اپنی دایا ام ایمن رضی اللہ عنہا سے کر دیا تھا ۔ ان سے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ پیدا ہوئے تھے ۔ ( اسد الغابۃ ، حوالہ سابق)
حضرت زینب کا حضرت زید سے نکاح اور علیٰحدگی :
حضرت زید کی عزت افزائی کے لیے آں حضرت ﷺ نے چاہا کہ ان کا نکاح حضرت زینب سے کر دیں ۔ حضرت زینب کے عزیزوں کو یہ رشتہ پسند نہ تھا ، لیکن آپ نے اصرار کیا تو تیار ہو گئے اور نکاح ہو گیا ۔ آپ نے حضرت زید کی طرف سے مہر ادا کیا اور گھر بسانے کے لیے ضروری ساز و سامان بھی فراہم کیا ۔ حضرت زینب نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل میں اس رشتے کو منظور تو کرلیا تھا ، لیکن حسب ونسب میں اپنی برتری کے احساس کو وہ اپنے دل سے کسی طرح نہ مٹاسکی تھیں ۔ عین ممکن ہے کہ منافقین کے برپا کردہ فتنہ انگیز ماحول میں ان کے اس احساس میں اضافہ ہوا ہو ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زوجین کے درمیان خوش گوار معاشرت قائم نہ رہ سکی اور کشیدگی میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا ۔ یہاں تک کہ حضرت زید نے ارادہ کرلیا کہ طلاق دے کر اس قضیہ کا خاتمہ کر دیں ۔ چوں کہ یہ نکاح حضور ﷺ کے مشورہ اور ایما سے ہوا تھا ، اس لیے انہوں نے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے ارادہ کا اظہار کیا ۔
آں حضرت ﷺ نے حضرت زید کو ان کے اس اقدام سے باز رکھنے کی کوشش کی ۔ آپ نے یہ نکاح اعلیٰ وارفع مقصد کے لیے کروایا تھا ، اس لیے آپ کی خواہش تھی کہ وہ قائم رہے ۔ آپ نے حضرت زید کو اللہ کا خوف دلاتے ہوۓ ارادۂ طلاق سے روکنے کی کوشش کی _ (الاحزاب : 37) یہ آپ کا حکم نہیں ، بلکہ ناصحانہ مشورہ تھا ، جسے قبول کرنے یا نہ کرنے میں وہ آزاد تھے ۔ حالات کے دباؤ کی بنا پر وہ خود کو اس پر آمادہ نہ کر سکے اور انہوں نے طلاق دے دی ۔
حضور کا حضرت زینب سے نکاح :
حضرت زید کے طلاق دینے کے بعد حضرت زینب کی دل جوئی کی صورت یہ رہ گئی تھی کہ آپ خود ان سے نکاح کر لیں ، لیکن آپ کو یہ اندیشہ تھا کہ ایسا کرنے سے مخالفین کو فتنہ برپا کرنے کا موقع ہاتھ آجاۓ گا ۔ آپ کے لیے یہ امر بھی پریشانی کا باعث تھا کہ عام مسلمانوں کے لیے زیادہ سے زیادہ چار بیویاں رکھنے کا حکم نازل ہو چکا تھا اور اس وقت آپ کے نکاح میں بھی چار ازواج تھیں _ (اس وقت تک اس حکم سے آپ کو مستثنیٰ کرنے والی آیت نازل نہیں ہوئی تھی _ ) ان وجوہ سے آپ حضرت زینب سے نکاح کے سلسلے میں متردّد تھے ۔ سورہ احزاب کی آیت : 37 وَ تُخْفِى فِي نَفْسِكَ مَا اللّہ مُبْدِيْهِ وَ تَخْشَى الـنَّـاسَ وَاللّه أحَقُّ أنْ تَخْشَاهُ ( اس وقت تم اپنے دل میں وہ بات چھپاۓ ہوئے تھے جسے اللہ کھولنا چاہتا تھا ۔ تم لوگوں سے ڈر رہے تھے حالاں کہ اللہ اس کا زیادہ حق دار ہے کہ اس سے ڈرو _ ) میں اس کی طرف اشارہ ہے ۔ بالآخر وحی الٰہی نے آپ کا تردّد ختم کردیا اور صاف الفاظ میں حکم دے دیا گیا کہ لوگوں کی مخالفت کی پروا کیے بغیر آپ یہ نکاح کر لیں ۔
مخالفین کا فتنہ:
اس واقعہ پر عہدِ نبوی میں بھی مخالفینِ اسلام نے فتنہ پھیلانے کی کوشش کی تھی اور بعد میں بھی اس کو بنیاد بنا کر طرح طرح کے اعتراضات کیے گئے ہیں ۔ حضرت زینب سے حضرت زید کے نکاح پر عہدِ نبوی میں منافقوں اور دوسرے اسلام دشمنوں نے یہ فتنہ برپا کیا کہ ایک آزاد کردہ غلام ، جو سماجی اعتبار سے فروتر حیثیت رکھتا ہے ، اس کا نکاح ایک معزز خاندان سے کرکے اس خاتون کے وقار اور عزّتِ نفس کو پامال کر دیا گیا ہے ۔ پھر جب حضرت زید کے طلاق دینے کے بعد حضرت زینب سے آں حضرت ﷺ نے نکاح کرلیا تو ان بد باطنوں نے اس کو بھی آپ کے خلاف شرانگیزی کا ذریعہ بنایا اور کہا کہ محمد(ﷺ ) نے تو اپنے منہ بولے بیٹے کی مطلّقہ کے ساتھ نکاح کرلیا ہے ، جو عرب ساج کی معروف روایت کے خلاف ہے ۔ حالاں کہ دونوں موقعوں پر حضرت زینب کے نکاح سے اسلام کی اہم اور بنیادی تعلیمات کا اظہار ہوا ۔
رسول ﷲﷺ نے جاہلیت کی غلط رسوم کو ختم کیا :
اسلام میں عہدِ جاہلیت کی بعض رسوم اور اقدار کو باقی رکھا گیا ہے ، لیکن اس عہد میں جو تصوّرات و افکار اور رسوم و اقدار اسلام کے بنیادی احکام اور تعلیمات سے ٹکراتے تھے ان کی اصلاح بھی کی گئی ۔ نکاحِ زینب کے ذریعے بھی بعض جاہلی تصورات اورسوم کی اصلاح کی گئی ۔
عرب معاشرہ میں غلاموں اور موالی ( آزاد کردہ غلاموں) کو سماجی حیثیت سے پست مقام حاصل تھا ۔ اسلام نے انسانوں اور انسانوں کے درمیان سارے امتیازات باطل قرار دیے اور اعلان کر دیا کہ تمام انسان ایک ماں باپ سے پیدا ہوۓ ہیں ، اس لیے سب برابر ہیں اور اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ معزّز وہ ہے جو اس سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو _ (الحجرات : 13) اللہ کے رسول ﷺ نے بھی برسرِ عام اعلان فرمایا : ’’عر بی ، عجمی ، کالے ، گورے ، کسی شخص کو کسی دوسرے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے ، اگر ہے تو صرف تقویٰ کی بنیاد پر _ “ آپ چاہتے تھے کہ غلاموں کے بارے میں لوگوں کے اس تصور میں تبدیلی آۓ ۔اس لیے آپ نے باصرار حضرت زید سے حضرت زینب کا نکاح کروایا تھا ۔
اسی طرح عہدِ جاہلیت میں منھ بولے بیٹے کو صلبی بیٹے کا درجہ دے دیا گیا تھا ۔ میراث میں اس کا حصہ لگایا جا تا تھا اور دیگر سماجی معاملات میں بھی اس کے ساتھ صلبی بیٹے جیسا برتاؤ کیا جا تا تھا ۔ چناں چہ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں سمجھا جاتا تھا کہ اس کا منہ بولا بیٹا اگر وفات پا جاۓ ، یا طلاق دے دے تو اس کی (سابقہ) بیوی سے وہ نکاح کر سکے ۔ اسلام کی نظر میں یہ ایک غلط جاہلی رسم تھی ، کیوں کہ یہ فطری عائلی نظام کے برعکس تھی ۔ منھ بولے بیٹے صلبی بیٹوں کے مثل نہیں ہو سکتے ۔ قرآن کہتا ہے :
وَ مَا جَعَلَ أدْعِيَاءَكُمْ أبْنَاءَكُمْ (الأحزاب : 6)
”اور نہ اس نے تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارا حقیقی بیٹا بنایا ہے ۔“
حضرت زید کو رسول اللہ ﷺ نے منھ بولا بیٹا بنالیا تھا ۔ جب انہوں نے حضرت زینب کو طلاق دے دی تو اس غلط جاہلی رسم کی اصلاح کا ایک موقع ہاتھ آ گیا ۔ چناں چہ اللہ تعالٰی نے اپنے رسول کو ہدایت کی کہ لوگوں کے اعتراضات اور شر انگیزیوں کی پروا کیے بغیر حضرت زینب سے نکاح کر لیں ، تا کہ آپ کے عمل کے ذریعہ اس غلط رسم کی اصلاح ہو جاۓ ۔ اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے :
فَلَمَّا قَضٰى زَيۡدٌ مِّنۡهَا وَطَرًا زَوَّجۡنٰكَهَا لِكَىۡ لَا يَكُوۡنَ عَلَى الۡمُؤۡمِنِيۡنَ حَرَجٌ فِىۡۤ اَزۡوَاجِ اَدۡعِيَآئِهِمۡ اِذَا قَضَوۡا مِنۡهُنَّ وَطَرًا (الأحزاب:۳۷)
” پھر جب زید اس سے اپنی حاجت پوری کر چکا تو ہم نے اس ( مطلقہ خاتون) کا تم سے نکاح کر دیا ، تا کہ مومنوں پر اپنے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے ، جب کہ وہ ان سے اپنی حاجت پوری کر چکے ہوں ۔“
ایک اعتراض اور اس کی نامعقولیت
بعض لوگوں نے اس واقعہ کو بنیاد بنا کر ایک افسانہ یہ تراشا ہے کہ نعوذ باللہ محمد (ﷺ ) بہو کو دیکھ کر اسے دل دے بیٹھے تھے اور اس پر ریجھ گئے تھے ۔ سعادت مند بیٹے کو کسی طرح اس تعلقِ خاطر کا علم ہوگیا تو اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی ۔اس کے بعد باپ نے بہو سے شادی رچالی ۔
یہ کہنا سراسر بے بنیاد ہے ۔ حضرت زینب آں حضرت ﷺ کی پھوپھی امیمہ بنت عبدالمطلب کی صاحب زادی تھیں ۔ بعثت سے 17 برس قبل ان کی ولادت ہوئی تھی ۔ ان کا بچپن اور جوانی سب رسول اللہﷺ کی نگاہوں کے سامنے تھی ۔ وہ ابتدائی دور میں اسلام لانے والوں میں سے تھیں ۔ انہوں نے اپنے بھائی عبد اللہ بن جحش کے ساتھ مدینہ ہجرت کی تھی ۔ (اسد الغابۃ : 125/7 ،سیرۃ ابن ہشام : 81/2) اگر حضور ﷺ کے دل میں واقعی حضرت زینب کی طرف میلان ہوتا تو حضرت زید کے لیے نکاح کا پیغام دینے ، پھر بہ اصرار اس رشتے کو طے کرانے کی ضرورت کیا تھی؟ اس کے بجاۓ آپ شروع ہی میں ان سے نکاح کر سکتے تھے ۔ اگر آپ ایسا کرتے تو ان کے گھر والے بخوشی تیار ہو جاتے اور اسے اپنی سعادت سمجھتے ۔
[ ماخوذ از : حقائقِ اسلام ، ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی ، مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی _
یہ کتاب ویب سائٹ kitabosunnat.com پر اپ لوڈ ہے ، وہاں سے ڈاؤن لوڈ کی جاسکتی ہے _ ]
انسان اشرف المخلوقات ہے۔اس کا مقصد حیات بھی عظیم ہے اور اس کی طبعیت، تقاضے اور ضروریات بھی دیگر تمام مخلوقات سے مختلف ہیں، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کو روئے زمین کا خلیفہ بنایا۔ ان کے آپس میں رشتے ناطے قائم کیے، ایک دوسرے کے ساتھ ضرورتیں وابستہ کیں، باہم تعارف کے لیے خاندانوں اور قبیلوں کا سلسلہ جاری کیا، اور حقوق وفرائض کاایک کامل نظام عطا فرمایا، یہ سب چیزیں ظاہر کرتی ہیں کہ انسان باہم مربوط بھی ہے اور ان کے درمیان کچھ فاصلے بھی ہیں، انسان بہت سے سماجی اقدار وروایات کا پابند بھی ہے اور اپنی نجی زندگی میں ایک حد تک آزاد بھی، لیکن یہ آزادی لامحدود نہیں ہے. یہ دونوں چیزیں توازن کے ساتھ ہوں تو گھر خاندان اور معاشرہ جنت نظیر بن جاتاہے اور توازن بگڑ جائے تو وہی گھر اور سماج جہنم کا نمونہ بن جاتاہے۔
انسان کی ایک اہم خصوصیت اجتماعیت ہے۔ اس کے لیے خاندان، معاشرہ اور سماج سے کٹ کر تنہا زندگی گزار نا مشکل ہے… وہ قدم قدم پر اپنے جیسے دوسرے انسانوں کا محتاج ہے۔ آپسی تعاون انسانی زندگی کی ایک ناگزیر ضرورت ہے ۔ خونی اعتبار سے جس شخص سے جتنا گہرا تعلق ہوتا ہے؛ انسان اس کا اتناہی زیادہ محتاج ہوتا ہے۔ خاندان سے وابستگی انسان کی ایک فطری ضرورت ہے۔
اسلام خاندانی استحکام ، رشتوں کے لحاظ اور رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک پر زور دیتا ہے ۔
قرآن کریم میں والدین کے حقوق کی ادائیگی اور قرابت داری کا پاس و لحاظ کرنے کی خاص طورپر تاکید کی گئی ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے: واعبدوا اللہ ولا تشرکوا بہ شیئا و بالوالدین احسانا و بذی القربی والیتامی و المساکین (النساء: 36)
اور اللہ ہی کی بندگی کرو اور کسی چیز کو بھی اس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرا ؤاور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو اور قرابت داروں،یتیموں اور محتاجوں کے ساتھ اور قرابت دار ہم سایہ اور اجنبی ہمسایہ کے ساتھ۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ انھوں نے نبی کریم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا کہ :جس کی خواہش ہو کہ اس کے رزق میں کشادگی ہو اور موت کو موخر کیا جائے تو اسے چاہیے کہ وہ رشتوں اور قربتوں کو جوڑے (بخاری و مسلم)
خاندان کی قسمیں:
خاندانی نظام بالعموم دو طرح دو طرح کا ہوتا ہے:
۱۔ مختصر خاندان یا جسے Nuclear Family System کہا جاتا ہے ۔ یہ خاندان بیوی، بچوں اور ماں باپ پر مشتمل ہوتا ہے۔
۲۔ مشترکہ خاندان جو Joint Family System کے نام سے جانا جاتا ہے۔جس میں میاں بیوی والدین اور اولاد کے علاوہ بھائی، بہن، چچا،دادا، دادی پھوپھی وغیرہ کی بھی شمولیت ہوتی ہے.
ہرشخص کو جب خاندانی نظام سے جڑ کر زندگی گذارنی ہے. تو اسی پس منظر میں یہ سوال بھی سامنے آتا ہے کہ سماجی اور شرعی نقطہ نظر سے کس انداز کا خاندانی نظام بہتر ہے؟ مشترکہ خاندانی نظام یا جدا گانہ خاندانی نظام؟ اس سوال کے جواب سے قبل ہم دونوں نظام کی خوبیوں اور خامیوں کا جائزانہ لینا مناسب سمجھتے ہیں۔
مشترکہ خاندانی نظام: مشترکہ خاندانی نظام کی تشکیل متعدد افراد سے مل کر ہو تی ہےاور یہ افراد ایک ہی چھت تلے مل جل کر مختلف رشتوں میں جڑ کر اپنی اپنی زندگی گزار تے ہیں ۔ عموماً مشترکہ خاندانی نظام کسی ایک فرد کی سربراہی میں چلتا ہے. یہ سربراہ الگ الگ حالات میں الگ الگ افراد ہوتے ہیں کبھی شوہر کبھی والد اور کبھی چچا اور دادا کی سرپرستی میں خاندانی نظام پروان چڑھتا ہے ۔ہر شخص کی یہ کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنا گھر بنائے ، جس میں ان کے بچے محفوظ اور آرام دہ زندگی بسر کریں ۔ اس جذبے کے تحت وہ ہر ممکن کوشش کرتا ہے اور جہد ومسلل کے بعد اسے کامیابی بھی ملتی ہے اور ایک خوشحال گھرانے کی تعمیر ممکن ہوتی ہے۔
شاعر کے بقول :
جلیل آسان نہیں تعمیر کرنا گھر محبت کا
یہ ان کا کام ہے جو زندگی برباد کرتے ہیں.
مطلب بڑی محنت ومشقت کے بعد محبت کے گھر و گھرانے کی تعمیر ہوتی ہے ۔اگر زیر کفالت افراد بھی سرپرستوں سے مخلصانہ تعاون کریں تو یہ خاندانی نظام مزید مستحکم ہوتا ہے۔
خاندانی نظام کے استحکام کی بنیاد اخلاص اور محبت ہے:
خاندانی نظام کے استحکام کی بنیاد اخلاص اور محبت ہے. مشترکہ خاندانی نظام اُسی وقت تک مضبوط رہتا ہے، جب تک اس میں رہنے والے افراد خلوص اور اپنائیت کے ساتھ رہتے ہیں ۔مشترکہ خاندانی نظام میں گھر کے بزرگ ،بچے ،نوجوان سب مل جل کر رہتے ہیں۔ سب کا اپنا مقام و مرتبہ ہوتا ہے اور اپنی اپنی حدود و قیود میں وہ آزاد بھی ہوتے ہیں مقید بھی۔قرون ماضیہ میں مشترکہ خاندانی نظام تقریبا ہر گھر میں رائج تھا۔ جہاں ڈھیروں افراد ایک خاندان کی طرح ایک چھت کے نیچے سکون اور مزے سے زندگی بسر کرتے تھے۔ان کی خوشی وغم ہر عمل اپنائیت بھری ہوا کرتی تھیں۔ ایک کو چوٹ لگتی تو پورے گھر میں فکر اور درد کی لہر دوڑ جاتی۔ اگر ایک فرد خوش ہوتا تو پورا گھر اس کی خوشیوں میں شریک ہونا اپنا فرض سمجھتا۔ ہر فیصلے میں چھوٹے بڑے بزرگوں کی رائے کے سامنے سر تسلیم خم کرتے تھے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ مشترکہ نظام میں گھر ایک مرکز ہوتا تھا اور پورا خاندان چھوٹے بچوں سے لے کر بڑے افراد تک سب اس مرکز کی مختلف یونٹ کی حیثیت رکھتے تھے۔گذشتہ عہد کی طرح آج بھی گھروں میں بچوں کو بہلانے، لوریاں سنانے، کلمے یاد کرنے اور انہیں اخلاق آموز قصے کہانیاں سنانے اور دینی تربیت سے آراستہ و پیراستہ کرنے کے لیے بڑے بوڑھے اور دادا دادی اور نانا نانی کی اتنی ہی ضرورت ہیں ۔
زندگی کے راستے پر بچوں کا پہلا قدم اٹھوانے کے لیے بوڑھے دادا کی انگلی آج بھی انہیں جذبوں کے ساتھ سرشار ہے۔ محبت سے گندھے ان رشتوں کے ہوتے ہوئے بھی جو اپنے محبت بھرے لمس سے ننھے منے دلوں کو مسرت بخشتے ہیں۔چھوٹی چھوٹی انگلیوں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں لے کر زندگی کے راستے پر اعتماد سے قدم اٹھانا سکھاتے ہیں۔ دادا، دادی، پھوپھی،خالا چچا؛ یہ وہ رشتے ہیں جو خونی رشتے ہونے کے ساتھ ساتھ مخلص اور اپنائیت بھرے ہوتے ہیں۔
مشترکہ خاندانی نظام ہماری ثقافت ہی نہیں ہماری مجبوری بھی ہے:
مشترکہ خاندانی نظام صرف ہماری ثقافت ہی نہیں ہماری مجبوری بھی ہے۔ دنیا کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غربت کی سطح سے بھی نیچے زندگی گزار رہا ہے۔ دو کمروں کے چھوٹے سے مکان میں ایک درجن سے ڈیڑھ درجن تک لوگ رہتے ہیں۔اور مشکلات بھری زندگی گذارتے ہیں تمام مشکلات اور مسائل کے باوجود مشترکہ خاندانی نظام کو اپنائے رکھنا ان کی مجبوری بھی ہے۔
اس صنعتی دور میں جبکہ سماج میں مرد وعورت میں سے ہر ایک کے کسب معاش کی غرض سے گھر سے باہر نکلنے کی ہوڑ مچی ہوئی ہے تو مشترکہ خاندانی نظام معاشرتی مسائل کا ایک بہترین حل ہے۔والدین کی عدم موجودگی میں دیگر رشتہ داروں کی شکل میں سرپرست میسر آجاتے ہیں.
لیکن ایک خاندان میں تمام افراد کے درمیان اتحاد اور اتفاق کی فضا قائم کرنے کے لیے والدین کا کردار بہت اہم ہے۔اکثر اوقات والدین کا دو اولادوں کے ساتھ امتیازی سلوک بہت سے مسائل کو جنم دیتا ہے. کبھی اولاد کے شادی شدہ ہو جانے کے باوجود والدین کا نہایت آمرانہ رویہ گھر کی فضا میں کشیدگی کے اضافے کا باعث ہو تا ہے۔ اس کے علاوہ معاشی ناہمواریاں بھی احساس محرومی کو جنم دیتی ہیں، جس کے نتیجے میں ہر شخص اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ کرنے پر تل جاتا ہے۔
جداگانہ خاندانی نظام میں کسب معاش کی وجہ سے بسا اوقات بچوں کی تربیت کے لیے والدین کے پاس وقت نہیں ہوتا ۔ بسا اوقات دادا دادی بھی موجود نہیں ہوتے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے بچوں کی تفریح اور تربیت کا کام اسکرین سے لیا جاتا ہے، جس کے غلط اور خطرناک نتائج سامنے آتے رہتے ہیں۔ بچوں کے بڑھتے ہوئے ذہنی مسائل اس بات کے متقاضی ہیں کہ مشترکہ خاندانی نظام کو فروغ دیا جائے۔
مل جل کر رہنے میں برکت سمیت دیگر بہت سے فائدے پنہاہیں۔ یہ وہ بے لوث رشتوں سے بندھا خاندانی نظام ہوتا ہے کہ جو ہماری زندگی کی رفتار کو سہل بناتا ہے۔ہمارے غموں اور پریشانیوں کو بانٹ کر ہمیں مایوسی جیسے ماحول میں جانے سے بچاتا ہے۔ اس خاندانی نظام سے بچوں کی تعلیم و تربیت اچھی ہوتی ہے۔ ۔ بچوں کو توجہ اور محبت کی ضرورت ہوتی ہے اگر ان کو مناسب محبت اور توجہ نہ ملے تو بچے دوسری غیر اخلاقی سرگرمیوں میں پڑ جاتے ہیں۔ یہ خاندانی نظام بچوں کے لئے بہترین تربیت گاہ اور توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔. اس نظام میں چوں کہ متعدد مشکلات اور خرابیاں بھی ہیں.
اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اس نظام میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو دور کر لیا جائے۔ ایک دوسرے کے لیے دل میں وسعت پیدا کی جائے۔ والدین گھر بناتے ہوئے نقشے میں اس بات کو یقینی بنائیں کہ بعد میں ایک گھر میں رہتے ہوئے بھی علیحدہ رہائش اختیار کی جاسکے۔بڑے بچوں کو شروع سے ہی ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے۔ اپنے حقوق کے ادراک کے ساتھ ساتھ فرائض کی ادائیگی کا احساس بھی ان کے دلوں میں ہو۔ گھر کے اصول اور قوانین تمام فیملی ممبران پر یکساں لاگو ہونے چاہئیں۔یہ بھی واضح رہے کہ مشترکہ خاندانی نظام کوئی آئیڈیل نظام تو نہیں لیکن موجودہ معاشی حالات دیکھتے ہوئے ہمارے سماجی نظام زندگی سے کافی ہم آہنگ ہے۔
مشترکہ خاندان کے فوائد:
گذشتہ سطور میں مشترکہ خاندانی نظام کی خوبیوں کا بھر پور جائزہ لیا گیا ہے ذیل کی سطور میں ترتیب وار اس کی نمایاں خوبیوں اور فوائدکے خلاصہ کو بیان کیا جاتا ہے ۔
1. اتحاد و اجتماعیت۔ اسلام میں اتحاد و اجتماعیت کی جو اہمیت ہے وہ اظہر من الشمش ہے خود ارکان اسلام جس پر اسلام کی عمارت قائم ہے،وہ اتحاد کا مظہر ہیں۔۔ جس طرح اسلام پوری ملت کے اتحاد پر زور دیتا ہے ، اسی طرح ایک خاندان کے افراد کو بھی مل جل کر رہنے کی تاکید کرتا ہے۔ چنانچہ خاندانی استحکام و اتحاد کے لیے مشترکہ خاندان موزوں تر ہے۔ ایک ہی ساتھ رہنے، سہنے ، کھانے پینے اور دکھ سکھ بانٹنے سے یہ تعلق اور مستحکم ہو جاتا ہے۔خاندان کا یہ اتفاق مخالفین کے لیے رعب و دبدبے کا باعث ہوگا۔
2. مالی استحکام۔ مشترکہ خاندانی نظام کا ایک فائدہ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ایک ساتھ کاروبار کرنے سے آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے اور دولت کا ارتکاز ہوتا ہے، خاص طور پر زراعت پیشہ اور کاروباری خاندان میں زمین و جائداد بٹوارے سے بچ جاتی ہیں۔
3. بوڑھے والدین اور خاندان کے کمزور افراد کی نگہداشت۔ اسلام میں والدین کی خدمت کی جو اہمیت ہے وہ اس بات سے ثابت ہوتی ہے کہ قرآن میں بارہ مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی تاکید وارد ہوئی ہے، حدیث میں بھی والدین کی نگہداشت کرنے کا حکم ملتا ہے۔ مشترکہ خاندانی نظام میں ماں باپ کی دیکھ بھال اور نگہداشت بہت اچھے سے ہو جاتی ہے کیونکہ ساری اولاد ایک ہی چھت کے نیچے ہوتے ہیں اور والدین بھی سارے بچوں کے ساتھ رہنے سے سکون محسوس کرتے ہیں۔
اسلام یتیم، بیوہ اور خاندان و سماج کے کمزور لوگوں کی دیکھ بھال کا حکم دیتا ہے اور اسے اجر و ثواب کا باعث بتاتا ہے۔ مشترکہ خاندان میں یہ دیکھ بھال بہت اچھے سے ہو جاتی ہے اور جو لوگ معاشی اعتبار سے کمزور ہوتے ہیں ان کی بھی گزر بسربہ آسانی ہو جاتی ہے۔
4. بچوں کی تعلیم و تربیت: مشترکہ خاندان میں چھوٹے بچوں کی تربیت دادا،دادی اپنی کہانیوں اور دوسرے طریقوں سے کردیتے ہیں،جس سے بچے اپنے خاندان کی روایت،بڑوںچھوٹوں کا احترام کرنا سیکھ لیتے، ساتھ ہی بچوں کو پالنے میں بھی آسانی رہتی اور ماں باپ بہت سی ذمہ داریوں سے بچے رہتے۔
5. مشترکہ خاندان نظام میں مل بیٹھنے کے بہت سے مواقع میسر آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے گھر کے افراد میں آپس میں تعلق اور محبت کا رشتہ پھلتا پھولتا ہے۔ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہوتے ہیں اس کے علاوہ خوشیوں کے موقعوں پر بھی بھرپور طریقے سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ خصوصاً تہوار کے دن میں رونق دوبالا ہوجاتی ہے۔ سب لوگ تیاریوں میں مصروف نظر آتے ہیں۔ ان تیاریوں کا بھی اپنا ہی ایک الگ مزہ ہوتا ہے۔ مل جل کر تہوار منانے سے بچے اپنی روایات قدروں اور ثقافت سے روشناس ہوتے ہیں۔
مشترکہ نظام میں پلنے والے بچوں کی طبیعت میں ٹھہراؤہوتا ہے: حقیقت یہی ہے کہ اتفاق و اتحاد میں برکت ہے ، اور اکٹھے رہنے کی طاقت الگ الگ رہنے سے کئی گنا زیادہ ہے. جو بچے مشترکہ خاندانی نظام میں پل کر جوان ہوتے ہیں ان کی طبیعت میں ٹھہراؤ ، صبر ، برداشت اور ہر قسم کی صورتحال کا سامنا کرنے کی صلاحیت علیحدہ رہنے والے بچوں سے زیادہ ہوتی ہے۔ کیونکہ ان کا بچپن اس قسم کے حالات کا سامنا کرتے ہوئے یا مشاہدہ کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ خا ص طور پر لڑکیاں۔ آگے چل کر جب ان کی شادی ہوتی ہے تو انھیں سسرال میں رہنے والے مختلف مزاج کے لوگوں کے ساتھ گزارا کرنے میں اتنی مشکل نہیں پیش آتی جتنی علیحدہ رہ کر جوان ہونے والی بچیوں کو ہوتی ہے کیونکہ وہ اس کی عادی نہیں ہوتیں۔ شخصیت سازی میں بچپن کا دور ، حالات اور واقعات بہت اہمیت رکھتے ہیں۔
مشترکہ خاندان کے نقصانات:
یہ تو وہ فوائد ہیں جو مشترکہ خاندانی نظام میں عام طورپر پائے جاتے ہیں لیکن یہ تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ مشترکہ خاندان کی ناہمواریاں اور نقصانات اور اس کی مشکلات بھی کچھ کم نہیں ہیں۔
مشترکہ خاندانی نظام میں مختلف اسباب کی وجہ سے دشواریاں اور مشکلات بھی کا فی ہیں۔جن کے سبب گھریلو جھگڑوں، سسرالی رشتوں میں چپقلش، غیبت، طلاق، استہزاء اور عدمِ تعاون جیسی شکایات بھی تسلسل کے ساتھ پیش آتی رہتی ہیں، چوں کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو مختلف طبیعتوں اور متنوع فکر وخیال کا بنایا ہے۔اس لیے طبیعت کے خلاف چیزوں کا پیش آنا بدیہی امر ہے
احترام باہمی کے فقدان اور دوسروں کے حقوق کے تئیں حساس نہ ہونے کی وجہ سے جتنے زیادہ لوگ ہوتے ہیں اتنی ہی پرائیویسی کم ہوتی ہے، نہ چاہتے ہوئے بھی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ ہر شخص کی پسند ناپسند کا دائرہ کار مختلف ہوتا ہے۔ سب کی زندگی کے مقاصد بھی مختلف ہوتے ہیں ۔ بسا اوقات والدین کا اولاد کے درمیان عدم مساوات کا نتیجہ اولاد کی کی نافرمانی کی شکل میں ظاہر ہو تا ہے۔ بسا اوقات دلوں میں کینہ و بغض بھر جاتا ہے پھر ایک دوسرے پر اعتراضات، طعن و تشنیع سلسلہ دراز ہوتا چلا جاتا ہے ہے۔ بالآخر گھر کا سکون درہم برہم ہو جاتا ہے۔
مشترکہ خاندانی نظام کا سب سے بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ خاندان کے افراد کے مابین بظاہر اتفاق تو نظر آتا ہے مگراندر ہی اندر حسد و کینہ کی سازشیں پلتی ہیں، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہیں بالآخر یہ ہنڈیا بیچ چوراہے پھوٹتی ہے۔ نیز ایسے مشترکہ خاندانی سسٹم میں جو نقصانات اور مشکلات ہیں۔ ان کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے :
(1) ساس و سسر کی خدمت کا مسئلہ
(2) ساس وبہو کے تنازعات
(3) سماج پہ برے اثرات(طلاق،غیبت،بے پردگی،خیانت،تنازع،استہزاء،عدم تعاون وغیرہ
(4) غیرمحرم سے بے پردگی
(5)افراد خانہ اور رشتہ داروں کے درمیان ناچاقی
(6) مالی نظام کی گربڑی
(7)والدین کا اولاد کے درمیان عدم مساوات(نتیجہ میں اولاد کی نافرمانی ملتی ہے)(8) اولاد کی ترقی میں رکاوٹ
(9) صالح معاشرہ کی تشکیل میں رخنہ۔
جھگڑوں کا بچوں پر بھی منفی اثر پڑتا ہے ان کی تربیت ڈھنگ سے نہیں ہو پاتی کیونکہ جب ایک ہی گھر میں مختلف سوچ رکھنے والے ہوتے ہیں تو بچے کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں کہ کس کی بات صحیح ہے اور کس کی غلط؟؟؟ جس سے بچوں کی خود اعتمادی کا خاتمہ ہو جاتا ہے جو ان مستقبل کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔
ایک الگ زاویہ سے دیکھیں توشرعی نقطہ نظر سے بھی موجودہ وقت میں مشترکہ نظام میں بڑی بے اعتدالیاں پائی جاتی ہیں، ساتھ ہی اس میں بہت سے نفسیاتی، معاشرتی، جنسی اور معاشی مفاسد بھی شامل ہیں۔
نفسیاتی نقصان :
مشترکہ خاندانی نظام میں عموما بڑے بھائی کی حکمرانی ہوتی ہے ، بڑے بھائی کی حکمرانی کی وجہ سے اس کی بیوی اور بچوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے دوسرے بھایئوں اور دیورانی جٹھانی کے درمیان نفرت پیدا ہونے لگتی ؛جو بہت سے نفسیاتی نقصانات کا سبب بننے لگتی ہے۔ اس نظام خاندان کے نفسیاتی نقصان کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ نجی زندگی کا تحفظ اور پرائیویسی نہ ہونے کی وجہ سے افراد بے اطمینانی کی کیفیت سے دوچار ہو جاتے کیونکہ انسان کی یہ فطری خواہش ہوتی ہے کہ اس کے پاس کوئی ایسی جگہ ہو جہاں وہ آزادی سے اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہ سکے۔اس کے ساتھ ہی مشترکہ خاندانی نظام عدم تسکین کے اعتبار سے بھی نفسیاتی نقصان کا باعث ہو تا ہے۔ بہت سارے لوگوں کے ہر وقت آمد و رفت سے میاں بیوی کو ساتھ رہنے کے مواقع کم ہی مل پاتے. جس سے رشتوں میں گرم جوشی نہیں پیدا ہو پاتی ہے
معاشرتی نقصان:
معاشرتی اعتبار سے مشترکہ خاندان اپنے اندر بڑی نا ہمواریاں رکھتا ہے۔ کھانے پینے کے معاملات میں اپنی پسند اور ترجیحات سے دست بردار ہونا پڑتا ہے، مائیں اپنے بچوں کی پسندیدہ چیزیں نہیں بنا سکتیں، افراد خانہ کے درمیان تعلقات کے خراب ہونے کے امکانات زیادہ بڑھ جاتے۔ ان سب کے ساتھ جھوٹ، فریب، چوری، غیبت، تجسس وغیرہ کے لیے یہاں فضا زیادہ سازگار ہوتی۔کیونکہ اکیلے سامان منگوا کر کھانا اس نظام میں سخت ناپسندیدہ سمجھا جاتا ہے، اس لیے چوری چھپے اس کا انتظام کیا جاتا. جس سے افراد کے درمیان عجیب طرح کی خودغرضی کی فضا قائم ہونے لگتی ہے ۔ عورتیں ایک دوسرے کی برائیوں اور شکایتوں میں لگی رہتیں۔ کام کاج کو لے کر کوئی ذمہ داری محسوس نہیں کرتا، کوئی دن بھر کام کرتا رہتا اور کوئی فرصت میں رہتا ہے۔
معاشی نقصان :
اگرچہ مشترک خاندان میں میں کمزور افراد کی بھی پرورش ہوجاتی لیکن اس نظام میں گھر کے بہت سارے لوگ نااہل اور کاہل بھی بن جاتے کیونکہ ان کی ضروریات زندگی کی تکمیل ہوتی رہتی ہے۔ چنانچہ ایسے گھروں میں کمانے والے کم اور کھانے والے زیادہ ہوتے ہیں۔
یہ سچائی ہے کہ کمزوروں اور مجبوروں کے ساتھ تعاون کرنے کو اسلام مستحن قرار دیتا ہے؛ لیکن اگر یہ صحت مند اور ہٹے کٹے لوگوں کو نااہل بنا دے تو یہ اسلام کے رویے کے منافی ہے۔ اس کے علاوہ مشترک خاندان میں چونکہ مال کو مشترکہ طور پر خرچ کیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ہر شخص اسے غیر کا مال تصور کرکے بے دردی سے استعما ل کرتا ہے۔ چنانچہ سامان کے ضیاع کا زیادہ امکان ہوتا ہے
دینی نقصان:
مشترکہ خاندانی نظام سے مربوط افراد کے لئے بعض دینی تقاضوں کی تکمیل مشکل ہو جاتی ہے۔ اس کے ساتھ ہی پردہ کے احکام پر عمل آوری ممکن نہیں ہو پاتی کیونکہ بہت سے غیر محرموں کا ہر وقت گھر میں آنا جانا رہتا. جو بہت سے مفاسد کی وجہ بن سکتا ہے ۔خاص طور پر نوجوان غیر محرموں کی ایک دوسرے سے بے تکلفی برائی کا باعث بن سکتی ہے۔
مشترکہ خاندان کے دینی نقصان کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ مختلف افراد کی کمائی کا معیار الگ الگ ہوتا ہے. لیکن مشترکہ کمائی سے جب کوئی جائداد لی جاتی ہے ؛تو بعد میں تقسیم جائداد کے وقت سب کو برابر ملتی۔ جس میں ممکن ہے کہ زیادہ کمائی والے کو کم ملے اور کم کمائی والے کو زیادہ جو انصاف کے خلاف ہے اور ناحق طریقے سے غیر کا مال کھانے کے مترادف ہے۔
تربیتی نقصان:
اپنے گھر میں والدین اپنے طریقے سے بچے کی تربیت کرنا چاہتے ہیں ان کے کھانے پینے، سونے، پڑھنے ، لکھنے اور کھیلنے کا وقت متعین کرنا چاہتے ہیں جو مشترکہ خاندان میں ممکن نہیں ہو پاتا ہے. خاص طور پر تعلیم یافتہ والدین کے لیے کوفت کا باعث ہوتا۔
جداگانہ نظام پردلائل : مشترکہ خاندانی نظام کے مخالفین یہ دلیل کےطورپر کہتے ہیں کہ : قرآن و سنت اور عمل نبی اکرمﷺ سے جداگانہ خاندانی نظام کی تائید ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺ کی تمام بیویوں کے حجرات الگ الگ تھے۔ حضرت علیؓ کی شادی جب حضرت فاطمہؓ سے ہوئی تو وہ رخصت ہو کر الگ گھر میں گئیں حضرت علیؓ آپﷺ کی کفالت میں بچپن سے تھے اور فاطمہؓ آپﷺ کی چہیتی بیٹی تھیں لیکن ان کے رہنے کے لیے الگ رہائش کا انتظام کیا گیا۔
اسلام کا مطلوبہ پردہ جداگانہ خاندانی نظام میں ہی ممکن ہے۔ بیوی کے حق سکنی کے تعلق سے فقہاء نے جو وضاحتیں کی ہیں ان سے بھی جداگانہ خاندان کی تائید ہوتی ہے۔
انھیں اسباب کو دیکھ کر بعض اہل علم نے مشترکہ خاندانی نظام کو غیر اسلامی اور ہندوانہ تہذیب وسناتنی روایات سے متاثر نظام قرار دے کر اس کی مخالفت کی. لیکن ایسا کہنا زیادتی ہے۔
کس نظام کو اپنایا جائے؟
سوال یہ ہے کہ جب مشترکہ خاندانی نظام کے متعدد فوائد بھی ہیں اور متعدد مشاکل اور دشواریاں بھی ہیں؛ تو پھر کس نظام کو اپنایا جائے… مشترکہ نظام کو یا جداگانہ نظام ؟اس سلسلے میں شریعت کا اصول واضح ہے کہ” دفعِ مضرت جلبِ منفعت” سے اولی ہے؛ لہذا جس سسٹم میں دوسروں کی حق تلفی اور دوسروں پر ظلم کا غالب گمان ہو وہ سسٹم واجب الترک ہوگا. اسی طرح جس سسٹم میں نفع سے زیادہ نقصان کا اندیشہ ہو اسے بھی ترک کیا جائے گا.. تعامل ومعاشرت کی بنیاد تقویٰ اور خوف خدا پر ہے… اللہ کی پکڑ کا جتنا احساس اور استحضار ہوگا انسان دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے حوالے سے جس قدر سنجیدہ اور حساس ہوگا اتنا ہی خاندانی سسٹم بھی پر سکون ہوگا، آپس کی محبتیں بھی فروغ پائیں گی۔
اسی لیے خطبہ نکاح میں تین آیات کریمہ کی تلاوت کی جاتی ہے اور ان میں سے ہر آیت کی شروعات :”اتقوا "کے حکم سے ہے.. ساتھ میں” الارحام” کو بطور خاص ذکر کرکے رشتے ناطے اور قرابتوں کی اہمیت اور اس کی قدر دانی پر متوجہ کیا گیا۔
مشترکہ فیملی ہو یا جداگانہ بچوں کی تربیت اوراپنے گھر کی نگرانی کی ذمہ دار ی ہر شخص کو خود ادا کرنی ہے ۔ورنہ اس سے متعلق آخرت میں پوچھ ہوگی ۔اللہ تعالی کاارشادہے :يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا (التحریم :6)
ترجمہ: اے مومنو! اپنے آپ کو اور اپنی آل اولاد کو جہنم کی آگ سے بچاؤ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا:ألا كُلّكُم راعٍ . وكلّكُم مسئولٌ عن رعيّتهِ .(صحيح مسلم:1829)ترجمہ: آگاہ رہو تم میں سے ہرایک ذمہ دار ہے اور ہرایک سے اس کی رعایا کے بارے میں سوال ہوگا۔
جہاں اسلامی اقداروروایات کو بروئے کار لاتے ہوئے مشترکہ نظام چل سکتا ہو؛ تو ایسے نظام اور سسٹم پہ کوئی اعتراض ممکن نہیں ہے لیکن جن مشترکہ خاندانوں میں ناچاقی کی انتہاہوگئی ہو. ایسے لوگوں کے لیے جداگانہ خاندانی نظام ہی بہتر ہے۔
فقہ اکیڈمی کافیصلہ :
اس سلسلہ میں اسلامی فقہ اکیڈمی نے اپنے بیسویں فقہی سیمینار میں مندرجہ ذیل فیصلے کیے :
مشترکہ اور جداگانہ خاندانی نظام سے متعلق مقالات، ان کی تلخیص اور عرض کو سامنےکر بحث ومباحثہ کے بعد درج ذیل تجاویز منظور کی گئیں:
مشترکہ خاندانی نظام ہو یا جدا گانہ، دونوں کا ثبوت عہد رسالت اور عہد صحابہ سے ملتاہے، لہذا دونوں ہی نظام فی نفسہ جائز ودرست ہیں۔ جہاں جس نظام میں شریعت کے حدود و قوانین کی رعایت و پاسداری اور والدین و دیگر زیر کفالت افراد اور معذورین کے
حقوق کی حفاظت ہو سکے اور فتنہ ونزاع سے بچا جا سکے، اس نظام پرعمل کرنا بہتر ہوگا کسی ایک نظام کی تحدیدنہیں کی جاسکتی ہے؛ البتہ یہ اجلاس تمام مسلمانوں سے یہ اپیل کرتا ہے کہ مورث کے انتقال کے بعد جتنی جلدی ممکن ہو ترکہ کی تقسیم کر کے تمام شرعی وارثین کو ان کا متعینہ حصہ دے دیں؛ تا کہ ایک دوسرے کے حقوق کا غلط استعمال نہ ہو اور یہ عمل، باہمی نزاع اور نفرت و عداوت کا سبب نہ بن جائے ۔
یہ اجلاس خاص طور سے عورتوں کے حقوق کی ادائیگی کی طرف مسلمانوں کی توجہ کومبذول کرانا چاہتا ہے؛ کیونکہ اس میں بہت زیادہ کوتاہیاں پائی جاتی ہیں۔
مشترکہ خاندانی نظام کی بنیاد ایثار و قربانی اور باہمی تعاون پر ہونی چاہیے ورنہ یہ نظام قائم نہیں رہ سکتا ہے، نیز عدل وانصاف کو قائم رکھنا بھی ضروری ہے، لہذا اگر خاندان کے بھی افراد صاحب استطاعت ہوں تو زیر کفالت افراد کی تعداد کے اعتبار سے اخراجات دیں گے۔ اور اگر کوئی مالی اعتبار سے کمزور ہو تو ہرشخص اپنی آمدنی کے تناسب سے اخراجات برداشت کرے گا؛ البتہ خاندان کے سبھی حضرات کو چاہئے کہ جائز ذریعہ سے زیادہ سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے کی کوشش کر یں؛ تا کہ کمانے والوں پر بوجھ نہ پڑے۔
جب آمد و خرچ دونوں مشترک ہوں تو اخراجات کے بعد بچی ہوئی رقم سے خریدی گئی چیز میں بھی افراد برابر کے حقدار ہوں گے۔ جب سبھی بھائیوں کا ذریعہ آمدنی الگ الگ ہو اور سبھوں نے برابر برابر رقم جمع کی اور ایک بھائی نے اپنی زائد آمدنی کو بچا کر اپنے پاس رکھا تو یہ بھائی اپنی زائد آمدنی کا خود مالک ہوگا، دوسرے بھائی اس کے حقدار نہیں ہوں گے۔”
مذکورہ بالا فیصلہ بہت جامع اور قابل عمل ہے ؛اس کی سفارشات کی روشنی میں دونوں نظام کی خوبیوںسے فائدہ اور مشکلات ونقصانات سے بچا جاسکتا ہے ۔
خلاصۂ کلام:
مشترکہ خاندانی نظام میں بنیادی طور پرخیرکاغلبہ ہے لیکن اس میں الجھاؤ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب خاندان کے افراد میں گنجائش سے زیادہ اضافہ ہوجائے؛ کیونکہ افراد کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ان کی ضروریات اور ترجیحات بھی بڑھ جاتی ہیں۔ گھر میں جگہ کم پڑ جاتی ہے جس کی وجہ سے خاندان کے افراد کے درمیان ہر بات پر کھنچا تانی شروع ہوجاتی ہےہر ایک کو لگتا ہے اس کی حق تلفی ہورہی ہے۔اسی طرح حجاب کے احکامات اور دیگر شرعی حدود کی بھی خلاف ورزی ہونے لگتی ہے۔ اس لیے خاندان کے بزرگوں کو چاہیے کہ جب ایک ہی گھر میں ایک سے زیادہ خاندان بن جائیں؛ تو انہیں علیحدہ علیحدہ ذمے داریاں دیتے ہوئے کام کی تقسیم کریں اور اخراجات باہمی طور پر بانٹ لیں اور اگر ہوسکے تو گھر بھی الگ کردیں۔ گھر کے بزرگوں کا احترام سب پر لازم ہے۔ گھر کے معاملات میں ہر فرد کو اہمیت دیں۔ ان کی ضروریات اور خواہشات کا احترام کریں. مشترکہ خاندانی نظام میں فرد واحد کو فیصلے کا اختیار نہیں ہونا چاہیے بلکہ خاندان کے دیگر افراد کی رائے بھی لینی چاہیے تاکہ کسی بھی فرد کو اپنے غیراہم ہونے کا احساس نہ ہو۔گھر کے ہر فرد کے مابین اختیارات و فرائض برابری کی بنیاد پر تقسیم کی جائے؛ تاکہ گھر کے مکینوں میں اختیارات کی جنگ نہ چھڑ جائے ورنہ یہ تفریق مشترکہ خاندانی نظام کو منتشر کردے گی۔
یہ بھی واضح رہے کہ کوئی بھی نظام چاہے وہ مشترکہ ہو یا علیحدہ، اس وقت تک کامیاب یا سماج کے لیے فائدہ مند نہیں ہوگا۔ جب تک ہمارے اندر صبر ، ایک دوسرے کی باتوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت ، میانہ روی ، اچھے برے میں فرق کرنے کی تمیز اور دوسروں کے بارے میں بھی اپنی ذات کی طرح سوچنے کی صلاحیت پیدا نہیں ہو گی؛ ان اوصاف کے بغیر ہم کسی بھی نظام میں رہتے ہوئے بھی خوش اور مطمئن نہیں رہ پائیں گے اور نہ ہی لوگ ہم سے خوش ہوں گے۔ اس لیے کوشش کرنی چاہیے کہ چاہے آپ مشترکہ خاندانی نظام میں رہیں یا علیحدہ اپنے دلوں کو اپنے خاندان کے افراد کی طرف سے صاف رکھیں۔ اچھی باتوں کو ہمیشہ یادرکھیں اور بری باتوں کو جلد از جلد بھول جائیں۔معروف کو فروغ دین اور منکرات کا سد باب کریں۔ خود بھی خوش رہیں اور دوسروں کو بھی خوش رکھنے کی کوشش کریں۔حدیث نبوی ہے” جودوسروں کے ساتھ اختلاط رکھتاہے اوران سے پہنچنے والے آزارپرصبرکرتاہے یہ اس مسلمان سے بدرجہا بہتر ہے جونہ اوروں سے میل جول رکھتاہے نہ ان سے پہنچنے والی ایذاپر صبرکرتاہے“ (ترمذی:۲۵۰۷)
بزرگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ چھوٹوں کے ساتھ شفقت سے پیش آئیں اور چھوٹوں کو تاکید کی گئی ہے کہ ہر حال میں حدادب کو ملحوظ رکھیں ،ارشاد نبوی ہے:
﴿لیس منا من لم یرحم صغیرنا ولم یوقر کبیرنا﴾ (ترمذی، )ترجمہ: جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور بڑوں کی عزت نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں۔
ہمارے معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام (Combined family System ) اور جدا گانہ خاندانی نظام (Seprate family System) کے سلسلہ میں جو افراط و تفریط پائی جاتی ہے ، وہ عالم آشکارا ہے۔اسی طرح اخوت و صلہ رحمی اور محبت و جذبئہ تعاون سے عاری جداگانہ نظام بھی اسلام کا مطلوبہ خاندانی نظام نہیں۔
اسلامی نظام حیات میں دونوں کی گنجائش ہے۔ ہر دوصورت میں اسلام نے اس کے احکام وآداب سکھائے ہیں۔مشترکہ نظام زندگی کے اگرچہ بہت سے فوائد ہیں ؛لیکن اس میں صبروتحمل ،قوت برداشت ، عفوودرگزر، چشم پوشی اورسیر چشمی کی ضرورت ہوتی ہے،تربیت کے بغیر یہ اوصاف انسانوں میں بہت کم پیداہوتے ہیں،ان اوصاف کے ساتھ پیارومحبت ،اخوت والفت ،بڑوں کی تعظیم،چھوٹوں سے شفقت اس میں مزیدچارچاندلگاتے ہیں۔اگر یہ اوصاف پیدا ہوجائیں تو ہمارا خاندانی نظام رشک جناں بن جائے۔
سلیم صاحب کا شمار شہر کے مانند لوگوں میں ہوتا ہے ۔ بچوں کی تربیت کے تعلق سے ان کی مثال دی جاتی ہے۔ دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں۔ دو بیٹیوں کی شادی ہو چکی اور تیسری گریجویشن کر رہی ہے۔ گھر کا ماحول بہت پیارا ہے صبح کا ناشتہ ہو یا رات کا کھانا دونوں بیٹے اور بیٹی والدین کے ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر کھاتے ہیں۔ گھر میں باہر سے کھانے پینے کی اضافی اور شوقیہ اشیاء پیتزا ، فرائڈ چکن ، آئس کریم ، موموز ، چاؤمن ، گرم سموسے، جلیبیاں اور گاجر کے حلوے موسمی پھل وغیرہ جو کچھ آتا ہے اسے سب ساتھ میں انجوائے کرتے ہیں ۔
بڑے ارمان سے بڑے لڑکے سلمان کی شادی کی گئی اور شروعات کے چند دن سلمان اور اس کی بیوی حسب معمول ڈائننگ ٹیبل پر ساتھ کھاتے رہے مگر رفتہ رفتہ تبدیلی آتی گئی اور سلمان اپنی بیوی کے لئے کچھ نئے پھل ، میوہ جات اور مٹھائیاں لانے لگا جسے دونوں اپنے بیڈ روم میں کھاتے اس کے بعد بسا اوقات صبح کا ناشتہ بھی بیڈ روم میں دونوں ساتھ میں کھانے لگے ۔
بادی النظر میں یہ عام سی بات تھی لیکن والدین کو یہ گوارہ نہیں تھا اور اب بہو کے تئیں ساس سسر اور نند بالخصوص بیاہی نندوں کی نظر اور نظریہ بدلنے لگا اور سارا الزام بہو پر کہ اس نے ان کے بیٹے اور بھائی پر قبضہ کر لیا ہے۔ اب بہو کے ہر کام میں نقص نکالا جاتا اور معاملہ یہاں تک پہنچا کہ بہو نے اس گھر میں رہنے سے انکار کر دیا۔
ایک روز لڑکی کے والد نے ماجرا سنایا ۔ کافی متفکر تھے۔ لڑکی کی والدہ جذباتی قسم کی خاتون ہیں دور اندیشی سے کوسوں دور ہونے کی وجہ سے دوران گفتگو بار بار "علحدہ رہائش نہیں تو علحدگی” کا جملہ دہراتیں۔
میں لڑکی کے والد کے ساتھ معاملہ سمجھنے اور دونوں فریق کو سمجھانے کی غرض سے لڑکی کے گھر گیا۔ سفر کے دوران والد کے اندر قدرے لچک اور معاملہ فہمی محسوس کیا۔ وہاں پہنچ کر دونوں فریق کی باتیں سنیں۔
لڑکے کے والدین نے بتایا کہ ان کا لڑکا اتنا فرمانبردار تھا کہ ان کی اجازت کے بغیر کہیں جاتا نہیں تھا آفس سے گھر آتا اور یہیں اپنا وقت گزارتا تھا۔ کام سے لوٹنے کے بعد گھنٹوں ماں کے پاس یا باپ کے پاس بیٹھتا تھا بھائی بہن گپ شپ کرتے تھے لیکن پھر یہ لڑکی (بہو) آئی اور اس گھر کے خوشگوار ماحول کو مکدر کر دیا اب سلمان بمشکل پانچ سات منٹ ماں باپ کے پاس بیٹھتا ہے۔ اب کچھ لاتا ہے تو سیدھے اپنے بیڈ روم میں لے کر چلا جاتا ہے اور وہیں سے نکال کر ہم لوگوں کو کچھ دیتا ہے۔ کنواری بہن پر بیوی کی خوشیوں کو ترجیح دیتا ہے۔ پہلے اس کے جوڑے وہ اپنی پسند سے لاتا تھا مگر اب میں (والد) اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر جاتا ہوں اور اس کی پسند کے کپڑے اور جوتیاں وغیرہ دلاتا ہوں۔
میں نے پوچھا کہ سر آپ کا بیٹا سلمان شادی کے بعد جو کچھ کر رہے ہیں کیا وہ غلط ہے ؟ کیا اس کی اپنی ذاتی زندگی نہیں ہے ؟۔ کیا وہ آپ لوگوں کے حقوق اور فرمانبرداری کے ساتھ اپنی بیوی کا حق اور تالیف قلوب کے لئے اس کے ساتھ بیڈ روم میں ناشتہ کھانے اور کبھی کبھی باہر جاکر ریسٹورانٹ میں کھانے سے آپ والدین کے احترام اور اطاعت میں کمی ہوتی ہے ؟ اگر بفرض محال کمی ہوتی بھی ہے تو اس میں اس کی بیوی کا کیا قصور ہے کہ اسے ٹارچر کیا جاتا ہے طعنے دیئے جاتے ہیں ؟ اگر آپ کے خیال میں آپ کے صاحبزادے غلطی کر رہے ہیں تو اس پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ دوسری بات یہ کہ چوبیس پچیس سال تک آپ نے بیٹے کی تربیت کی کیا وہ اتنی کمزور تھی کہ کوئی لڑکی چند مہینے میں ،بقول آپ کے، آپ سے چھین لیا یا قابض ہو گئی !
دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا آپ نے اپنی شادی کے شروعاتی دور میں یہ سب نہیں کیا تھا ؟
اگر آپ لوگ اپنے رویے میں اصلاح کریں تو میں نہیں سمجھتا کہ آپ کی بہو علحدہ مکان میں رہنا چاہے گی۔
لڑکی کو کئی مشاہدات اور واقعات کے حوالے سے سمجھایا کہ علاحدہ رہنے میں جو پریشانی ہوتی ہے اس کا احساس پہلے بچے کی ولادت کے بعد اتنی شدت سے ہوگا کہ تم اپنی ساس سے دست بستہ معذرت چاہو گی۔ نومولود کی دیکھ ریکھ آیا کر لے گی لیکن اپنائیت اور شفقت و محبت سے گوندھی ہوئی لوریاں دادی جان ہی سنا سکتی ہیں اور بچے دادا دادی کی جان ہوتے ہیں ۔
تمہارے والد تمہارے لئے نہ صرف تمہارے شوہر سلمان کو پسند کیا تھا بلکہ سلمان کے والدین اور خاندان سے رشتہ جوڑا تھا اور اسی گھر کو دیکھ کر گئے تھے تو پھر آج اس مکان میں گھٹن کیوں محسوس کرتی ہو۔
تم پڑھی لکھی گریجویٹ لڑکی ہو اپنے مسائل خود حل کرنا سیکھو ۔ یہ ہر دوسرے تیسرے روز اپنی ماں کو ہر چھوٹی بڑی بات کیوں بتاتی ہو۔ فالٹی لائن کو خود درست کر کے مینیج کرنا سیکھو ۔
اپنی امی اور شادی شدہ بہنوں سے ٹیوشن لیتی رہو گی تو امتحان میں فیل ہو جاؤ گی۔ اس لئے اس کام کے لئے موبائل کا استعمال جتنا کم ہو خوش حال زندگی کی گارنٹی اتنا ہی زیادہ ہو گی ۔
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
آج سماج ومعاشرہ میں بے حیائی، فحاشی اور عریانیت نے جس قدر راہ پالیا ہے، اس کی بڑی وجہ ستر وحجاب کے سلسلہ میں اسلامی احکام کی ان دیکھی ہے، مغرب نے آزادیٔ نسواں کے نام پر عورتوں کو گھر سے باہر نکالا، حجاب اور پردہ کو دقیانوسی قرار دے کر ایسا پروپیگنڈہ کیا کہ عورتوں کو حجاب، قید وبند نظر آنے لگا، چنانچہ وہ بے محابا بازاروں، گلیوں، کوچوں اور حد یہ کہ کوٹھوں کی زینت بننے لگیں، انہوں نے صرف حجاب نہیں اتارا، وہ مادر وپدر آزاد ہوگئیں، اس آزادی کے نتیجے میں ان کی عریاں تصویریں ماچس کے ڈبے سے لے کر بڑی بڑی مصنوعات کے پیکٹوں پر چھپنے لگیں، عورتیں ناقص العقل ہوتی ہیں، وہ مردوں کی اس سازش کو نہ سمجھ سکیں کہ مردوں نے اپنی تفریح طبع اور آنکھ سیکنے کے لیے انہیں چادر اور چہار دیواری سے نکالا ہے، مرد عورتوں کا ہاتھ بچوں کی ولادت اور دودھ پلانے میں تو نہیں بٹا سکتا، مگر روزی روٹی کے حصول میں مردوں نے عورتوں کو اپنا شریک وسہیم بنالیا، اب عورت گھریلو ذمہ داری بھی ادا کرتی ہے، نسل کی بقا کا بوجھ بھی اس پر ہے اور دن بھر آفس میں غیر مردوں کی نگاہوں کا نشانہ بنتی ہے اور گھر جب تھکی ماری آتی ہے تو گھر کا کچن اس کا انتظار کررہا ہوتا ہے، اس طرح آزادی کے نام پر عورتوں کے استحصال کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔
اسلام نے آزادی نہ مردوں کو دی، نہ عورتوں کو، دونوں کو احکام الہی کا پابند بنایا، صنفی رجحانات کے پیش نظر ان کی ذمہ داریاں الگ الگ قرار دیں، دونوں کے حقوق مقرر کیے اور دونوں کو فرائض بھی سونپے اور اس قدر حقوق دیئے کہ دوسرے مذاہب میں اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی، دونوں کی خدمت کا دائرہ کار مقرر کیا، مرد کو نفقہ کے حصول کے لیے تگ ودو کا مکلف بنایا اور عورتوں کو بچوں کی پرورش وپرداخت، شوہر کے مال کی نگہداشت اور امور خانہ داری کی انجام دہی کا ذمہ دیا۔
عورتوں نے اس تقسیم کو پسند نہیں کیا اور وہ مردوں کے محاذ میں جاگھسیں اور یہ بات بھول گئیں کہ یہ محاذ ان کی صنفی صلاحیتوں کے اعتبار سے قطعا غیر مناسب ہے، وہ گھر کے ماحول کو اسلامی رکھ کر اور بچوں میں غیرت اسلامی پیدا کرکے انہیں مجاہد بنانے کے لیے جد وجہد کرسکتی ہیں، لیکن وہ مجاہد بنانے کے بجائے خود میدان کارزار میں کودنا چاہتی ہیں، اس کی مثال ایسے ہی ہے کہ کسی اسلحہ ساز کمپنی کو محاذ پر لے جا کر رکھ دیا جائے تو یہ کمپنی میدان کارزار میں کیا کرلے گی، بلکہ ہوسکتا ہے اس کی حفاظت کی جدو جہد میں جیتی جنگ بھی ہار میں بدل جائے، ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ عورت خود مجاہدہ نہیں؛بلکہ وہ مجاہد پیدا کرنے کا کارخانہ ہے اور جب سے اس کارخانہ نے اپنا یہ کام چھوڑ دیا، مجاہد کی تعداد گھٹتی چلی گئی۔
آزادی کے نام پر عورتوں کا ایک طبقہ تو وہ ہے جس نے حجاب اتار پھینکا ہے، اور ان کا خیال ہے کہ نقاب لگانے سے مردوں کی نگاہ اس طرف زیادہ اٹھتی ہے، حضرت تھانویؒ کے ایک خلیفہ صوفی عبد الرب تھے، وہ کہا کرتے تھے کہ چلو حجاب اتار دو، اب جو لوگ گھوریں گے تو کون کون سے کپڑے اس ڈر سے اتاروگی۔
عورتوں کی ایک جماعت وہ ہے جس نے حجاب کو بے حجابی کا ذریعہ بنا رکھا ہے، ایسا پرکشش، اعضا کے سارے ابھار کو نمایاں کرنے والا نقاب پہنتی ہیں کہ خواہی نخواہی آنکھیں اٹھ جاتی ہیں، یہ کاسیات عاریات کی قبیل سے ہیں، اور دعوت گناہ کی مرتکب ہیں۔ ماضی قریب کے مشہور بزرگ حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحبؒ بار بار فرماتے تھے کہ آئوٹ لک(Out Luck)پر اگر نگاہ ٹک گئی تو ان پٹ (In Put) تک پہنچنے کی خواہش جوان ہوجاتی ہے۔اس لیے شریعت نے ہر دو کو غض بصر کا حکم دیا، بلکہ عورتوں سے پہلے مردوں کو حکم دیا کہ وہ غص بصر کریں اور شرمگاہ کی حفاظت کریں۔ حضرت حکیم صاحب کبھی یہ بھی فرماتے کہ اگر کسی نے اوپری منزل پر جگہ بنا لی، تو گرائونڈ فلور تک پہنچنے سے اسے روکا نہیں جاسکتا، اس جملہ کی معنویت پر جتنا غور کریں گے،نگاہ اور شرمگاہ کی حفاظت کی معنویت اتنی ہی واضح ہوجائے گی۔
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کوپیداکیا، اورمرد وعورت کی تخلیق کی، توالد وتناسل کاسلسلہ جاری کیا اورہر دوصنف (مردو عورت) کو اوصاف حمیدہ اور اخلاق حسنہ کے حصول کے یکساں مواقع عطا فرمائے اور اپنے جود وکرم ،بخشش وعطامیںکوئی تفریق نہیںکی اور دونوں کے لئے تعلیم کو ضروری قرار دیا،یہی وجہ ہے کہ عہدنبویؐ میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی تعلیم کے حصول میں کوشاں رہتی تھیں اور اس سلسلہ میں کسی قسم کی کمی کا انھیں احساس ہوتا تو دربار رسالت میں استفسار کرتیں اور تعلیم وتعلم کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیتیں۔بخاری شریف کی ایک حدیث سے جس کے راوی حضرت ابوسعید خدریؓ ہیں، نقل کرتے ہیں کہ ایک دفعہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس عورتوں کاایک وفد آیااور عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! مردعلم حاصل کرنے میںہم سے آگے بڑھ گئے ؛اس لیے آپؐ ہمارے لیے کوئی دن مخصوص فرمادیں۔چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن کا وعدہ فرمایا، اس دن آپؐ عورتوں کو نصیحت فرماتے، احکام الٰہی کی تعلیم دیتے، پھر عورتیںموقع بہ موقع حاضر ہوکر استفسارات کرتیں اور اپنے اشکالات دورکیاکرتیں ،مؤرخین اورسیرت نگاروں نے بہت ساری صحابیات کا تذکرہ کیا ہے، جن کا علم وفضل مسلّم تھا، خودام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ بڑی عالمہ، فاضلہ اور فقہ وفتاویٰ میں مجتہدانہ درک رکھتی تھیں، ان کی مرویات کی تعداد دوہزار دوسو دس ہے، کثرت روایت میں پورے ذخیرہ حدیث میں آپ کا نمبر چوتھاہے، عمر رضا کحالہ نے اعلام النساء کی پانچ ضخیم جلدوں میں خواتین کے علمی مقام اور ان کی خدمات کا تذکرہ کیاہے۔ سلطا ن محمد تغلق ۱۳۲۴ھ تا ۱۳۵۱ھ کے عہد میں مقریزی کی روایت ہے کہ تعلیم اس قدر عام تھی کہ کنیزیں تک حافظ قرآن اور عالم ہوتی تھیں۔
اور دور کیوں جائیے ماضی قریب میں حضرت مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی والدہ خیر النساء بہترؔ اوربہن امۃ اللہ تسنیمؔ کے علم وفضل کودیکھئے، شعروشاعری ،حدیث وقرآن کا اتنا اچھا علم، بہت سارے ان مردوں کوبھی نہیں ہے، جنھوں نے اسلامی جامعات میںتعلیم حاصل کی ہیں۔
اس طرح عورتوں کاتعلیم حاصل کرنااسلامی بھی ہے اوراسلاف کی روایات کے عین مطابق بھی، لیکن یہاں یہ سوا ل باقی رہ جاتا ہے کہ انھیں کیا پڑھایا جائے؟ اور کس طرح پڑھایا جائے ،کیا پڑھایاجائے کہ اس کا جواب یہ ہے کہ انھیں دینیات ،تہذیب نفس اور تدبیر منزل کی تعلیم تولازماً دینی چاہئے، دینیات سے انھیں معاشرت ،معاملات اور عبادات میں اسلامی طریقہ کار کا پتہ چلے گا،تہذیب نفس کی تعلیم سے ان میںاخلاق حسنہ پیدا ہوں گے اور تدبیر منزل سے واقفیت انھیں خانگی امور کے بحسن وخوبی انجام دینے میں معاون ہوگی، اس طرح وہ گھر کی چہاردیواری میں رہ کر بھی اپنے خاندان کی نگہداشت بچوں کی تعلیم وتربیت اور صالح معاشرہ کی تشکیل میں اپنی حصہ داری ادا کرسکیں گی۔
ان کے علاوہ کچھ علوم تووہ ہیں جن کی ضرورت عورتوں کوپڑتی ہے مثلاً طب ومیڈیکل سائنس ایسے علوم کا حاصل کرنا عورتوں کے لیے لازمی تو نہیں لیکن مستحسن ہے اس لیے کہ عورتوں میں میڈیکل سائنس کی تعلیم ہونے سے عورتیں اپنے امراض کے لیے زیادہ ان سے رجوع ہوں گی اوریہ مردوں کے ذریعہ تشخیص کرانے سے ان کے حق میں زیادہ بہتر ہے۔
بعض علوم ایسے ہیں جوعورتوں کے لیے زوائد کے درجہ میںہیں، جیسے انجینئرنگ ، پولٹیکل سائنس وغیرہ ان علوم کی سماج کوضرورت ہے،لیکن عورتوں کے ان علوم کے نہ پڑھنے سے سماج میں کوئی پریشانی نہیں پیدا ہوتی بلکہ مرد کا ان علوم کا پڑھنا اور سماجی ضروریات کی تکمیل کرنا کافی ہے۔
کس طرح پڑھایاجائے ، کا جواب یہ ہے کہ ان کے مخصوص تعلیمی ادارے ہوں، جہاں مرد وعورت کے اختلاط کا کسی درجہ میں امکان نہ ہو، آمد ورفت میں پردہ کا معقول نظم ہواور اس پر سختی سے عمل کیا جائے۔
آج سارا بگاڑ مخلوط تعلیم اور بے پردہ آمد ورفت کی وجہ سے پیداہوگیاہے، عصری درسگاہوں میں پڑھنے والی لڑکیوں نے اپنا حجاب اتار پھینکا ہے، اور مغرب کی فیشن پرستی نے انھیں اتنا بے لگام کردیاہے کہ ہر چیز میںانھیں مردو ں کی نقالی کی عادت سی پڑ گئی ہے، وہ خاتون خانہ کے بجائے سبھا کی پری ہونے میں فخر محسوس کرتی ہیں، اکبرالٰہ آبادی نے اسی صوت حال کو سامنے رکھ کر کہا تھا:
تعلیم عورتوں کی ضروری تو ہے مگر خاتون خانہ ہوں ، وہ سبھا کی پری نہ ہوں
آج جب کہ مدارس، اسکول اورجامعات کی بہتات ہے ، مسلمانوں کے ایسے کئی تعلیمی ادارے وجودمیں آگئے ہیں، جن میںلڑکیوںکی تعلیم کانظم اسلامی اصول کو سامنے رکھ کرکیاگیاہے،اب لڑکیاں عالمہ، فاضلہ بھی بن رہی ہیں ،اورعصری علوم میں دستر س بھی رکھ رہی ہیں۔
اس دور میں جبکہ ہر طرف لادینی ، مذہب بیزاری اورمادّیت کا غلبہ ہے، اورفضائوںمیں یہ افکار اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ ہر وقت فضائی آلودگی کی طرح ان سے دل ودماغ کے متاثر ہونے کاخطرہ رہتاہے، تعلیم نسواں کی اہمیت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ لیکن اس سے کہیں زیادہ اہم ان کی عفت وپاکدامنی کی حفاظت ہے ،ایسے میں ہمیں تعلیم نسواں کے سارے نظام کو ازسر نو ترتیب دینا ہوگا جس سے لادینی اور اخلاقی انارکی پر بند باندھا جاسکے، ایک نئی حکمت عملی اپنانی ہوگی جس سے ان کے سماجی شعور میں بیداری پیدا ہو اور انھیں اسلامی خد وخال کے موافق تبدیلی قبول کرنے پر آمادہ کیاجاسکے۔ ان کے اندر خدا پرستی کاجذبہ پیدا ہو، اور مادّیت کے اس دور میں وہ خود بھی روحانی قدروں کواپنائیں اوریہ صفت اگلی نسلوں تک منتقل کرسکیں۔ اگر ہم تعلیم نسواں کے میدان میں اپنے جدوجہد سے ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو سمجھئے کہ ہم نے آئندہ نسلوں تک دین کو اس کی اپنی اصلی شکل وصورت میں منتقل کرنے کاسامان کردیا۔ اورایک بڑی ذمہ داری سے ہم عہدہ برآ ہوسکے۔
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
انسان علمی ، سائنسی اور تحقیقی میدان میں آگے بڑھ رہا ہے اور اس نے اپنے علم وعمل سے تسخیر کائنات کے قرآنی نظریہ اور الٰہی فرمان کو سچ کر دکھایا ہے، لیکن اس کے بر عکس دین وشریعت سے دوری نے اس کی ذاتی زندگی کو اجیرن بنا رکھا ہے، خاندان ٹوٹ رہا ہے اور ذہنی سکون چھنتا جا رہا ہے، حالاں کہ اللہ رب العزت نے انسانی زندگی میں مرد وعورت کے نکاحی رشتے کو مودت ومحبت اور پر سکون زندگی کا سبب قرار دیا تھا ، لیکن ہماری بے عملی، بدعملی اور اس رشتے کے احترام کی لازمی اہمیت کے نظر انداز کرنے کی وجہ سے گھر میں سکون وطمانینت جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہی، بیش تر گھروں میں خانگی زندگی کو آپسی جھگڑے اور غلط فہمیوں نے بر باد کر رکھا ہے ، اس لیے گھر کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے، یہ درستگی گھر کو پر سکون بنا نے کے لیے اصول کے درجے میں ہے، ہماری خانگی زندگی کی بے تربیتی کے اثرات بچوں کی ذہنی نشو ونما پر پڑتے ہیں، ہم نے بچوں کی تربیت کا کام اسکولوں اور کنونٹوں کے ذمہ کر دیا ہے، جہاں اعلیٰ اخلاق اقدار کے فروغ کا کام تمام ہو چکا ہے، مادہ پرستی نے ا نہیں ایک صنعتی کار خانہ بنا دیا ہے جہاں نصاب پڑھا دیا جاتا ہے ، اقدار نہیں پڑھائے جاتے ،ایسے میںہماری ذمہ داری کا فی بڑھ گئی ہے، ہمیں اپنے گھر کے نظام کو چست درست رکھنا ہوگا، اور اس کے لیے ملکی قوانین وضوابط کی طرح کچھ اصولوں کو گھر میں رائج کر نا ہوگا ، تاکہ ہماری خانگی زندگی اور گھر یلونظام دوسروں کے لیے بھی اسوہ اور نمونہ بن سکے اور پر سکون ماحول میں بچے اچھی تربیت پا سکیں۔
سب سے پہلا کام یہ کرنا ہوگا کہ گھر کا ہر فرد نماز وقت پر ادا کرے،قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرے، نماز بندگی ، عاجزی، در ماندگی، بے کسی اور بے بسی کے اظہار کا بڑا ذریعہ ہے، نماز کی پابندی سے تواضع اور انکساری پیدا ہوتی ہے اور اپنے کو بڑا سمجھنے کے بجائے اللہ کی بڑائی کا خیال ذہن ودماغ پر جمتا ہے، جو سار ے جھگڑوں کے ختم کرنے کا سبب بنتا ہے ، اس لیے کہ جھگڑے اپنی بڑائی کے خیال سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔
گھر کا ہر فرد کسی نہ کسی درجہ میں اپنے مقام مرتبہ اور حیثیت کے اعتبار سے انا کا شکار ہوتا ہے، اور اس انانیت کی وجہ سے وہ دوسرے لوگوں کو اپنے سے کم تر سمجھتا ہے، ان کے حقوق کی ادائیگی میں کوتاہی کرتا ہے، اس لیے معاملہ بگڑتا چلا جاتاہے، یہ بیماری ختم نماز کے ذریعہ ہی ہو سکتی ہے، ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ تواضع اختیار کریں، آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے تواضع کو رفع درجات کا سبب بتایا ہے۔ من تواضع رفعہ اللہ
گھر کے ماحول کو خوشگوار بنانے کے لیے برائے مہربانی اور شکریہ کے کلمات کو رواج دینا چاہے اس سے ایک دوسرے کی وقعت دل میں بڑھتی ہے، آتے جاتے سلام کے الفاظ دل کے دروازے ایک دوسرے کے لیے کھولتے ہیں، یہ آداب ملاقات بھی ہے اور لوگوں کے لیے سلامتی کی دعا بھی ، گھریلو مسائل جو بھی ہوں انہیں آپس میں ادب واحترام کے ساتھ ایک دوسرے کو منتقل کر نا چاہیے ، مار پٹائی ، گالی گلوج، لعن طعن سے بچنا چاہیے، عورتوں اور بچوں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی غلط حرکت ہے، یہ ہمارے خاندان کے کمزور افراد ہوتے ہیں، اور کمزوروں پر ہاتھ اٹھانا انتہائی بزدلی کی بات ہے، تنبیہ کی گنجائش تو ہے لیکن اس کا اسلوب بھی جارحانہ نہ ہو، اس لیے کہ یہی جارحیت خانگی زندگی کو جو الا مکھی اور آتش فشاں بنا دیتی ہے۔
خانگی نظام کو ٹھیک رکھنے میں ادب واحترام کے ساتھ خوش سلیقگی کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے،خوش سلیقگی یہ ہے کہ جب کوئی بات کرے تو توجہ سے سنی جائے ، خواہ وہ بچہ ہی کیوں نہ ہو ،ا س سے اس کے اندر یہ احساس جاگے گا کہ میری بات توجہ سے سنی گئی اور اسے اہمیت دی گئی ، اہمیت کا یہ احساس گھروں میں جو باغیانہ تیور نئی نسلوں میں پیدا ہو رہے ہیں، اسے ختم کر نے میں معاون ومدد گار ہوگا ، یہ سلیقہ گھروں میں نظر بھی آئے اس کا طریقہ یہ ہے کہ گھر کا ہر فرد اپنے ذمہ لازم کر لے کہ جو چیز جہاں سے اٹھائے گا وہیں رکھے گا ، دروازہ اور کھڑکی کھولا ہے تو ضرورت پوری ہونے کے بعد اسے بند بھی کرے گا ، رات کو بارہ بجے کے بعد کوئی جاگا نہیں رہے گا ، فضول گفتگو نہیں کرے گا ، رات کے اس حصہ میں وہاٹس ایپ اور دوسرے ذرائع کا استعمال بھی نہیں کرے گا ، یہ پابندی آپسی مجلسی گفتگو کے وقت بھی جاری رہے گی ۔
انفرادی طور پر کھانے کے بجائے اجتماعی طور پر خورد ونوش بھی گھر کے ماحول کو ساز گار بنانے میں انتہائی معاون ہوتا ہے، اوراس سے بہت ساری غلط فہمیوں کا دروازہ بند ہوتا ہے،اپنے ضروری کام خود انجام دے لینا بھی اسوۂ رسول ہے، اپنے چھوٹوں پر رعب ودبدبہ کے ساتھ حکم جمانا بچوں کی نفسیات کے لیے مضر ہے، البتہ تربیتی نقطۂ نظر سے ایسا ماحول بچوں کو فراہم کرنا چاہیے کہ وہ اپنے بڑوں کی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور اسے اپنی سعادت سمجھیں ، در اصل یہ دو طرفہ الفت ومحبت کا معاملہ ہے ، آپ چھوٹوں پر رحم کریں گے تو وہ اپنے بڑے کی تو قیر کریں گے، گھر میں اگر وسعت ہو اور ہر ایک کے لیے الگ الگ کمرے مختص ہوں تو حتی الامکان دوسرے کے کمرے میں جانا اس کے سامان کو الٹ پلٹ کرنا بھی ممنوع ہونا چاہیے، جانا ضروری ہو تو دروازہ پہلے کھٹکھٹا یا جائے، سلام کیا جائے، یہ سلام استیذانی کہلاتا ہے،سلام کا جواب مل جائے اور صاحب کمرہ استقبال کی پوزیشن میں ہو تو ضرور جانا چاہیے، بچوں کی تربیت کے لیے اچھے کاموں اورامتحان میں اچھے نتائج کے موقع سے حوصلہ افزائی بھی ضروری ہے، اس سے آگے بڑھنے کا حوصلہ اور جذبہ پیدا ہوتا ہے، گھر کے کسی فرد کی بیماری پر تیمار داری اور عیادت سے بھی آپسی محبت پروان چڑھتی ہے، اس لیے اس کام کو دوسری ضروریات پر مقدم رکھنا چاہیے، خانگی زندگی کو پر سکون رکھنے کے لیے اصول اور بھی ہیں فی الوقت اتنا ہی ، باقی پھر کبھی۔
بچوں کی تربیت والدین کی ایک اہم ذمہ داری ہے ۔ ناقص تربیت اور اس میں کوتاہی سے آنے والی نئی نسل کا مستقبل تباہ و برباد ہوسکتا ہے، اس لیے والدین کوان کی تربیت اور نگہداشت کے تئیں بہت ہی حساس اور سنجیدہ ہونے کی شدید ضرورت ہے ۔ عموماً بچوں کی تربیت کے سلسلے میں والدین میں اس وقت فعالیت آتی ہے جب بچہ اپنی توتلی زبان سے بولنے کی ابتدا کرتا ہے ۔ یاد رکھیں ، یہ کوشش اس وقت سے ہی شروع ہوجانی چاہئے جب والدین رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے جارہے ہوتے ہیں۔ رشتہ ازدواج انسانی فطرت کی آسودگی کا ایک صالح طریقہ ہے۔ اس سے انسان کو جہاں ایک طرف نفسیاتی آسودگی حاصل ہوتی ہے وہیں نسلوں کو آگے بڑھانے کا ایک بہترین ذریعہ بھی میسر ہوتا ہے ۔اس سے نظام معاشرہ مستحکم ہوتا ہے اور نسل آگے بڑھتی ہے۔ بچے کی اچھی پرداخت و پرورش کرکے معاشرے کا ایک مثالی فرد بنانا والدین کی ذمہ داری ہے جس کے لیے ابتدائی ایام سے ہی نتیجہ خیز منصوبہ بندی ہونی چاییے ۔اس منصوبہ بندی کا آغاز بچہ کا ماں کے پیٹ میں آنے سے پہلے ہی ہوجانا چاہئے ۔ یعنی زوجین اول ملاقات کے وقت سے ہی ایک نیک، صالح اور معاشرے کا معیاری فردبننے والا بچہ پیدا ہونے کی خواہش کے ساتھ جب باہم ملیں تو صاف ستھرے ہوں، خوش اسلوبی سے ملیں، مسنون دعائیں پڑھیں ، اس کے نتیجے میں اللہ جو تحفہ اولاد کی شکل میں عطا کرے گا وہ یقینا آپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گا۔اس لئے لازمی ہے کہ والدین خود رشتہ ازدواج میں بندھنے سے پہلے ہی بچوں کی تر بیت کے طور طریقے سیکھ لیں ۔یہ تربیت مختلف طریقوں سے حاصل کی جاسکتی ہے ، لائبریریوں، بک اسٹالوں میں موجود کتابوں اور نیٹ و دیگر مستند ذرائع سے ۔ ذریعہ کوئی بھی ہو لیکن معلومات لازمی طور پر لے لینی چاہیے۔
بچوں کی تربیت کے سلسلے میں یہ نکتہ بھی بہت اہم ہے کہ جب ماں حاملہ ہوجاتی ہیں تو اسی وقت سے پیٹ میں پل رہے بچے پر ماں کے افکار و خیالات کے اثرات پڑنے شروع ہوجاتے ہیں ۔ ایک مخصوص مدت کے بعد بچہ خارجی ماحول سے متاثر ہونے لگتا ہے۔ اس پر متعدد تجربات ہوئے ہیں۔ ایک تجربہ میں کچھ حاملہ عورتوں کو دوران حمل ایک مخصوص قسم کی موسیقی سنائی گئی۔ولادت کے بعد دیکھا گیا کہ بچہ اس مخصوص موسیقی سے اتنا مانوس ہوچکا تھا کہ جب اسے وہی مخصوص موسیقی سنائی جاتی توبچہ آسودگی اور سکون محسوس کرتا اور جب کوئی دوسری موسیقی سنائی جاتی تووہ بے چینی محسوس کرنے لگتا ۔ یہ بات بہت مشہور ہے کہ اسرائیل میں حاملہ خواتین کو تنائو سے محفوظ رکھنے کا خاص اہتمام کیا جاتا ہے ۔ وہاں کی مائیں اپنے بچوں کی تربیت کا آغاز اس وقت سے ہی کردیتی ہیں جب وہ جنین کی شکل میں ہوتا ہے۔ اس حالت میں مائوں کو صاف ستھری فضا میں سانس لینے ، خوش رہنے کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔جب حمل کے تین ماہ گزر جاتے ہیں تو مائوں کو ہر طرح کے ذہنی دبائو سے دور رکھنے کے ساتھ اچھا لٹریچر پڑھنے کو دیا جاتا ہے اور انہیں آسان ریاضی (سمپل میتھمٹک پرابلم) حل کرنے کے لئے کہا جاتاہے۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ آج دنیا میں ترقی کرنے کے لئے ریاضی مشق بہت ضروری ہے ۔جب ماں ریاضی مشق کرتی ہیں تو ان کی یہ صلاحیت بچے میں منتقل ہوتی ہے اورہ وہ بچہ بڑا ہوکر عبقری شخصیت کا مالک بنتا ہے ۔آج کے دور میں اسرائیل بڑے بڑے سائنسداںپیدا کررہا ہے ۔ظاہر ہے یہ جنین کی اچھی دیکھ ریکھ کا نتیجہ ہوسکتا ہے۔
اسلامی تعلیمات میں بھی حاملہ ماؤں کو جہری انداز میں تلاوت قرآن کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس مدت میں مائیں صدقات و خیرات کا زیادہ سے زیادہ اہتمام کریں۔خوشگوار ماحول میں رہیں، اچھی باتیں سنیں۔نماز کی پابندی کریں۔نماز سے بچے کی نشو و نما پر مثبت اثرات پڑتے ہیں۔ بچہ ماں کے عمل اور اطراف کے خارجی ماحول کے اثرات قبول کرتا ہے۔جب بچہ اپنی ماں سے قرآن کی تلاوت سنے گا تو اس کے اثرات اس پر پڑیں گے ۔ وہ انہی چیزوں سے مانوس ہوگاجو ماں کے پیٹ میں سنا یا محسوس کیا ہوگا ۔مائوں کو چاہئے کہ وہ تاریخ کی اہم شخصیتوں کی تربیت میں ان کے والدین کے طور طریقے اور ان کی گود میں پرورش پانے والی ہستیوں کے کمالات کا مطالعہ کریں۔یہ دیکھا گیا ہے کہ حمل کے دوران کچھ مائیں اپنا وقت موبائل پر لایعنی پروگرامس دیکھنے میں گزارتی ہیں۔موبائل پر عریاں مناظر دیکھنے، غیر اخلاقی مضامین پڑھنے اور نازیبا حرکات و سکنات سے گریز کریں۔آپ آنے والے ایک نئے مہمان کے استقبال کی تیاری میں ہیں، لہٰذا کوئی ایسا عمل ہرگز نہ کریں جو اس کی تربیت کو منفی سمت میں لے جانے کا موجب بنے۔ بچوں کی معیاری تربیت کے لئے مائیں ٹریننگ لیں۔ان کی کونسلنگ ہونی چاہیے۔گھر کے تمام افراد، خاص طور پر بزرگ خواتین کی ذمہ بڑھ جاتی ہے کہ وہ آنے والے نئے مہمان کی تیاری کے لئے بچے کی ماں کو ہر اعتبار سے چست و چوبند رکھنے کی سعی کریں۔اس مدت میںزوجین کے باہمی تعلقات شیریں اور احترام پر مبنی ہونا زیادہ ضروری ہے۔ان کے حمل کو تمام اہل خانہ بالخصوص شوہر خصوصی اہمیت دیں۔ خاندان کے لوگ یہ نہ سمجھیں کہ ایک نیا بچہ گھر میں آرہا ہے بلکہ بچے کی شکل میں اللہ کی جانب سے ایک نعمت آپ کو مل رہی ہے ۔ اس عزم کے ساتھ اس کی تربیت کیجیے کہ وہ بچہ بڑا ہوکر عظیم کارنامہ انجام دے اور نوع انسان کے لیے قیمتی سرمایہ بنے ۔غرض ابتدائی مرحلے کی تربیت پرخصوصی توجہ دے کر ایک نوزائیدہ کو مستقبل کا عبقری انسان بنایا جاسکتا ہے۔
ہیڈ مسڑیس مومن گرلز ہا ئی اسکول
[email protected]
عالم کاری کے موجودہ دور میں تعلیم اقوام کی سماجی معاشی اور ثقافتی ترقی کے عمل کو بہتر بنانے کے لیے ایک نظام کے طور پر کام کرتی ہے، جو سماجی تبدیلی کا اہم رکن ہے، جس کا نتیجہ انفرادی آزادی اور خود مختاری ہوتی ہے۔ جو معاشرتی ترقی اور خود انحصاری کو فروغ دیتی ہے لہذا تعلیم میں صنفی مساوات ، خواتین کا مسئلہ نہیں ہے ؛ بلکہ ترقی کا مسئلہ ہے تاہم عدم مساوات عام طور سے حصولِ تعلیم پائی جاتی ہے اور بالخصوص مسلمان عورتوں میں زیادہ پائیدار ہے۔
۲۰۱۱ کی مردم شماری کے مطابق ۱ء۴۸ مسلم خواتین ناخواندہ ہیں۔یہ مضمون اتر پردیش کے مئو ضلع کے شہر مئو ناتھ بھنجن میں منعقد مطالعہ کی بنیاد پر لکھا ہے۔اس کا مقصد ان حالات کا مطالعہ تھا ۔جو مسلمان لڑکیوں کی اسکول جانے میں معاون ہیں یا رکاوٹ بنتے ہیں۔ معاشرے کے مردوں کا تعلیم حاصل کرنا بھی اہم ہے تاکہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کی فیصلہ سازی میں ملوث ہو سکیں ۔یہ اعداد و شمار ان کے والد ین سے لیے گئے ہیں جن کی کم از کم ایک بیٹی چھ سے اٹھارہ سال کی عمر کے درمیان ہے۔
آزادی کے بعد سے ہی حکومت نے تعلیم پر توجہ مرکوز کی ہے تاہم بہت کاوشوں کے باوجود مختلف حلقوں کے درمیان اس موضوع پر تفاوت کو دور نہیں کیا جا سکا ہے۔مسلمان ہندوستان کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت ہیں۔اور آبادی کا ۴ء ۱۴ فی صدہیں۔۲۰۱۱ کی مردم شماری کے حساب سے وہ تعلیمی پسماندگی کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔مسلمانوں کا تعلیمی تناسب اکثریتی فرقہ اور دیگر اقلیتوں کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔۲۰۱۱ء کے اعدادوشمار کے مطابق ۔تعلیم کے حوالے سے خاص طور پر لڑکیوں کی تعلیم میں مسلمانوں کی پسماندگی کی ایک تشویشناک صورتِ حال ہے۔مطالعہ سے اس بات کا انکشاف بھی ہوا ہے کہ لڑکیوں کا تعلیم یافتہ ہونا امورِ خانہ داری میں بھی مددگار معاون ہوتا ہے ۔۷۰ فی صد جوب دہندگان کا جواب تھا کہ پڑھی لکھی لڑکی اپنے گھر اور بچوں کی بہتر نگہداشت کر سکتی ہے۔
یہ نتائج واضح طور پر مئو کے مسلم معاشرے کیے پد رانہ ڈدھانچے کی عکاس ہیں۔ Biswal(2006)کے مطالعے کے مطابق خواتین میں فطری طور پر ممتا کا جذبہ ا ہو تا ہے اور وہ ممتا زہیں لیکن یہ پد رانہ ڈھانچہ انہیں ثانوی درجہ دیتا ہے۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ عورت کی "اوّلین ذمہ داری ” شوہر بچے اور گھر کے افراد کی دیکھ بھال ہے۔
بچوں کی اوّلین درسگاہ والدین ہی ہوتے ہیں ۔جو بچوں کی تعلیم اور شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ بچے کو ابتدائی تعلیم ان کے والدین کو موصول شدہ تعلیم سے حاصل ہوتی ہے۔والدین کی خواندگی ان کے بچوں کی تعلیم پر پوری طرح اثر انداز ہوتی ہے۔ کیوں کہ جو والدین ہائی اسکول کے آگے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔وہ اپنے بچوں کی تعلیمی سرگرمیوں میں زیادہ ملوث پائے جاتے ہیں۔نسبتاََ ان کے جو ہائی اسکول کی تعلیم بھی پوری نہیں کر پاتے کم تعلیم یافتہ والدین بچے کی تدریسی سرگرمیوں میں شرکت نہیں کرتے ۔کیوں کہ انہیں بچوں کے تعلیمی معاملات میں ان کے ساتھ گفتتگو کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتاتحقیق کے نتائج سے یہ ظاہر ہوا کہ ۶۸ء۱۹ فی صد جواب دہندگان کبھی اسکول نہیں گئے اور ۲ء۲۲ جواب دہندگان پرائمری اسکول ۶ء۲۹ فی صد اپر پرائمری اور صرف ۳۰ فی صد سیکنڈری اسکول یا اس کے آگے جا چکے تھے ۔
مطالعہ سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ والدین کا آمرانہ رویہ سے بچے کے رویے اور رجحان کو ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ایک اچھا بچہ بڑوں کی تو قعات پر پورا اترتا ہے۔اچھا رویہ رکھتا ہے ۔سرکشی نہیں کرتا اور گھریلوں امور میں حصہ لیتا ہے۔۳ء۱۸ خواتین جواب دہندگان کہتی ہے کہ مرد گھر کا سربراہ ہوتا ہے اس لیے بیٹیوں سے جڑے تمام فیصلے وہی کرتا ہے۔
۱۰ فی صدی کا یہ ماننا ہے کہ وہ فیصلہ ساز ہیںاس لیے ان کی شریک ِ حیات کا نظریہ بیٹیوں کی تعلیم کے بارے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتا ۔ اس لیے ایک والد کو اپنی بیٹی کو تعلیم کے لیے حوصلہ افزائی کرنی چاہئے بجائے اپنے فیصلے کو ماننے پر مجبور کرنے کے ۔بیٹی کی تعلیم اس بات پر بھی منحصر ہے کہ فیصلہ سازی کا اختیار کسے ہے۔ اگر مائیں تعلیم یافتہ ہیں تو وہ لڑکیوں کے تعلیم کرنے کے فیصلے پر اثر انداز ہوں گی۔
کئی طرح کے عوامل جیسے سماجی ساخت اور ادارے اور تحفظ ، شناخت ، سماجی اقتصادی اور سیاسی عوامل جو روزانہ روشن کی طرح عیاں ہیں ۔جو مسلمان لڑکیوں کی تعلیم میں رکاوٹ ہیں ۔اقتصادی رکاوٹ بھی ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔ممعاشرے میں خواتین کا کردار شادی اوربچوں کی نگہداشت تک محدود ہے عورتوں کی آمدنی میں شراکت کا تصور نہیں ہے۔ لہذا تعلیم میں سرمایہ کاری کی اہمیت نہیں ہے۔ تحقیق کے نتائج کے مطابق ، اوسط خاندان کی آمدنی ۶۲۸۴ روپے تھی جو دولت کی غیر مساوی تقسیم کا پتہ دیتی ہے۔
۲۶ فی صدی جواب دہندگان نے بتایا کہ مالی وجوہات کی بناء پر بچیوں کی تعلیم جاری نہیں رکھی جا سکی لیکن کچھ اور عوامل بھی ہیں جیسے تعلیم کی جانب رویہ خاندانی پس منظر ، خاندانوں کا روز گار ، کاروبای ڈھانچے ،تعلیمی شعور کی کمی ،لڑکیوں میں عدم تحفظ کا احساس ۔والدین کے تعاون کا فقدان بھی لڑکیوں کے حصول ِ تعلیم میں رکاوٹ ہے۔
بنیادی سطح پر مسلمان قیادت کی کمی اور والدین کو تعلیمی میدان میں مدد کی فراہم نہ ہونا بھی ایک وجہ ہے۔
مسلم علماء کا کردار بھی لڑکیوں کی تعلیمی پسماندگی کا ذمہ دار ہے آزادی سے قبل بھی علماء کا انگریزی تعلیم کی مخالفت کا رویہ دیکھا گیا ہے ۔ یہ ناقابل تردید ہے کہ روایتی ہندوستانی علماء نے لڑکیوں کو گھروں تک محدود رکھا ہے۔ ان کا یقین ہے کہ عورت کی بنیادی ذمہ داری شوہر بچو ںکا خیال رکھنا ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ خواتین کا گھر سے باہر قدم رکھنا معاشرے میں ہنگامہ ارائی اور فتنے کا سبب ہوگا ۔ جو ایمان ،شناخت اور اسلامی اخلاقیات کو مسخ کرے گا ۔تاہم گذشتہ چند رہائیوں کے دوران اس رویے کافی تبدیلی آئی ہے۔
گذشتہ دہائیوں میں بڑے پیمانے پر مسلم لڑکیوں کی تعلیم میں تغیر اتی تبدیلی لانے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ لیکن اس معاملے پر زیادہ فعال طریقے سے اور نیک نیتی کے ساتھ کام کرنے کی ضرورت ہے مسلم لڑکوں اور لڑکیوں کو مساوی طور پر تعلیم حاصل کرنی چاہیئے۔ اس کے لیے مسلم رہنما خاص طور سے علماء کو آگے آنا ہوگا کیونکہ مسلم معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے لڑکیوں کی تعلیم میں بہتری لانے کی ضرورت ہے۔
یونیورسٹی ایجوکیشن کمیشن (1949) کی رائے کے مطابق تعلیم یافتہ خواتین کے بغیر تعلیم یافتہ افراد نہیں ہو سکتے ۔ ترقی پذیر ملکوں میں تعلیم نسواں بہت اہمیت کی حامل ہے ایک عورت کا تعلیم یافتہ ہونا تعلیم کا اگلی نسل کو منتقل ہونا ہے بجائے ایک تعلیم یافتہ مرد کے َ۔ہمارے ملک میں طبقاتی شعور تو شاید صرف سائنٹفک تعلیم ہی سے پیدا ہو سکے اور اپنے مقدر پر راضی برضا ہو کر بیٹھے رہنے اور توکل کے عقیدے پر قناعت کر لینے کی تہیں شاید انتہا درجے کی محنت ہی سے چٹخ سکیں ۔
ساتھ ہی لڑکیوںپر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ بھی معاشرے کی ترقی میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتی ہیں اگر انہیں اہمیت د ی جائے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے تو وہ ثابت کر سکتی ہیں۔لڑکیوں کے اس کردار سے لوگوں کو آگاہ کرنے کی ضرورت ہے۔حکومت بھی لڑکیوں کے اسکولوں کو سہولیات فراہم کرے۔اور مسلم اکثریتی علاقوں میں تکنیکی اور اعلیٰ تعلیم کا نظم کیا جانا چاہئے۔ سچر کمیٹی کی طرف سے پیش کردہ رپورٹ میں یہ محسوس کیا گیا ہے کہ اسکولوں کی عدم دستیابی بھی حصول علم میں رکاوٹ ہے۔ساتھ ہی مسلم معاشرے کی مالی مشکلات بھی رکاوٹ کا سبب ہے اس لئے لڑکیوں کی تعلیم کے لیے مالی مدد با لخصوص مسلم لڑکیوں کے تعلیمی اخراجات کو پورا کرنے کے لئے مالی تعاون کی فراہمی کی جانی چاہیے۔ ریاستِ مہاراشٹر کی وزیرِ تعلیم معزز ورشا تائی گائیکواڑ نے جو عملی قدم اٹھایا ہے وہ مسلم لڑکیوں کے خوش آئند مستقبل کے کیے تاریخ ساز ہے اور یہ ثابت کیا ہے کہ انسان وہ نہیں جو اپنی پیدائش کا منطقی مصرف پورا کر لے مشین بن کر جیے اپنی عمر تمام کر لے بلکہ دھوپ بن کر خود اپنے پر پھیلے عود و عنبر سا سلگے کہ خوشبو سنگ و خشت سے آزاد ہے ۔لڑکیوں کے اسکولوں کو آگے بڑھا کر طالبات کی تعلیم کو ممکن بنا کر معزز وزیر نے جتایا ہے کی وہ ان فرزانوں سے تعلق رکھتی ہیں جس کا پڑاؤ کوچہ کوچہ ضرور ہوتا ہے لیکن خود ایک مستقل ، اٹل اور بے مثال کردار رکھتا ہے دنیا کو کچھ دینے والے جس کا لینا دنیا کو یاد رہے اور بھلا لگے ۔ہم شکر گزار ہیں اور مزید مثبت فیصلوں کے منتظر ہیں کہ ذہن کا کوئی دم آخر اور فکر کی کو ئی دمِ واپسی نہیں ہوتی اب ہمارا کام ہے بڑھ کے جام اٹھا لینے کا کہ منزل ہمیشہ ایک قدم کے انتظار میں رہا کرتی ہے کہ وہ اٹھا اور وہ سفر شروع ہوگیا جہاں آنکھ قلندر اور سینہ صوفی ہے مسافر شکستہ پا تو ہو سکتا ہے شکستہ دل نہیں جہاں پیر آپس میں ٹکرا سکتے ہیں سر نہیں ،جی ہاں ایسا سفر جو اپنے آپ میں منزل ہے کہ راہی کو آسودہ کردے ۔
ref:The Companion Ref Biswal,T.(2006) Human Right Gender and environment
(pp.1-25) New Delhi Viva book private limited
کیا بیوی پر بے بنیاد الزامات تہمت کے زمرے میں آتے ہیں؟ ـ ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سوال:
بعض مرد حضرات غصے میں عورتوں کو گالیاں دیتے ہیں ۔ بعض گالیاں تہمت والے انداز کی ہوتی ہیں ۔ کیا وہ بہتان کے زمرے میں آئیں گی؟
جواب:
میاں بیوی کا رشتہ پیار و محبت کا ہوتا ہے ۔ دونوں کو ایک دوسرے سے جسمانی اور روحانی سکون ملتا ہے ۔ دونوں مل کر تمدّن کی ترقی میں حصہ لیتے ہیں اور اپنے سایۂ عاطفت میں بچوں کی پرورش کرتے ہیں ۔ شوہر گھر سے باہر جاکر معاشی جدّو جہد کرتا ہے ، تاکہ اس کے بیوی بچے اطمینان اور سکون کی زندگی گزاریں ، بیوی گھر میں شوہر کے آرام و آسائش کا خیال رکھتی ہے ۔ ہر ایک خود تکلیف اٹھا کر دوسرے کو راحت پہنچانے میں لگا رہتا ہے ۔ دونوں اپنے فرائض پر نظر رکھیں اور اپنی ذمے داریاں ادا کریں تو گھر جنت نظیر بن جاتا ہے ۔
اس معاملے میں مرد کا کردار اعلیٰ اور اس کی ذمے داری بڑھ کر ہے ، اس لیے کہ اسے گھر کا منتظم اور نگراں بنایا گیا ہے ۔ چنانچہ اسے تاکید کے ساتھ حکم دیا گیا ہے کہ بیوی کے ساتھ حسنِ سلوک کرے ۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو مخاطب کرکے ارشاد فرمایا ہے:
وَعَاشِرُوھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ فَإِن کَرِھْتُمُوھُنَّ فَعَسَی أَن تَکْرَھُواْ شَیْْئاً وَّیَجْعَلَ اللّهُ فِیْهِ خَیْراً کَثِیْراً (النساء:19)
’’ان (عورتوں) کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسر کرو ۔ اگر وہ تمھیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمھیں پسند نہ ہو ، مگر اللہ نے اسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو ۔‘‘
حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے خطبہ میں صحابۂ کرام کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا :
الا واستوصوا بالنساء خیراً، فانما ھن عوان عندکم (ترمذی : 1163 ، ابن ماجہ :1851)
’’لوگو ! خبردار ، عورتوں کے ساتھ بہتر معاملہ کرنے کی میں تم کو تاکید کرتا ہوں ۔ اس لیے کہ وہ تمھارے پاس قیدیوں کے مثل ہیں ۔‘‘
اس حدیث میں عورتوں کو ’قیدیوں‘ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ اس میں بڑی بلاغت پائی جاتی ہے ۔ عورت اپنا گھر بار ، ماں باپ ، بھائی بہن چھوڑ کر آتی ہے اور اپنے آپ کو شوہر اور اس کے گھر والوں کے حوالے کر دیتی ہے تو وہ زیادہ الفت و محبت ، دل جوئی ، ہمدردی اور حسنِ سلوک کی مستحق ہے ۔
بعض گھروں میں عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا جاتا ۔ انھیں خادمہ کی حیثیت دی جاتی ہے اور گھر کے چھوٹے بڑے تمام کام اس پر لاد دیے جاتے ہیں ۔ اس کے ایک ایک کام کو خوردبین لگا کر دیکھا جاتا ہے اور معمولی سی غلطی یا کوتاہی پر اسے سخت سست کہا جاتا ہے ۔ بسا اوقات یہ معاملہ اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا ، بلکہ اس کے ماں باپ اور خاندان کو بھی لپیٹ لیا جاتا ہے ۔ فساد تو اس وقت انتہا کو پہنچ جاتا ہے جب ان حرکتوں کا صدور شوہر کی جانب سے بھی ہونے لگتا ہے ۔ وہ بیوی کو حقیر سمجھتا ہے ۔ بات بات پر اسے ٹوکتا ہے اور اس کے کاموں میں خامیاں نکالتا ہے ۔ وہ اسے برا بھلا کہنے اور گالم گلوچ کرنے سے بھی باز نہیں رہتا ۔ جب یہ سب کچھ ہونے لگتا ہے تو گھر جہنم کدہ بن جاتا ہے ۔
معمولی معمولی باتوں پر غصے کا اظہار کرنا ، برا بھلا کہنا اور گالیاں دینا کسی مومن کا شیوہ نہیں ۔ قرآن و حدیث میں اس سے روکا گیا ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَاب (الحجرات :11)
’’ آپس میں ایک دوسرے پر طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ۔ ‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے :
لیس المؤمن بالطعّان ولا باللّعان ولا الفاحش البزیّ (ترمذی:1977)
’’ مومن نہ بہت زیادہ طعنے دینے والا ہوتا ہے نہ بہت زیادہ لعنت ملامت کرنے والا اور نہ وہ فحش گو اور بد زبان ہوتا ہے ۔ ‘‘
طعن و تشنیع اور بد زبانی کا معاملہ کرنا ہر ایک کے ساتھ بُرا ہے ، لیکن جب یہ سب کچھ بیوی کے ساتھ کیا جانے لگے تو اس کی شناعت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے ۔ بیوی میں کچھ کم زوریاں یا خامیاں ہوں تو بھی ان کا ذکر کرکے اسے طعنے دینا پسندیدہ نہیں ، لیکن اگر اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جن کا کبھی بیوی نے ارتکاب ہی نہ کیا ہو تو اس کا شمار بہتان میں ہوگا ، جسے حرام قرار دیا گیا ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والے کے لیے سخت وعید سنائی گئی ہے ۔
جو عورتیں اپنے شوہروں کی جانب سے ایسے ناپسندیدہ رویے کا سامنا کریں ، انھیں چاہیے کہ صبر کا دامن تھامے رہیں ، اپنی زبان پر قابو رکھیں اور شوہر وں یا ان کے گھر والوں کے بارے میں کوئی زیبابات نہ کہیں ۔ بد گوئی کرنے والے کا وبال اس کے سر ہوگا اور وہ صبر اور برداشت کا اجر پائیں گی ۔ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ہے :
واِن امرؤ شتمک وعیّرک بما یعلم فلا تعیّرہ بما تعلم فیہ فإنما وبال ذلک علیہ (ابو داؤد:4084)
’’کوئی شخص تمھیں گالی دے ، یا تمھارے کسی عیب پر تمھیں عار دلائے تو تم اس کے کسی عیب پر اسے عار نہ دلاؤ ۔ اس کا وبال اس کے سر ہوگا ۔ ‘‘
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر عورت پر کوئی غلط الزام لگایا جا رہا ہے تو وہ خاموش رہے اور اسے قبول کرلے ، بلکہ اسے پورا حق ہے کہ وہ حسبِ موقع متانت کے ساتھ وضاحت کردے کہ جو الزام اس کے سر منڈھا جا رہا ہے ، وہ اس سے بری ہے ۔
[ شائع شدہ آن لائن ماہ نامہ ہادیہ ، ماہ فروری 2022 ]
آج گلوبلائزیشن کے دور میں کوئی بھی کام چھوٹا یا بڑا نہیں رہا ۔ چھوٹے سے چھوٹے کام کو بھی بطور روزگار بڑے آب وتاب سے اختیار کیا جارہا ہے ۔ زمانہ قدیم میں گھر میں لڑکیاں اور خواتین کھانا پکانے ، گھر کے کام اور گھر کے کام کے ساتھ ساتھ سلائی کڑھائی سے بھی واقف رہتی تھیں اور عام طور پر اپنے کپڑوں کی سلائی خود کرتی تھیں۔ ان ملبوسات کو دیدہ زیب بنانے کے لئے کشیدہ کاری اور سلمیٰ ستاروں سے انھیں سجایا جاتا تاکہ لباس خوبصورت نظر آئے ۔ وقت اور حالات ترقی کے ساتھ ساتھ بدلتے گئے ۔ گھریلو ضرورتیں بدل کر فیشن میں تبدیل ہوگئیں ۔آج ضرورت نے جدت کا رنگ لے لیا، لڑکیاں اور خواتین نت نئے ڈزائن کے ملبوسات بنانے کے لیے کڑی محنت اور بے دریغ پیسہ خرچ کرنے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتیں ۔ آج یہ خواتین کا پسندیدہ اور محبوب مشغلہ بن گیا ہے ۔ جی ہاں یہ مشغلہ وقتی تسلی یا شوق تک محدود نہیں بلکہ ایک مستحکم روزگار کی صورت میں معاشرہ میں بطورچلن چل پڑا ہے ۔حتی کہ لڑکیاں انٹرنیٹ کے ذریعہ ملبوسات کے ڈیزائن ڈھونڈتی ہیں یا تصاویر جمع کرتی ہیں اور ہو بہو لباس سلوانے ٹیلریعنی فیشن ڈیزائنرکے پاس جاتی ہیں ۔
فیشن ڈیزائنگ خواتین کے لئے ایک عزت دار پیشہ ہے جو خواتین اپنے گھر سے ہی کرسکتی ہیں ۔فیشن ڈیزائنگ آج ایک بڑا گلیمرس بزنس بن چکا ہے ۔یہ گھریلو صنعت کا درجہ رکھتا ہے۔آج کے زمانے میں فیشن ڈئزائننگ کے لیے فیشن ڈئزائنرس کی بازار میں بہت زیادہ مانگ ہے ۔خواتین کے ریڈی میڈ ملبوسات کے لیے مارکیٹ میں فیشن ڈیزائنر کی بہت ضرورت ہوتی ہے ۔ بہترین قسم کے ڈیزائنر ڈریسیس خواتین کی پہلی پسند ہوتے ہیں ۔
آج فنکارانہ صلاحیت سے نئے نئے خیالات کو عملی صورت دینا آسان ہوگیا ہے ۔ سادہ کاٹن کا سوٹ بھی فیشن ڈیزائنگ سے گزر کر جب تیا ر ہوتا ہے تو اسے دیکھ کر تعریف کئے بنا رہا نہیں جاتا ۔ خواتین گھر میں بھی نت نئے ملبوسات سی کر چھوٹی سی بوٹک کی شکل میں کاروباری طور پر چلا رہی ہیں ۔
اگر آپ فیشن ڈیزائنر بننا چاہتی ہیں تو سب سے اہم خصوصیات آپ کی فنکارانہ صلاحیت ہے ۔آپ کا یہ فن ہی نت نئے لباس تیار کرواکر آپ کی صلاحیت کا لوہا منواسکتا ہے ۔ بس اس میں گاہک کی ضرورت اور موجودہ دور میں چلنے والے چلن و رجحان کا آپ کو علم ہونا لازمی ہے ۔باقاعدہ ڈگری نہیں ہونے پر بھی آپ فیشن ڈیزائنر بن سکتی ہیں۔ بس اس میں باقاعدہ مشق اور نئے فیشن سے آپ کا آگاہ ہونا ضروری ہے ۔ ہر دن تھوڑی سی مشق آپ کو طویل مدتی ہنر میں ماہر و مشاق بنا دیں گی۔ آج خواتین بڑے پیمانے پر اپنے بوٹک چلا رہی ہیں ۔
آپ کسی بھی کام کو کرئیر بنانے کا ٹھان لے تو سب سے پہلے اس میں آپ کو محنت ، دلچسپی اور ایمانداری اشد ضروری ہے ۔ جب ہی آپ مہارت والا فن حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے اور مستقل طور پر اسے انجام دینا آپ کے لئے آسان ہوگا ۔ اگر یہ محنت منظم طریقے سے کی جائے تو اس کے ذریعے پرکشش کمائی حاصل کرنا آسان ہے ۔ فیشن ڈیزائنگ اس ہنر میں مہارت کے لیے کپڑوں کی قسموں سے آپ کی واقفیت ہونا ضروری ہے ۔ کون سے موسم میں کون سے کپڑے کو پسند کیا جاتا ہے یا اس کی ڈیمانڈ ہوتی ہے ، روزمرہ ،شادی بیاہ اور آفس کے لیے مختلف قسم کے ملبوسات کو ترجیح دی جاتی ہے جس کا علم ہونا لازمی ہے ۔ آج بین الاقوامی سطح پر فیشن ڈیزائنگ اس قدر مقبول ہے کہ باضابطہ فیشن شو منعقد کرکے نت نئے ڈیزائنر کپڑوں کو پرکشش انداز میں شائقین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ۔
فیشن ڈیزائنگ کے لیے بہت سے چھوٹے اور بڑے کورسیس ہیں جو کم مدتی اور طویل مدتی دونوں طرز پر ہیں ۔ ایک تا چار سال کے درمیان کے کورسیس اس سے جڑے کورسیس کے لیے کم از کم تعلیمی قابلیت ہشتم کامیاب ہونا ضروری ہے۔ کچھ کورس کے لیے بارہویں میں کامیاب ہونا لازمی ہے جس سے آپ کو فیشن ڈیزائنگ کے اچھے کالج میں داخلہ مل سکتا ہے ۔ کچھ کالجز میں داخلہ کے لئے انٹرنس امتحان سے بھی گزرنا پڑتا ہے ۔ جس میںآپ کو ریاضی ، انگریزی اور ڈرائنگ پر مبنی سوالات پوچھے جاتے ہیں ۔ کامیاب فیشن ڈیزائنر بننے کے لیے ڈرائنگ ، کلاتھ ڈیزائنگ ، کلر ، ٹیکسٹائل اور فیشن ڈیزائنگ کی اچھی معلومات ہونا چاہئے تبھی آپ اچھے پروفیشنل اور کامیاب فیشن ڈیزائنر بن سکتے ہیں ۔فیشن کبھی بھی مستقل نہیں رہتا ۔ اس میں کلر کامبینیشن ، ڈیزائن بدلتے رہتے ہیں ۔ اس کی نوعیت میں بھی تبدیلی ہوتی رہتی ہے۔ موسم سرما کے لباس کا انتخاب الگ اور موسم گرما کے لباس کا انتخاب الگ ہوتا ہے ۔
فیشن ڈیزائنر بننے کے لیے کون سے کورسیس کئے جاسکتے ہیں ۔اس کی معلومات آپ کو مہیا کروائی جارہی ہے۔
(۱) Apparel Manufacturing Technology، یہ گارمینٹ کے متعلق کورس ہے جس کے لیے بارہویں کامیاب ہونا چاہئے اور اس کورس کی مدت ایک سال ہے ۔
(۲) Apparel Merchandiseکور س کے لیے گریجویشن یا Apparel Manufacturing Technology (AMT) کامیاب ہونا لازمی ہے ۔ اس کورس کی مدت تین ماہ ہے ۔
(۳) سیونگ مشین آپریٹر اس کے لئے دسویں پاس ہونا چاہئے ۔ اس کی مدت تین ماہ ہے ۔
(۴) پیٹرن کٹنگ ماسٹر کے لیے امید وار کا دسویں کامیاب ہونا، کور س کی درکار مدت چھ ماہ۔
(۵) اسی طرح Diploma In Fashion Sampling/Coordination کے لیے بارہویں پاس اور کورس کی مدت ایک سال ۔
(۶) Production Supervision/Quality Controlاس کورس کے لیے بارہویں کامیاب ہونا لازمی ۔ اس کورس کی مدت چھ ماہ۔
(۷) Finishing, Packing, Supervisorکے لیے بارہویں کامیاب ہونا ضروری اور کورس کی مدت تین ماہ ہے ۔
(۸) Machine Mechanic Courseکے لیے دسویں پاس ہونا کورس کی مدت چار ماہ ۔
(۹) Garment checker Courseکے لئے تعلیمی قابلیت آٹھویں کامیاب اور کورس کی مدت تین ماہ ۔ اس کے علاوہ اس سے متعلق بہت سے ڈپلومہ کورسیس ہیں ۔ جو ضرورت کے لحاظ سے کئے جاسکتے ہیں ۔
(۱۰) ڈیزائننگ کورس ، تعلیمی قابلیت بارہویں کامیاب ہونا لازمی ہے ۔ یہ کورس تین سالہ ہوتا ہے اس کورس کو کرنے کے بعد کسی بھی ایکسپورٹ ہائوز میں ڈیزائنر فیشن کو آرڈینیٹر ، کوالیٹی کنٹرول فیشن مرچنڈائزنگ کے طور پر کام کرسکتے ہیں ۔اس کورس کے ذریعہ کاسٹیوم ، جیلوری، چمڑے کا سامان بنانا بھی سکھایا جاتا ہے ۔
(۱۱) فیشن ڈیزائننگ کی بھی معلومات لیتے ہیں ۔یہ کورس تین سالہ ہوتا ہے ۔ جس کے لیے بارہویں میں کم از کم پچاس فیصد مارکس ضروری ہے ۔ او بی سی اور دیگر پسماندہ طبقات کے لیے 5%مارکس کی رعایت ہوتی ہے ۔ اس میںمیرٹ کے مقابل داخلہ ملتا ہے ۔ اس کورس کو مکمل کرنے کے بعد آپ بطور فیشن ڈیزائنر پیٹرن میکر اسٹائیلش پیٹرن فیش کور آر ڈی نیشن کے طور پر ملازمت یا فری لانس کام کرسکتے ہیں ۔
(۱۲) مارکیٹنگ اور مرچنٹ ڈائزنگ یہ ڈپلومہ کورس دو سالہ ہوتا ہے ۔ اسے کرنے کے بعد فیشن ٹکنالوجیسٹ کے طور پر ملازمت کے مواقع میسر ہیں ۔ اس کا سب سے مثبت پہلو بہت سی کمپنیاں دوسرے سال ہی انٹرویو کے لیے بلا تی ہیں۔
(۱۳) اس کے علاوہ دو سالہ ڈپلومہ کورس گارمینٹ مینو فیکچرنگ ہوتا ہے ۔ لیدر گارمنٹ ،ڈیزائنگ اور ٹکنالوجی اس کورس کے لیے گریجویٹ ہونا لازمی ہے ۔ کورس مکمل کرنے کے بعد اسٹالسٹ لیدر ڈیزائننگ کے طور پر یا فری لانس کے طور پر کام کرسکتے ہیں۔
(۱۴) ایک اور دوسالہ ڈپلومہ ہوتا ہے جس کے لیے بھی گریجویٹ ہونا لازمی ہے ۔اس کا نام Knitwear Design اور ٹیکنالوجی ڈیزائن ہے ۔
(۱۵) اس کے علاوہ Accessaries Designing & Fasjion Designing اس کورس میں جوتے ، بیگ ، بیلٹ ، ہاتھ کے بیگ، جیولری ، ڈیزائنگ وغیرہ سکھائی جاتی ہے ۔
آج ہم نے فیشن ڈیزائنگ ، آج کا پسندیدہ فیشن اور کل کا بہترین مستقبل اس کے تحت فیشن ڈیزائننگ کیا ہے ؟ فیشن ڈیزائننگ سیکھنے کے لیے کون سی صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے ؟ فیشن ڈیزائننگ میںکون کون سے کورسیس کئے جاسکتے ہیں اس کی ہم نے معلومات حاصل کیں ۔
چلئے دیکھتے ہیں کہ فیشن ڈیزائننگ روزگار میں ملازمت کے لیے کون کون سے مواقع دستیاب ہیں ۔ آپ نے جس ادارہ سے یہ کورس کیا ہے وہاں سے کیمپس پلیسمنٹ کے ذریعہ روزگار حاصل کرسکتے ہیں ۔ بہت سی کمپنیاں جیسے اروند مل ، ٹا ٹا انٹرنیشل، ویژال میگا ،کیر آن بھارتی ،ویلمارٹ ، ڈیزائن اور ڈیکور ،فیب انڈیا، کارلے انٹر نیشنل پرائیوٹ لمیٹیڈ ، پال فیشن ، ریلائنس برانڈ، شری بھارت انٹرنیشنل جیسے اداروں میں روزگار کے مواقع دستیاب ہوتے ہیں ۔اس کے علاوہ اسسٹنٹ ڈیزائنر، اسٹائلش ، فیشن کورآرڈینیٹر ، Accesary Designer, Patern Maker, Production Managerکے طور پر کام کرسکتے ہیںیا خود کی چھوٹی سی کمپنی یا بوٹک کھولی جاسکتی ہے ۔ ان کورسیس میںروزگار کے بہت سے مواقع موجود ہیں ۔ویسے بھی آج کپڑوں کو خصوصی اہمیت دی جاتی ہے۔ فیشن ڈیزائنگ کی فیلڈ اتنی وسیع ہوچکی ہے اس میں آپ فری لانس یا کسی کمپنی سے جڑ کر یا اپنی ذاتی بوٹک کے ذریعہ اچھی خاصی کمائی کرسکتے ہیں ۔
فیشن ڈیزائنگ کورسیس چلانے والے اداروں کی تفصیلات انٹرنیٹ پر دستیاب ہیں ۔شوق کو روزگار بنائیں اور مستقبل کی جانب مزید ایک قدم بڑھائیں ۔