Home اسلامیات روزوں سے آخر کیا مطلوب ہے؟- ڈاکٹر محمد واسع ظفر

روزوں سے آخر کیا مطلوب ہے؟- ڈاکٹر محمد واسع ظفر

by قندیل

استاذ و سابق ڈین، فیکلٹی آف ایجوکیشن، پٹنہ یونیورسٹی،پٹنہ

 رابطہ : [email protected] موبائل:09471867108

 

جس طرح اللہ رب العزت نے دنیا میں کوئی ایسی مخلوق پیدا نہیں کی جو کہ بے فائدہ یا بلا مقصد ہو، ٹھیک اسی طرح اس نے جن و انس پر کوئی ایسا حکم بھی عائد نہیں کیا جو بے فائدہ یا بلا مقصد ہو یا پھر ان کی استطاعت سے باہر ہو۔ در حقیقت پوری کی پوری شریعت اسلامیہ جن و انس کے دنیوی یا اخروی فوائد پر ہی مبنی ہے جسے معمولی غور و فکر سے سمجھا بھی جا سکتا ہے لیکن عام طور پر لوگ چونکہ تشریعی احکام کی حکمتوں پر غور نہیں کرتے، اس لئے وہاں تک ان کی رسائی نہیں ہوتی اور وہ احکام شریعت کو اپنے لئے بوجھ سمجھتے ہیں اور بعض تو ان کی مخالفت پر بھی اتر آتے ہیں۔ پھر جو غور کرنے والے ہیں ان کے غور و فکر کے بھی مختلف زاویے ہیں؛ کو ئی احکام کو فقط دنیوی فوائد کے نقطہ نظر سے دیکھتا ہے تو کوئی انہیں فقط اخروی فوائد کے زاویے سے دیکھتا ہے جو یقینا دنیوی فوائد کے مقابلہ میں برتر، پائیدار اور حتمی نوعیت کے ہوتے ہیں۔
یہی معاملہ روزے کے ساتھ ہے کہ میڈیکل سائنس اور طب سے جڑے لوگوں نے اپنی اپنی پرواز کے مطابق اس کے فوائد اور انسانی صحت پر پڑنے والے اس کے اثرات کو نمایاں کیا جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ لیکن وہ سب اس کے ضمنی فوائد ہیں، اصل مقصد جو ان سب سے بہت اعلیٰ و ارفع ہے اسے اللہ رب العزت نے اپنی کتاب میں خود بیان کردیا ہے۔ فرمایا: {یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ} (مفہوم): ’’ اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے اس توقع پر کہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘ (البقرہ: ۱۸۳)۔
اس آیت پر غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ روزے سے یہ توقع ہے کہ انسان کے اندر تقویٰ کی صفت پیدا ہو کیوں کہ لفظ ’لَعَلَّکُمْ‘ میں ’لَعَلَّ‘ حرف مشبہ بفعل ہے اور عربی میں اندیشہ، امید، توقع اور امکان بالوثوق کا مفہوم ادا کرنے کے لئے ہی استعمال ہوتا ہے۔ تقویٰ کی یہ صفت کیا ہے، اسے اس روایت کی روشنی میں بہتر طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ ’’قال رجل لأبي ھریرۃؓ ما التقوی؟ قال: أخذت طریقاً ذا شوک؟ قال: نعم، قال: فکیف صنعت؟ قالإذا رأیت الشوک عدلت عنہ أو جاوزتہ أو قصرت عنہ، قال: ذاک التقوی‘‘ (مفہوم): ’’ایک شخص نے ابوہریرہؓ سے پوچھا: تقویٰ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: کیا تم نے کبھی کانٹے دار راستہ اختیار کیا ہے؟ اس نے کہا: ہاں، انہوں نے فرمایا: پھر تم نے گزرتے وقت کیا کیا تھا؟ اس نے کہا جب میں کانٹا دیکھتا تو اس سے ہٹ جاتا یا اس سے بچ کر نکل جاتا یا اس سے نہیں گزرتا۔ فرمایا: یہی تقویٰ ہے۔‘‘ (کتاب الزھد الکبیر للبیہقیؒ، دار الجنان و مؤسسۃ الکتب الثقافیۃ، بیروت، لبنان، الطبعۃ الأولیٰ ۱۹۸۷م، رقم الحدیث ۹۶۳)۔
مذکورہ مکالمے میں تقویٰ کی بہترین تشریح موجود ہے کہ جس طرح جھاڑی دار اور کانٹے دار راستے پر چلتے وقت انسان اپنے کپڑوں کو سمیٹ کر بچتا بچاتا گزرتا ہے، ٹھیک اسی طرح زندگی کے سفر میں گناہوں، آلائشوں، نفس کی بے جا خواہشوں، شیطانی وسوسوں اور اللہ کو ناراض کرنے والی چیزوں سے بچتے بچاتے گزر جانے کا نام تقویٰ ہے۔ گویا تقویٰ ضبط نفس (Self-Control) یا برائیوں سے بچنے کی استعداد کا نام ہے۔ یہ بات چونکہ روزے سے بہتر طریقے پر حاصل کی جاسکتی ہے، اس لئے اللہ رب العزت نے اسے نہ صرف ہم پر فرض کیا ہے بلکہ پچھلی امتوں پر بھی فرض کیا تھا۔
دراصل ’’الصَّوْمُُ‘‘کے اصل معنی ہی کسی کام سے رک جانے یا باز رہنے کے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں کسی مکلف شخص کا روزہ رکھنے کی نیت سے صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے، عمداً قے کرنے اور جماع (Sexual Intercourse) سے رکے رہنے کو صیام کہتے ہیں اور یہاںصیام کے معنی رمضان کے روزے ہیں‘‘۔ (انوار البیان فی حل لغات القرآن از علی محمد، مکتبہ سید احمد شہیدؒ، لاہور، ۲۰۰۵ء؁، جلد ۱، صفحہ ۱۴۲)۔
جو لوگ اللہ تعالیٰ کو اپنا رب تسلیم کرتے ہیں، وہ اس کے حکم کے پیش نظر ایک معین وقت کے دوران مذکورہ باتوں سے رک جاتے ہیں۔ حلال اور بہترین غذائیں ان کے سامنے ہوتی ہیں اور خوبصورت شریک حیات بھی ان کے قریب ہوتی ہیں لیکن وہ تب تک خود کو قابو میں رکھتے ہیںجب تک اللہ تعالیٰ کی اجازت کا معین وقت نہ آجائے۔ وہ وضو کے دوران منہ میں پانی بھی لیتے ہیں، کلی کرتے ہیں لیکن ایک گھونٹ پانی حلق کے اندر نہیں جانے دیتے جب کہ اگر وہ ایسا کرلیں تو کوئی دوسرا آدمی اسے دیکھ یا سمجھ بھی نہیں سکتا۔ آخر ایسا کیوں کر ممکن ہوتا ہے ؟ کیوں کہ انہیں اس بات کا استحضار ہوتا ہے کہ کوئی دیکھے یا نہ دیکھے ان کا رب انہیں دیکھ رہا ہے۔ اب آپ غور کیجئے کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اس کی حلال کردہ چیزوں سے بھی ایک معینہ مدت تک رک جائے، کیا وہ گوارا کرے گا کہ اسی دورانیہ میں اس کی حرام کردہ چیزوں کی طرف اپنا قدم بڑھائے۔ اگر وہ حرام کردہ چیزوں کی طرف قدم بڑھاتا ہے تو یہی کہا جائے گا کہ اس نے روزہ رسماً رکھا ہوا ہے، اسے نہ ہی روزے کی سمجھ ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کا استحضار۔ اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ’’مَنْ لَمْ یَدَعْ قَولَ الزُّورِ وَ الْعَمَلَ بِہِ وَ الْجَھْلَ، فَلَیْسَ لِلّٰہِ حَاجَۃٌ أَنْ یَدَعَ طَعَامَہُ وَ شَرَابَہُ‘‘ (مفہوم): ’’جو شخص (روزے کی حالت میں) جھوٹ بولنا، اس پر عمل کرنا اور جہالت کی باتوں کو نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی کوئی ضرورت نہیںکہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘ (صحیح بخاریؒ، مکتبۃ الرشد، الریاض، الطبعۃ الثانیۃ ۲۰۰۶، رقم الحدیث ۶۰۵۷، بروایت ابوہریرہؓ)۔
ظاہر ہے کہ اللہ رب العزت نے اس پر روزے صرف اسی لئے فرض کئے تھے کہ اس کے اندر گناہوں سے بچنے کی استعداد پیدا ہو مگر جب وہ روزے کے دوران ہی اللہ تعالیٰ کی نافرمانیاں کرتا رہا تو گویا ایسا ہے جیسے اس نے تقویٰ کے حصول کا ارادہ ہی نہیں کیا تو اللہ تعالیٰ کو اسے بھوکا پیاسا رکھنے سے کیا غرض ہے۔ نتیجے کے اعتبار سے اس کا روزہ ایسا ہی ہے جیسے بھوکا پیاسا رہ جانا۔ اسی بات کو نبی کریم ﷺ نے یوں بھی بیان فرمایا ہے: ’’کَمْ مِنْ صَائِمٍ لَیْسَ لَہُ مِنْ صِیَامِہِ إِلَّا الظَّمَأُ وَ کَمْ مِنْ قَائِمٍ لَیْسَ لَہُ مِنْ قِیَامِہِ إِلَّا السَّھَرُ‘‘ (مفہوم): ’’کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جنہیں اپنے روزے سے پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا اور کتنے ہی قیام اللیل کرنے والے ایسے ہیں جنہیں اپنے قیام سے جاگنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ‘‘ (مسند الدارمیؒ، دار ابن حزم، بیروت، الطبعۃ الأولی ۲۰۰۲م، رقم الحدیث ۲۷۵۴، بروایت ابوہریرہؓ)۔
ظاہر ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جو روزے کے دوران نہ جھوٹ، غیبت اور فحش گوئی سے بچتے ہیں اور نہ ہی دھوکہ دھڑی اور حرام خوری سے، نہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے دوسرے احکام کی۔ حالانکہ تقویٰ کا تقاضا یہ تھا کہ وہ منہیات اور محرمات سے تو کیا مشتبہات سے بھی پرہیز کرتے اور اللہ تعالیٰ کے احکام کا لحاظ رکھتے ہوئے زندگی گزارتے جیسا کہ پیارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے۔ آپؐ کا ارشاد ہے: ’’إِنَّ الْحَلَالَ بَیِّنٌ، وَ إِنَّ الْحَرَامَ بَیِّنٌ، وَ بَیْنَھُمَا مُشْتَبِھَاتٌ لَا یَعْلَمُھُنَّ کَثِیرٌ مِّنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَی الشُّبُھَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِینِہِ، وَ عِرْضِہِ، وَ مَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُھَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ، کَالرَّاعِي یَرْعَی حَوْلَ الْحِمَی، یُوشِکُ أَنْ یَرْ تَعَ فِیْہِ، أَلَا وَ إِنَّ لِکُلَِّ مَلِکٍ حِمًی، أَلَا وَ إِنَّ حِمَی اللّٰہِ مَحَارِمُہُ‘‘ (مفہوم): ’’بلاشبہ حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان مشتبہات ہیں جن کو لوگوں کی بڑی تعداد نہیں جانتی، پس جو شبہات سے بچا اس نے اپنے دین اور آبرو کو بچا لیا اور جو شبہات میں پڑگیا وہ بالآخر حرام میں بھی پڑ گیا، جیسے چرواہا جو (شاہی محفوظ) چراگاہ کے اردگرد (بکریاں) چراتا ہے، قریب ہے کہ وہ اس (چراگاہ) میں داخل ہوکرچرنے لگیں (اور وہ شاہی مجرم قرار پائے)، دیکھو! ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہوتی ہے۔ خبردار رہو! اللہ کی چراگاہ اس کی حرام کردہ اشیاء (یا حدود اللہ) ہیں۔ ‘‘ (صحیح مسلم، دار السلام، الریاض، الطبعۃ الثانیۃ ۲۰۰۰م، جزء من رقم الحدیث ۴۰۹۴، بروایت نعمان بن بشیرؓ)۔
اس لئے تقویٰ کے حصول کے لئے یہ ضروری ہے کہ انسان مشتبہ چیزوں سے بھی پرہیز کرے اور ان چیزوں سے بھی جو کراہت کے ساتھ جائز ہیں کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ حدود کے قریب جانے کے مترادف ہے۔ اس بات کو نبی کریم ﷺ نے یوں بیان فرمایا ہے: ’’لَا یَبْلُغُ الْعَبْدُ أَنْ یَّکُونَ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ حَتّٰی یَدَعَ مَالَا بَاْسَ بِہِ حَذَرًا لِمَا بِہِ الْبأْسُ‘‘(مفہوم): ’’کوئی بندہ متقیوں کے مقام کونہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ اس بات کو کہ جس میں کوئی حرج نہ ہو، اس چیز سے بچنے کے لئے نہ چھوڑ دے جس میں حرج (برائی) ہے‘‘۔ (سنن ترمذی،دار الحضارۃ للنشر و التوزیع، الریاض، الطبعۃ الثانیۃ ۲۰۱۵م، رقم الحدیث ۲۴۵۱، بروایت عطیہ سعدیؓ)۔
اس طرح جو شخص پورے ایک مہینے اللہ تعالیٰ کے استحضار اور اس کے فرامین کا لحاظ رکھتے ہوئے روزے کا اہتمام کرے گا تو اس سے امید ہے کہ بقیہ گیارہ مہینوں میں بھی وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کا پاس و لحاظ رکھے گا۔ اگر یہ کیفیت پیدا ہوگئی تو سمجھیں کہ رمضان المبارک کا مہینہ کامیابی کے ساتھ گزرا اور روزے اپنے مقصد کو پہنچے۔ اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہے تو سمجھ لیں کہ بھوک اور پیاس کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیا۔ یہ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے مرجھائے ہوئے چہرے اور سوکھے ہوئے جسم کو نہیں دیکھتا، وہ تو آپ کے دل کی کیفیت دیکھتا ہے کہ وہ کس درجہ میں مطیع ہے اور صدق واخلاص سے کس درجہ میں معمور؟ روزے سے آپ نے تقویٰ کے حصول کی نیت کی ہے یا کچھ اور وہ یہ بھی جانتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ رمضان کے بعد آپ کے ارادے تقویٰ کے ساتھ زندگی گزارنے کے ہیںیا شریعت کی پابندیوں سے یکسر آزاد رہ کر۔ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے فرمایا تھا کہ تقویٰ یہاں ہے یعنی دل میںہے۔ (دیکھیں صحیح مسلم، رقم الحدیث ۶۵۴۱ اور ۶۵۴۲)۔
اب آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ آخر تقویٰ پر اتنا زور کیوں دیا جارہا ہے اور اس کے ثمرات کیا ہیں؟ تو جان لیجئے کہ تقویٰ ہی وہ صفت ہے جو ایمان کے بعد اللہ رب العزت کو سب سے زیادہ محبوب ہے۔اللہ کا ارشاد ہے: {إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللّٰہِ أَتْقٰکُمْ} یعنی ’’بلاشبہ اللہ کے نزدیک تم سب میں سے باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے۔‘‘ (سورۃ الحجرات: ۱۳) ۔
یہی تقویٰ ساری عبادتوںکا مقصود ہے اور یہی ایک مسلمان کی عملی زندگی کا نصب العین بھی ہے۔ اسے قرآن کی اس آیت کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے: {یَا أَیُّہَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِن قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ ہ} (مفہوم): ’’اے لوگو! اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور ان لوگوں کو پیدا کیا جو تم سے پہلے گزرے ہیں تاکہ تم متقی بن جاؤ۔‘‘ (سورۃ البقرۃ: ۲۱)۔
اسی تقویٰ پر دنیا میں مومنوں کے ساتھ نصرت، رحمت اور برکت کے وعدے ہیں۔ مثال کے طور پر اس آیت کو ملاحظہ فرمائیں: {وَلَوْ أَنَّ أَہْلَ الْقُرٰٓی آمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْْہِمْ بَرَکَاتٍ مِّنَ السَّمَآء ِ وَالأَرْضِ وَلٰکِنْ کَذَّبُوْا فَأَخَذْنٰہُمْ بِمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ہ} (مفہوم): ’’اور اگر ان بستیوں کے رہنے والے ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑ لیا۔‘‘ (سورۃ الاعراف: ۹۶)۔
اسی تقویٰ پر اللہ رب العزت نے گناہوں کی بخشش اور ایک خاص قسم کی ایمانی بصیرت عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے جس سے حق و باطل کے درمیان تمیز کی قوت پیدا ہوتی ہے۔ارشاد ربانی ہے: {یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا إِنْ تَتَّقُوْا اللّٰہَ یَجْعَل لَّکُمْ فُرْقَانًا وَیُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّئَاتِکُمْ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْم ہ} (مفہوم): ’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ کے ساتھ تقویٰ کی روش اختیار کروگے تو وہ تمہیں فرقان (حق و باطل کی تمیز کی قوت) عطا فرمائے گا اور تم سے تمہاری برائیاں دور کردے گا اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ تعالیٰ بڑے فضل والا ہے۔‘‘ (سورۃ الانفال: ۲۹)۔
اسی تقویٰ پر آخرت میں نجات کا انحصار ہے۔ارشاد ہے : {وَیُنَجِّیْ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اتَّقَوا بِمَفَازَتِہِمْ لَا یَمَسُّہُمُ السُّوْئُ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ ہ} (مفہوم): ’’اور جن لوگوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے، اللہ ان کو کامیابی کے ساتھ نجات دے گا، انہیں کوئی برائی (تکلیف) چھوئے گی بھی نہیں اور نہ ہی وہ غمگین ہوں گے۔‘‘ (سورۃ الزمر: ۶۱)۔
اسی تقویٰ پر آخرت میں بہترین اجر اور جنت کا وعدہ ہے۔ {وَلَأَجْرُ الآخِرَۃِ خَیْْرٌ لِّلَّذِیْنَ آمَنُوْا وَکَانُوْا یَتَّقُوْنَ ہ} (مفہوم): ’’آخرت کا جو اجر ہے وہ ان لوگوں کے لئے کہیں زیادہ بہتر ہے جو ایمان لاتے اور تقویٰ پر کاربند رہتے ہیں۔‘‘ (سورۃ یوسف: ۵۷)۔ اور فرمایا: {إِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتٍ وَّ نَہَرٍ ہ} (مفہوم): ’’بے شک متقین (جنہوں نے تقویٰ کی روش اختیار کی ہے)باغات اور نہروں میں ہوں گے۔ (سورۃ القمر: ۵۴)۔ نیز فرمایا: {مَّثَلُ الْجَنَّۃِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ تَجْرِیْ مِن تَحْتِہَا الأَنْہٰرُ أُکُلُہَا دَآئِمٌ وِظِلُّہَا تِلْکَ عُقْبَی الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّعُقْبَی الْکَافِرِیْنَ النَّارُ ہ} (مفہوم): ’’وہ جنت جس کا متقی لوگوں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کا حال یہ ہے کہ اس کے نیچے نہریں بہتی ہیں۔ اس کے پھل بھی سدا بہار ہیں اور اس کی چھاؤں بھی۔ یہ ہے انجام ان لوگوں کا جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا اور کافروں کا انجام کار دوزخ ہے۔‘‘(سورۃ الرعد: ۳۵)۔
یہ ہے اس تقویٰ کی اہمیت جس کے حصول میں معاونت کے پیش نظر ہم پر روزے فرض کئے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کے جتنے وعدے ہیں وہ سب ایمان اور تقویٰ کے ساتھ مشروط ہیں۔لیکن المیہ یہ ہے کہ آج جو لوگ با ایمان ہونے نیز اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت رکھنے کے دعوے رکھتے ہیں، ان میں سے اکثر کا تقویٰ سے دور دور کا تعلق نہیں۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ کے وہ وعدے ہمارے ساتھ دنیوی زندگی میں پورے نہیں ہورہے جو اس نے ایمان والوں سے کئے ہوئے ہیں اور آخرت کی کامیابی بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے لیکن ہمیں اس کا احساس بھی نہیں۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ تقویٰ کی روش اختیار کرنے کو ہم اپنی زندگی کا نصب العین بنائیں گو اس راہ میں ہمیں کتنے ہی مجاہدے براشت کرنے پڑیں اور روزوں سے بھی اس کے حصول کی نیت رکھیں اور سارے آداب کی رعایت کرتے ہوئے ان کا اہتمام کریں تبھی ان کے ثمرات مرتب ہوسکتے ہیں ۔ اللہ پاک اس حقیر کو بھی عمل کی توفیق عطا کرے اور تقویٰ کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین!

You may also like

Leave a Comment