Home خواتین واطفال برس گزرگئے شاخوں کو بے ثمررہتے-سفینہ عرفات فاطمہ

برس گزرگئے شاخوں کو بے ثمررہتے-سفینہ عرفات فاطمہ

by قندیل

نیم تاریک کمرے کی ایک چھوٹی سی کھڑکی سے قبل ازوقت بوڑھی اوربیمارہوجانے والی ایک پچاس سالہ خاتون جب کبھی پڑوسی کے آنگن میں جگنوؤں کی مانند روشنی بکھیرنے والے ننھے فرشتوں کو دیکھتی ہے تو اس کے بے رونق کمرے کے ساتھ ساتھ اس کی اپنی بے نور آنکھیں نورسے معمورہوجاتی ہیں۔ ان بچوں کے ساتھ وہ بھی ہنستی ہے ‘ان کی پیاری باتوں سے حظ اٹھاتی ہے‘ان کاکھیلناکودنا ‘ان کا بھاگنا‘لڑناجھگڑنا‘  ان کی محویت ‘ان کا تجسس ‘ان کے سوال ‘ان کی شرارتیں ‘ ان کی بے ریا مسکراہٹیں اس کا خالی دامن خوشیوں سے بھردیتی ہیں۔ پھراس کے اپنے آنگن میں پھیلے ہوئے سناٹے کاشور‘ اس کے احساس ِمحرومی کو اتنا شدید کردیتا ہے کہ وہ روشنی اورزندگی سے بھرپور اس چھوٹے سے دریچے کو بندکرکے اپنی تاریک ‘ویران دنیا میں لوٹ آتی ہے‘ جہاں صرف مایوسی ہے‘ ناامیدی ہے‘ تنہائی ہے ‘ ذلت ہے‘ اذیت ہے اورایک بنجر‘بے ثمرزمین ہونے کا  احساس ‘ ایک بانجھ عورت ہونے کا طعنہ ۔اس کی شادی تیس بتیس برس قبل ہوئی تھی ۔شادی کے بعد دس پندرہ سال بارآوری کی آس میں گزار دئیے ‘ پھربتدریج وہ امید‘اس چراغ کے مثل بجھ گئی جو سفاک‘بے رحم ہوائوں کی زد سے شکست کھاکرآخرکار دم توڑہی دیتا ہے۔ہم عمرکزنز اورسہیلیاں دادی نانی بن گئیں۔ جب ہنسی ہنسی میں پھینکے گئے طنز کے تیر کچھ زیادہ ہی روح کوچھِلنے لگے اورلوگوں کے سوال کانٹے بن کر چبھنے لگے تواس نے خودکو تنہاکرلیا‘تقاریب میں جانا چھوڑ دیا‘یہ علیحدگی اورتنہائی (isolation)اس کی اپنی اختیارکردہ ہے لیکن اس کا ذمہ دارکون ہے ؟ رویوں سے چھلکتی بیگانگی؟ لہجوں میں اتر آئی بے رحمی ؟ یا آس پاس اُگ آئی بے حسی ؟کوئی یوں ہی معاشرے سے الگ تھلگ نہیں ہوجاتا ‘ (کوئی یوں ہی جینا نہیں چھوڑتا‘کوئی یوں ہی خودکشی نہیں کرتا ‘ کوئی یوں ہی پاگل نہیں ہوتا) ۔معاشرتی رویوں نے اسے ایک نارمل زندگی سے دور کردیا۔ماں نہ بن پانے کی ایک جان لیواخلش کے ساتھ وہ اب ایک ٹوٹی بکھری عورت ہے‘جوافسردگی اور ناآسودگی کی چادراوڑھے اپنے خالی مکان کوتکتی رہتی ہے ۔
ہندوستانی سماج میں ایک بے اولادخاتون کی پیشانی پربہت ہی گہری اورنہ مٹنے والی سیاہی سے لکھ دیاجاتا ہے کہ وہ ’بانجھ ‘ہے۔طنز‘طعنے اورایک تکلیف دہ صورتحال حتی کہ وہ زندگی سے بدظن ہوجاتی ہے ۔کبھی کبھی جرائم وحادثات کے کالم میں یہ خبر بھی پڑھنے کوملتی ہے کہ بچے نہ ہونے کے سبب ایک خاتون نے خودکشی کرلی۔
انوبھوتی دوبے اپنے مقالےIndian Women’s Perspectives on Reproduction and Childlessness: Narrative Analysis میں لکھتی ہیں:’’ ہندو مذہب کے مقدس صحیفوں کے مطابق’ بے اولادی‘ ایک ’بددعا‘ہے ۔ اگر ایک جوڑا بے اولادہوتو اس کی وجوہات سے قطع نظر موجودہ سماجی اورصنفی طرزعمل کے سبب عورت ہی کو مورد الزام ٹھہرایاجاتاہے ۔ ہندوستان اوربرصغیر کے دوسرے ممالک میں بچوں کی نعمت سے سرفراز ایک عورت ایک بالغ کے موقف کے ساتھ ساتھ سماج میں قبولیت حاصل کرپاتی ہے ۔‘‘
ہندوستانی مائیں اپنی بیٹیوں کے بیاہ کے بعد یہ چاہتی ہیں کہ سال دوسال ہی میں خوشخبری سننے کوملے ‘ اور ان کی بیٹیوں کا اپنے جیون ساتھی اوراس کے خاندان سے رشتہ مضبوط ہوجائے۔اگربچے ہونے میں تاخیرہویا ماں بننے کے امکانات کم ہوں تو ایک عورت کی زندگی بے یقینی کا شکارہوکررہ جاتی ہے ‘بلکہ اس کا وجود ہی بے معنی ہو جاتا ہے۔شوہرکی دوسری شادی کا خوف اورطلاق کاڈر‘راتوں کو بے خواب اور دن کو بے سکون کردیتاہے۔
District Level Household and Facility survey 2007-2008 کے مطابق ملک میں 15 سے 49 برس کی 8.2 فیصد شادی شدہ خواتین بچوں سے محروم پائی گئیں۔
روزنامہ ’ہندو‘ (28ستمبر2014ء)کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا میں20ملین سے زائد جوڑے (couples)بے اولادہیں۔یہ ایک تصدیق شدہ حقیقت ہے کہ دنیا کی کل آبادی میں دس سے پندرہ فیصد جوڑے عدم بارآوری (infertility) سے دوچار ہیں۔
بچے گلشن ِکائنات کے سب سے خوشنماپھول  ہیں۔معصوم‘بے غرض‘ تصنع سے پرے‘کبھی اپنی شرارتوں سے دل موہ لیں گے توکبھی اپنی ذہانتوں سے لاجواب کردیں گے۔وہ اپنے آس پاس کے ماحول کو بھی سرشاری سے بھردیتے ہیں ‘ان کی رفاقت انسان  کی اداسیوں کو زائل کردیتی ہے‘وہ سچی مسرت اور شادمانی کا منبع ہوتے ہیں‘ ان کے پاکیزہ ‘نورانی چہرے مکانوں میںاورمکینوں میں فرحت وراحت کی تجلیاں بکھیردیتے ہیں ۔
بچے خالق کائنات کا بے مثل شاہکاراورعظیم نعمت ہیں‘ان سے محرومی یقینابہت بڑی محرومی ہے۔ لیکن جنہیں یہ نعمت حاصل نہیں‘انہیں ذہنی اذیت میں مبتلاء کرنا ‘ان کے تئیں یہ سوچنا کہ وہ کسی کی بددعا کے اثر میں ہیں ‘کیا درست ہے ؟
ایک جوڑا کم وبیش پچیس برس سے اولاد سے محروم ہے‘اوراس جوڑے کے بارے میں’ معزز‘ رشتہ دار ‘دوست احباب اور پڑوسیوں کا یہ خیال ہے کہ ’’کسی کا بچہ گود میںڈال لیتے ؟(کسی کا بچہ گودلیتے) نئیںتو وہ ادمی دوسری شادی کرنا تھا؟(یاپھروہ آدمی دوسری شادی کرتا) کیسا دل لگتا گھر میں ‘بچہ نہ کچہ؟(بچوں کے بغیر گھر میں دل کس طرح لگتاہے ) اس عورت کو کام کیا رہتا بول کے ؟(اس عورت کوکام ہی کیاہوتا ہے ) کیا بچوں کوپالنا ہے ؟ (کیااسے بچوں کی پرورش کرنی ہے ) اس کا گھر بہت صاف رہتاکتے ‘(سنا ہے کہ وہ گھر بہت صاف ستھرا رکھتی ہے )ہائو پھر گھرمیںبچے رہے تو پسارا ڈالتے ‘(ہاں پھر گھر میں بچے ہوں تو سامان بکھیردیتے ہیں) کیاکرتے کماکے‘کوئی آگے نہ پچھے ‘(کیاکرتے کماکر‘ نہ کوئی آگے نہ کوئی پیچھے)مرے تو کوئی پانی ڈالنے والابھی نئیں (اگرمرجائیں تو کوئی پانی پلانے والا بھی نہیں) وغیر وغیرہ ۔‘‘
لیکن وہ اپنی قدرت کے یوں جلوے دکھاتاہے کہ کسی کو ضعیفی میں صاحب ِ اولادبنادیتاہے۔
آنکھ والا تیری قدرت کا تماشہ دیکھے
دیدۂ کور کو کیا آئے نظر وہ کیا دیکھے
ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ شادی کے دس بارہ حتی کہ بیس برس بعد بھی زوجین کوبچوں کی نعمت حاصل ہوئی ۔ لیکن اس صبرآزما اور غیریقینی کے مرحلے میں  ثابت قدم رہنابہت مشکل ہوتاہے ۔انسانوں کے اختیار میں علاج ومعالجہ اوردعاکے سواکچھ نہیں۔وہی ہوگا جو خالق ومالک چاہے گا‘وہ بیٹے بھی عطاکرسکتا ہے اور بیٹیاں بھی یا پھر وہ کسی کو بے اولاد بھی رکھ سکتا ہے ‘ اس کی منشا‘ اس کی مصلحت ‘اسی کی قدرت اوراسی کا اختیار (کوئی بابایاعامل اولاد کے نام پرآپ کو دھوکہ ضروردے سکتے ہیں) :
’’آسمان اورزمین کی بادشاہی اللہ کے لیے ہے ‘ وہ جو چاہتا ہے پیداکرتا ہے ۔وہ جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطاکرتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے عطاکرتا ہے ۔ یا ان کو جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اوربیٹیاں بھی ۔اورجس کو چاہتا ہے بے اولادرکھتا ہے ۔بے شک وہ جاننے والا ‘ قدرت والا ہے۔‘‘(سورہ الشوریٰ:49-50)
مسلسل بیٹیوں کی پیدائش پر یاپھر بچے نہ ہونے کی صورت میںکسی پر فقرے کسنے اورطعنے دینے سے پہلے ان آیات پرغورکرناچاہیے۔وہ اگربے اولادی کو کسی کے حصہ میں ڈالنے کی قدرت رکھتا ہے تووہ کسی بانجھ عورت کوبارآور کرنے پر بھی قادرہے ۔وہ بنجرزمین کو سرسبز وشاداب بھی کرسکتا ہے ‘وہ کسی سوکھی ٹہنی پر برگ وباربھی لاسکتا ہے ۔
مرے کریم جو تیری رضا مگر اس بار
برس گزر گئے شاخوں کو بے ثمر رہتے

You may also like

Leave a Comment