حیدرآباد : مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں منعقدہ بین الاقوامی سماجی علوم کانگریس کے موقع پر پروفیسر آمنہ تحسین، صدر شعبہ تعلیمِ نسواں‘ مانو کی کتاب ” سلطانہ کا خواب: تعارف و تانیثی تجزیہ“ کی رسم اجراءانجام دی گئی۔ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر،نے اس کا اجراءانجام دیا۔ اس اجلاس میں پروفیسر دھننجے سنگھ ‘ ڈائرکٹر قومی کانسل برائے فروغِ اردو زبان، بہ حیثیت مہمانِ خصوصی شریک تھے جبکہ پروفیسر فرقان قمر، سابق وائس چانسلر‘ یونیورسٹی آف راجستھان وسنٹرل یونیورسٹی آف ہماچل پردیش کے علاوہ پروفیسر دیپک کمار، اعزازی پروفیسر، مانو، بہ حیثیت مہمانان اعزازی شریک رہے۔ اس موقع پر‘ پروفیسر فریدہ صدیقی‘ ڈین اسکول برائے فنون و سماجی علام وفنون‘ مانو بھی موجود تھیں۔کتاب کی اشاعت پر تمام افراد نے پروفیسرآمنہ تحسین کو مبارکباد پیش کی ۔
واضح رہے کہ پروفیسر آمنہ تحسین کی یہ آٹھویں کتاب ہے جو منظر عام پر آئی ہے۔خواتین کی تاریخ، نسائی ادب، صنفی تصورات و نظریات اور تانیثی تنقید کے علاوہ خواتین کی ترقی و با اختیاری ان کے مطالعے وتحقیق اور تدریس و سماجی کارکردگی کے میدان ہیں۔ ان موضوعات پر ان کے مقالے ملک کے موقر جرائد اور رسائل میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔ان کی کتابیں‘ مطالعاتِ نسواں، حیدرآباد میں اردو ادب کی تحقیق، تانیثی فکر کی جہات،حیدرآباد میں اردو کا نسائی ادب ، سماج اور صنفی تصورات: ادب کے آئینے میں“ شائع ہوکر مقبولیت پاچکی ہیں۔ مذکورہ کتاب ” سلطانہ کا خواب: تعارف و تانیثی تجزیہ“ میں انھوں نے بیسویں صدی کی اولین دہائی کی تانیثی مفکرہ، ناموربنگالی ادیبہ اور حقوقِ نسواں کی جہد کار، رقیہ سخاوت حسین کا مکمل تعارف پیش کیا ہے اور ان کی مطبوعہ کہانی ” سلطانہ کا خواب “ کا تانیثی نقطئہ نظر سے جائزہ لیا ہے۔اس کتاب کا پیش لفظ پروفیسر رفیعہ شبنم عابدی نے تحریر کیا ہے۔ یہ کتاب ایجو کیشنل پبلیشنگ ہاوس‘ نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے‘ جبکہ امیزان پر آن لائن بھی دستیاب ہے۔
قومی خبریں
حیدرآباد : سنسکرت اور اردو زبان کا لسانی و تہذیبی رشتہ بہت ہی قدیم اور نہایت ہی مضبوط ہے۔ اردو کے لفظی و ثقافتی سرمایے اورنحوی ڈھانچے کا ایک بڑا حصہ سنسکرت پر ہی مشتمل ہے۔ اس لیے اردو جاننے والے طلبا کے لیے سنسکرت کی بنیادی لسانی مہارتیں کافی مفید ثابت ہوں گی۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر شیخ اشتیاق احمد ، رجسٹرار، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے شعبہ ترجمہ کے زیر اہتمام منعقدہ دوروزہ تعارف سنسکرت ورکشاپ کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کے دوران کیا۔ انہوں نے اس موقع پر یونیورسٹی کے شعبہ ترجمہ کو اس اہم ورکشاپ کے انعقاد پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ترجمہ ایک مخصوص فن ہے اور یہ فن مختلف زبانوں کے لسانی و تہذیبی عناصر سے واقفیت اور ان پر کماحقہ مہارت کا تقاضا کرتا ہے۔انہوں نے طلبہ کو مختلف زبانوں کے سیکھنے کی ضرورت اور افادیت سمجھاتے ہوئے کہا کہ آج کی دنیا میں ذولسانیت اور کثیر لسانیت ایک اہم صلاحیت ہے جس کی بازار میں کافی مانگ پائی جاتی ہے۔ سنسکرت تو ہندوستان ہی کی نہیں بلکہ دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں سے ایک ہے۔اس موقع پر یونیورسٹی کے پروفیسرصدیقی محمد محمود نے بھی اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ جن کی مادری زبان پر گرفت اچھی ہوتی ہے وہ مختلف زبانیں بآسانی سیکھ سکتے ہیں۔ سنسکرت زبان و ادب میں ہندوستانی ثقافت کا خزانہ پوشیدہ ہے اور اس کی شاعری و ڈراموں میں مختلف اخلاقی اقدار کا سبق ملتا ہے۔ ورکشاپ کے ریسورس پرسن ڈاکٹر شیخ عبدالغنی نے کہا کہ دنیا کی ساری زبانیں اللہ کی بنائی ہوئی ہیں، قرآن میں اللہ نے زبانوں کے اس اختلاف کو اپنی نشانی قراردیا ہے۔اس لیے کسی بھی زبان کو سیکھنے میں ہمیں کوئی تعصب نہیں ہونا چاہیے اور سنسکرت تو وہ زبان ہے جو ہماری مادری زبان یعنی اردو کی اصل زبانوں میں سے ایک ہے۔ قبل ازیں شعبہترجمہ کے صدر ڈاکٹر سید محمود کاظمی نے افتتاحی اجلاس کے مہمانوں اور ورکشاپ کے شرکا کا خیرمقدم کیا اور اس ورکشاپ کی غرض و غایت بیان کی۔ اس موقع پر پروفیسر شگفتہ شاہین ، پروفیسر شعبہ انگریزی نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
دوروزہ تعارف سنسکرت ورکشاپ میں جملہ آٹھ سیشن رکھے گئے جن میں طلبہ کو سنسکرت زبان کی تین بنیادی مہارتیں رسم الخط و تحریر، سننے کی مہارت اور بولنے کی مہارت سکھائی گئی۔ اس ورکشاپ سے یونیورسٹی کے طلبہ کی کثیر تعدادنے استفادہ کیا۔ 8 مارچ کو ورکشاپ کا اختتامی اجلاس منعقد ہوا جس کی صدارت اسکول برائے السنہ ، لسانیات و ہندوستانیات کے کارگزار ڈین پروفیسر شمس الہدیٰ دریابادی نے کی، جب کہ پروفیسر مسرت جہاں، شعبہ اردو، مہمان اعزازی کی حیثیت سے شریک رہیں۔ کنوینر ورکشاپ ڈاکٹر فہیم الدین احمد، اسوسیئٹ پروفیسر ترجمہ نے ورکشاپ کی رپورٹ پیش کی۔ اس موقع پر ورکشاپ میں شرکت کرنے والے تمام شرکاکو اسناد بھی دیے گئے۔
دہلی:سخن سرائے کے زیر اہتمام یوم خواتین کے موقع پر غالب اکیڈمی، نظام الدین، نئ دہلی میں محفل افسانہ منعقد کی گئی جس میں اردو اور ہندی کے افسانہ نگاروں نے اپنے افسانے پڑھے، مہمان خصوصی کے طور پر عصر حاضر کی معروف شاعرہ و افسانہ نگار محترمہ رینو حسین صاحبہ شامل ہوئیں ،مہمانِ ذی وقار کے طور پر شعبہ ہندی، آرٹس فیکلٹی، دہلی یونیورسٹی کی پروفیسر الپنا مشرا،سینئر صحافی ہما رضوی صاحبہ، شعبہ اردو، ذاکر حسین دہلی کالج سے پروفیسر شاہینہ تبسم، آج کل رسالہ سے محترمہ نرگس سلطانہ، بندھتووا فاؤنڈیشن سے نریندرکمار پانڈے شامل رہے۔
پروفیسر الپنا مشرا نے اپنی ایک کہانی بھی پڑھی "نیڑ” کے عنوان سے اور بہت ہی خوشی کا اظہار کیا نیز یہ بھی کہا کہ اردو اور ہندی میرے نزدیک دونوں زبانیں ایک ہی ہیں بس رسم الخط الگ الگ ہے، منتظمین کے طور پر ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا صاحبہ اور ڈاکٹر رخشندہ روحی مہدی صاحبہ کا نام بہت اہم ہے ڈاکٹر رخشندہ روحی صاحبہ نے سخن سراۓ ادبی فورم کیسے اپنی ادبی فورم کیسے وجود میں آئی اور اس کی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی، ڈاکٹر نعیمہ جعفری پاشا صاحبہ اور مدیرہ بیسویں صدی شمع افروز زیدی صاحبہ نے تمام مہمانان کا شکریہ ادا کیا، افسانہ نگاروں میں شمع افروز زیدی، خورشید حیات، ترنم جہاں شبنم، ڈاکٹر پرویز شہر یار،ڈاکٹر ذاکر فیضی، سعدیہ رحمن، ڈاکٹر سفینہ بیگم، اسد رضا، سہیل انجم، نشاں زیدی وغیرہ نے اپنے افسانوں کی افسانہ خوانی کی، زیادہ تر افسانے کے خواتین کے مسائل پر پڑھے گۓ، ناظم کی حیثیت سے شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کے ریسرچ اسکالر ذبیح اللہ ذبیح نے خدمات انجام دی -ڈاکٹر حدیثہ افضل مدھو نے یوم خواتین کیوں منایا جاتا ہے اس پر انہوں نے اپنی بات رکھی، رضاکاروں کے طور پر محمد عارف، سرفراز، انس اختر وغیرہ اور شعیب پیش پیش رہے۔
بین الاقوامی یوم خواتین کے موقع مولانا آزادنیشنل اردو یونیورسٹی کے لکھنؤ کیمپس میں توسیعی خطبہ
لکھنؤ : صنفی امتیاز معاشرہ کی پیداوار ہے ۔سماج کی تعمیر کا کوئی خاکہ دونوں کی شمولیت کے بغیر مرتب نہیں کیا جاسکتا ۔ انھوں نے روزمرہ کی زندگی میں صنفی تعصب پر مبنی زبان کے غیر شعوری استعمال کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے لوگوں کے رویے میں تبدیلی پر زور دیا۔ ان خیالات کا اظہار انگریزی اور غیر ملکی زبانوں کی یونیورسٹی (EFLU,Lucknow Campus)کے ڈائرکٹر پروفیسر رجنیش اروڑہ نے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے لکھنؤکیمپس میں توسیعی خطبہ کے دوران کیا ۔کیمپس کی انچارج ڈاکٹر ہما یعقوب نے خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کی کامیابیوںاور ان کے ناقابل تسخیر جذبے اورقوت کے اعتراف پر زور دیا۔ ڈاکٹر شاہ محمد فائز نے پروگرام کی نظامت کی ۔اس موقع پر انھوں نے مہمان کا تفصیلی تعارف بھی پیش کیا ۔ پروگرام کا آغاز بی اے کے طالب علم محمد اشرف علی نے قرآن پاک کی تلاوت سے کیا ۔ڈاکٹر نزہت اختر نے شکریہ کی رسم ادا کی۔
سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے پروفیسر اروڑا نے کلاس روم کی تدریس میں سیکھنے والوں کے پس منظر اور تجربات کو بطور متن استعمال کرنے پر زور دیا۔ انھوں نے قومی تعلیمی پالیسی (این ای پی 2020) کا حوالہ دیتے ہوئے تدریسی عمل میں شمولیتی نقطہ نظر کو فروغ دینے پر زور دیا۔ زبانوں کے درجہ بندی اور زبان اور علاقائی بولی کے درمیان کی جانے والی نام نہاد تقسیم کو ختم کرتے ہوئے پروفیسر اروڑا نے اسے زبان کی سیاست کا نام دیا۔ انھوں نے ظاہری اور ڈھکے چھپے صنفی امتیاز کو ظاہر کرنے کے لیے اشتہارات اور میڈیا کے کے حوالے سے بھی بات کی ۔انھوں نے مزید زبان کے استعمال میں زیادہ محتاط رہنے اور ہر چیز کے بارے میں متوازن نظریہ اپنانے کی تلقین کی ۔
شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام سولہویں سجاد ظہیر یادگاری خطبے کا انعقاد
نئی دہلی : ہمارے نقادوں کا ایک بڑا حلقہ فروعی مسائل میں زیادہ الجھا ہوا ہے۔ تنقید میں گہری سنجیدگی، مطالعے کو ایک ڈسپلن کے ساتھ رقم کرنے کا طور، ادب کے بنیادی اور تنازعاتی مسائل کی اہمیت اور کلاسیک کو ایک نیا نام دینے کی مساعی کا فقدان ہے۔ ہماری تنقید میں اس فلسفیانہ تفکر کی بھی زبردست کمی ہے جس سے معنی کی نئی راہیں وا ہوتی ہیں۔ فلسفیانہ ذہن خالص ادبی ذہن سے زیادہ بصیرت رکھتا ہے اور معنی نہیں، معنی کے جھرمٹ اس پر منکشف ہوتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیرِ اہتمام بین العلومی تنقید کے موضوع پر سولہویں سجاد ظہیر یادگاری خطبے میں پروفیسر عتیق اللہ نے کیا۔ انھوں نے بین العلومی تنقید کی ناگزیریت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ بین العلومی عمل کے تحت سماجیاتی تصورات اور مشتملات و مواد کا اطلاق اہم ہے۔ ادب کی تفہیم سماجیاتی معنی کے ساتھ مشروط ہے۔ ادب بنیادی طور پر لسانی، ساختی اور جمالیاتی حسیت کی تنظیم کا عمل ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ نے اپنے اس بلیغ اور پرمغز خطبے میں کہا کہ زبان اور ادب اپنی سرشت کے اعتبار سے بین العلومی آمیزہ ہے۔ مختلف علوم و نظریات کو مخلوط اور ہم آمیز کر کے ہی تنقید ایک بہتر کردار ادا کر سکتی ہے۔ چوں کہ تخلیقی ادب کا کردار بھی بین العلومی ہوتا ہے، اس لیے محض کوئی ایک نظریہ، محض کوئی ایک تصور، محض کوئی ایک علم، کسی بھی تخلیقی فن پارے کے تقاضوں سے بخیر و خوبی عہدہ برآ نہیں ہو سکتا۔
شعبۂ تاریخ و ثقافت کے سیمینار ہال میں منعقدہ سولہویں سجاد ظہیر یادگاری خطبے کے صدارتی کلمات میں صدرِ شعبہ پروفیسر احمدمحفوظ نے کہا کہ تنقید اور تخلیق کی زبان ایک دوسرے کے بالکل برعکس ہونی چاہیے۔ تخلیق کی زبان میں ابہام، پیچیدگی اور کثیر معنوی جہات اس کی خوبیاں تسلیم کی جاتی ہیں، جب کہ تنقید میں یہی عناصر خامی تصور کیے جاتے ہیں۔ تنقید کی زبان کا معروضی، صریح اور قطعی ہونا لازمی ہے۔ اس سلسلے میں حالی، کلیم الدین احمد اور شمس الرحمان فاروقی کی زبان تنقید میں آئیڈیل کا درجہ رکھتی ہے۔ انھوں نے اس امر کی طرف بھی توجہ دلائی کہ بین العلومی مطالعے کا انطباق لازمی صورت میں ہر فن پارے پر نہیں کیا جاسکتا۔
سولہویں سجادظہیر یادگاری خطبے کے کنوینر پروفیسر کوثر مظہری نے سجاد ظہیر کا مفصل تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ سجاد ظہیر ایک طرف ترقی پسند تحریک کے بانی ہیں تو دوسری طرف کلاسیکی ادب کے باذوق قاری بھی ہیں۔ ان کی انقلابیت، تجربہ پسندی اور تخلیقی ہمہ جہتی انھیں ادبی تاریخ میں ممتاز کرتی ہے۔ پروفیسر کوثر مظہری نے پروفیسر عتیق اللہ کا تعارف پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ادبی سفر نہایت فعال اور متنوع رہا ہے۔ پروفیسر عتیق اللہ کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اپنی عمر کی آٹھویں دہائی کی دہلیز پر بھی نئے سے نئے ادبی رجحانات و میلانات کا گہرا شعور اور آگہی رکھتے ہیں۔
پروگرام کا اختتام پروفیسر شہزاد انجم کے اظہارِ تشکر اور آغاز ڈاکٹر شاہ نواز فیاض کی تلاوت سے ہوا۔ جلسے میں پروفیسر شہپر رسول، ڈاکٹر اے نصیب خان،ڈاکٹر عادل حیات، پروفیسر خالد جاوید، پروفیسر ندیم احمد، پروفیسر عمران احمد عندلیب، پروفیسر سرورالہدیٰ، ڈاکٹر شاہ عالم، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر محمدمقیم، ڈاکٹر جاویدحسن، ڈاکٹر نوشاد منظر، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر غزالہ فاطمہ،ڈاکٹر خوشتر زریں ملک اور ڈاکٹر راحین شمع کے علاوہ شعبے کے ریسرچ اسکالرز اور طلبہ و طالبات بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔
گلبرگہ:خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی میں ”بریجنگ نالج فرام ڈائیورس ڈسلپن فار گلوبل چیلنجز، یعنی مختلف علوم کے ذریعہ تغیر زمانہ سے پید اشدہ خلیج کو پاٹنے کی کوشش“ تھیم پر دو روزہ بین الاقوامی سمینار اختتام پذیر ہوا۔ جس میں ہندوستان، امریکہ، عمان اور دیگر ممالک کے دانش وروں نے میڈیا، معاشرتی معاملات، تحقیقی وسائل اور جدید آلات کے موضوعات پر بات چیت کی۔ گلبرگہ یونیورسٹی کلبرگی کے وائس چانسلر پروفیسر دیانند اگسر نے کلیدی خطبے میں تعلیم کے تصور،اس کے مراکز،مقاصد و اغراض اور تدریس کے پوشیدہ رموز مقاصد تدریس کے بدل جانے اور عصر حاضر میں اختیار کردہ تدریس کے نقصانات کے حوالے سے تکثیری شعبہ ہائے حیات میں مختلف علوم کے ایک دوسرے کے باہم پیوست جڑوں کی تلاش کرتے ہوئے ان میں شعوری اور منطقی تعلق کو پیدا کرنے کی کوشش کی۔قبل ازیں جلسے سے وائس چانسلر پروفیسر علی رضا موسوی نے اپنے خطاب میں علم کی ناقدری اور بے وقعتی پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انسان اس دنیا کی سب سے مشکل ترین مخلوق ہے جس کو محض علم کی مدد سے نہیں سمجھا جاسکتا۔اختتامی پروگرام میں آئی ایف ایس ڈاکٹر سنیل پنوار نے کہا کہ انسانی فلاح کے لیے ہمیں خول سے نکلنا چاہیے۔ آج ہم اپنے میدان کا مجاہد کہہ کر بہت سے معاملات سے دامن بچا لیتے ہیں جو کہ بہتر نہیں ہے۔ اسی اجلاس میں خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی کے پرو چانسلر علی الحسینی نے کہا کہ میرے دادا نے جو 1958میں جو خواب دیکھا تھا، وہ شرمندہ تعبیر ہوگیا۔ کیوں کہ آج خواجہ بندہ نواز علم کی پیاس بجھانے میں مصروف ہے۔ اس موقع پر پروفیسر رخسار فاطمہ رجسٹرار انچارج خواجہ بندہ نواز یونیورسٹی نے بھی خطاب کیا۔ افتتاحی پروگرام میں ڈین فیکلٹی آف آرٹس اور سیمینار کی کنوینر پروفیسر نشاط عارف حسینی نے اپنے خطاب میں کانفرنس کے موضوع کی اہمیت و افادیت کے حوالے سے کہا کہ فی زمانہ دنیا بھر کے شعبہ جات منقسم ہیں اور انھیں یکجا کرنے سے ہی ترقی ممکن ہو سکتی ہے چنانچہ اتحاد بین شعبہ جات وقت کی اہم ضرورت ہے۔ڈاکٹر عطیہ خان اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ انگریزی نے شکریے کا فریضہ انجام دیا۔آرگنائزنگ سکریٹری سید ابرار اسسٹنٹ پروفیسر نے خیر مقدم کیا۔ڈاکٹر ثنا اعجاز اور ڈاکٹر حنا مبین اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ ریاضی و شعبہ زوولوجی نے نظامت کے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دیے۔قبل ازیں کانفرنس کا آغاز ڈاکٹر عبدالصمد اسسٹنٹ پروفیسر شعبہ اُردو کی قرات کلام پاک سے ہوا۔کانفرنس میں ڈین ریسرچ ڈاکٹر راجشری پلاڈی،پروفیسر زماں موسوی،ڈاکٹر کنیز فاطمہ علوی،پروفیسر عبدالحمید اکبر کے علاوہ بے شمار پروفیسرس، اسسٹنٹ پروفیسرس،طلبا و طالبات کی کثیر تعداد موجود تھی۔
شعبۂ اردو، دہلی یونیورسٹی اور اردو اکادمی کے اشتراک سے ‘اردو میں حاشیائی ادب’ پر یک روزہ سمینار
نئ دہلی: شعبۂ اردو دہلی یونیورسٹی اوراردو اکادمی کے اشتراک سےآرٹس فیکلٹی کے کمرہ نمبر ٢٢ میں یک روزہ قومی سمینار "اردو میں حاشیائی ادب "کا انعقاد عمل میں آیا ۔ سمینار کے افتتاحی اجلاس کی صدارت پروفیسر قمر الہدی فریدی نے کی۔
اس موقعے پرصدر شعبۂ اردو پروفیسر نجمہ رحمانی نےمہمانوں اور شعبۂ اردو کے علاوہ دیگر شعبے کے اساتذہ اور طلبہ و طالبات کا استقبال کرتے ہوے حاشیائی ادب کے بارے میں کہا کہ اس سیمینار سے جہاں ذہن کے جالے صاف ہوں گے وہیں نئے جالے بھی بنے جائیں گے ۔
کلیدی خطبہ دیتے ہوئے پروفیسر معین الدین جینا بڑے نے کہا کہ "حاشیہ” عزت دار نوکر کو کہتے ہیں اور یہ لفظ ایک زمانے میں جتنا باوقار تھا آج اتنا ہی بدنام ہے، مرکز کا اقتدار اور اختیار معاشرے کا مرکز ہوتا ہے اور جو جتنا مرکز سے دور ہوتا ہےاس کا اختیار اور اقتدار کہیں کا نہیں رہتا ہے۔
مہمان خصوصی پروفیسر سراج اجملی نے کہا کہ حاشیائی ادب کی اہم ترین مثال راہی معصوم رضا کا ناول "آدھا گاؤں”ہے۔ جو اردو میں چھپ نہیں سکا بلکہ ہندی میں شائع ہوا اس سے بڑی حاشیائی ادب کی مثال کیا ہوسکتی ہے۔
افتتاحی اجلاس کے صدر پروفیسر قمرالہدی فریدی نے کہا کہ جہاں آج ہم کھڑے ہیں وہ مرکزی مقام ہے اور حاشیائی ادب کو مرکز میں لانے کی سعی جاری ہے۔ اور کہا کہ حاشیائی ادب پر ذیادہ کام نہیں ہوا ہے لیکن جتنا ہوا ہے اس کی ہمیں قدر کرنی چاہیئے ،جب لفظ تجربہ احساسات وجزبات میں ڈھل جاتے ہیں تو وہ ہر زمانے کا انمول رتن بن جاتے ہیں، مزید کہا کہ ہم بیک وقت کبھی حاشیے پر ہوتے ہیں اور کبھی مرکز میں، اس کی مثال کالو بھنگی ہے ۔
مہمان اعزازی پروفیسر امیتابھ چکرورتی نے حاشیائی ادب کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ آئیڈیا نیا نہیں ہے بلکہ پرانا ہے لیکن اسے نئے زاویے سے دیکھا اور پرکھا جا رہا ہے تاکہ نئ جہت متعارف ہوسکے۔
سیمینار کی نظامت کرتے ہوئے پروفیسر ابوبکر عبادنے کہا کہ حاشیے کے لیے مرکز کا ہونا ضروری ہے، حاشیہ اور مرکز کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا ،حاشیے کا تصور ہر دور میں بدلتا رہتا ہے۔ انھوں نے حاشیائی ادب کی قسمیں بھی بیان کیں۔
پہلے اجلاس میں اظہار تشکر کرتے ہوئے پروفیسر ارشاد نیازی نے کہا کہ حاشیے سے جو لوگ مرکز میں آتے ہیں اس میں ان کے علم کا بڑا حصہ ہوتا ہے ۔
دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر سراج اجملی نے کی،اور اس میں کل چھ مقالات پیش کیے گئے ۔صدارتی خطبہ پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس اجلاس میں جتنے مقالات پڑھے گئے سب عمدہ تھے۔
اس اجلاس کی نظامت شعبۂ اردو کی ریسرچ اسکالر دبیر سیدہ نے کی۔
اس اجلاس میں پڑھے گئے مقالات کے عناوین یہ تھے : اکیسویں صدی کے اردو ناولوں میں حاشیائی کردار(نورین علی حق) ، طبقۂ نسواں اور مزاحمتی شاعری (عارف اشتیاق)، حاشیائی اردو خاکے (عمیر منظر) ، دلت ادب اصول اور مسائل (سنجے کمار) ، حاشیائی طبقات اور اردو افسانہ(شہناز رحمان) ، ساجدرشید کے افسانہ سونے کا دانت کا مطالعہ ( سفینہ بیگم) ۔
تیسرے اجلاس میں صدارت کے فرائض پروفیسر مظہر احمد نے انجام دیے اور انہوں نے کہا کہ سب کے مقالات بہت عمدہ تھے لیکن میں جامعیت کی ضرورت ہے ،مزید کہا کہ ہمیں متن کے علاوہ حاشیے کو بھی پیش نظر رکھنے کی ضرورت ہے ۔
تیسرے اجلاس میں بھی کل چھ مقالات پیش کیے گئے جن کے عناوین تھے: ناول اس نے کہا تھا کا موضوعاتی مطالعہ(اعجاز احمد)، طوائف شاعرات اور ان کی مخصوص شاعری(ذبیح اللہ)
، اردو ناولوں میں چند حاشیائی حوالے (فیصل) ، اصطلاحات کی موہومیت اور تانیثی شاعری (زاہد ندیم احسن) ، عرفان ذات کا سفر تانیثی غزل کے حوالے سے(شاذیہ عمیر ) ،ناول چمراسور کا تجزیاتی مطالعہ(راکیش کمار) ۔ اس اجلاس کی نظامت شعبۂ اردو کے استاذ ڈاکٹر علی احمد ادریسی نے کی۔
اس سیمینار میں بطور خاص پروفیسر ارجمند آرا،ڈاکٹر احمد امتیاز، ڈاکٹر ارشاد نیازی ،ڈاکٹر شاذیہ عمیر،ڈاکٹر شمیم احمد، ،ڈاکٹر فرحت کمال،ڈاکٹر سنیل کماروغیرہ اور شعبے کے دیگر اساتذہ کے ساتھ بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات نے شرکت کی۔
’’ کہانی لکھنا سیکھیں ‘‘ کے عنوان سے گورنمنٹ ڈگری کالج میں توسیعی خطبے کا انعقاد
تانڈور :گورنمنٹ ڈگری کالج تانڈور ضلع وقار آباد میں آج شعبۂ اردو اور ہندی کے تحت توسیعی خطبہ کا انعقاد کیا گیا ۔ جس میں مختلف شعبوں کے طلبہ وطالبات نے شرکت کی اور کہانی کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا ۔ پروگرام کی صدارت کالج کے پرنسپل ڈاکٹر ایم رویندر نے کی ۔ انھوں نے کہا کہ صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر اسرارالحق کی فعالیت کی وجہ سے کالج میں ادبی ماحول رہتا ہے ۔ انھوں نے کہا کہ زبان وثقافت کے فروغ میں کہانیوں کا اہم کردار ہوتا ہے ۔پروگرام کا آغاز ماہرہ بیگم کی قرأت قرآن اور شاوین نساء اور شیرین کے ترجمے سے ہوا ۔
اس موقع پر ڈاکٹر سلمان عبدالصمد ، اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردوخواجہ بندہ نواز یونیورسٹی نے کہا کہ کہانی بلکہ افسانہ لکھنا سیکھنے کے لیے متعدد اصول ضرور ہیں مگر کہانی لکھنے کے لیے کوئی اصول نہیں ۔ کیوں کہ بالغ نظری اور مشق ومزاولت کے بعد افسانہ نگار لکھنے کے لیے خود اپنا اصول بنانا شروع کردیتا ہے ۔یہی سبب ہے کہ ہم کتابی اصولوں کو ہر افسانے پر منطبق نہیں کرسکتے ہیں بلکہ لکھے ہوئے افسانوں کے مدنظر بہت سے اصول بنائے جاسکتے ہیں ۔ ہم بہت سی شعریات متعین کرسکتے ہیں ۔ ڈاکٹر سلمان نے کہا کہ جس طرح کہانی کا اپنا اسلوب ہوتا ہے، اسی طرح بڑی حد تک ہر افسانے کا اپنا اصول ہوتا ہے ۔ انھوں نے ارتکاز، اجزائے ترکیبی ، قوت احساس ، قوت ممیزہ ، قوت لسان ، قوت احتساب ، قوت نفسیات اور ردعمل جیسی اصطلاحات کا تجزیہ کرتے ہوئے کالج کے طلبہ وطالبات سے بات کی ۔ اس کے بعد ڈاکٹر سلمان نے بتایا کہ وہ کس طرح افسانہ لکھنا پسند کرتے ہیں اور کس طرح وہ اپنے ذہن میں پہلے افسانہ لکھ لیتے ہیں ، پھر وہ اسے کاغذ پر اتارتے ہیں ۔ گویا سلمان عبدالصمد نے افسانے شعریات ونفسیات کے ساتھ اپنے ذاتی تجربات بچوں کے سامنے پیش کیے ۔ مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے صدر شعبۂ اردو ڈاکٹر اسرارالحق نے کہا کہ ادبی فضا قائم کرنا ہماری ذمے داری ہے ۔ کیوں کہ کہانیوں سے جہاں ہماری ذہنی تربیت ہوتی ہے ، وہیں بہت سے سماجی پہلوؤں کی اصلاح بھی ہوتی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ ادب کا بنیادی مقصد تبلیغ و مقصدیت نہیں ہے ، مگر ادب کی مقصدیت سے کلی انکار بھی نہیں کیا جاسکتا ہے ۔ جب کہ شعبۂ ہندی کے صدر ڈاکٹر وویک کمار دوبے نے کہا کہ فن کاروں سے ملنے کا تجربہ ایک یاد گار تجربہ ہوتا ہے ۔ سلمان عبدالصمد نے جو خطبہ پیش کیا وہ قابل ذکر ہے ، کیوں کہ وہ تنقید وتخلیق سے یکساں تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کے تجربات کو سننا بھی ایک یادگار لمحہ ہے ۔ اس موقع پر فاطمہ بیگم نے اردو اور ثمینہ بیگم نے عربی میں نعتیہ اشعار پیش کیے ۔ جب کہ نظامت کے فرائض شیریں سلطانہ نے ادا کیے ۔
آل انڈیاریڈیواورشعبہ اردو،دہلی یونیورسٹی کے زیراہتمام’ مشاعرہ بزم نوبہار‘کا انعقاد
نئی دہلی:آکاش وانی ،دہلی اورشعبہ ٔ اردو،دہلی یونیورسٹی کے اشتراک سے مشاعرہ بزم نوبہارکاانعقادآرٹس فیکلٹی،دہلی یونیورسٹی کے کمرہ نمبر۲۲میں کیاگیا۔اس مشاعرے میں دہلی کی جامعات دہلی یونیورسٹی ،جامعہ ملیہ اسلامیہ اورجواہرلعل نہرویونیورسٹی کے نئی نسل کے نمائندہ شعرانے شرکت کی ۔ان میں سفیرصدیقی،اہتمام صادق،زیباخان،شہلاکلیم،سیف ازہر،ممتازاقبال اورآصف بلال نے اپنا کلام پیش کیا ۔آل انڈیاریڈیوکے پی ای ایکس معروف شاعرنعمان شوق نے کہاکہ آل انڈیاریڈیواورشعبہ اردوکے زیراہتمام منعقد اس بزم نوبہارمیں نئے شعراکااستقبال کرتے ہوئے مجھے بے انتہامسرت ہورہی ہے ۔یہ تمام شعرانئی نسل کے نمائندہ شعراہیں،ہماری دعوت پریہاں آئے ہیں،میری خواہش ہے کہ انھیں آج زیادہ سے زیادہ سناجائے ۔
شعبہ اردودہلی یونیورسٹی کی صدرپروفیسرنجمہ رحمانی نے اظہارتشکرکیااورکہاکہ اس مشاعرے کوسنتے ہوئے اپنے ماضی میں لوٹ گئی تھی،جب مشاعروں میں بہترین شعرااپنے کلام سناتے تھے ۔مجھے اعتراف کرناچاہیے کہ نئی نسل کے یہ شعراجس اندازکی شاعری کررہے ہیں ،آج بہت سے بڑی عمرکے شعرابھی ایسی شاعری نہیں کررہے ہیں ۔نئی نسل کی شاعرات بھی اپنامخصوص لہجہ ساتھ لائی ہیں ۔اس مشاعرے کے انعقادکامقصدشعرکی سماعت کی تربیت بھی ہے ۔ہمارے طلباوطالبات میں شعرسننے کی تربیت بھی ہونی چاہیے ۔طلبا وطالبات غورکریں کہ آج کی نسل کیسے سوچتی ہے اوراس کے اظہارکے طریقے کیاہیں۔میں آل انڈیاریڈیو،اپنے اساتذہ ،طلبا،شعرااوردیگرشعبہ جات کے لوگوں کی شکراگزارہوں کہ انھوں اس مشاعرے میں شرکت کرکے مشاعرے کوکامیاب بنایا۔
مشاعرے میں پیش کیے گئے منتخب اشعارپیش ہیں ۔
گھیرے جائیں کسی دن اورکہیں مارے جائیں
سرپٹکنے سے توبہترہے اتارے جائیں
سفیرصدیقی
خودکشی کے کئی راستے ہیں مگر
چن رہے زندگی برملا،دوبدن
زیباخان
کوزہ گرکس کومیسررہی فرصت تیری
کیوں ہمیں چاک سے عجلت میں اتاراتونے
شہلاکلیم
روح کی بات نہ ہوتی توبدن ایساتھا
طورسے جیسے تجلی کی کرن پھوٹ پڑے
اہتمام صادق
ہم ایسے چلے آئے نہیں شہرغریباں
دنیاکے خداوں سے بڑی جنگ لڑی ہے
سیف ازہر
بچ کے مقتل سے جسے جاناہے جاسکتاہے
شمع خیمہ بھی سرشام بجھادی گئی ہے
آصف بلال
وہ ہمیں نیلام کرتاہے بھرے بازارمیں
اس کی اک آوازپرنایاب ہوجاتے ہیں ہم
ممتازاقبال
خیال رہے کہ مشاعرہ بزم نوبہارمیں شعبہ اردوکے اساتذہ پروفیسرابوبکرعباد،پروفیسرارجمندآرا،پروفیسرمشتاق عالم قادری،ڈاکٹرارشادنیازی،ڈاکٹرشاذیہ عمیر،ڈاکٹرفرحت کمال،ڈاکٹرسنیل کمار،آل انڈیاریڈیوکے ملازمین اوردیگرشعبوں کے طلباوطالبات وغیرہ نے بطورخاص شرکت کی ۔
پونے : ‘شمیم طارق: شخصیت اور علمی ادبی فتوحات’ کے موضوع پر پونا کالج کے آڈیٹوریم میں منعقدہ سیمینار میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی سابق پرو-وائس چانسلر پروفیسر تسنیم فاطمہ نے کہا کہ پونا کالج کی اہم فتوحات میں ایک اہم فتح یہ ہے کہ اس نے شمیم طارق کی علمی ادبی فتوحات پر یہ سیمینار منعقد کیا ہے۔ جامعہ کے ہی سابق صدر شعبہ اردو پروفیسر خالد محمود نے کہا کہ شمیم طارق شخصی اعتبار سے بھی لاجواب ہیں اور علمی اعتبار سے بھی۔ انہوں نے علم و ادب میں جو خدمات انجام دی ہیں وہ بلا شبہ فتوحات کہلانے کی مستحق ہیں۔ آپ نے شمیم طارق کی علمی ادبی اور ذاتی زندگی کے کئی گوشوں پر روشنی ڈالی اور یہ بھی کہا کہ اتنے باکمال شخص کے کچھ حاسدین کا ہونا فطری ہے۔ حاسد سب کے نہیں ہوتے بلکہ انہی کے ہوتے ہیں جو خوبیوں اور صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں۔ ڈاکٹر مہتاب عالم نے کہا کہ شمیم طارق کی ادبی خدمات فتوحات ہی کہے جانے کی مستحق تھیں اور اُن کا جشن منایا جانا بھی لازم تھا۔ انہوں نے اردو میں بہت کچھ ایسا لکھا ہے جس کو ‘شہہ رگ’ کی حیثیت حاصل ہے. کلیدی خطبہ کالج کے وائس پرنسپل پروفیسر معین الدین خان فلاحی نے پیش کیا اور اس کلیدی خطبے میں انہوں نے شمیم طارق کی مختلف جہتوں کو جمع کیا جس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ شمیم طارق کی تحریر بہتر ہے یا تقریر ! کیونکہ قدرت نے انہیں دونوں نعمتوں سے نوازا ہے۔ فلاحی صاحب نے شمیم طارق کے کئی شعر بھی سنائے اور اس پر گفتگو کی۔ شمیم طارق نے بھی اس موقع پر مختصر خطاب کیا اور دہلی، علی گڑھ، بنارس، حیدرآباد، بھوپال، گلبرگہ، اورنگ آباد، ممبئی اور پونے وغیرہ سے آئے ہوئے مہمانوں کا نام لے کر کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ علم و ادب کی کہکشاں پونا کالج کے آڈیٹوریم میں اتر آئی ہے۔ میں سب کو سننا پسند کروں گا میرا بولنا ضروری نہیں ہے ہاں یہ ضرور کہتا ہوں کہ جب میرے پاس کچھ نہیں تھا تو مایوس نہیں تھا آج کچھ ہے تو مغرور نہیں ہوں۔ میری کوشش فیض رساں بننے کی ہے۔
افتتاحی سیشن کے صدر اور کالج کے پرنسپل پروفیسر آفتاب انور شیخ نے پونا کالج کی اردو کو فروغ دینے کی کوششوں کا ذکر کرنے کے ساتھ یہ بھی کہا کہ کسی زندہ ادیب پر سیمینار کے انعقاد کی روایت کو اور زیادہ مستحکم کرنے کی ضرورت ہے۔
سیمینار کے ٹیکنیکل سیشن کی صدارت پروفیسر مسعود انور علوی، پروفیسر آفتاب احمد آفاقی اور پروفیسر عزیز بانو نے کی۔ مہمان خصوصی کی حیثیت سے ممبئی اردو نیوز کے ایڈیٹر شکیل رشید نے شرکت کی اور کہا کہ میں شمیم طارق کو ایک زمانے سے جانتا اور اس حیثیت سے مانتا ہوں کہ انہوں نے غریبی میں نام پیدا کیا ہے۔ رزق حلال کے التزام میں تو وہ اپنی مثال آپ ہیں۔ ان کی علمی ادبی زندگی کے کسی نہ کسی پہلو پر جن لوگوں نے مقالات پڑھے ان کے نام حقانی القاسمی، جمشید احمد ندوی، عزیز بانو، اسلم چشتی، خواجہ کوثر حیات، مہتاب عالم، غضنفر اقبال اور عظمی تسنیم ہیں۔ نظامت و تعارف ابرار احمد، جاوید اختر، اور سید عبدالباری نے پیش کیے۔ آخری سیشن کی صدارت آفتاب احمد آفاقی نے کی۔ مہمان خصوصی کے طور پر شریک شاہنواز تھانہ والا نے کہا کہ شمیم طارق میرے خاندان کا حصہ ہیں اور دن رات کے ساتھ کی بنیاد پر میں کہہ سکتا ہوں کہ ان کی زندگی میں ریاکاری یا دکھاوا نہیں ہے میں ان کے بافیض ہونے کی بھی گواہی دیتا ہوں۔ صدارتی کلمات میں پروفیسر مسعود انور علوی نے کہا کہ شمیم طارق کا تعارف میرے والد نے 50 سال پہلے کرایا تھا۔ میں محسوس کر سکتا ہوں کہ وہ کس طرح دن بہ دن تناور درخت بنتے گئے ہیں۔ میں ان کے شخصی اور علمی کمالات کا احاطہ ایک مجلس یا ایک تقریر میں نہیں کر سکتا۔ پروفیسر آفتاب احمد آفاقی نے موازنہ کی روایت اور اطلاقی و مشرقی شعریات کے حوالے سے شمیم طارق کی تنقید کا قابل اعتبار تجزیہ کیا۔ آفتاب احمد آفاقی کی جامع تقریر نےسامعین پر جادو جیسا اثر کیا اور وہ مسحورہو کر سنتے رہے۔ تنقید و تحقیق کی روایت کو آگے بڑھانے میں شمیم طارق کی کتابوں اور مضامین کے حوالے سے آفتاب آفاقی کی تقریر بہت موثر تھی اور چونکہ یہ سیمینار کی آخری تقریر تھی اس لیے اس پر بعد میں بھی صدائے تحسین بلند کی جاتی رہی۔عام طور سے اعتراف کیا گیا کہ اتنا کامیاب سیمینار پونا کی حالیہ تاریخ میں کبھی نہیں ہوا تھا۔
اردو یونیورسٹی میں تعلیم کے مستقبل کی تشکیل سال 2047 تک پر دو روزہ قومی کانفرنس کاافتتاح
حیدرآباد:(پریس نوٹ) تعلیم کا مقصد انسانی استعدادوں کو فروغ دینا ہے۔ ان خیالات کا اظہار پروفیسر ایم جگدیش کمار ، صدر نشین یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (یو جی سی) نے کیا۔ وہ آج مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں شعبہ تعلیم و تربیت کے زیر اہتمام دو روزہ قومی کانفرنس کے افتتاحی اجلاس کو مخاطب کر رہے تھے جو ”تعلیم کے مستقبل کی تشکیل سال 2047 تک“ کے موضوع پر منعقد کی جارہی ہے۔
یو جی سی کے صدر نشین کے مطابق ”نئی تعلیمی پالیسی کا مقصد تعلیمی نظام کو تبدیل کرکے، سیکھنے والوں کو حصول تعلیم میں آزادی، لچک اور انتخاب فراہم کرنا ہے تاکہ وہ مستقبل کا ادراک کرکے اسے پائیدار، صحت مند، پرامن بنا سکیں۔ ان کے مطابق ملک کی ترقی خواتین کی ترقی اور شمولیتی ترقی پر مبنی ہونی چاہیے۔ ایک مکمل ترقی یافتہ ملک 2047 – وکست بھارت کے نصب العین کوسمجھنے کے لیے 4 ستون بڑے اہم ہیں جو نوجوان، خواتین، کسان اور غریبوں پر مشتمل ہیں ۔ پروفیسر ایم جگدیش کمار نے کہا کہ تعلیم کے میدان میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی بلا شبہ ٹھوس خدمات انجام دے رہی ہے۔
یو جی سی کے چیئرمین پروفیسر ایم جگدیش کمار ، مانو میں منعقدہ دو روزہ قومی کانفرنس میں بحیثیت مہمانِ خصوصی شریک تھے۔ اس موقع پر اپنے خطاب میں انہوں نے تعلیم کے مستقبل کے لیے اپنے وژن کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ یو جی سی کی جانب سے ملک بھر کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جدت اور شمولیت کو فروغ دینے کے لیے کیے گئے کلیدی اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ان کے مطابق اس کانفرنس کا مقصد ملک میں بہتر اور معیاری تعلیم کے محفوظ مستقبل کے لیے مختلف اقدامات کیے جارہے ہیں۔
وائس چانسلر مانو پروفیسر سید عین الحسن جو دو روزہ کانفرنس کے سرپرست اعلیٰ بھی ہیں نے معزز مہمانوں اور مقررین کا خیر مقدم کرتے ہوئے انہیں دلی مبارکباد پیش کی۔ اس موقع پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس طرح کے کانفرنس سے طلبہ اور ریسرچ اسکالرس کو مستقبل تعلیمی چیلنجز سے نمٹنے میں مدد ملے گی اور وہ قومی تعمیر میں سرگرمی سے حصہ لیں گے۔
کانفرنس میں نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف اوپن اسکولنگ (NIOS) کی صدر نشین پروفیسر سروج شرما نے بھی شرکت کی اور کہا کہ اس طرح کی کانفرنس کے ذریعہ سے طلبہ اور اساتذہ تیزی سے تبدیل ہوتے عالمی منظر نامے میں تعلیمی شعبے کو درپیش چیلنجوں اور مواقع سے نمٹنے کے لیے اپنے آپ کو تیار کرسکیں۔ انہوں نے مختلف تعلیمی کمیشنوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ وکست بھارت سال 2047 تک کا ہدف تمام تعلیمی پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ انہوں نے نئی تعلیمی پالیسی پر عمل آوری کے اقدامات پر بھی تفصیلی اظہار خیال کیا اور زور دیا کہ اعلیٰ تعلیم کے میدان میں نوجوانوں کے داخلہ کو یقینی بنایا جائے۔ قبل ازیں کانفرنس کے آغاز میں پروفیسر اشتیاق احمد، رجسٹرار نے مانو کا ایک مختصر تعارف پیش کیا اور یونیورسٹی کی کارکردگی کو بہترین بنانے کے لیے اپنے عزائم اور علمی منظر نامے کی تشکیل میں اساتذہ کے رول کو واضح کیا۔ ابتداءمیں پروفیسر ایم وناجا، ڈین اسکول آف ایجوکیشن اینڈ ٹریننگ نے کانفرنس کا خطبۂ استقبالیہ پیش کیا۔
پروفیسر شگفتہ شاہین نے مہمان خصوصی، پروفیسر ایم جگدیش کمار کا تعارف پیش کیا۔ جبکہ پروفیسر صدیقی محمد محمود نے پروفیسر سروج شرما کا تعارف پیش کیا۔ آخر میں پروفیسر شاہین الطاف شیخ، صدر شعبہ تعلیم و تربیت نے شکریہ ادا کیا۔ ڈاکٹر وی ایس سومی نے افتتاحی اجلاس کی کارروائی چلائی۔
شعبہ اسلامک اسٹڈیزکی جانب سےمولانا آزاد نیشنل اردو یونیور سٹی میں دو روزہ انٹرنیشنل کانفرنس کاانعقاد
حیدر آباد:شعبہ اسلامک اسٹڈیز مولانا آزاد نیشنل اردو یونیور سٹی کی جانب سے 27-28 فروری2024ء بروز منگل اور بدھ”جدید اور ما بعد دورِجدید میں اسلامک اسٹڈیز:ہندوستانی اور ایرانی علماء ومفکرین کی خدمات کا جائزہ”کے عنوان سے دو روزہ بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی۔اس کانفرنس میں آن لائن اور آف لائن کل چودہ سیشن ہوئے،جس میں سو سے زائدمقالات پیش کئے گئے۔کانفرنس میں ملک اور بیرونِ ملک سےمتعدد اسلامک اسٹڈیز کے ماہرین نے شرکت کی، جس میں پروفیسر عبد العلی (سابق چیئر مین شعبہ اسلامک اسٹڈیز علی گڑھ مسلم یونیورسٹی)،پروفیسرمحمد اسحاق (سابق ڈین فیکلٹی آف ہیو منٹیز اینڈ لینگویجزجامعہ ملیہ اسلامیہ)،پروفیسراقتدار محمدخان (ڈین فیکلٹی آف ہیو منٹیز اینڈ لینگویجزجامعہ ملیہ اسلامیہ) اورپروفیسر لیلاچمن خاہ (وزیٹنگ پروفیسرTIETپٹیالہ)وغیرہ قابلِ ذکر ہیں۔ پروفیسریحیٰ جہانگیری (پروفیسر شعبہ اسلامک اسٹڈیز قم یونیورسٹی ایران)،پروفیسر دتک عبد العزیز برغوت (ڈارکٹر IIIT&IIUM,ملیشیا)اور پروفیسر مقتدرخان ( شعبہ سیاسیات دلاور یونیورسٹی یو ایس اے)وغیرہ آن لائن شریک رہے،کانفرنس کےدوسرے دن تیسرا محمد حمید اللہ میموریئل لیکچر بعنوان "جدید تکثیری تناظر میں قرآنی مطالعات کی بازیافت "کاانعقاد عمل میں آیا،جسے پروفیسر محمد اسحاق نے پیش کیا، انھوں نےسامعین کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ قرآنِ مجید نے دیگر آسمانی کتابوں کے مقابلے میں بہت واضح انداز میں تکثیری سماج میں رہنے کے اصول بیان کئےہیں،جن کو خود قرآن کے مطالعے سےاور ان علماءودانشوران کی تحریروں سے سمجھا جا سکتا ہے،جنھوں نے پلورل سوسائٹی اور قرآن کے موضوع پر قلم اٹھایاہے۔اس کے بعد دو روزہ کانفرنس کااختتامی سیشن منعقد ہوا،جس کی صدارت پروفیسراشتیاق احمدرجسٹرار مولانا آزاد نیشنل اردویونیورسٹی نے انجام دی ،آپ نے خطاب کے دوران کہا کہ شعبہ اسلامک اسٹڈیز اپنی کانفرنس اور سمینار میں پیش کئے گئے مقالات کو کتابی شکل دینے اور پروسیڈنگ شائع کرانے کے لیے جانا جاتا ہے ،علاوہ ازیں دیگر مہمان مقررین میں پروفیسر ہمایوں اختر نجمی (سینٹر فار ویسٹ ایشین اسٹڈیز جامعہ ملیہ اسلامیہ)، ڈاکٹر محمد سلمان خان(صدر شعبہ عرب کلچر ممتاز پی جی کالج لکھنؤ)اورپروفیسر سید علیم اشرف جائسی (ڈین اسٹوڈنٹ ویلفیئر مانو)وغیرہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا،اختتامی اجلاس کا آغاز محمد فارس ایم اےسال دوم کی تلاوت سے ہوا جبکہ،کانفرنس کی رپورٹ کانفرنس کے کوآرڈینیٹر ڈاکٹر عاطف عمران استاذ شعبہ اسلامک اسٹڈیز نے پیش کی،صدر شعبہ اسلامک اسٹڈیزپروفیسر محمد حبیب صاحب نے اظہارِ تشکر کےفرائض انجام دیے اوراس طرح یہ عظیم الشان بین الاقوامی کانفرنس بحسن وخوبی اپنے اختتام کو پہنچی۔
جامعہ کی فیکلٹی آف ایجوکیشن میں ساتویں سعید انصاری میموریل لیکچر کا انعقاد
نئی دہلی :جامعہ ملیہ اسلامیہ کی فیکلٹی آف ایجوکیشن میں ساتواں سعید انصاری میموریل لیکچرکا انعقادڈین فیکلٹی آف ایجوکیشن پروفیسر سارہ بیگم کی صدارت میں عمل میں آیا۔ڈاکٹرسعید انصاری صاحب جامعہ کے شعبۂ تعلیم کے بانی تھے۔وہ ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب کی سرپرستی میں قائم کردہ استادوں کا مدرسہ یعنی ٹیچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کے پہلے پرنسپل تھے۔آج ٹی ٹی آئی ٹیچرٹریننگ اینڈ نان فارمل ایجوکیشن (آئی ۔اے۔ایس۔ای) کے نام سے جانا جاتاہے۔اس پروگرام میں مولاناآزادنیشنل اردویونیورسٹی (حیدرآباد)کے سابق وائس چانسلر اور ممتازدانشورپروفیسر محمداسلم پرویزگیسٹ اسپیکر کی حیثیت سے اور پدم شری پروفیسر اختر الواسع چیئر پرسن کی حیثیت سے مدعو تھے۔پروفیسر سارہ بیگم نے مہمان اسپیکر کا خیرمقدم کرتے ہوئے ان کا تعارف پیش کیا اور موضوع سے متعلق اپنے تاثرات پیش کیے۔ پروفیسرمحمد اسلم پرویز نے بعنوان ’’ مالک کائنات: اس کے قوانین اور مخلوق‘‘ پر تفصیلی خطبہ پیش کیا۔انھوں نے کہا کہ کائنات کا نظام خالق کائنات کے اصولوں کے مطابق چلنے سے ہی دنیا میں امن قائم ہوگا۔قرآن بنی نوع انساں کی کتاب ہے۔اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کاد رجہ عطاکیامگر پھر بھی انسان اللہ کے احکام کی نافرمانی کرتاہے اور اسی کی وجہ سے سماج میں انتشاراور بدامنی کی فضا قائم ہے۔انھوں نے قرآن کے حوالے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ انسان کو نرمی، صلہ رحمی، نیکی اور بھلائی کا حکم دیتاہے۔انسان کو چاہیئے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام پر تدبر کرے اور غوروفکر سے کام لے۔پروفیسر اخترالواسع نے بھی پر اپنے تاثرات پیش کیے اور تعلیم نسواں کی ضرورت اور اہمیت پر زوردیا۔
اس موقع پر مولاناآزادنیشنل اردو یونیورسٹی (حیدرآباد) کے سابق شیخ الجامعہ پروفیسر محمد میاں، ڈاکٹر سعید انصاری کے فرزند جناب محمودانصاری، ڈپارٹمنٹ آف ٹیچر ٹریننگ اینڈ نان فارمل ایجوکیشن کی صدر پروفیسر جیسی ابراہم، ڈپارٹمنٹ آف ایجوکیشنل اسٹڈیز کے صدرشعبہ پروفیسر ارشد اکرام احمد کے علاوہ فیکلٹی آف ایجوکیشن کے سبھی پروفیسر صاحبان اور طلبا وطالبات شریک تھے۔ پروگرام کی نظامت پروفیسر مہنازانصاری نے انجام دیے اور انہیں کے اظہارتشکر پر پروگرام اختتام پذیر ہوگیا۔
ارداکادمی دہلی کے زیر اہتمام چار روزہ’’ جشن اردو‘‘ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر
نئی دہلی: اردو راثت میلہ کے تحت چار روزہ ’’جشن اردو‘‘ جیسے جیسے اپنا سفر طے کرتا رہا کامیابی کی ایک نئی عبارت لکھی جاتی رہی ۔ آخر ی روز اتوا رکا دن تھا ، دہلی و بیرون دہلی سے تفریح و پکنک اور جشن اردو کے لیے لوگ سندر نرسری کا رخ کررہے تھے ۔ دہلی میں کئی کامیاب جشن کا سالانہ انعقاد ہوتا ہے ان ہی میں سے ایک اردواردو وراثت میلہ ہے جوپچھلے کئی سالوں سے دہلی کے مختلف علاقوں منعقدمیں ہوتارہا ہے۔، لال قلعہ اور سنٹرل پارک کناٹ پلیس دلی کے بعد اس سال نظام الدین کے پاس سندر نر سری کے سبزہ زار پر اس سال منعقد ہوا، جس میں جشن اردو نے نئی تاریخ رقم کی ،ساتھ ہی نئے تجربات حاصل ہوئے اور اردو کے تئیں بے پناہ دیوانگی بھی دیکھنے کو ملی ۔
وزیر برائے فن ، ثقافت و السنہ حکومت دہلی کے وزیر جناب سوربھ بھاردواج روزانہ حاضررہے اور اپنی دلچسپی کا بخوبی مظاہرہ کیا ، نظم ونسق کمی و زیادتی پر مستقل اپنی ہدایات بھی دیتے رہے ۔آخری دن عوام سے خطاب کرتے ہوئے انھوںنے کہا کہ دہلی حکومت زبان و ثقافت کے فروغ کے لیے ہمیشہ کوشاں ہے ، ہماری جتنی بھی ہیر ٹیج ہے سبھی مقامات پر ہیر ٹیج واک کا اہتمام کیا گیا ہے ، نیز دہلی کی جتنی بھی قدیم مذہبی عمارتیں ہیں وہاں بھی ہیریٹج واک کا جلد ہی اہتمام کیا جائے گا ۔ دلی ایک ایسی مرکزی جگہ ہے کہ بارہا اجڑنے کے بعد بھی اپنی مرکزیت کے ساتھ ہربار آباد بھی ہوئی ۔ دہلی کو بنانے میں پانڈووں کے زمانے سے ابھی تک کے حکمرانوں کا کردار رہا ہے ۔ یہ بات بھی ہمیشہ سمجھی گئی ہے کہ جس نے بھی دہلی میں حکومت کی اس نے پورے ملک میں حکومت کی۔ اس لیے اس سفر کو مزید آگے بڑھا نا ہے ۔اس موقع پر انھوں نے اپنی اردو سے وابستگی کی مناسبت سے دلی کے حوالے سے اشعار بھی سنا ئے ۔
چوتھے دن کا پہلا پروگرام تقریر ی مقابلے سے شروع ہوا ، جس میں جامعہ ملیہ اسلامیہ اور دہلی یونی ور سٹی و کالجز کے طلبا و طالبات نے ’ اردو کے فروغ میں سوشل میڈیا کا کردار مثبت ہے‘کے موضوع پر تقریر ی مقابلہ میں حصہ لیا ، جس میں اول انعام شعیب احمد، شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دوم محمد کیف، کر وڑی مل کالج ، سو م انعام نمرہ ناز ذاکر حسین دلی کالج جبکہ حوصلہ افزا انعام شہباز عالم شعبہ اردو دہلی یونی ورسٹی کو دیا گیا ۔ ججز کے فرائض ڈاکٹر ارشاد نیازی اور ڈاکٹر شمیم احمد نے انجام دیے ۔ ڈاکٹر ارشادنیازی نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ خطابت کا فن ایک مختلف اور منفرد ادبی فن ہے ، جس میں اسلوب و زبان کی ساحری کے ساتھ حقائق کو دھیان میں رکھا جاتا ہے ۔ کبھی بھی ایسی بات نہ پیش کریں جو خلاف تاریخ و واقعہ ہو اور اگر کوئی اپنی منفرد بات پیش کرنا چاہتا ہے تو اسے مدلل بھی کرے ۔ ڈاکٹر شمیم احمد نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا سوشل میڈیا کے بھنور میں پھنس چکی ہے۔ اب ترقی و ترویج کا سب سے بڑا ذریعہ سوشل میڈیا ہی ہے ۔ ترقی خواہ زبان کی ہو یا سامان کی ہر جگہ سوشل میڈیا ہی نظر آتا ہے ۔ زبان تو البتہ ادب کے فروغ کے حوالے سے اس کے منفی کردار بھی سامنے آئے ہیں۔ کسی کا بھی شعر کسی دوسرے کی تصویر کے ساتھ چسپاں کرکے کر پوسٹ کردیا جاتا ہے اور اشعار بھی اغلاط سے پُر ہوتے ہیں، اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔
دوسرا پرو گرا م ’انڈین اوپیرا فیوژن ‘ تھا جو مشرق و مغرب کی موسیقی کے امتزاج کا ایک مختلف پروگرام تھاجسے محتر مہ کابکی کھنہ پیش کررہی تھیں ۔ اردو غزلوں کو انہوں نے جس خوبصورتی سے پیش کیا ہے اسے حاضرین و سامعین نے بہت سراہا ۔ انھوں نے ’سادگی تو ہماری ذرا دیکھیے ‘، ’ ہر ایک بات پہ کہتے ہوتم کہ تو کیا ہے ‘ ،’ سانسوں کی مالا ‘ ،’میں تو پیا سے نینالڑا آئی رے ‘اور ایک عربی کلام بھی پیش کیا ۔
اس کے بعد ’ رونق غزل ‘ کے پروگرام کا سفر پوروا گرو کے ساتھشروع ہوا جس میں سامعین نے کلاسیکی موسیقی کے ساتھ کھنک دار آواز کے رس سے خوب لطف اٹھایا ۔ انھوںنے ’آگئی یاد شام ڈھلتے ہی ‘ ،’ یا خدا اب تو مجھے کوئی تمنا ہی نہیں ‘ ،’ سات سروں کا بہتا دریا ‘ ،’ کون کہتا ہے محبت کی زباں ہوتی ہے ‘،’ گھنگرو ٹوٹ گئے ‘ اور ’ آپ کی یاد آتی رہی ‘‘ جیسے کلام سے سامعین کو مسحور کیا ۔ اس کے بعد چوتھا پروگرام ’شام سخن‘ شروع ہوا جسے منجری نے پیش کیا ۔ منجر ی نے کلاسیکی موسیقی کے ساتھ اساتذہ کے کلام کو اس خوبصورتی سے پیش کیا کہ دلی والے مسحور ہوکر رہے گئے ۔ ان کیخاص پیشکش ’ بات کرنی مشکل کبھی ایسی تو نہتھی ‘ ،’ بے وفا یوں ترا مسکرانا یاد آنے کے قابل نہیںہے ‘ ،’ مجھے تم سے محبت ہے چلے آؤ‘، ’یہ دل یہ پاگل دل مرا کیوں بجھ گیا آوارگی ‘ اور سرکتی جائے ہے رخ سے نقاب آہستہ آہستہ ‘ تھی ۔
آخری دن کا آخری اورخاص پروگرام’ صوفی محفل ‘سلمان علی کا تھا، جس کے دیوانوں کی بے پناہ بھیڑ تھی ،سلمان علی کی گائیکی جیسے ہی شروع ہوئی سبھی جھوم اٹھے ، انہوں نے قدیم وجدید ہر قسم کے کلام سے سامعین کو رقص کرنے پر پر مجبورکیا ، کیا چھوٹے کیا بڑے سبھی بے خود ی کی کیفیت میں جھوم رہے تھے ۔ دو گھنٹے سے زائد کی پیش کش میںسلمان علی نے سبھی کا دل جیت لیا ۔ الغرض چاروں دنوں کے ہر پروگرام سے سامعین بے پناہ لطف اندوز ہوئے ۔
جشن اردو میں لگے اسٹالس خصوصی طور پر توجہ کا مرکز رہے ۔ دہلی آرکائیوز ، مائلس ٹو مائلس کیلی گرافی، اردواکادمی دہلی، قومی کونسل، ریختہ پبلی کیشنز، راج کمل پرکاشن ، راج پال اینڈ سنس ، وانی پرکاشن ، زرود ، خواب تنہا کلیکٹو، آرٹی کائٹ ، قریشی دسترخوان ، کول پوائنٹ ، سول بائی سواتی ، منگلا چاٹ ، بکس ای ٹی سی ، ڈسٹرک سیلف ہیلپ گروپ اورمحسن کیلی گرافی کے اسٹال سے جشن میںشریک ہونے والے اور ہزاروں کی تعدا دمیں نرسر ی آنے والے افراد نے فائد ہ اٹھا یا، مغلئی کھانے کے ذائقہ سے لطف اندوز ہوئے اور خطاطی سے اپنوں کے لیے تحفے بھی تیار کروائے اور قارئین نے اپنے ذوق کے مطابق ادبی کتابوں کی بھر پور خریداری بھی کی ۔
چاروں روز تمام پروگراموں کی نظامت جناب اطہر سعید اور ریشماں فاروقی نے بہت ہی خوبصورتی سے کی ۔اپنی خوبصورت آواز وانداز سے انہوں نے نوجوانوں سے خطاب ہمیشہ ان کے دل میں اتر کر کیں۔
سلمان علی کی آخری پیش کش کے ساتھ ہی یہ چار روزہ ’’جشنِ اردو‘‘ اپنی بے شمار یادوں کو سمیٹے ہوئے اختتام پذیر ہوا۔
لکھنؤ: لکھنؤ میں ۸۰ کتابوں کے مصنف،سہ ماہی انتساب کے مدیر،عالمی شہرت یافتہ شاعر ڈاکٹر سیفی سرونجی کی ادبی خدمات پر مشتمل محقق و ادیب محمد ایوب واقف کی کتاب’ادب کا پیدل سپاہی:سیفی سرونجی‘کا رسمِ اجرا گدی برادری کے صدر، سابق ممبر آف پارلیمنٹ دائود صاحب کے ہاتھوں عمل میں آیا۔آل انڈیا گدی برادری کے بینر تلے اِس اجرائی پروگرام میں دائود صاحب نے سیفی سرونجی کی اردو خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جس برادری کا ادب سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں، ہمیں اِس بات پر فخر ہے کہ سیفی جیسے تخلیق کاروں نے اِس برادری میں جنم لیا۔ایک ایسا شخص جس نے گائوں دیہات میں پرورش پائی،جس نے بیڑی مزدوری کی اور جس نے اسکول کی پہلی کلاس تک نہیں پڑھی،آج وہ دو رسالوں کا مدیر ہے اور اُس کی شخصیت پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھے جا رہے ہیں۔سرونج جیسی گمنام بستی کو سیفی نے اپنے کارناموں سے لافانی حیثیت عطا کی ہے۔محمد ایوب واقف کی یہ کتاب واقعی ایک دستاویزی حیثیت رکھتی ہے۔ندیم فرخ نے اِس کتاب کے عنوان پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ صاحبِ کتاب نے سیفی صاحب کو بارہا کتابوں کا بوجھ کندھے پر رکھ کر پیدل سفر کرتے دیکھا ہے۔یہی وجہ ہے کہ انھوںنے اس کتاب کو ’ادب کا پیدل سپاہی‘ نام دیا ہے۔واصف فاروقی نے کہا کہ اِس کتاب میں سیفی کی ادبی اور گھریلو زندگی کے تقریباً تمام پہلوئوں کا مختصراً احاطہ کیا گیا ہے ۔انھوں نے ۴۰ سال تک انتساب کو تواتر سے جاری رکھنے کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کیا ہے۔ایسی شخصیت کی قدردانی ہونا چاہیے۔تقریبِ اجرا کے بعد مشاعرے کا اہتمام کیا گیا ۔صدارت کے فرائض بی ڈی نقوی نے انجام دیے اور نظامت شہباز طالب نے کی ۔پروگرام میں رام پرکاش بیخود،صابر گدی،رحمن گدی،شاشوت سنگھ ،پی یوش اگنی ہوتری وغیرہ نے حصہ لیا۔آخر میں سیفی سرونجی نے تمام مقررین و حاضرین کا شکریہ ادا کیا ۔
مشینی دور میں ادب کے سماجی و ثقافتی بیانیہ پر دو روزہ بین الاقوامی سیمینار
دہلی: ورلڈ اردو ایسوسی ایشن، نئی دہلی کی طرف سے دو روزہ بین الاقوامی سیمنیار بعنوان ’’ مشینی دور میں ادب کا سماجی و ثقافتی بیانیہ‘‘ منعقد ہوا جس میں ملک و بیرون ملک کے پچاس سے زائد اساتذہ، ریسرچ اسکالرس اور اردو احباب سے نے شرکت کی۔
ورلڈ اردو ایسوسی ایشن نے 24اور 25فروری 2024کودو روزہ آن لائن بین الاقوامی سیمینار کا انقعاد کیا۔ اس سیمینار میں پیش کئے مقالات کا موضوع متنوع تھا۔ افتتاحی سیشن میں کل چھ مقالے پیش کیے گئے ۔ اس اجلاس کی صدارت پروفیسر فضل اللہ مکرم، صدر شعبۂ اردو ، سینٹرل یونیورسٹی، حیدر آباد، ڈاکٹر مشتاق احمد، پرنسپل بی این کالج، دربھنگہ، ڈاکٹر شگفتہ فردوس، سیالکوٹ،پاکستان جب کہ مہمان اعزازی کی حیثیت سے ڈاکٹر وصی بختیاری نے شرکت کی۔ استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسر خواجہ محمد اکرام الدین، چیرمین، ورلڈ اردو ایسوسی ایشن، نئی دہلی نے ’ مشینی دور میں ادب کا سماجی و ثقافتی بیانیہ‘کا تعارف کراتے ہوئے اس موضوع کی اہمیت و افادیت پر تفصیلی روشنی ڈالی۔عالمی سطح پر ادب کی اس سمت ورفتار کے پیش نظر سیمینار کا مقصد یہ ہے کہ اردو میں تخلیقِ شعرو ادب کے بیانیے کی صورت حال کیا ہے ؟ اس کا جائزہ لیاجائے ۔ڈاکٹر مشتاق احمد نے مقالات پر تبادلۂ خیال کرتے ہوئے ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کو اس اہم موضوع کے انتخاب کے لیے مبارک باد ، ڈاکٹر شگفتہ فردوس نے اظہار خیال کرتے ہوئے مشینی دور میں اردو ادب کی صورت حال پر تبادلۂ خیال کیا۔پروفیسر فضل اللہ مکرم نے تمام مقالات پر تفصیلی بات کرتے ہوئے مشینی دور میں ادب کا سماجی و ثقافتی بیانیہ پر تفصیلی روشنی ڈالی ۔ دوسرے سیشن کی صدارت ڈاکٹر محمد توحید خان، ڈاکٹر شفیع ایوب نے کی۔ جب کہ اس سیشن میں کل سات مقالات پیش کیے گئے۔ تیسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر غضنفر علی،پروفیسر نجمہ رحمانی اور پروفیسر اسلم جمشیدپوری نے فرمائی۔پروفیسر غضنفر نے مشینی دور میں ادب کے بیانیہ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اس عہد میں سوچنے، لکھنے اور پڑھنے کا انداز بدل گیا ہے۔ اظہارکے طریقوں میں تبدیلی آئی ہے۔ چناں چہ متن کو سامنے رکھ کر ان حوالوں سے غور و فکر کیا جا نا چاہیے۔ مشینی دور میں مثبت اور منفی دونوں پہلو پر بات کرنے کی گنجائش ہے تاہم ادب کی ادبیت اور قلم کار کی حیثیت سے بھی انکار ممکن نہیں ۔
پروفیسر نجمہ رحمانی نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ مشنیوں نے فن کار کو کیسے متاثر کیا؟ متن میں کیا کیا تبدیلیاں پیش آئیں؟ مشین کو ادب کے لیے کیسے کا رآمد بنایا جائے؟ مشین کے دور میں انسان کی کیا ضروریات ہیں؟ انٹرنیٹ کے دور میں کتاب کی اہمیت کیا ہے؟ مشین نے انسانی نبض کو کیسے اپنی گرفت میں لے لیا ہے؟ نئے وسائل نے سماج اور ادیب کو کیسے متاثر کیا ہے؟ ان سوالوں پر مقالہ نگاران کی توجہ مبذول کرائی۔پروفیسر اسلم جمشید پوری نے مشینی دور میں ادب کی اہمیت پر بات کی ۔ مقالوں پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ اس سیشن میں سماج اور ثقافت کی تو بات ہوئی لیکن مشینی پس منظر میں کم بات ہوئی، اس جانب بھی مقالہ نگاران کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ کون سا رجحان ادب میں حاوی ہے جو نئی صدی کو اپنے اندر سمیٹ رہا ہے؟ اس طرف بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔
آخری سیشن کی صدارت پروفیسر صدف نقوی، محترم نصر ملک اور ایڈوکیٹ ناصر عزیز نے فرمائی۔پروفیسر صدف نقوی نے مقالات پر بات کرتے ہوئے ورلڈ اردو ایسوسی ایشن کی کاوشوں کو سراہا، ایڈوکیٹ ناصر عزیز نے مصنوعی ذہانت اور ادب پر بات کرتے ہوئے عہد حاضر میں اس کی اہمیت و افادیت پر روشنی ڈالی، جناب نصر ملک نے بھی مشینی دور میں ادب کا سماجی و ثقافتی بیانیہ کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔ چاروں سیشن کی سلسلہ وار نظامت ڈاکٹر محمد رکن الدین، ڈاکٹر مہوش نور، ڈاکٹر امتیاز رومی اور شہلا کلیم نے کی۔
دہلی: غالب اکیڈمی،نئی دہلی میں وزارت ثقافت کے تعاون سے امرت مہوتسو کے تحت ایک کل ہند سیمینار”اردو ادب کے پچہتر سال“ کے عنوان سے منعقد کیا گیا۔ شمیم طارق نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ غالب کے خطوط کی سلاست اور نفاست رشید احمد صدیقی، شبلی نعمانی،سردار علی جعفری اور ظ۔انساری کے یہاں نظر آتی ہے۔ مگر بعد میں یہ روایت مزاحیہ اور غیر مزاحیہ نثر میں تقسیم ہوگئی۔ بعض مزاحیہ نثر مضحکہ خیز نثر کہے جانے کی مستحق ہے۔پچہتر سال میں اردو میں ویدک ادب پر لکھا گیا۔جاں نثار اختر نے اپنشدوں کو سامنے رکھ ”آدمی کا گیت“ لکھا ہے۔جینت پرمار نے دلت ادب پر لکھا۔آدی واسی علاقوں تک اردو کی وہ رسائی نہیں ہوئی جو ہونا چاہیے تھی۔ گوپی چند نارنگ نے مطالعہ لسانیات کو اردو تنقید کا جز بنایا۔میر انیس اور علامہ اقبال کے کلام کا لسانیاتی جائزہ پیش کیا۔ شمیم طارق نے بنارس ہندویونیورسٹی کے شعبہئ اردو اور ہندی کے زیر اہتمام منعقدہ ایک سیمینار کا خصوصی ذکر کیا جو اردو اور ہندی کے ساجھی وراثت کے موضوع پر منعقد ہوا تھا۔ نکڑ ناٹک کی روایت قائم ہوئی اور اس پر کتابیں بھی لکھی گئیں۔ثقافتی مطالعہ کا رجحان بڑھا۔ترجمہ کے ضمن میں ظ۔انصاری کے روسی زبان سے اردو میں بہترین تراجم سے پچہتر سال میں اردو کا دامن وسیع ہوا۔ افتتاحی اجلاس میں ڈاکٹر نفیس بانو نے پچہتر سال میں اردو غزل کے عنوان سے مقالہ پڑھا۔صدارتی تقریر کرتے ہوئے پروفیسر شریف حسین قاسمی نے کہا کہ اردو میں فارسی روایات کا گہرا اثر ہے۔ اس موقع پر ڈاکٹر جی آر کنول نے کہا کہ پچہتر سال میں اردو تعلیم کا نظام بدتر ہوا ہے۔ اس دوران لسانی مطالعہ،ادب کا مارکسی مطالعہ،جدیدت کی تحریک کے تحت ادب تخلیق ہوا۔دوسرے اجلاس میں پروفیسر قاضی جمال حسین نے”اردو نظم جدیدیت کے بعد“ کے عنوان سے مقالہ پڑھا۔ انھوں نے کہا کہ غالب کلاسیکل شاعری کا آخری اور جدید شاعری کا پہلا شاعر تھا۔ منشور بنانے سے زندگی کا رویہ تبدیل نہیں ہوتا۔ترقی پسندی سے طرز احساس اور عصری حسیت بدل گئی۔ پچاس سال میں نظموں میں تبدیلی آئی،طرز احساس بدل گیا۔ساٹھ ستر سال میں نظر یے بدل جاتے ہیں۔ڈاکٹر نگار عظیم نے اردو افسانے میں تانیثیت میں کہا کہ عورت کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس کے استحصال کی راہیں بھی ہموار ہوئیں۔نعیمہ جعفری نے اپنے مقالے میں اردو ناول کا ارتقا کا منظر نامہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ پچہتر سال میں جو اردو ناول لکھے گئے وہ قابل اطمینان اور قابل فخر ہیں۔ڈاکٹر شاداب تبسم نے جاوید احمد کا مقالہ پچہپتر سال میں اردو صحافت پڑھ کر سنایا۔خالد علوی نے پچہتر سال میں غالب تنقید پر بولتے ہوئے کہا کہ مغلوں کی زندگی بہت مہذب اور شائستہ نہیں تھی۔انھوں نے یاس یگانہ چنگیزی کی کتاب غالب شکن کا ذکر کیا۔غالب پر لکھی گئی دوسری کتابوں نیر مسعود،خورشید الاسلام اور نارنگ صاحب کی غالب سے متعلق کتابوں پر گفتگو کی۔پروفیسر عبدالحق نے اپنی تقریر میں کہا کہ غالب کے فارسی کلام میں بڑی رنگینی ہے اور فارسی میں غالب نے کئی نعت لکھی ہے۔خالد محمود نے اپنی صدارتی تقریر میں کہا کہ ایک وسیع موضوع کو چار گھنٹوں میں مقالہ نگار حضرات نے بیان کیا۔ اس میں غیر افسانوی نثر کا ذکر ہونا چا ہییے۔ پروفیسر قاضی افضال حسین نے اپنی صدارتی تقریر میں مقالہ نگاروں کی ستائش کی اکیڈمی کے صدر ڈاکٹر جی آر کنول نے سامعین کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مقالہ طویل لکھے جائیں لیکن اس کی تلخیص بھی تیار کرلی جاے۔
ولی اللہی دارالافتا کے زیر اہتمام’دستارِ تکمیل افتا ومفتیانِ ہند کانفرنس‘ کا انعقاد
نئی دہلی(پریس ریلیز): ولی اللہی دارالافتاء والقضاء کے زیر اہتمام غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین میں’دستارِ تکمیل افتا ومفتیانِ ہند کانفرنس کا آغاز قاری احمد اور قاری محمد سفیان کی تلاوت قرآن سے ہوا جبکہ قاری محمد شعیب اور مولوی محمد قاسم عثمانی نے نعت نبی کا نذرانہ پیش کیا ، کانفرنس کی صدارت مشہور اسلامک اسکالر پروفیسر اخترالواسع نے کی ، نظامت کے فرائض مفتی عبدالواحد قاسمی نے انجام دیے ،کانفرنس‘ میں سامعین سے خطاب کرتے ہوئے علمائے کرام نے کہا کہ ملت اسلامیہ کی شرعی رہبری کا فریضہ نہایت اہم اور حساس ہے،شریعت مطہرہ اپنے ماننے والوں کی رہبری اور شرعی رہنمائی صرف دینی مسائل میں ہی نہیں بلکہ ان کے جملہ امور میں کرتی ہے۔قبل ازیں ولی اللہی دارالافتا کی غرض وغایت کو بیان کرتے ہوئے مفتی عبد الواحد قاسمی اور ڈاکٹر مفتی آصف اقبال قاسمی نے مشترکہ طور پر کہا کہ گزشتہ بارہ سالوں سے یہ ادارہ ملت کی شرعی رہبری کے ساتھ ساتھ دہلی میں ہر سال چند منتخب ذی استعداد فضلائے مدارس کو فقہ وفتاوی کی ٹریننگ دینے کا اہم کام کررہا ہے جس کا مقصد مدارس سے جدید فارغین علما کو فقہ وفتاوی کے میدان میں تجسس کی روح اوراستخراج مسائل کا سلیقہ سکھانا ہے۔اس موقع پر
مفتی محمد زبیر قاسمی ابن ستار خان صاحب مصطفیٰ آباد مفتی محمد فیضان مظاہری ابن محمد معراج الدین صاحب مصطفیٰ آباد
مفتی محمد عدنان ابن مولانا فیض الرحمن صاحب کٹرہ شیخ چاند لال کنواں
مفتی محمد شجاع الدین ابنِ تاج محمد عالیاوی امام وخطیب محمدی مسجد دہلی کینٹ
مفتی محمد ابنِ محمد الیاس صاحب جعفرآباد کل پانچ (۵) مفتیانِ کرام کو تکمیل افتاء کی دستار باندھی گئی اورسند ِ افتاء کے ساتھ کتابیں وغیرہ انعامات کے طورپر دی گئیں، پریس کو بیان دیتے ہوئے مفتی عبدالواحد قاسمی نے کہا کہ جہاں ولی اللہی دارالافتاء کے زیراہتمام علماء کرام کو افتاء کی تعلیم دی جاتی ہے وہیں پانچ سالہ عالمیت کا بھی شعبہ ہے’چوتھے سال میں دارالعلوم دیوبند کے نصاب کے مطابق موقوف علیہ کی تعلیم دی جاتی ہے اور طلبہ بڑے اداروں سے فضیلت کی تعلیم حاصل کرتے ہیں نیز شعبہ قرأت کا مستقل شعبہ ہے جہاں ایک سالہ حفص اردو کی تعلیم دی جاتی ہے’ سال رواں قاری شعیب ابنِ مہتاب عالم نے اس شعبہ سے تجوید کی تعلم مکمل کی ہے، انہیں بھی تجوید وقراءت کی دستار باندھی گئ ہے۔اس سے قبل کانفرنس کے مہمان خصوصی مفتی شاکر احمد القاسمی نگران تعلیمی ملی فاؤنڈیشن جمعیۃ علماء ہند نے فقہ وفتاوی کی اہمیت اور مفتیانِ عظام کے لیے متعینہ شرائط اور ذمہ داریوں پر تفصیلی خطاب کرتے ہوئے مفتیان کرام کوقوت ِ تدبر و فراست پیدا کرنے کی نصیحت کی۔اجلاس کے چیف گیسٹ الحاج شیخ حفیظ اللہ شریف چیئر مین خدام العلماء ویلفیئر فاؤنڈیشن بنگلور نے علماء ائمہ کی اہمیت وفضیلت پر گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ علماء انبیاء علیہم السلام کے سچے وارث ہیں ،ان کی دنیاوی ضروریات کی تکمیل کرنا امت مسلمہ کا فریضہ ہے، آج اس فریضے میں کوتاہی کی وجہ سے امت پر حالات آۓ ہوے ہیں ۔ میں نے اسی ذمہ داری کو سمجھتے ہوے علماء کو عمرہ کرانے کا عزم کیا ہے ۔ انہیں خدمات کی وجہ سے اللہ عزتوں سے نواز رہاہے ۔ مفتی قاسم قاسمی مہتمم المعہد العلوم الاسلامیہ جیت پور کے بانی مہتمم اور مفتی ممتاز مادی پور نے مشترکہ طورپر علم دین میں فقہ کی اہمیت اور علمی وفقہی حوالے سے دہلی کی مرکزی حیثیت پر بالترتیب اہم خطاب کیا۔ مفتی شکیل احمد رحیمی نے اپنی کارگزاری سنا کر سامعین کو آبدیدہ کردیا ،اخیر میں صدارتی خطاب کرتےہوئے اسلامک اسکالر پروفیسر اخترالواسع صاحب نے کہا کہ مفتی عبدالواحد قاسمی نوجوان علماء کے لئے نمونہ ہیں اس وقت مفتیانِ کرام کی ذمہ داری بہت بڑھ گئ ہے فتویٰ کو لیکر مسلمانوں کو بدنام کرنےکی سازشیں ہو رہی ہیں خاص طورسے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند کو ٹارگیٹ کیا جارہاہے جسے کسی قیمت پر مسلمان برداشت نہیں کرے گا ۔ پروگرام میں مولانا عبد الرازق قاسمی، مولانا ضیاء الرحمٰن قاسمی مہتمم مدرسہ تجوید القرآن، مفتی عادل قاسمی امام وخطیب محمدی مسجد ،جناب سرفراز صاحب علیگ ، قاری شعیب قاری احمد مہتمم مدرسہ مدینۃ العلوم لکشمی نگر ،حافظ محمد سعد ، مولوی محمد قاسم عثمانی ، حافظ صادق حافظ حیات اللہ ، حافظ محمد انس ، حافظ ریحان ،مفتی مسرور عالم قاسمی اوکھلا ،مولانا نظام الدین قاسمی بادلی، حافظ اسلام بوانہ مولانا ابوبکر قاسمی خطیب مجیدیہ مسجد قاری خلیل مجددی ،مولانا ارشد۔ ،مولانا عبدالرافع دارالعلوم دیوبندوقف،مفتی عالمگیر قاسمی،مفتی شفاعت، الحاج ثناءاللہ صدر مدرسہ دارالعلوم رحمانی ،قاری عبدالمنان شاستری پارک ،قاسمی،مولاناقاری احمد اللہ مظاہری،مفتی مشاہد،مفتی مسعود،مفتی طیب،مفتی خالد قاسمی،مفتی اشرف امینی ،قاری یوسف معلم مکتب محی السنہ، ان کے علاوہ علماء ،طلبہ اور دانشوران کی بڑی تعداد موجود تھی مفتی شکیل احمد رحیمی کی رقت آمیز دعاء پر کانفرنس کا اختتام ہوا اور ظہرانہ سے تمام مہمانان کرام کی پذیرائی کی گئی ۔
شعبہ اسلامک اسٹڈیز ،جامعہ ملیہ اسلامیہ کی سا لانہ ثقافتی تقریبات انسپائرو اختتام پذیر
نئی دہلی:’’ ثقافتی تقریبات کا بنیادی مقصد طلبہ کو تعلیمی،تحقیقی،تخلیقی،تہذیبی اورتنظیمی اعتبار سے متحرک کرنا ہے تاکہ وہ عصرجدید کے مسائل ومشکلات کامقابلہ کرتے ہوئے ملک وسماج کی خوش حالی اور ترقی میں معاون ومددگار ثابت ہوں۔‘‘ان خیالات کا اظہارپروفیسر اقتدار محمد خان،صدر شعبہ اسلامک اسٹڈیزاورڈین فیکلٹی آف ہیومنٹیزاینڈ لینگویجز نے بزم طلبہ کی جانب سے منعقد سالانہ ثقافتی میلہ ’’انسپائرو ۲۰۲۴ء‘‘کی اختتامی تقریب میں کیا۔انہوں نے مزید فرمایا کہ ہم نصابی سرگرمیوں سے طلبہ میں ذمے داریوں کا احساس ،اصولوں کی پاس داری ،تنازعات کا حل اور اجتماعی ہدف کے حصول کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔پروفیسر سید شاہد علی،سابق صدرشعبہ اسلامک اسٹڈیز نے فرمایا کہ قرآن کریم کے مطابق انسان اپنی نیت اور کوشش میں آزاد ہے،البتہ نتائج میں وہ مجبور ہے،اس لیے مقابلوں میں شریک تمام طلبہ قابل مبارک باد ہیں۔ بزم طلبہ کے نائب صدرابوسالم یحییٰ اورندا پروین ،کوآرڈی نیٹر،کلچرل کمیٹی نے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ قرأت میں:اول عاکف انیس،دوم ابوظفر،سوم عبدالرحمن،نعت:اول محمدمطلوب رضا،دوم عروج جعفر،سوم محمد منورعالم، ڈبیٹ:اول محمد فیض اشرفی،دوم شفق رئیس خان،سوم انس قریشی، شاعری:اول فردوس رضا،دوم آدتی شرما،سوم ذائنہ امان، بیت بازی:اول ٹیم شاد عظیم آبادی،دوم ٹیم جون ایلیاء ، سوم ٹیم گلزار، مضمون نویسی:اول محمدعمار،دوم خدیجہ،سوم شفیع الحسن،برجستہ تقریر:اول اشتیاق احمد،دوم شیخ عظمی نسیم،ارسلان مہذبی،سوم انمول سنگھ،سلوگن رائٹنگ:اول التمش رضا، دوم سعدیہ پروین، سوم زویا ہارون، خطاطی:اول خنساء،دوم صائمہ ناز،سوم فاطمہ، بیسٹ یوز آف ویسٹ:اول منزہ ناز،دوم زینت انصاری،سوم فضا آفرین اورفوڈ فیسٹیول: اول وافقہ،دوم عروج فاطمہ،سوم محمد نسیم اور عافیہ سلیم نے انعامات حاصل کیے۔حکم کے فرائض شعبہ کے اساتذہ کے علاوہ ڈاکٹر رحمن مصور،ڈاکٹر محفوظ الرحمن، ڈاکٹر صہیب عالم،ڈاکٹر نوشاد منظر،ڈاکٹر شہنواز فیاض،ڈاکٹر ثاقب عمران،ڈاکٹر قمرالدین،جناب ضمیراعظمی نے انجام دیے۔ثقافتی تقریبات کو کام یاب بنانے میں شعبہ کے ریسرچ اسکالرس لعل چاند،محمد ثاقب،کلچرل کمیٹی کے رابطہ کارمحمد شہنواز،جویریہ عبداللہ کے علاوہ ثانیہ خان، رومیسہ رانا،ابوالبشر،عبدالعلیم اعظمی،محبوب عالم، مدبرافروز،وسیم احمد،مبشر عبداللہ،عمیر مسرور،انس قریشی، مصطفی دانیال، ناصرہ ساجد، رخسار خاتون، علما، آسیہ پروین،سمیہ رحمان،نشرح ساجد، اورزویاملک وغیرہ کا اہم کردار رہا۔
نئی دہلی :شعبۂ اردو، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زیر اہتمام یک روزہ ریسرچ اسکالر،طلبا سمینار کا انعقاد کیا گیا۔اس سمینار میں شعبۂ اردوکے اسکالرز اور طلبا و طالبات نے مقالات پیش کیے۔ صدارتی خطاب میں صدر شعبہ پروفیسر احمد محفوظ نے دلی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ تمام اسکالر اور طلبہ و طالبات نے اچھے مقالات پیش کیے۔ پروفیسر احمد محٖفوظ نے مزید کہا کہ اس طرح کے سمینار کا مقصد طلبا کی تربیت ہے ۔انہوں نے تحقیق و تنقید کے بعض اہم نکات کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ کسی بھی موضوع پر لکھنے سے قبل اس کی بنیادی کتابوں کا مطالعہ کرنا از حد ضروری ہے۔انھوں نے اصل متن کی قرأت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ طلبا کا مطالعہ عموما محدود ہوتا ہے، اس لیے اصل متن کو نہ صرف پڑھیں بلکہ اس پر تنقیدی نگاہ بھی رکھیں۔سمینار کے کنوینر اور صدر اجلاس پروفیسر کوثر مظہری نے طلباکی ہمت افزائی کی اور کہا کہ اس طرح کے سمینار کا مقصد طلبا کی پوشیدہ ادبی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ ان کی تربیت بھی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے ریسرچ اسکالر اور طلبا کو اس کی بھی ہدایت کی کہ ریسرچ کے دوران انھیں اپنے خیالات میں معروضیت پیدا کرنی چاہیے۔ انھوں نے طلبا کی کار کردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ناقد کا کام فیصلے صادر کرنا نہیں بلکہ اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے، اس لیے طلبا کوچاہیے کہ تنقیدی تحروں کا مطالعہ کرتے ہوئے اپنے اندر تنقیدی شعور پیدا کریں۔
اس سمینار کا امتیازی پہلو یہ تھا کہ اس میں موضوعات متعین کردیے گئے تھے ۔ پی ایچ ڈی اسکالر کے لیے ’’ آل احمد سرور بحیثیت نقاد اور اختر حسین رائے پوری۔ ایم اے کے طلبا کے لیے وارث علوی کی کتاب ’حالی ، مقدمہ اور ہم : ایک جائزہ اور بی اے کے لیے ’ راجندر سنگھ بیدی کا ناولٹ’ ایک چادر میلی سی کا جائزہ ‘ کے موضوعات طے کیے گئے تھے۔دوسرا نمایاں پہلو یہ تھا کہ اس سمینار میں طلب کی جانب سے بحث و مباحثہ کی صحت مند فضا نے سمینار کی معنویت میں غیر معمولی اضافہ کیا ۔یہ سمینار دو اجلاس پر مشتمل تھا۔
دوسرے اجلاس کی صدارت پروفیسر شہزاد انجم اور پروفیسر خالد جاوید نے کی۔اپنے صدارتی تقریر میں پروفیسر شہزاد انجم نے کہا کہ اس طرح کے سمینار کا مقصد طلبا کو مقالات لکھنے کے ہنر سے آراستہ کرنا ہے۔انھوں نے اسکالر کو یہ مشورہ دیا کہ مقالہ تحریر کرتے ہوئے کسی موضوع پر اجمالی گفتگو کرنے کے بجائے کسی ایک گوشے کا انتخاب کرنا چاہیے تاکہ گفتگو بامعنی اور مرکوز ہوسکے۔ انھوں نے طلبا کو ہدایت دیتے ہوئے زور دیا کہ اپنی بات کو مدلل پیش کریں۔ پروفیسر خالد جاوید نے اپنی گفتگو کے دوران کہا کہ سمینار لفظ کا پہلی مرتبہ استعمال سقراط نے کیا تھا۔ انھوں نے کہا کہ سمینار کا اصل مقصد ڈبیٹ ہے، اس لیے بغیر سوال و جواب کے سمینار کی صورت ون وے ٹریفک جیسی ہوجاتی ہے۔ انھوں نے کہا کہ مقالہ تحریر کرتے ہوئے اپنی تنقیدی بصیرت کا استعمال کرتے ہوئے کوئی نئی بات کہنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
سمینار کے پہلے اجلاس میں چھ مقالات پیش کیے گئے۔ جن میں سید تجمل حسین(بی اے سال آخر)، امتیاز احمد(ایم اے)وسیمہ اختر(ریسرچ اسکالر) درخشاں(ریسرچ اسکالر) صالحہ عاصم(ریسرچ اسکالر) محمد شہنواز خان(ریسرچ اسکالر) نے اپنے مقالات پیش کیے۔
دوسرے اجلاس میں پانچ مقالات پیش کیے گئے جن میں شفق رضیہ،(ریسرچ اسکالر) فیضان احمد کیفی (ریسرچ اسکالر) عذرا انجم (ریسرچ اسکالر) عظمت النسا (ریسرچ اسکالر) اور محمد ناظم (ریسرچ اسکالر) نے اپنے مقالات پیش کیے ۔ پہلے اجلاس میں پروفیسر عمران احمد عندلیب اور دوسرے اجلاس میں ڈ اکٹر محمد مقیم نے حاضرین کا شکریہ ادا کیا۔ پہلے اور دوسرے اجلاس کی نظامت شعبے کے ریسرچ اسکالر یوسف رضا اور سمیں فلک نے بحسن و خوبی انجام دیے ۔ سمینار کا آغاز شعبے کے طالب علم سعدان کی تلاوت سے ہوا۔
اس موقعے پر پروفیسر سرور الہدیٰ، ڈاکٹر شاہ عالم، ڈاکٹر خالد مبشر، ڈاکٹر مشیر احمد، ڈاکٹر سید تنویر حسین، ڈاکٹر جاوید حسن، ڈاکٹر راہین شمع، ڈاکٹر محمد آدم، ڈاکٹر ثاقب عمران، ڈاکٹر ڈاکٹر شاہ نواز فیاض، ڈاکٹر نوشاد منظر،ڈاکٹر غزالہ فاطمہ اور ڈاکٹر خوشتر زریں ملک کے علاوہ بڑی تعداد میں ریسرچ اسکالر اور طلبا و طالبات موجود تھے۔
ارداکادمی دہلی کے زیر اہتمام چار روزہ جشن اردو اپنی آب و تاب کے ساتھ سندر نرسر ی میں جار ی
نئی دہلی:سندر نرسری جو اپنی صاف ستھری آب و ہوا کی وجہ سے پوری دہلی والوں کے لیے بچوں کے ساتھ وقت گزاری کے لیے مشہور ہے لیکن ابھی چار دنوں بائیس تا پچیس فروری کے لیے یہ خوبصورت باغ اردو زبان و ادب کی پیشکش کی آماجگاہ بنا ہوا ہے ۔ جس میں موسیقی ، غزل سرائی ، بیت بازی قوالی اور ادبی مباحث کے پروگرام پیش کیے جارہے ہیں ۔
دوسرے دن مہمان خصوصی وزیر برائے فن و ثقافت و السنہ دہلی حکومت جنا ب سوربھ بھاردواج نے خوبصورت گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ، دہلی کتنی بار اجڑی اور آباد ہوئی اس کے بارے میں تو نہیں پتہ کیوں کہ تاریخ داں تو سات بار لکھتے ہیں لیکن باقیات بہتوں کے مل جاتے ہیں ، دہلی حکومت نے سبھی کے تاریخی باقیات کو دوبارہ سنوارنے کی کوشش کی ہے اور ان تمام مقامات میں عوام کی دلچسپی کے لیے ہیریٹیج واک کا بھی اہتمام کیا ہے ۔ کیونکہ جس نے بھی دلی میں راج کیا اس نے پورے ملک میں راج کیا اور راج کرنا دلوں میں راج کرنا ہوتا ہے ۔ دہلی حکومت لگاتار ثقافتی پروگرام کرتی رہتی ہے ، آپ تمام حاضرین سے گزراش ہے کہ ان ثقافتی پروگراموں میں اپنی حاضری کو اپنے اپنے سوشل میڈیا پیچ میں ضرور اپلوڈ کریں ۔پھر وزیرمحتر نے سبھی فنکاروں کا مومنٹوپیش کرکے استقبال کیا ۔
دوسرے دن کا سورج نصف النہار کو پہنچا تو بیت بازی سے پرو گرام شروع ہوا ۔ اس بیت بازی کے مقابلے میں دہلی کی تینوں یونیورسٹیوں او رکالجوں سے کل نو ٹیموں نے شرکت کی ۔ شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ، شعبہ تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ ، شعبہ اردو دہلی یونی و رسٹی ، دیال سنگھ کالج مارننگ ، ذاکر حسین کالج ایوننگ ، ذاکر حسین کالج مارننگ ، سینٹ اسٹیفن کالج ، شعبہ اردو جواہر لال نہرویونی و رسٹی اور شعبہ عربی جواہر لال یونی ورسٹی کی ٹیموں نے شرکت کی ۔ اول انعام شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ ، دوم انعام شعبہ تعلیم جامعہ ملیہ اسلامیہ اورسوم انعام ذاکر حسین دلی کالج ایوننگ اور شعبہ عربی جے این یو کی ٹیمیں مستحق قرار پائیں جبکہ حوصلہ افزا انعام ذاکر حسین دلی کالج مارننگ کو ملا۔ اس پروگرام میں جج کے فرائض ڈاکٹر واحد نظیر اور معروف شاعر شکیل جمالی نے انجام دیے ۔ شکیل جمالی نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ اشعار میں عصر حاضر کی نمائندگی نظر نہیں آئی طلبہ بیت بازی میں جدید شعرا کے اشعار کو بھی اپنی زنبیل میں رکھیں ۔ شعر کی ادائیگی ہی شعر کی روح ہوتی ہے اس جانب بہت ہی زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ۔ ڈاکٹرواحد نظیرنے کہا کہ شعر کی قرأت کرتے ہوئے یہ محسوس ہونا چاہیے کہ آپ شعر پڑھ رہے ہیں جب کہ کبھی کبھی نثر کا بھی گمان ہونے لگتا ہے ۔ بیت بازی میں تین چیزوں کا خیال رکھا جاتا ہے ۔ معیار ،ادائیگی اور پیش کش ۔یہی تینوں چیزیں درجہ بندی میں معیار پاتی ہیں ۔
سورج مائل بہ زوال تھا لیکن سنہری دھوپ کی تپش سے حاضرین کے عارض سرخ ہوئے جارہے تھے کہ دوسرا پروگرام رنگ غزل شروع ہوا ۔ سیف نعیم علی اس میں گلوکار کے طور پر تھے ۔ انھوں نے اپنی پیشکش میں کلاسک کو مد نظر رکھتے ہوئے بھولی بسری، سلا چکی تھی دنیا تھپک تھپک کے مجھے ، میں نے تم سے میری جان محبت کی ہے ، ہنگامہ ہے کیوں برپا اور آج جانے کی ضد نہ کرو جیسے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا ۔
موسیقی کی سوزو ساز میں ڈوبنے کے بعد مسکراہٹوں اور قہقہوں کا پروگرا م ’ مشاعرے کا پوسٹ مارٹم‘ تھا ۔ یہ ایک مزاحیہ ڈارامائی پیشکش تھی جس کے مصنف پروفیسر محب الحق،علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی اور ہدایت کار ڈاکٹر جاوید حسن جامعہ ملیہ اسلامیہ تھے ۔ اس میں بطور کردار ، مائیکل کھٹکھٹ بارہ بنکوی، شمس العشاق جناب علاء الدین کھجلی، بانکے بہاری، نواب میزائل الدولہ نواب الملک بندوق جنگ رائفل خاں بہادر لکھنوی، چلم مرادآبادی ، لاغر سلامی ، عیار بنارسی ، چنچل دہلوی اور ہدہد بارہ بنکوی اپنے اپنے منفرد انداز میں کل ہند مشاعرہ کے شعرا تھے ۔
سندر نرسری کے سبزہ زار میں درختوں اور پودوں کے سائے لمبے ہورہے تھے کہ ایک منفردپروگرام چار بیت کا آغاز ہوتا ہے جسے بزمِ نسواں،بھوپال پیش کرتی ہے ۔ ان کے استا د جناب مختار احمد نے انہیں ٹرینڈ کیا تھا جنہیں پیش کررہی تھیں مال شری ، آرتی ، ویشالی ، ویہو، اور دویا ۔ ان کے مخصوص انداز و پیشکش کو سامعین نے بہت زیادہ سرا ہا ۔
سورج غروپ پہ آمادہ تھا کہ شو خی غزل میں گائتری اسوکن کی آواز کا دیپ لہک اٹھتا ہے ۔ پہلی غزل ’گلوں میں رنگ بھرے ‘ میں ہی سامعین کا تحسینی شور بلند ہوتا ہے اور ہر غزل میں یہ سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ شوخی غزل کا پروگرام شفق کے ساتھ ہی رہتا ہے کہ شام رات کے آغوش میں چلی جاتی ہے اور محفل قوالی میں نیازی نظامی برادرس اپنی آواز کا جادو بکھیرتے ہیں ۔تمام پروگراموں میں سامعین و ناظرین اردو کی ثقافت و زبان سے بھرپور محظوظ ہوئے ۔
جشن اردو میں اسٹالس خصوصی طور پر توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جن میں دہلی آرکائیوز ، مائلس ٹو مائلس کیلی گرافی، اردواکادمی دہلی، قومی کونسل، ریختہ پبلی کیشنز، راج کمل پرکاشن ، راج پال اینڈ سنس ، وانی پرکاشن ، زرود ، خواب تنہا کلیکٹو، آرٹی کائٹ ، قریشی دسترخوان ، کول پوائنٹ ، سول بائی سواتی ، منگلا چاٹ ، بکس ای ٹی ، ڈسٹرک سیلف ہیلپ گروپ اورمحسن کیلی گرافی کے اسٹال ناظرین کی توجہ کا مرکز بنے ہوئیہیں۔تمام پروگراموں کی نظامت جناب اطہر سعید اور ریشماں فاروقی نے کی ۔
ممتاز صحافی معصوم مرادآبادی کی کتاب ’بالمشافہ‘ کی مانو لکھنؤکیمپس میں رونمائی اور مذاکرہ
لکھنؤ: ممتاز صحافی معصوم مرادآبادی کی کتاب ’بالمشافہ‘ جو کہ شاعروں ،ادیبوں اور اہم شخصیات کے انٹرویوز پر مشتمل ہے اس کی رسم رونمائی اورمذاکرہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے لکھنؤ کیمپس میں ہوا۔ جلسے کی صدارت ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی نے فرمائی اور نظامت ڈاکٹر عمیر منظر نے۔انھوں نے کہا کہ کتاب کا یہ ایڈیشن لکھنوسے نعمانی کیئر فاؤنڈیشن نے شائع کیا ہے،جس کے رو ح رواں اویس سنبھلی ہیں۔تین دہائی بعد کتاب کا دوسرا ایڈیشن شائع ہورہا ہے جو کہ بہت خوش آیند ہے۔ کیمپس کی انچارج ڈاکٹر ہما یعقوب نے مہمانوں کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایک نہایت عمدہ اور کارآمد کتاب ہے۔قاری کو دوشخص کی گفتگو کے درمیان بہت کچھ سیکھنے اور جاننے کا موقع ملتا ہے۔ڈاکٹر نور فاطمہ نے کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ” بالمشافہ ایک رنگین البم ہے جس میں مختلف شخصیات کے مزاج اور لہجوں کے متنوع رنگ ایک ساتھ جمع ہوگئے ہیں۔انھوں نے کہاکہ اس کتاب کے مطالعہ سے انٹرویو نگار کے ادبی سروکار کو خاص طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ان کے بقول معاصر ادبی منظرنامے سے واقفیت،بعض لسانی مسائل اور مختلف شخصیات کے متنوع مزاج اور لہجے کے مابین فرق کو بھی واضح طور پر کتاب کے مطالعہ کے دوران میں محسوس کیا جاسکتا ہے۔ڈاکٹر نور فاطمہ نے اس بات پر خاص زور دیا کہ معصوم مرادآبادی نے ہر شاعر اور ادیب سے اس کے تخلیقی سفرکو سامنے رکھ کر نہایت موزوں سوال کیے ہیں۔انھوں نے کہا کہ اخترالایمان،کیف بھوپالی،حبیب جالب،افتخار عارف،مظفر وارثی،ملک زادہ منظور احمد،صلاح الدین پرویز اور بشیر بدر کے انٹرویوز کو پڑھ کر یہ بات نہایت اعتماد سے کہی جاسکتی ہے کہ معصوم مرادآبادی نے نہایت سلیقے سے گفتگو کی ہے۔
حمیرا عالیہ نے کہا کہ معصو م مرادآبادی کے صحافتی تجربات کی فنی جھلک ہمیں بالمشافہ کے انٹرویوز میں واضح طورپر دیکھنے کو ملتی ہے۔کیونکہ انھو ں نے انٹرویو کے لیے جن شخصیات کا انتخاب کیا ہے وہ اردو شعرو ادب کے ساتھ معاشرے میں بھی اہم حیثیت کی حامل ہیں۔انھوں نے مز ید کہا کہ جن لوگوں کے انٹرویوز اس کتاب میں شامل ہیں وہ کسی نہ کسی حوالے سے ادب اور زندگی کی تفہیم میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔
سینئرصحافی قطب اللہ نے کتاب پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب انٹرویو کے فن کے لحاظ سے بھی شاہ کار ہے کیونکہ معصوم مرادآبادی نے مختصر سوال کیا ہے اور زیادہ موقع شخصیات کو دیا ہے تاکہ ان کا پورا موقف سامنے آجائے۔انھوں نے کہا کہ ادبی شخصیات کے ساتھ ساتھ سماجی شخصیات کی شمولیت نے کتاب کی اہمیت کودو چند کردیا ہے۔
ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی نے کہا کہ بالمشافہ سے انٹرویو کے فن کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔معصوم مرادآبادی نے نہایت عمدہ طریقے سے لوگوں سے گفتگو کی ہے اور ان کی پیش کش اور زبان بھی عمدہ ہے۔میں انھیں مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ انھوں نے خود نمائی سے ہر ممکن پرہیز کیا ہے اور سامنے والے کو نمایاں کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بہت مشکل فن ہے۔
صدارتی گفتگو میں ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی نے کہا کہ معصوم مرادآبادی کی یہ کتاب دراصل ادب اورسماج دونوں کا آئینہ ہے کیونکہ اس میں ادیبوں کے ساتھ ساتھ سماجی شخصیات اور دیگر فن کاروں سے بھی انٹر ویو لیے گئے ہیں جو نہایت کارآمد ہیں۔
اس موقع پر کیمپس کے اساتذہ،ریسرچ اسکالرز اور طلبہ کے علاوہ شہر نگاراں کی اہم شخصیات میں حکیم وسیم احمد اعظمی،پروفیسر جمال نصرت،محی بخش قادری،محبوب عالم خاں،منظور وقار،اویس سنبھلی، راجیوپرکاش ساحر،راشد خاں،ضیاء اللہ ندوی، ڈاکٹر طارق منظور وغیرہ موجود تھے۔ڈاکٹر اکبر علی بلگرامی نے شکریہ ادا کیا۔
‘مانو’ لکھنؤ کیمپس میں مولانا آزاد کی صحافتی خدمات پر معصوم مرادآبادی کا توسیعی خطبہ
لکھنؤ : مولانا آزاد نے اردو صحافت کو اس معراج پر پہنچایا کہ وہ دیگر ترقی یافتہ زبانوں کی صحافت کے ہم پلہ قرارپائی۔ انہوں نے اردو صحافت کو نہ صرف ایک عظیم مشن اور مقصد کی راہ پر ڈالا بلکہ اسے زمانے کی رفتار سے بھی آنکھیں چار کرنے کاسلیقہ سکھایا۔ ان خیالات کا اظہار اردو کے ممتاز صحافی جناب معصوم مرادآبادی نے مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے لکھنؤ کیمپس میں مولانا آزاد کی یوم وفات کی مناسبت سے منعقد توسیعی خطبہ کے دوران کیا۔وہ ’مولانا ابو الکلام آزاد کی صحافتی خدمات‘ کے موضوع پر کیمپس میں توسیعی خطبہ پیش کررہے تھے۔خطبہ کی صدارت اردو کے ممتاز ادیب اور دانشور ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی نے فرمائی۔کیمپس کی انچارج ڈاکٹر ہما یعقوب نے خیرمقدمی کلمات ادا کیے۔پروگرام کی نظامت ڈاکٹر عمیر منظر نے کی۔شکریہ ڈاکٹر اکبر علی بلگرامی نے ادا کیا۔کیمپس کے طالب علم محمد اشرف علی نے قرآن پاک کی تلاوت اور ترجمہ پڑھا۔
معصوم مرادآبادی نے سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا کہ مولانا آزاد کو ہم کئی حیثیتوں سے جانتے ہیں۔ لیکن ان میں صحافت ایک ایسا میدان تھا، جہاں ان کی موجودگی سب سے زیادہ محسوس کی گئی۔صحافت ان کی مقبولیت اور ہردلعزیزی ہی کا ذریعہ نہیں بنی بلکہ خود ان کے افکار، طرزنگارش، منفرد اسلوب اور جدت طرازی نے اسے بام عروج تک پہنچایا۔یہی وجہ ہے کہ صحافت کو ان کی فطرت ثانیہ بھی کہا جاتاہے۔
انھوں نے توسیعی خطبہ میں کہا کہ مولانا ابوالکلام آزاد پر اخبار نویسی کواختیار کرنے سے پہلے اس کے خدوخال واضح تھے۔ ان کا خیال تھا کہ یہاں ترقی حاصل کرنے کے علاوہ آزادی کے حصول کے لیے عوام الناس میں بیداری اور شعورپیداکرنے کاکام صحافت سے جس مؤثراندازمیں لیاجاسکتاہے اتناکسی دوسری چیزسے نہیں لیاجاسکتا۔
معصوم مرادآبادی نے کہا کہ مولانا آزاد جس پیغامبرانہ شان کے ساتھ مطلع صحافت پر طلوع ہوئے تھے وہ کسی عام صحافی اور اخبار نویس کے بس کا روگ نہیں تھا۔ انہوں نے اصولوں، اقدار اور بلند مقاصد کو اپنا شیوہ بنایا تھا اور صحافت میں تین بنیادی اصولوں کے طرفدار تھے۔ اول یہ کہ اخبارات کو سماج کا آئینہ دار ہونا چاہیے۔ دوئم اخبارات کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کا پیغام عام ہونا چاہیے اور سوئم اخبارنویسی کے ذریعہ عوام میں جدید ترین علوم وفنون کا فروغ ہو۔
معصو م مرادآبادی نے کہا کہ مولانا آزاد صحافت کے مشن میں کسی بھی آلائش اور ذاتی مفاد کے مخالف تھے اور اخبار نویس کے قلم کو پوری طرح آزاد اور بے باک دیکھنا چاہتے تھے۔
صدارتی خطاب میں ڈاکٹر مسعود الحسن عثمانی نے کہا کہ مولانا آزاد خو د ایک تاریخ تھے۔انھوں نے جس میدان میں قدم رکھا اسے بام عروج تک پہنچایا۔انھوں نے کہا کہ مولانا آزاد اردو صحافت کامعیار اور اعتبار دونوں ہیں۔
اس موقع پر کیمپس کے اساتذہ،ریسرچ اسکالر اور طلبہ کے علاوہ شہر نگاراں کی اہم شخصیات میں حکیم وسیم احمد اعظمی،پروفیسر جمال نصرت،محی بخش قادری،ڈاکٹر عصمت ملیح آبادی،قطب اللہ،محبوب عالم خاں،منظور وقار،اویس سنبھلی، راجیوپرکاش ساحر،راشد خاں،ضیاء اللہ ندوی،حمیرا عالیہ وغیرہ موجود تھے۔
دہلی: ارداکادمی ، دہلی نے وزارت فن ، ثقافت و السنہ ،حکومت دہلی کے زیر اہتما م چار روزہ عظیم الشان جشن اردو کا انعقاد سندر نرسری میں کیا ۔ ہمایوں مقبرہ بستی حضرت نظام الدین کے قریب تاریخی مقام عظیم باغ جسے اب سندر نرسری کے نام سے جانا جاتا ہے کے ایمپی تھیٹر میں اس جشن کے تحت پروگرام پیش کیے جارہے ہیں ۔ یہ چار رزوہ جشن دوپہر بارہ بجے سے شروع ہوکر شام آٹھ بجے تک لگاتار جاری رہتا ہے ۔ جس میں عالمی شہرت یافتہ فنکاروں کے ذریعہ کل بائیس پروگرام پیش کیے جائیں گے ۔
پہلے دن کا پہلا پروگرام قصہ گوئی کا تھا جسے دہلی کے ٹیلنٹ گروپ نے پیش کیا ۔ اس پیشکش کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں انہوں نے پرانی دلی کی گلیوں کی کہانیاں ، بچوں کی زبان ،کرخنداری زبان اور دلی کی تکبندیوں کوپیش کیا ۔ اس میں مرکزی فنکار ارشاد عالم خوبی اور ان کے ساتھ دو بچیاں عمرین اور ایشا بھارگوتھیں ۔ اس کے بعد کا پروگرام سو زساز کا تھا جس میں فنکارہ انوپما شریواستو نے جدید وقدیم غزلوں کو پیش کیا ۔ فیض احمد فیض کے کلام ’بہار آئی تو جیسے …‘‘ کے ساتھ اپنے پروگرام کا آغاز کیا ۔ اس کے بعد انہوں نے ’گلوں میں رنگ بھرے ‘ ، ’ بہار آئی ہے غنچہ لبوں کی بات کریں‘ ، نواز دیوبندی کی غزل ’ترے آنے کی جب خبر پہنچی‘ ، جگر کی غزل’ تغافل ، تجاہل ، تکلف تبسم ‘، صوفی تبسم کی غزل ’وہ مجھ سے ہوئے ہم کلام اللہ اللہ ‘اور پھر ’رفتہ رفتہ وہ میری ہستی کا ساماں ہوگئے ‘ جیسے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا ۔
اس کے بعد داستان گوئی کی محفل سجی جس میں بطور داستان گو ساحل آغا اور بطور گلوکارہ ڈاکٹر نیتا پانڈے نیگی اپنی فنکاری کا مظاہر ہ کررہے تھے ۔ اس میں ان کے ساتھ دو سازندے بھی تھے ۔ یہ اگر چہ داستان گوئی کی محفل تھی لیکن اصل میں تصوف کی پیش کش تھی جس میں نیتا پانڈے فارسی ، ہندوی ، اودھی اور اردو کے صوفیانہ اشعار پیش کرتیں اور ساحل آغا تصوف کے دائرے میں اس کی تشریح پیش کردیتے ۔
تیسرا پروگرام محترمہ اندرا نایک کا تھا انہوں نے اپنی سحر انگیز ترنم کے ساتھ جو سماں قائم کیا اس کا اثر یہ ہوا کہ لوگ بے خودی کی کیفیت میں نظر آئے ۔ بسنت کے گیت کے ساتھ انہوں نے اپنے پروگرا م آغاز کیا ، اس کے علاوہ کلاسک کلام بخوبی پیش کیا ۔جدیدشاعری میں انہوں نے مجاز کی نظم ’ اے غم دل کیا کروں اے وحشت دل کیا کروں اور شاذتمکنت کی مشہور غزل ’ موج ساحل سے ملو ماہ کامل سے ملو ‘ کو پیش کیا ۔ اس آخری پیش کش سے پہلے انہوں نے دمادمدم مست قلندر پیش کیا تھا جس پرانھو ں نے کہا کے اس کے بعد کچھ پیش کرنا مشکل ہوتا ہے لیکن اسی راگ میں انہوں نے شاذ تمکنت کی غزل کو پیش کرکے سبھی کو حیرت میں ڈال دیا ۔
اس کے بعد لوگ جوق درجوق وارثی برادرس کی محفل قوالی کے لیے تشر یف لا نے لگے ۔ سورج کی لالی غائب ہوچکی تھی چاند اپنے شباب کے ساتھ سندر نرسری کے سبز زار میں اپنی چاندنی بکھیر رہا تھا اور وارثی برادرس کی بھرپور آواز میں قوالی ماحول کو دوبالا کررہی تھی ، یہ آخری پروگرام رات آٹھ بجے تک جاری رہا ہے ۔ جس میں شہر دہلی کے ہر طبقہ اور سماج حتی کہ مختلف ملکوں سے تعلق رکھنے والوں نے حصہ لیا اور ارد و زبان و ثقافت سے مسحور ہوئے بغیر نہیں رہ سکے ۔
تمام فن کاروں کا اردو اکادمی دہلی کے سکریٹری جناب محمد احسن عابد نے گلدستہ اور مومینٹو پیش کرکے استقبال کیا ۔ تمام پروگراموں کی نظامت جناب اطہر سعید اور ریشماں فاروقی نے کی ۔
شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں سا لانہ سہ روزہ ثقافتی تقریبات ’’انسپائرو 2024‘‘ کا آغاز
نئی دہلی:’’ہم نصابی وثقافتی سرگرمیاں طلبہ کی عملی زندگی میں اطلاق کے مواقع فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ سیکھنے کے عمل اور اس کی منتقلی کو فروغ دیتی ہیں۔ان سرگرمیوں سے ان میں نہ صرف تخلیقی،فیصلہ سازی،جدت طرازی اورجمالیاتی قدردانی کی صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں بلکہ ان کی مدد سے وہ ایک ہمہ گیر شخصیت اختیار کرسکتے ہیں۔‘‘ ان خیالات کا اظہارپروفیسر اقتدار محمد خان،صدر شعبہ اسلامک اسٹڈیزاورڈین،فیکلٹی آف ہومینٹیز اینڈ لینگویجز نے بزم طلبہ کی جانب سے منعقدسہ روزہ سالانہ ثقافتی تقریبات ’’انسپائرو 2024 ‘‘ کی افتتاحی تقریب میں کیا۔انہوں نے طلبہ کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ان ثقافتی سرگرمیوں سے نظم وضبط ،قوت برداشت اوررواداری کا جذبہ حاصل کریں تب ہی ان کا اصل مقصد حاصل ہوسکے گا۔ڈاکٹر خورشید آفاق،مشیر بزم طلبہ نے کلچرل کمیٹی کے ذمہ داران کومبارک باد دی اور طلبہ کو پروگرام کے اغراض ومقاصد سے واقف کراتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ثقافتی تقریبات طلبا کی متنوع صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ ندا پروین ،کوآرڈینیٹر،کلچرل کمیٹی نے بتایا کہ سہ روزہ ثقافتی تقریب میں آج قرأت، نعت،ڈبیٹ شاعری، بیت بازی، مضمون نویسی کے مقابلے ہو رہے ہیں اوربرجستہ تقریر،سلوگن رائٹنگ، خطاطی، بیسٹ یوز آف ویسٹ اورفوڈ فیسٹیول وغیرہ کے مقابلے اگلے دنوں میں ہوں گے۔ان میں مختلف شعبوں کے ڈھائی سو سے زائد طلبہ وطالبات نے حصہ لیا ہے۔مقابلوں میں کام یاب ہونے والے طلبہ وطالبات کو سند اور ٹرافی سے نوازا جائے گا۔پروگرام کا آغاز شعبہ کے طالب علم وسیم احمدکی تلاوت کلام سے ہوا۔بزم طلبہ کے نائب صدرابوسالم یحییٰ نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔کلچرل کمیٹی کے ذمہ دار محمد شہنوازنے سہ روزہ پروگرام کا تفصیلی تعارف کرایا۔نظامت کے فرائض جویریہ عبداللہ نے انجام دیے۔اسی دوران کلچرل کمیٹی کی جانب سے نمائش کا بھی اہتمام کیا گیا،اس میں طلبہ نے ’’ مسلمانوں کی فنون لطیفہ اور سائنس وٹکنالوجی میں خدمات‘‘،’’ اسلامی خطاطی‘‘،’’اسلامک اسٹڈیز سے آپ کیا سمجھتے ہیں‘‘جیسے اہم موضوعات کو اجاگرکرنے کی کوشش کی ہے۔ثقافتی پروگرام کو کام یاب بنانے میں شعبہ کے اساتذہ کے علاوہ خنساء،سکینہ خلود، فارحہ ارشاد، مصباح خان،صادقہ ارم،عرشی احمد،عاتکہ خانم،سمیہ خاتون،عائشہ زہرہ،شگفتہ سخاوت،ثنافرمان،تسنیم،منتشاء،سعدیہ مرزا،افشاں مبشر،عفت نور،ملیحہ،ناہید نور،درخشاں اورمنزہ ناز وغیرہ کا اہم کردار رہا ۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مولانا آزاد کی حیات و سیاست پر تیسرا مشیر الحسن یادگاری خطبہ
دہلی: شعبہ تاریخ وثقافت،جامعہ ملیہ اسلامیہ نے بیس فروری دوہزار چوبیس کو تیسرا مشیرالحسن یادگاری خطبہ منعقد کیا۔ممتاز مؤرخ پروفیسر سید عرفان حبیب نے یہ خطبہ دیا۔خطبے کاموضوع ’مولانا آزاد کی حیات اور سیاست کا اجمالی جائزہ’ ۔
پروفیسر اقبال حسین کارگزارشیخ الجامعہ،جامعہ ملیہ اسلامیہ پروگرام کے مہمان خصوصی تھے۔پروفیسر زویا حسن اور پروفیسر اقتدارمحمد خان،ڈین فیکلٹی آف ہیومنیٹیز اینڈ لنگویجز،جامعہ ملیہ اسلامیہ خاص مہمان تھے۔
صدر شعبہ پروفیسر فرحت نسرین کے خیرمقدمی کلمات سے پروگرام کا آغاز ہوا۔پروفیسر نسرین نے اس موقع پر پروفیسر مشیر الحسن کی شان دار خدمات کا ذکر کیا۔
پروفیسر اقبال حسین،کارگزار شیخ الجامعہ نے مرحوم مشیر الحسن جو ان کے سینئر اور سرپرست تھے ان سے اپنے خصوصی تعلقات کا ذکر کیا۔انھوں نے زور دے کر کہا کہ پروفیسر حسن ہمیشہ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شاہ جہاں کے نام سے یاد کیے جاتے رہیں گے۔انھوں نے مزید کہا کہ مرحوم پروفیسر حسن کی علمی قد جیسی صلاحیت والے کم ہی لوگ ہوتے ہیں۔
پروفیسر زویا حسن نے مشیر الحسن عطیہ فنڈ اور اسکالرشپ جو اس کے زیر اہتمام تقسیم کی جاتی ہے اس حوالے سے گفتگو کی۔پروفیسر اقتدار محمد خان نے مرحوم پروفیسر کی ذاتی اور پیشہ ورانہ فضیلت کے متعلق بات چیت کی۔انھوں نے کہاکہ وہ اپنے چھوٹوں کی اظہار خیال کے لیے حوصلہ افزائی کرتے تھے تاکہ ہر شعبے میں بہتری لائی جاسکے۔
مرحوم پروفیسر مشیر الحسن کی کوششوں سے جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ تاریخ کے قیام کے متعلق ڈاکٹر جاوید عالم نے بتایا۔انھوں نے پروفیسر مشیر الحسن کی زندگی اور کیرئیر کے متعلق بھی گفتگو کی۔
مولانا آزاد سے متعلق پروفیسر ایس عرفان حبیب کا لیکچر آزاد کی زندگی کے کم معلوم پہلوؤں اور جہات پر مرکوز تھا۔مثال کے طورپر انھوں نے بتایا کہ مولانا آزاد نے ستار بجانا سیکھا تھا اور آگرے میں تاج محل کے قریب جمنا کنارے چاندنی رات میں اسے بجایابھی تھا۔موسیقی سے ان کا لگاؤ اور شغف اس بات سے بھی ظاہر ہے کہ جہاں جاتے تھے ٹرانزسٹر ساتھ لے جاتے تھے یہاں تک کے قید خانے میں بھی۔پروفیسر حبیب نے اس پر زور دیا کہ مجاہدین آزادی کو صرف ان کے سالگرہ پر یادکرنا کافی نہیں ہے۔ہمیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں ان سے حاصل شدہ انسانی اقدار کو ضرور بالضرور شامل کرنا چاہیے۔
پروگرام میں کثیر تعداد میں طلبہ و طالبات نے شرکت کی اور بہت انہماک سے پروگرام سماعت کیا۔
اسلام پور کالج میں ’بیسویں صدی کے اہم رجحانات اور اردو غزل ‘ پر توسیعی خطبہ
اسلام پور : شعبہ اردو ،اسلام پور کالج کے زیر اہتمام بیسویں صدی کے اہم رجحانات اور اردو غزل‘ کے موضوع پر سالانہ توسیعی خطبہ کا اہتمام کیا گیا۔ توسیعی خطبہ کے لیے اردو کے اہم اسکالر اور چوپڑہ کالج کے ٹیچر انچارج پروفیسر علیم الدین شاہ کو مدعو کیا گیا تھا ۔ پروفیسر علیم الدین شاہ نے موضوع پر ایک وقیع خطبہ دیا۔ انہوں نے بیسویں صدی کی شاعری کے مختلف ادوار کا جائزہ لیتے ہوئے اردو غزل پر اس کے اثرات کی نشاندہی کی ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو غزل نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ ہر تحریک اور رجحان کے ساتھ شانہ بشانہ چلنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ ترقی پسندوں کی مخالفت کے باوجود اردو غزل نہ صرف زندہ رہی بلکہ اور توانائی کے ساتھ ابھری۔آج بھی اردو کی سب سے مقبول صنف غزل ہے۔ انہوں نے تحریک اور رجحان کے فرق کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پہلے ادیب اور شاعرکا انفرادی رجحان بنتا ہے پھر وہ اجتماعی رجحان کی شکل اختیار کرکے ایک بڑے طبقہ کو متاثر کرتا۔ اس کے بعد یہی رجحان تحریک کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ اپنے افتتاحی خطاب میں شعبہ کے استاد اور پروگرام کے کنوینر ڈاکٹر محمد شہنواز عالم نے کہا کہ غزل کو اردو شاعری کی آبرو کہا گیا ہے۔دوسری زبانوں کو جاننے والے اردو شاعری کو غزل کے حوالے سے جانتے ہیں۔ اسلام پور کالج کے ٹیچر انچارج ڈاکٹر عزیر احمد نے اس موقع کہا کہ اسلام پور کالج نے اس سال سے کالج کے ہر شعبہ میں ایک سالانہ توسیعی خطبہ کو منظوری دی ہے۔ اس کا مقصد کالج کے علمی ماحول کو فروغ دینا ہے۔انہوں نے کہا کہ شعبہ اردو کے سالانہ توسیعی خطبہ کو عبدالغفور نساخ سے منسوب کیا گیا ہے۔ انہوں نے نساخ کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ان کی صلاحیتوں کے معترف مرزا غالب بھی تھے۔ انہوں نے لکھنوی طرز کی شاعری کی، وہ اپنے تذکرہ کی وجہ سے بھی اردو دنیا میں جانے جاتے ہیں۔ بعض ناقدین انہیں اردو رباعی کے دیوان کا موجد قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے مغربی بنگال میں رہتے ہوئے ’مجموعہ نقص‘ لکھ کر اہل لکھنؤ کی زبان و بیان کی غلطیوں کی اصلاح کی تھی۔ پروگرام کی نظامت شعبہ کے استاد ڈاکٹر محبوب عالم نے اور شکریہ کی رسم کو محمد قیصر عالم نے انجام دیا۔ پروگرام میںکالج کے اساتذہ ڈاکٹر ابو وقاص، احمد رضا، سجیت پال، ابھیجیت چودھری، کالیپدا سرکار، سیکھا، ابھرنشو کمار، میگما، ڈاکٹر محمد اشتیاق کے علاوہ طلبا کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔
اردو اکادمی دہلی کے زیراہتمام ’دکنی زبان و ادب:روایت اورمعاصر صورت حال‘ پر سہ روزہ سمینار اختتام پذیر
نئی دہلی : اردو اکادمی دہلی کے زیراہتما م سہ روزہ قومی سمینار بعنوان ’دکنی زبان و ادب:روایت اورمعاصر صورت حال‘ کے تیسرے دن کا پہلا اجلاس قمررئیس سلورجبلی آڈیٹوریم میں منعقد ہوا،اس اجلاس کی صدارت پروفیسر سجاد شاہداور پروفیسرابوبکر عبادنے کی،اس اجلاس میں پروفیسرمعین الدین جینابڑے نے’ اورنگ آباد کی دبستانی حیثیت:تعارف و توضیح‘،پروفیسرخالد علوی نے’ولی اورریختہ گوئی:ادبی و تاریخی مباحث‘،جناب خورشید اکرم نے ’مثنوی پھول بن: معاصرفکشن نگار کے تاثرات‘ اورجناب مقصود دانش نے’مثنوی قطب مشتری کی فنی انفرادیت(پلاٹ کے حوالے سے)‘ کے عناوین پر اپنے مقالات پیش کیے۔صدارتی خطاب کرتے ہوئے پروفیسر ابوبکرعباد نے کہاکہ تنقیدکاکام یہ ہے کہ جو چیز لکھی ہوئی ہے، اس پر بات کرے اوراس پر اپنی رائے قائم کرے،اس لیے کہ جو چیز شائع ہو چکی ہے وہ اب کسی کی پراپرٹی نہیں ہے بلکہ وہ اب عوام کے درمیان ہے اورتنقید نگار جس طرح چاہے اس پر تنقید کرسکتاہے۔انھو ں نے کہاکہ ولی پہلاشاعرہے جس کے یہاں قرآنی آیات اورالفاظ کا خوب صورت اورمعنی خیز استعمال ہوتاہے،اس کے یہاں منطق،فلسفہ اوردیگرعلوم کا ذکربھی وافر مقدار میں ملتاہے،اس کے علاوہ ان کے اشعار میں ہندوکردار بہت ملتے ہیںاوران کی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے یہاں تل کا استعمال جابجا ملتاہے،تل کو تشبیہ اوراستعارے کے طور پر بھی انھوں نے استعمال کیاہے،اسی طرح کالے رنگ کا استعمال بھی وہ بکثرت کرتے ہیں،گنگاکے بجائے وہ جمنا کا استعمال کرتے ہیں اس لیے کہ جمناکالی ہوتی ہے۔پروفیسر سجاد شاہد نے اپنی تقریرمیں چاروں پیش کردہ مقالات پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ ادب بہت اہم چیز ہے،اس کے بغیر نہ تو ہم ماضی کو سمجھ سکتے ہیں اورنہ ہی مستقبل کا صحیح اندازہ لگاسکتے ہیں،جب تک ذہن اورمطالعہ وسیع نہیں ہوگاتب تک ادب اورتاریخ کو صحیح طور پر نہیں سمجھاجاسکتاہے۔انھوں نے دکنی زبان کی خصوصیت اورانفرادیت پر تفصیل سے بات کی، ہاشمی بیجاپوری کے کلام پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ ان کی شاعری میں عورتوں کے زیور،رسوم و روایات اورتہواروں کاذکر بخوبی ملتاہے، ان کے کلام کو پڑھ کر اس زمانے کے حالات،رہن سہن اورکھان پان کا بخوبی اندازہ ہوجائے گا۔شعراکے یہاں زبان تھوڑی مشکل ضرورتھی لیکن اس وقت کے صوفیانے آسان اورعام فہم زبان استعمال کی جس کی وجہ سے دکنی زبان عوامی زبا ن بن گئی۔
دکنی زبان وادب:روایت اورمعاصر صورت حال کا دوسرا اجلاس لنچ کے بعد شروع ہوا،اس اجلاس کی صدارت پروفیسراحمد محفوظ اورپروفیسر خالدعلوی نے کی ،اس اجلاس میں بھی پانچ مقالات پیش کیے گئے،ڈاکٹررئوف خیر نے’دکنی کے ادبی معرکے‘،پروفیسر ابوبکر عباد نے ’ہندوستانی فکروتمدن کا پہلاترجمان شاعرـ:قلی قطب شاہ‘،ڈاکٹرامان اللہ ایم بی نے ’تمل ناڈومیں دکنی زبان وادب:روایت و صورتحال‘،ڈاکٹر معیدرشیدی نے ’اردو شعراکے ابتدائی تذکروں میں دکنی شعراکا ذکر:تنقیدجائزہ‘ اورڈاکٹر عالیہ نے ’دکنی غزل ولی سے قبل‘ کے عناوین پر مقالات پیش کیے۔صدارتی تقریر کرتے ہوئے پروفیسراحمدمحفوظ نے کہاکہ اردواکادمی دہلی کا یہ سمینار بے حد کامیاب رہا،اردواکادمی دہلی نے اس اہم اورنادر موضوع کا انتخاب کیا اورملک کے مختلف گوشوں سے اہل علم و ادب کو مدعوکیا،دکنی زبان کی خدمات کا اعتراف اوراس کی اہمیت کو سمجھنے کا اس سمینارسے بہتر اورکوئی ذریعہ نہیں ہوسکتا۔اس سمینار کے تعلق سے پہلے ہی مقالہ نگاروں کے لیے موضوعات مختص کردیے گئے تھے جس کا فائدہ یہ ہواکہ دکنی زبان کے حوالے سے بہت سے گوشوں سے ہماری واقفیت ہوئی اورتکرار سے بھی بچناممکن ہوسکا۔انھوں نے مزیدکہاکہ علاقائی تعصب کا اظہار میر کے زمانے سے شروع ہوااورشمالی ہند والے اس میں پیش پیش رہے،جس کا شکار دکن اور دکنی زبان خاص طورپر ہوئی،تذکروں کی اولین صورت بیاض کی ہوتی ہے اوربیاض خالص ذاتی چیز ہوتی ہے،اور ہر انسان اپنی پسندوناپسند کے حساب سے چیزوں اورناموں کا اندراج کرتاہے،لیکن ہم ادب کے امین ہیں چاہے وہ شمال کی شاعری ہو یاجنوب کی ،ہم پر لازم ہے کہ ہم بلاتعصب تمام طرح کی شاعری کامطالعہ کریں، اس سے ہمارے علم میں اضافہ ہوگا اورہم دوسرے علاقوں کے حالات اورادب سے واقف ہوسکیںگے۔پروفیسر خالد علوی نے پانچوں مقالات پر فرداًفرداًگفتگوکی،انھوں نے تقریرکرتے ہوئے کہاکہ انگریز نے ہندوستان والوں کو احساس کمتری میں مبتلاکردیاتھاکہ تم لوگوں کے پاس جو ادبی سرمایہ ہے وہ بالکل معمولی ہے جبکہ ہمارے پاس علم کا وافر ذخیرہ موجود ہے،لیکن آج جب ہم ادب کا مطالعہ کرتے ہیں تواندازہ ہوتاہے کہ ہمارے پاس پہلے سے وہ چیزیں وجود ہیں جن کے متعلق وہ کہتے تھے کہ یہ تمہارے یہاں نہیں ہے۔قاطع برہان پر گفتگوکرتے ہوئے انھوں نے کہاکہ غالب کے پاس وہ علم موجو د نہیں تھاجو ایک لغت لکھنے والے کے لیے ضروری ہوتاہے،ولی کے متعلق انھوں نے کہاکہ ان میں خود اعتمادی بہت تھی،یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنے زمانے کے اکثر شعراکوچیلنج کیاہے۔
اس کے بعد متن خوانی کا سیشن منعقد ہوا، جس میں ڈاکٹراودھیش رانی باوا،پروفیسرمعین الدین جینابڑے ، جناب اسلم مرزا،ڈاکٹرسجاد شاہد اور ڈاکٹررئوف خیرنے دکنی متون کو اپنے خاص اندا ز میں پیش کیا،سامعین اس متن خوانی سے بے حد محظوظ ہوئے۔
اس کے بعد متصلاً اختتامی اجلاس منعقد ہواجس کی صدارت پروفیسرشگفتہ شاہین اورپروفیسرمعین الدین جینابڑے نے کی،اس اجلاس میں ڈاکٹراودھیش رانی باوا، پروفیسر شہاب الدین ثاقب،ڈاکٹررئوف خیر،جناب اسلم مرزا اورڈاکٹرمعیدرشیدی نے اپنے وقیع خیالات کا اظہار کیااوراس سمینار سے متعلق اپنے تاثرات پیش کیے،سب نے مشترکہ طور پر کہاکہ یہ سمینار بے حد کامیاب رہااوراس سمینارکی وجہ سے بہت سی نئی چیزوں کا علم ہوا۔شکریے کی رسم اردو اکادمی دہلی کے سکریٹری محمد احسن عابد نے اداکی۔
پہلے اجلاس کی نظامت ڈاکٹرجاوید حسن جبکہ دوسرے،تیسرے اوراختتا می اجلاس کی نظامت ڈاکٹرشاہنواز فیاض نے کی۔ پروفیسرخالدمحمود، پروفیسرغضنفر، پروفیسرتسنیم فاطمہ، رخشندہ روحی، ڈاکٹرنورالاسلام، ڈاکٹرعبدالباری، ڈاکٹر امیرحمزہ، مہرفاطمہ کے علاوہ تینوں یونیورسٹیز کے بہت سے طلبہ و طالبات اس سمینار میں شریک ہوئے۔
جشن اردو کے دوسرے دن اردو شاعری کی غنائی پیشکش، ادب اطفال پر سیمینار،مشاعرہ شاعرات اور رقص صوفیانہ جیسے پروگراموں کا انعقاد
بھوپال : مدھیہ پردیش اردو اکادمی،محکمہ ثقافت ادب میں نوآبادیاتی ذہنیت سے نجات پر مبنی سہ روزہ جشن اردو کے دوسرے دن پہلے اجلاس میں ادب اطفال پر سیمینار منعقد ہوا جس کی صدارت بھوپال کے سینیئر ادیب مہیش سکسینہ نے کی اور مقررین کے طور پر معروف ناول فکشن نگار محسن خان اور ڈاکٹر آصف سعید نے ادب اطفال کے حوالے سے گفتگو کی۔
اس اجلاس کی شروعات میں ڈاکٹر نصرت مہدی نے کہا کہ "آزاد ہندوستان میں ہمیں پنچ تنتر اور اسماعیل میرٹھی کے لکھے ہوئے ادب اطفال کی شدت سے ضرورت ہے، یہ ہمیں ہماری روایات سے اور رسومات سے جوڑ کر رکھنے میں مدد کرنے والے ہیں ۔”
مشہور ادیب اطفال مہیش سکسینہ نے کہا کہ "ایک وقت تھا کہ جب دادی نانی کہانیوں کے ذریعے بچوں میں اخلاق اور اعلیٰ انسانی اقدار کو شامل کردیتی تھیں۔ اب کسی کو اتنا وقت نہیں ملتا تو بچے اپنی مرضی سے کسی طرف بھی بھٹک جاتے ہیں ۔ اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔
محسن خان نے بچوں کے حوالے سے اپنی کہانی” جامن والے بابا پیش کی جو بچوں میں ماحولیات کے تحفظ کے تئیں بیداری پیدا کرنے والی تھی۔
ڈاکٹر آصف سعید نے ادب اطفال کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ” دور قدیم میں بچوں کو ادب کے ذریعے سے کامیابی کے ساتھی اخلاقی تعلیم دی جاتی تھی، موجودہ دور میں تعلیم کے میدان میں اور ادب کے میدان دونوں میں اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اس اجلاس کی نظامت کے فرائض اقبال مسعود نے انجام دیے۔
دوسرے اجلاس میں بھوپال کے نوجوان فنکاروں وید پنڈیا اور شبھم ایس ڈی آر نے اردو شاعری کی غنائیہ پیشکش دی۔
دن کے تیسرے اجلاس میں شام 5:30 بجے چلمن مشاعرہ شاعرات منعقد ہوا جس کی صدارت بھوپال کی سینئر شاعرہ پروین کیف نے کی۔ جن شاعرات نے کلام پیش کیا ان کے اسمائے گرامی اور اشعار درج ذیل ہیں ۔
جیت جانے کا ہنر ہم کو بھی آتا ہے مگر
ہار جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے
صبیحہ صدف
کوئی انجام ہو لیکن جسارت کرکے دیکھیں گے
محبت کرنے والوں سے محبت کرکے دیکھیں گے
قمر سرور
سخنور کیوں نہ ہو بیٹی ہے بیٹی ہے یہ تو کیف صاحب کی
کہیں محفل جو میرا نام آیا تو یوں آیا
پروین کیف
میرے سر پر رہے آنچل تری بندی سلامت ہو
ادھر اردو پھلے پھولے ادھر ہندی سلامت ہو
ڈاکٹر عنبر عابد
جا سمندر میں اتر جا تو بھی
اے ندی شوق سے مر جا تو بھی
پھول ہی پھول کھلیں گے اک دن
دیکھ، مٹی پہ بکھر جا تو بھی
رینو نیر
مشاعرے کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر عنبر عابد نے انجام دیے۔
آخری اجلاس میں رقص صوفیانہ کے تحت رانی خانم اور ان کے آمد کتھک گروپ کے ذریعے صوفیانہ رقص پیش کیا گیا ۔
انھوں نے درج ذیل کلاموں پر رقص کیا
میرا بھارت انوکھا دیش ہے
چھاپ تلک سب چھینی رے
میرے مرشد کھیلے ہولی وغیرہ
اس اجلاس کی نظامت کے فرائض رشدی جمیل نے انجام دیے۔
2023 کے باوقار گیان پیٹھ ایوارڈ کے لیے معروف اردو شاعر و نغمہ نگار گلزار اور جگد گرو رام بھدر اچاریہ کا انتخاب
نئی دہلی:معروف اردو شاعر و نغمہ نگار گلزار اور سنسکرت کے اسکالر جگد گرو رام بھدراچاریہ کو 58 ویں گیان پیٹھ ایوارڈ کے لیے نامزد کیا گیا ہے، اس کا اعلان گیان پیٹھ سلیکشن کمیٹی نے آج کیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ گلزار اردو کے معروف شاعر ، ڈراما نگار، مکالمہ نویس اور نغمہ نگار ہیں۔ اردو کے علاوہ انگریزی، ہندی اور دیگر زبانوں میں شعر و نثر کی مختلف اصناف میں ان کی درجنوں کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ اردو زبان و ثقافت سے ان کی وابستگی بے مثال ہے اور ان کی شخصیت کی نفاست و لطافت اردو کی تہذیبی شناخت کا خوب صورت حوالہ سمجھی جاتی ہے۔ اس سے قبل وہ 2002 میں ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، 2013 میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ، 2004 میں پدم بھوشن اور کم از کم پانچ قومی فلم ایوارڈ حاصل کر چکے ہیں۔ واضح رہے کہ اس سے قبل اردو کے چار ادبا و شعرا کو گیان پیٹھ ایوارڈ تفویض کیے گئے ہیں، جن میں فراق گورکھپوری (1969)، قرۃ العین حیدر(1989)، علی سردار جعفری(1997) اور شہریار (2008) کے نام شامل ہیں۔
اس ایوارڈ کے لیے دوسری نامزد شخصیت رام بھدراچاریہ کی ہے، جو چترکوٹ میں تلسی پیٹھ کے بانی اور سربراہ، مشہور ہندو روحانی پیشوا، معلم اور متعدد کتابوں کے مصنف ہیں۔
ایک بیان میں گیان پیٹھ سلیکشن کمیٹی نے کہا”یہ ایوارڈ (2023 کے لیے) دو زبانوں کے نامور ادیبوں کو دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے: سنسکرت کے ادیب جگد گرو رام بھدراچاریہ اور اردو کے معروف ادیب شری گلزار۔” قابل ذکر ہے کہ 2022 میں یہ باوقار ایوارڈ گوا کے ادیب دامودر ماؤزو کو ملا تھا۔