یہ حسن اتفاق تھا کہ آج سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل جمعہ الوداع کے روز کسی کام سے پرانی دہلی جانا ہوا اسی دوران نماز کا وقت ہوا تو شاہی مسجد فتحپوری میں نماز ادا کیا ۔
جمعہ کے خطبے کی افادیت کے تعلق سے جن باتوں کا تذکرہ گاہے بگاہے اپنی پوسٹ میں کرتا رہا ہوں وہ الحمدللہ امام و خطیب مسجد فتحپوری مفتی مکرم صاحب دامت برکاتہ کی تقریر اور خطبہ میں بہت حد تک ملا۔
خطبہ اولی یا خطبہ سے پہلے تقریر میں انہوں نے حالات حاضرہ پر گفتگو کی ۔ اور حکمت بھرے انداز میں، موجودہ حکومت اور متعصب عناصر کو آئینہ دیکھایا۔ انہوں نے بھارت کے وشو گرو کے خواب پر کہا کہ بحیثیت ہندوستانی شہری ہم سب اس پر خوشی کا اظہار کرتے ہیں لیکن جس طرح صحت مند انسان ہونے اور کہلانے کے لیے ضروری ہے ہے کہ اس کے جسم کا ہر اعضاء و جوارح تندرست ہو اگر جسم کے کسی حصہ میں زخم پھوڑا پھنسی یا مرض ہوگا تو اسے صحت مند نہیں کہا جاسکتا اسی طرح کسی ملک کے وشو گرو اور ترقی یافتہ ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس ملک کا ہر طبقہ خوشحال ہو اگر کوئی ایک طبقہ بھی پسماندہ اور ظلم و بربریت کا شکار رہے گا تو ایسا ملک وشو گرو کیا ترقی یافتہ بھی کہلانے کا مستحق نہیں ہوگا۔ ظلم و زیادتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے اپنی تقریر میں حکمت سے باتیں کی وہ اس طرح کہ ظلم و زیادتی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ "اخبارات میں ہم نے پڑھا ہے” کہ کس طرح عتیق اور اس کے بھائی کو قتل کیا گیا۔ وہ دونوں کیسے تھے ذاتی طور پر یہ میں نہیں جانتا لیکن پولیس کی موجودگی میں ان کے بہیمانہ قتل پر عدالت اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھنے والا ہر شخص حیرت زدہ ہے ۔ تنظیم برائے حقوق انسانی نے بھی سوال کیا ہے۔ مجھے تعجب ہوا کہ یہ سوئی ہوئی تنظیم کب جاگی!
اسی طرح عام آدمی کو درپیش دیگر مسائل پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے اخبارات کے حوالے سے بات کی ۔
ان کا یہ انداز سن کر مجھے سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند قاری محمد طیب نور اللہ مرقدہ کی ایک تقریر کی یاد آئی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اگر حکومت ایمرجنسی نہیں لگائی ہوتی تو میں کہتا کہ اظہار رائے کی آزادی کا حق یہاں کی عوام کو دستور ہند نے دیا اسے کچلنا آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اسی طرح انہوں نے حکومت کی متعدد زیادتیوں کا یہ کہتے ہوئے کہ "اگر ایمرجنسی نہیں لگی ہوتی تو میں کہتا” کہہ کر ذکر کر دیا تھا ۔
خطیب محترم جناب مکرم صاحب نے تقریر کے بعد کہا کہ اب اس سے پہلے کہ خطبہ عربی زبان میں سنیں اس کا اردو زبان میں مفہوم و معانی سن لیں ۔ انہوں نے بہت سہل انداز اور سادہ زبان میں خطبہ کا مفہوم مقتدیوں کو گوش گزار کیا ۔ اس کے بعد عربی زبان میں خطبہ پڑھا اس کے بعد انہوں نے جمعہ کی نماز ادا کرائی۔
عموماً جمعہ کے خطبے امام صاحب عربی میں پڑھ کر ذمہ داری سے بری ہو جاتے ہیں جبکہ ان خطبات میں قرآن وحدیث کے منتخب ایسے کلام ہوتے ہیں جو عام آدمی کو اس کی زندگی کے لیے بہترین راہ ہدایت ہیں ۔
خطبہ میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی حمد و ثناء ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر درود وسلام کے بعد بالترتیب ابوبکر صدیق، عمر فاروق، عثمان غنی اور علی مرتضیٰ ، فاطمہ، حسن و حسین رضوان اللہ اجمعین کا ذکر ہوتا ہے۔
اس کے بعد ہماری معاشرتی زندگی سے متعلق قرآنی آیات اور احادیث شریفہ ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر : ثلاثة يا علي لا تؤخرهنَّ: الصلاة إذا أتت، والجنازة إذا حضرت، والأيم إذا وجدت كفؤاً. حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ "اے علی تین کاموں میں دیر نہ کرنا ١- نماز کا وقت ہو جائے تو اسے ادا کرنے میں ٢- جنازہ تیار ہو تو میت کو دفن کرنے میں ٣- مناسب جوڑا مل جائے تو غیر شادی شدہ کے نکاح کرنے میں۔” اسی طرح قرض کی ادائیگی کرنے اور معاملات میں صفائی کی ترغیب، ناپ تول میں کمی اور جھوٹ و فریب سے لین دین کرنے پر ترہیب ، حسن اخلاق، پڑوسیوں کے حقوق ، ماتحتوں کے ساتھ اچھا سلوک وغیرہ پر مشتمل قرآن وحدیث سے مزین رہنما باتیں عربی زبان میں ہوتی ہیں ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کا ترجمہ و مفہوم پہلے بیان کر دیا جائے اس کے بعد عربی زبان میں خطبہ پڑھا جائے۔
لیکن کیا متولیان مساجد اور انتظامیہ کمیٹی کے رسوخ دار اراکین بھی ایسا خطیب اور امام چاہتے ہیں ؟ کیا مقتدی حضرات بھی رسمی طور پر خطبہ سننے کی بجائے خطبہ سمجھنا چاہتے ہیں ؟ کیا مساجد کمیٹیوں کے ذمے داران باصلاحیت امام اور خطیب کو مناسب تنخواہیں اور رہائش دینا چاہیں گے ؟ کیا خطیب اور امام کی تقرری اہلیت اور صلاحیت کی بنیاد پر کریں گے؟