ریسرچ اسکالر،آر ٹی ایم این یو، ناگپور یونیورسٹی، ناگپور
اللہ رب العزت رحمان و رحیم ہے، اللہ تعالی کی ہزاروں نعمتوں میں سے سب سے عظیم نعمت ہمارے آخری نبی خیر البشر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ہیں۔ حضرت محمدؐکے احسانات کو قلمبند کرنا با لکل ویسے ہی ہے جیسے دریا کو کوزے میں بند کر نا ۔ قرآن شریف میں ارشاد ربانی ہے ’’بے شک تم عظیم اخلاق پر ہو۔‘‘(القلم: ۴) سورۃ کوثر میں بھی خدا نے اپنے محبوب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’ اے محبوبؐ ! بے شک ہم نے تمہیں بے شمار خوبیاں عطا فرما ئیں۔‘‘ (الکوثر: ۱) آپؐ کے مقام کا اندازہ خدا کے اس فرمان سے کیا جا سکتا ہے کہ ’’ جس نے رسولؐ کا حکم مانا اس نے بے شک للہ کا حکم مانا۔‘‘ (النساء:۸۰)شان رسول ؐ میں جب غالب نے اپنی قلم کو جنبش دی وہ بھی شکست تسلیم کرنے پر مجبور ہوئے اور لکھا:
غالب ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کان ذات پاک مرتبہ دان محمدؐ است
(غالب)
ترجمہ : ’’غالب ہم نے خواجہ (محمدؐ) کے مدح کو خدا پر چھوڑ دیا کہ وہی ذات پاک ہے جو محمد ؐ کے مقام و مر تبہ سے آگاہ ہے۔‘‘ حضرت محمد ﷺ تشریف نہ لاتے تو آج بھی یہ کا ئنات گمراہیوں اور ظلم و استبداد کے گھٹاتوپ اندھیروں میں بھٹک رہی ہوتی۔ حضرت محمد ﷺکے دنیا میں تشریف لاتے ہی سارا عالم منور ہوگیا ۔ آپ ؐ کی آمد سے قبل عرب میں دور جہالت کی ورق گردانی کریں تو روح کا نپ جائے گی کہ کس قدر جہالت تھی۔ زمین پر بسنے والے خدا کی بندگی کو چھوڑ کر کو ئی اپنے جیسے ہی انسانوں، جانوروں اور بتوں کی بندگی میں اس قدر رچ بس گئے تھے کہ شرک جیسے کبیرا گناہ کا ارتکاب بھی انھیں عبادت لگتا تھا۔ عرب میں اس وقت سرداری نظام کا رواج تھا ان سرداروں کے درمیان ایک معمولی سی بد گمانی سے تلواریں نکل جاتیں اور ہزاروں معصوم لوگ نا حق مارے جاتے تھے اور یہ سلسلہ نسل در نسل جاری تھا ۔ انسانوں کی خرید و فروخت عام بات تھی غلاموں پر حد درجہ سختی کی جاتی انھیں انسان نہیں سمجھا جاتا یہ وہ دور تھا جب سماج حاکم اور محکوم دو طبقوں میں تقسیم ہو چکا تھا، حاکم اس وقت کے خدا بن بیٹھے تھے۔ حاکم طبقہ اس وقت کی معصوم رعایا پر اس قدر حاوی تھا کہ ان کو لذت ،شہوت، عیش رانی کے لیے استعمال کرتا۔ظلم اپنی انتہا پر تھا اور شکایت یا انصاف مانگنے کا حق کسی کے پاس نہیں تھا۔اہل عرب کے یہاں خاندانی نظام اس قدر غلیظ تھا کہ انسانیت دم توڑ چکی تھی۔محرم نا محرم رشتوںکا احترام نہیں تھا ، نکاح کا مزاق بنا کر رکھا گیا تھا نکاح کے نام پر نیوگ جیسا فعل ان کے لیے عام بات تھی، بدکاری میں عار محسوس نہیں کرتے ، متعدد بیویاں رکھنا بھی ایک معروف بات تھی ، بد شگونی کا رواج بھی عام تھا ،لڑکیوں کو کو زندہ دفن کر دیا جاتا ۔دین ابراہیم میںجن چیزوں کو حلال قرار دیا گیا تھا وہ خود سے انھیں اپنے اوپر حرام کر لیتے ۔ مختصر یہ کہ خدا کے وجود سے ہی نا واقف تھے۔
ہر شب کے بعد ایک روشن صبح بھی تو ہے، عرب کی تاریکی بھی ختم ہونی تھی، باطل کا خاتمہ اور حق کو غالب آنا ہی تھا ۔پھر رحمۃ اللعالمین حضرت محمد ﷺ کی آمد سے نا صرف عرب بلکہ ساری کا ئنات جھوم اٹھی۔ حضرت محمد ﷺکی زندگی تمام انسانیت کے لیے اسوہ حسنہ ہے۔ حضرت محمد ﷺ کو اللہ نے رہبر بنا کر بھیجا۔ ہمارے نبی ؐکی آمد سے قبل آپؐ کی والدہ ماجدہ بی بی آمنہؓ اور دادا پر محمدؐ ؐکے بابرکت ہونے کی نشانیاں واضح ہو چکی تھیں۔ آپ ؐ کائنات کے ذرّے ذرّے کے لیے محسن اور معلم اخلاق ہیں۔ داعی حلیمہؓ کے گود میں لیتے ہی حلیمہ کی قسمت جاگ اٹھی ۔آپ کی ادھ مری او ٹنی ہوا سے بات کرنے لگی گھر میں قدم رکھتے ہی کئی دنوں سے بکری کے سوکھے تھنوں میں دودھ آگیا۔داعی حلیمہ معصوم محمد ؐکی ایسی گرویدہ ہوئیں کی آپ ﷺ کا نام ہر وقت زبان پر ہوتا، ہمارے پیارے نبی ؐتین سال تک داعی حلیمہ کے پاس ہی رہے ۔کم سن سے ہی آپ خود سے زیادہ دوسروں کا خیال کرنے والے تھے۔ آپؐ نے امانت میںخیانت بھی کبھی گوارا نہیں کیا۔ سرکاردو عالم ؐ جب بھی بکری کا دودھ پیتے اپنی رضاعی بہن کے لیے اسکا حصہ چھوڑ دیتے اور کبھی دوسرے تھن کو منہ نہیں لگاتے۔ اتنی کم عمری سے ہی آپ ؐ میں عدل و انصاف ، حق گوئی ، اعجاز گوئی، حسن تکلم موجود تھا۔آپ ﷺبچپن سے ہی برائی کی طرف نہیں پھٹکتے آپ ؐبرے الفاظ سننا بھی پسند نہیں کرتے۔دور جوانی میں بھی ہمارے نبیﷺ جیسی معصومیت کی کوئی مثال نہیں آپ میں کنواری لڑکیوں سے زیادہ حیا تھی۔
کہا جاتا ہے اگر کسی کے اخلاق دیکھنا ہے اس کے ساتھ ایک دن سفر کیا جائے۔ آپ ؐ کے ایسے متعددسفر ہیں جس میں آپ ؐ خود سے زیادہ دوسروں کا خیال کرتے۔ ایسا ہی ایک سفر حضرت خدیجہؓ کی کنیز کے ساتھ تجارت کی غرض سے کیا، جہاں خدیجہؓ کی کنیز آپؐ کے اخلاق سے اس قدر متاثر ہوئیں کہ آپ ﷺکی تعریف کرتے نہیں تھکتیں، دور جہا لت میں حضرت محمد ﷺلوگوں کے درمیان صلح کرایا کرتے تھے ۔ جامع ترمذی میں حضرت علی سے مروی ہے کہ ایک بار ابو جہل نے آپ ؐ سے کہا ’’ ہم آپ کو جھوٹا نہیں کہتے ہیں البتہ آپ ؐ جو کچھ لے کر آئے ہیں اسے جھٹلاتے ہیں۔‘‘ آپﷺ کو امین کا لقب دیا گیا کیونکہ آپﷺ کی شخصیت میںسچائی ، راست بازی، عدل ، پر ہیز گاری تھی آپ ؐ انسانیت کے معمار ہیں۔
آپؐ کے ہم پر کروڑوں احسانات ہیں وہ تمام احسانات میں سے سب سے بڑا احسان آپﷺ کبھی اپنی امت کی فکر سے غافل نہیں رہے اور یہ فکر آخری امتی تک کی تھی ۔ آپ ؐ کے اخلاق کی وجہ سے ہی خدا کا دین غالب آسکا ۔ آپ ﷺنے مخالفت، تعصب، نفرت کا جواب بھی بہت نرمی اور رحم دلی سے دیا ۔طائف کے اس واقعہ کو کس طر ح نظر انداز کیا جا سکتا ہے جب آپ ؐ نے توحید کی دعوت کے لیے پیدل ہی طائف کا سفر کیا۔ طائف والوں نے آپ ﷺکے ساتھ وہ سلوک کیا جس سے انسانیت شرمسار ہوتی ہے۔سر کار دو عالم ؐ جس کی ذات سے کبھی کسی مخلوق کو معمولی سی بھی تکلیف نہیں پہنچی آپ ﷺ کو حق کی دعوت دینے پر پتھروں سے لہو لہان کر دیا گیا، اس وقت حضرت محمدؐ نے اپنی بے بسی کا ذکر خدا سے کیا۔ اس وقت اللہ کا عذاب لے کر جبرئیل علیہ السلام تشریف لاتے ہیں اور نبی ؐ کے حکم کا انتظار کرنے لگے کہ اسی لمحہ نبی ؐ در گذر کرکے طائف والوں کے لیے ہدایت کی دعا کرتے ہیں ۔آپؐ کی دعا کے صدقہ چند سال میں طائف کے باشندے بھی ایمان لے آئے۔ دوران سفر ان ظالموں پر بھی آپﷺ کا احسان عظیم ہی ہے کہ آپ ﷺنے انھیں خدا کے عذاب سے بچا لیا۔اور پیارے آقا ؐ کی شخصیت ہی تھی کہ طائف کے سفر میں مشہور سردار عتبہ اور شیبہ بن ربیعہ نے آپ ؐ کے رسول ہونے کی تصدیق بھی کی اور فوراً ایمان لے آئے۔ خدا نے ہمارے نبی ﷺکو پوری دنیا کے لیے رہنمابنایاآپؐ نے انسانیت کو انسانیت کا مفہوم سمجھایا غلاموں، غریبوں،اور یتیموں پرشفقت اور رحم کا معاملہ کیا ۔آپ کا اسوۂ حسنہ رہتی دنیا تک نمونہ ہے جو بھی آپ کی پیروی کرے گا راستہ پاجائے گا۔