استاذ،المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
ہم اور آپ جس ملک میں رہتے اور بستے ہیں وہ ماقبل تاریخ دور سے ہی انسانی عدم مساوات کا شکار ہے، یہاں انسانوں کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا گیا اور ان میں اعلی اور گھٹیا کی درجہ بندی کی گئی، انسانوں کو مساوات کا درس دینے اور طبقاتی نظام کو ختم کرنے کے لیے کئی شخصیتیں اٹھیں ، جن میں گوتم بدھ کا نام سب سے نمایاں ہے، گوتم بدھ کے پیغام میں اتنی کشش تھی کہ بدھ ازم یہاں کی اکثریت کا مذہب ہوگیا، اور وہ وقت بھی آیا جب اشوک نے بدھ ازم قبول کیا اور بھارت کا سرکاری مذہب بدھ مت قرار پایا ۔ گوتم بدھ کے پیغام مساوات کو ایوان حکومت سے نافذکرنے والے راجاؤں میں اشوک کا کردار سب سے نمایاں اور تاریخی رہا ہے، اس اعتبار سے اشوک بھارت کا مقبول ترین راجہ سمجھا جاتا ہے، اس کی زندگی پر بھارتی اور یورپی مصنفین نے کئی عدد کتابیں لکھی ہیں اور اس کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ مسلمان جو اس ملک کے باشندے ہیں اور عدم مساوات کے شکار طبقات کے پڑوسی ہیں انھوں نے اپنی تاریخ کو اس حیثیت سے پیش کرنے کی طرف کما حقہ توجہ نہیں دی کہ ان کی تاریخ میں مساوات کی کیسی اعلی مثالیں اور کیسے نادر نمونے موجود ہیں ، گوتم بدھ کے متبعین میں اگر اشوک نے سماج کو مساوات کی بنیاد پر استوار کیا تو آخری نبیﷺ کے غلاموں میں ایسے عادل حکمرانوں کی ایک لمبی فہرست ہے جنھوں نے مساوات کی وہ مثالیں پیش کیں جن کا آج تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، ان حکمرانوں میں سب سے نمایاں نام حضرت عمر ؓ کا ہے، گو کہ حضرت ابوبکر ؓکو حضرت عمر ؓپر افضلیت حاصل ہے اور وہ اسلام کے پہلے خلیفہ ہیں، نیز ان کی خلافت بھی مساوات کے اصولوں پر قائم تھی؛ لیکن ایک تو ان کا دور خلافت بہت مختصر رہا، دوسرے ان کی خلافت کا پورا دورانیہ داخلی اور خارجی فتنوں سے نمٹنے میں صرف ہوگیا اس لیے ان کے دور خلافت میں مساوات کی اتنی مثالیں تاریخ کے صفحات میں رقم نہیں ہوپائیں جو کہ حضرت عمرؓ کے حصہ میں آئیں ، یہاں ان میں سے چند کا ذکر کیا جاتا ہے:
حضرت عمر ؓکے سفر بیت المقدس کا واقعہ مشہور ہے کہ حضرت عمرؓ اپنے غلام کے ساتھ بیت المقدس کے سفر پر روانہ ہوئے، سواری ایک تھی اور سوار دو، حضرت عمرؓ نے یہ طے کیا کہ کچھ دور میں سوار رہوں گا اور تم سواری کی نکیل پکڑ کر چلنا اور کچھ دور تک تم سوار رہنا اور میں سواری کی نکیل پکڑ کر چلوں گا، یہ دونوں سفر کرتے ہوئے شہر قدس پہنچے، جب بیت المقدس کے قریب پہنچے تو سوار ہونے کی باری غلام کی تھی اور نکیل پکڑنے کی باری حضرت عمر ؓکی، غلام نے چاہا کہ حضرت عمرؓ سوار ہو جائیں اور وہ سواری کی نکیل پکڑ کر پیدل چلے; لیکن حضرت عمرؓ تیار نہیں ہوئے ۔ اس سے بڑھ کر انسانی مساوات کی کیا مثال ہوسکتی ہے کہ وقت کی سپر پاور سلطنت کا وہ عظیم حکمراں جس نے روم وفارس کی ناقابل تسخیر بادشاہتوں کی بخیہ ادھیڑ کر رکھ دی ، اپنے اور اپنے غلام کے درمیان کسی طرح کے امتیازی سلوک کو روا نہیں سمجھتا ہے، وہ غلام کو بھی سوار ہونے کا اتنا ہی حق دیتا ہے جتنا کہ خود کو دیتا ہے، وہ اس رویہ کو انسانی مساوات کے خلاف سمجھتا ہے کہ وہ تو سواری پر آرام سے بیٹھا رہے اور اس کا غلام نکیل پکڑ کر پیدل چلتا رہے ۔
▪️مصر کے فاتح اور گورنر حضرت عمرو بن العاصؓ کے بیٹے کا واقعہ بھی بہت سبق آموز ہے، واقعہ یوں ہے کہ ایک مصری قبطی نے حضرت عمرو بن العاصؓ کے بیٹے سے گھوڑ سواری میں مسابقہ کیا اور سبقت لے گیا، حضرت عمرو بن العاص ؓکے لڑکے کو غصہ آیا اور اس نے اس قبطی کو کوڑے رسید کیے اور کہا کہ میں شریف زادہ ہوں (أنا ابن الأکرمین) ۔ وہ قبطی گو مدینے سے کافی دور تھا; لیکن اسے پتہ تھا کہ اسلام کے ذریعہ انسانی سماج میں ایک انقلاب آچکا ہے، اسلام کے زیر نگیں سماج میں اب نہ کوئی شریف زادہ ہے اور نہ کوئی ذلیل زادہ، اب سارے انسان برابر ہیں ، اسے علم تھا کہ اسلام سماجی انصاف اور انسانی مساوات کی تعلیم دیتا ہے، اس لیے وہ انصاف کے لیے مصر سے مدینہ روانہ ہوا، مدینہ پہنچ کر اس نے حضرت عمرؓ کے سامنے پورا واقعہ سنایا، حضرت عمرؓ نے حضرت عمرو بن العاصؓ کو خط لکھا کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ مدینہ حاضر ہوں ، جب وہ اپنے بیٹے کے ساتھ مدینہ آئے تو حضرت عمرؓ نے اس قبطی کو بلایا، اور کہا کہ یہ کوڑہ لو اور اسے مارو، چناں چہ وہ کوڑا لے کرمارنے لگا، وہ کوڑا مارتا جاتا اور حضرت عمرؓ اس سے کہتے جاتے کہ مارو شریف زادے کو۔ اسی موقع سے حضرت عمرؓ نے حضرت عمرو بن العاصؓ سے یہ تاریخ ساز جملہ کہا تھا:
’’مذ كم تعبدتم الناس وقد ولدتهم أمهاتهم أحرارا‘‘ (انظر: مناقب أمير المؤمنين عمر بن الخطاب لابن الجوزي: ص: 97)
’’ تم نے لوگوں کو کب سے غلام بنا لیا؟ ان کی ماؤں نے تو انھیں آزاد جنا ہے‘‘۔
آج دنیا مساوات اور آزادی کے نام پر جہاں تک پہنچی ہے وہ اس جملے کی تفسیر کے سوا کچھ نہیں ۔ انصاف اور مساوات کا یہ کیسا اعلی نمونہ ہے کہ عرب کے عظیم قبیلہ کے عظیم حاکم وفاتح کا بیٹا عجم کے ایک عام خاندان کے ایک گمنام فرد کے بیٹے کے ہاتھوں کوڑے کھارہا ہے،مملکت کے فاتح وحاکم کے بیٹے کو اس مملکت کے ایک عام شہری پر کسی طرح کی کوئی فضیلت وبرتری حاصل نہیں ہے، قانون کی نظر میں دونوں برابر درجہ کے انسان ہیں ۔
▪️غسان کا عیسائی بادشاہ جبلہ بن ایہم غسانی مسلمان ہوکر مکہ آیا، کعبہ کا طواف کر رہا تھا کہ اس کی چادر کا ایک گوشہ کسی طواف کرنے ولے شخص کے پاؤں کے نیچے آگیا، جبلہ نے غصہ میں اس کے منہ پر تھپڑ رسید کردیا، اس نے بھی پلٹ کر طمانچہ مارا، جبلہ غصے میں آگ بگولہ ہوکر حضرت عمر ؓ کے پاس آیا، اور آکر اس آدمی کی شکایت کی، حضرت عمرؓ نے اس سے فرمایا کہ تم کو تمہارے کیے کا بدلہ ملا ہے، اس کو بے حد تعجب ہوا، اس نے کہا کہ میں بادشاہ ہوں اور یہ ایک عام آدمی، حضرت عمر ؓنے فرمایا کہ اسلام میں سب برابر ہیں ، فضیلت کا معیار صرف اور صرف تقوی ہے، جبلہ پر وقار کا ایسا بخار سوار تھا کہ وہ دوبارہ عیسائی بن گیا(دیکھیے: البدایہ والنہایہ: سنہ 54 ہجری کے واقعات) ۔ اس واقعہ سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے نزدیک اسلام کے اصول مساوات کی کس درجہ اہمیت تھی، جبلہ نے عیسائیت دوبارہ قبول کرلی؛ مگر حضرت عمر ؓ نے اس کی خاطر اسلام کے اصول مساوات سے سمجھوتہ کرنا گوارا نہ کیا ۔
بصرہ کے گورنر حضرت ابو موسی اشعری ؓنے اپنے ایک فوجی کو کسی وجہ سے مال غنیمت کا پورا حصہ نہیں دیا، فوجی نے لینے سے انکار کردیا، بات جب زیادہ بڑھی تو حضرت ابو موسی اشعری ؓنے اسے بیس کوڑے لگوائے اور اس کے بال منڈوادیے، اس نے اپنے وہ بال جمع کیے اور انھیں لے کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا، حضرت جریر کہتے ہیں کہ میں اس وقت حضرت عمر ؓکے بالکل پاس ہی بیٹھا ہوا تھا، اس آدمی نے آنے کے ساتھ ہی اپنے کٹے ہوئے بال حضرت عمرؓ کے سینے پر دے پھینکے، حضرت عمرؓ نے پوچھا کہ آخر ماجرا کیا ہے؟ اس آدمی نے پورا واقعہ سنایا، حضرت عمرؓ نے حضرت ابو موسی اشعریؓ کو خط لکھا کہ فلاں بن فلاں نے مجھ سے یہ یہ شکایت کی ہے، میں تمھیں خدا کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ اگر تم نے اس کے ساتھ مجمع عام میں ایسا کیا ہے تو تم بھی مجمع عام میں بیٹھو اور اسے بدلہ لینے دو، اور اگر تم نے اکیلے میں اس کے ساتھ ایسا کیا ہے تو اکیلے میں اس کے سامنے بیٹھو اور اسے بدلہ لینے دو ۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ معاف کردو; مگر اس نے کہا کہ میں کسی کے کہنے پر اسے نہیں چھوڑوں گا، جب اس نے وہ خط حضرت ابو موسی اشعریؓ کے حوالہ کیا تو وہ قصاص کے لیے ایک جگہ بیٹھ گئے، اس آدمی نے سر آسمان کی طرف اٹھایا اور حضرت ابوموسی اشعریؓ سے کہا کہ میں نے تمھیں خدا کے لیے معاف کیا ۔ (البيهقي في السنن الكبرى برقم: 16027. 8/ 89. وابن أبي شيبة في مصنفه برقم: 34400 في الباب الثامن من كتاب البعوث والسرايا)
▪️شام کی اراضی کے مسئلہ پر جب صحابہؓ کے درمیان آپس میں کچھ اختلاف ہوا تو حضرت عمرؓ نے صحابہ کو جمع کیا، اور فرمایا کہ میں نے آپ لوگوں کو محض اس لیے زحمت دی ہے کہ میرے کاندھوں پر ذمہ داری اور امانت کا جو بوجھ ہے اسے اٹھانے میں آپ لوگ بھی میرا ساتھ دیں ، میں تو آپ لوگوں ہی کی طرح ایک آدمی ہوں ۔ پھر آگے فرمایا کہ میں نہیں چاہتا کہ میری جو رائے ہے تم اسی پر عمل کرو ۔ (الخراج لابی یوسف: 25) ۔ اس خطاب میں حضرت عمرؓ کا یہ جملہ : ’’فإني واحد كأحدكم ‘‘ ( میں تو آپ لوگوں ہی کی طرح ایک آدمی ہوں ) بہت اہمیت کا حامل ہیں ، حضرت عمرؓ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں تو تمہارا حاکم ہوں ، تم میرے محکوم ہو، میری حیثیت تم میں سب سے اونچی ہے، میرے کہے پر چلنا ہوگا; بجائے اس کے حضرت عمرؓ نے اپنے کو دیگر افراد کے مساوی قرار دیا اور کہاکہ میں تو تمہاری ہی طرح ایک فرد بشر ہوں ۔
▪️حضرت احنف بن قیس کہتے ہیں کہ میں حضرت عمر ؓبن خطاب کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں ایک آدمی آیا اور آکر کہنے لگا کہ امیر الموَمنین میرے ساتھ چلیے اور میری مدد کیجیے، فلاں نے مجھ پر ظلم کیا ہے، حضرت عمرؓ نے کوڑا اٹھا کر اس کے سر پر ایک لگایا اور کہا کہ جب میں تم لوگوں کے لیے اپنے کو فارغ کرتا ہوں تب نہیں آتے اور جب حکومت کے کاموں میں مشغول ہوتا ہوں تو آتے ہو کہ مدد کردیجیے ۔ حضرت عمر ؓ کوغصے میں دیکھ کر وہ آدمی لوٹ کر جانے لگا، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اس آدمی کو بلاوَ، وہ آدمی آیا تو حضرت عمرؓ نے اس کے سامنے کوڑا رکھ دیا اور کہا کہ بدلہ لے لو، اس نے کہا کہ نہیں ، میں اللہ کی وجہ سے اور آپ کی وجہ سے آپ کو چھوڑتا ہوں ، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ایسا مت کہو، اس نے کہا کہ میں صرف اللہ کے لیے آپ کو چھوڑتا ہوں ، یہ کہہ کر وہ آدمی چلا گیا، حضرت عمرؓ گھر میں داخل ہوئے، احنف کہتے ہیں کہ میں بھی ساتھ تھا، حضرت عمرؓ نے دو رکعت (نفل) نماز پڑھی اور پھر بیٹھ کر اپنے آپ کو مخاطب کرکے کہنے لگے:
’’يا ابن الخطاب كنت وضيعًا فرفعك الله وكنت ضالاً فهداك الله وكنت ذليلاً فأعزك الله ثم حملك على رقاب الناس فجاءك رجل يستعديك فضربته، ما تقول لربك غدًا إذا أتيته؟‘‘۔
اے خطاب کے بیٹے! تیری کوئی اوقات نہیں تھی، اللہ نے تجھے بلندیوں سے نوازا، تو گمراہ تھا، اللہ نے تجھے ہدایت سے سرفراز کیا، تو بے عزت تھا، اللہ نے تجھے عزت والا بنایا، پھر تجھے لوگوں کا ذمہ دار بنایا، اب تیرے پاس کوئی مدد کے لیے آتا ہے تو تو اسے مارتا ہے، کل خدا کے سامنے حاضر ہوگا تو اسے کیا جواب دے گا ؟
احنف کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کافی دیر تک اپنے آپ کو کوستے رہے، یہاں تک میں سمجھ گیا کہ روئے زمین پر اس وقت حضرت عمر ؓسے بہتر کوئی انسان نہیں ہے ۔ (اسد الغابہ: فی ذکر عمر بن الخطابؓ) ۔
حضرت عمرؓ نے ایک مرتبہ حج کے موقع سے مملکت کے گورنروں اور دیگر عہدیداروں کو جمع کیا، مجمع میں عہدیداروں کے ساتھ ہر علاقے کے لوگ بھی موجود تھے، حضرت عمرؓ نے مجمع سے خطاب کرکے فرمایا کہ اے لوگو ! میں نے اپنے ان عہدیداروں کو تمہارے پاس اس لیے نہیں بھیجا کہ یہ تمہاری چمڑی ادھیڑیں ، تمہارا خون بہائیں اور تمہارے مال پر ناحق قبضہ جمائیں ، لہذا تم میں سے جس کسی کو کسی عہدیدار سے کوئی شکایت ہو کھڑا ہو جائے، چناں چہ مجمع میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا کہ آپ کے فلاں عہدیدار نے مجھے سو کوڑے مارے تھے، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ تم بھی سو کوڑے مار کر بدلہ لے لو، اتنا کہنا تھا کہ حضرت عمرو بن عاصؓ اٹھ کر حضرت عمرؓ کے پاس آئے اور آکر کہنے لگے کہ آپ نے اگر عہدیداروں سے بدلہ لینے کی شروعات کردی تو ان کے لیے بڑے مسائل پیدا ہوں گے، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ کیا میں بدلہ نہ دلواؤں جب کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو اپنے سے بدلہ دلواتے ہوئے دیکھا ہے؟ جاوَ اور اسے بدلہ لینے دو، حضرت عمرو بن عاصؓ نے فرمایا کہ تب مجھے اسے راضی کرنے کی اجازت دیجیے، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ ٹھیک ہے جاوَ، ہر کوڑے کے بدلے دو دینار دے کر راضی کرلو ۔ (الخراج لأبي يوسف: 116)، آج حریت وجمہوریت کے علمبرداروں اور مساوات پر مبنی نظام حکومت قائم کرنے کے دعویداروں کے پاس کیا اتنی جرات ہے کہ وہ ایسی کوئی مثال بھی پیش کرسکیں کہ جہاں حکومت کے منتریوں اور لیڈروں کو عام جنتا کے سامنے پیش کرکے کہاجاتا ہو کہ اپنے نیتاؤں اور لیڈروں کا محاسبہ کرو اور ان کے کیے کا بدلہ لے لو؟ اس واقعہ سے ہمیں اسلامی طرز حکومت یعنی خلافت کا مزاج سمجھ میں آتا ہےکہ خلافت کا نظام عدل وانصاف اور احتساب ومساوات کی مضبوط وبے مثال بنیادوں پر قائم ہے۔
ایک مرتبہ حضرت عمرؓ کے گھر پر کچھ لوگ حاضر ہوئے، جن میں قریش کے سردار بھی تھے اور آزاد شدہ غلام بھی، سرداروں میں سہیل بن عمرو، ابو سفیان بن حرب اور حارث بن ہشام تھے اور آزاد شدہ غلاموں میں حضرت صہیب، حضرت بلال، اور حضرت عمار وغیرہ تھے، حضرت عمر ؓنے پہلے ان آزاد شدہ غلاموں کو اندر آنے کی اجازت دی، ابو سفیان نے جب یہ دیکھا تو کہا کہ میں نے آج جیسا دن کبھی نہیں دیکھا، غلاموں کو اندر آنے کی اجازت مل رہی ہے اور ہمارا کوئی خیال ہی نہیں ہے ۔ (اسد الغابۃ: فی ترجمۃ سہیل بن عمرو) حضرت عمر ؓکے اس واقعے میں یہ پیغام ہے کہ غلاموں اور سرداروں کی تقسیم زمانہ َ جاہلیت کی باتیں تھیں ، اب کسی سردار کو کسی غلام پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، فضیلت کا معیار انسان کا کردار اور تقوی ہے ۔
حضرت عمر ؓکے ایک عہدیدار کے پاس کچھ لوگ آئے، اس نے عربوں کو مال عطا کیا اور موالی (آزاد شدہ غلاموں ) کو نظر انداز کردیا، حضرت عمرؓ کو جب اس کی خبر ملی تو انھوں نے اس عہدیدار کو خط لکھ کر سرزنش کی کہ تم نے سب کے درمیان مساوات سے کام کیوں نہیں لیا؟ سب کو مساوی درجہ میں کیوں نہیں رکھا؟ حضرت عمرؓ نے لکھا کہ آدمی کے برا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو کم تر سمجھے ۔ (مجموعة الوثائق السياسية: 523)۔
▪️حضرت عمرو بن عاصؓ نے قبیلہَ تجیب کے ایک آدمی کو اے منافق کہہ کر پکارا، اس آدمی نے کہا کہ میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد سے کبھی نفاق کا عمل نہیں کیا ہے، لہذا میں جب تک حضرت عمر ؓکے پاس پہنچ کر اس کی شکایت نہ کردوں تب تک نہ سر پر پانی ڈالوں گا اور نہ بالوں میں تیل لگاؤں گا، چناں چہ وہ حضرت عمرؓ کے پاس پہنچا، اور کہا کہ اے امیر الموَمنین ! عمرو بن عاص نے مجھے منافق کہا ہے، خدا کی قسم میں نے اسلام قبول کرنے کے بعد کبھی نفاق کا عمل نہیں کیا، حضرت عمرؓ نے حضرت عمرو بن عاصؓ کو خط لکھا کہ فلاں تجیبی کا کہنا ہے کہ تم نے اسے منافق کہا ہے، میں نے اس سے کہا ہے کہ اگر وہ دو گواہ پیش کردے تو وہ تمھیں چالیس کوڑے لگائے، یا فرمایا ستر کوڑے لگائے۔ وہ تجیبی شخص حضرت عمرو بن عاصؓ کے پاس وہ خط لے کر حاضر ہوا اور اس نے گواہ بھی پیش کردیے، حضرت عمرو بن عاصؓ نے اسے کوڑا دیا اور خود اس کے سامنے بیٹھ گئے، اس آدمی نے پوچھا کہ کیا آپ اپنے اقتدار کے باوجود مجھ سے بچ سکتے ہیں؟ حضرت عمرو بن عاصؓ نے فرمایا کہ نہیں ، تجھے جو حکم ملا ہے کر گذر، اس آدمی نے کہا کہ میں اللہ کے لیے آپ کو معاف کرتا ہوں (مناقب أمير المؤمنين عمر بن الخطاب لابن الجوزي: 375. ورواه عمر بن شبة في تاريخ المدينة: 3/ 808)۔ یہ ہے عدل اور مساوات کہ مصر جیسے ملک کا عظیم فاتح اور گورنر اپنے تمام تر اقتدار کے باوجود مملکت کے ایک عام باشندے کے سامنے اپنے آپ کو بے بس پاتا ہے، آج دنیا مساوات کے بلند بانگ نعروں کے باوجود یہاں تک نہیں پہنچ پائی ۔
حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حج کے موقع سے حضرت عمر بن خطابؓ ہمارے پاس تشریف لائے، ضیافت کے لیے صفوان بن امیہ نے کھانا تیار کرایا، چار آدمی مل کر کھانے کا بڑا تھالا اٹھا کر لائے اوراسے لوگوں کے بیچ رکھ دیا، لوگوں نے کھانا شروع کیا، جب کہ خادمین کھڑے رہے، حضرت عمرؓ نے جب انھیں دیکھا تو میزبانوں سے پوچھا کہ تمہارے خادم تمہارے ساتھ کیوں نہیں کھاتے؟ کیا تم انھیں نظر انداز کرتے ہو؟ سفیان بن عبد اللہ نے کہا کہ ایسی بات نہیں ہے، ہم بس اپنے آپ کو ان پر ترجیح دیتے ہیں ، (یعنی ہم پہلے کھالیتے ہیں اور وہ بعد میں کھاتے ہیں )، حضرت عمرؓ اس پر بہت غصہ ہوئے، اور فرمایاکہ لوگوں کو کیا ہوگیا کہ وہ اپنے خادموں پر اپنے آپ کو ترجیح دیتے ہیں !!! پھر خادموں سے فرمایا کہ آوَ بیٹھو اور تم بھی ساتھ میں کھاوَ ۔ حضرت عمرؓ ناراضگی کی وجہ سے کھانا نہیں کھائے (مناقب أمير المؤمنين عمر بن الخطاب لابن الجوزي: 377)۔
▪️ایک مرتبہ ایک آدمی حضرت عمرؓ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آکر کہنے لگا کہ اے امیر المومنین ! میں نے شراب پی تو حضرت ابو موسی اشعریؓ نے مجھے مارا، میرے چہرے کو سیاہ کیا اور مجھے علاقے بھر میں گھمایا، اور لوگوں کو میرے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے منع کردیا، جس کی وجہ سے میں اتنا بد دل ہوگیا کہ کبھی سوچتا ہوں کہ تلوار اٹھا کر ابو موسی اشعری کا کام تمام کردوں ، اور کبھی سوچتا ہوں کہ آپ کے پاس آوَں تاکہ آپ مجھے کسی ایسے علاقے میں بھیج دیں جہاں مجھے کوئی نہ پہچانتا ہو، اور کبھی سوچتا ہوں کہ مشرکین کے علاقے میں بھاگ کر چلا جاؤں ۔ حضرت عمر ؓنے اس کی باتیں سننے کے بعد حضرت ابو موسی اشعریؓ کو خط لکھا کہ فلاں آدمی میرے پاس آیا ہے اور اس نے یہ شکایت کی ہے، لہذا تمہارے پاس جب میرا یہ خط پہنچے تو لوگوں کو حکم دو کہ وہ اس آدمی کے ساتھ اٹھیں بیٹھیں اور میل جول رکھیں ، اگر یہ توبہ کرلے تو اس کی گواہی بھی قابل قبول ہوگی۔ (مناقب أمير المؤمنين عمر بن الخطاب لابن الجوزي: 449)۔ اس واقعہ میں جہاں مساوات کا پیغام ہے وہیں یہ پیغام بھی ہے کہ کوئی آدمی فاسق وفاجر ہوجائے تو اس کی گواہی گرچہ قبول نہیں کی جائے گی مگر اس کے ساتھ میل جول رکھاجائے گا، کسی گناہ یا کسی غلط عمل کی وجہ سے سماج سے کسی کو کاٹ دینا اور لوگوں کو اس کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے منع کردینا روا نہیں ہے، اسلامی سماج میں اس طرح کے چھوت چھات کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔
حضرت عمرؓ کے دور میں ایک مرتبہ ایسا قحط پڑا کہ مہنگائی سے لوگ پریشان ہوگئے، حضرت عمر نے بھی گھی کھانا چھوڑدیا اور صرف تیل پر اکتفا کرنے لگے، جس کی وجہ سے پیٹ خراب ہوگیا اور پیٹ میں گڑگڑاہٹ ہونے لگی، حضرت عمرؓ پیٹ کو مخاطب کرکے کہتے :
’’قرقر ما شئت, فوالله, لا تأكل السمن حتى يأكله الناس‘‘ (مناقب عمر لابن الجوزي: 468. ورواه أحمد في الزهد: 636. ورواه البيهقي في السنن الكبرى: 9/ 73)
جتنا چاہو گڑ گڑ کرلو، گھی جب تک لوگوں کو میسر نہ ہوجائے تمھیں بھی نہیں ملے گا۔
حضرت عمر ؓکے دور خلافت کے یہ واقعات ہمیں بتاتے ہیں کہ اس دور میں گرچہ مساوات، آزادی اور عوامی جمہوریت کے بلند بانگ اور فلک شگاف نعرے نہیں تھے، مگراس کے باوجود اس دور میں سماجی انصاف اور انسانی مساوات کی جن بلند اقدار کا عملا وجود تھا آج کی ترقی یافتہ دنیا بھی ان بلند اقدارکو زمینی حقیقت میں تبدیل نہ کر سکی، اس میں آج کی ترقی دنیا کا قصور ہو یا نہ ہو؛ پر اس قوم کا قصور ضرور ہے جسے ایک عظیم مقصد کے لیے بھیجا گیا تھا، اور وہ عظیم مقصد حضرت ربعی بن عامرؓ کے الفاظ میں یہ تھا :
الله ابتعثنا لنخرج من شاء من عبادة العباد إلى عبادة الله، ومن ضيق الدنيا إلى سعتها، ومن جور الأديان إلى عدل الإسلام (البداية والنهاية: الجزء السابع: فصل وقعة القادسية: سنة أربع عشرة من الهجرة)
اللہ نے ہمیں بھیجا ہے، تاکہ ہم اللہ کی مشیت سے لوگوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر اللہ کی بندگی کی طرف لے کر آئیں، دنیا کی تنگیوں سے دنیا کی وسعتوں کی طرف اور مذاہب کے ظلم وستم سے اسلام کے عدل وانصاف کی طرف لے کر آئیں۔
اور جس قوم کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ بندوں کو بندوں کی بندگی سے نکال کر خدا کی بندگی کی طرف لائے اور انسانی مساوات کا نہ صرف پیغام سنائے بل کہ سماج میں اسے برت کر دکھائے آج وہ قوم شمعِ اغیار کا پروانہ اور دریوزہ گرِ آتش ِبیگانہ ہے:
آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں
رقص میں لیلی رہی، لیلی کے دیوانے رہے