Home تراجم زیتون اور کیکٹس کی کہانی- باسم یوسف

زیتون اور کیکٹس کی کہانی- باسم یوسف

by قندیل

ترجمہ:نایاب حسن

’’جہاں بھی آپ کیکٹس دیکھیں، سمجھ جائیں کہ اس جگہ ایک فلسطینی گاؤں تھا‘‘۔اگر آپ کبھی مغربی کنارے کا دورہ کرتے ہیں، تو لوگ بہ کثرت آپ کو یہ بتاتے ہیں۔ اسرائیل اس خطے کی زمین کو سپاٹ اور سخت بنانے کے لیے کئی دہائیوں سے فلسطینی دیہاتوں اور شہروں کو ختم کر رہا ہے، انھیں بلڈوز کر رہا ہے اور مٹا رہا ہے؛ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پھراس زمین پر کیکٹس اُگ جاتا اور بڑھتا رہتا ہے، وہ زمین اور مٹی کو تباہ کرنے اور اپنی بستیاں بسانے کی کتنی ہی کوششیں کرلیں، کیکٹس پیدا ہوتے ہی رہتے ہیں۔
میری ایک دوست ابھی وہاں سے میرے لیے ایک تحفہ لے کر آئی ہے’’مغربی کنارے کے اپنے گاؤں سے مقامی طریقے سے نچوڑا گیا زیتون کا تیل ‘‘۔ اس نے کہا کہ ’’جو تیل تم دکانوں سے خریدتے ہو اسے بھول جاؤ، ہم اپنے گاؤں میں خود زیتون کا تیل تیار کرتے ہیں‘‘۔
وہاں کے لوگ زیتون کو پتھر کی چکیوں پر مسلتے یا پیستے ہیں اور تیل نکالنے والی مشینوں پر زیتون کو مسلنے کے لیے صاف ستھرا سٹرا بیگ استعمال کرتے ہیں۔ زیتون کا تیل نکالنے کا یہ طریقہ سو، دو سو، چار سو ؛بلکہ شاید پچھلے چھ سو سالوں سے ان کے ہاں رائج ہے، یہ طریقہ زیتون کے درخت جتنا ہی قدیم ہے۔ وہ زمین سے زیتون کی پیداوار حاصل کرتے ہیں، اسے اچھی طرح مسلتے اور نچوڑتے ہیں اور اس کے نتیجے میں انھیں خالص سبز سونا حاصل ہوتا ہے۔ زندگی بھر کام آنے والی ایک شفا بخش دوا۔
فلسطین میں ہر چیز کا جواب ’’ذرا سا تیل استعمال کرلو‘‘ ہے۔ بھوک لگی ہے؟ زیتون کے تیل سے روٹی کھالو،بیمار ہو؟ زیتون کے تیل سے مالش کرلو، طبیعت بوجھل ہے اور بہتر محسوس کرنا چاہتے ہو ؟ تو روے زمین جتنی قدامت کا حامل یہ تیل تمھاری مدد کرسکتا ہے۔ زیتون کے یہ درخت ،صرف درخت نہیں ہیں، یہ فیملی ممبر ہیں،یہ آپ کو غذا فراہم کرنے، بیماری سے شفا بخشنے اور آپ کا خیال رکھنے کے لیے ہر لمحہ موجود ہیں۔ ایسے فیملی ممبر کو تباہ کرکے کوئی اس زمین پر قبضہ کیسے کر سکتا ہے؟ میں تو سوچ بھی نہیں سکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ درخت اس سے متفق نہیں ہیں اور کیکٹس تو یقینی طور پر اس سے متفق نہیں ہیں۔
شاید ہم نے یہ سب غلط سمجھا ہو، ہو سکتا ہے کہ محض زیتون کے درخت فلسطینی ورثے کی توسیع نہ ہوں، ہو سکتا ہے کہ فلسطینی خود اس روے زمین کی توسیع ہوں۔ وہ بھی تو درختوں کی ہی طرح ہیں، تم انھیں شکست دے سکتے ہو، ان پر دباؤ ڈال سکتے ہو، تم انھیں مسل سکتے ہو اور ان پر آخری حد تک ظلم و زیادتی کر سکتے ہو ؛ مگر اس سب کے باوجود وہ مرتے نہیں ہیں، جیسے زیتون کا پھل مسلے اور پیسے جانے کے بعد انسانوں کے لیے شفا بخش سبز سونا پیدا کرتا ہے، اسی طرح ان فلسطینیوں کی موت سے لاکھوں زندگیاں جنم لیں گی اور اُن کا درد انجام کار ہم سب کے لیے شفا بخش دوا ثابت ہوگا۔ اگر تم انھیں جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کروگے، تو بھی وہ ختم نہیں ہوں گے، تمھیں بھلے ہی ایسا لگے کہ وہ ختم ہوگئے؛ مگر فی الحقیقت ایسا نہیں ہے، وہ تو کیکٹس کی طرح واپس آجاتے ہیں، تمھاری نفی کرنے کے لیے، تمھارے خلاف مزاحمت کے لیے، تمھاری زیادتیوں کا مقابلہ کرنے اور تمھیں پیچھے ڈھکیلنے کے لیے۔ وہ وہاں ہمیشہ رہنے کے لیے ہیں، کبھی ختم نہیں ہونے والے !

(انچاس سالہ باسم یوسف تعلیمی اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر اور سرجن ہیں،تیرہ سال تک بہ طور سرجن برسر عمل رہے ہیں ،۲۰۱۱ میں انھوں نے کامیڈی شوز اور ٹی وی ہوسٹنگ شروع کی اور اس میں انھیں بڑی شہرت و مقبولیت حاصل ہوئی ہے، ان کے مزاحیہ شوز بہت پسند کیے گئے ہیں ،انھیں مصری جان اسٹورٹ (مشہور امریکی کامیڈین) بھی کہا جاتا ہے۔حال ہی میں غزہ پر انسانیت کش اسرائیلی بمباریوں کے پس منظر میں ان کا ایک انٹرویو معروف برطانوی صحافی پیئرس مورگن نے کیا ہے،جسے انھوں نے اپنے یوٹیوب چینل Piers Morgan Uncensored پر ۲؍نومبر کو نشر کیا اور تب سے اب تک دس ملین سے زیادہ لوگ اسے دیکھ چکے ہیں۔ اسے اتنا زیادہ دیکھے جانے کی وجہ یہ ہے کہ باسم یوسف نے حالیہ سانحے اور مجموعی طورپر مسئلۂ فلسطین سے متعلق مذکورہ صحافی کے سوالوں کے جواب نہایت معقول، بے لاگ اور دو ٹوک انداز میں دیے ہیں، ان کا طرزِ بیان بھی خوب ہے اور ذہنی استحضار بھی غضب کا ہے۔ زیر نظر تحریر انگریزی میں انھوں نے اپنے فیس بک پیج پر لکھی ہے )

You may also like