Home تراجم غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور جوبائیڈن کی رذیل و انسانیت کش سیاست -محمد المنشاوی

غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور جوبائیڈن کی رذیل و انسانیت کش سیاست -محمد المنشاوی

by قندیل

ترجمہ:نایاب حسن

غزہ پٹی پر اسرائیلی جارحیت کے پہلے دن سے ہی امریکی صدر جو بائیڈن نے اسرائیل کی عسکری، سیاسی، سفارتی اور اخلاقی حمایت کا واضح موقف اپنایا ہوا ہے، جب کہ وہ اب تک جنگ بندی کے مطالبے سے باز رہے ہیں ، جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ انسانی قدروں کے تحفظ کے برخلاف عسکری کارروائیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔امریکی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہورہا ہے کہ کسی صدر نے غیر ملکی عسکری تنازعے کے فریقین سے(جس میں ہزاروں شہری مر چکے ہیں ) اس سانحے پر ایک ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود جنگ بندی کی اپیل نہ کی ہو۔
اس کے برخلاف بائیڈن نے اسرائیل کی حمایت کے اپنے عہد کی توثیق کا کوئی موقع نہیں چھوڑا ہے اور اس کی ہر طرح مدد کی ہے؛تاکہ حماس کے حملے کا بدلہ لیا جائے۔ اس بحران پر اپنی تقریروں میں انھوں نے اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کو غزہ پٹی کے شہریوں پر وحشیانہ حملے جاری رکھنے کے لیے ہری جھنڈی دکھا ئی ہے، جس کے نتیجے میں اب تک تقریباً 10,000 افراد شہید اور کم از کم 30,000 زخمی ہوچکے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ نصف صدی سے زیادہ کی سرگرم سیاسی زندگی میں اسرائیل کی سلامتی اور امریکی-اسرائیلی شراکت داری کو تقویت پہنچانے میں بائیڈن کا طویل عملی ریکارڈ ہے، انہوں نے اپنی 2020 کی انتخابی مہم کے دوران کہا تھا کہ اسرائیل کے لیے ان کی حمایت ’’بہت شخصی نوعیت کی ہے،جس کا دائرہ ان کی تمام پیشہ ورانہ سیاسی زندگی کو محیط ہے‘‘۔یہی وجہ ہے کہ اسرائیل- فلسطین تنازع کے سلسلے میں امریکی ڈپلومیسی کے ذریعے طے کردہ اصولوں کی پیروی کرنے کے دعووں(جن میں دو ریاستی حل اور اسرائیل کے ذریعے یہودی بستیاں بسانے کی مخالفت بھی شامل ہے) کے باوجود بائیڈن نے سابق صدر ٹرمپ کے اس فیصلے کو برقرار رکھا کہ واشنگٹن کا سفارت خانہ القدس منتقل کیا جائے اور اسے اسرائیل کی راجدھانی مانا جائے۔
غزہ پٹی پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز کے ساتھ ہی بائیڈن نے واشنگٹن کے پاس موجود جدید ترین ہتھیاروں اور جنگی آلات کے ساتھ دائیں بازو کی اسرائیلی حکومت کی حمایت کرنے میں سابقہ تمام امریکی صدور کو پیچھے چھوڑ دیا۔ پچھلے ہفتوں کے دوران انھوں نے جنگ بندی یا تناؤ میں کمی کی ضرورت پر کوئی توجہ نہیں دی، اس کے برعکس مشرقی بحیرہ روم میں’’جیرالڈ فورڈ‘‘ اور ’’ڈوائٹ آئزن ہاور‘‘طیارہ بردار جہازوں کی تعیناتی کا حکم دیا،جس سے ان کا مقصد نہ صرف اسرائیل کی کھلی عسکری حمایت ہے؛ بلکہ اس کے مخالفین کو روکنا، اسرائیل پر حملہ کرنے کے بارے میں سوچنے والے کسی بھی فریق کو دھمکی دینا بھی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ نے بیس سے زیادہ بحری جہازتعینات کیے ہیں، مشرق وسطیٰ میں فضائیہ کے سکواڈرن کو مضبوط کیا گیا ہے اور اسرائیل کو ہتھیاروں اور گولہ بارود کی ہنگامی کھیپ پہنچائی جارہی ہے۔
اسرائیل کی سیاسی حمایت
سیاسی طور پر بائیڈن نے اس بات کا بارہا اعادہ کیا کہ ’’امریکہ اور اسرائیل ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں‘‘اور یہ کہ ’’واشنگٹن اس بات کو یقینی بنائے گا کہ اسرائیل کو اپنے اور اپنے لوگوں کے دفاع کا پورا حق ہے‘‘ اور یہ کہ ’’حماس کا خاتمہ نہ صرف اسرائیل کے لیے ضروری ہے؛بلکہ یہ ایک ایسی ضرورت ہے جس سے انحراف نہیں کیا سکتا‘‘۔بائیڈن نے اپنے دورۂ اسرائیل کے دوران اسرائیلی عسکری کونسل کے اجلاس میں بھی شرکت کی۔ اس طرح وہ حالت جنگ میں دو بیرونی ممالک کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر بن گئے، کہ اس سے قبل وہ گزشتہ سال یوکرین کا دورہ بھی کر چکے ہیں۔بائیڈن نے کہا کہ ’’وہ اسرائیلی حکومت کو متحد دیکھ کر خوش ہیں، جنگ کے آغاز کے بعد حزب اختلاف بھی اس میں شامل ہو رہا ہے‘‘اور انھوں نے اپنی بات دہرائی کہ ’’ آپ جان لیں کہ آپ اکیلے نہیں ہیں‘‘۔
سفارتی حمایت
سفارتی طور پر بائیڈن اور ان کی انتظامیہ کے ارکان نے اتحادی ممالک کے دارالحکومتوں کو پیغامات بھیجے کہ وہ حماس کی مذمت کریں اور اس پر یرغمالیوں کی رہائی کے لیے دباؤ ڈالیں،جبکہ غزہ پٹی میں محصور و مقہور بائیس لاکھ سے زائد آبادی کے بارے میں ان کی زبان سے ایک لفظ نہ نکلا ۔ ان کی انتظامیہ نے 18 اکتوبر کو برازیل کی زیرقیادت انسانی بنیاد پر شہریوں تک امداد پہنچانے کی قرارداد کے خلاف اپنے ویٹو کا سہارا لیا اور کھلی انسان دشمنی کا ثبوت دیا۔
اخلاقی حمایت
اخلاقی اعتبار سے دیکھیں تو بائیڈن نے ایک طرف اسرائیلی متاثرین اور حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے قیدیوں کے اہل خانہ کے تئیں بھرپور حمایت کا مظاہرہ کیا اور دوسری طرف اسرائیلی حکومت کو وہ سب کرنے کی کھلی چھوٹ بھی دی جو وہ کرنا چاہتا تھا ۔ امریکی صدر نے کئی بار جھوٹے اسرائیلی الزامات کو دہرایا، حتی کہ وائٹ ہاؤس کو مجبوراً صدر کی کذب گوئی افترا پردازی جیسے’’بچوں کا سر قلم کیے جانے ‘‘ سے متعلق جو بائیڈن کے بیان کو واپس لینا پڑا اور اس کی تصحیح کرنا پڑی۔

وجہ کیا ہے؟
بائیڈن نے جو کچھ کیا اور جو وہ کر رہے ہیں اسے سمجھنے کی کوئی واضح وجہ نظر نہیں آتی؛ لیکن اسے ہم 2024 کے انتخابات کے پس منظر سے الگ کرکے نہیں دیکھ سکتے ؛ کیونکہ ان کے حریف، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ رائے عامہ کے جائزوں میں آگے ہیں اور ممکن ہے کہ بائیڈن اقتصادی کارکردگی میں ناکامی اوراہم داخلی مسائل جیسے کہ امیگریشن اور میکسیکو کے ساتھ جنوبی سرحد کو محفوظ بنانے جیسے ایشوز کو حل نہ کرپانے کی صورت میں اپنی اس انتہا پسندانہ و کھلی اسرائیل نوازی پر مبنی سیاست خارجہ کو امریکی رائے عامہ کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں ۔
شاید بائیڈن پروٹسٹنٹ عیسائیوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی طرف مائل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں، خاص طور پر ان میں جو صیہونی- عیسائی رجحان کے حامل ہیں اور روایتی طور پر ریپبلکن امیدوار کو ان کے 90 فیصد سے زیادہ ووٹ پڑتے رہے ہیں،ممکن ہے بائیڈن اسرائیلی جرائم کی صریح حمایت کرکے ان کے ووٹ بینک پر ہاتھ صاف کرنے کا ارادہ رکھتے ہوں۔لیکن اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ بائیڈن جو سوچ رہے ہیں،ان کو وہ ووٹ حاصل ہوجائیں گے،پھر بھی انھیں بہت بڑی تعداد میں ترقی پسند امریکی نوجوانوں کے ووٹ سے محروم ہونا پڑے گا، جو غزہ کے بے گناہ شہریوں کے قتل سے سخت ناراض ہیں اور بائیڈن کو ہر گز ووٹ نہیں کرنے والے ہیں، اس کے علاوہ انھیں عرب مہاجرین اور امریکی مسلم رائے دہندگان کے ووٹوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑے گا، جنھوں نے 2020 میں بائیڈن کی کھلی حمایت کی تھی اوراب غزہ میں اسرائیلی قتل عام پر ان کے موقف کے بعد 2024 کے انتخابات میں وہ انھیں ووٹ نہیں دیں گے۔
چوں کہ اسرائیل کو بائیڈن کی مکمل حمایت حاصل ہے؛اس لیے غزہ میں اسرائیلی فوج جو کچھ کر رہی ہے، واشنگٹن اور بائیڈن اس کے برابر کے حصے دار ہیں؛ بلکہ اس بار تو معاملہ بہت آگے بڑھ چکا ہے، اسرائیل کو امریکی حمایت تو پرانی روایت ہے اور اول دن سے اسے امریکی سپورٹ حاصل ہے، مگر جو بائیڈن تو کھلے عام اسرائیلی وکیل بن کر سامنے آئے ہیں اور دس ہزار بے قصوروں کے قتل کے باوجود اب تک ان کی زبان سے ایک لفظ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری کے خلاف نہیں نکلا ہے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کی حالیہ درندگی پچھلی تمام درندگیوں سے بڑھی ہوئی ہے اور اس میں شہید ہونے والے بے قصوروں کی تعداد بھی پچھلی تمام جنگوں سے زیادہ ہے۔ آیندہ جب بھی اس وحشت ناک سانحے کا ذکر ہوگا، تو ساتھ میں یہ بھی کہا اور لکھا جائے گا کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے غزہ اور فلسطین کے بے قصور شہریوں کے قتل عام کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا؛بلکہ وہ اسرائیل کے جنگی جرائم اور فلسطینیوں کی نسلی تطہیر میں برابر کا شریک تھا اور اس طرح یہ کہنے میں بھی کوئی حرج نہیں کہ غزہ پٹی پر اسرائیلی قتل و خوں ریزی کا گناہ گار دراصل جو بائڈن ہے ۔

(مضمون نگار واشنگٹن میں مقیم صحافی و سیاسی تجزیہ کار اور امریکی امور کے ماہر ہیں،اصل عربی مضمون ’الجزیرہ‘ کے ۲؍نومبر کے شمارے میں شائع ہوا ہے)

You may also like