ترجمہ:نایاب حسن
غزہ اپنے اقربا سے دور اور اپنے دشمنوں کے قریب ہے، غزہ ایک جزیرہ ہے، وہ جب بھی پھٹتا ہے، دشمن کا منھ زخمی کر دیتا، اس کے خواب ریزہ ریزہ کردیتا اور اس کی وقتی خوشیاں چھین لیتا ہے؛ کیونکہ غزہ میں وقت اور زمانہ کچھ اور ہے…کیونکہ غزہ میں وقت ایک غیر جانبدار عنصر نہیں ہے،وقت وہاں کے لوگوں کو ٹھہر کر سوچنے کا موقع نہیں دیتا؛انھیں حادثات میں ڈھکیل دیتا ہے اور تلخ سچائیوں سے انھیں متصادم کرواتا ہے۔ وہاں وقت بچوں کو بہ تدریج بچپن سے بڑھاپے تک نہیں لے جاتا؛ بلکہ دشمن سے پہلی جھڑپ کے ساتھ ہی انھیں مرد بنا دیتا ہے،غزہ میں وقت آرام و استراحت سے عبارت نہیں؛ بلکہ جلتی ہوئی دوپہر کا ہنگام ہے؛کیونکہ غزہ کی قدریں مختلف ہیں،بہت مختلف ہیں، ایک مقبوض و مغصوب شخص کی واحد قدر یہ ہے کہ وہ قابض و غاصب قوت کے خلاف مزاحمت کرے ، وہاں مقابلہ و مزاحمت ہی واحد راہ ہے۔
غزہ اس عظیم ،ساتھ ہی دردناک قدر کا عادی ہو گیا ہے، اس نے اسے کتابوں، درس گاہوں، بلند آواز پروپیگنڈوں یا نعروں سے نہیں سیکھا،اس نے اسے خالص عملی تجربے کے ذریعے سیکھا ہے ،جو تصویروں اور اعلانات میں ہمیں نظر بھی آتا ہے۔
غزہ اپنے ہتھیاروں، اپنے انقلاب یا اپنے مادی اثاثے پر شیخی نہیں بگھارتا، وہ دشمنوں کو اپنا کڑوا گوشت پیش کرتا ہے، اپنی مرضی سے یہ کام کرتا ہے اور اپنا خون بہنے پر واویلا نہیں مچاتا ۔ غزہ شیوا بیانی و چرب زبانی میں ماہر نہیں ہے، اس کے گلے سے آواز نہیں نکلتی،ہاں،اس کی رگوں سے پسینے، خون اور شعلے ضرور نکلتے ہیں۔
اسی وجہ سے دشمن اس سے نفرت کرتاہے اور اسے قتل کرنے کے درپے رہتا ہے،وہ اس سے ڈرتا بھی ہے اور اس کے خلاف جرائم کا بھی ارتکاب کرتا ہے، وہ اسے مارے غصے کے سمندر میں، صحرا میں یا خون کی ندی میں غرق کردینا چاہتا ہے؛ اس لیے اس کے اہل قرابت دار اور دوست شرم کے مارے کچھ محبت کا اظہار کرتے ہیں، جو بعض اوقات غیرت و خوف کی حد تک پہنچ جاتی ہے، غزہ اپنے دشمن اور دوست دونوں کے لیے ایک سفاک سبق اور روشن مثال ہے۔
غزہ دنیا کا سب سے خوبصورت شہر نہیں ہے، نہ اس کا ساحل عربی شہروں کے ساحلوں سے زیادہ نیلگوں ہے، اس کے سنترے بحیرۂ روم کے طاس میں اگنے والے سب سے خوبصورت سنترے نہیں ہیں، نہ غزہ کوئی امیر ترین شہر ہے، وہ سب سے ترقی یافتہ شہر بھی نہیں ہے اور نہ سب سے بڑا شہر ہے؛ لیکن اس سب کے باوجود وہ پورے ایک ملک کے برابر ہے؛ کیونکہ وہ دشمنوں کی نظر میں سب سے برا ، سب سے مفلوک الحال، سب سے زیادہ دکھی ،مگر سب سے زیادہ ظالم ہے؛ کیونکہ وہ دشمن کے مزاج اور سکون کو غارت کرنے کی سب سے زیادہ صلاحیت رکھتا ہے؛ کیونکہ غزہ اس کے لیے ڈراؤنے خواب جیسا ہے؛ کیونکہ اس کے سنترے بارود کے گولے ہیں،وہاں کے بچوں میں بچپن کی نرمی نہیں ہے، بوڑھوں میں ضعف نہیں ہے، عورتوں میں آسایش کی رغبت نہیں ہے۔
وہ ایسا ہی ہے،مگر ہم سب سے خوبصورت ہے،ظاہر و باطن کے اعتبار سے خالص ہے، مادی اعتبار سے بھلے ہی تہی دست ہو، مگر روحانی و اخلاقی اعتبار سے سب سے زیادہ ثروت مند ہے اور محبت کا سب سے زیادہ مستحق ہے۔
جب ہم اس کے حوالے سے شاعری تلاش کرتے ہیں تو ہم اس کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں،ہمیں غزہ کی خوبصورتی کو مسخ نہیں کرنا چاہیے،اس کی سب سے خوبصورت بات یہ ہے کہ وہ شاعری سے محفوظ ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہم نے اشعار کے ذریعے دشمن کو شکست دینے کی کوشش کی، ہمیں اپنے آپ پر بڑا زعم تھا، ہم اسی سے خوش ہوتے رہے کہ دشمن ہمیں شاعری کرنے دے رہا ہے اور اس کے بدلے ہم نے اسے اپنے اوپر فتحیاب ہونے دیا، پھر جب ہم شعر گوئی اور نظم خوانی سے فارغ ہوئے، تو دیکھا کہ دشمن نے تو ہماری سرزمین پر اپنے شہر، اپنے قلعے اور اپنی گلیاں بسالی ہیں۔
ہم غزہ کے ساتھ ناانصافی کریں گے اگر ہم اسے ایک اسطوری کیرکٹر میں بدل دیں؛ کیونکہ جب ہمیں معلوم ہوگا کہ وہ تو ایک چھوٹا سا بے سروسامان شہر ہے ،جو اپنی بقا کے لیے مزاحمت کر رہا ہے،تو ہوسکتا ہے ہم اسے ناپسند کرنے لگیں۔
اگر ہم ایک دوسرے سے پوچھیں کہ: آخر اسے کس چیز نے افسانوی شناخت دے دی ہے؟ تو حقیقت کا علم ہونے کے بعد ہم اپنے سارے آئینے توڑ دیں گے اوراگر ہمارے اندر ذرا بھی عزت نفس ہے تو روئیں گے یا اگر ہم اپنے خلاف بغاوت کرنے کی ہمت نہ پائیں ، تو ہم اس پر لعنت بھیجیں گے۔
ہم غزہ کے ساتھ ناانصافی کریں گے اگر ہم اس کی تقدیس و تمجید کرنے لگیں؛ کیونکہ اس طرح اس کے تئیں ہمارا شوق و رغبت ہمیں انتظار کی منزل تک لے جائے گا اور غزہ ہمارے پاس نہیں آنے والا ہے، غزہ ہمیں آزاد نہیں کروائے گا، غزہ کے پاس گھوڑے، ہوائی جہاز، جادو کی چھڑی اور دنیا کے مختلف دارالحکومتوں میں دفاترنہیں ہیں۔غزہ خود کو بہ یک وقت ہماری خصلتوں ،ہماری چرب زبانیوں اور اپنے حملہ آوروں سے آزاد کروانے کے لیے کوشاں ہے ، اگر کبھی ہم اس سے خواب میں ملیں تو شاید پہچان بھی نہ پائیں ؛ کیوں کہ غزہ تو آگ کی پیداوار ہے اور ہم انتظار اور تباہ شدہ گھروں پر آہ و بکا کی پیداوار ہیں۔
یہ درست ہے کہ غزہ کے خاص حالات اور خاص انقلابی روایات ہیں؛ لیکن اس کا راز کوئی ایسا ڈھکاچھپا بھی نہیں ہے، اس کی مزاحمت عیاں ہے، منظم ہے اور اسے معلوم ہے کہ وہ کیا چاہتا ہے (وہ دشمن کو اپنے ہاں سے نکال باہر کرنا چاہتا ہے)۔
غزہ میں مزاحمت اور عوام کے درمیان ایسا تعلق ہے جیسا کہ جلد اور ہڈی کے درمیان ہوتا ہے، یہ استاد اور طالب علم والا تعلق نہیں ہے۔
غزہ میں مزاحمت نہ روزمرہ کی نوکری ہے اور نہ کوئی ادارہ جاتی مشغلہ ، نہ وہ کسی کی وصیت پر عمل پیرا ہے اور نہ کسی کے دستخط یا انگوٹھے کے نشان سے اس نے اپنی قسمت وابستہ کی ہے۔ اسے اس سے کچھ خاص فرق نہیں پڑتا کہ ہم اس کے نام، اس کی تصویر یا وہاں کے لوگوں کے حسنِ بیان سے واقف ہیں،وہ اپنے کو میڈیا مٹیریل بھی باور نہیں کرتا، اس نے کیمرے کے سامنے آنے کی کوئی تیاری نہیں کی، نہ اس نے اپنے چہرے پر مسکراہٹ کا غازہ لگایا ہے۔
نہ وہ ایسا چاہتا ہے اور نہ ہی ہم چاہتے ہیں۔
اسی وجہ سے غزہ دلالوں کے لیے خسارے کا سودا ہے اور اسی وجہ سے یہ شہر تمام عربوں کے لیے ایک انمول خزانہ ہے۔
غزہ کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ ہماری آوازیں اس تک نہیں پہنچتیں، کوئی بھی شور و شغب اسے اپنے مقصد سے غافل نہیں کرتا، دشمن کا منھ اس کی گرفت میں ہے اور کوئی چیز اس گرفت کو ڈھیلی نہیں کرسکتی، اس قسم کے دعوے بھی نہیں کہ ہم چاند کے قطبِ مشرق میں فلسطینی حکومت قائم کریں گے یا مریخ کے مغربی کنارے پر اپنا ملک بنالیں گے۔ وہ قبضہ و تسلط کے رفض و استرداد کی خو پر قائم ہے، بھوکا ہے،مگر اسرائیل کو قبول نہیں کرتا، پیاسا ہےمگر اسے مسترد کرتا ہے، نقل مکانی پر مجبور ہے،مگر اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتا، اذیتیں ہیں، صہیونی محاصرہ ہے اور موت ہی موت ہے، مگر وہ اسرائیل کو ماننے پر آمادہ نہیں ۔
دشمن غزہ پر فتح حاصل کر سکتا ہے(اور کبھی کبھی بپھرا ہوا سمندر کسی جزیرے پر فتح حاصل کرہی لیتا ہے،کبھی کبھی وہ اس کے تمام درختوں کو بہا لے جاتا ہے)،وہ اس کی ہڈیاں توڑ سکتا ہے، اس کے بچوں اور عورتوں کے اوپر سے ٹینک دوڑا سکتا ہے ، انھیں سمندر، ریت یا خون کی ندی میں پھینک سکتا ہے؛ لیکن غزہ دنیا میں پھیلائے گئے جھوٹ کو دہرا نہیں سکتا اور نہ حملہ آوروں کے آگے سر تسلیم خم کر سکتا ہے۔
وہ دھماکے کرتا رہے گا۔
یہ نہ موت ہے، نہ خودکشی؛ بلکہ یہ غزہ کا، اپنے زندہ ہونے کا اعلان ہے!