پروفیسر، شعبہ ٔ تاریخ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ
ترجمہ:اسعد فیصل فاروقی
1960 کی دہائی:
مسلمانوں کا کانگریس کو چھوڑنے کا پہلا اظہار 1962 کے اسمبلی انتخابات میں ہوا۔ اس واقعہ سے قبل اکتوبر 1961 میں علی گڑھ میں فرقہ وارانہ فساد رونماہوا تھا۔ اس فساد کی آگ سے جلد ہی میرٹھ کا ایک بڑا حصہ بھی بھڑک اٹھا۔(۱۲) اس فرقہ وارانہ واقعہ کی ابتد ا علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے دو طلباء، جن میں ایک ہندو اور مسلمان تھا، کے درمیان معمولی لڑائی سے ہوئی تھی۔ 1961 کے اوائل میں ہی جبل پور (مدھیہ پردیش) میں بھی ایک فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا تھا۔
تعجب کی بات ہے، 1947 تک علی گڑھ ہندو مسلم کشمکش اور تشدد کے لئے مشہور نہیں تھا۔ حکمراں جماعت کانگریس کے خلاف مسلم دلت اتحاد کا تجربہ 1962 کے انتخابات کے بعد برقرار نہیں رہ پایا۔ بدھا پریا موریا (1928-2004) علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) میں قانون کی درس وتدریس میں مشغول تھے، جنہوں نے اس اتحاد میں دلتوں کی نمائندگی ریپبلکن پارٹی آف انڈیا (آر پی آئی) کے ذریعے کی۔ یہ دراصل مسلم اشراف اور دلتوں کے درمیان حکمراں کانگریس کے خلاف اپنی شکایات درج کرنے کے لیے اتحاد تھا۔ خاص طور پر فساد کو روکنے اور اس پر قابو پانے میں یوپی حکومت کی عدم فعالیت کے خلاف یہ ایک احتجاج تھا۔( اس دلت مسلم اتحاد کے بیانات آئندہ دہائیوں میں بھی گونجتے رہیں گے۔)
عبدالبصیر خان (اس وقت کے پراکٹر، اے ایم یو)، رویند خواجہ (اے ایم یو میں میڈیسن کے استاد) نے اس مختصر مدت کے انتخابی اتحاد میں کانگریس مخالف مسلمانوں کی نمائندگی کی۔ اس اتحاد نے علی گڑھ ضلع کی اسمبلی سیٹوں پر کانگریس کی بالادستی کو مؤثر طریقے سے چیلنج کیا۔ کانگریس اب مسلم ووٹوں کو معمولی نہیں سمجھ سکتی۔ اس واقعہ نے سیاسی قوتوں کی’’تکثیریت‘‘ کوظاہر کیا، جیسا کہ لارنس گوٹیر (2019) نے ’’ہارٹ لینڈ‘‘میں کہا ہے۔ اس کے بعد، خاص طور پر 1965-1981 کے دوران، اردو اور پرسنل لاء کے علاوہ اے ایم یو کی اقلیتی کردار کی لڑائی مسلمانوں کا سب سے بڑا مسئلہ بن گئی۔
اے ایم یو دونوں کے مرکز میں تھی: فرقہ وارانہ تنازعہ اور اس کے نتیجے میں مسلم سیاست کی جڑوں کو ایک بار پھر سے، نوآبادیاتی دور کی اختتامی دہائیوں کے بعد، بنیادی طور پر مغربی اتر پردیش کے مسلم اشرافیہ کی جانب سے نئے سرے سے متعین کیا گیا۔ دوم، اس کو آل انڈیا پیٹرن کی عکاسی کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے ۔جس کے تحت ملک بھر کے تمام پسماندہ طبقات کی جانب سے’’نہروین اتفاق رائے‘‘کو بڑے پیمانے پرچیلنج کیا جا رہا تھا۔ چودھری چرن سنگھ (1902-1987) کانگریس کو چھوڑنے والے تھے (اپریل 1967 میں، انہوں نے کانگریس چھوڑ دی، اور وہ یوپی کے پہلے غیر کانگریسی وزیر اعلیٰ بنے)؛ سوشلسٹ اور بائیں بازو کی قوتیں مؤثر اپوزیشن کے طور پر ابھر رہی تھیں۔ ملک بھر میں طلباء کانگریس حکومت کے خلاف نعرے لگا رہے اور احتجاج کررہے تھے۔ کیرالہ سے لے کر بہار اور بنگال تک، کسانوں، مزدوروں، طلباء اور نوجوانوں کے اندربہت سے انقلابات پیش پیش تھے۔ اس طرح مسلمانوں کا انتخابی رویہ’الگ تھلگ یا علیحدگی پسندانہ‘نہیں تھا۔ یہ سیاسی احتجاجی رویہ بنیادی طور پر حکمراں کانگریس کے خلاف بتدریج اٹھنے والے قومی جذبات سے مطابقت رکھتا تھا۔
اگلے برس 1963 میں لوک سبھا سیٹوں کے ضمنی انتخابات میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ تین کانگریس مخالف سوشلسٹ لیڈر لوک سبھا کے لئے منتخب ہوئے، یعنی امروہہ سے جے بی کرپلانی (1888-1982)، فرخ آباد سے آر ایم لوہیا (1910-1967) اور راجکوٹ سے منو مسانی (1905-1998)۔ تینوں کی جیت KLM کی فتح کے طور پر مقبول ہوئی(۱۳)، کرپلانی کو کانگریس کے نامزد امیدوار حافظ محمد ابراہیم (1889-1968) سے مقابلہ کرنا پڑا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو پریس نے کرپلانی کو ترجیح دی اور ان کی طرف زیادہ جھکاؤ ظاہر کیا۔ اس طرح علی گڑھ کے مسلمانوں کے کانگریس مخالف جذبات اب امروہہ اور فرخ آباد تک بھی پہنچ چکے تھے۔ اکتوبر 1961 اور مارچ 1964 کے فرقہ وارانہ فسادکے تناظر میں، فرقہ وارانہ تشدد کے متاثرین کے لیے انصاف کے حصول کے لیے عدلیہ سے رجوع کرنے کے بجائے، مسلم اشرافیہ نے 8-9 اگست 1964، لکھنؤ سے ایک سیاسی پریشر گروپ، مسلم مجلس مشاورت کی تشکیل کو ترجیح دی ، جس کے تحت ایک ہی پلیٹ فارم پر مختلف غیر مطابقت پذیر مسلم تنظیموں اور انجمنوں کو جمع کیا گیا۔ یہ واقعہ 1967 کے انتخابات سے قبل کا ہے۔ اس وقت تک یوپی کانگریس کے قدآور مسلم رہنماؤں رفیع احمد قدوائی (1894-1956) اور مولانا حفیظ الرحمن سیوہاروی (1901-1962) کا انتقال ہو چکا تھا۔ مشاورت نے 22 جولائی 1966 کے اپنے 9 نکاتی ’’عوامی منشور‘‘ میں آئین اور قومی یکجہتی کے تئیںمسلمانوں کے عزم کا اعادہ کیا۔ دسمبر 1966 میں مشاورات کے ممبران نے الیکشن نہ لڑنے کا فیصلہ کیا اور کسی مخصوص سیاسی جماعت کی مکمل حمایت یا مخالفت نہیں کی ۔ بلکہ مسلم کاز اور مسائل سے ہمدردی رکھنے والی ہر پارٹی کے امیدواروں کے لئے مشاورت کی طرف سے حمایت کا اعلان کیا گیا۔
اگرچہ، مشاورت نے1967 کے انتخابات میں شاید ہی سیاسی طور پر کچھ حاصل کیا۔ بلرام پور سے، بھارتیہ جن سنگھ (بی آئی ایس) کے امیدوار، اٹل بہاری واجپائی مشاورات کی حمایت یافتہ کانگریس امیدوار سبھدرا جوشی (1919-2003) ، جو وہاں سے دوبارہ الیکشن لڑ رہی تھیں،کو شکست دے کر جیتنے میں کامیاب ہوئے۔ محترمہ جوشی نے ایک مشترکہ فرقہ وارانہ مخالف سیاسی پلیٹ فارم کے طور پر ’سمپرائدئیکتا ورودھی کمیٹی‘ قائم کی تھی اور 1968 میں اس مقصد کی حمایت میں ایک جریدہ’ سیکولر ڈیموکریسی‘ کو بھی جاری کیا تھا۔ 1971 میں، ملک میں سیکولرازم اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو آگے بڑھانے کے لیے’قومی ایکتا ٹرسٹ‘کا قیام عمل میں بھی آیا۔ ان اسناد کے باوجود، ایک آزاد مسلم امیدوار نے مسز جوشی کی شکست کو یقینی بنانے کے لیے 30 ہزار ووٹ حاصل کر لئے۔ یہ طرز عمل بذات خود مسلمانوں کی انتخابی سیاسی حکمت علمی اور مشاورت قسم کے پریشر گروپ کے مسلم معاشرے پر بہت کم اثر و رسوخ کے بارے میں وضاحت کرتاہے۔
درحقیقت، کانگریس مخالف پارٹیوں نے مشاورات کی کانگریس مخالفت پالیسی سے انتخابی فائدہ اٹھایا تھا۔ اگرچہ،یہاں خاص طور پر کانگریس مخالف پارٹیوں کی جانب سے مسلم نمائندگی کو بڑھایا جا سکتا تھا۔ تاہم مشاورات نے ’’مسلم ووٹروں کی سیاست کرنے، ان کو کچھ بنیادی سیاسی مسائل سے آگاہ کرنے، اور حکمران کانگریس کے لیے ان کی حمایت کو روکنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اس طرح، مسلمان دوسرے سیاسی رہنماؤں اور جماعتوں کے ساتھ رابطے میں آئے۔ اور ان کی کامیابی کے لیے فعال طور پر کام کیا۔‘‘(۱۴)
ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی (1913-1974):
مشاورت کی اترپردیش یونٹ میں لکھنؤکے ڈاکٹر عبدالجلیل فریدی سب سے موثرکانگریس مخالف آواز تھے۔(۱۵) انہوں نے مشاورت کے پلیٹ فارم سے 1967 کے عام انتخابات میں مسلمانوں سے متعلق مسائل کو بیان کیا اور ان پر زور دیا۔ فریدی نے اپنے سیاسی کیریئر کا آغاز 1952 میں جے بی کرپلانی کے ساتھ کیا۔ساتھ ہی بائیں بازو کی ثقافتی سیاست میں بھی وہ شامل رہے تھے، جہاں ان کی خاص دلچسپی اور توجہ مدرسوں میں اردو کے احیاء اور فروغ کے حوالے سے تھی، جہاں یہ درس و تدریس کی زبان تھی، اور ہے، : انہوں نے کبھی بھی ان بچوں کی ضرورت اور حق کے بارے میں سوال نہیں اٹھائے، جن کی مادری زبان اردو ہے، اور ان کو اس زبان میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی ’’خالی جذباتیت‘‘ کی سیاست ،اردو کے نام پر نعرہ بازی کے سوا کچھ نہیں تھی جو کہ صرف حکومت کے معاملات میں حکام کی جانب سے اردو کو زبان کے طور پر استعمال نہ کئے جانے کے مسئلے کو اٹھاتی تھی۔ انہوں نے اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دینے کا مطالبہ تو ضرور کیا لیکن ابتدائی اور ثانوی تعلیم میں اردو زبان اور ادب کی تدریس کو شامل کرنے پر زور نہیں دیا۔ اس سلسلہ میںاطہر فاروقی (2010) رقمطراز ہیں، ’’ا ن کے سیاسی کیرئیر کا نزدیک سے جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے، اردو کے احیاء اور فروغ کے حوالے سے ڈاکٹر فریدی کی دلچسپی مدارس میں تھی، جہاں یہ تدریس کی زبان تھی، اور ہے‘‘۔ اس لیے ڈاکٹر فریدی کی’دینی تعلیمی کونسل‘میں وابستگی بہت قریب تھی، جس نے مشرقی اتر پردیش کے اضلاع میں دینی تعلیمی اداروں اور ریاست بھر میں بڑی تعداد میں مدارس کا نیٹ ورک قائم کیا۔
ٍٍ 1961-1962 کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے اساتذہ کی طرح ، اسلام میں دئے گئے مساوات کے پیغام کے برعکس مسلمانوں میں رائج ذات پات کے ڈھانچے پر بات کیے بغیر ڈاکٹر فریدی نے بھی دلت۔مسلم انتخابی اتحاد کی بات کی اور اس کے فروغ کے لئے کوششیں کیں۔ وہ پرجا سوشلسٹ پارٹی (PSP) کے ذریعے یوپی قانون ساز کونسل میں داخل ہوئے۔ ڈاکٹر فریدی نے جلد ہی پریشر گروپ، مشاورات سے علیحدہ ہو کر 1968 میں ایک علیحدہ سیاسی مسلم پارٹی ’’مسلم مجلس‘‘ کی تشکیل کی۔ 1969 میں ا س پارٹی نے الہ آباد سے اپنے واحد ایم ایل اے حبیب احمد کو منتخب کیا۔ حبیب احمد کومبینہ طور پر الہ آباد کے 1970 کے فرقہ وارانہ فساد ( ایک ماہ تک چلنے والے چاقو کے حملوں) کے پیچھے سمجھا جاتا ہے۔ اطہر فاروقی (2010) کی مندرجہ ذیل تشخیص، اس بات کو عیاں کرتی ہے کہ کس طرح سے ڈاکٹر فریدی کی سیاست بالآخر 1971 تک اندرا گاندھی کے حق میں پہنچی، جس نے ’مسلمانوں کے سامنے انہیں شرمندہ کیا‘:
ڈاکٹر فریدی کی طرف سے نومبر 1969 میں قومی یکجہتی کونسل کے اجلاس میں کی گئی تقریر۔۔۔اس قسم کی مسلم سیاست کے بارے میں بہت کچھ واضح کرتی ہے جس میں مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کومتعصب دشمن قرار دیتے ہوئے درحقیقت ایک دوسرے کے سیاسی ایجنڈوں کی حمایت کرتی ہیں۔اس طرح، اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو مخاطب کرتے ہوئے اور آر ایس ایس کی شاخوں یا یونٹوں میں روزانہ کی مشق کا حوالہ دیتے ہوئے، ڈاکٹر فریدی نے اعلان کیا،’’میڈم( اندرا)، میں جسمانی تربیت میں مصروف نوجوانوں کا مخالف نہیں ہوں۔ انہوں نے مزید کہا، ’’نہ ہی میں ہندو راشٹر کے پروپیگنڈے کا مخالف ہوں۔(۱۶)
ڈاکٹر فریدی کے اہم شاگرد محمد الیاس اعظمی ( 1934۔2023) نے اپنے سیاسی نقطہ نظر کو ایک اردو کتابچہ، ’’مسلمانوں کی سیاست: زخم اور علاج‘‘ ( جون 1995) میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ اگرچہ الیاس اعظمی علامہ اقبال اور مولانا مودودی سے متاثر ہیں، انہوں نے غیر واضح طور پر کانگریس مخالف، مسلمانوں، دلتوں اور پسماندہ ذاتوں کے درمیان انتخابی اتحاد (سماجی محاذ پر اتحاد کے لیے زیادہ نہیں) کی وکالت کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ تاہم، ان کی برہمن مخالف بیان بازی کے باوجود، اعظمی کے کتابچے میں مسلمانوں کی برادریوں کے اندر پائی جانے والی برادری سے متعلق غیر مساویانہ رخ، واضح طور پر غائب ہے۔ الیاس اعظمی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اکثر بہت سے مسائل پر سیاست سے متعلق سوچ سمجھ کر اپنے آزادانہ خیالات کو ترتیب دیتے ہیں، مثال کے طور پر، جب مسلمان 1974 کی جئے پرکاش نارائن تحریک کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے ،کیونکہ ان کی راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے نزدیکی وابستگی تھی۔ یہ اعظمی ہی تھے، جنہوں نے اس زمانے میں ڈاکٹر فریدی اور جے پی کے درمیان جھگڑے کے باوجود جے پی کی تحریک کی حمایت کرنے کی پرزور وکالت کی تھی۔ الیاس اعظمی یوپی کی نیم فوجی دستے پراونشل آرمڈ کانسٹیبلری (PAC) کو تحلیل کرنے کی مہم کے پیچھے بھی تھے جو کہ فرقہ وارانہ تشدد میں مسلم مخالف متعصبانہ رویوں اور حرکتوں کے لیے بدنام تھی، بالخصوص 1987 کے ہاشم پورہ، میرٹھ کے قتل عام میں اس کا متعصب چہرہ دیکھنے کو ملا تھا۔ انہوں نے اس کے بجائے’ انسداد فسادات فورس‘(اینٹی رائٹ فورس)بنانے کی تجویز پیش کی ۔
فروری 1986 میں، کانگریس حکومت کی طرف سے بابری مسجد کے تالے کھولے جانے کے بعد، بابری مسجد ایکشن کمیٹی (BMAC) کو جنم دیا، اعظمی نے مستقبل کے حالات کو بھانپ لیا تھا۔ ایسے وقت میں یہ اعظمی ہی تھے جو دو مطالبات کے ساتھ آگے آئے اور ان پر اصرار کیا: ان کا پہلا مطالبہ تھا کہ15 اگست 1947 کو یوم آزادی کے موقع پر موجود تمام عبادت گاہوں کے لیے اسٹیٹس کو (Status quo)اختیار کیا جائے، یعنی 15اگست1947کو جو عبادت گاہیں جیسی تھیں ویسی ہی رکھیں جائیں۔ اور دوسرا یہ کہ بابری مسجد کے تمام مقدمات غیر ہندو اور غیر مسلم ججوں پر مشتمل ہائی کورٹ کے بنچ کو سونپ دئیے جائیں۔ مزید کہا جاتا ہے کہ اعظمی نے ایسے کئی مضامین لکھے ، جن میں وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو صدام حسین کی جذباتی حمایت سے روکنا چاہتے تھے۔
الیاس اعظمی نے بابری مسجد شہادت کے بعد بی ایس پی میں شمولیت اختیار کی اور 2004 اور 2009 میں دو مرتبہ لوک سبھا کے لیے منتخب ہوئے۔انہوں نے 2016 میں عام آدمی پارٹی میں شمولیت اختیار کی، لیکن پھر اس سے علیحدہ ہوگئے۔اسی سال کا یہ عمر دراز سیاستداں، آج مبینہ طور پر بیمار ہوچلا ہے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے بعد مستقبل کے رہنماؤں کی پرورش کیے بغیر سیاسی بھول بھلیوں میں کھو چکا ہے۔ (الیاس اعظمی کا ۳؍ جون ۲۰۲۳ء کو لمبی بیماری کے بعد ۸۹ برس کی عمر میںنتقال ہوگیا )
یوپی میں کانگریس کے بعد کی سیاست کا ایک اور مسلم چہرہ شفیق الرحمن برق (پیدائش 1930) ہے۔ آگرہ یونیورسٹی سے گریجویٹ، انہوںنے 11ویں، 12ویں، 14ویں اور 15ویں لوک سبھا میں چار بار سنبھل کی نمائندگی کی۔ 2014 میں، بی ایس پی سے، وہ ایس پی میں چلے گئے، اور دوبارہ الیکشن لڑا، لیکن بی جے پی سے ہار گئے۔ 2019 میں، پانچویں بار لوک سبھا کے لیے سماجوادی پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے کے بعد، وہ ’اقتدار‘ میں ہیں۔ وہ اگست 2021 میں طالبان کے حق میں اپنے مبینہ اشتعال انگیز بیان کے بعد سرخیوں میں تھے،جس کی وجہ سے ان پرپولیس نے ایف آئی آر درج کری۔
1970 اور 1980 کی دہائی:
یوپی میں مسلمانوں کی کانگریس سے بیزاری کی ایک وجہ’’ایمرجنسی‘‘ کی نس بندی مہم بھی تھی، جس میں 18؍ اکتوبر 1976 کو مظفر نگر میں احتجاج اور مظاہرہ کررہے مسلم ہجوم پر پولیس نے گولی چلائی تھی۔ مظفر نگر کے ضلع مجسٹریٹ نے ’’مسلم قصائیوں کو منظم طریقے سے پکڑ کر اپنی مہم (نس بندی) کا آغاز کیا اور یہاں یہ ریکارڈ کرنا ضروری ہے کہ یہ کام زیادہ تر ہندو پولیس والوں نے مزے لے لے کر کیا۔ یہاں مسلمانوں کو نس بندی اور فرقہ وارانہ فسادات کے درمیان ایک طرح سے ایک کو منتخب کرنا تھا۔ (۱۷)
جس کے نتیجے میں رام پور، مراد آباد، بریلی، مظفر نگر ، میرٹھ، پیلی بھیت، اناؤ وغیرہ میں کانگریس کے 149 مسلم امیدوار ہار گئے۔ اس طرح مسلم رائے دہندگان کی سوچ دیگر ہم وطن برادریوں سے بہت مختلف نہیں تھی۔ جب بھی ملک میں عدم اطمینان ہوا، کانگریس مخالف مہم بنی اور لوگوں نے کانگریس کے خلاف ووٹ دیا، مسلمانوں نے بھی ایسا ہی کیا۔(۱۸) یہ لوک سبھا اور ودھان سبھا کے 1967، 1977، 1989-90 19کے انتخابات میں بالکل واضح دکھا۔ اتر پردیش میں، الیاس اعظمی ( 1934۔2023) ، عارف محمد خان (پ1951)، اور بہار میں، غلام سرور (1926-2004) اور پروفیسر جابر حسین (پ1945) ایمرجنسی کے خلاف کانگریس مخالف جے پی تحریک کے کچھ نمایاں مسلم چہرے تھے۔
تاہم، تیز رفتار سماجی و اقتصادی تبدیلیاں مسابقت اور حسد کو بھی جنم دیتی ہیں، جو کہ ناقص یا متعصبانہ طرز حکمرانی کے ساتھ مل کر فرقہ وارانہ فساد ات کی صورت میں ظہور میں آتی ہیں۔ اس طرح کی تیز رفتار تبدیلیوںنے عدم تحفظ کے جذبات کو جنم دیا۔ مجرمانہ انصاف (کرمنل جسٹس) کے نظام کی ناکامی کی وجہ سے تدارکی اثر بھی غائب تھا۔ 1970 کی دہائی کے دوران، تقریباً تمام فرقہ وارانہ فسادات چھوٹے صنعتی شہروں میں ہوئے جہاں مسلمان اپنی روایتی کاریگری، ہنر مندیوں، اور کاروباری مہارتوں کے ذریعے معاشی کامیابی کا ایک پیمانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ فیروز آباد (جون 1972) سے شروع ہوئے فرقہ وارانہ فساد نے بعد میں ان شہروں کو بھی متاثر کیاجو کہ مسلم کاریگری، ہنرمندیوں اور چھوٹی صنعتوں کے لئے مشہور تھے ۔ اس طرح وارانسی (اکتوبر 1977)، سنبھل (مارچ 1978)، علی گڑھ (اکتوبر 1978)، مراد آباد (اگست 1980) اعظم گڑھ، میرٹھ میں فرقہ وارانہ فساد کا ایک لامتناہی سلسلہ دیکھا جاسکتا ہے۔ ایسے بہت سے معاملات بھی پیش آئے جہاں فرقہ وارانہ فساد کے بعد، مسلمانوں کی صنعتیں ہندوؤں کے ہاتھ میں چلی گئیں، جب کہ مسلمانوں نے دوسری صنعتوں کی جانب توجہ نہیں کی اور وہ اپنی پشتینی صنعت سے منسلک رہے۔(۱۹)
1979 میں ایرانی انقلاب، سوویت یونین کا افغانستان پر قبضہ، اور 1981 میں میناکشی پورم (تامل ناڈو) میں دلتوں کا اسلام قبول کرنا،(۲۰) اور پھرحیدرآباد میں جماعت اسلامی ہند (جے آئی ایچ) کے صدر کی تقریر جس میںمسلم خاندانوں سے زیادہ بچے پیدا کرنے کی اپیل کی گئی، ان سب واقعات نے ہندوؤں کے ایک طبقے کو خوفزدہ کیا تھا۔ اکتوبر 1981 میں دہلی میں’ہندو سمیلن‘ منعقدہوا اور نومبر 1981 میں ملک بھر میں’ ایکتا ماتا یاترا‘ زور شور سے نکالی گئی۔ آر ایس ایس کے بالا صاحب دیورس (1915-1996) اور وزیر اعظم اندرا گاندھی کے درمیان کچھ افہام و تفہیم کے نتیجے میں ایمرجنسی کے بعد، 1980 میں اقتدار میں واپسی کے ساتھ، کانگریس ہندو فرقہ پرستی کی طرف متوجہ ہورہی تھی۔ یہاں یہ واضح کرتے چلیں،د یورس کی ایمرجنسی کے دوران (اگست اور نومبر 1975، اور جولائی 1976) اندرا گاندھی کے ساتھ معافی اور صلح سے متعلق کم از کم تین خطوط کی خط و کتابت ہوئی تھی۔ اس کا تعلق اس حقیقت سے بھی تھا کہ آر ایس ایس، ایمرجنسی مخالف ایجی ٹیشن میں شامل ہونے کے بعد، اب سیاسی طور پر اچھوت نہیں رہی تھی۔(۲۱) 1970 کی دہائی میں امریکہ اور برطانیہ میں مقیم این آر آئیز یعنی بیرون ملک مقیم ہندوستانیوں کی طرف سے آر ایس ایس کو نظریاتی اور مالی تعاون کے ساتھ ساتھ، اندرون ملک ہونے والی اس پیش رفت نے، زعفرانی تنظیموں کی طاقت میں اضافہ کیا تھا۔(۲۲)
خلیجی ممالک میں بلو کالر (میکنک اور مزدوروغیرہ)ملازمت کے حصول کی وجہ سے ،یہ اب تک کے کچھ غریب مسلمانوں کے درمیان خوشحالی کا آغاز بھی تھا۔ اس عمل کوجنتا پارتی کی دور حکومت میں وزیر خارجہ کے طور پر فائز اٹل بہاری واجپائی کی’’ اوپن پاسپورٹ پالیسی‘‘ کے طور پر آسان بنایا گیا تھا۔ اس پالیسی سے پہلے بھی، مرادآباد ی پیتل اشیاء کی مشرق وسطیٰ کو برآمدات نے مرادآباد کے ہندوطبقوں میں، خاص طور پر بنگلہ دیش سے آنے والے ہندو پناہ گزینوں میں ناراضگی پیدا کردی تھی۔
اس کے فوراً بعد، 1980 کی دہائی میں، سید شہاب الدین (1935-2017)، جن کا تعلق صوبہ بہار سے تھا اور جنہوںنے سفارت کاری سے سیاستداں کے میدان میں قدم رکھا تھا، نے بھی او بی سی، دلتوں، آدیواسیوں اور مذہبی اقلیتوں کے متحدہ محاذ سے سیاست کرنے کا ایک تجربہ کیا۔ شاہ بانو مخالف قانون سازی (1986) اور بابری مسجد تنازعہ کی لہر پر سوار ہوکر سید شہاب الدین نے 1989 میں اپنی ’انصاف پارٹی‘ کو قائم کیا۔ ان کی یہ پارٹی ممکنہ طور پر عوام کومتاثر کرنے کی صرف ایک ناکام کوشش ثابت ہوئی، حقیقت میں کسی پارٹی کو چلانے کے لئے اس کی بنیادی ضروریات کے طور پر خطیر رقم (منی بیگ )کے علاوہ کیڈرز کو بڑھانے اور تنظیمی ڈھانچے اور اکائیوں کو چلانے کے لیے ، مڈل کلاس کے ایک ایسے حصے کی ضرورت بھی ہوتی ہے جو کہ اس کا کور سپورٹ بیس ہو۔ لیکن سید شہاب الدین کے پاس ، یہ کچھ نہیں تھا۔
فرقہ وارانہ فساد کی آگ میں جلنے کے لیے میرٹھ کے لوگوں میںایک طرح کی کھجلی مچ رہی تھی۔ 14 فروری 1986 کو میرٹھ کے مسلمانوں نے بابری مسجد کے تالے کھولنے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سیاہ پرچم لہرائے۔ 30 مارچ 1987 کو بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے سید شہاب الدین کی طرف سے بلائی گئی دہلی ریلی میں میرٹھ کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی، جہاںاس موقع پر جامع مسجد دہلی کے امام سید عبداللہ بخاری (1922-2009) نے اشتعال انگیز تقریر کی ۔(۲۳) اس کے بعد اپریل-مئی 1987 میں میرٹھ اور اس سے ملحقہ مقامات جیسے ہاشم پورہ، مراد نگر اور ملیانہ میں فساد کا ایک سلسلہ شروع ہوا۔(۲۴) ستمبر 1989 میں اردو کو دوسری سرکاری زبان بنائے جانے کے مسئلہ پر بدایوں کو فرقہ وارانہ فسادکا سامنا کرنا پڑا۔
اس طرح، 1989 کے لوک سبھا انتخابات کا انعقاد بابری مسجد۔رام جنم بھومی تنازعہ کے گرد فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے ماحول میں ہوا۔ اس کے باوجود، کانگریس مخالف جذبات ہندو اور مسلمان دونوں ووٹروں میں مشترکہ تھے۔ اس کی جھلک انتخابی نتائج سے دکھائی دیتی ہے، جب کانگریس کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔
مسلم سیاسی پارٹیوں کا تجربہ (2007-2009)
ایک اندازے کے مطابق1998 کے لوک سبھا انتخابات میں 75% مسلم ووٹ سماج وادی پارٹی کو گئے تھے۔ 2004 کے لوک سبھا انتخابات میں یہ تناسب گھٹ کر 47 فیصد رہ گیا، حالانکہ اس کے نشان سے 11 کے قریب مسلم امیدوار منتخب ہوئے تھے۔ 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں، سماجوادی کے حق میںیہ ووٹنگ تناسب مزید گھٹ کر 30 فیصد پر آ گیا، اور اس کے تمام 12 مسلم امیدوار انتخاب ہار گئے۔ ایس پی کے خلاف مسلمانوں کے مایوسی کی کئی وجوہات میں سے، ایک حقیقت یہ بتائی جاتی ہے کہ اس نے بی جے پی کے راج ناتھ سنگھ کے ساتھ ساتھ آر ایل ڈی کے جینت چودھری، جو اس وقت بی جے پی کے اتحاد میں شامل تھے، کے خلاف اپنے امیدواروں کو کھڑا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
مؤ کے 2005 کے فرقہ وارانہ فسادکے بعد، جنوری 2007 میں گورکھپور میں بھی ایک فرقہ وارانہ فساد پھوٹ پڑا تھا۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ ملائم سنگھ یادو، 2007 کے اسمبلی انتخابات سے چند ماہ قبل، فساد کے مرکزی ملزم یوگی آدتیہ ناتھ کے ساتھ کچھ احسان کرتے نظر آئے۔ یہ کہا جاتا تھا کہ ملائم سنگھ یادو دراصل، ما یاوتی کی بی ایس پی کو حاصل برہمن حمایت کا مقابلہ کرنے کے لئے، آدتیہ ناتھ کی حفاظت کرکے سماجوادی کے حق میں راجپوت کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس وقت، امر سنگھ، ایس پی کا ایک بڑا راجپوت چہرہ، سمجھے جاتے تھا کہ وہ خاموشی سے یہ ڈیل کر وانے میں شامل رہے۔ اس فسادمیں بھی سیاسی قیادت کے بجائے ایک مقامی صحافی پرویز پرواز نے شواہد جمع کیے اور عدالت سے رجوع کیا۔ فروری 2018 میں، یہ انکشاف کیا گیا کہ پولس کو پیش کی گئی کمپیکٹ ڈسک (سی ڈی) میں الیکٹرانک طور پر ریکارڈ شدہ ثبوت سیل بند رہے اور یہاں تک کہ اکھلیش کی قیادت والی یوپی حکومت نے بھی پولیس کو مجرموں کو پکڑنے کے لیے اس سی ڈی کو کھولنے کی اجازت نہیں دی۔(۲۵)
2007 کی اسمبلی انتخابی مہم پہلے کے انتخابات سے اس لحاظ سے کافی مختلف تھی، کہ اس میںانتہائی فرقہ وارانہ انداز میں انتخابی مہم چلائی گئی تھی۔ (۲۶) اس موقع کی میتا گپتا کی فیلڈ رپورٹ یہ بتاتی ہے کہ بی جے پی مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے کر انتخابی مہم چلا رہی تھی، مسلم مخالف اشتعال انگیز سی ڈیز گردش میں تھیں، اور مختار انصاری اور عتیق احمد جیسے غنڈوں کو ملائم سنگھ یادو کی مکمل حمایت ماحول کو مزید آلودہ کر رہی تھی۔ فرقہ وارانہ پولرائزیشن کے باوجود، مسلم رائے دہندگان نے یعقوب قریشی کی ایک نو تشکیل شدہ مسلم تنظیم یوپی یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (UPUDF) کی سخت مخالفت کی، اگرچہ، اس نئی پارٹی نے ایک تنہا نشست پر جیت حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
حواشی
۱۲۔پال آر براس،’’Development of an Institutionalised Riot System in Meerut City, 1961 t0 1982‘‘،EPW، 30 اکتوبر 2004۔
۱۳۔ امروہہ کی لوک سبھا سیٹ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی (1901-1962) کی وفات کی وجہ سے خالی ہو گئی تھی۔ نوآبادیاتی دور کے اواخر میں، طفیل احمد منگلوری (1868-1946) کے ساتھ، وہ مسلم لیگ کے دو قومی نظریہ کے سب سے زیادہ کھلے مخالف تھے۔انہوں نے پاکستان تحریک کی مخالفت میں اردو رسائل وجرائد، خاص طور پر مدینہ (بجنور) میں تنقیدی مضامین تحریر کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان کے یہ مضامین 1945 میں’’ تحریک پاکستان پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے مرتب کرکے شائع کئے گئے۔ انہوں نے فرقہ وارانہ طور پرعلاقائی علیحدگی پسندی کی بنیاد پر تباہ کن سیاست پر باریک بینی سے ناقدانہ نظر ڈالی، بالکل اسی طرح ، جیسے طفیل احمد کی منگلوری کی کتاب، ’’مسلمانوں کا روشن مستقبل‘‘، میں فرقہ وارانہ سیاست کے مضر اثرات پر توجہ مرکوز کی گئی، اس کتاب کے 1937 سے 1945-1946 تک کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔
۱۴۔ظہیر مسعود قریشی،’’Electoral Strategy of a Minority Pressure Group: The Muslim Majlis-e-Mashawrat‘‘، ایشین سروے، جلد 2۔ 8، 12، دسمبر، 1968، صفحہ 976-987۔
۱۵۔ اطہر فاروقی،’’Dr Abdul Jalil Faridi: A Lost Chapter in the History of the ruthless, obscuranist Urdu Politics of North India‘‘، NewAgelslam.com، 23 نومبر 2010۔ (انگریزی ترجمہ، یوگندر سکند)۔
http://www.newageislam.com/islam-and-politics/dr-abdul-jalil-faridi-a-lost-chapter-in-the-history-of-the
-ruthless-obcurantist-urdu-politics-of- north -india/d/3718
یہ بھی دیکھیں، محمد ادیب، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک سابق طالب علم لیڈر اور ایک سابق ممبر پارلیمنٹ کی اردو یادداشت (2019)، زندگی زرا آہستہ چل (ص:305-311) میں، اپنے سیاسی سرپرست ڈاکٹر فریدی کی ایک ہیوگرافک پروفائل پیش کرتے ہیں۔
۱۶۔ اطہر فاروقی، 23 نومبر 2010
۱۷۔ونود مہتا، دی سنجے اسٹوری(The Sanjay Story)، ہارپر کولنز، دہلی، 2015 (1978)، صفحہ 163
۱۸۔اصغر علی انجینئر، ’’Do Muslims Vote as a Block‘‘، EPW، 12 مارچ 1977؛ یہ بھی دیکھیں، تھیوڈرے پی رائٹ جونیئر،’’Muslims in 1977 Elections: A Watershed‘‘،ایشین سروے، 17، 12، دسمبر 1977، صفحہ 234-243-
۱۹۔سنیت چوپڑا اور این کے سنگھ، ’’Ferozabad: Anatomy of Riot‘‘، ای پی ڈبلیو، 19 ؍اگست 1972
۲۰۔ تھیوڈور پی رائٹ جو نیئر’’The Movement to Convert Harijans to Islam in South India‘‘، دی مسلم ورلڈ، 72، 3-4؍ اکتوبر 1982، صفحہ 239-245۔
۲۱۔اروند راجا گوپال،’’Sangh Role in Emergency‘‘ EPW، 5 ؍جولائی 2003
۲۲۔ ایڈورڈ اینڈرسن اور پیٹرک کلیبنس، ’’Smugglers of Truth. The Indian Diaspora, Hindu Nationalism, and the Emergency‘‘، ماڈرن ایشین اسٹڈیز، 52، 5، 2018۔
۲۳۔ سی ایم نعیم۔’’The Shahi Imams of India‘‘، آؤٹ لک، 26؍ نومبر 2014۔
۲۴۔ نیلانجن مکوپادھیائے، دی وائر ڈاٹ ان، 25؍ اپریل 2017، پال براس،’’Development of an Institutionalised Riot System in Meerut City, 1961 t0 1982‘‘،EPW، 30 اکتوبر 2004۔برج راج کشور،’’Anatomy of Meerut Riots‘‘، ٹائپ اسکرپٹ، سی پی آئی پبلی کیشن، نمبر 1، فروری 1983
۲۵۔دیکھیں محمد سجاد کا کالم، Rediff.com پر، 26؍ فروری 2018
۲۶۔دیکھئے اسمیتا گپتا کا مضمون،’’The Rise and Fall of Hindutva in Uttar Pradesh, 1984-2004‘‘سودھا پائی کی مرتبہ کتاب ، Political Processes in Uttar Pradesh : Identity, Economic Reforms and Governance، پیئرسن لانگ مین، 2007، صفحہ 110-136۔
۱۳۔ امروہہ کی لوک سبھا سیٹ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی (1901-1962) کی وفات کی وجہ سے خالی ہو گئی تھی۔ نوآبادیاتی دور کے اواخر میں، طفیل احمد منگلوری (1868-1946) کے ساتھ، وہ مسلم لیگ کے دو قومی نظریہ کے سب سے زیادہ کھلے مخالف تھے۔انہوں نے پاکستان تحریک کی مخالفت میں اردو رسائل وجرائد، خاص طور پر مدینہ (بجنور) میں تنقیدی مضامین تحریر کرنے کا ایک سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان کے یہ مضامین 1945 میں’’ تحریک پاکستان پر ایک نظر‘‘ کے عنوان سے مرتب کرکے شائع کئے گئے۔ انہوں نے فرقہ وارانہ طور پرعلاقائی علیحدگی پسندی کی بنیاد پر تباہ کن سیاست پر باریک بینی سے ناقدانہ نظر ڈالی، بالکل اسی طرح ، جیسے طفیل احمد کی منگلوری کی کتاب، ’’مسلمانوں کا روشن مستقبل‘‘، میں فرقہ وارانہ سیاست کے مضر اثرات پر توجہ مرکوز کی گئی، اس کتاب کے 1937 سے 1945-1946 تک کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔
۱۴۔ظہیر مسعود قریشی،’’Electoral Strategy of a Minority Pressure Group: The Muslim Majlis-e-Mashawrat‘‘، ایشین سروے، جلد 2۔ 8، 12، دسمبر، 1968، صفحہ 976-987۔
۱۵۔ اطہر فاروقی،’’Dr Abdul Jalil Faridi: A Lost Chapter in the History of the ruthless, obscuranist Urdu Politics of North India‘‘، NewAgelslam.com، 23 نومبر 2010۔ (انگریزی ترجمہ، یوگندر سکند)۔
http://www.newageislam.com/islam-and-politics/dr-abdul-jalil-faridi-a-lost-chapter-in-the-history-of-the
-ruthless-obcurantist-urdu-politics-of- north -india/d/3718
یہ بھی دیکھیں، محمد ادیب، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک سابق طالب علم لیڈر اور ایک سابق ممبر پارلیمنٹ کی اردو یادداشت (2019)، زندگی زرا آہستہ چل (ص:305-311) میں، اپنے سیاسی سرپرست ڈاکٹر فریدی کی ایک ہیوگرافک پروفائل پیش کرتے ہیں۔
۱۶۔ اطہر فاروقی، 23 نومبر 2010
۱۷۔ونود مہتا، دی سنجے اسٹوری(The Sanjay Story)، ہارپر کولنز، دہلی، 2015 (1978)، صفحہ 163
۱۸۔اصغر علی انجینئر، ’’Do Muslims Vote as a Block‘‘، EPW، 12 مارچ 1977؛ یہ بھی دیکھیں، تھیوڈرے پی رائٹ جونیئر،’’Muslims in 1977 Elections: A Watershed‘‘،ایشین سروے، 17، 12، دسمبر 1977، صفحہ 234-243-
۱۹۔سنیت چوپڑا اور این کے سنگھ، ’’Ferozabad: Anatomy of Riot‘‘، ای پی ڈبلیو، 19 ؍اگست 1972
۲۰۔ تھیوڈور پی رائٹ جو نیئر’’The Movement to Convert Harijans to Islam in South India‘‘، دی مسلم ورلڈ، 72، 3-4؍ اکتوبر 1982، صفحہ 239-245۔
۲۱۔اروند راجا گوپال،’’Sangh Role in Emergency‘‘ EPW، 5 ؍جولائی 2003
۲۲۔ ایڈورڈ اینڈرسن اور پیٹرک کلیبنس، ’’Smugglers of Truth. The Indian Diaspora, Hindu Nationalism, and the Emergency‘‘، ماڈرن ایشین اسٹڈیز، 52، 5، 2018۔
۲۳۔ سی ایم نعیم۔’’The Shahi Imams of India‘‘، آؤٹ لک، 26؍ نومبر 2014۔
۲۴۔ نیلانجن مکوپادھیائے، دی وائر ڈاٹ ان، 25؍ اپریل 2017، پال براس،’’Development of an Institutionalised Riot System in Meerut City, 1961 t0 1982‘‘،EPW، 30 اکتوبر 2004۔برج راج کشور،’’Anatomy of Meerut Riots‘‘، ٹائپ اسکرپٹ، سی پی آئی پبلی کیشن، نمبر 1، فروری 1983
۲۵۔دیکھیں محمد سجاد کا کالم، Rediff.com پر، 26؍ فروری 2018
۲۶۔دیکھئے اسمیتا گپتا کا مضمون،’’The Rise and Fall of Hindutva in Uttar Pradesh, 1984-2004‘‘سودھا پائی کی مرتبہ کتاب ، Political Processes in Uttar Pradesh : Identity, Economic Reforms and Governance، پیئرسن لانگ مین، 2007، صفحہ 110-136۔
(جاری)
(اصل انگریزی مضمون انڈین جرنل آف سیکولرزم،ممبئی، جلد ۲۵،شمارہ ۱-۳ میں شائع ہوا ہے)