Home تراجم نفرت و عدم اعتماد کے دور میں ایک امیدافزا مشاہدہ – پروفیسر محمد سجاد

نفرت و عدم اعتماد کے دور میں ایک امیدافزا مشاہدہ – پروفیسر محمد سجاد

by قندیل

انگریزی سے ترجمہ: نورالزماں ارشد

میری پیدائش، شمالی بہار کے ایک گاؤں کے مسلم گھرانے میں ہوئی جو ہندو اکثریت سے گھرا ہوا ہے۔ اور میرا خاندان اس گاؤں کے تقریباً تمام اونچی ذات کے خواص کے ساتھ مل جل کر رہتا تھا۔ میرا تعلق بھگوان رام سے مخصوص انداز کا ہے۔

میں نے اپنی ابتدائی تعلیم گاؤں کے وسط میں واقع گورنمنٹ اردو پرائمری اسکول سے حاصل کی۔ روزانہ قریب میں ہی واقع گورنمنٹ ہندی مڈل اسکول کے اسمبلی پریر سے بچوں کے ایک ساتھ مل جل کر گانے کی مدھر آوازیں آتی تھیں۔ جس نے ہمیں ہندو دیوی دیوتاؤں سے جُڑے مذہبی افسانے اور عقائد سے متعارف کرایا اور جس کو اسکول کی دعا میں لاؤڈ اسپیکر سے گایا جاتا، وہ یہ تھا، "ماں شاردے کہاں تو وینا بجا رہی ہے”۔

ہم اپنے اردو اسکول میں علامہ اقبال کی نظم ’’لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری” گاتے تھے ۔ وہی اقبال جس نے بھگوان رام پر ایک نظم بھی لکھی اور انہیں امام ہند بتایا تھا، ساتھ ہی نانک اور اس جیسے بہت سے ہیرو، تاریخ ساز مفکر اور انقلابیوں سے متعلق نہ جانے کیا کیا لکھا۔ تب ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ اقبال کے سیاسی افکار کا تعلق تقسیم ہند کی پیش کش سے منسلک تھا۔

ہر سال سردیوں کے اختتام پر ہندی اسکولوں میں سرسوتی پوجا منائی جاتی تھی ۔ ہم ہندی اسکول میں پرساد (مٹھائیاں اور موسمی پھل) لینے کے لیے قطار میں کھڑے ہو جاتے تھے۔ اس عمل کو نہ تو مسلم بزرگوں نےایک مسلمان بچے کے لیے معیوب سمجھا اور نہ ہی ہندو بزرگوں نے اسے اپنی دیوی کی توہین سمجھا اور نہ ہی ان کے اس عقیدے کے مطابق کہ ایک مسلمان ملیچھ (غیر مہذب) کے اس طرح گھل مل جانے سے ہندو رسم و رواج میں کوئی خرابی آجائے گی۔ کم از کم عوامی حلقوں اور آپسی اشتراک کے دوران یہ بالکل ناقابل قبول تصور تھا۔ نجی طور پر دونوں مذہبی گروہوں میں سے چند افراد اس طرح کے معاملات میں تفرقہ انگیز انداز میں چہ می گوئیاں کرتے رہے ہوں گے لیکن یہ آوازیں دبی زبان میں اور عوام میں ناقابل توجہ تھیں۔ ساتھ ہی ایسے خیالات کو پناہ دینے والوں میں جرم کا احساس بھی پنہاں ہوتا تھا۔

اس گاؤں کے پرائمری اور مڈل اسکولوں کے طلباء مقامی گورنمنٹ ہائی سکول میں داخل ہوگئے۔ اس وقت تقریباً تمام تر ہائی اسکول پہلے پہل اونچی ذات کے ہندو زمیندار خواص نے ہی بنوائے تھے، حالانکہ ملک کی آزادی کے بعد، حکومت نے ان اسکولوں کو اپنی نگرانی میں لے لیا۔ میرے اسکول کی بنیاد 1955ء میں، ایک گاندھیائی مجاہد آزادی نے رکھی تھی۔ اسی احاطے میں 1930ء کی دہائی میں انہوں نے ’سوراج آشرم بھون‘ کی بنیاد بھی رکھی۔ ہمارے اساتذہ اور بزرگوں نے ہمیں اس بات پر بھی فخر کرنا سکھایا کہ اس اسکول کی بنیاد ایک کفایت شعار اور سادگی پسند گاندھیائی نے ڈالی ہے۔

فخر کا ایک اور احساس جو اجتماعی حافظے میں موجود تھا، اور جیسے اکثر دہرایا بھی جاتا تھا وہ یہ کہ یہ علاقہ کبھی بھی فرقہ وارانہ تشدد کا شکار نہیں ہوا۔ اگر کسی معمولی بات پر تناؤ پیدا ہوا بھی تو باہمی بات چیت کے نتیجے میں تنازعہ حل کر لیا گیا۔ یہ بھی اجتماعی فخر کا ایک معاملہ تھا۔ ایک دوسرے کے یہاں کھانے پینے کا رواج عام تھا اور شاید ہی کوئی ہندو خالص شاکاہاری (ویجیٹیرین) ہو۔ ہمارے ہائی اسکول کو اس بات پر بھی خاص فخر تھا کہ مسلم طلباء نے اونچی ذات کے ہندو طلباء کے مقابلے نسبتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا جو ہماری کامیابیوں سے حسد کرتے تھے۔ اجتماعی ہندو خواص کا ایک عمومی موقف یہ تھا کہ مسلمان آگے بڑھیں اور تعلیم، معیشت اور روزگار میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ لیکن ان سب کے لیے ان کا لہجہ سرپرستی والا تھا۔

 

سنہ 1986ء میں، شیلا پوجن کے لیے رام جانکی رتھ (ایودھیا میں رام مندر بنانے کے لیے ملک بھر کے ہندوؤں سے اینٹیں اکٹھی کرنے کی تحریک) ملک بھر کا دورہ کر رہا تھا۔ یہ قافلہ ہمارے ہائی اسکول کے احاطے میں بھی آ پہنچا۔ تاہم گاؤں کے بھومیہار-برہمن ہندوؤں نے اس کو وہاں سے چلتا کیا، جس کی قیادت بانی اسکول کے پوتے نے کی تھی۔جب 6 دسمبر، 1992ء کو ایودھیا میں بابری مسجد کا انہدام ہوا تو میرے گاؤں کے مسلمان پریشان اور خوف زدہ تھے کہ کہیں انہیں بھی کچھ نقصان نہ پہنچے۔ اگلے دن ہندوؤں نے انہیں یقین دلانے کی کوشش کی کہ چاہے ملک میں کہیں کچھ بھی ہو جائے ان علاقوں میں مسلمان بالکل محفوظ رہیں گے اور ان کا کاروبار حسبِ معمول چلتا رہے گا۔

 

تاہم وہاں حالات اچانک سے تبدیل ہونے لگے۔ اب اس جگہ پر مذہبی خطوط پر سیاست کرنے والے بہار کے گینگسٹر پارلیمانی اراکین کو مدعو کیا جانے لگا۔ کیوں؟ یہاں تک کہ نان ویجیٹیرین بھی سختی سے خود کو ویجیٹیرین ہونے کی نمائش کرنے لگےاور اس کو ہندو مذہب کے ایک ضروری عنصر کے طور پر ظاہر کرنے لگے ۔خود کو ایک "اچھا” ہندو ظاہر کرنے کے لیے؟ کیوں؟ تقویٰ اور ظاہر دارانہ مذہبیت کا مقابلہ تیزی سے بڑھ رہا تھا، کیوں؟ یہ سوالات میں خود سے پوچھتا ہوں۔

 

منڈل کمیشن کے نافذ ہونے اور اقتصادی کھلے پن کی پالیسی یعنی لبرلائزیشن کے بعد کے عہد میں روایتی طور پر نامور ہندوؤں نے تعلیم، تجارت، روزگار اور مقامی سیاسی نمائندگی میں بہتر مظاہرہ کیا ہو یا نہیں، لیکن پسماندہ طبقات انتخابی سیاست اور نمائندگی سمیت ہر شعبے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ اگرچہ سنہ 1991ء سے پہلے کےحالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اس بات کی وضاحت کرنا لازمی ہے۔وہ یہ کہ سورن(ہندو خواص) اور اشراف (مسلم خواص) کے درمیان کچھ افہام و تفہیم یا عمومی اتفاق رائے تھا اور خواص کا یہی اتحاد، جسے عمومی طور پر "گنگا جمنی تہذیب” کے نام سے مشہور کیا گیا ، اس وقت تک اچھے سے کام کرتا رہا جب تک کہ سب آلٹرن یعنی مغلوب طبقے کی خواص مخالف بغاوت نہ پھوٹ پڑی۔ جس کے نتیجے میں "مزدوروں کا عروج” ہوا۔ اگرچہ دونوں برادریوں کے اندر "اچھا” مذہبی ہندو اور "اچھا” مذہبی مسلمان بننے کی خواہش نے انہیں مخصوص قسم کے مذہبی جلوسوں کے ذریعے عوام میں اپنی شناخت ظاہر کرنے کا موقع فراہم کیا۔ بعض اوقات عوام میں مذہبیت اور بعض رسومات کو ظاہر کرنے کے لیے ننگی تلوار اور دیگر روایتی ہتھیاروں کا ”مظاہرہ“، جس کے نتیجے میں مقابلتاً ذاتی توثیقی عمل شروع ہو گیا۔ یعنی یہی وہ نکتہ ہے جہاں از سر نو شروع ہونے والے مذہبی تنازعات کی چند وضاحتیں تلاش کی جا سکتی ہیں یا ان کا پتہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہاں تک کہ کمزور مسلمانوں نے اپنی ملازمتوں جیسے موٹر مکینک، ٹیکسی ڈرائیور، الیکٹریشن، پلمبر، پنکچر مکینک اور ٹائر ٹیوب کے خردہ اور تھوک کاروبار و دیگر ذرائع سے کچھ حد تک اقتصادی خوشحالی حاصل کی اور نچلے متوسط طبقے میں تبدیل ہو گئے۔ ساتھ ہی دیہی و بلدیاتی اداروں میں پسماندہ اور دیگر کمزور مسلمانوں کی نسبتاً بہتر حصہ داری اور شرکت ہندوؤں کے آنکھوں کو چبھنے لگی۔ خلیجی ممالک سے کمایا ہوا سرمایہ و جمع پونجی کی مقامی تجارت اور انتخابات میں سرمایہ کاری بھی بڑھتے ہوئے ہندو مسلم تنازعات کی ایک وجہ ہے۔ مزید برآں، بیرون ممالک میں کام کرنے والے ہندو پیشہ ور افراد کی ایک اچھی تعداد اب یہ چاہنے لگی کہ ان کی مذہبی شناخت کی بھی عالمی سطح پر مناسب پذیرائی ہونی چاہیے۔ ’نیو(Neo) ہندوتوا‘ کا یہ طبقہ سوچتا ہے کہ صرف سنگھ پریوار ہی ہے جو واقعی انہیں ان کی مذہبی و ثقافتی خواہشات کی تکمیل و تسکین کا وعدہ کرتا ہے، جس کا اب تک نہ صرف باہری مسلم (ترک اور مغل) اور عیسائی (انگریز) حکمرانوں نے، بلکہ مغربی تصورات مثلا سیکولرازم نے بھی انکار ہی کیا ہے۔ اور ان کی نظر میں سیکولرزم بنیادی طور پر مسلمانوں کو ثقافتی رعایت ہی فراہم کرتی رہی ہے۔

 

یہی وجہ ہے کہ نیا ’ہندو‘ شعور، اداروں اور اقتدار میں مسلمانوں کی کم نمائندگی کے حقائق پر یقین کرنے سے اب تک انکار ہی کرتا رہا ہے۔ مسلمان ماضی میں حکمرانی کے سنڈروم سے نکلنا نہیں چاہتے یعنی محکومی سے انکار کرتے رہے ہیں۔ اس طرح کے شعور کو بہت سے اونچی ذات اور ترقی یافتہ قبائلی پسماندہ طبقوں نے بھی پناہ دی ہے۔ یہی وه نکتہ ہے جہاں ممکنہ طور پر اس بات کی وضاحت موجود ہے کہ دیہی شمالی بہار کے میرے آبائی علاقے اور ہندوستان کے بہت سے دوسرے حصوں میں بھی مذہبیت اور مذہبی سیاست نے کچھ مخصوص رویوں کو کیوں اختیار کر لیا ہے۔جس کا درجہ اور شدت چند دہائیوں پہلے تک نہایت کم تھی، جب ہم وہاں اسکول کے طالب علم کے طور پر بڑے ہو رہے تھے۔

 

تاہم میرے پر امید ہونے کی یہ وجہ یہ ہے کہ سیاست پر مبنی سماجی پولرائزیشن کا یہ مرحلہ بھی گزر ہی جائے گا۔ میں ایسا اس لیے کہ رہا ہوں کیونکہ میرے حقیقت پر مبنی مشاہدات میں ہم اب بھی ایک دوسرے کی ذاتی خوشی اور غم میں برابر کے شریک ہیں، ہم اب بھی ایک دوسرے کے لیے حاضر ہیں، اب بھی ایک دوسرے کے خلاف بداعتمادی کو ہوا دینے پر احساس جرم میں مبتلا ہیں۔ اب بھی بہت سے ذہنوں میں شبہات ہیں ، اگر مسلمانوں کی موجودہ نسل واقعی صدیوں پہلے حکمرانوں کے من گھڑت یا حقائق پر مبنی ہندو مخالف غلطیوں پر پشیمان ہے ۔ تو یقیناً یہ شک، یہ احساس جرم کا عنصر اور یہ پچھتاوا، ہمیں امید دلانا چاہتا ہے کہ محبت اور اعتماد، سیاسی طور پر پیدا ہونے والی بداعتمادی اور نفرت پر ایک دن ضرور فتح حاصل کرے گا۔

You may also like