Home تراجم غزہ کی میری دوست نجویٰ کے نام ایک خط-کیتھرین پیپس

غزہ کی میری دوست نجویٰ کے نام ایک خط-کیتھرین پیپس

by قندیل

ترجمہ:نایاب حسن
میں پیر کی صبح بیدار ہوئی تو مجھے بتایا گیا کہ تم محفوظ ہو؛مگراسرائیلی بمباری میں تمھاری بہن اور اس کے بچے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اس کی صرف ایک بیٹی بچ سکی اور وہ بھی ہسپتال میں ہے۔ میں اپنی پوری محبت و ہمدردی کے ساتھ امید کرتی ہوں کہ وہ اس تکلیف سے صحیح سلامت باہر نکل آئے گی۔ مجھے یاد ہے کہ تمھاری ایک بھانجی کی اور میری سالگرہ ایک ہی دن ہے اور میری ایک بہن کے مانند تمھاری پیدایش کی تاریخ بھی 3 اپریل ہے۔
اب تک تم اور تمھارے بھائی شمالی غزہ سے نکل چکے ہو گے۔ میں اس راستے کو یاد کرنے کی کوشش کررہی ہوں ،جو جنوب کی طرف جاتا ہے، لاشوں اور تباہ شدہ عمارتوں کے درمیان کھلی جیل کا ایک نہایت مشکل سفر ہوگا،جس کے دوران بموں اور دیگر خطرات سے حفاظت کا کوئی سامان بھی نہ ہوگا۔
کیا بدترین سانحے کو ہونے سے روکنے میں بہت تاخیر ہو چکی ہے؟ مجھے تو لگتا ہے کہ یہ سانحہ پہلے ہی ہو چکا ہے۔ تمھارے بھائی، بھانجی اور تمھارے لیے حالات اب کبھی پہلے جیسے نہیں ہوں گے۔
یہ پہلی بار نہیں ہے؛ ہم سب جانتے ہیں، جب تک قبضہ برقرار ہے، جنگ و امن کے ادوار کے درمیان کوئی حقیقی حد فاصل نہیں ہے۔ فلسطینیوں کی روزمرہ کی زندگی اسرائیل کی استبدادی پالیسیوں، تذلیل، تشدد، موت، اور گہری ناانصافی سے تشکیل پاتی ہے۔ ہر فوجی آپریشن کے بعد ایمبولینسوں کی آواز اور صوتی بم دہشت کا احساس ختم نہیں ہونے دیتا۔

میں وہ پیغامات دیکھ رہی ہوں، جو تم نے مجھے بہت پہلے بھیجے تھے۔ عید، سالگرہ، کرسمس اور نئے سال کے موقعوں پر ہماری مبارکباد کے تبادلے میں، ایک میسج میں تم نے لکھا ہے:
نومبر 19، 2012، ’’پیاری کیتھرین، تمھارے فکر انگیز جذبات کا بہت شکریہ۔ میں اور میرے اہل خانہ بخیر ہیں؛ لیکن ہر منٹ مسلسل فضائی حملے اور بمباری کی وجہ سے خطرہ قائم ہے… غزہ میں زندگی ایک فلیش بیک بن جاتی ہے، ایک ڈیجا وو، ایک فلم جس کا عنوان ہے ’غزہ حملوں کی زد پر ہے‘۔ ایسی زندگی،جس پر مجھے شدید غصہ آتا ہے۔ اس کے لیے معذرت؛ مگر تم جانتی ہو کہ میں اپنے خاندان کے کسی اور فرد کو کھونا نہیں چاہتی، نہیں معلوم کہ آیندہ کل کیا ہوجائے۔ سلام، نجویٰ‘‘۔

30 جولائی 2014،’’پیاری کیتھرین، میں ابھی، اس لمحے تک تو زندہ ہوں؛ لیکن معلوم نہیں اسرائیلی حملے سے کب تک محفوظ رہ سکوں گی ، جو غزہ پٹی میں ہر جگہ عام لوگوں، ہسپتالوں، سکولوں اور گھروں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ توقع ہے کہ یہ صورت حال جلد ختم ہو جائے گی۔ میں واقعی اس سچویشن سے سخت پریشان ہوں اور سیاست و سیاست دانوں سے مجھے نفرت ہوگئی ہے۔ تمھارے پیغام کا شکریہ ،امید ہے کہ جنگی جنون جلد ختم ہوگا۔ السلام علیکم‘‘۔

تمھیں یاد ہے جب میں نے تم سے فلسطینیوں کے لیے ترقیاتی فنڈز کا جواز پیش کرنے کے لیے ان کی کامیابی کی کہانیاں لکھنے کو کہا تھا؟
2006،غزہ کے دو ترقیاتی مراکز کی کہانی، جو جبلیہ اور نصیرہ کے پناہ گزین کیمپوں میں خواتین کو خدمات پیش کر رہے تھے۔ یہ مقبوضہ علاقے سخت بدحالی کے شکار تھے اور یہاں کی خواتین اس سے نکلنے کی راہ تلاش کر رہی تھیں ، سماجی معیشت کے منصوبے انھیں مزید لچک دار بناسکتے تھے۔ لچک، کیسا شتم آمیز اور ریاکارانہ لفظ ہے!
’’ام سعید مرکز کی طرف سے قائم کردہ خواتین کے حلقے کی رکن ہے۔ وہ 28 سال کی ہے، اس کے پانچ بچے ہیں، بایولوجی میں بیچلر کی ڈگری رکھتی ہے، وہ برسوں سے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ اس کے شوہر کوغزہ پٹی سے باہر جاکر کام کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے‘‘۔
’’35 سالہ باسمہ کے تین بچے ہیں،جب سے اسرائیلیوں نے لیبر مارکیٹ تک غزہ کے لوگوں کی رسائی بند کردی ہے، اس کے شوہر کی کوئی آمدنی نہیں ہے۔ وہ سات سال سے غربت کی زندگی گزار رہی ہے، ذہنی تناؤ کی وجہ سے اکثر غصےمیں رہتی ہے اور یہ غصہ اس کے بچوں کو جھیلنا پڑتا ہے‘‘۔
مجھے کام کرنے والی ٹیم کے تاثرات بھی یاد ہیں:
دستکاری کے بارے میں بھول جاؤ، جب بازار مکمل طور پر بند ہے تو ہم اپنے تیار کیے ہوئے کپڑے کس کو بیچیں گے؟
ہمیں عملیت پسند اور اختراعی طرز اپنانا چاہیے۔ ہر کسی کو بجلی نہ ہونے کی وجہ سے روشنی کے لیے موم بتیاں درکار ہوتی ہیں؛ لیکن پابندیوں کی بنا پر موم بتیاں بنانے کے لیے موم کہاں سے ملے گا؟
ہمیں صابن بنانا چاہیے، ہمیں کپڑے دھونے اور نہانے کے لیے اس کی ضرورت بھی تو ہے۔
دن بدن پابندیاں مزید سخت ہوتی گئیں۔
تم نے مجھے بتایا تھا کہ دو سال بعد فنڈز کی کمی کی وجہ سے وہ مراکز بند ہو گئے۔

اب میں ایسے معقول الفاظ تلاش کر رہی ہوں، جو ہمیں قابلِ سماعت بناسکیں،جن کے ذریعے معنوی خلیج کو عبور کیا جائے اور خاموشی کی دیوار کو توڑا جائے۔ ہم نے اکثر سچ بولنے سے گریز کیا ہے۔ ہم اپنے مخاطب سے بات کرتے ہوئے اکثر غزہ، مغربی کنارہ، مقبوضہ علاقہ جیسے الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ صراحتاً فلسطین کے بارے میں بات کرنا کبھی بھی آسان نہیں رہا۔
آج ہمارے پاس اپنی آنکھوں کے سامنے موجود پاگل پن کو بیان کر نے کے لیے الفاظ نہیں ہیں، منطقیت اور دلیل کی کوئی وقعت نہیں رہی۔ جیسا کہ UNRWA کے کمشنر جنرل فلپ لازارینی نے لکھاہے: ’’دنیا انسانیت سے محروم ہوچکی ہے‘‘۔

میں جس غزہ کو جانتی تھی، اس میں خواتین کی نمایاں حیثیت تھی۔ مجھے ان مزاحمت کار خواتین کے نام یاد ہیں، جنھیں میں نےایریز چیک پوائنٹ پر اسرائیلی فوجیوں کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کل رات ایک فولڈر میں میں نے وہ نام دیکھے، جس کا عنوان ہے ’’نجویٰ کی دستاویزات‘‘۔اس میں یہ نام تھے: ماہا، بسمہ، عبیر، منال، فائزہ، نوین، نورز، نجویٰ، ختام، سہیر، مونا، اولا، تمام، منال، عائشہ اور حنین۔
اب ہم انھیں مزید خاموش نہیں رکھ سکتے۔
کچھ دنوں سے میرے پیٹ میں گانٹھ سی پڑگئی ہے، جس کی وجہ سے سخت تکلیف میں ہوں ۔
تمھارے اگلے پیغام کا انتظار رہے گا۔
سلام
کیتھرین
18 اکتوبر 2023

You may also like