Home تراجم اترپردیش میں انتخابی سیاست کی جہتیں اور مسلمان-پروفیسر محمد سجاد

اترپردیش میں انتخابی سیاست کی جہتیں اور مسلمان-پروفیسر محمد سجاد

by قندیل

پروفیسر، شعبہ ٔ تاریخ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ

ترجمہ:اسعد فیصل فاروقی

(چوتھی و آخری قسط)

یعقوب قریشی، میرٹھ کے گوشت تاجر:
مغربی اتر پردیش میں، سماجی و اقتصادی تبدیلیوں کے نتیجے میں، کچھ نئے سماجی گروہوں نے بھی سیاسی رہنماؤں کو پیدا کرنا شروع کر دیا۔ قریشی برادری (قصابوں) نے حالیہ دہائیوں میں اپنی سیاسی خواہشات کا شدت سے اظہار کیا ہے۔ یہ شاید سب سے پہلے علی گڑھ میں ظاہر ہوا، جہاں قریشی اور سیفی ( لوہے کی صنعت سے منسلک کاریگر) ایک دوسرے کے سیاسی حریف رہے ہیں۔ یہ پہلو گہری تحقیق کاطالب بھی ہے۔ اسی طرح کے واقعات مغربی اتر پردیش کے دیگر حصوں میں بھی نمایاں ہوئے ہیں۔ میرٹھ پر کی گئی ایک فیلڈ اسٹڈی (2010) کے مطابق:
’’میرٹھ کے مسلم حصوں کے سماجی جغرافیہ پر قریشی اور انصاری دونوں حاوی ہیں۔ قریشی برادری جو اقلیت میںہے، ان میں سے بہت سے ،ہندو اور جین طبقہ کی کی غیر موجودگی کی وجہ سے، اب بھی اپنے روایتی پیشہ ورانہ مقام پر قابض ہیں۔ ان کمیونٹیوں( ہندو اور جین) میں ثقافتی ہچکچاہٹ یا گوشت سے پرہیز کی وجہ سے میٹ سیکٹر سے احتیاط برتی جاتی ہے۔میرٹھ کی دو بڑی گوشت کمپنیاں الفہیم میٹیکس اور الثاقب ایکسپورٹ، حلال گوشت خلیج اور روس کو برآمد کرتی ہیں اور ان کی ملکیت قریشی برادری کے معروف کاروباریوں کے پاس ہے۔ جس میں یعقوب قریشی بھی ہیں، جواپنے اصل محلے میں ایک حویلی میں رہتے ہیں۔۔ اور میرٹھ کے سابق میئر شاہد اخلاق بھی ،دونوں دیوبندی تحریک سے قریبی جڑے ہوئے ہیں اور بہوجن سماج پارٹی (BSP) کے ساتھ ریاستی اور وفاقی اسمبلیوں میں منتخب ہوئے ہیں۔بی ایس پی ایک ایسی سیاسی پارٹی ہے جو دلت آزادی کی تحریک سے ابھری اور اب اتر پردیش میں حکمراں پارٹی ہے۔ قریشی، گوشت کے تاجر اور ان کے وسیع خاندانوں، دیوبندی تحریک اور بی ایس پی کے درمیان یہ گٹھ جوڑ ایک متنازعہ سرپرستی نیٹ ورک تشکیل دیتا ہے جو میرٹھ اور خاص طور پر اس کے مسلم علاقوں کی سیاسی حرکیات کا تعین کرتا ہے۔
انصاری جو کہ زیادہ تعداد میں ہیں، ان دنوں زیادہ پیشہ ورانہ تنوع رکھتے ہیں۔ اگرچہ یہ کمیونٹی عام طور پر قریشی کے مقابلے میں تعلیم کو سماجی نقل و حرکت کے ایک وسیلے کے طور پر زیادہ اہمیت دیتی ہے، اس کا معاشی اثرقریشیوں کے مقابلے میں کم ہے۔ محلوں کے کچھ گھروں کی جسامت اور انداز سے پتہ چلتا ہے کہ غربت کے باوجود، مالدار بھی ہیں اور انفرادی کامیابی کی کہانیاں بھی ہیں، خاص طور پر قریشیوں میں جو گوشت کے کاروبار پر غلبہ رکھتے ہیں‘‘ ۔ (۲۷)
اس طرح، حال ہی میں، گوشت کے کاروباری یعقوب قریشی، جن کی میرٹھ، مرادآباد اور سہارنپور میں گوشت کی ایک درجن فیکٹریاں اور گوشت برآمد کرنے والی فرم ہیں، 2007 میں اپنی سیاسی پارٹی، اتر پردیش یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ (UPUDF) قائم کی، اور 2007 میں میرٹھ اسمبلی سیٹ سے منتخب ہوئے۔ بی ایس پی نے 2007 میں جب اپنی حکومت بنائی، تویعقوب قریشی نے ستمبر 2007 میں اپنی یو پی یو ڈی ایف کو بی ایس پی میں ضم کر دیا۔ 2012 میں، جب بی ایس پی نے انہیں ٹکٹ دینے سے انکار کیا تو وہ اجیت سنگھ کی راشٹریہ لوک دل میں شامل ہو گئے، اور 2012 کے اسمبلی انتخابات میں قسمت آزمائی کی لیکن وہ ہار گئے ۔ 2014 میں وہ دوبارہ بی ایس پی میں شامل ہوئے اور مراد آباد سے لوک سبھا کا الیکشن لڑا، لیکن وہ پھر ہار گئے۔ 2017 میں، وہ اور ان کے بیٹے عمران قریشی نے میرٹھ کی دو مختلف اسمبلی سیٹوں پر بی ایس پی کے نشان پر الیکشن لڑا اور دونوں ہار گئے۔
تاہم، وہ اپنی سیاست کو ایسے متنازعہ اور سخت گیر بیانات پر زندہ رکھتے ہیں، جیسے کہ ان لوگوں کے لیے انعامات کا اعلان کرنا جو پیغمبر اسلام کی توہین کا مظاہرہ کرنے والے ڈنمارک کے کارٹونسٹ (2006) اور چارلی ہیبڈو کے عملے (2015) کا سر قلم کر سکے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یعقوب قریشی (نیز پیس پارٹی کے ڈاکٹر ایوب انصاری) پسماندہ کاز کی حمایت کبھی نہیں کرتے، جس طرح  1990 کی دہائی سے مسلسل ڈاکٹر اعجاز علی، اور علی انور انصاری بہار میں پسماندہ مسائل کے لئے کافی مضبوطی سے کام کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ جب ستمبر 2013 کا مظفر نگر فسادہوا تھا، تب اس علاقے اور پیڈا، بجنور میں’پسماندہ کرانتی ابھیان‘( جو کہ2012 میں ایک نعرے ’دلت پچھڑا ایک سمان ؍ ہندو ہو یا مسلمان ‘کے ساتھ قائم کیا گیا تھا) کے متحرک ہونے کے بعد پسماندہ آگہی کا کام شروع ہوا تھا۔ کیونکہ متاثرین مسلمان دھوبی تھے۔یعقوب قریشی جیسے لوگوں نے ان خطوط پر اپنی سیاست کو کبھی پیش نہیں کیا۔(۲۸) یہ حقیقت دلچسپ کے ساتھ ساتھ تجسس بھری بھی لگتی ہے کہ بی ایس پی کی وفادار، موجودہ سماج وادی پارٹی حکومت پرفسادات پر قابو نہ پانے یا پسماندہ اور غریب مسلمانوںکے بڑی تعداد میں بے گھر ہونے اور نقل مکانی کرنے کے لیے سخت الفاظ میں الزام عائد کرتی ہے۔ اگرچہ پسماندہ کے کچھ دانشور اور کارکن بی ایس پی کی طرف زیادہ جھکاؤ دکھا رہے ہیں، لیکن بی ایس پی کے مقابلے مسلمانوں کے باشعور طبقے کا جھکاؤ ایس پی کی طرف زیادہ دکھائی دے رہا ہے۔
2008 میں، بٹلہ ہاؤس (دہلی) میں ایک پولس انکاؤنٹر ہوا، جس میں کچھ مسلم نوجوانوں کو، جن پر دہشت گردی سے تعلق رکھنے کا شبہ تھا، ہلاک کر دیا گیا۔ ان نوجوانوں کا تعلق اعظم گڑھ سے تھا جو سماج وادی پارٹی (ایس پی) کے گڑھ میں سے ایک ہے۔ ایس پی نے اس معاملے پر خاموش رہنے کا انتخاب کیا تھا، اسی طرح بہوجن سماج پارٹی( بی ایس پی) نے بھی یہی رویہ اپنایا۔ ایس پی حکومت کے خلاف یہ مخصوص شکایت 2008 میں ایک مسلم سیاسی تنظیم، راشٹریہ علماء کونسل کے وجود میں آنے کا فوری سبب بھی سمجھی جاتی ہے۔
اس کے مقابلے میں، ایک اور سیاسی جماعت، پیس پارٹی آف انڈیا (PPI) ہے، جس کے سربراہ ایک سرجن ڈاکٹر ایوب انصاری ( جوگورکھپور میں پیدا ہوئے اور بنارس ہندو یونیورسٹی کے سابق طالب علم رہے ہیں) ہیں، غیر اشراف ذات سے تعلق رکھتے ہیں، جو کہ عام طور پر مذہب پر مبنی سیاست کے کاروبار میں شامل نہیں ہیں۔ یہ پارٹی بنیادی طور پر مذہبی شناختوں میں موجود پسماندہ ذاتوں کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اس پارٹی نے 2009 کے انتخابات میں 20 لوک سبھا سیٹوں سے اپنے امیدوار کھڑے کیے تھے۔ ان میں سے وہ کوئی بھی نہیں جیت سکے، حالانکہ، ان میں سے کچھ امیدواروں نے اچھی خاصی تعداد میں ووٹ حاصل کیے، اور کچھ سیٹوں پر مؤثر طریقے سے سیکولر پارٹیوں کونقصان پہنچا، جس کی وجہ سے مضبوط پارٹیاں خلیل آباد، ڈومریا گنج، سنت کبیر نگر جیسی سیٹوں سے ہار گئیں۔
2012 کے اسمبلی انتخابات میں، پیس پارٹی کو سنجیدگی سے لیا گیا، اور اس نے کئی چھوٹی پارٹیوں کے ساتھ اتحاد قائم کر لیا جو اس وقت انتخاب میںکھل کر سامنے آئیں تھیں۔ ادت راج کی جسٹس پارٹی، مختار انصاری کی قومی ایکتا دل (کیو ای ڈی)، بھارتیہ سماج پارٹی، جن وادی پارٹی، مومن کانفرنس، لوک جن شکتی پارٹی، اپنا دل، پاروتیہ سماج، توقیر رضا خان کی اتحاد ملت کونسل وغیرہ۔(۲۹) اس اعلان نے بی ایس پی کو بے چین کردیا۔ تنظیمی ڈھانچے کا فقدان، دیگر مادی اور انسانی وسائل اور تجربے کی کمی، جو کہ ان کو کوئی اہم کامیابی حاصل کرنے سے روکتی ہے۔ اس بڑے اتحاد کو محض چار نشستوں (بشمول دو مسلمانوں) اور 2.35 فیصد ووٹوں پر مطمئن ہونا پڑا۔ علماء کونسل کے مقابلے میں، پیس پارٹی کی قیادت مولوی کے ہاتھوں میں نہیں ہے اور سماجی طور پر زیادہ جامع اور متنوع ہے۔ مجموعی طور پر، 2012 کی اسمبلی کو اسمبلی کی کل 403 نشستوں میں سے تقریباً 68 مسلم لیجسلیچر منتخب ہوکر آئے تھے (تقریباً 17%  لیسلیچر مسلمان ہیں، جو کہ اب تک کی سب سے زیادہ)۔ ہمارے پاس یہ بتانے کے لیے کوئی خاص رپورٹ نہیں ہے کہ کیا واقعی مسلمان اراکین اسمبلی کی اس بڑی تعداد نے مسلمانوں کے مسائل کو اٹھانے کے لیے اسمبلی کے اندر تقریریں کی تھیں اور بحث مباحثہ کیا تھا۔ خبروں اور جائزوں پر غور کریں تو مسلمان لیجسلیچروں کی جانب سے قانون سازی میں معیاری مداخلت کے تعلق سے ہمیں کوئی حوصلہ افزا بات نہیں ملتی۔یہی وہ بات ہے جس پر، مسلم رائے سازوں کے طبقے یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ مسلم نمائندگی میں اضافہ ضروری طور پر مسلمانوں کو بااختیار بنانے کے عمل کو یقینی نہیں بنائے گا۔
جون-جولائی 2012 میں، جیسا کہ پہلے کہا گیا، شہری بلدیاتی انتخابات میں، خاص طور پر مغربی یوپی میں، جہاں مسلمان تقریباً 28 فیصد ہیں، کو نمائندگی کا مساوی حصہ حاصل ہوا۔ روہیل کھنڈ کے ذیلی علاقے میں، مسلمانوں کو، جن کی آبادی 34 فیصد ہے، 54 فیصد نمائندگی ملی۔ بندیل کھنڈ کے ذیلی علاقے میں 7% مسلمانوں کو 9% نمائندگی ملی۔ اودھ ذیلی خطہ، جس میں 16% مسلمان ہیں، کو 29% نمائندگی ملی۔ مشرقی یوپی میں، 22 فیصد آبادی کے ساتھ، انہیں 30 فیصد نمائندگی ملی۔ اے کے ورما نے یہ بھی نشاندہی کی کہ مسلم ارتکاز کے ان ذیلی خطوں میں، دلتوں کے لیے نسبتاً کم نشستیں مخصوص ہیں، اور او بی سی کی نشستوں پر، مسلم او بی سی امیدواروں نے کامیابی کی شرح ہندو او بی سی کے مقابلے میں زیادہ درج کی ہے۔(۳۰) مسلمانوں کی اس بڑھی نمائندگی سے ممکنہ طور پر ہندوؤں کے درمیان خطرے کی گھنٹی بجنا شروع ہوئی ہو، جس نے ممکنہ طور پر خطرے سے دوچار ہندوؤں کے ہندوتوا کے نعرے کو اعتبار فراہم کرنے میں مدد کی ہو، جس نے بعد کے انتخابات میں بی جے پی کے حق میں ہندو اکثریتی استحکام کو ہوا دی۔
یوپی میں مسلم معاشرہ فرقہ وارانہ اور بین المسلکی شناخت پر مبنی متنوع آبادیاتی گروپ بناتی ہیں۔ یوپی کے مسلمان اسلام کے سنی اور شیعہ دونوں فرقوں کو مانتے ہیں، اور ان کے درمیان ’باہمی‘کشیدگی بھی چلتی ہے۔ اگرچہ سنیوں کی اکثریت ہے، لیکن مختلف مذہبی تحریکیں جو مختلف قانونی تشریحات اور طرز عمل کی وکالت کرتی ہیں انہیں تقسیم کرتی ہیں۔ ان میں سب سے نمایاں دیوبندی اور بریلوی فرقے ہیں۔ مسلم مذہبی قیادت نے یوپی کے مسلمانوں کو مختلف سمتوں میں کھینچا ہے، جس میں سرکردہ لیڈروں نے ایس پی، بی ایس پی، کانگریس اور بی جے پی کی واضح یا کھل کر حمایت کی ہے۔
یوپی کے شیعہ طویل عرصے سے یہ استدلال کرتے رہے ہیں کہ سنیوں کو ضرورت سے زیادہ سیاسی سرپرستی اور اقتدار تک رسائی حاصل ہے۔ ریاست کے سب سے ممتاز شیعہ سیاسی رہنما، مولانا کلب جواد، اور ان کی تنظیم، مجلس علمائے ہند، نے کبھی بی جے پی کی حمایت کی ہے یا ہندوستان بھر کے مختلف انتخابات میں برسراقتدار کی مخالفت کی ہے۔ حالیہ برسوں میں، جواد سختی سے ایس پی کے مخالف رہے ہیں، اور انہوں نے بی ایس پی اور بی جے پی کی کھل کرحمایت کی ہے۔
بریلوی مسلک کے بانی امام احمد رضا خان (1856-1921) کی اولاد یں ان کے پیروکاروں میں کافی اثر و رسوخ رکھتی ہیں۔ مولانا توقیر رضا خان، احمد رضا خان کے سیاسی طور پر سب سے زیادہ سرگرم پڑپوتے ہیں، جنہوں نے 2012 میں اپنی سیاسی جماعت اتحاد ملت کونسل بنائی، الیکشن لڑا اور 190,000 سے زیادہ ووٹ کے ساتھ ریاستی اسمبلی کی ایک نشست بھی حاصل کی۔ تب بھی مختلف پارٹیوںکے سیاسی رہنما بریلی سے اپنی حمایت حاصل کرنے کے لیے ایک قطار میں کھڑے رہتے ہیں۔ خان کو ایک سیاسی گرگٹ سمجھا جاتا ہے، جنہوں نے اپنے پیروکاروں کو 2009 میں کانگریس اور 2014 میں بی ایس پی کی حمایت کرنے پر زور دیا۔
2017 کے انتخابات بھی تیزی سے بدلتے ہوئے سماجی و اقتصادی منظر نامے کی عکاسی کرتے ہیں۔ جس طرح 1920 اور 1930 کی دہائیوں میں ہندوؤں اور مسلمانوں کی ذیلی برادریوں میں مسابقتی فرقہ واریت تھی، اسی طرح حالیہ دہائیوں میں بھی ایسا ہی ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ لبرلائزڈ یعنی آزاد معیشت نے کاریگر گروپوں کو زیادہ معاشی مواقع فراہم کئے۔ موٹر مکینکس، الیکٹریشن، پلمبر، ویلڈر، میسن، ٹیکسی ڈرائیور، درزی، ٹائر ٹیوب ریٹیلرز اور پنکچر لگانے والے، اب اپنی معاشی حالت کو بہتر کرنے لگے۔ یہ معاشی تبدیلی، خلیجی ممالک میں مقیم بلیو کالر کارکنوں (  تکنیکی کاریگروں اور مزدوروں) کی ترسیلات زر کی معیشت کے ساتھ مل کر، زیادہ واضح، جارحانہ ہو گئی۔ یہ معاشی بحالی ان کے پکے گھروں اور نسبتاً بہتر طرز زندگی میں بھی نظر آنے لگی۔ خلیج پر مبنی خوشحالی مقامی خردہ (کھدرہ )یعنی رٹیل تجارت میں مسلمانوں کے داخلے میں بھی ظاہر ہوئی جس نے مقامی ہندو خردہ فروشوں، جنہیں مسلمانوں کے ساتھ اب تک مقابلے کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا،کے ساتھ اقتصادی مقابلہ،چپقلش اور دشمنی پیدا ہوئی۔ اس متعلقہ دولت کے ساتھ، مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی بڑی تعداد دیہی اور شہری بلدیاتی اداروں میں اپنی نمائندگی کو بڑھا سکی ہے۔ بہت سے علاقوں میں ہندوؤں کے متعلقہ سماجی گروہ اور طبقات اس قسم کی دولت حاصل نہیں کر سکے۔ اس کے علاوہ، حقیقت یہ ہے کہ پہلے کے غریب اور بھوکے مسلمان، اب اتنے غریب اور معاشی طور پر منحصر نہیں رہے ہیں، جتنے وہ پہلے تھے۔ اس تبدیلی نے ان محکوم برادریوں کو بھی ثابت قدم اور پر اعتماد بنا دیا۔ اس تبدیلی نے بذات خود حسد اور رقابتیں پیدا کیں، جس کے نتیجے میں ذیلی برادریوں میں مسابقتی فرقہ واریت کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔
تاریخی طور پر ایسا درست نہیں ہے کہ پسماندہ مسلمانوں کی اکثریت نے واقعی بہت زیادہ معاشی بہتری کی ہے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگ اب اتنے غریب اور محتاج نہیں رہے جتنے وہ پہلے تھے، یہ بھی فرقہ وارانہ منافرت کی حالیہ سر اٹھانے کی ایک وجہ رہی ہے۔جب تک یہ نفرت برقرار رہے گی، فرقہ وارانہ تفرقہ بازی اور تشددکی سیاست غالب رہے گی۔ انتخابات کے وقت اس طرح کی فرقہ واریت کی شدت میں اضافہ ہو تا رہے گا۔ اس طرح کے حالات میں فوجداری منصفی نظام اورگروہی فساد کی روک تھام ہمیشہ کمزور اور ناکام رہی ہے۔ اس سے حالات میںمزید اضافہ ہو جاتا ہے۔ آنے والے انتخابات بہت زیادہ مختلف نہیں ہوں گے، قطع نظر اس سے کہ کونسی پارٹی؍اتحاد جیتے یا ہارے۔
نو۔ہندوتوا کی برہنہ نمائش کے تناظر میں، مسلم رائے دہندگان پریشان ہیں ۔آیا انتخابات میں حصہ لیں اور غیر بی جے پی سیاسی  پارٹیوں کی حمایت کریں یا غیر فعال رہیں کیونکہ کسی بھی سیاسی پارٹی نے ایمانداری کے ساتھ کبھی بھی ان کی کمیونٹی اور معاشرے کے مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کی کوئی پرواہ اور کوئی کوشش نہیں کی۔
  2014 سے،بی جے پی نے اپنا گیم پلان واضح کر دیا ہے۔ اس نے لوک سبھا یا ودھان سبھا انتخابات میں ایک بھی مسلم امیدوار کو کھڑا نہ کرنے کا خطرہ مول لیا ہے۔ موجودہ حکمران جماعت کے لیے مسلمان ایک اچھوت بنے ہوئے ہیں۔ یہاں تک کہ جب اکھلیش (ایس پی) اور مایاوتی (بی ایس پی) نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں ہاتھ ملایا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لوک سبھا کی 80 میں سے بی جے پی نے 65 سیٹوں پر جیت حاصل کی۔ بی جے پی کے خلاف سیاسی محاذ بنانے کی کسی بھی کوشش کو بی جے پی کی مشینری کی جانب سے کامیابی سے ہندوتوا اور اکثریتی فرقہ پرستی پر حملے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ اس طرح بی جے پی کی تیل سے بھری مشینری نے اپنی دھنک اور مہک پھیلا رہی ہے۔
کچھ لوگ یہ استدلال کریں گے کہ انتخابی دوڑ میں کسی مسلمان کے خلاف ہر پرتشدد واقعے (اور لنچنگ) کو امن و امان  کے خطرے کے طور پراٹھانے کے بجائے کمیونٹی پر حملے کے طور پر سمجھنا، دراصل بی جے پی کو تعاون دینے میں مسلم کمیونٹیوں کا (ناپختہ؟) ردعمل ہے۔ تاہم دوسرے لوگ یہ استدلال کریں گے کہ لنچنگ ریاستی حمایت یافتہ ظلم و تشدد پر مبنی ہے ،جسکو انجام دینے کے لئے زعفرانی طوفان برداروں کو نہ صرف ریاست کی جانب سے مستثنیٰ قرار دیا گیا ہے بلکہ انہیں مسلم مخالف نفرت کی دیرینہ نظریاتی خوراک بھی فراہم کی جاتی ہے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارموں پر سرگرم، پڑھے لکھے مسلمانوں کے ایک گروپ کا افغانستان میں طالبان کے موقف کا خیرمقدم کرنے کا رد عمل، یوگی حکومت کے لیے اس وقت مددگار ثابت ہو ا، جب ان کی حکومت کو انتظامی نااہلی سمیت مختلف معاملات پر سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا، خاص طور پر کووڈ کے دوران بری طرح سے بدانتظامی، جس کے سبب مئی-جون 2021 میں ایک بڑی تعداد میں کووڈ اموات ہوئیں، اور دوسری جانب حکومتی دفتروں میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی بھی حکومت کو پریشان کررہی تھی۔ اس کے علاوہ خوردنی تیل اور سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ اور ملازمتوں کے بحران جیسے مسائل پر یوگی حکومت کو سخت چیلنجوں کا بھی سامنا کرنا پڑرہا تھا۔
حواشی
۲۷۔ برونو ڈی کورڈیر، ’’Challenges of Social Upliftment and Definition of Social Identity‘‘، جرنل آف مسلم ماینرٹی افیئرس، لندن، 30؍ 4؍ 2010، صفحہ 479-500۔
۲۸۔محمد سجاد،’’Invisibilizing Subaltern Identities of Muslim Victims: The Bijnor Violence 2016‘‘، انڈین جرنل آف سیکولرازم، 21؍فروری2017، صفحہ 17۔29
۲۹۔ اسمر بیگ،’’The Muslim Political Parties in Uttar Pradesh and Assam‘‘، EPW، 27؍ اکتوبر 2012،
۳۰۔ اے کے ورما،’’Muslim Resurgence in Urban Local Bodies of Utter Pradesh‘‘، EPW، 6؍ اکتوبر 2012۔

You may also like