Home تراجم اردو رسم الخط ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے لیے کیوں اہم ہے ؟

اردو رسم الخط ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کے لیے کیوں اہم ہے ؟

by قندیل

مضمون نگار: شاہ زماں حق
مترجم : محمد ریحان

ہندوستان کی گنگا جمنی تہذیب کی جڑیں اس کے شاندار ماضی سے جڑی ہیں اور ہندوستان کے اسی شاندار ماضی سے اردو رسم الخط کا رشتہ بھی استوار ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف صرف اہل ہند نہیں کرتے بلکہ بیرون ممالک کے وہ دانشوران بھی کرتے ہیں جن کی نظر ہندوستان کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت پر ہے۔

حال ہی میں ایک نوجوان فرانسیسی طالب علم نے پیرس کی یونیورسٹی کے دفتر میں مجھ سے ملاقات کی۔ اس نے یہ خواہش ظاہر کی کہ وہ اردو رسم الخط سیکھنا چاہتا ہے۔ در اصل وہ ہندوستانی تصوف کی تعلیم حاصل کرنے ترکی گیا تھا۔ وہاں اس کے اساتذہ نے اسے مشورہ دیا کہ ہندوستانی تصوف کی تعلیم میں جو چیز سب سے پہلے کرنے کی ہے وہ یہ کہ اردو رسم الخط سے واقفیت حاصل کی جائے۔ یہ حقیت پر مبنی صلاح اس بات کا اشاریہ ہے کہ اگرچہ مستقبل میں اردو رسم الخط کو خطرہ درپیش ہے تاہم ہندوستان کے ماضی سے اس کا رشتہ کس قدر مضبوط ہے۔

اردو کو ہندوستان کے آئین میں تسلیم شدہ ۲۲سرکاری زبانوں میں سے ایک ہونے کا شرف حاصل ہے۔تاہم، اس کے منفرد فارسی-عربی رسم الخط کو منسوخ کیے جانے کے بار بار مطالبات کی وجہ سے کہیں نہ کہیں خطرہ لاحق ہے۔مبصرین و محققین ایک عرصے سے اس بات کی وکالت کرتے آ ر ہے ہیں کہ اردو رسم الخط کو لاطینی یا دیوناگری حروف تہجی (بالترتیب انگریزی اور ہندی کے لیے مستعمل) سے تبدیل کرنے سے مختلف قوموں کے درمیان نزدیکی بڑھے گی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ ملے گا۔لیکن یہ آپسی اتحاد اور زبان کو ترقی دینے والی باتیں در اصل ایک گہری سازش کا حصہ ہیں۔ اردو رسم الخط کو تبدیل کرنے سے زبان اور ان روابط کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا جن کو اردو برصغیر کی غیر معمولی وسیع اور پیچیدہ تہذیب مل کر فروغ دیتی ہے۔ اردو رسم الخط کو درپیش خطرات اور اس کے تحفظ کی اہمیت کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے اور یہ جائزہ لیا جائے کہ اس کا مستقبل کیا ہے؟

ہندوستان میں اردو رسم الخط کی تاریخ

فرانسیسی فونٹ ڈیزائنر Ladislas Mandel نے لکھا ہے کہ "ایک حرف صرف آواز نہیں بلکہ یہ بنی نوع انسان کی شناخت ہوتا ہے۔” دراصل رسم الخط انسانیت کے انجینئرنگ کے عجائب میں سے ایک ہے، اورسب سے پہلے تقریباً ۵۳۰۰ سال قبل قدیم سمیریا میں تحریر کے نظام کو ترقی ملی، جس میں بولے ہوئے لفظ کو پتھر پر سجایا گیا۔ اس کے بعد کی صدیوں میں سینکڑوں مختلف رسم الخط ایجاد کیے گئے۔ ان میں سے تقریباً ۳۰۰ آج بھی مستعمل ہیں۔

اردو رسم الخط پر فارسی۔عربی رسم الخط کا گہرا اثر ہے جس کوایران میں اسلام کے آنے کے بعد ترقی ملی، لیکن اس رسم الخط پر سنسکرت کے اثرات بھی نمایاں ہیں۔ اس نے جدید پاکستان اور شمالی ہندوستان کے علاقوں میں اپنے قدم جمائے ۔ مذکورہ خطے کی مسلم اور ہندو، دونوں کی تہذیب و ثقافت پر اس کے اثرات نمایاں ہیں۔اردو رسم الخط کے بنا مرزا غالب، علامہ اقبال اور فیض احمد فیض جیسے مسلم شاعروں کی عقیدت میں ڈوبی ہوئی غزلیہ شاعری کا تصور نا ممکن ہے۔ رسم الخط کے حوالے سے یہ بات شاید سب کے علم نہ ہو کہ سولہویں صدی میں ہندوؤں کے تہوار ہولی پر پہلی نظم بھی مخدوم خادم نے اسی رسم الخط میں لکھی تھی ۔

اردو رسم الخط کے خلاف سازش کی روایت:

اردو رسم الخط کی مذکورہ خصوصیات کے باوجود، ہندوستان میں اردو اور اس کے منفرد رسم الخط کو طویل عرصے سے خطرہ لاحق رہاہے۔ 19ویں صدی کے مشہور ہندی شاعر بھارتندو ہریش چندر نے اردو کو "ناچنے والی لڑکیوں اور طوائفوں کی زبان” قرار دیا ہے۔ یہ ایک ایسا توہین آمیز کلمہ ہے جو آج تک اردو مخالفین کے لبوں پر تیرتا رہتا ہے۔

بیسویں صدی کے اوائل میں اردو رسم الخط کے خاتمے کی بات جن لوگوں نے کی وہ بہت ہی حیران کن ہے۔سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی جن کی ادبی شہرت کا انحصار اردو رسم الخط پر تھا انہوں نے بھی اس کےختم کیے جانے کی وکالت کی تھی۔ یہ دونوں مصنفین چونکہ ترقی پسند نظریے سے متاثر تھے اور اس تحریک سے وابستگی کی وجہ سے انہیں اس بات پر یقین تھا کہ لاطینی حروف تہجی میں اردو رسم الخط کی تبدیلی زبان کی بقا کے لیے بہت ضروری ہے۔شاید وہ بیسویں صدی میں ہونے والی اسی طرح کی اصلاحات سے بھی متاثر ہوئے ہوں گے، خاص طور پر 1928 میں اتاترک کے ذریعہ ترک زبان کی لاطینی میں تبدیلی کےعمل سے، جس نے ایک دہائی تک پوری آبادی کو ناخواندہ بنائے رکھا اور پلک جھپکتے ہی 600 سالہ ثقافتی اور لسانی ورثے کو ختم کر دیا۔

تقریباًاسی زمانےمیں سوویت یونین کی باکو ٹورکولوجیکل کانگریس (Baku Turcological Congress) میں 131 کمیونسٹ مندوبین نے آذربائیجان اور آرکٹک کے درمیان رہنے والی 50 سے زیادہ نسلی اقلیتوں کی زبانوں پر لاطینی حروف تہجی نافذ کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس فیصلے نے بڑے پیمانے پر ناخواندگی کو جنم دیا اور جس کے نتیجے میں خطے کے بہت سے مسلمانوں کا ان کی مذہبی کتاب قرآن سے رشتہ منقطع ہو گیا۔ بقول فرانسیسی صحافی ژابیر مونتے آر (Xavier Montéhard) یہی فیصلہ سوویت یونین کے زوال کا باعث بنا۔

بیسویں صدی میں جدید کاری کی تحریکوں کے زیر اثر بہت سی روایتی رسم الخط کی گردنوں پر تلواریں لٹک رہی تھیں۔ اردورسم الخط کی یہ خوش قسمتی ہے کہ مہاتما گاندھی جیسی ہندوستان کی دیگر عظیم ہستیوں کی اسے پشت پناہی حاصل رہی۔ ہندوستانی تہذیب میں اردو کی جو امتیازی شان رہی ہے اس کو ملک کے 1949 کے آئین میں تسلیم کیا گیا تھا۔

اردو رسم الخط کو درپیش جدید خطرات:

اردو کی تاریخی اہمیت مسلم ہونے کے ساتھ ساتھ آئین ہند میں اس کے وجود کو اس کے اپنے رسم الخط کے ساتھ اعتبار و وقار حاصل ہے۔ تاہم، نہ تو آئین اور نہ ہی دوسرے رسم الخط کی منسوخی سے ہونے والے نقصانات کے ثبوت و براہن نے اردو رسم الخط کو مٹانے کی بات کرنے والوں کی زبان پر تالا لگایا ہے۔ موجودہ دور میں اس طرح کی آواز اٹھانے والوں میں اردو بولنے والوں کی نوجوان نسل اور ہندو قوم پرست پیش پیش ہیں۔ اول الذکر گروپ مختلف سماجی رابطے کی سائٹس پر رومن اردو کی تائید میں اپنی مادری زبان کے رسم الخط سے ناراضگی کا اظہار کر رہا ہے۔ثانی الذکر گروپ کا رویہ تو زیادہ قابل مذمت ہے۔ وہ اس غلط عقیدے کے پیش نظر کہ ہندی اور اردو ایک ہی زبان ہیں، یہ مشورہ دیتے ہیں کہ اردو کو دیوناگری رسم الخط اپنا لینا چاہیے اور اپنا رسم الخط چھوڑ دینا چاہیے۔ ہندوستان میں اس طرح کے موقف رکھنے والوں کا استدلال یہ ہوتا ہے کہ اردو رسم الخط غیر ملکی ہے اور اس کا تانا بنا مسلم تہذیب سے ہی ملا ہے۔ مزید یہ کہ پاکستان ، جس سے ہندو قوم پرست خار کھائے رہتے ہیں، نےاپنے قیام کے اول دن سے ہی اردو کو اس کے اپنے رسم الخط کے ساتھ ملک کی قومی زبان کے طور پر تسلیم کر لیا تھا۔

اگر اس طرح کی باتوں پر عمل کرتے ہوئے اردو رسم الخط کو باضابطہ طور پر کسی متبادل رسم الخط میں بدل دیا جائے تو اس کے کیا نتائج سامنے آئیں گے؟ ترکی اور سوویت یونین کے تاریخی شواہد سے تو خیر اتنا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس تبدیلی سے شرح خواندگی اور تہذیب پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔

ابھی حال ہی میں، ماہرین تعلیم شائرہ نرماتوا (Shaira Narmatova) اور میخریبون عبدالرحمانوا (Mekhribon Abdurakhmanova) نے اس حقیقت کو سب کے سامنے پیش کیا ہے کہ ازبکستان کا 1993 میں سیریلک کو لاطینی حروف تہجی میں بدلنے کا فیصلہ کس طرح نوجوانوں کی شرح خواندگی میں نمایاں کمی کا باعث بنا۔ اردو رسم الخط کے حوالے سے یہاں اس بات کا ذکر کرتا چلوں کہ 2022 میں ساہتیہ اکادمی کے انعام سے سرفراز ہونے والے اردو ادیب ڈاکٹر انیس اشفاق کا اردو کے تعلق سے یہ بیان ہے کہ اگر اردو کا رسم الخط تبدیل کیا گیا تو یہ زبان ختم ہو جائے گی۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اردو رسم الخط اور صدیوں پر محیط اس کے ثقافتی ورثے کو بچانے کے لیے کیا اقدام اٹھائے جا سکتے ہیں؟

اردو رسم الخط کا تحفظ:

اردو کو مختلف نوعیت کے خطرات درپیش ہیں، لیکن ان سب کا علاج ایک ہی ہے: یعنی اردو رسم الخط کی انفرادی شان اور ہندوستانی و عالمی تہذیب و ثقافت میں اس کے کردار کی معنویت کو سمجھنا۔ اردو رسم الخط کی اہمیت کے باب میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی تمام آوازیں بولی جانے والی اردو کے عین مطابق ہوتی ہیں۔ دیوناگری رسم الخط جو ہندی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے وہ اردو کے نظام مصمت کے لیے موزوں نہیں ہے۔ اردو کے کئی مصمتے ایسے ہیں جن کے متبادل دیوناگری میں نہیں پائے جاتے ہیں، مثال کے طور پر؛ خ، ذ، ز، ژ، غ اور ق۔

بول چال کی اردو کو رومن حروف تہجی میں لکھنے اور بولنے میں بھی اسی طرح کے مسائل موجود ہیں۔ اردو لغت نویس رؤف پاریکھ کا یہ ماننا ہے کہ رومن حروف تہجی کو اردو یا کسی دوسری زبان کو لکھنے کے لیے کیسے استعمال کیا جا سکتا ہے جب کہ اس کے اندر تمام آوازیں موجود نہیں ہیں۔کسی بھی دوسری زبان کا رسم الخط بول چال کی اردو کی کبھی بھی ٹھیک ٹھیک نمائندگی نہیں کر سکتا۔ کسی دوسرے رسم الخط کو اردو پر مسلط کرنے سے اس کے ذخیرہ الفاظ ختم ہو جائیں گے۔ اس کا نقصان یہ ہوگاکہ اردو کے ادبی ورثے کو آنے والی نسل سمجھ نہیں پائے گی۔ دوسری زبان کے لیے تیار کردہ کوئی بھی رسم الخط صحیح معنوں میں بولی جانے والی اردو کی نمائندگی نہیں کر سکتا۔

ہر رسم الخط کا رشتہ انسانی تہذیب سے جڑا ہوتا ہے، وہ اس تہذیب کا عکس ہوتا ہے۔ اس کو ختم کرنے سے ہمارے عالمی ورثے کا ایک حصہ بھی ختم ہو جاتا ہے۔ خاص طور پر اردو رسم الخط کو ختم کرنے سے شدید نقصان ہوگا کیونکہ اردو رسم الخط ہندوستانی ثقافت کا اہم حصہ ہے۔ اس لیے اردو کے تحفظ کی کوشش در اصل برصغیر کی قدیم اور قابل فخر تاریخ کو محفوظ کرنا ہے۔ ہمیں یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ اردو اس خطے کی ہندو اور مسلم ثقافتوں کے ساتھ کس طرح جڑی ہوئی ہے۔ اس کے الفاظ کو کسی اور حروف تہجی میں بدلنے کی کوشش کرنا ایسے ہی ہے جیسے تاج محل کو منہدم کرکے اسے مختلف اینٹوں کی مدد سے دوبارہ تعمیر کیا جائے۔ ایسا کرنے پر یہ ممکن ہے کہ اس میں کچھ مماثلتیں تو باقی رہیں لیکن عمارت بالکل مختلف گی۔

ملک ہندوستان کی حیرت انگیز گنگا جمنی تہذیب کاپورا سلسلہ اس کے شاندار ماضی سے جڑاہے۔ملک کی رنگا رنگی کے عناصر کو جبراً ختم کرنے کی کوشش ماضی سے ہمارے روابط کو منقطع کر دے گی اور ہمارا مستقبل بھی اس کے شدید نقصان سے بچ نہ سکے گا۔ہندوستان کے تاریخی عناصر کو مٹانے والوں کی لوگ جتنا زیادہ حمایت کرتے ہیں اتنا ہی وہ اس فکر اور سوچ کو بھی فروغ دیتے ہیں کہ بعض رسم الخط، زبانیں، ثقافتیں اور لوگ ہندوستان سے تعلق نہیں رکھتے ہیں۔اردو رسم الخط کا تحفظ ہندوستان کی سماجی جمہوریت کے لیے ایک ضروری اور دانشورانہ کوشش ہے۔ یہ کہنا کوئی مبالغہ نہ ہوگا کہ ہمارا ثقافتی تنوع اسی پر منحصر ہے۔

You may also like