نئی دہلی:ایک طرف جہاں مرکزی حکومت نے لاک ڈائون میں پھنسے مہاجر مزدوروں، طالب علموں اور سیاحوں کو نکالنے کے لئے ڈھیل دینے کا اعلان کیا ہے۔ وہیں اتر پردیش میں مہاراشٹر سے آئے 7 مہاجر مزدور کورونا وائرس سے متاثر پائے گئے ہیں۔ اس کے بعد سے حکومت اور انتظامیہ کے لئے سر درد بڑھ گیا ہے۔ یہ تمام متاثرین بستی ضلع میں ہیں۔ راحت والی بات یہ ہے کہ سب کو کووارنٹین کیا گیا تھا۔ اب ان سب کو مقامی اسپتال میں داخل کروا دیا گیا ہے اور کووارنٹین سینٹر کو سینٹائزکیا جا رہا ہے۔بتایا جا رہا ہے کہ یہ علاقہ باہر سے آئے مہاجر مزدور جو کہ کورونا وائرس سے متاثرہیں اس کی بڑی کلسٹر بن گیا ہے۔ غور طلب ہے 25 مارچ سے جاری لاک ڈائون کے اعلان کے بعدلاکھوں مہاجر مزدور ملک کے کئی حصوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ کرونا وائرس بیماری سے اب تک 1200 افراد ہلاک ہو چکے ہے اور 37000 سے زائد معاملے سامنے آ چکے ہیں۔کئی مہاجر مزدور ایسے بھی ہیں جو سینکڑوں کلومیٹر پیدل ہی چل کر اپنے گائوں کی طرف روانہ ہو گئے۔ ان میں سے کئی ایسے بھی ہیںجو راستے میں اپنی جان گنوا بیٹھے۔ ملک کے حصوں میں پھنسے مزدور مسلسل گھر جانے کا مطالبہ کررہے تھے اور اس کو لے کر یوپی سمیت کئی ریاستی حکومتیں اپنی طرف سے پہل بھی کر رہی تھیں۔ اس پر کافی اختلافات بھی تھا۔آخر کار مزدوروں کی حالت کودیکھتے ہوئے مرکزی حکومت نے ڈھیل دے دی اور کئی جگہوں سے خصوصی ٹرینیںبھی چلائی جا رہی ہیں۔
Covid 19
ممبئی:مہاراشٹر پولیس نے لاک ڈائون کے حکم کو سختی سے نافذ کرتے ہوئے ریاست بھر میں لاک ڈائون کی خلاف ورزی کرنے والے 85500 سے زائدلوگوں کے خلاف معاملے درج کئے ہیں۔ جس سے ابھی تک 16962 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ایک افسر نے بتایا کہ مارچ سے کووڈ -19 سے لڑتے اور لاک ڈائون کو نافدکرتے ہوئے پولیس نے حکم کی خلاف ورزی کرنے والے 85586 لوگوں کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 188 کے تحت کیس درج کیا۔انہوں نے بتایا کہ لاک ڈائون سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کرنے پر 16962 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس مدت کے دوران کم از کم 161 پولیس اہلکار کرونا وائرس سے متاثر پائے گئے۔ان میں سے 21 افسر ہیں۔ افسر نے بتایا کہ ریاست میں پولیس پر حملے کے کم از کم 167 کیس درج کئے گئے جن میں ابھی تک 580 ملزمین کو گرفتار کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس نے لاک ڈاو?ن کے دوران غیر قانونی نقل و حمل کے 1237 معاملات کو درج کیا اور 50000 سے زائدگاڑیوں کو ضبط کیا۔انہوں نے بتایا کہ پولیس نے اس مدت کے دوران مختلف جرائم کے لئے جرمانے کے طور پر 3.02 کروڑ روپے کی رقم جمع کی۔ افسر نے بتایا کہ پولیس نے الگ تھلگ رہنے سے متعلق قوانین کی خلاف ورزی کے لئے کم از کم 622 افراد کو حراست میں لیا۔
نئی دہلی:مرکزی وزارت صحت نے ملک کے تمام 733 اضلاع کے لئے کلر میپ جاری کیا ہے جس میں کرونا وائرس مریضوں کی تعداد کی بنیاد پر انہیں ریڈ، اورنج یا گرین زون میں تقسیم کیا ہے۔ دارالحکومت دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں سمیت ملک کے مرکزی وزارت صحت نے ملک کے تمام 733 اضلاع کے لئے کلر میپ جاری کیا ہے جس میں کرونا وائرس مریضوں کی تعداد کی بنیاد پر انہیں ریڈ، اورنج یا گرین زون میں تقسیم کیا ہے۔ دارالحکومت دہلی اور ممبئی جیسے بڑے شہروں سمیت ملک کے 130 ضلع ریڈ زون میں ہیں۔ وہیں 319 اضلاع کو گرین زون میں رکھا گیا ہے۔ ریاستوں کو کلر کوڈنگ کی بنیاد پر روک تھام کے اقدامات کے کرنے اور احتیاط کو یقینی بنانے کو کہا گیا ہے۔تمام ریاستوں کے چیف سکریٹریوں کو خط لکھ کرمرکزی صحت سکریٹری نے ریڈ زون علاقوں میں مقرر روک تھام حکمت عملی کے تحت اقدامات مکمل کرنے کو کہا ہے۔ سیکرٹری پریتی سودن کی جانب سے لکھے گئے اس خط میں واضح کیا گیا ہے کہ ریاست چاہیں تو دیگر اضلاع یا علاقوں کو بھی ریڈ زون نامزد کر سکتے ہیں۔ گرین زون اس ضلع کو کہا جائے گا جہاں یا تو کوئی کیس نہیں ہے یا گزشتہ 21 دونوں کے دوران کوئی معاملہ سامنے نہیں آیا ہے۔وزارت صحت کے مطابق ایک سے زیادہ کارپوریشن علاقوں والے ضلع میں ہر کارپوریشن کے تابع علاقہ ایک یونٹ کہلائے گا۔ کسی ایک یا زیادہ یونٹ میں اگر 21 دنوں تک کوئی نیا معاملہ سامنے نہیں آتا تو اسے ایک کلر زمرے نیچے کیا جا سکتا ہے۔ یعنی اگر کسی اورنج زون علاقے میں 21 دن تک کووڈ 19 کیس درج نہیں ہوتا تو اسے گرین زون میں رکھا جا سکتا ہے۔ ریاست اضافی علاقوں کو ریڈ یا اورنج نامزد کر سکتے ہیں لیکن مرکزی وزارت صحت کو مطلع کئے بغیر ان کے زمرے نہیں کم کر سکتے۔ اہم بات یہ ہے کہ ملک میں گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ریڈ زون کی تعداد کم ہوئی ہے اس کے ساتھ گرین زون والے علاقوں کی تعداد بھی کم ہوئی ہے۔ ایک ہفتے پہلے ملک میں جہاں 207 علاقے غیر ہاٹ سپاٹ یا اورنج زون میں تھے وہیں اب 284 ضلع اس زمرے میں ہیں۔ گزشتہ 16 اپریل کو جاری وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 170 ضلع ریڈ زون میں تھے جو اب گھٹ کر 130 ہو گئے ہیں۔ گرین زون کی تعداد 16 اپریل کو 359 تھی جو اب 319 ہو گئی ہے۔کابینہ سکریٹری راجیو گوابا کی قیادت میں 30 اپریل کو ریاستوں کے اہم سیکرٹریز اور صحت سکریٹریوں کی ویڈیو کانفرنسنگ کے اجلاس کے بعد یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ ہر ہفتے مختلف اضلاع کے کلر زون کا جائزہ لیا جائے گا۔ اہم بات یہ ہے کہ کرونا وائرس کے 15 سے زائد معاملے والے اضلاع یا ان علاقوں کو ریڈ زون میں رکھا گیا ہے جہاں مریضوں کی تعداد چار یا اس سے کم دنوں میں دوگنا ہو رہی ہے۔
نئی دہلی:ایک طرف جہاں امریکہ سمیت پوری دنیا کے بڑے ممالک کرونا وائرس کے خلاف گھٹنے ٹیکتے نظر آرہے ہیں۔ وہیں ہندوستان نے کم وسائل کے باوجود یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کرونا وائرس کے خلاف اب تک شاندار لرائی لڑی ہے۔ اس بیماری سے اموات کی شرح بھی باقی ممالک کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ مرکزی حکومت کی جانب سے جاری کئے گئے اعداد و شمار کی مانیں تو اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثر 10 ممالک کے مقابلے میں ہندوستان میں شرح اموات سب سے کم ہے۔ برطانیہ میں 15.7، بلجیم میں 15.7، فرانس میں 14.5، اٹلی میں 13.6، ہالینڈ میں 12.1، سویڈن میں 12.1، اسپین میں 10.2، میکسیکو میں 9.7، برازیل میں 6.9، ایران میں 6.4 اور ہندوستان میں یہ شرح 3.2 ہے۔غور طلب ہے کہ ہندوستان میں اس گزشتہ ڈیڑھ ماہ سے لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کیا جا رہا ہے تاہم اس دوران کئی مقامات پر لاپرواہی بھی دیکھنے کو ملی ہے۔ لیکن ڈاکٹروں، طبی عملے، پولیس اورصفائی اہلکاروں نے اب تک شاندار کام کیا ہے۔شروع میں بغیر پی پی ای کٹ کے بھی ان ہیلتھ ورکرس نے مورچہ سنبھالتے ہوئے حالات کوسنبھالا اور کئی پولیس اہلکاروں اور ڈاکٹروں نے اس بیماری سے لڑتے ہوئے جان بھی گنوائی ہے۔فی الحال آج جو اعداد و شمار آیا ہے کہ اس کے مطابق ہندوستان میں کرونا وائرس کے مریضوں کی تعداد 35000 سے تجاوز کر گئی ہے اور کل 8889 لوگ ٹھیک ہوئے ہیں یعنی اب کل معاملے25007 ہیں۔ گزشتہ 24 گھنٹوں میں کرونا وائرس کے 1993 نئے کیس سامنے آئے ہیں اور 73 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ اس درمیان ایک اچھی خبر یہ ہے کہ گزشتہ 15 دنوں میں ملک میں کرونا وائرس ہاٹ سپاٹ یا ریڈ زون کی تعداد 23 فیصد کم ہوئی ہے۔ مرکزی حکومت نے اس بات کی جانکاری دی ہے۔ حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ 15 اپریل کو ملک میں 170 ریڈ زون تھے جو 30 اپریل کو 130 رہ گئے۔ وہیں ملک میں اورنج زون بڑھے ہیں۔ یہ 207 سے 284 ہو گئے ہیں۔
نئی دہلی:کرونا وائرس کے سائے میں پولیس اہلکار اپنی ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ اقتصادی دارالحکومت ممبئی کے بعد اب دہلی پولیس کے سپاہی بھی کرونا وائرس انفیکشن کی زد میں آ رہے ہیں۔ اب تک دہلی کے 45 پولیس اہلکاروں کی رپورٹ مثبت آ چکی ہے۔ دہلی پولیس تک پہنچنے والا انفیکشن بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ سینکڑوں پولیس اہلکار کووارنٹین کئے گئے ہیں۔ خطرے کے باوجود پولیس اہلکار سخت دھوپ میں دہلی کی سڑکوں پر لاک ڈائون کے قوانین پر عمل کرا رہے ہیں۔کوئی گانے گنگنا کر کرونا وائرس کے خوف کو چیلنج دے رہا ہے، تو کوئی کچھ اور ترکیب آزما رہا ہے۔ 17 ماہ کی بچی کو گھر میں اکیلا چھوڑ کر گریٹر کیلاش علاقے میں ڈیوٹی کر رہی نیلم سے جب بچی کے سلسلے میں پوچھا گیاتو ان کی آنکھیں بھرآئیں۔ انہوں نے نم آنکھوں سے بتایا کہ وہ بچی کو جلدی گود میں نہیں لیتیں۔بحران کی اس گھڑی میں ملک کی خدمت کو اپنا فرض بتاتے ہوئے نیلم نے کہا کہ وہ گھر جانے کے بعد ماسک بناتی ہیں، جسے لوگوں کوبغیر کسی قیمت کے دیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سب سے زیادہ دکھ اس وقت ہوتاہے جب لوگ لاک ڈائون پر عمل نہیں کرتے۔ راجستھان کی رہائشی ایک دیگر خواتین کانسٹیبل نے اپنے بچوں کو لاک ڈائون سے پہلے ہی گھر بھیج دینے کی معلومات دی اور کہا کہ کرونا وائرس سے ڈر تو ہے، لیکن احتیاط برت رہے ہیں۔بہت سے دیگرپولیس اہلکاروں نے بھی یہ کہا کہ کرونا وائرس سے ڈر تو ہے، لیکن وہ نجات کے لئے تمام ضروری احتیاطی تدابیر اختیار کر رہے ہیں۔ گریٹر کیلاش کے ایس ایچ او کئی دن سے اپنے گھر نہیں گئے ہیں۔ محب وطن گانوں کی دھن کے درمیان ڈیوٹی کر رہے بہت سے دیگرپولیس اہلکاروں نے بھی گھر سے دور رہنے کی معلومات دی اور کہا کہ لواحقین سمجھاتے ہیں، لیکن وہ بھی یہ بات سمجھتے ہیں کہ ڈیوٹی بھی کرنی ہے۔ وہ گلبس، ماسک وغیرہ کا استعمال کرتے ہوئے دفاع کی کوشش کر رہے ہیں۔دراصل پولیس اہلکاروں کو لاک ڈائون پرعمل کرانے کے دوران لوگوں سے بات چیت کرنی پڑتی ہے۔ کئی بار کرونا وائرس متاثر مریضوں کو اسپتال منتقل کرنے کی ذمہ داری بھی پولیس اہلکاروں کو ہی اٹھانی پڑتی ہے۔ کئی پولیس اہلکار سبزی منڈی میں ڈیوٹی کرتے ہوئے کرونا وائرس کی زد میں آ گئے۔ پھر بھی پولیس اہلکاروں کے حوصلے بلند ہیں۔ غور طلب ہے کہ چاندنی محل تھانے پر تعینات 9 پولیس اہلکار کرونا وائرس مثبت پائے گئے تھے۔اس کے بعد تھانہ 4 دن بعد کھلا تو مقامی شہریوں نے پھولوں سے استقبال کیا۔
ڈاکٹر عابدالرحمن (چاندور بسوہ)
[email protected]
جب سے کورونا عالم وجود میں آیا یا لایا گیا ہے اس کے متعلق سازش ہونے کی بہت سی تھیوریز چلی،جو کبھی چین کی سازش تو کبھی امریکہ کی سازش وغیرہ پر مشتمل ہے۔ہمارے دانشور اسے صہیونی سازش کہہ رہے ہیں ہم بھی سمجھتے ہیں کہ بالکل ایسا ہو سکتا ہے۔ لیکن ہمارا کہنا ہے کہ پہلے تو یہ بات مدلل،حقیقی ؑ ہو اور پھر اس ضمن میں محض سازش سازش کا شور نہ مچایا جائے مسلمانوں کو اور پوری دنیا کو یہ بھی بتایا جائے کہ اس سازش سے بچنے کی کیا تدابیر ہو سکتی ہیں،اس سازش کا جال کیسے کاٹا جاسکتا ہے،اس سے مقابلہ کے لئے کیا لائحہء عمل ہو سکتا ہے۔ ہمارے دانشور اس ضمن میں بالکل خاموش ہیں، بلکہ ان کی سازشی تھیوری بھی تنازعات سے بھری پڑی ہے۔مثلاً ایک طرف وہ کہہ رہے ہیں کہ کورونا کچھ نہیں صرف ہوا ہے hoaxہے لیکن اس بات کا اقرار بھی کررہے ہیں کہ اٹلی اور امریکہ میں اس کی وجہ سے تباہی مچی اور اس کی وجہ بھی بیان کر رہے ہیں کہ صہیونی مقتدرہ نے اٹلی کو اس لئے نشانہ بنایا کہ وہ کیتھولک دنیا کا سب سے بڑا مرکز ہے،ممکن ہے اس پر یعنی عیسائی مذہبی لیڈر شپ پر کسی طرح کا دباؤ بنانا مقصود ہو۔ اسی طرح امریکہ کی تباہی کی وجہ یہ بتائی جا رہی ہے کہ اس سے جو کام صہیونی مقتدرہ کو لینا تھا وہ لیا جا چکا۔ لیکن یہی لوگ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس کے مریض کہیں دکھائی بھی نہیں دے رہے یہاں تک کہ امریکہ میں ایک شخص کو وہ اسپتال ہی نہیں ملا جس کے متعلق مشہور تھا کہ وہاں کورونا کے مریض ہیں۔ یعنی یہ بھی کہا جارہا ہے کہ کورونا کی وجہ سے امریکہ میں تباہی مچی اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ وہاں مریض بھی دکھائی نہیں دے رہے۔ یار پہلے یہ طے کرلو کہ آپ کو کہنا کیا ہے۔ اگر کورونا صرف ہوا ہے تو اسکی تباہی کا ذکرکیسا؟ ہم جیسے کم علم لوگوں کو تو یہی لگے گا کہ یہ دونوں باتیں بیک وقت صحیح نہیں ہو سکتی ان میں سے کوئی ایک غلط ہے۔ لیکن شاید دانشورانہ عقل میں یہ دونوں باتیں بیک وقت صحیح ہو سکتی ہیں۔ وطن عزیز میں بھی یہ دانشورکورونا کو ہوا ہی بتارہے ہیں، ممکن ہے اس ضمن میں کچھ خرد برد کیا جارہا ہو، لیکن اس کی تحقیق لازمی ہے جو ابھی تک معتبر یا کسی غیر معتبر ذریعہ سے بھی سامنے نہیں آئی۔ کسی خبر کی تصدیق کا طریقہ یہ ہونا چاہئے کہ ان لوگوں سے کی جائے جو اس سے متعلق ہیں یا جن کے حوالے سے خبر آئی ہے لیکن ہمارے دانشور ایسا نہیں کرتے یہ غیر متعلق لوگوں سے پوچھ پوچھ کر اس پر دانشورانہ پالش چڑھاکربلکہ جھوٹ کی ملمع کاری کر کے اسے پھیلاتے ہیں۔ ہمارے یہاں کورونا کا معاملہ یہ ہے کہ اس کے مریض سرکاری اسپتالوں میں یا سرکاری نگرانی میں پرائیویٹ اسپتالوں میں رکھے جارہے ہیں۔ اور ہمارے دانشور صاحبان ہیں کہ وہاں سے تصدیق کر نے کے بجائے جنرل پریکٹشنرس سے اور عام آدمیوں سے پوچھ پوچھ کر رائے قائم کر رہے ہیں، اور اگر کوئی یہ کہہ بھی رہا ہے کہ ہاں اس نے کورونا کا مشکوک مریض دیکھا تو اس سے مزید تفصیلات نہیں لے رہے اس سے وہ سوالات نہیں کررہے جو یہ دوسروں سے پوچھ رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ انہیں میڈیا پر اور سرکاری اعدادوشمار پر بھروسہ نہیں لیکن ان کی دانشوری کی داد دیجئے کہ غیر مصدقہ اطلاعات پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ میڈیا کے متعلق بھی ان کا رویہ منافقانہ ہے یہ اس پر جھوٹ پھیلانے اور ہمارے خلاف ہورہی سازشوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہیں، بہت صحیح بات ہے، لیکن صاحب یہ لوگ اسی میڈیا سے اپنے مطلب کی بات بغیر چھان پھٹک کے من و عن قبول کر لیتے ہیں۔کیا جو میڈیا ہمارے خلاف سازش میں ملوث ہے اسی کے ذریعہ ہمارے مطلب کی خبر پھیلانا بھی سازش ہی کی ایک کڑی نہیں ہو سکتی؟ لیکن شٹ اپ،یہ دانشورانہ بات نہیں۔دانش ور منافق ہو کر بھی دینداری کے دعویدار ہو سکتے ہیں۔ ان دانشوروں کا زور ایک اور بات پر ہے کہ کورونا سے ہلاکتوں کا جتنا شور کیا جارہا ہے اتنا ہے نہیں۔ اس سے تو اتنے لوگ بھی نہیں ’مررہے‘ جتنے عام سردی زکام، ملیریا، خود کشی، روڈ ایکسیڈنٹ،ایڈز، شراب نوشی اور کینسرسے مرتے ہیں اور اس کے لئے یہ دانشور پچھلے کئی دنوں سے کچھ اعدادو شمار کوٹ کررہے ہیں جن کے متعلق دعویٰ ہے کہ یونیورسٹی آف ہیمبرگ جرمنی کے جمع کردہ ہیں۔ ہم ان اعدادوشمار کی چھان پھٹک کے لئے علامہ گوگل کے حضور پہنچے تو وہاں ہمیں اس طرح کے کوئی اعداد و شمار نہیں ملے نہ یونیورسٹی آف ہیمبرگ کے اور نہ کسی اور ادارے کے البتہ ان اعدادوشمار کو’جھوٹ‘قرار دینے والا ایک ویڈیو ضرور ملا جو ’دی للن ٹاپ‘ یوٹیوب چینل کا ہے۔اس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ انہوں نے یونیورسٹی آف ہیمبرگ کو میل کر کے ان اعدادو شمار کے متعلق استفسار کیا تو جواب آیا کہ یونیورسٹی نے اس طرح کے کوئی اعدادو شمار جاری نہیں کئے۔ یعنی ہمارے دانشور اپنی بات منوانے کے لئے جھوٹ تک کا سہارا لے رہے ہیں۔ کیا وہ نہیں جانتے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے جھوٹ سے بچنے کی تلقین فرمائی ہے؟‘ جانتے ہوں گے ہمیں ان پر بھروسہ ہے کہ ان کا وسیع مطالعہ انہیں اس بات سے بے بہرہ نہیں رکھ سکتا۔ہمیں یقین ہے کہ انہوں نے قصداً ایسا نہیں کیا بلکہ غلطی سے ’واٹس ایپ یونیورسٹی‘ کے آنکڑوں کو ہی یونیورسٹی آف ہیمبرگ ہی کے آنکڑے سمجھ لیا، انہیں کراس چیک نہیں کیا ان کی تصدیق نہیں کی۔ تو کیا یہ ذی علم و ذی شعور بلکہ عالم تحت الشعور و لاشعور دانشور یہ بھی نہیں جانتے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے کسی خبر کو بغیر تصدیق کئے پھیلانے سے بھی منع فرمایا ہے؟ یہ بھی ہوسکتاہے کہ دی للن ٹاپ جھوٹ بول رہا ہو، تو بھی ایمان و انصاف کا تقاضہ ہے کہ یہ دانشور یا تویہ بتائیں کہ یونیورسٹی آف ہیمبرگ نے یہ آنکڑے ان کے کان میں کب پھونکے یا ان آنکڑوں کا کوئی حقیقی سورس بتائیں یا بارگاہ ایزدی میں توبہ کریں اوراپنے اس طرز عمل سے جن قارئین و سامعین کو گمراہ کر چکے انہیں حقیقی صورت حال سے آگاہ کریں کہ کہیں وہ انہیں مزید پھیلا کر خود کے لئے اور ان دانشوران عالی مرتبت کے لئے گناہ جاریہ کا باعث نہ بنتے رہیں۔ پورے ملک میں کورونا فرقہ واریت زوروں پر ہے، ہمارے دشمنوں نے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ ملک کے کونے کونے تک یہ جھوٹ پھیلا دیا کہ مسلمانوں کو ہی کورونا ہورہا ہے اور یہ لوگ جان بوجھ کر اسے پھیلا بھی رہے ہیں۔ اب ہمارے دانشور خود تو یہ نہیں بتارہے ہیں کہ ان حالات میں ہمارا طرز عمل کیا ہو،اس صورت حال سے باہر نکلنے کے لئے ہمارا لائحہء عمل کیا ہونا چاہئے بلکہ جو لوگ اس ضمن میں مسلمانوں کو بدنامی سے بچنے کے لئے کم از کم دکھاوے کے لئے ہی احتیاطی تدبیر اختیار کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں یہ دانشور ان لوگوں پر بہتان لگارہے ہیں کہ وہ غیروں سے زیادہ یہ پروپگنڈہ کر رہے ہیں کہ مسلمان ہی کورونا پھیلا رہے ہیں،معاذاللہ۔ایسے لوگوں کا کہنا دراصل یہ ہے کہ ہماری بے احتیاط روش ملک کی اکثریت کی نظروں میں ہماری بدنامی اورسرکار کو اپنی کورونا ناکامی کا ٹھیکرہ ہمارے سر پھوڑ نے کا موقع فراہم کرے گی۔ اور پہلے ہی مختلف مسائل سے جوجھ رہے ہم لوگ نئے مسائل میں گھر جائیں گے۔ لیکن خیر یہ دانشور ہیں بھائی یہ اپنی بات منوانے کے لئے جھوٹے اعدادوشمار اور بہتان کا سہارا اسی طرح لے سکتے ہیں جس طرح اندھ بھکت لیتے ہیں، اب کوئی انہیں دینیات اور اخلاقیات کا درس نہ دے کہ جس دین کی خاطر یہ کیا جارہا ہے وہ دین اس طرح جھوٹ اور بہتان کی اجازت نہیں دیتا، ارے دین اور اخلاقیات گئی تیل لینے یہاں تو معاملہ میرے مرغے کی ایک ٹانگ کا ہے بس۔ جہاں تک لاک ڈاؤن کا سوال ہے تو یہ صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں ہے اور ایسا بھی نہیں ہے۔ یہ بات تسلیم کہ صہیونی مقتدرہ اور اس کے حواری اپنی سازش کے ٹارگیٹ کو زک پہنچانے کے لئے کولیٹرل ڈیمیج کی پروا نہیں کرتے۔ لاک ڈاؤن اور سوشل ڈسٹنسنگ سے کورونا ہوگا یا نہیں ہوگا یہ الگ بات ہے لیکن اس کی خلاف ورزی سے مسلمان مہرا ضرور بنادئے جائیں گے اور ہو بھی یہی رہا ہے کہ اسے توڑنے والوں میں کے مسلمانوں کو چن چن ہائی لائٹ کیا جارہا ہے انہیں ذلیل کیا جارہا ہے اور اس ذلت کے ویڈیوز بنا کر میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعہ گھر گھر پہنچا کر مسلمانوں کو ولن ظاہر کیا جارہا ہے، جان بوجھ کر کورونا پھیلانے اور کورونا جہاد کے بے تکے الزامات ہم پر عائد کئے جارہے ہیں۔ایسی بھی خبریں آ چکی ہیں کہ مسلمانوں کے سماجی اور معاشی بائیکاٹ کی جو اپیلیں کی گئی تھیں وہ اب عملی طور پربرتی جارہی ہیں۔ایسے میں بھی کوئی مسلمانوں سے لاک ڈاون نہ ماننے کی درپردہ بات کہے اور باہر نہ نکلنے والوں کو بزدل،ڈرپوک اور گیدڑ کہے تو یہ اسکی بے وقوفی ارررر دانشوری کی معراج سمجھی جانی چاہئے۔ باقی آئندہ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
محمدانوارخان قاسمی بستوی
ہندوستان کے مختلف اضلاع وصوبہ جات سے ایسی مصدقہ خبریں اور ویڈیوز وائرل ہورہی ہیں جن میں سنگھی دہشتگردانہ ذہنیت کے تحت فرقہ وارانہ منافرت کو ہوادی جارہی ہے اور ہندو-مسلم خلیج کو مزید وسیع کیا جارہا ہے۔ ابھی تک عوامی سطح پر کچھ غنڈے غنڈہ گردی کرلیا کرتے تھے؛ لیکن اب ہندوستان ایسے نازک مرحلے میں داخل ہوچکا ہے کہ سرکاری ملازمین اور سیاسی اور سماجی رہنما بھی مذہبی تشدد کو کھلے عام فروغ دے رہے ہیں اور اس ملک کو انارکی کی آگ میں جھونکنا چاہتے ہیں۔ جہاں ایک طرف پوری دنیا میں مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں وبا کے اس نازک وقت میں قربانیاں پیش کیں اور کر رہے ہیں، اور بلاتفریقِ مذہب وملت پورے عالم میں خیرات اور چیرٹی میں اس وقت سب سے زیادہ سبقت لے جارہے ہیں، وہیں دوسری طرف ان تمام قربانیوں کے باوجود آج ہمارے ہی ملک ہندوستان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا زہر اور بھی شدت سے گھولا جارہا ہے۔
یوپی جیسے صوبے میں لولو کمپنی کے مسلم ڈائریکٹر نے یوپی حکومت کو کورونا سے نمٹنے کے لیے ۵ کروڑ روپے کی خیرات دی؛ لیکن آج اسی صوبے کا ایک سرکاری غنڈہ ایک غریب مسلمان کی پانچ روپے کی سبزی خریدنے سے اپنے ہم مذہب لوگوں کو روک رہا ہے۔ ملک کے بعض اطراف میں یہ بھی شکایات موصول ہورہی ہیں کہ ہندو بنیا مسلمانوں کو راشن بیچنے سے منع کررہا ہے تاکہ مسلمانوں کو بھکمری اور اذیت میں ڈالا جاسکے۔ اسی دوران یہ خبر بھی حیرت انگیز ہے کہ حکومت کی جانب سے مسلمانوں کے لیے رمضان میں لاک ڈاؤن میں ڈھیل دی جارہی ہے تاکہ مسلمان رمضان اور عید کی شاپنگ کرسکے۔
ایسے میں ہمارا رویہ کیا ہونا چاہئے؟ یہ ایک اہم سوال ہے۔ تمام ہی مسلمانوں کو چاہیے کہ اس وقت تک اپنے گھروں سے نہ نکلیں جب تک سرکاری طور پر لاک ڈاؤن کو سب کے لیے یکساں طور پر ختم نہ کردیا جائے ورنہ میڈیا اور ظالم حکمراں ہمیں بلی کا بکرا بنانے کے لیے تاک میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ بھلا وہ حکومت جو اپنی نگرانی میں دہلی جیسے شہر میں دو ماہ قبل مسلمانوں کا قتل عام کراچکی ہے اور آپ کی قوم کے معصوم نوجوانوں اور سماجی کارکنوں کو بلا ثبوت جیلوں میں ٹھونس رہی ہے، وہ آپ کی اچانک اس قدر ہمدرد اور غمگسار کیوں بن گئی؟ اس کے صرف دو بنیادی مقاصد ہیں:
۱) پوری مسلم قوم شاپنگ کے لیے روڈ پور آجائے اور سوشل ڈسٹنسنگ کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر کورونا کا ٹھیکرا تمھارے سر پھوڑ دیا جائے۔
۲) ملک میں اکثر صنعت گاہیں اور کمپنیاں مسلم مخالف بنیوں اور تاجروں کے ہاتھوں میں ہیں جن کے سامانِ تجارت ومصنوعات تقریبا ڈیڑھ ماہ سے گوداموں میں سڑرہے ہیں، لہذا لاک ڈاؤن کے درمیان وہ آپ کو ڈھیل دے کر آپ کی جیبوں پر ڈاکہ ڈالنا چاہتے ہیں اور حریص بنیا کا پیٹ بھرنا چاہتے ہیں۔
خبردار، بلا ضرورت شدیدہ باہر نہ نکلیں، اور کچھ دنوں کے لیے اپنے آپ کو گھروں میں مزید محبوس رکھیں، کرونا کا الزام اپنے سر نہ لیں، اور نہ ہی دکانوں پر اپنی جیبیں خالی کریں، پتہ نہیں یہ نازک وقت کتنا لمبا ثابت ہوگا۔ انتہائی ضروری اور ناگزیر شاپنگ جیسے ادویہ اور راشن وغیرہ پر ہی صرف اپنی رقم کرچ کریں، اور باقی آڑے وقت کے کے لیے پس انداز کرلیں تاکہ آپ کی یہ گاڑھی کمائی آپ، آپ کے اعزہ واقربا یا پڑوس میں کسی غریب کے کام آسکے۔ اپنے اہل وعیال پر بطور خاص حالات کی نزاکت کو واضح کریں۔
کچھ جگہوں پر ظالم بنیوں/تاجروں نے بہت سے مسلمانوں کو جھوٹا بہانہ کرکے راشن اور ضروری اشیاء خورد ونوش بیچنے سے منع کردیا ہے جو کہ نہایت تکلیف دہ بات ہے۔ اس کے لیے ہر علاقے کے مسلمانوں کو کوئی مضبوظ اسٹریٹیجی اور پالیسی بنانی ہوگی۔ اس طرح کے حالات دیکھ کر، بہار کے ایک ضلع میں کسی عالم نے بڑا دانشمندانہ اقدام کیا ہے جوکہ مجبور ہوکر اب خود کسی بڑی ہول سیل کی دکان سے اشیاء خوردونوش لاکر قوم کو ہول سیل ریٹ پر فروخت کررہے ہیں۔ یہ نہایت مثبت اور قابل تحسین اقدام ہے۔ ملک کے ہر گوشے میں قوم کے لوگ جذبئہ ایثار وقربانی کے ساتھ اٹھیں، اور اسی طرح ہول سیل ریٹ میں بڑی فیکٹریوں اور دکانوں سے سامان لاکر صرف اپنے لوگوں کو ہی نہیں؛ بلکہ غیروں کو بھی اسی ہول سیل ریٹ پر فروخت کرنا شروع کردیں، اور ان بدتمیز اور بے رحم بنیوں کو سبق سکھائیں۔ جس طرح سے ظالم تمھاری قوم کے لوگوں کا سامان نہیں خرید رہے ہیں، آپ بھی ان کے ساتھ وہی سلوک کریں۔ اب آپ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا ہے۔ آپ کو دھکادے کر دیوار سے چمٹا دیا گیا ہے، اب آپ کے پاس اس کے سوا کوئی اور آپشن نہیں کہ آپ بھی دھکا دیں، اور اپنی ممکن طاقت کا استعمال کریں اور جائز اور قانونی حدود میں رہ کر اپنا دفاع کریں۔
سب سے اہم اور آخری بات یہ ہے کہ اس لاک ڈاؤن میں لاکھوں کی تعداد میں ہماری قوم کے فقرا، مساکین اور مزدور گرسنگی اور فاقہ کشی میں مبتلا ہیں، لہذا ہر ہر محلے، ہر ہر شہر، اور ہر ہر قصبے میں جماعتیں تشکیل دیں اور ایک مضبوط چین بنا کر منظم سماجی ڈھانچہ تیار کریں اور مجبوروں اور محتاجوں پر گہری نظر رکھیں اور ان کی خبر گیری کریں تاکہ کوئی بھی انسان بھوکا نہ رہ سکے اور نہ ہی کسی فرد کو بربریت یا تشدد کا نشانہ بنایا جاسکے۔ اس لاک ڈاؤن، غیروں کے ظلم، اور کورونا کی قہر سامانیوں سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
ممبئی:مہاراشٹر حکومت نے لاک ڈاؤن کی وجہ سے دیگر ریاستوں میں پھنسے ہوئے مزدوروں، عقیدت مندوں، طلباء اورریاست کے سیاحوں کی مدد کے لیے یہاں ایک دفترقائم کیاہے۔جمعرات کو این سی پی کے سربراہ شرد پوار نے بتایا کہ یہ دفتر مہاراشٹراکے ڈیزاسٹر ریسپانس اتھارٹی کے ڈائریکٹر ابھے یاوالکر کی نگرانی میں تشکیل دیاگیاہے۔انہوں نے فیس بک کے ذریعے اپنے خطاب میں کہا کہ لوگ مدد کے لئے آفس سپورٹ نمبر 022-22027990، 022-22023039، 9821107565 اور 8007902145 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔
پٹنہ:اچانک لاک ڈاؤن کی وجہ سے بڑی تعداد میں مزدوردوسری ریاستوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں. بہار کے مزدوروں کی تعدادبھی اس میں اچھی خاصی ہے۔بہرحال، ایک ماہ سے زیادہ وقت سے چل رہے اس لاک ڈاؤن کے درمیان مرکزی حکومت نے مختلف ریاستوں میں پھنسے تارکین وطن محنت کشوں، طالب علموں اور سیاحوں کو سوشل ڈسٹنیسنگ کے قوانین پرعمل کرتے ہوئے گھر واپسی کی اجازت دے دی ہے۔پہلے نتیش کمارمزدوروں اورطلبہ کی گھرواپسی کے لیے بالکل تیارنہیں تھے،اب جب کہ حکومت نے گائیڈلائنس میں ترمیم کردی ہے تونائب و زیراعلیٰ ٹرین کامطالبہ کررہے ہیں اورجدیولیڈربسیں نہ ہونے کابہانہ کررہے ہیں لیکن اپوزیشن لیڈرتیجسوی یادونے کہاہے کہ حکومت اگرنااہل ہے توہم تین ہزاربسیں دے رہے ہیں،بہارحکومت بتائے کہ کہاں اورکب بھیجنی ہیں،ان کے علاوہ پپویادونے تیس بسیں کوٹہ میں تیاربھی کردی ہیں۔مرکزی حکومت کی جانب سے کیے گئے اس اعلان کے بعدبی جے پی لیڈر اور بہارکے نائب وزیراعلیٰ سشیل مودی نے دور مقامات میں پھنسے ریاست کے مزدوروں کے لیے خصوصی ٹرین چلانے کا مطالبہ مرکزی حکومت سے کیاہے۔اس طرح سمجھاجاسکتاہے کہ بہارسرکارکے پاس بسیں نہیں ہیں جیساکہ دوسرے جے ڈی یولیڈرنے اشارہ دیاہے۔سوال یہ ہے کہ ڈبل انجن کی سرکارپندرہ سالوں سے کیاکررہی ہے جب میڈٖیکل سسٹم کے چوپٹ ہونے کے ساتھ بسیں تک نہیں ہیں۔ سشیل مودی نے ایک ٹویٹ کرکے کہاہے کہ میں حکومت سے دوردرازمقامات سے تارکین وطن محنت کشوں کو واپس لانے کے لیے خصوصی ٹرینیں چلانے کی اپیل کرتاہوں۔
نئی دہلی:لاک ڈاؤن میں پھنسے تارکین وطن محنت کشوں، سیاحوں، طالب علموں کوگھربھیجنے کے مرکزی وزارت داخلہ کے حکم پردہلی حکومت مزدوروں، سیاحوں اور طالب علموں کو دہلی سے ان کی ریاست بھیجنے اور دوسری ریاستوں میں پھنسے لوگوں کو دہلی لانے کی کارروائی کر رہی ہے۔اس سلسلے میں وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے معلومات دی ہیں۔کیجریوال نے مرکز کے حکم کے بعد ٹویٹ کیاہے کہ مرکزی وزارت داخلہ کی طرف سے حکم جاری کیاگیاہے جس سلسلے میں ہم دیگر ریاستی حکومتوں سے بات کررہے ہیں۔تمام پلاننگ کرکے آپ کو ایک دودن میں مطلع کریں گے۔ اس وقت تک آپ کے گھرپرہی رہیں اورلاک ڈاؤن پرعمل کریں۔
ممبئی:لاک ڈاؤن کے درمیان باندرہ ریلوے اسٹیشن پر امنڈتی بھیڑ کے الزام میں گرفتار ونے دوبے کوصرف پندرہ ہزارروپے کے مچلکے پر ضمانت دے دی گئی۔اس بھیڑکے پیچھے مسجددکھاکرمعاملے کوفرقہ وارنہ رنگ دینے کی کوشش کی گئی تھی،لیکن ونے کی گرفتاری اورحکومت کی وضاحت کے بعدمیڈیااورسوشل میڈیاپرچپی سادھ لی گئی ۔ونے پر14 اپریل کو باندرہ ریلوے اسٹیشن کے باہر تارکین وطن کو اکسانے کاالزام ہے۔لاک ڈائون کی خلا ف ورزی کرنے اورکرانے والے ونے کوضمانت ملنے پرسوال اٹھ سکتے ہیں۔ لاک ڈاؤن کے پہلے مرحلے کے آخری دن 14 اپریل کو خاصی تعداد میں مزدور باندرہ ریلوے اسٹیشن کے قریب جمع ہو گئے تھے اور انہوں نے اپنے آبائی مقامات پر جانے کے لیے ٹرینوں کی مانگ کی تھی۔پولیس نے دعویٰ کیاہے کہ دوبے کی ویڈیو اور فیس بک پوسٹ نے تارکین وطن کو اکسایاکیونکہ اسے ایک ویڈیومیں یہ کہتے ہوئے سنا گیا تھا کہ حکومت کو تارکین وطن محنت کشوں کے لیے 18 اپریل تک ٹرینیں چلانی چاہئیں یاانہیں تحریک یا ریلی شروع کرنی ہوگی۔ دوبے پرتعزیرات ہند اور وبا ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت الزامات عائدکیے گئے ہیں۔ونے کے وکیل دیپک مشرا نے عدالت سے کہاہے کہ پولیس اور ریاست کی ناکامی کی وجہ سے لاک ڈاؤن کے باوجودمزدوراتنی بڑی تعداد میں اسٹیشن پرجمع ہوگئے۔
لکھنؤ:کوویڈ -19 سے متاثر ہوئی پہلی بالی ووڈ مشہور شخصیت اور گلوکارہ کنیکا کپور نے انفیکشن کو روکنے سے متعلق سرکاری انتظام پرسوال اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ ایک شخص پر الزام سے حقیقت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتاہے۔19 مارچ کو متاثر پائے جانے کے بعد تنقید کے گھیرے میں آئی کنیکاکپور نے ایک ٹویٹ کیاہے کہ جب وہ لندن سے ممبئی واپس آئی تھیں، اس وقت انہیں خودکوآئسولیشن میں رکھنے کاکوئی مشورہ نہیں دیاگیاتھااور ممبئی سے لکھنؤ آنے پر ان کی کوئی جانچ نہیں کی گئی۔جب کہ وزیراعظم کادعویٰ ہے کہ شروع سے ہی اسکریننگ شروع کردی گئی تھی۔انہوں نے ٹویٹ میں کہاہے کہ میں جس رابطے میں آئی، چاہے وہ برطانیہ ہو، ممبئی ہو یا پھر لکھنؤ، کسی میں بھی کوویڈ -19 کی علامات نہیں پائی گئی ہیں۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان سب کی جانچ رپورٹ میں ان کے متاثرہ ہونے کی تصدیق ہوئی۔انھوں نے کہاہے کہ کسی ایک شخص پر الزام سے حقیقت کو تبدیل نہیں کیاجاسکتاہے۔انھوں نے ہوائی اڈوں پر بندوبست پر سوال اٹھاتے ہوئے کہاہے کہ میں 10 مارچ کو برطانیہ سے ممبئی آئی اور بین الاقوامی ہوائی اڈے پر میری باقاعدہ جانچ ہوئی۔ اس وقت مجھے ایسا کوئی مشورہ نہیں دیاگیا۔انہوں نے کہاہے کہ میں اگلے دن یعنی 11 مارچ کو اپنے خاندان سے ملنے لکھنؤگئی۔گھریلوپروازوں کے لیے اس وقت تک جانچ کا کوئی انتظام نہیں کیاگیاتھا۔ اس کے بعد 14 اور 15 مارچ کو میں نے اپنے دوست کی طرف سے دیے لنچ اور ڈنر پروگرام میں شرکت کی۔میں نے کوئی بھی پارٹی منعقد نہیں کی اور میں بالکل ٹھیک تھی۔
نئی دہلی:لاک ڈاؤن کے دوران سپریم کورٹ نے لوگوں کوملازمت سے ہٹانے، تنخواہ میں کمی جیسی چیزوں پرتشویش کااظہارکیاہے۔تاہم، عدالت نے یہ بھی کہاہے کہ جب کاروبار بند ہوجاتا ہے تو اخراجات بہت مشکل ہوجاتے ہیں۔ عدالت نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے میں تنظیموں اور صنعتوں کی جانب سے دائر درخواستوں کاجواب دیا جائے۔ 2 ہفتوں کے بعد اس پرتفصیلی سماعت ہوگی۔سوال یہ ہے کہ دوہفتے تک یہ ملازمین کیاکریں گے؟اس معاملے پر سپریم کورٹ کی جانب سے سنی گئی پہلی درخواست میڈیا سے متعلق تھی۔ صحافیوں کے یونین اور دیگر صحافتی تنظیموں نے لاک ڈاؤن کے تحت میڈیا اداروں میں لوگوں کو ہٹانے، تنخواہ کے بغیر چھٹی پر بھیجنے، تنخواہوں میں کٹوتی جیسی چیزوں کے بارے میں شکایت کی تھی۔ درخواست میں کہاگیاتھا کہ صحافی اور دیگر عملہ، جو لوگوں تک خبروں کی ترسیل کے لیے سخت محنت کررہے ہیں، کو ملازمت سے ہٹایا جارہا ہے۔کہیں ان کی تنخواہ روک دی گئی ہے تو کہیں اس میں کمی کردی گئی ہے۔صحافی تنظیموں کے ذریعہ پیش کردہ وکیل کولن کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے اس معاملے پر نوٹس جاری کیا۔ درخواست میں مرکزی حکومت، انڈین نیوز پیپر سوسائٹی اور نیوز براڈکاسٹر ایسوسی ایشن کو فریق بنایا گیا ہے۔ عدالت 2 ہفتوں کے بعداس معاملے پر مزید سماعت کرے گی۔سماعت کے دوران، تین ججوں کے بنچ کے ایک رکن جسٹس سنجے کشن کول نے کہاہے کہ یہ صرف میڈیا کے بارے میں نہیں ہے، تمام شعبوں کی ملازمین یونینیں یہ چیزیں اٹھا رہی ہیں۔ یہ تشویش کی بات ہے۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ زیادہ تر کاروبار تقریباََبندہیں۔ لہٰذا وہ کب کام کریں گے۔ اس مسئلے پرسماعت ضروری ہے۔آج عدالت میں لدھیانہ ہینڈ ٹولز ایسوسی ایشن سمیت 3 صنعتوں کی درخواستوں کی بھی سماعت ہوئی۔ اس میں حکومت کے اس حکم پرسوال اٹھایا گیا تھا جس میں ملازمین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی پوری تنخواہ ادا کریں۔ جس میں کہا گیا تھا کہ کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ آمدنی کا ذریعہ بندہے۔ ایسی صورتحال میں لوگوں کو نوکری پر رکھنا اور پوری تنخواہ دینا بہت مشکل ہے۔ عدالت نے ان درخواستوں پر مرکز سے بھی جواب طلب کرلیا ہے۔ ان کی سماعت بھی 2 ہفتوں کے بعدہوگی۔
نئی دہلی:مشرقی دہلی کے ایک اہم نجی اسپتال کے دو ڈاکٹر، نرس اور پیرامیڈیکل اہلکاروں سمیت کم از کم 33 ملازمین تقریباََ دوہفتے کے دوران وائرس سے متاثرپائے گئے ہیں۔یہ معلومات ذرائع نے پیر کودی ہیں۔میکس گروپ نے دو ہفتے قبل اعلان کیا تھا کہ وہ ملک بھر میں واقع اپنی تمام اکائیوں میں اپنے تمام ملازمین اور مریضوں کی کوویڈ -19 کے لیے جانچ کرے گا۔ذرائع نے بتایاہے کہ جانچ شروع ہونے کے بعد سے زیادہ سے زیادہ ہسپتال، پڑپڑ گنج میں ابھی تک دوڈاکٹر، نرس، پیرامیڈیکل اہلکار اور غیر طبی اہلکاروں سمیت 33 ملازمین کوویڈ -19 سے متاثرپائے گئے ہیں۔پٹپڑ گنج واقع میکس ہسپتال، مشرقی دہلی میں ایک اہم طبی یونٹ ہے۔ذرائع نے کہا کہ تمام متاثرہ افراد کو جنوبی دہلی کے ساکیت واقع میکس ہسپتال کے ایسٹ بلاک میں منتقل کر دیاگیاہے۔یہ قدم ساکیت واقع میکس ہسپتال میں ایک ڈاکٹر، ایک نرس اور ایک غیر طبی اہلکارکے پہلے پربامنڈل وائرس سے متاثر پائے جانے کے بعد اٹھایاگیاہے۔
نئی دہلی:کانگریس جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی نے اتر پردیش کے دو میڈیکل کالجوں میں ناقص پی پی ای کٹ کی فراہمی کو لے کر وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ پر حملہ کیا ہے۔ پی پی ای کٹ کی شکایت سے متعلق خط کے لیک ہونے کے معاملے میں پرینکا گاندھی نے یوگی حکومت سے سوال کیا کہ کیا ہیلتھ ورکرس کے لئے خراب معیار کے ذاتی حفاظتی سامان کی فراہمی کے قصورواروں پر کارروائی ہوگی۔انہوں نے کہا کہ یوپی کے کئی سارے طبی کالجوں میں خراب پی پی ای کٹس دی گئی تھیں۔ یہ تو اچھا ہوا صحیح وقت پر وہ سامنے آ گئیں اور واپس ہو گئیں اور ہمارے ہیلتھ ورکرس کی حفاظت سے کھلواڑ نہیں ہوا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ یوپی حکومت کو یہ گھوٹالہ پریشان نہیں کر رہا ہے بلکہ یہ پریشان کر رہا ہے کہ خراب کٹس کی خبر باہر کس طرح آ گئی۔ یہ تو اچھا ہوا کہ خبر باہر آ گئی ورنہ خراب کٹ کا معاملہ پکڑا ہی نہیں جاتا اور ایسے ہی رفع دفع ہو جاتا۔ کیا قصورواروں پر کارروائی ہو گی؟ غور طلب ہے کہ کرونا وائرس سے متاثر لوگوں کا علاج کر رہے ہیلتھ ورکرس کی حفاظت کے لئے مبینہ طور پر خراب معیار کیذاتی حفاظت کا سامان(پی پی ای) کٹ کی فراہمی کے معاملے میں ڈائریکٹر جنرل طبی تعلیم (ڈی جی ایم ای) کے خط کے لیک ہونے کی جانچ اترپردیش حکومت نے اسپیشل ٹاسک فورس (ایس ٹی ایف) کو سونپی ہے۔
پٹنہ:کرونا وائرس وبا کی وجہ سے راجستھان کے کوٹہ میں کوچنگ کے لئے پہنچے کئی ریاستوں میں پھنس گئے ہیں۔ یوپی اور مدھیہ پردیش کی طرح کچھ ریاستوں نے خصوصی بسیں بھیج کر اپنے اسٹوڈنٹس کو واپس بلایا ہے۔ حالانکہ اس دوران سوشل دوری کا صحیح طریقے سے عمل نہیں ہونے کی وجہ سے کرونا کے انفیکشن بڑھنے کا خدشات کا معاملہ بھی اٹھایا جا چکا ہے۔ بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار کرونا کی وبا کے درمیان کچھ ریاستوں کی طرف سے اسٹوڈنٹس کو اس طرح بلانے کی مخالفت کر چکے ہیں۔ جب یوپی نے کوٹہ سے اپنے طالب علموں کو بس سے بلانے کا فیصلہ کیا تھا تو نتیش نے اس اقدام کو لاک ڈاؤن کے ساتھ ناانصافی بتایا تھا۔ کوٹہ معاملے کو لے کر نتیش کمار نے ایک بار پھر بیان دیا ہے، انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں ایک پالیسی ہونی چاہئے۔بہار کے وزیر اعلی نے کہا کہ ہمارے پاس ایک جیسی پالیسی ہونی چاہئے۔ طالب علم ہر جگہ ہیں۔ بات صرف طالب علموں کے بارے میں بھی نہیں ہے۔ آپ کو پھنسے ہوئے مہاجر مزدوروں کے بارے میں سوچنا ہے لیکن جب ایک ریاست سے دوسری ریاست کے سفر پر پابندی لگی ہے تو آپ کس طرح طالب علموں کو لانے کی اجازت دے سکتے ہیں؟ غور طلب ہے کہ ہندوستان میں کرونا سے اب تک 872 افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ متاثرہ معاملوں کی تعداد بڑھ کر 27892 ہو گئی ہے۔ وزارت صحت کی جانب سے پیر کو جاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں کرونا کے 1396 نئے کیس سامنے آئے ہیں اور 48 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ تاہم تھوڑی راحت والی بات یہ ہے کہ اس بیماری سے اب تک 6185 مریض ٹھیک ہوچکے ہیں۔ 24 گھنٹے میں 381 لوگ ٹھیک ہوئے ہیں۔ مریضوں کے ٹھیک ہونے کی شرح 22.17 فیصد ہوگئی ہے۔ راجستھان میں اب تک 2100 سے زیادہ معاملے سامنے آئے ہیں جبکہ بہار میں یہ تعداد 275 ہے۔
نئی دہلی:کانگریس نے کرونا وائرس کی جانچ کے لئے چین سے درآمد کی کئی کٹس پر مبینہ طور پر منافع کمانے کو لے کر کہا کہ حکومت اس ‘منافع اور کالابازاری کی فوری جانچ کرائے اور کارروائی کرے۔ پارٹی کے ترجمان منیش تیواری نے حکومت پر زور بھی کیا کہ کرونا وائرس جانچ کے کٹس کے درآمد سے متعلق تمام دستاویزات عام کئے جائیں تاکہ ملک کو پتہ چل سکے کہ کون لوگ بحران کے وقت ایسی سرگرمیوں میں شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک کمپنی کو ٹھیکہ دیا گیا کہ وہ چین سے پانچ لاکھ جانچ کٹس خریدے۔ وہ ٹھیکہ آئی سی ایم آر کے کہنے پر دیا گیا۔ چین سے جو کٹس درآمد کی گئی ہے اس کی قیمت 245 فی کٹ بنتی ہے۔ پانچ لاکھ کٹ کی کل قیمت 12 کروڑ 25 لاکھ روپے ہوتی ہے۔درآمد کرنے والی کمپنی نے یہ کٹ دوسری کمپنی کو 21 کروڑ روپے میں فروخت کی۔ پھر اس کمپنی نے آئی سی ایم آر کو یہ کٹ 30 کروڑ روپئے میں دی۔ مجموعی طور پر دو کمپنیوں نے مل کر 18.75 کروڑ روپئے کا بڑا منافع کمایا۔ ان کے مطابق جس کمپنی نے چین سے درآمد کیا وہی کمپنی تمل ناڈو حکومت کو 400 روپے دے رہی ہے۔ عدالت نے پھٹکار لگائی تو اس کمپنی نے کہا کہ ہم 400 روپے میں آئی سی ایم آر کو فراہم کر دیں گے۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت کالابازاری اور منافع خوری کو روکنے کی ضرورت ہے۔ حکومت سے مطالبہ کرنا چاہتے ہیں اس معاملے کی فوری جانچ ہونی چاہئے اور اس مہاماری کے وقت اس منافع پر روک لگنی چاہئے۔ جتنی بھی کٹس درآمد ہوئی ہے ان سے وابستہ دستاویزات عام ہونا چاہئے تاکہ ملک کو پتہ لگنا چاہئے کہ کون لوگ ایسا کر رہے ہیں۔
نئی دہلی: کرونا بحران اور لاک ڈاؤن کو لے کر وزیر اعظم نریندر مودی نے پیر کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے ریاست کے وزرائے اعلی کے ساتھ بات چیت کی۔ ذرائع کے مطابق وزیر اعظم مودی نے کہا کہ لاک ڈاؤن کھولنے کو لے کر ایک پالیسی تیار کرنی ہوگی۔ ریاست اپنی پالیسی تیار کریں کہ کس طرح ریڈ،گرین اور اورنج زون کو کھولنا ہے۔ ملاقات کے دوران نو ریاستوں کے وزرائے اعلی نے اپنے خیالات وزیر اعظم کے سامنے رکھے۔ ان میں سے چار وزرائے اعلی نے لاک ڈاؤن کو بڑھانے کا مشورہ دیا ہے۔ بتا دیں کہ کرونا انفیکشن کو پھیلنے سے روکنے کے لئے ملک بھر میں لاک ڈاؤن لگایا گیا۔ یہ لاک ڈاؤن3 مئی تک جاری رہے گا۔ذرائع نے بتایا کہ پی ایم مودی نے وزرائے اعلی کے ساتھ ملاقات میں اشارہ دیا ہے کہ 3 مئی کے بعد فیصلہ کریں گے، جو ریاست زیادہ متاثر ہیں، وہاں لاک ڈاؤن جاری رہے گا جن ریاستوں میں حالات ٹھیک ہیں وہاں رعایت دی جائے گی۔ وزیر اعظم نے کہا کہ معیشت کے محاذ پر فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری اقتصادیات اچھی حالت میں ہے۔میگھالیہ کے وزیر اعلی ککانارڈ سنگما نے اپنی ٹویٹس میں لکھا کہ وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے میٹنگ کی۔ ہم نے 3 مئی کے بعد بھی لاک ڈاؤن جاری رکھنے کی رائے دی ہے۔ تاہم میگھالیہ کے ان اضلاع کو جہاں کرونا وائرس کے کیس نہیں ہیں یا گرین زون میں کچھ سرگرمیوں کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ہندوستان میں کرونا تیزی سے پیر پھیلا رہا ہے۔ ملک میں کووڈ -19سے مرنے والوں کی تعداد 872 تک پہنچ گئی۔ وزارت صحت کی جانب سے پیر کو جاری اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں کرونا وائرس سے اب تک 872 افراد ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ متاثرہ معاملوں کی تعداد بڑھ کر 27892 ہو گئی ہے۔ وہیں، گزشتہ 24 گھنٹوں میں کرونا وائرس کے 1396 نئے کیس سامنے آئے ہیں اور 48 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ تاہم تھوڑی راحت والی بات یہ ہے کہ اس بیماری سے اب تک 6185 مریض ٹھیک ہوچکے ہیں۔ 24 گھنٹے میں 381 لوگ ٹھیک ہوئے ہیں۔
اندور: ملک میں کرونا وائرس کے پھیلنے سے سب سے زیادہ متاثر اضلاع میں شامل اندور میں اس وبا سے 3 اور مریضوں کی موت کی تصدیق کی گئی ہے۔ اس ضلع میں کرونا وائرس کی زد میں آنے کے بعد دم توڑنے والے مریضوں کی تعداد بڑھ کر 60 تک پہنچ گئی ہے۔ چیف میڈیکل اینڈ ہیلتھ آفیسر (سی ایم ایچ او) پروین جڑیا نے بتایا کہ شہر میں تین کرونا وائرس متاثرہ مردوں کی گزشتہ دو دن میں الگ الگ اسپتالوں میں علاج کے دوران موت ہوئی۔ ان کی عمر 55 سے 67 سال کے درمیان تھی۔انہوں نے بتایا کہ تینوں مریضوں کو ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، دل سے متعلق بیماری اور دیگر پرانی بیماریاں تھیں۔انہوں نے بتایا کہ گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ضلع میں کووڈ -19 کے 31 نئے مریض ملنے کے بعد ان کی تعداد 1176 سے بڑھ کر 1207 پر پہنچ گئی ہے۔ ان میں سے 123 مریضوں کو علاج کے بعد صحت مند ہونے پر اسپتالوں سے چھٹی دی جا چکی ہے۔رپورٹ کے مطابق ضلع میں کووڈ -19 کی شرح اموات اب تک 4.97 فیصد تھی۔ ضلع میں اس وبا کے مریضوں کی شرح اموات گزشتہ کئی دن سے قومی سطح پرزیادہ بنی ہوئی ہے۔اندور میں کرونا وائرس کا پہلا مریض ملنے کے بعد سے انتظامیہ نے 25 مارچ سے شہری سرحد میں کرفیو لگا رکھا ہے، جبکہ ضلع کے دیگر مقامات پر سخت لاک ڈاؤن نافذ ہے۔
نئی دہلی / ممبئی:حکومت کا ہدف مئی کے آخرتک روزانہ ایک لاکھ مریضوں کی جانچ کرنے کاہے۔ بڑاسوال ہے کہ کیا ہم اس ہدف کوپوراکرپائیں گے؟کیونکہ،ابھی ہم روزانہ تقریباََ30 ہزار جانچ ہی کرپارہے ہیں۔اس وقت وائرس سے متاثرممالک کی تعدادتقریباََ213 ہے۔ان ممالک میں فی دس لاکھ آبادی کے حساب سے بھارت صرف33 ممالک سے زیادہ ٹیسٹ کررہاہے جب کہ 38 ممالک کی جانچ کے اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں۔سارک میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدرکہتے ہیں کہ ہمارے یہاں بہت ہی کم ٹیسٹنگ ہورہی ہے۔آج کی صورت میں کم از کم ایک لاکھ ٹیسٹ روز ہونے چاہئیں۔گزشتہ تقریباََڈیڑھ ماہ میں 82کمپنیوں نے پی سی آر کٹ تصدیق کروانے کے لیے درخواست کی ہے۔ ان میں 17 کمپنیوں کوویلڈیٹ کیا گیا ہے. ان مشینوں اور کٹ کے نتائج درست ہیں۔کوئی شخص وارئرس مثبت ہے یا نگیٹو۔ یہ جانچ سے پتہ چلتاہے۔
نئی دہلی:وزارت خارجہ نے دوسرے ممالک میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے پھنسے ہوئے بھارتی شہریوں کی واپسی کے پلان پرپریزنٹیشن دیا۔ یہ پریزنٹیشن کابینہ سکریٹری راجیوگوباکی جانب سے بلائی گئی اعلیٰ حکام کی میٹنگ میں پیش کیاگیا۔سیکرٹری خارجہ ہرش شررنگلا نے ایگزٹ پلان کے بارے میں تفصیل سے بتایاہے کہ وزارت کس طرح بھارتی شہریوں کی وطن واپسی پرکام کر رہی ہے۔ اس کے لیے دیکھا جا رہا ہے کہ کتنے لوگ کہاں ہیں اور انہیں کس ملک سے بھارت میں کس ریاست تک لانے کے لیے کتنی فلائٹس کی ضرورت پڑے گی۔جہاں بھی ممکن ہوجائے گا۔یہ کوشش کی جائے گی کہ ایسے ہندوستانی شہری COVID-19 نگیٹوسرٹیفکیٹ کے ساتھ واپس آئیں۔ہرش شررنگلانے کہاہے کہ ایسا کرنے سے یہ شناخت کرنے میں مددملے گی کہ کن لوگوں کو کوارنٹائن کیمپ میں بھیجے جانے کی ضرورت ہے اور کون ہوم کوارنٹائن میں بھیجے جائیں۔ وزارت خارجہ اس پرپوری گہرائی کے ساتھ کام کر رہاہے۔ اس میں دیکھا جائے گا کہ جب تک فلائٹس دوبارہ شروع نہیں ہوتیں، اس وقت تک کن لوگوں کو سب سے پہلے وطن واپس لائے جانے کی ضرورت ہے اور ان کے پاس اس کے لیے کیامضبوط بنیادہے۔ایسی فہرست ان بھارتی شہریوں، وزیٹرس اور طالب علموں تک محدودنہیں رہے گی جو کوروناوائرس وباکی وجہ سے لاک ڈاؤن میں دوسرے ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں۔اس لسٹ میں ان ہندوستانیوں کو بھی شامل کیا جائے گا جوانسانی اورضروری وجوہات سے گھر لوٹنا چاہتے ہیں۔خصوصی طیاروں کو ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں ہوائی اڈوں پر لانے کی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔اس سے متعلق ریاستی حکومتوں کو آنے والے مسافروں کو کوارنٹائن پربھیجناآسان رہے گا۔بیرون ملک سے بھارتی شہریوں کو لانے کے لیے نہ صرف فلائٹس بلکہ جہاں ممکن ہوجائے گا بحریہ کے بحری جہازوں کابھی استعمال کیاجائے گا۔
پٹنہ:بہاراسمبلی میں اپوزیشن لیڈرتیجسوی یادوبہارحکومت پرحملے کاکوئی موقع نہیں چھوڑ رہے ہیں۔بحران کے اس دورمیں انہوں نے پہلے ڈاکٹر اور طبی عملے کا مسئلہ اٹھایا، اس کے بعد مزدور، پھر کوٹہ میں پھنسے بہا ر طلبا و طالبات کا مسئلہ اٹھایا۔ اب انہوں نے شیوہر کے ڈسٹرکٹ سیشس جج کے خط کو بنیاد بنا کر نتیش حکومت کو گھیرنے کی کوشش کی ہے۔تیجسوی یادونے اتوارکوٹویٹ میں کہاہے کہ ضلع وسیشن جج، شیوہر کے اس خط کو پڑھ کر آپ بہار حکومت کی تیاریوں، بچاؤ اورعلاج کا اندازہ لگا جا سکتے ہیں۔میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں، بہاربھگوان بھروسے چل رہاہے۔ حکومت صرف خانہ پری کر رہی ہے۔نہ کوئی انتظام ہے اورنہ کوئی کوشش۔تیجسوی یادونے کہا ہے کہ بہار میں ضروری ٹیسٹنگ نہیں ہو رہی ہے۔آرجے ڈی لیڈر نے کہاہے کہ بہار میں حالات بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ضروری ٹیسٹنگ نہیں ہورہی ہے۔نہ ہی مطلوبہ ٹیسٹنگ کٹس اور وینٹلیٹرز دستیاب ہیں۔باہرپھنسے 17 لاکھ بہاریوں کو نکالنے کا کوئی انتظام نہیں ہے، نہ ہی تارکین وطن مزدور وں اور طلبہ کوواپس لانے کی کوئی منشاہے۔حکومت مکمل طورپربے بس، نااہل اورتھکی ہوئی ہے۔
نئی دہلی:تبلیغی جماعت کے سربراہ مولانا محمد سعدکاندھلوی نے انفیکشن سے ٹھیک ہو چکے تبلیغی جماعت کے افرادسے اپناخون عطیہ کرنے کی اپیل کی تھی۔ تاکہ ان لوگوں کو فائدہ ہوسکے جواس بیماری سے متاثرہیں اورجن کاعلاج چل رہاہے۔ مولاناسعدکی اس اپیل کے بعد دہلی میں تبلیغی جماعت کے لوگ، متاثرہ لوگوں کے لیے خون دینے کے لیے تیارہیں۔عام آدمی پارٹی کے ممبر اسمبلی امانت اللہ خان نے ایک ویڈیوکوٹویٹ کرتے ہوئے لکھاہے کہ تبلیغی جماعت کے لوگ مولانا سعد صاحب کی درخواست پر دوسرے مریضوں کے لیے اپناخون دیتے ہوئے، تاکہ باقی مریض ان خون سے ٹھیک ہوسکیں۔یہ معاشرے کے وہ لوگ ہیں جومثبت تھے لیکن اب نیگٹو ہو گئے ہیں اور دہلی کے کوارنٹائن سینٹر میں موجودہیں۔امانت اللہ خان نے جس ویڈیو کوشیئر کیا ہے اس میں ایک ڈاکٹر تبلیغی جماعت کے لوگوں سے یہ کہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ اپ اگرخون دیں گے تواس کے پلازما سے دوسرے مریضوں کو ٹھیک کر سکتے ہیں اور ان کی جان بچ جائے گی۔اس کے بعد وہ ڈاکٹر تبلیغی جماعت کے لوگوں سے پوچھ بھی رہے ہیں کہ کیا آپ اپنا خون عطیہ کریں گے جس کے بعد تبلیغی جماعت کے لوگوں نے ایک ساتھ ہاں کہتے ہوئے کہاہے کہ ہم سب تیارہیں۔بتا دیں کہ 21 اپریل کو مولانا سعد نے ایک خط جاری کیا تھا جس میں کہاگیاتھاکہ وہ اور ان کے دیگر اراکین اس وقت کورنٹائن میں ہیں اور سب کی رپورٹ منفی آئی ہے۔یہ وہی لوگ ہیں جو اس بیماری سے ٹھیک ہو چکے ہیں اور انہیں حکومت اور معاشرے کے لوگوں کی مددکرنی چاہیے اور اپناخون عطیہ کرناچاہیے۔
قرنطینہ سینٹرزمیں روزہ داروں کوکھانافراہم نہیں کیاجاناباعث شرم،دہلی اقلیتی کمیشن نے وزیر صحت کوخط لکھا
نئی دہلی:دہلی اقلیتی کمیشن نے دہلی کے وزیر صحت ستیندر جین کو خط لکھا ہے کہ حضرت نظام الدین میں تبلیغ مرکز سے قرنطینہ کیمپوں میں لائے گئے لوگ کل بروز پیر، 27 اپریل 2020 کو 28 دن پورے کرلیں گے، جو کہ کورونا مشتبہ افراد کے قرنطینہ کے لیے امریکی اور عالمی ادارہ صحت کے رہنما خطوط کے مطابق لازمی مدت سے دوگنا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب متاثرہ افرادمیں کورونا وائرس کے علامات کے ظہورکے لیے 14 دن سب سے طویل مدت ہوتی ہے تو مذکورہ لوگوں کو غیر ضروری طور پر نظربند رکھا جارہا ہے۔ ملک میں دوسرے قرنطینہ مراکز میں بند لوگوں کا نگیٹیو ٹسٹ آنے پر ان کو 14 دن کے بعد گھر جانے کی اجازت دیدی جاتی ہے۔چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان اور ممبر کرتار سنگھ کوچر کے دستخط کردہ خط میں کمیشن نے کہا کہ”اب مناسب یہی ہے کہ ایسے تمام افراد جنہوں نے ان کیمپوں میں 28 دن گزارلئے ہیں اور جن کا ٹسٹ نگیٹیوآیاہے ان کو اجازت دی جانی چاہئے کہ وہ گھر چلے جائیں یا جب تک لاک ڈاؤن جاری ہے دہلی میں کہیں اور رہ لیں“۔کمیشن نے اپنے خط میں کہا ہے کہ اس وقت دہلی کے کورونا قرنطینہ کیمپوں جیسے سلطان پوری، وزیرآباد، نریلا اور دوارکا وغیرہ میں ہزاروں ایسے قیدی موجود ہیں لیکن ان کیمپوں میں خوراک اور طبی دیکھ بھال کی فراہمی قابل اطمینان نہیں ہے۔کمیشن نے مزید کہا کہ قرنطینہ میں موجود افراد میں عمر رسیدہ لوگوں کے ساتھ ساتھ ذیابیطس اور دل کی پریشانی جیسے صحت کے مسائل سے دوچار افراد بھی شامل ہیں۔ ان میں سے ذیابیطس کے دو (۲) مریض حالیہ دنوں میں مناسب طبی دیکھ بھال نہ ہونے اور بروقت ادویہ اور خوراک کی فراہمی نہ ہونے کی وجہ سے سلطانپوری کیمپ میں وفات پاگئے۔کمیشن نے اپنے خط میں کہا کہ یہ رمضان کا مہینہ ہے اور ان کیمپوں میں بیشتر مسلم نظر بند روزے رکھ رہے ہیں لیکن قرنطینہ مراکز کے موجودہ حالات میں انھیں سخت دقت پیش آرہی ہے۔
کمیشن نے کہا کہ ان افرادکے بلا وجہ نظر بند رکھنے سے مسلم معاشرے میں بے چینی پھیل رہی ہے اور اس کی وجہ سے کچھ لوگ عدالتی چارہ جوئی بھی کر سکتے ہیں۔اسی سلسلے میں دہلی اقلیتی کمیشن کو معلوم ہوا ہے کہ وزیرآباد میں پولیس ٹریننگ اسکول میں چل رہے قرنطینہ کیمپ کی صورتحال اور بھی زیادہ خراب ہے۔ اس کیمپ کی نگرانی ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ شمالی ضلع کرتے ہیں جو بظاہر اس کیمپ کے قیدیوں کے حالات سے غافل ہیں۔یہاں بجلی کے پنکھے اور یہاں تک کہ مگ اور بالٹی بھی مہیا نہیں کی گئی ہے اور قیدیوں کو باہر سے کچھ بھی خریدنے کی اجازت نہیں ہے۔ سنیچر کورمضان کا پہلا دن تھا لیکن وزیر آباد کیمپ میں قیدیوں نے خالی پیٹ روزہ رکھا کیونکہ سحری کا کھانا فراہم نہیں کیا گیا۔ پھر سنیچر کی شام کو غروب آفتاب کے وقت افطار کرنے کے لئے ان لوگوں کو فی کس صرف دو عدد کیلے اور تین عدد کھجوریں مہیا کی گئیں اور کوئی باقاعدہ کھانا فراہم نہیں کیا گیا۔اس وجہ سے جمعیت علماء نے آگے بڑھ کر ان لوگوں کو سحری کا کھانا مہیا کیا جو کیمپ کے منتظمین کے لیے شرم کی بات ہے۔اس سلسلے میں کمیشن نے سنیچر کوڈسٹرکٹ مجسٹریٹ شمالی ضلع کو نوٹس جاری کیا۔ پھر اتوار کو یہ جاننے کے بعد کہ وزیرآباد کیمپ میں صورتحال بہتر نہیں ہوئی ہے، کمیشن نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ شمالی ضلع کو دوسرا نوٹس ارسال کیا ہے جس میں ان کو ہدایت دی ہے کہ وہ سامان کی فراہمی کی ذاتی طور پر نگرانی کریں اور خصوصا بروقت مناسب خوراک نظر بند لوگوں کو پہنچائیں۔
علی گڑھ:ہاسپٹل انفیکشن سوسائٹی، انڈیا، علی گڑھ شاخ کی جانب سے ”ہاتھوں کی صفائی: کووِڈ-19 اور اس کے بعد“ موضوع پر ایک مضمون و نظم نویسی مقابلے،اور شارٹ ویڈیو مقابلے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جواہرلعل نہرومیڈیکل کالج، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مائیکروبایولوجی شعبہ کی ڈاکٹر فاطمہ خاں نے بتایا کہ دونوں انعامی مقابلوں میں کوئی بھی شخص حصہ لے سکتا ہے۔ مضمون یا نظم طبع زاد ہو، انگریزی، ہندی یا اردو تینوں میں سے کسی بھی زبان میں ہو اور ایک ہزار سے زائد الفاظ پر محیط نہ ہو۔ اسی طرح شارٹ ویڈیو زیادہ سے زیادہ ایک منٹ کا ہونا چاہئے۔ مقابلے میں حصہ لینے کے خواہشمند افراد اپنی انٹزیز آئندہ 30/اپریل 2020 تک ای میل آئی ڈی [email protected]پر ارسال کریں۔ ساتھ میں اپنا نام، عمر، عہدہ/کورس اور ادارے کا نام ضرور لیں۔
علی گڑھ:
ہاسپٹل انفیکشن سوسائٹی، انڈیا، علی گڑھ شاخ کی جانب سے ”ہاتھوں کی صفائی: کووِڈ-19 اور اس کے بعد“ موضوع پر ایک مضمون و نظم نویسی مقابلے،اور شارٹ ویڈیو مقابلے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جواہرلعل نہرومیڈیکل کالج، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مائیکروبایولوجی شعبہ کی ڈاکٹر فاطمہ خاں نے بتایا کہ دونوں انعامی مقابلوں میں کوئی بھی شخص حصہ لے سکتا ہے۔ مضمون یا نظم طبع زاد ہو، انگریزی، ہندی یا اردو تینوں میں سے کسی بھی زبان میں ہو اور ایک ہزار سے زائد الفاظ پر محیط نہ ہو۔ اسی طرح شارٹ ویڈیو زیادہ سے زیادہ ایک منٹ کا ہونا چاہئے۔ مقابلے میں حصہ لینے کے خواہشمند افراد اپنی انٹزیز آئندہ 30/اپریل 2020 تک ای میل آئی ڈی [email protected]پر ارسال کریں۔ ساتھ میں اپنا نام، عمر، عہدہ/کورس اور ادارے کا نام ضرور لیں۔
دہرادون:اتراکھنڈ میں دو اور مریضوں میں وائرس انفیکشن کی تصدیق ہوئی ہے جس سے ریاست میں اس وباسے متاثرین کی تعدادبڑھ کر 50 ہوگئی ہے۔ریاستی حکومت کے ہیلتھ بلیٹن کے مطابق، کووڈ -19 کے دونوں نئے کیس دہرادون ضلع کے ہیں۔وائرس کا ایک مریض یورولوجی کے سیکشن کے اوپی ڈی میں کام کرنے والا نرسنگ افسرہے۔ایمس کے ڈین یوبی مشرانے بتایاہے کہ نرسنگ افسر کے رابطے میں رہے وارڈکے تمام اہلکاروں اور مریضوں کے نمونے جانچ کے لیے بھیج دیئے گئے ہیں اورسب کوآئسولیشن میں رکھ دیاگیاہے۔انہوں نے بتایا کہ وارڈ میں نئے مریضوں کی بھرتی بھی بندکردی گئی ہے۔ ایساماناجا رہاہے کہ نرسنگ افسر کو یہ بیماری کسی متاثر شخص کے رابطے میں آنے سے ہوئی ہے۔
علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے شکوہ اور جواب شکوہ میں اپنے درد کو لکھا اور اعتراض پر وضاحت بھی کردی۔ آج عام مسلمان بھی اللہ رب العزت سے شکوہ کناں ہے کہ وہ اپنے گناہوں سے توبہ کر رہا ہے عالمی وباء جس کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہو سکا اس کورونا وائرس کے قہر سے خلاصی کے لئے دعائیں کر رہا ہے مگر اللہ ان کی دعائیں قبول نہیں کرتا۔ اس سنگین ترین مرض کا دائرہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے میڈیکل سائنس کے میدان میں دنیا کی عظیم ترین طاقتیں اور روۓ زمین پر تمام تر وسائل رکھنے والے ممالک عاجز آکر آسمان کی طرف دیکھنا شروع کر دیۓ ہیں اور اپنی بے بسی کا اعتراف کر رہے ہیں۔ وہ اپنے عقائد کے مطابق آسمان کی طرف سوپر نیچرل ہستی کی طرف نگاہیں جما رہے ہیں ہم اپنے عقیدے کے مطابق اللہ کی طرف رجوع کر رہے ہیں اسی ایک قہار و جبار اور کن فیکون کے مالک سے التجا کر رہے ہیں اپنی اور مادی دنیا کی کم مائیگی کا اعتراف کر رہے ہیں رحم کی بھیک مانگ رہے ہیں پھر بھی بظاہر اس خوفناک مصیبت سے نجات کی صورت نظر نہیں آ رہی ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہمیں مانگنے کو کہا اللہ رب العزت نے کہا مانگو ہم تمہاری دعائیں سنیں گے اور قبول کریں گے پھر بھی ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہیں آخر کیوں ؟
اللہ سے شکایت کرنے کے بجائے ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا چاہیے۔ سنة الله پر غور کرنا چاہیے اللہ جل جلالہ نے متعدد مقامات پر قرآن کریم میں فرمایا یہ آفات و مصائب تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے۔ مما كسبت ايديكم. اس لئے ” ہم سے ایسا کون سا گناہ سرزد ہوا جو اس وباء میں ہم مبتلاء ہیں ” یہ سوال اللہ سے کرنے کی بجائے ہمیں اپنے آپ سے پوچھنا چاہیۓ اپنے اعمال کا جائزہ لینا چاہیے۔ مادی دنیا میں جب سارے وسائل فیل ہو جائیں تو معنوی اخلاقی اور روحانی وسائل کی طرف مائل ہونا ناگزیر ہے۔ روحانی دنیا میں دعا کی قبولیت کے لئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو شرط بتائی ہے وہ ہے حلال رزق۔ بغیر کسی چوں چرا کے بغیر کسی تاویل اور فقہ کو توڑ مڑوڑ کر حرام کو حلال بنانے کی کوشش کے۔
ہر انسان کا ضمیر اس کے لئے بہترین جج ہے جائز نا جائز صحیح اور غلط میں تمیز کرنے والا بہترین آلہ ہے۔ ایک ملازم اپنی ڈیوٹی کے تئیں فرض شناس نہیں ہے وقت پر حاضر نہیں ہونے کے کئی بہانے اور نسخے استعمال کرتا ہے ایک تاجر کم ناپ تول اور عیب کو چھپا کر اپنا سامان بیچتا ہے جھوٹی قسمیں کھا کر خریداروں کو دھوکا دیتا ہے گراہکوں کو اپنی دیانتداری کا اعتبار کرانے کے لئے داڑھی ٹوپی پہنتا ہے اور جب اس کے مخلص ایسا کرنے سے منع کرتے ہیں تو اس کے لئے مارکیٹ کمپیٹیشن کا جواز پیش کرتا ہے۔ اسی طرح ہر شعبے میں آج مسلمانوں کی پہچان غیر دیانت دار تاجر ملازم پارٹنر ٹیچر مدرس امام مؤذن کی ہے۔ پھر بھی شکایت اللہ سے ہے کہ وہ ہماری دعائیں نہیں سنتا ! حقوق العباد کو طاق پر رکھ کر اللہ کی رحیمی و کریمی کی تسبیح اور غفور رحیم کی دہائی دیتے رہتے ہیں ! دوسروں کے حقوق اور دین ادا نہیں کرتے مگر رمضان اور غیر رمضان میں سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے غریبوں میں اناج و کپڑے تقسیم کرتے ہیں ! حلال حرام میں تفریق کۓ بغیر دولت کماتے ہیں اپنے ملازمین کا استحصال کرتے ہیں اور مدارس اور مساجد میں بڑی بڑی رقم چندہ دیتے ہیں۔ اپنے گھر کے دروازے پر مولوی اور مولوی نما محصلین کی بھیڑ لگا کر ” دین اور دینی اداروں ” کے معاون کا سرٹیفکیٹ حاصل کرتے ہیں !
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
تحریر :ڈاکٹر رضوان احمد (اسوسی ایٹ پروفیسر ،شعبۂ انگریزی و لسانیات ،قطر یونیورسٹی ،دوحہ ،قطر)
ترجمہ :وسیم احمد علیمی
گزشتہ پندرہ دنوں سے سوشل میڈیا اور مرکزی دھارے کی میڈیا میں ایسی خبروں کا سیلاب سا آگیا ہے کہ کس طرح ملک بھر میں کووڈ 19 کے سیکڑوں معاملے کا تار ان لوگوں سے جڑا ہواہے جواوائلِ مارچ میں دہلی کے اندر تبلیغی جماعت کےمرکز میں موجود تھے۔جبکہ ان تبلیغیوں پر لگائے گئے اکثر الزامات بے بنیاد ثابت ہو چکے ہیں ۔
حالاں کہ خود تبلیغی جماعت سے ہمدردی رکھنے والوں کا بھی ماننا ہے کہ مرکز کے منتظمین نے لوگوں کی آمد ورفت منسوخ نہ کر کے غیر ذمہ دارانہ رویے کا ثبوت دیا ہے ۔ہندی اور انگریزی اخباروں نے اس واقعہ کی رپوٹنگ کے دوران ایسے الفاظ کا استعمال کیا جن سے ہندوستانی مسلمانوں کی شبیہ بگڑتی ہے ۔ اس قسم کی نفرت انگیز رپوٹنگ سے نہ صرف اس عالمگیر وبا سے لڑنے میں دشواریاں ہوں گی بلکہ ملک کی قومی یکجہتی پر بھی بھیانک نتائج مرتَب ہوں گے ۔
24 مارچ کو وزیر اعظم نریندر مودی کےاکیس دنوں کے ملک بھر میں لاک ڈاؤن کے یک لخت اعلان کے بعد آمد و رفت منسوخ ہوگئی اور لوگ ملک کے مختلف حصوں میں پھنس گئے ۔ تبلیغی جماعت کے ممبران جو ابھی تک دہلی کے بنگلے والی مرکز مسجد سے نہیں نکل سکے تھے کے علاوہ ہندو اور سکھ بھی الگ الگ مقامات پر لاک داؤن کی وجہ سےپھنسے ہوئے تھے ۔ دہلی کے اندر مجنوں کےٹیلہ میں واقع گرودوارے میں تقریبا دو سو سکھ پھنس گئے تھے ،جمو شہر میں لگ بھگ 400 ہندو زائرین ٹرین رد ہونے کی وجہ سے ویشنو دیوی مندر میں رکے رہنے پر مجبور تھے ۔ لیکن میڈیا نے ان تینوں یکساں انسانی بحران کی ترجمانی میں مختلف لسانی حربوں اور تزویر ں کا استعمال کیا ۔
جدا جدا الفاظ ،جدا جدا بیانیہ :
نظام الدین مسجد میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کے لیے ہندی نیوز پورٹلس اور اخباروں نے لفظ ’چھپے ہوئے ‘ کا استعمال کیا ۔ زی نیوز کی سرخی اس طرح تھی ’’دلی کی 8 مسجدوں میں چھپے تھے 113 لوگ ،نظام الدین مرکز میں ہوئے تھے شامل ‘‘۔ ہندی میں فعل لازم ’چھپنا ‘ کا معنی ایسی جگہ جانا ہے جہاں آپ پر کسی کی نگاہ نہ پڑے ۔اگرچہ لغوی اعتبار سے چند مخصوص سیاق میں یہ لفظ مثبت معنی پربھی دلالت کرتاہے مثلا بچوں کے کھیل کے لیے ’چھپا چھپی ‘کا استعمال ۔لیکن اکثر و بیشتر اس لفظ سے منفی آہنگ کی بو آتی ہے ۔لوگ یاتو کسی کے خوف سے چھپتے ہیں یا کسی سے بچنے کے لیے ۔مثلا کوئی کہے کہ ’’پولیس کو دیکھ کر میرے چچا چھپ گئے ‘‘۔اس لفظ کا استعمال اکثر ان مجرموں کے لیے ہوتاہے جوگرفتاری کے خوف سے پولیس سے چھپ جاتے ہیں ۔ اس لفظ کا استعمال اس ماحول کو بیان کرنے کے لیے بھی ہوتاہے جب ایک بندوق بردار شخص حملہ کرنے کی تاک میں چھپا ہو ۔ مثلا اس نیوز رپوٹ میں لفظ ’’چھپے ہوئے ‘‘ کا استعمال ایسے ہوا ہے جیسے دشہرا گھاٹی میں چھپے ہوئے ڈاکو مہندرا پاسی اور اس کی ٹولی کے لیے ہوتا تھا ۔
زی نیوز کی سرخی میں مرکز میں پھنسے مسلمانوں کے لیے اس لفظ کا استعمال اشارہ کرتاہے کہ گویا جماعت کے ممبران کسی غیر قانونی یا قابل سزا سرگرمیوں میں مصروف ہوں اور مسجد کو پناہ گاہ کے طور پراستعمال کر رہے ہوں ۔
ہندوستان ٹائمز نے بھی اپنی سرخی میں اسی قسم کے حربے کا استعمال کیا ۔’’کووڈ 19:دہلی بھر میں تبلیغی جماعت سے وابستہ 600 غیر ملکی افراد چھپے ہوئے پائے گئے ‘‘۔
Covid-19: 600 Foreign Tablighi Jamaat workers found hiding across Delhi, and counting”‘‘
انگریزی لفظ ’hiding‘ میں بھی وہی لسانی پہلو مضمر ہے جو ہندی اور اردو کے لفظ ’چھپے ہوئے ‘ سے عیاں ہوتاہے ۔
تبلیغی جماعت کی صورت حال کے بالمقابل اسی ہفتے دہلی گرودوارے اور ویشنو دیوی مندر میں بھی یکساں صورت حال تھی ۔لیکن وہاں زائرین اور تیرتھ یاتریوں کی ترجمانی کے لیے زیاد ہ تر خبروں میں الگ لفظ کا استعمال دکھائی دیتاہے ۔ ان معاملات میں میڈیا نے لفظ ’پھنسے ہوئے ‘ کا استعمال کیا ہے ۔جیساکہ این ڈی ٹی وی کی اس سرخی سے عیاں ہے ’’کرونا وائرس لاک ڈاؤن : ویشنو دیوی میں پھنسے ہیں 400 تیرتھ یاتری ،کورٹ نے دیا مدد کا آدیش ‘‘۔
لفظوں کے استعمال کے پس پردہ جو منشا چھپی ہوئی ہے وہ بالکل الگ ہے ۔’چھپے ہوئے ‘ کے بر عکس ’پھنسے ہوئے ‘ کا استعمال ایسے لوگوں کی حالت بیان کر نے کے لیے ہوتاہے جو کسی مقام پر بیچارگی کی حالت میں ہوں۔ مثلا ہندی میں کہیں کہ ’’لوگ جام میں پھنسے ہوئے تھے‘‘۔
انگریزی خبروں میں بھی مترادف الفاظ کا استعمال نظر سے گزرا ہے۔ ان خبروں میں ’stranded‘ ’stuck‘ اور ’grounded‘ جیسے الفاظ استعمال کیے گئے ۔ جیسا کہ ہم سب باخبر ہیں کہ سامعین پر لفظوں کا ایک اثر مرتب ہوتاہے ۔ مسلمانوں کے لیے لفظ ’چھپے ہوئے‘ کا استعمال قاری کے ذہن میں تبلیغی جماعت کے حوالے سے ایک قسم کا غصہ اور ناراضگی مرتب کرتاہے وہیں ہندو ؤں اور سکھوں کے لیے لفظ ’پھنسے ہوئے ‘ کے استعمال سے قاری کے دل و دماغ میں ان کے لیے خاص قسم کی ہمدردی پیدا ہوتی ہے ۔
ماہرین لسانیات کے لیے یہ ایک پرلے درجے کی مثال ہے کہ سیاست کے بھدے مقاصد کی تکمیل میں زبان کا استعمال کیسے ممکن ہے ۔
یہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ مرکز کے مسلمانوں کے لیے میڈیا میں جن الفاظ کا استعمال کیا گیا ان سے آمد و رفت کی پابندیوں کی وجہ سے مسجد میں پھنسے ہوئے مسلمانوں کی شبیہ مجرموں جیسی بن گئی ۔زبان محض ابلاغ و ترسیل کا ایک ذریعہ نہیں ہے بلکہ دودھاری تلوار ہے جس کے استعمال سے ملک میں اتحاد قائم کرنے اور ملکی مفادات کی تکمیل ہو سکتی ہے اسی طرح اس کے غلط استعمال سے واقعات کو توڑ مروڑ کر پیش کر کے غلیظ سیاسی منصوبوں کی تکمیل بھی ہو سکتی ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
صفدرامام قادری
صدر شعبہ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
مصیبتیں کہہ کر نازل نہیں ہوتیں۔ بلائیں ناگہانی ہوتی ہیں۔ اسکول کالج میں ہمارے بچّے محاورات اور ضرب الامثال کی مشق کرتے ہوئے ایسے جملے بناتے ہی رہتے ہیں مگر کسی کو کیا معلوم کہ اکیسویں صدی کی دو دہائیاں مکمّل ہوتے ہوتے ہم عالمی طور پر کچھ اس طرح اُلجھ جائیں گے کہ نہ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لایق رہیں گے اور نہ ہی اپنی مدد آپ کرنے کا ماحول پیدا ہو پائے گا۔ یہ قیامت کی گھڑی ہے جب ہر زندہ آدمی پر موت کا سایہ ہے اور کس شخص کی اگلی باری ہے، اسی انتظار میں ہم سب جی رہے ہیں۔سائنس دانوں نے ایک علاج تجویز کیا۔ محتاط فاصلہ(سوشل ڈسٹنسنگ) انسانی معمولات نے ایک جھٹکے میں سب کچھ کھودیا۔اہلِ اسلام سے لے کر عیسائی اور یہودیوں تک مصافحہ اور معانقہ داخلِ رسوم ہیں مگر لوگوں نے دور کا جلوہ ہی مناسب مانا۔ہندو دھرم کے پاؤں چھونے اور سر پر آشیرواد کا ہاتھ ڈالنے کا سلسلہ بھی بند ہو گیا۔ اب چھے فٹ دوری سے ہاتھ جوڑ کر استقبال تک یہ دنیا محدود ہو چکی ہے۔ محفلِ عُشّاق میں بھی چھے فٹ سے زیادہ دوری کی فلائنگ کِس پر دنیا قائم رہ سکتی ہے۔
ایسے میں مسلمانوں کا سب سے بڑا عالمی تہوار رمضان کا مہینہ آ گیا جس کے روزوں کے انعام میں ہمیں عید جیسی خصوصی عطا نصیب ہوتی ہے۔ دنیا کا ہر چوتھا باشندہ مذہبِ اسلام کا ماننے والا ہے۔اس اعتبار سے غور کریں تو عالمی سطح پر گاؤں گاؤں اور شہر شہر استقبالِ رمضان کے مرحلے میں مقابلہئ کورونا میں مبتلاے غم ہے۔ ایک طرف جہاں اجتماعیت کے سو آداب نمازِباجماعت، تراویح کا بہ شوق اہتمام، افطار میں بھی اجتماعی انداز پسندیدہ مگر وبا یہ کہتی ہے کہ ایک دوسرے سے دوٗر رہو۔ چھے اور آٹھ فٹ کی دوری کا جیسے ہی معاملہ ہوگا، اجتماعیت کا اسلامی تصوّر اپنے آپ ختم ہو جائے گا۔
رمضان سے عید تک اجتماعی زندگی کے نہ جانے کتنے معاملات ہیں جب دنیا کا ہر مسلمان اخلاق اور مروّت کے درجات طے کرتا جاتا ہے۔ ایک طرح سے سماجی اور مذہبی دونوں معاملے میں انسان کو غفلت سے بیدار ہونے اور اپنے حقیقی کردار کی طرف لوٹنے کا موقع ہاتھ آتا ہے۔ ہماری مسجدیں آباد ہو جاتی ہیں۔ فقرا و مساکین کی بھوک گھٹ جاتی ہے اور ان کی ضیافت کا سلسلہ قائم ہونے لگتا ہے۔ جو جس لایق ہے، وہ اُسی اعتبار سے زکوٰۃ، فطرہ اور صدقات پیش کرکے دنیا میں کروڑوں لوگوں کی چند دنوں کے لیے ہی سہی، کفالت کرتا ہے۔
مگر ایک آن میں ہماری محفل درہم برہم ہو گئی ہے۔ یہ تو اچھا ہوا کہ دنیا کے مختلف گوشوں میں کئی کئی مہینوں کے لاک ڈاؤن کے بعد رمضان کی آمد ہوئی ہے۔ ہندستان کی بات پر کوئی تنگ نظر سوالات قائم کر سکتا ہے مگر خلیج کے ممالک، پاکستان اور بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور ملیشیاسے لے کر یورپ تک مسجدوں میں تالے لگے ہوئے ہیں۔ خانہئ کعبہ اور مسجدِ نبوی کے معمولات بدل گئے ہیں۔ اس میں ہماری ایک تربیت ہو گئی ہے کہ عام انسانیت کے معاملات میں ہم دوسروں کی زندگی کے لیے کبھی خطرہ نہیں بنتے۔ ہر گوشے میں یہ خوش آیند کیفیت دیکھنے کو ملی کہ عالمِ انسانیت کی پُکار کو مسلمانوں نے اپنے مذہب سے متصادم نہ ہونے دیا۔اسے پوری دنیا میں پسندیدہ نگاہوں سے دیکھا گیا۔
اس موقعے پر تبلیغی جماعت کے افراد اور ہر جمعہ کو دو چار پانچ مسجدوں میں جمع ہونے والے بھائیوں کی بات چھوڑ دیجیے جنھیں ہم اپنا مثالی کردار نہیں مان سکتے۔ شعراے کرام نظمیں لکھ رہے ہیں۔ علماے کرام آڈیو پیش کررہے ہیں۔ ہر جگہ رمضان کے موقعے سے اس سرد مہری پر ماتم کا ماحول ہے۔ مذہبی تاویل عام ہے کہ ہمارے اعمال سے خدا ناراض ہے اور ہمیں آسانی سے معافی نہیں دے رہا ہے۔ ہمارے گناہوں کے پہاڑ کھڑے ہیں اور اب یہ ہم پر ٹوٗٹ پڑ ے ہیں۔ایک طبقہ ندامت میں مبتلا ہے اور دوسرا اسی رمضان میں خدا کے حضور گِڑ گِڑا نے اور تمام عالم ِ انسانیت کیلئے رحم کی بھیک مانگنے کے لیے تیّار ہے۔ جسے اس موقعے سے جو ترکیب نظر آ رہی ہے، وہ آزما رہا ہے مگر کئی اور باتیں ہیں جن پر ہماری اجتماعی زندگی کے دانش وروں کو اور عام لوگوں کو سوچنا ہی چاہیے۔ شاید اس مشکل گھڑی میں کوئی معقول راہ نکل آئے۔
سوبات کی ایک بات تویہی ہے کہ مسلمان اجتماعی طور پر مسجدوں کا رُخ نہ کریں اور جس قدر صبر و ضبط کے ساتھ عالمی طور پر صحت کے اصولوں کے مطابق کاربند رہیں، اُسے رمضان میں بھی جاری رکھیں۔ جمعہ کے موقعے سے تھوڑا بہت انھوں نے سیکھ بھی لیا ہے مگر رمضان میں پُر جوش مسلمانوں کا ایک طبقہ میدانِ عمل میں آ جاتاہے۔ ممکن ہے،وہ جوش میں ہوش کھونے کے لیے اُتاولا ہو جائے۔ یہ ہرگز ٹھیک نہیں ہو گا۔ ہمیں تو اس بات کے لیے ذہنی طور پر تیّار رہنا چاہیے کہ ملک کے ایک بڑے حصّے میں یا پورے ملک میں ہی عید تک لاک ڈاؤن جاری رہے اور ہمیں اپنے گھروں میں ہی رہ کر اجتماعی زندگی کے سب سے بڑے تہوار کو ضایع کرنا ہو گا۔ آج عالم ِ انسانیت کی یہی پُکار ہے مگر ہمارے لیے اس رمضان میں کرنے کے لیے بہت سارے کام ہیں جنھیں انجام تک پہنچالیں تو شاید ہم خدا کی خوشنودی حاصل کر سکیں۔
لاک ڈاؤن کے نتیجے میں روزانہ کمانے اور کھانے والے لوگوں کا جینا مشکل تر ہو گیا۔ اس دوران حکومت سے جو ممکن ہوا، اُس نے کیا۔ مگر بڑی تعداد میں لوگوں نے رضاکارانہ طور پر بھوکے لوگوں، غرباو مساکین تک کھانے پینے کے سامان پہنچائے۔ اخبارات، ٹی۔وی اور سوشل میڈیا پر اُن رضاکارانہ کام کرنے والے لوگوں میں صورت سے پہچانے جانے والے لوگوں میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد نظر آئی۔گرونانک نے بابا فرید اور صوفیاکی زندگی سے غربا اور مساکین کو کھلانے کے کام کو اپنے مذہب کا حصّہ بنایا تھا جسے ہر گرودوارے نے اب تک جاری رکھا ہے اور اس مصیبت کی گھڑی میں ملک کے گوشے گوشے میں ہمارے سکھ بھائی عوامی فلاح کا یہ کام کررہے ہیں۔ رمضان کے دور میں کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہر طرح کے دکھاوے سے بے نیاز ہو کر ہم اپنے آس پاس کے ویسے لوگوں کی پہچان کر لیں جن کی بھوک سے لڑتے لڑتے زندگی بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔ اپنے آس پاس اور محلّے میں ہر گھر والے کو ایسے دو چار چہرے مل جائیں گے۔ کم از کم ایک مہینے کے لیے اگر انھیں مالی طور پر گود لینے کا سلسلہ شروع ہو جائے تو ہمیں یقین ہے کہ ہندستان میں شاید ہی کوئی مسلمان بھوکا سوئے گا۔ یہی نہیں یہ سلسلہ آگے بڑھے گا اور ہم برادرانِ وطن کے لیے بھی کھانے کا انتظام کرکے اپنے اعلا کردار کو پیش کر سکتے ہیں۔ یہ واضح طور پر ہمارا مذہبی فریضہ ہے اور اس کے بغیر رمضان کے روز ے بھی بابِ قبولیت میں لڑکھڑاتے رہیں گے۔
مسلم قوم پر طرح طرح کی مصیبتیں آتی رہتی ہیں اور ان سے مقابلہ کرنے میں مقامی سطح پر رضا کارانہ طور سے خدمات انجام دینے والے لوگ بھی اس قوم میں پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ وہی لوگ اپنی جان پر کھیل کر اپنے ہم وطنوں کو دو وقت کی روٹی پہنچا رہے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہمارے قومی اور صوبائی ادارے چندہ لینے کی جس بڑے پیمانے پر مہم چلاتے ہیں، اس بڑے پیمانے پر مشکل گھڑی میں مدد پہنچانے کے لیے وہ پہنچ نہیں پاتے۔ ڈیڑھ اینٹ کی الگ الگ مسجدیں بنی ہوئی ہیں اور اپنی عظمت اور اَنا میں سب چوٗر ہیں۔ پورے ملک میں دو، چار، دس مسجدیں اور مدارس ہی بھوکے غربا اور مساکین کے لیے ان ڈیڑھ مہینوں میں کھانے پینے کے سامان کے لیے مرکز بن سکے۔ مسائل دنیا کے دوسرے خطّے میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے بھی ہیں مگرہندستان، پاکستان اور بنگلا دیش میں لاک ڈاؤن کی پہلی مار غربا اور مساکین پر پڑی ہے۔ ہندستان میں مرکز اور بہت ساری صوبائی حکومتیں بھی اس انداز سے چل رہی ہیں کہ یہ کہنا مشکل نہیں کہ وہ ہمارے وجود پر سوالیہ نشان لگانے کے در پَے ہیں۔
۰۲۰۲ء کا رمضان حقیقت میں ہندستانی مسلمانوں کے لیے خاص امتحان لے کر آیا ہے۔ ہمیں اس رمضان میں اپنے حقیقی اسلامی اور فلاحی تصوّر کو سامنے رکھ کر میدان میں اُترنا ہوگا۔ کبھی کبھی مصیبتوں سے اصلاح کی گنجایشیں پیدا ہوتی ہیں۔ ہمارے مذہبی اداروں میں سماجی فلاح کے سلسلے سے زیادہ غور و فکر دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اپنے مذہبی معاملات پر ہماری توجہ رہتی ہے مگر سماجی اصلاح کے کام کو ہم نے اپنے مذہبی اور تعلیمی اداروں سے دوٗر کر دیا ہے۔رفتہ رفتہ عام انسانوں کے مسائل سے بھی ہمارے یہ ادارے بے رُخی برتنے کے عادی ہو گئے ہیں۔ اب کی بار استقبالِ رمضان سے ہم یہ کام شروع کرسکتے ہیں کہ ذاتی طور پر اپنی قوم اور برادرانِ وطن کے غربا اور مساکین تک خود جائیں اور انھیں پورے رمضان کے لیے کھانے پینے کی سہولت بہم پہنچائیں۔ کورونا کی وبا ایک نہ ایک دن ختم ہو جائے گی۔ ہماری مسجدیں اور مدارس بھی کام کرنے لگیں گے مگر اس رمضان میں اگر ہم نے اپنی قوم اور برادرانِ وطن کے کمزور افراد کی کفالت کا سلسلہ شروع کر دیا تو آپ یقین جانیے کہ ہم اس ملک میں انقلاب لا دیں گے۔ کورونا کی وبا اور حکومتِ ہند کے متعدد غیر انسانی فیصلوں کے مقابلے ہمارا فلاحی کردار سنہرے لفظوں میں لکھا جائے گا۔ ممکن ہے،پھر سے سکھوں کی طرح مسلمانوں کو بھی عام انسانوں کے درد و غم کا مداوا ڈھونڈنے اور چارہ گری کرنے کے لیے دنیا جاننے لگے۔تشدّد پسندی اور جہادی اِمیج کے مقابلے مسلمانوں کی یہ اِمیج اپنی مذہبی تعلیمات کے عین مطابق ہوگی۔ کورونا سے ہمیں اس بار یہ سیکھ ہی لینا چاہیے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)
یاور رحمٰن
شہر کی شاہراہ پر بچھی سنّاٹے کی دبیز چادر کو چیرتے ہوئے کورونا بلکل ایک فاتح کی طرح عین وسط میں چل رہا تھا۔ اس کی چال میں مغرور اور بے رحم شاہوں جیسی نخوت آمیز تمکنت تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے شہر کے مکینوں کو انکے گھروں کے اندر تک کھدیڑ دینے کے بعد سارا شہر اس کے تلووں میں پسر گیا ہے۔ اس نے غرور و تکبر کی شراب میں ڈوبی ہوئی اپنی لڑکھڑا تی نگاہ بلند و بانگ عمارتوں پر ڈالی۔ یہ علاقہ شہر ہی نہیں بلکہ ملک کا سب سے بڑا اور اہم ترین تجارتی مرکز تھا۔ یہاں بڑی بڑی قومی اور بین قومی کمپنیوں کے دفاتر تھے۔ ان فلک بوس عمارتوں کی پیشانیوں پر دنیا بھر کے مشہور برانڈز کے اشتہار اور کمپنیوں کے سائن بورڈز سے روشنیوں کا سیلاب امنڈ رہا تھا۔ مگر اپنے قدردانوں کے بغیر یہ ساری چمک دمک اک لاش کے گرد لپٹے ہوئے برقی قمقموں جیسی تھی۔ کورونا نے ان پر ایسی حقارت آمیز نظر ڈالی جیسے کوئی کمزور کسی مغرور پہلوان کو پچھاڑ دینے کے بعد اس سے آٹے چاول کا بھاؤ پوچھ رہا ہو!
آدمیت پر اپنی البیلی فتح کے غرور میں سرشار کورونا جیسے ہی زیبرا کراسنگ پر پہنچا ایک پراسرار آواز نے گویا اس کے قدموں کو پاور بریک لگا دیا۔
"اس طرح کی خوش فہمیاں بے چارے انسانوں کو زیب دیتی ہیں ڈیر کورونا۔۔۔تم تو خود کو فاتح اعظم ہی سمجھ بیٹھے!”
*کورونا* نے حیرت سے دائیں بائیں دیکھا، پھر پیچھے دیکھا، آگے بھی دور تلک نظر دوڑائی۔ پھر آسمان کی طرف تفصیلی نگاہ ڈالی، کوئی نظر نہیں آیا۔ اس نے پیشانی سکوڑی، سرکھجلایا اور آگے بڑھنا ہی چاہتا تھا کہ ایک بار پھر وہی پراسرار آواز گونجی۔
"اس طرح اترا رہے ہو جیسے یہ میدان تم نے مارا ہے”۔
"تو اور کس نے مارا ہے؟”
جھنجھلا کر کورونا کے ہونٹوں سے یہ سوال برجستہ پھسل پڑا۔
"ویسے تم ہو کون ؟ ذرا سامنے تو آؤ!”
کورونا نے سمبھالا لیا اور ساتھ ہی اگلا سوال بھی جڑ دیا۔
"ہاہاہاہا ۔۔۔میں کسی بوتل میں قید کوئی جن نہیں ہوں میرے دوست ! اور نا ہی تمہاری طرح کمپیوٹر گرافکس میں ڈھلی ہوئی ایک بدنما شکل ۔۔۔” ویسے تمہاری عجیب و غریب شکل دیکھ کر ذہن میں اس زقّوم کی تصویر ابھرتی ہے جس کا ذکر قرآن نے جہنمی انسانوں کو کھلاۓ جانے والے کڑوے اور بدبودار پھل کے طور پر کیا ہے۔”
اس تضحیک آمیز جواب نے کورونا کو چیں بجبیں کر دیا مگر اس سے پہلے کہ کورونا کچھ کہتا، وہی آواز پھر ابھری۔ اس بار لہجے میں بلا کی سجیدگی اور متانت تھی ۔
"ویسے، تمھیں تمہاری اصل حیثیت بتانے کے لئے کہ دوں کہ ۔۔۔ میں وہی ہوں جس کے لئے تم معرض وجود میں لاۓ گئے ہو۔”
"وہی ہوں ؟ یہ وہی کون ہے بھائی؟”
کورونا نے اپنے سخت تجسس کو ہلکا رکھتے ہوئے پوچھا۔
*”لاک ڈاؤن ہوں میں۔۔۔”*
آواز میں ریگستانی ہوا کی انتہائی پر اسرار سرسرا ہٹ تھی۔ جیسے جنوں کی کسی وادی میں ویرانیاں اچانک چیخ پڑی ہوں۔ انسان ہوتے تو اس ایک آواز میں ہزاروں خوفناک کہانیاں جنم دے دیتے مگر کورونا کو بے ساختہ ہنسی آگئی۔ وہ زور سے ہنسا ۔ اس کے منہ سے ایسا قہقہہ چھوٹا کہ اگر اس نے اس وقت پان کھایا ہوا ہوتا تو پیک کی کلر فل چھینٹیں سڑک کو زعفران زار کر دیتیں۔
"دھت تیری کے۔۔۔کھودا پہاڑ نکلا چوہا ۔۔۔”
کچھ لمحے پہلے تک غرور کے فیتے سے سڑک کی پیمائش کرنے والے کورونا کا یہ روپ بھی بڑا عجیب تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اچانک سامنے آ ٹکرانے والے مد مقابل کو وہ پتنگ کی طرح کھیل کھیل کے اڑا دینا چاہتا ہو۔ وہ خوب ہنسا اور ہنستے ہنستے اچانک سنجیدہ ہو کر فلمی انداز میں گویا اپنے گھروں میں قید انسانوں سے چیخ کر مخاطب ہوا ۔
"سنو بھئی انسانو! یہ میں ہوں کورونا ، جس کے خوف سے تمہاری دنیا کے تمام دروازوں پہ تالے لگ گئے۔ تمہاری سڑکیں ویران، تمہارے بازار شمشان اور تمہاری تفریح گاہیں قبرستان بن گئیں ۔۔۔۔”
"تم ان ہی انسانوں کی طرح جہالت کا شکار ہو مسٹر کورونا، خود اپنے بارے میں نہیں جانتے کہ تمہاری تخلیق کی وجہ کیا ہے؟”
آواز نے مداخلت کی ۔ اس بار لہجے میں بلا کا طنز تھا۔ کورونا جیسے سٹپٹا گیا۔
"آخر تم دکھائی کیوں نہیں دیتے ؟”
کورونا کے لہجے میں شکست خوردگی پہلا قدم رکھ رہی تھی۔
"دکھائی تو میں دے ہی رہا ہوں۔ یہ میں ہی تو ہوں جس نے تمھیں شہر کی یہ ویرانیاں دی ہیں اور تم سکندر کی چال چل رہے ہو۔ ورنہ ان سڑکوں کے ازدہام میں حادثے بھی غبار راہ بن کر لاپتہ ہو جاتے ہیں۔”
کورونا نے عجیب سی خواہش کا اظہار کیا۔۔۔
"یوں نہیں، کسی لباس مجاز میں نظر آؤ !”
لاک ڈاؤن کورونا کی خواہش پر ہنس پڑا۔ اس نے چٹکی لی۔
"ویسے قوّت کا اصل راز تو نظر نہ آنے میں ہی ہے ڈیر۔۔۔”
اس بار لہجے میں غرور کھنک رہا تھا۔
"تو اس طرح میں بھی تو انسانوں کو نظر نہیں آتا۔۔۔تم تو پھر بھی سنّاٹوں کی شکل نظر آ رہے ہو!”
کورونا نے اپنی دانست میں اس فل ٹاس بال پر گویا six مارنے کی کوشش کی۔
"پھر وہی خوش فہمی ۔۔۔۔بھئی تمہارا نظر نہ آنا کون سی کمال کی بات ہے؟ ” تم اک وائرس ہو بس۔ وائرس کب دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے بھی دنیا بھر کے وائرس دنیا میں پہلے بھی آئے ہیں۔ بہت سی جانیں لی ہیں لیکن پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ سارے انسان خوف کے مارے گھروں میں گھس گئے ہوں؟”
لاک ڈاؤن کی آواز میں تضحیک کے ساتھ تفہیم بھی شامل تھی۔ کورونا کی بال باونڈری لائن سے بہت پہلے کیچ ہو چکی تھی۔ مگر کورونا اتنی آسانی سے یہ سب کیسے تسلیم کر لیتا۔ لہذا اس نے اپنے وجود کا لوہا منوا نے کے لئے اس بار ذرا لمبا شاٹ کھیلنے کی کوشش کی۔
"ٹی وی والے تمھیں تماشا بنا کر دکھا رہے ہیں۔۔۔کیمرے کے ہر فریم میں تم سنسان سڑکوں، مقفل دکانوں اور ویران بازاروں کی شکل میں دکھاۓ جارہے ہو۔۔۔۔اور میں؟ میرا حال تو یہ ہے کہ میری invisibility ہی اصل وجہ قیامت ہے۔ یہ میری ہی نادیدہ قوت ہے جس نے آسمان سے لیکر پاتال تک کی پڑتال کر لینے والے انسانوں کو آپس میں ایک دوسرے سے اس قدر خوف زدہ کر دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کے کھانسنے سے سراسیمہ ہو جاتے ہیں۔ ان کی نفسیات میں میں ایسی دہشت بن کے بیٹھا ہوں کہ میرے ڈسے ہوئے مریضوں کا علاج کرنے والے کمزور دل ڈاکٹر اس خوف سے مر رہے ہیں کہ کہیں میں نے انہیں چھو نہ دیا ہو۔”
کورونا نے اپنی بات گویا ختم کرتے ہوئے اس طرح سینہ اکڑ ا یا جیسے لوہے کی وزنی پلیٹیں اٹھانے کے بعد باڈی بلڈرز اپنا سینہ پھلاتے ہیں۔
لاک ڈاؤن بڑے صبر سے یہ سب سنتا رہا۔ اس کا انداز اس شفیق اور بردبار استاد کی طرح تھا جو اپنے شاگرد کو اپنا موقف رکھنے کا کھل کر موقع دیتا ہے۔ کورونا کے خاموش ہو تے ہی اس نے پوچھا۔
"اور وہ جس نفسیا تی خوف کی تم بات کر رہے ہو، وہ کہاں سے آیا ؟ کس نے جنم دیا ہے اسے ؟
"ظاہر ہے، میرے خوف نے جنم دیا ہے ۔۔۔”
کورونا نے بڑے اعتماد کے ساتھ ترکی بتُرکی جواب دیا۔
"میں نے آغاز میں ہی یہ بات کہی تھی کہ اپنی اصل پوزیشن اور حیثیت سمجھنے کے لئے سب سے پہلے اپنا مقصد تخلیق سمجھنا ضروری ہے ورنہ انڈے بھی خود کو پدر مرغ سمجھنے لگتے ہیں۔”
لاک ڈاؤن نے بڑی حقارت سے کورونا کو دیکھتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی،
"یہ جو اشرف المخلوقات ہے نا ! اسے جتنی بھی ٹھوکریں لگتی ہیں، وہ اسی وجہ سے لگتی ہیں کہ یہ اپنا مقصد وجود یاد ہی نہیں رکھتا۔۔۔”
کورونا نے قطع کلام کرتے ہوئے بیچ میں ہی ٹوکا۔
"دیکھو ! مجھے تمہارے لمبے سے بورنگ لیکچر میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔۔۔ لہذا مجھے میرا مقصد وجود بتانے کے بجاۓ کم سے کم لفظوں میں خود اپنا شان نزول بتا دو !”
لاک ڈاؤن پہلی بار جھلایا۔ اس کی کیفیت اس دانشور جیسی تھی جو کسی منہ پھٹ جاہل سے ٹکرا کر پچھتا رہا ہو۔
"تو سنو ! تم صرف اک شور ہو، ہنگامہ ہو! تمہاری حیثیت چرواہے کے ہاتھ میں پکڑی ہوئی اک لاٹھی جیسی ہے بس۔۔۔۔”
کرونا نے تلملا کر کچھ کہنا چاہا مگر لاک ڈاؤن کی گمبھیر آواز جاری تھی ۔
"وہی لاٹھی جو بھیڑیں ہانکنے کے کام آتی ہے۔ اس لاٹھی میں بذات خود کوئی دم نہیں ہوتا۔ اصل قوت تو وہ اتھارٹی ہوتی ہے جو اس چرواہے کا انتخاب کرتی ہے۔”
کورونا کی آنکھیں پھٹ رہی تھیں۔ وہ ایسے کھڑا کا کھڑا رہ گیا جیسے اپنے ہی کھوۓ ہوئے وجود کو ڈھونڈھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس نے لڑکھڑا تے لہجے میں لاک ڈاؤن سے پوچھا،
"تو کیا میرا وجود محض ایک واہمہ ہے ؟”
"نہیں، وجود تو ہے مگر ۔۔۔میں یہ کہ سکتا ہوں کہ تم ایک رائ ہو پہاڑ بنا کر دکھاۓ جا رہے ہو ، تل کے ایک ننھے سے دانے ہو مگر تاڑ بنا کر کھڑے کر دئے گئے ہو۔۔۔ یہی ہے تمہارا سچ۔۔۔”
لاک ڈاؤن نے جیسے کورونا کا دماغ ہی لاک کر دیا۔ لیکن ہارتے ہارتے بھی اس نے اپنے دفاع کی کوشش جاری رکھی۔
"اور جو دنیا بھر میں ہزاروں کفن بے دوش لاشیں میرے روزنامچے میں ہر روز درج ہو رہی ہیں؟ انکے بارے میں کیا کہو گے ؟”
"واہ بھئی واہ ! تم نے بھی یہی سمجھ لیا کہ وہ تمہارے معمولی سے ڈنک سے موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں؟”
لاک ڈاؤن کے لہجے میں تمسخر تھا۔ کورونا کی بے یقین آنکھیں اسے گھور رہی تھیں۔ لاک ڈاؤن کھنکتے لہجے میں بول رہا تھا۔
"تمھیں کیا لگتا ہے، دنیا بھر کے باقی بیماروں نے مرنا چھوڑ دیا ہے کیا ؟”
کورونا کے صبر کا پیمانہ چھلک پڑا ۔
"اور یہ جو آنکھوں میں میرا خوف ہے، اسے کس کے کھاتے میں ڈالوگے ؟”
لاک ڈاؤن زور سے ہنسا ۔۔۔
"ان آنکھوں کا کیا جو اپنے جسم کی صحت اور بیماری کو خود محسوس کرنے کے بجاۓ میڈیکل رپورٹس میں دیکھنے کی عادی بن چکی ہیں۔”
"تم کہنا کیا چاہتے ہو ؟ کھل کے کہو اور ایک بار میں کہو!”
کورونا کی بے بس جھلاہٹ پر لاک ڈاؤن بے ساختہ ہنس پڑا۔ پھر سنجیدگی کے ساتھ گویا ہوا۔
"دیکھو میرے بھولے کورونا ! تم انسان نام کی اس مخلوق کو کیا جانو ، یہ بڑی با اختیار مخلوق ہے۔ اب اختیار دیا گیا ہے تو ظاہر ہے صلاحیتیں بھی اسی قدر دی گئی ہونگی۔۔۔ہے کہ نہیں؟ ”
"بولتے رہو، میں سن رہا ہوں۔”
کورونا بلکل تپ چکا تھا۔ لاک ڈاؤن کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ اس نے بات آگے بڑھائی۔
"اپنے ان ہی اختیارات اور ان ہی صلاحیتوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں یہ آدم زادے”۔
"یعنی یہ آدم زادے ۔۔۔ شیطان زادے بن گئے۔۔۔۔”
کورونا کی زبان سے جیسے یہ جملہ پھسل گیا۔
"ہاں یہی سمجھ لو ۔ یہ آدم زادے شیطان زادے بن گئے ۔۔۔لیکن سب نہیں بلکہ تھوڑے سے لوگ۔۔۔وہ مٹھی بھر لوگ جو زمین کے وسائل پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔”
لاک ڈاؤن چپ ہو گیا۔ شاید وہ مناسب الفاظ کی تلاش میں تھا۔ ادھر کورونا کا تجسس بیتاب تھا۔
” آگے بولو دوست ! تم نے میری دلچسپی بڑھا دی ہے۔”
لاک ڈاؤن مسکرا تے ہوئے بولا ۔
"اب وسائل کی یہی جنگ ان ہی مٹھی بھر خاندانی بدمعاشوں کے درمیان جاری ہے۔ ادھر خدا کی حکمت دیکھو، زمین کے خزانے ختم ہونے کے بجاۓ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔۔۔۔وہ اس کائنات کو مسلسل وسعت دے رہا ہے۔ ایک اچھے بھلے انسان نے کہا تھا
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صداۓ "کن فیکون”۔”
کورونا اچانک بیچ میں بول پڑا۔
"یہ۔۔۔ یہ۔۔تم نے کیا کہا بعد میں ؟”
"ارے چھوڑو بھی، یہ اک شعر تھا کسی شاعر کا۔ پہلے اصل بات سمجھو! ”
لاک ڈاؤن خشک لہجے میں بولا۔ وہ اصل موضوع سے بھٹکنا نہیں چاہتا تھا۔ اس نے اپنی بات جاری رکھی۔
” جدید ترقیات نے ان لوگوں کا ذہنی توازن بگا ڑ دیا جو اپنے ہی جیسے انسانوں پر جبریہ بالادستی کا جنون رکھتے تھے۔..مگر جمہوریت کے لبادے میں۔”
لاک ڈاؤن کا لہجہ تلخ تھا۔ اس نے ایک گہری سانس لی، اور بھرپور طنزیہ ہنسی ہنستے ہوئے بولا۔
"یعنی ایک قبیلے کی سرداری کی ہوس اب 7 ارب انسانوں پر مطلق حکمرانی کے پاگل پن تک پہنچ گئی۔۔۔”
"یعنی یہی وہ جنون ہے جس نے انہیں آپس میں دست بگریباں کر رکھا ہے ۔۔۔”
بات کورونا کی سمجھ میں ذرا ذرا آنے لگی تھی۔ لاک ڈاؤن جیسے اپنی ہی تنہائیوں میں گم بول رہا تھا۔ اس نے کورونا کی بات جیسے سنی ہی نہیں۔
"آج ان مٹھی بھر لوگوں نے زمین پر پھیلے ہوئے باقی سب راجے راجواڑوں کو اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے کنٹرول میں کر لیا ہے۔ لیکن انکا جی ابھی بھرا نہیں۔”
"تو اب کیا چاہیے انہیں ؟”
کورونا پوچھ رہا تھا۔ لاک ڈاؤن نے کالج کے کسی لیکچرر کی طرح اسکی طرف دیکھا اور بولا۔
"پہلے انکے بیچ سرمایہ داری بمقابلہ کمیونزم کی جنگ تھی۔ اب صرف سرمایہ داری میں کلی تفوق کی یعنی full control کی جنگ ہے۔ یعنی ہر ایک اپنا سکہ پوری زمین پر ایک ساتھ رائج کرنا چاہتا ہے۔”
"اور یہ ممکن ہے ؟”
کورونا کی دلچسپی بڑھ چکی تھی۔ لاک ڈاؤن نے اسے شفقت بھری نگاہ سے دیکھتے ہوئے جواب دیا۔
"بلکل ممکن ہے میرے دوست ! اور اسکے لئے مٹھی بھر ان شاطر سیاست دانوں نے انکی تین بنیادی ضرورتوں یعنی روٹی، کپڑا اور مکان کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔۔۔۔اسے عرف عام میں وہ معیشت کہتے ہیں۔۔۔”
"معیشت۔۔۔یعنی اکانومی ۔۔۔”
کورونا نے ایک مستعد شاگرد کی طرح سوال کیا۔
"ہاں اکانومی، یہ انسانی زندگی کی شہ رگ ہے۔ یہ ایک ایسی نادیدہ رسی ہے جو انسانوں کو انسانوں کا غلام بنا تی ہے۔ بلکہ یوں کہو کہ غلط ہاتھوں میں آ کر ہمیشہ ایک کو مداری اور دوسرے کو بندر بنا دیتی ہے۔”
"اوہ ! اب میں سمجھا۔۔۔”
کورونا حیرت زدہ تھا۔ لاک ڈاؤن ایک مفکر کی طرح تشویش آمیز مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔
"بلکہ اس معیشت کے ساتھ سیاست اور معاشرت کے دو لاحقے مزید لگا دو تو کہانی خوب اچھی طرح واضح ہو جاتی ہے۔ بس اسے یوں سمجھ لو کہ معیشت ایک رسی ہے ، معاشرت ایک گردن ہے اور سیاست وہ جلاد ہے جو کسی کا بھی گلا گھونٹ دینے کا اختیار رکھتا ہے۔”
"اختیار رکھتا ہے ۔۔۔مطلب ؟”
کورونا خود کلامی کے انداز میں بڑبڑایا۔ لاک ڈاؤن کے لبوں پر دبیز سی طنزیہ مسکراہٹ تھی۔
عوامی اختیار ۔۔۔مزے کی بات یہ ہے ڈیر کورونا کہ یہ عوامی اختیار انکے یہاں جمہوریت کہلاتا ہے۔ اور غلاموں کو کیا احساس کہ جمہوریت دراصل خود اپنی ذات سے برضا و رغبت دستبرداری کا ایک اعلان ہے۔ اور یہ اعلان جس کے حق میں ہوتا ہے سیاست اسکے ہاتھوں میں ریموٹ کنٹرول کی طرح معیشت اور معاشرت کو اپنی انگلیوں پر نچاتی رہتی ہے۔”
"خدا کی پناہ! یہ تو واقعی حیرت انگیز مخلوق ہے۔”
کورونا کی حیرت قابل دید تھی۔ لاک ڈاؤن کہ رہا تھا۔۔۔
"اگر مختصر ترین لفظوں میں انسانی تاریخ کی اس سب سے عجوبی روداد کو بیان کروں تو یہ کہانی ان ہی تین لفظوں، معیشت، معاشرت اور سیاست کے عالمی شطرنج کی ہے جس میں دو نہیں بلکہ چار کھلاڑی آپس میں شہ اور مات کا کھیل کھیل رہے ہیں۔ ان
میں سے ہر ایک اپنی ذات میں سمندر بننا چاہتا ہے تاکہ باقی ندی، نالے، پرنالے اور دریا سب اس کی گہرائیوں میں غرق ہو کر اپنا وجود کھو دیں۔۔۔”
بولتے ہوئے لاک ڈاؤن نے اپنی نظریں کورونا کے چہرے پر اس طرح گاڑ دیں جیسے وہ اس مکالمے کے اختتام کا اعلان کر رہا ہو۔ کورونا بیتابی سے بولا۔
"اب ذرا میرے اور اپنے بارے میں بھی وضاحت کر دو!”
لاک ڈاؤن اس طرح چونکا جیسے وہ یہاں تھا ہی نہیں۔
"ہاں، تو بس یوں سمجھ لو کہ حیات انسانی کا موجودہ عالمی منظر نامہ بدلنے والا ہے۔ معیشت، معاشرت اور سیاست جدید ٹیکنالوجی کا روپ دھارن کرنے والے ہیں۔ اور اس کے لئے جو ڈرامہ رچا گیا ہے، ہم دونوں اس میں ولن کا رول ادا کر رہے ہیں۔۔۔”
کورونا گویا انتہاۓ حیرت سے گنگ ہو گیا تھا۔ لاک ڈاؤن اسے پیار بھری وارننگ دیتے ہوئے بولا:
"اب آگے بات مت بڑھانا۔۔۔بڑی مشکل سے ایک بپھرے ہوئے سمندر کو کوزے میں بند کرنے کی کوشش کی ہے۔۔۔۔باقی عقلمندوں کے لئے اشارہ کافی ہے۔۔۔”
کورونا نے اپنے جسم کو ڈھیلا کیا اور بچوں جیسے شوخ انداز میں مسکراتے ہوئے بولا۔۔۔
"I am down…do not lock me please!!!!”
کورونا کے اس انداز پر لاک ڈاؤن زور سے ہنسا۔ اور دیر تک ہنستا رہا۔ اس بار اسکی ہنسی میں سناٹوں کا خوفنا ک شور نہیں بلکہ بازاروں کے زندگی بخش ہنگاموں کا جلترنگ تھا۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)