نئی دہلی:لاک ڈاؤن کے دوران سپریم کورٹ نے لوگوں کوملازمت سے ہٹانے، تنخواہ میں کمی جیسی چیزوں پرتشویش کااظہارکیاہے۔تاہم، عدالت نے یہ بھی کہاہے کہ جب کاروبار بند ہوجاتا ہے تو اخراجات بہت مشکل ہوجاتے ہیں۔ عدالت نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ اس معاملے میں تنظیموں اور صنعتوں کی جانب سے دائر درخواستوں کاجواب دیا جائے۔ 2 ہفتوں کے بعد اس پرتفصیلی سماعت ہوگی۔سوال یہ ہے کہ دوہفتے تک یہ ملازمین کیاکریں گے؟اس معاملے پر سپریم کورٹ کی جانب سے سنی گئی پہلی درخواست میڈیا سے متعلق تھی۔ صحافیوں کے یونین اور دیگر صحافتی تنظیموں نے لاک ڈاؤن کے تحت میڈیا اداروں میں لوگوں کو ہٹانے، تنخواہ کے بغیر چھٹی پر بھیجنے، تنخواہوں میں کٹوتی جیسی چیزوں کے بارے میں شکایت کی تھی۔ درخواست میں کہاگیاتھا کہ صحافی اور دیگر عملہ، جو لوگوں تک خبروں کی ترسیل کے لیے سخت محنت کررہے ہیں، کو ملازمت سے ہٹایا جارہا ہے۔کہیں ان کی تنخواہ روک دی گئی ہے تو کہیں اس میں کمی کردی گئی ہے۔صحافی تنظیموں کے ذریعہ پیش کردہ وکیل کولن کے دلائل سننے کے بعد عدالت نے اس معاملے پر نوٹس جاری کیا۔ درخواست میں مرکزی حکومت، انڈین نیوز پیپر سوسائٹی اور نیوز براڈکاسٹر ایسوسی ایشن کو فریق بنایا گیا ہے۔ عدالت 2 ہفتوں کے بعداس معاملے پر مزید سماعت کرے گی۔سماعت کے دوران، تین ججوں کے بنچ کے ایک رکن جسٹس سنجے کشن کول نے کہاہے کہ یہ صرف میڈیا کے بارے میں نہیں ہے، تمام شعبوں کی ملازمین یونینیں یہ چیزیں اٹھا رہی ہیں۔ یہ تشویش کی بات ہے۔ لیکن یہ بات بھی سچ ہے کہ زیادہ تر کاروبار تقریباََبندہیں۔ لہٰذا وہ کب کام کریں گے۔ اس مسئلے پرسماعت ضروری ہے۔آج عدالت میں لدھیانہ ہینڈ ٹولز ایسوسی ایشن سمیت 3 صنعتوں کی درخواستوں کی بھی سماعت ہوئی۔ اس میں حکومت کے اس حکم پرسوال اٹھایا گیا تھا جس میں ملازمین سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی پوری تنخواہ ادا کریں۔ جس میں کہا گیا تھا کہ کروڑوں روپے کا نقصان ہورہا ہے۔ آمدنی کا ذریعہ بندہے۔ ایسی صورتحال میں لوگوں کو نوکری پر رکھنا اور پوری تنخواہ دینا بہت مشکل ہے۔ عدالت نے ان درخواستوں پر مرکز سے بھی جواب طلب کرلیا ہے۔ ان کی سماعت بھی 2 ہفتوں کے بعدہوگی۔