شاید تم اس تک بہت دن بعد پہنچو۔۔۔ سو میں بھی اپنی ڈائری اپنی آپ بیتی سے بھر رہا ہوں۔ تو یہ میرے لیے بھی کہا گیا ہے۔ کہیں پڑھا تھا، تخلیق کار کبھی بھی کسی خیال کے تئیں نہیں، اس وقت کے سماج کے تئیں گواہ ہوتا ہے، جس میں وہ رہ رہا ہے۔ اسے میرے تنہائی کی بستی کا انسان ہی تصور کرنا۔
ہم تخلیق میں کتنے ہی نجی ہوں اور کتنے سماجی، یہ ہمارا انفرادی عمل ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ کہیں سے کوئی آکر ہمیں سند تفویض کرے۔ یہ ادارہ جاتی ہونے جانے کی سہولت کے بالکل الگ ہے۔ ہر خیال، نظریہ، فکر، ایسے ہی ایک ’ادارہ‘ ہے، جس کے اپنے بنے بنائے ڈھانچے ہیں۔
ہم ان میں ڈھلنے کو تیار نہیں ہیں۔ اب تو قطعی نہیں۔ یہ ہمارا حق ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ اپنے ماضی کے دنوں میں ہم نے سماجی اقدار کو دھیان میں رکھ کر لکھنا شروع کیا، مگر آج بالکل ابھی۔ اگر اس کی کسوٹی پر مجھے ’نہ‘ کہہ دیا جائے تو مجھے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔
جس نظریے یا فکر سے متاثر ہوکر وہ تخلیق کو ’’پونجی واد‘‘ سے لڑنے کا ہتھیار قرار دے رہے ہیں۔ اس فکر سے الگ یہ اکیلے ہوتے جانا کم زوری نہیں ہے۔ ہم اس دور کی حکومت، نظم ونسق اور اس میں خرابی کا حصہ نہیں ہیں۔ ہماری تنہائی اس کے خلاف بر سرپیکار ہے۔
جہاں اس دنیا کے سارے سکون ثابت ہوتے جا رہے ہیں، وہیں کہیں ہم بھی چھپے اور دبے لہجے میں اپنی بات کہہ رہے ہیں۔ بھلے ہمارا طریقۂ کار الگ ہو۔ یہ انفرادیت کا پیش کردہ طریقۂ کار نہیں ہے۔ یہ نظریۂ فکر کے مطابق سمٹ جانے کا انکار ہے۔
ہم ان کئی تخلیق پاتے نظریہ سازوں کے رویہ جات کو سمجھتے کی کوشش کررے ہیں۔ ہماری تقسیم کا طریقۂ کار ویسا نہیں ہے۔ یہ کسی بھی طرح سے تبدیلی کی طرف جھکنے والا نظریہ نہیں ہے، بلکہ یہ فکری بنیادوں پر انتہا ئی کمزور طریقہ ہے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)