مدارس و مکاتب ملت اسلامیہ کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ، جس کے ذریعہ دین و شریعت کی حفاظت ہوتی ہے ، اس سے دینی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی ہے۔
مسلم سماج کو دینی تعلیم کی ضرورت ہے ، تاکہ وہ خود دین اور دین کی باتوں سے واقف ہوں ، نیز اس کی بھی ضرورت ہے کہ ان کے بچے / بچیاں دین سے واقف ہوں ، اسلام کی بنیاد کلمہ ، نماز ،روزہ ،حج اور زکوۃ ہے ، ان کے احکام کو جاننا ہر مسلمان پر فرض ہے ، ان کی باضابطہ تعلیم جہاں دی جاتی ہے ،وہ مکاتب اور مدارس ہیں،
دین کا ایک اہم ستون نماز ہے ، نماز کے قیام کے لیے مساجد ہیں ، مساجد مسلمانوں کے ہر محلے میں ہیں ، مساجد میں امامت ، خطابت ،وعظ و نصیحت کے لیے امام کی ضرورت ھے ، یہ ضرورت مدارس پوری کرتے ہیں، مدارس سے مفتی ، قاضی اور عالم و فاضل نکلتے ہیں ،جو ملت اسلامیہ کی بڑی ضرورت پوری کرتے ہیں ۔
یہ مدارس و مکاتب نہ صرف علماء ، فضلاء ، مفتی اور قاضی پیدا کرتے ہیں ، بلکہ یہ دینی علوم و فنون کے ماہر افراد تیار کرتے ہیں ، جو ملک و ملت کے لیے ہر میدان میں کھڑے نظر آتے ہیں۔
ایک اہم کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ان مکاتب و مدارس میں مسلم سماج کے صرف 4 / فیصد بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں ، ان 4/ فیصد میں سے 2/ فیصد کسی بورڈ سے ملحق مدارس میں پڑھتے ہیں اور صرف 2/ فیصد آزاد مدارس میں پڑھتے ہیں ، یہ 2/ فیصد نہایت ہی اہم ہیں ، دینی تعلیم ، مسلم تہذیب و ثقافت اور شعائر اسلام کی حفاظت کے لیے ان کی خیر خواہی اور ان کا تحفظ ملت اسلامیہ کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے۔
پوری دنیا بالخصوص بر صغیر میں دین کا تحفظ ان ہی کے ذریعہ ہوا ہے اور ہورہا ہے ، یہ تو سب اعتراف کر رہے ہیں کہ بر صغیر میں مسلمانوں کے درمیان دینی شعور کو پختہ کرنے میں ان اداروں نے اہم کردار ادا کیا ہے ، اس لیے مسلم سماج کا بڑا طبقہ مدارس اور علماء کا گرویدہ ہے ، اس سے جہاں غیروں میں بیزاری ہے ،وہیں اپنوں میں بھی بہت سے لوگ ہیں ، جن میں بیزاری پائی جاتی ہے ، اس لیے پوری دنیا میں اسلام مخالف طاقتیں کام کر رہی ہیں ، ان میں کچھ ہمارے خیر خواہ بن کر بھی اس کو ہوا دینے کا کام کرتے ہیں ، مسلم سماج کو ایسے لوگوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے ،
موجودہ دور فتنہ کا ہے ، دین بیزاری عام ہے ، دوسرے تو مخالفت کرتے ہی ہیں ، ہمارے اپنے میں سے بھی بہت سے لوگ دین کے نام سے چین بہ جبیں ہو جاتے ہیں ، اور ان کی صرف ایک خواہش ہوتی ہے کہ دین کو ان کی خواہش کے مطابق بنادیا جائے ، وہ دین پر نہ چلیں ، بلکہ دینی احکام کو ان کی خواہش کے تابع کردیا جائے ، افسوس ہے ایسی فکر پر دین و شریعت مسلم سماج کا بڑا سرمایہ ہے ، خدا نخواستہ اگر مسلم سماج کے لوگ ان اداروں سے محروم ہوگئے ، تو جس طرح اسپین کی حالت ہوئی ،اسی طرح اس ملک کے مسلمانوں کی حالت ہوجانے کا اندیشہ ہے ، چونکہ مکاتب و مدارس دین و شریعت کی حفاظت کا بڑا ذریعہ ہیں ، بالخصوص بر صغیر میں دین کی حفاظت کے لیے یہ سب سے بڑا ذریعہ ہے ، اس لیے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ جس طرح ان کی حفاظت ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں ، آئندہ بھی ان کی حفاظت کرتے رہیں ،بلکہ پہلے کے مقابلہ موجودہ وقت میں ان کی حفاظت کی زیادہ ضرورت ہے ، اس وہ مدارس و مکاتب کی جانب زیادہ توجہ دیں ، ان کی زیادہ سے زیادہ مدد کریں ، ان کو مالی اعتبار سے اتنا مضبوط کریں کہ وہ یکسو ہو کر دین کی خدمت کر سکیں ، البتہ اہل مدارس کی زمہ داری زیادہ ہے کہ ان مدارس و مکاتب کی حفاظت کے لیے ابھی سے لائحہ عمل تیار کریں ، ان کی حفاظت کے لیے سرکاری ضابطہ پر عمل کریں ، ملی تنظیموں کی جانب سے جاری گائیڈ لائن کی پابندی کی جائے ، اساتذہ کو مناسب تنخواہ دی جائے ، طلبہ کے قیام و طعام کا مناسب انتظام کیا جائے ، تاکہ مدارس و مکاتب فتنہ سے محفوظ رہیں ، اللہ تعالی ان اداروں کی حفاظت فرمائے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)