ایک دانشور کا خیال ہے کہ "ائمہ اربعہ و حئ ربانی یعنی قرآن کی راہ کا پتھر ہیں”۔
انکا یہ خیال ائمہ اربعہ پر ایک ایسا سنگین ترین الزام ہے جسکی کوئی تک نہیں۔ یہ الزام ہمارے ان محسنین کے ساتھ ظلم عظیم ہے۔ انہوں نے جو کام کر دیا اسکا کوئی بدل نہیں۔ انہوں نے وحیء ربانی کا راستہ کیسے روک دیا ؟ انہوں نے تو شریعت پر عمل آسان کر دیا۔ انہوں نے خدمت اسلام کی ہے۔ اور اس اخلاص کا مظاہرہ کیا ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔
دانشور صاحب کو لکھنا ہی تھا تو یہ لکھنا چاہیے تھا کہ وحئ ربانی تک رسائی تو آج بھی آسان ہے۔ صرف ارادے، کوشش اور اخلاص کی ضرورت ہے۔
البتہ اس طرح کا کوئی الزام لگ سکتا ہے تو وہ ان علما اور مدارس پر لگ سکتا ہے جن کے نصاب تعلیم میں قرآن مجید تزکیے کی آسمانی کتاب کے طور پر نہیں بلکہ صرف اور صرف فقہی و مسلکی تفوق کے لیے ‘مستعمل’ ہے۔ وہاں طلبا کو قرآن اس طرح اور اس لیے نہیں پڑھایا جاتا کہ وہ قرآن کا مطلوب انسان بن سکیں بلکہ اس طرح اور صرف اس قدر پڑھایا جاتا ہے جس سے وہ مسلک پرست قاضی اور روایت پرست محدث بن کر اپنے مسلک و منہج کے سپاہی بن سکیں۔
وحئ ربانی کی راہ کا اصل پتھر وہ "اہل سنّت” علما ہیں جو اپنے اکابر کے افکار و نظریات کو قرآن و سنّت پر ترجیح دینے کا جرم عظیم کرتے ہیں۔ نہ قرآن سمجھتے ہیں نہ سمجھاتے ہے، نہ پڑھتے نہ پڑھاتے ہیں۔ بلکہ اپنے من پسند بزرگوں کے قصوں اور کہانیوں پر اپنے دین و عقائد کی بنیاد رکھتے ہیں۔
و حئ ربانی کی راہ کا پتھر وہ روایت پرست علما ہیں جو خود کو "اہل حدیث” کہتے ہیں اور روایات کو قرآن پر مقدم رکھنے کا گناہ کبیرہ کرتے ہیں۔
وحئ ربانی کی راہ کا پتھر وہ شدّت پسند "اہل قرآن” ہیں جو قرآن کو حدیث رسول اور سنّت رسول کے بغیر سمجھنے کے پاگل پن میں مبتلا ہیں۔ اور قرآن کی باالرائے تفسیر کر کے سیدھے سادے لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔
ان کے علاوہ ہر وہ شخص خود اپنے اور وحئ ربانی کے بیچ کا پتھر ہے جسے اک قرآن کے علاوہ سب کچھ جان لینے اور سب کچھ سمجھ لینے کی خواہش بھی ہے اور عقل بھی۔ اس کے بھیجے میں یہ بات کہاں سے آ گئی کہ وہ سب کچھ سمجھ سکتا ہے صرف "قرآن نہیں سمجھ سکتا” ؟ اسے یہ اطمینان کس نے دلا دیا ہے کہ اللہ کی کتاب کو دنیا میں ‘رد’ کر کے وہ آخرت میں بچ جائے گا ؟ آخر وہ اس کتاب کے ‘مصنف’ کو کیا جواب دے گا جس نے اسے وجود بخشا اور پھر اسی وجود کو سنوارنے اور نکھارنے کے لیے یہ کتاب دی تھی ؟
اللہ کی اسکیم میں یہ بات ایک دم واضح ہے کہ ایک سچے طالب حق کے لیے بشرطیکہ وہ خود غافل نہ ہو اور کمزور نہ پڑے، کوئی اس کے اور اسکی طلب ہدایت کے بیچ سد راہ نہیں ہو سکتا !
یاد رکھیں ! جس دن آپ نے ہدایت کی تڑپ رکھتے ہوئے وحئ ربانی کو ہاتھوں میں پکڑ لیا اور اسکی راہ لگ گئے اس دن آپ خود کو نہ "اہل سنّت” کہیں گے نہ "اہل حدیث” کہیں گے اور نہ "اہل قرآن”۔ آپ سمجھ جائیں گے کہ آپ صرف مسلمان ہیں کیونکہ آپ کا نام اللہ نے "مسلمان” رکھا ہے۔
دھیان رکھیں ! قرآن کا پہلا مفسر خود اللہ ہے، اسکی عملی تفسیر رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ہیں، لہذا اللہ کا نام لیکر اپنی زبان میں موجود کسی بھی ترجمے والا قرآن ہاتھ میں تھامیں اور ساتھ میں سیرت رسول اللہ کو پکڑ لیں۔ قرآن کا ایک ترجمہ، پھر دوسرا ترجمہ، پھر تیسرا۔ اس طرح چند سالوں میں ہی ایک دن ایسا آ جائے گا جب آپ کے اور وحئ ربانی کے درمیان کسی تیسرے ‘مفسر’ کی آپ کو ضرورت ہی محسوس نہ ہوگی۔
خود سوچئے ، کیا اس کام کے لیے عمر کے چند سال آپ نہیں دے سکتے؟ رہی بات قرآن کے ذریعہ تزکیۂ نفس کی تو یہ کام تو آخری سانس تک کا ہے۔ قرآن سے ایک مومن صادق کا تعلق آخری سانس تک ہوتا ہے۔ ایک دو بار ترجمے کے ساتھ پڑھ لینے کا نہیں۔
یہ ذہن نشیں رہے کہ آپ کو ‘مفسر’ بننے کی حاجت نہیں ہے بلکہ اصلاً قرآن کا وہ قاری بننے کی ضرورت ہے جس کے ضمیر پہ نزول کتاب ہو سکے !
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گِرہ کُشا ہے نہ رازی نہ صاحبِ کشّاف
بس یہی مقصد ہونا چاہیے تفہیم قرآن کی کوششوں کا۔ پھر دیکھیں جاہل مولویوں، گمراہ دانشوروں اور نام نہاد بزرگوں اور ولیوں سے یہی قرآن آپ کی کیسے حفاظت کر تا ہے ۔ اور کس طرح یہی قرآن آپ کی زندگی کو پاکیزہ اور ہر اعتبار سے خوشحال بناتا ہے۔ آپ کی زندگی کو با مقصد بنا کر خوبصورت اور پر مسرت بناتا ہے۔ اور کس طرح یہی قرآن قبر سے لیکر حساب کتاب کے دن تک آپ کا وکیل بنتا ہے۔
اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو، شیطان رجیم سے ہماری حفاظت فرماۓ اور ہمیں سایۂ قرآن میں زندگی گزارنے کی توفیق و استطاعت دے !!!