ریختہ کے تناظر میں بعض لوگوں کے شکوے کو رسم الخط سے جوڑنا خلط مبحث ہے۔ ایک دور میں دھارمک گرنتھوں کو پڑھنے پڑھانے پر برہمنوں کی اجارہ داری تھی ۔ غیر برہمنوں کو پڑھنے کی اجازت تھی اور نہ سننے کی ۔ سننے والوں کے کانوں میں پگھلا ہوا سیسہ ڈال دیا جاتا تھا ۔
(اجارہ داری شاید عام فہم زبان نہیں اس لیے اس کی وضاحت شاید مطلوب ہو۔ اس کا ترجمہ ہندی میں एकाधिकार اور انگریزی میں monopoly ہے)
جو اردو رسم الخط جانتا ہو کیا صرف اسی کو اردو زبان وادب سے محظوظ ہونے کا حق ہو گا !
آج دہلی کی کئی یونیورسٹیوں میں تقریباً ٥٠٠ غیر مسلم طلباء وطالبات جوان بوڑھے بچے لڑکے اور لڑکیاں اردو جاننے کے شائقین ڈپلومہ اور سرٹیفیکیٹ کلاسز میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اور بے شمار غیر مسلم آن لائن سیکھتے ہیں ۔ اردو غزلوں کی بے شمار مجموعے دیوناگری اور رومن میں مختلف ناشروں نے شائع کیا ہے۔ اردو زبان کی شیرینی سے متاثر بہت سے غیر مسلم اردو غزل کی تخلیق میں طبع آزمائی کرتے ہیں ۔ یہ اردو زبان کی مقبولیت کے شواہد ہیں ۔ کیا ان پر پابندی لگائی جا سکتی ہے !
عربی زبان سے نابلد خليجی ممالک میں روزگار کے لیے جانے والوں کے لیے ہندوستانی اور عرب یونیورسٹیوں میں باضابطہ اللغه العربيه لغير الناطقين بها کا ڈپلومہ اور سرٹیفیکیٹ کورس کرایا جاتا ہے۔ عموماً انہیں عربی لکھنا اور پڑھنا بھی سکھایا جاتا ہے لیکن ایگزیکٹیو کلاس کے لوگ صرف بولنا سیکھتے ہیں ۔ وہ اپنے اپنے رسم الخط میں نوٹ کرتے ہیں ۔
کیا اس سے عربی زبان کو کوئی خطرہ ہے ! ظاہر ہے نہیں ۔
رسم الخط پر خطرہ اردو کے کلیات اور مجموعۂ کلام کو دیوناگری اور رومن میں شائع کرنے سے نہیں اپنی نسل کو اردو کی تعلیم سے محروم رکھنے سے ہے۔ ساڑھے تین اور چار برس کے بچوں کو معیاری تعلیم کے لیے انگلش میڈیم پلے اسکول ، کانونٹ ، مڈل اسکول اور ہائی اسکول میں تعلیم دلانا قابلِ ستائش تو ہے لیکن اپنی مادری زبان اردو کے لیے خصوصی اتالیق کا نظم نہیں کرنے یا اردو مکاتب میں اسکول کے اوقات کے بعد گھنٹہ دو گھنٹے کے لیے نہیں بھیجنے سے خطرہ ہے۔
آج حال یہ ہے کہ مساجد کے اعلانات بھی دیوناگری میں لکھے جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر : मीनार मस्जिद में तरावी दस बजे। , ایک تو دیوناگری میں لکھنا اور دوسرا تلفظ تراویح کی بجائے تراوی!
جامعہ نگر خالص مسلم علاقہ ہے یہاں ہر طرف بینر پوسٹر نیون سائن، اشتہارات اور بورڈ وغیرہ ہندی یعنی دیوناگری رسم الخط میں لکھے ہوئے ملیں گے کیا یہ لوگ اردو رسم الخط کے دشمن ہیں ؟ ظاہر ہے نہیں ۔ دشمن وہ لوگ ہیں جو اس نسل کو اردو رسم الخط سیکھنے سے محروم رکھا ۔ جنہوں نے پرائمری اور مڈل اسکولوں میں اردو معلم کی تقرری کا مطالبہ نہیں کیا ۔ جنہوں نے مالی وسعت کے باوجود خصوصی اتالیق رکھ کر اپنے بچوں کو اردو پڑھانے کا نظم نہیں کیا ۔ اردو زبان وادب اور اردو رسم الخط کے دشمن وہ سیاسی لیڈران ہیں جنہوں نے ریاست کی دوسری زبان اردو تسلیم کرانے کی جدوجہد نہیں کی اور اردو کو بطور سبجیکٹ اسکولی نصاب میں شامل نہیں کرایا۔ دشمن وہ بھی ہیں جو اردو کے مشہور معروف ادیب، صحافی، شاعر ، پروفیسر ہیں مگر ان کے بچے اردو لکھنے پڑھنے سے قاصر ہیں۔ کتنے ایسے ادباء شعراء اور پروفیسر حضرات ہیں جن کے گھروں کی لائبریریوں میں نادر و نایاب کلاسیکی ادب کے شہ پارے اور مختلف موضوعات پر اردو کتب ہیں مگر ان کا کوئی اردو داں وارث نہیں ہے ۔ ان کی وفات کے بعد ان کے بچوں نے کتابوں کے ذخیرے کو کباڑی سے بیچ دیا اس کے شاہد میرے ایک صحافی دوست ہیں ۔