ہر سال اسکول وکالجز اور یونیورسٹیز سے لاکھوں لوگ فارغ ہوتے ہیں ـ یہ تعداد مدارس سے فارغ ہونے والوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہےـ اگر مدارس کے فارغین نے عوام کے ذہنوں میں مدارس کی اہمیت پیدا کی، اور ان کے قیام کو ثواب کا کام بتایا تو فارغین یونیورسٹیز کم از کم اپنے حلقے کے لوگوں کو بھی یہ باور کیوں نہیں کراسکے کہ اسکول کھولنے میں بھی ثواب ہےـ وہ اسکول وکالجز کے فارغین کو تو یہ سمجھاسکتے تھے کہ اسکول کھولنا بھی ثواب کا کام ہے اور انھیں اسکول کھولنے سے کس نے روکاـ ان کی خود اتنی بڑی تعداد ہے کہ اگر وہ اس معامکے میں سنجیدہ ہوتے تو بے شمار اسکول کھول سکتے تھے. مگر وہ سب کے سب الا ماشاء اللہ اپنی دیگر مصروفیات ممسے وابستہ رہنے کو ہی ترجیح دیتے ہیں. دیکھا یہ گیا ہے کہ اب بھی جو زیادہ تر اسکول ہیں وہ مدارس کے فارغین کے ہی کھولے ہوئے ہیں ـ
اس لیے ہر چیز کے دوشی صرف اہل مدارس نہیں ہیں ـ یقینا ان میں بہت سی کمیاں ہیں اور ان سے بہت سے کوتاہیاں ہوئی ہیں. لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر چیز کا دوش انھیں دیاجائےـ
آخری بات یہ کہ اب تک جو ہوا سو ہوا، اب اسکول وکالجز کے فارغین کو چاہیے کہ وہ اپنے حلقے میں اسکول کے قیام کی اہمیت وثواب کا خوب پرچار کریں اور جگہ جگہ ان کا جال بچھادیں ـ انھیں کسی نے نہ کل روکا ہوا تھا اور نہ آج روک رکھا ہےـ یہ نہ کہاجائے کہ اسکول کے نام پر چندہ نہیں دیا جاتاـ اگر لوگوں نے کوشش کی ہوتی تو اسکول کے نام پر بھی چندہ ملتا، لیکن اس پہلو سے کوشش ہی نہیں کی گئی. اس لیے کہ یہ کام عزت نفس کے خلاف ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ـ
مقصود کلام یہ ہے کہ دروازہ کھلا ہوا ہے. آگے بڑھیں اور کام کریں. یہ وقت ایک دوسرے کو دوش دینے کا نہیں ہےـ خدا ہم سب سے اپبے دین کا کام لےـ