Home سفرنامہ جھارکھنڈ کا دس روزہ سفر۔بدرالاسلام قاسمی

جھارکھنڈ کا دس روزہ سفر۔بدرالاسلام قاسمی

by قندیل

استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ، دیوبند

(تیسری قسط)

گزشتہ قسط میں شادی کی پر وقار اور نہایت اعلیٰ معیار پر منعقد تقریب کا ذکر تھا، لوگوں نے بتایا کہ اس شامیانے اور ٹینٹ کا کام تقریباً 20 دن سے جاری تھا، تب جا کر یہ میرج ہال نُما شامیانہ بندھ سکا. لیکن!!!! اسے کھولنے اور تتر بتر کرنے میں چند گھنٹے ہی لگے، اس سے یہ اصول مزید مستحکم ہوتا محسوس ہوا کہ "تعمیر نہایت مشکل کام ہے، جب کہ تخریب چٹکیوں کا کھیل ہے”، ہمیں معاشرے میں اپنا وقار بنانے اور کردار و گفتار کو با اعتماد بنانے میں عمر لگ جاتی ہے، لیکن بسا اوقات ایک غلطی اور دامن پر لگے ایک داغ سے وہ پوری محنت ضائع ہو جاتی ہے۔ (اللھم احفظنا منہ)

اگلے دن مؤرخہ 29 اکتوبر بروز بدھ شام کو راقم ماموں زاد بھائی محمد عارف کے ساتھ بذریعہ بائیک دھنباد پہنچا، راستے میں ارد گرد کے خوبصورت و دلکش مناظر، مختلف ندیاں، سر سبز و شاداب کھیت، پہاڑیوں کے قریب سے گزرتی شاہراہ نے سفر کا لطف دوبالا کر دیا.
دھنباد جھارکھنڈ کا ایک مرکزی اور تاریخی شہر ہے، وکی پیڈیا کے مطابق یہ جمشید پور کے بعد صوبہ جھارکھنڈ کا سب سے کثیر آبادی والا شہر ہے، کوئلے کی کان کے لیے اس کی شہرت ہے، نیز اس (کوئلے کی کان سے متعلقہ امور) میں اختصاص حاصل کرنے کے لیے تعلیم گاہ بھی یہیں واقع ہے، شہر کی آبادی تقریباً 12 لاکھ ہے، مختلف مسالک کے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد یہاں موجود ہے، مسلمانوں میں تعلیمی بیداری بھی کافی ہے، بڑے بڑے معیاری اور نیک نام ہاسپٹل مسلمانوں کے زیر انتظام ہیں۔

ولیمے کی تقریب "سِکّا گارڈن” نامی میرج ہال میں تھی، کھانے میں کچھ وقت باقی تھا تو راقم اپنے خالہ زاد بھائی مولانا فہیم قاسمی (ان کا تعارف دوسری قسط میں آ چکا ہے) کے ساتھ قریب کی ایک مسجد پہنچا، مسجد ذرا نشیب میں واقع تھی، امام مسجد مولانا فہیم صاحب کے درسی ساتھی نکلے اور سوشل میڈیا کی ایک معروف شخصیت بھی، مفتی شاہکار عالم قاسمی، فاضل دارالعلوم ہیں اور حیدرآباد سے افتاء کر چکے ہیں، مقامی ہیں تو لوگوں میں اچھی شناخت بنا رکھی ہے، روزانہ بعد فجر تفسیر کا سلسلہ ہے، جسے یوٹیوب پر بھی اپلوڈ کر دیتے ہیں، جمعہ میں بیان، مہینے میں ایک مرتبہ خواتین کے لیے تربیتی پروگرام، شام میں مکتب، کافی متحرک و فعال نظر آۂے، بتایا کہ شہر کی مساجد کے اماموں کی ایک چھوٹی سی تنظیم بھی ہے جس میں امام کے ساتھ پیش آمدہ مسائل حل کیے جاتے ہیں۔ کثر اللہ امثالھم

نماز کے بعد طعام شروع ہوا، کھانے کا انتظام عمدہ تھا، مرد و خواتین کے الگ الگ سیکشن تھے، درمیان میں پردے حائل. لیکن افسوس کہ اس کے علاوہ ہر جگہ بے حجابی اور مرد و زن کے اختلاط کی سی کیفیت تھی، اس کی ایک بڑی وجہ جگہ کا نا کافی ہونا معلوم ہو رہی تھی، افراد زیادہ تھے اور جگہ مختصر، ایسے میں یہ مسائل تو ہونے ہی تھے، نیز بے حجابی کا عفریت اور نمائش حسن کا نہایت مہلک جذبہ! اللہ مردوں کو غیرت اور خواتین کو حیا کی دولت سے نوازے۔ آمین

کچھ دیر میں جھارکھنڈ حکومت کے اقلیتی امور و سیر و سیاحت اور کھیل کے وزیر جناب حفیظ الحسن صاحب اپنے قافلے کے ساتھ میرج ہال پہنچے، یہ صوبہ جھارکھنڈ کے نہایت پر اثر اور متحرک سیاسی لیڈر جناب حاجی حسین انصاری مرحوم کے فرزند ہیں، حاجی صاحب کا جھارکھنڈ کی تشکیل میں کلیدی کردار رہا ہے، کورونا کے زمانے میں ان کی وفات کے بعد فرزند حفیظ الحسن بھی انہیں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں. حاجی حسین انصاری صاحب راقم کی بڑی نانی کے بھائی تھے، اس اعتبار سے ہمارے گھر میں ہمیشہ حسین نانا کے نام سے ہی انھیں یاد کیا جاتا، اسی نسبت سے حفیظ الحسن صاحب ہمارے لیے حفیظ ماموں ٹھہرے۔

حفیظ ماموں سے ملاقات ہوئی، والد گرامی کے انتقال (16 جون 2023ء) کے وقت ان کی رائے تھی کہ جنازے کو جھارکھنڈ لایا جائے، لیکن راقم نے انھیں شرعی حکم اور مقامی علماء کے مشورے سے آگاہ کیا تو وہ دیوبند تدفین پر راضی ہو گئے تھے. اس ملاقات میں انھوں نے اولاً والد مرحوم کے لیے تعزیتی کلمات کہے، والدہ کی خیریت دریافت کی، نیز والد گرامی کی زیر ترتیب سوانح کے بارے میں بھی حوصلہ افزائی کی۔

رات تقریباً ایک بجے میں عارف کے ساتھ اپنی خالہ کے گھر پہنچا جو دھنباد سے تقریباً بارہ کیلو میٹر گووندپور نامی علاقے کے قریب واقع ہے، رات وہیں گزری۔

یہاں سے چوں کہ مدارس کا تذکرہ شروع ہو رہا ہے، اس لیے کل شام جس مدرسے میں جانا ہوا اس کے ذکر سے آغاز کرتے ہیں :

مرکزی دارالعلوم بگھاڈیہہ :

یہ مدرسہ ہمارے ننیہال کے قریب "بگھاڈیہہ” نامی بستی میں واقع ہے، مدرسہ کے مہتمم مولانا محمد نعیم قاسمی دارالعلوم وقف کے قدیم فاضل ہیں اور والد گرامی کے نہایت مخلص بھی، یہ ادارہ انھوں نے والد مرحوم کی سرپرستی میں 2001ء میں قائم کیا تھا، مدرسے کے پاس اپنی زمین ہے، مسجد ہے، دارالاقامہ اور درسگاہیں، مہتمم صاحب کے بقول مقامی و غیر مقامی ابتدائی ناظرہ و مکتب اور حفظ کے دو سو سے زائد طلبہ یہاں زیر تعلیم ہیں، کچھ سال ابتدائی عربی درجات بھی رہے، لیکن لاک ڈاؤن کے بعد سے عربی جماعتیں نہ بن سکیں، یہ شکوہ تو دیوبند جیسی مرکزی جگہ کے قرب و جوار میں موجود بڑے بڑے تاریخی اور قدیم اداروں کو بھی ہے کہ لاک ڈاؤن کے بعد سے طلبہ کی آمد بہت متاثر ہوئی ہے۔

مدرسہ اصلاح المسلمین :
صبح تقریباً گیارہ بجے ہم جھارکھنڈ کی مشہور علمی درس گاہ "مدرسہ اصلاح المسلمین” پہنچے، یہ ادارہ ضلع دھنباد کی ایک بستی "سرکارڈیہہ” میں واقع ہے، مدرسہ کے گیٹ پر ہی اس کا سن قیام درج ہے 1953ء، گویا یہ 70 سال قدیم ادارہ ہے، ادارے میں داخل ہوتے ہی ایک خوشگوار کیفیت کا احساس ہوا، دونوں جانب شاندار عمارتیں، خوبصورت اور صاف ستھری مسجد، طلبہ کی چہل پہل، کل ملا کر ایک مکمل مدرسہ. یہاں ہمارے ایک قدیم دوست مولانا محمد آفتاب صاحب تدریسی خدمات انجام دے رہے ہیں، فاضل دارالعلوم وقف، ہم سے ایک سال جونیر، لیکن ہم ذوق و ہم مزاج، دیوبند کے بعد ندوہ میں تکمیل ادب، حاضر جواب اور اپنے موقف کو بر ملا پیش کرنے کی جرأت رکھنے والے. انھوں نے والہانہ استقبال کیا، مدرسے کے دیگر اساتذہ سے بھی ملاقات ہوئی. معذرت کہ سب کے نام ذہن میں نہ رہ سکے، تاہم دو نوجوان اور دو عمر دراز اساتذہ سے شرف ملاقات حاصل ہوا، ایک استاذ شعبہ حفظ قاری حیدر قاسمی، راقم کے زمانہ حفظ (2000ء،جامعہ قاسمیہ دیوبند) کے درسی ساتھی، وہ دور کر رہے تھے اور ہم حفظ، آج تقریباً 23 سال بعد ان سے ملاقات ہوئی. حفظ کے ایک اور استاذ ملے قاری دیانت علی صاحب، وہ بھی علاقے کے نیک نام استاذ حفظ ہیں۔
ان حضرات کی معیت میں پورے مدرسہ کا جائزہ لیا، معلوم ہوا کہ گزشتہ سال عربی ہفتم (مشکاۃ شریف) کی جماعت بھی تھی، لیکن سردست عربی ششم (جلالین شریف) تک کی جماعت موجود ہے، حفظ کی پانچ درس گاہیں ہیں، طلبہ کی کل تعداد پونے چار سو کے قریب، مہمان خانہ وغیرہ بھی موجود، نیز طلبہ و اساتذہ کے کھیلنے کے لیے ایک وسیع و عریض میدان بھی، اساتذہ نظام سے مطمئن نظر آئے، تنخواہیں بر وقت اور اضافی ڈیوٹی بھی منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انداز میں تقسیم. یہ مدرسہ جھارکھنڈ کا دوسرا سب سے بڑا مدرسہ ہے، پہلے نمبر پر مدرسہ رشید العلوم چترا ہے. مدرسہ کے مہتمم صاحب جناب مولانا محمد اسحاق صاحب مظاہری قدیم طرز کے عالم ہیں، محنتی و مخلص، نرم دل اور شفیق، طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لیے متفکر، رابطہ مدارس عربیہ صوبہ جھارکھنڈ کے صدر، افسوس کہ اس وقت ان سے ملاقات نہ ہو سکی، وہ سفر پر تھے. ان کی مذکورہ صفات کا علم راقم کو ایک ہفتے قبل کی ملاقات میں ہوا تھا جب وہ رابطہ مدارس کی کسی میٹنگ میں شرکت کے لیے دیوبند آئے ہوئے تھے. مدرسہ کا جائے وقوع بھی عمدہ ہے، ارد گرد کچھ فاصلے پر پہاڑیاں دلکش نظارہ پیش کرتی ہیں۔

وہاں سے رخصت ہوئے تو مہاراج گنج نامی جگہ پہنچے، یہاں برادرم مولانا فہیم قاسمی صاحب کا گھر ہے، دوپہر کا کھانا انھیں کے یہاں ہے. ظہر کی نماز کے لیے ان کے گھر سے قریب بالکل لبِ شاہراہ پر واقع مدرسہ جامع العلوم جانا ہوا جس کے صدر دروازے پر سن قیام 1397 ھجری لکھا ہوا تھا، گویا یہ ادارہ 47 سال قدیم ہے، صدر دروازے میں داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ پر وسیع و عریض اور خوبصورت مسجد ہے بنام "مسجد رشید”، ظہر کی نماز کے بعد مدرسہ کا جائزہ لیا، مسجد، درسگاہیں، مطبخ وغیرہ ۔ ایک استاذ محترم نے بتایا کہ مدرسہ میں تقریباً تین سو طلبہ زیر تعلیم ہیں، عربی چہارم تک کی تعلیم ہے، مدرسہ میں کل دس یا بارہ سال بعد جلسہ دستار بندی ہونے جا رہا ہے جس میں 80 سے زائد حفاظ کی دستاربندی کی جائے گی. مدرسہ کا عملہ اور مہتمم صاحب اسی میں مصروف ہیں. مدرسے کے گیٹ سے نکلتے وقت اس پر پڑی ہوئی لائٹوں کی لڑیاں نظر آئیں، پھر یاد آیا کہ کل مغرب کے بعد ادھر سے گزرتے وقت یہ عمارت ان قمقموں سے روشن ہو رہی تھی، جلسہ دستاربندی کی تیاری کے لیے شب برأت، میرج ہال اور دیوالی کے انداز میں یہ قمقمے راقم کو بہت عجیب محسوس ہوئے۔

ان دونوں بڑے اداروں میں جو ایک کمی مشترکہ طور پر نظر آئی کہ مدرسے کی کوئی عمارت "لائبریری” کے لیے مخصوص نہیں تھی، افسوس ہوا کہ طلبہ میں شوق مطالعہ کو فروغ دینے اور اساتذہ کے لیے درس کی تیاری کی خاطر لائبریری کو اب تک ان دونوں اداروں کی انتظامیہ نے قابلِ اعتنا نہیں سمجھا۔

تیسری قسط مکمل ہوئی، اگلی قسط میں دو مدارس کا تعارف، اور کچھ مزید بھی۔ ان شاء اللہ

You may also like