دوست آوارگی می خواہد
رفتنِ حج بہانۂِ اُوست
سفرحج کی تشریح ایک فارسی شاعر نے اپنے اندازمیں اس طرح کی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے عاشق اورچاہنے والے بندوں کی دیوانگی اوران کاشوقِ محبت دیکھناچاہتاہے،جس کے لیےاس نےحج کوایک بہانہ بیاناہے،یعنی کہ حج اپنےمحبوب بندے کو اپنے دربارمیں بلانے کاایک بہانہ ہے،اِسی مفہوم کوایک حدیث قدسی میں اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:اُنظرُواْاِلیٰ زُوّارِ بَیتیْ قَد جاؤنی شُعْثَائ غُبْراَ(اے فرشتو! دیکھو،میرے گھرآنے والے دیوانوں کی صورت وشکل کس طرح میری محبت میں اپنے بکھرے ہوئے بال اور گرد سے آٹے بدن لے کرحاضرہورہے ہیں)
اسی مفہوم کودوسری ایک حدیث میں تھوڑے بدلے ہوئے الفاظ سے تعبیرکیاگیاہے یعنی:اُنظُرُوااِلیٰ عِبادِی،اَتَونی،شُعثاَئ غُبراَ(احمد:7089)
اگرغورکیاجائے توپانچ چیزیں(1) صبر،(2)رضا،(3)توحید،(4) توکّل،(5) اور تقویٰ
(1) صبر:اس کو حج کے سفر اوراسکے بعد یاپہلے کی زندگی میں جوبھی تکلیف آئے، اس پرصبرکرے یہ توصبرکاایک عام مفہوم ہے، لیکن اگرقرآن ،حدیث کاذراباریک نظرسے مطالعہ کیاجائے توصبردراصل اپنے حقوق کے حصول اورصحیح موقف پرباطل اورنفسانی تقاضوںکے خلاف سختی کے ساتھ ڈٹے رہنے کانام ہے، جیساکہ ’ ولنبونکم بشیٔ من الجوع۔۔۔۔(بقرہ:155)سے معلوم ہوتاہے،ایسانہیں کہ کوئی تم کوناحق مارتا، ستاتارہے اور نماز کی طرح دونوںہاتھ باندھے اس سے پٹتے ،مارکھاتے اوراس کے ظلم وستم کانشانہ بنتے رہیں،ورنہ تو پھرحدیث رسولﷺ کہ ترمذی ، (:1419’ـ: مَنْ قُتِلَ دُوْنَ مَالِہٖ فَہُوَشَہِیْدٌ(جوشخص اپنے مال کی حفاظت کرتاماراجائے تووہ بھی کیامطلب ہوگا؟
(2)رضائے خداوندی:اپنے ہرعمل کامقصد اللہ کی رضامندی ہو،حضرت صہیب رومی جب ایمان لائے تو ہجرت کے وقت ان کوکفارنے روکناچاہاتوانھوں نے ان کواپنے مال کاپتہ بتاکراپنی جان بچائی ، جس پراللہ تعالیٰ نے ان کواپنی خوشی کاپروانہ قرآن کی آیت[وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اﷲِ](((بقرہ:207)
ترجمہ: کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جوکہ اللہ کوراضی کرنے کے لیے اپنی جان کواپنے مال کے بدلے خرید لیتے ہیں)سے دیا۔
ابو عبد الرحمن بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”آدمی اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی بات کرتا ہے، اس کو گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ کہاں تک پہنچے گی، اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے قیامت کے دن تک اپنی رضامندی لکھ دیتا ہے اور آدمی (بعض دفعہ)اللہ کی ناراضی کا ایسا کلمہ بولتا ہے، اسے گمان بھی نہیں ہوتا کہ یہ کہاں تک پہنچے گا اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے اپنی ملاقات کے دن تک اپنی ناراضی لکھ دیتا ہے“
علامہ اقبال ؒ نے شاید اسی طرف اشارہ کیاہو
خودی کوکربلنداِتنا، کہ ہرتقدیرسے پہلے
خدابندے سے خود پوچھے،بتاتیری رضاکیاہے؟
(3)توحید: حاجی کی ہرایک ادااورس کے ہرایک عمل سے اللہ کی توحیدکااعلان واقرار ظاہرہوتاہے، آپ خانہ کعبہ کی حاضری،اس کی زیارت کی دعا،اس کے طواف، تلبیہ، وقوف عرفات،قیام ِمزدلفہ،شیطان کوکنکری مارنے سے قربانی ،طواف زیارت اورطواف وداع تک ہرایک عمل کو، ایام تشریق میں پانچ دنوں تک تکبیرات تشریق کی پابندی، گویاکہ ہرواجب اور رُکن پرغورکرتے جائیے ، حج کےتمام اعمال اورارکان ہی توحیدالٰہی کے مظہر وپیکرنظرآئیں گے،کیونکہ بیت اللہ کی تعمیراوراس کے حج کااصل منشاہی اللہ کے نام کی بلندی اور کفروشرک کاخاتمہ ہے،*وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَنْ لَا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ* ("اور جب ہم نے ابراہیم علیہ السلام کے لیے بیت اللہ کی جگہ متعین کر دی کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرنا اور میرے گھر کا طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع، سجود کرنے والوں کے لیے پاک کرنا”۔(الحج 26:)
چونکہ حج اللہ کے گھر کعبة اللہ کے ساتھ خاص ہے اور وہ گھر توحید کا مرکز و محور ہے، تو حج کا عظیم پیغام بھی اللہ کی توحید ہی ہوا،
تلبیہ کی حقیقت حج چونکہ شعارِ توحید ہے اس لیے حج کی ابتداء توحید ہی کاکلمہ ہی بلند کرنے سے ہوتی ہے اس لیے کہ مؤمنوں کی تعریف ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے موحد اورکفرمخالف فرس سے کی ہے ، ملاحظہ ہو: ".حُنَفَاءَ لِله غَيْرَ مُشْرِكِينَ بِهِ وَمَنْ يُشْرِكْ بِاللهِ فَكَأَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَاءِ فَتَخْطَفُهُ الطَّيْرُ أَوْ تَهْوِي بِهِ الرِّيحُ فِي مَكَانٍ سَحِيقٍ”۔(الحج 31:)
"اس حال میں کہ اللہ کیلئے (عبادت کو) خالص کرنے والے،اس کے ساتھ شرک نہ کرنے والے ہو اور جو اللہ کے ساتھ کسی کوشریک ٹھہرائے تو گویا وہ آسمان سے گر پڑا، پھر اسے پرندے اچک لیتے ہیں، یا اسے ہوا کسی دور جگہ میں گرا دیتی ہے”۔
آپ دیکھیے نا! کہ ارکان حج کی ابتداتلبیہ سے ہوتی ہے جوکہ خالص توحید بھرانعرہ ہے۔
ہندودھرم کے ایک بڑے پرچارک اور سیاح سوامی وِویکانندکاقول ہے
’’اسلام کا کلمہ جس میں ایک خداکاتصورہے، وہ حق ہے،اسی لئے حج کےتلبیہ میں حاجی لوگ ’لاشریک لک، بولتے ہیں،وہ حق ہے،نیز سفرحج میں وحدانیت ہی کوفوکس کیا جاتاہے،،
(4) توکّل:انسان اپنے گھربار، عزیزوں بال، بچوں اوررشتہ داروں کوچھوڑکر حج کے سفرپرروانہ ہورہاہے،تواپنے جان، مال آل اولاد سب کوخداکے حوالے کرکے اسی مالک کی طرف نظر اوراسی پربھروسہ ہو،نفس اورانسانی طبیعت کے مطابق ہر غریب اورامیر کی نظرمیں سفرحج کا خرچہ بہت اوربڑاماناجاتاہے تو حاجی کی نظر شروع سفرسے لے کرآخرتک صرف اللہ کی طرف ہو، بندوں کی جیب، ان کے مال اوردولت کی طرف نہ ہو، اسی لیے شریعت میں حج اسی مسلمان پرفرض ہے جوصاحبِ استطاعت اورحیثیت ہو، ایسانہیں کہ ہرایک پرفرض ہو۔
ہم نے تقریباََ تیس سال پہلے ویلکم کالونی میں ایک صاحب کو دیکھاجوسفید شلوارسوٹ پہنے، سرپرعربی رومال، چہرے پرلمبی گھنی داڑھی ،کے حلیہ میں لوگوںسے حج کو جانے کے لیے چندہ کررہے تھے۔ان کے جذبے کوتوخداجانے ، مگرشرعاََ بالکُل غلط اورسراسر ناجائز عمل تھا۔
البتہ اپنے ساتھ حاجی کادال آٹا، پیسہ لیجانایہ توکل کے منافی نہیں۔کفارمکہ اورمشرکین عرب کایہ بھی طریقہ تھاکہ وہ سفرحج کے لئے توشہ ساتھ لیجانے کوتوکّل کے خلاف سمجھتے تھے،اس لیے اللہ نے مؤمنوں کوحکم دیا: وَتَزوّدوا،فان خیرالزادا لتقویٰ(توشہ لیاکرو، البتہ بہترین توشہ تقویٰ کاہے)
(5)تقویٰ:روزہ ، نماز،زکات، حج گویاکہ تمام احکام خداوندی کامقصد اورنچوڑ ہی تقویٰ ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے حج کے دوران تین ایسے اعمال سے نہایت ہی دوررہنے کاخاص طورپرحکم دیاجوانسان کے ہرعمل کواکارت کرنے کےلیے ان میں سے کوئی ایک ہی بہت ہے، یعنی اللہ فرماتاہے: فلارفث، ولافسوق ،ولاجدال فی الحجّ(بقرہ)ترجمہ: حج میں نہ کوئی نفسانی خواہش کی بات ہو اورنہ ہی کسی گناہ کی اور نہ ہی کسی سے جھگڑاہو اور تم جو بھی بھلائی کروگےو اللہ اسے خوب جانتا ہے۔