Home سفرنامہ جب ایک برہمن خاتون ہماری ہمسفر بنی-سہیل انجم

جب ایک برہمن خاتون ہماری ہمسفر بنی-سہیل انجم

by قندیل

ہمیں گزشتہ ماہ دہلی سے اپنے وطن ضلع سنت کبیر نگر اترپردیش کا سفر کرنا تھا۔ اسپائس جیٹ سے دہلی سے گورکھپور تک کا ٹکٹ تھا۔ طیارے کو دن میں پون بجے پرواز بھرنی تھی۔ لیکن ایئرلائنز والوں کی جانب سے تاخیر پر تاخیر کا اعلان ہوتا رہا۔ بالآخر جہاز نے شام میں ساڑھے پانچ بجے ٹیک آف کیا۔ ہم صبح دس بجے ایئرپورٹ پہنچ گئے تھے۔ بورڈنگ پاس کے کاؤنٹر پر ہمیں بتایا گیا کہ اندر فوڈ کورٹ میں ’بریانی بلیوز‘ نام کی شاپ پر بورڈنگ پاس دکھانے پر کھانا ملے گا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ سب کو یہ بات نہیں بتائی گئی تھی جس کی وجہ سے مسافروں کی جانب سے زبردست ہنگامہ کیا گیا۔ خیر ہم اندر جا کر ویٹنگ ایریا میں بیٹھ گئے۔ ہمارے ساتھ اہلیہ بھی تھیں۔ اتنے میں ایک ادھیڑ عمر کی ایک غیر مسلم خاتون موبائل فون پر بھوجپوری زبان میں بلند آواز میں بات کرتے ہوئے آئیں۔ وہ تعلیم یافتہ خاندان کی لگ رہی تھیں۔ وہ فون پر بتا رہی تھیں کہ فلائیٹ لیٹ ہو گئی ہے۔ گفتگو سے فارغ ہوئیں تو ہم لوگوں سے مخاطب ہوئیں۔ کہنے لگیں کہ بیٹے کا فون تھا وہ میرے لیے بہت پریشان ہے۔ ہم اکیلے ہیں گھبرا رہے ہیں ہمیں بھی اپنے ساتھ لے چلیے۔ ہماری برقعہ پوش اہلیہ سے کہنے لگیں کہ آپ تو اپنے ہسبینڈ کے ساتھ ہیں ہم اکیلے ہیں ہمیں خود سے الگ مت کیجیے گا۔ ہم لوگوں نے کہا کہ ٹھیک ہے ہمارے ساتھ رہیے۔ ہم نے ان کو بتایا کہ اسکیلیٹر سے اوپر جانے پر کھانا ملے گا۔ اگر آپ کو چلنا ہو تو آپ بھی چلیے۔ انھوں نے کہا کہ مجھے اسکیلیٹر سے ڈر لگتا ہے میں نیچے ہی کچھ کھا پی لوں گی۔ بہرحال وہ کچھ ناشتہ کرکے واپس آئیں۔ ساڑھے بارہ بجے ہم لوگ اوپر جانے لگے تو انھوں نے بڑی عاجزی سے کہا کہ ہم یہیں ہیں آپ لوگ کہیں اور مت جائیے گا یہیں آئیے گا اور ہمیں اپنے ساتھ لے چلیے گا۔ ہم لوگ کھانا کھا کر جب واپس آئے تو وہ وہاں نظر نہیں آئیں۔ ہم نے یہ سوچ کر کہ انھوں نے ہم پر اعتماد کیا ہے لہٰذا ہمیں ان کو تلاش کرکے اپنے ساتھ رکھنا چاہیے، ان کی تلاش شروع کی مگر وہ کہیں دکھائی نہیں دیں۔ کچھ دیر کے بعد مجبوراً ہم لوگ آگے بڑھے اور پریئر روم میں ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد بورڈنگ گیٹ کی طرف بڑھے۔ وہاں جا کر بھی ہم نے ان کو بہت تلاش کیا مگر وہ نہیں ملیں۔ ہم لوگ یہ سوچ کر پریشان تھے کہ کہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ وہ ہندو ہیں اور ہم مسلمان اسی لیے ہم نے ان کو چھوڑ دیا۔ اہلیہ کے کہنے پر ہم پھر نیچے گئے جو کہ وہاں سے کافی مسافت پر ہے اور ایک طرف سے پیدل کم از کم پندرہ منٹ لگتے ہیں۔ ہم نے پھر اسی ایریا میں ان کو ڈھونڈا مگر وہ پھر بھی نہیں ملیں۔ ہم مایوس ہو کر واپس جا رہے تھے تو اہلیہ کا فون آیا کہ وہ آگئی ہیں۔ ہم نے جا کر جب ان سے کہا کہ ہم لوگ آپ کے لیے بہت پریشان تھے آپ کہاں رہ گئی تھیں تو انھوں نے کہا کہ ان کے ایک عزیز ایئرپورٹ پر ملازم ہیں وہ مل گئے اور وہی ہمیں یہاں چھوڑ گئے۔ ہم بھی آپ لوگوں کے لیے پریشان تھے لیکن ان سے اس لیے ذکر نہیں کیا کہ کہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ میں ان کے بجائے غیروں میں دلچسپی لے رہی ہوں۔

بہرحال وہ ہم لوگوں سے گفتگو کرتی رہیں۔ ان کے بیٹے کا بار بار فون آرہا تھا جو کہہ رہا تھا کہ ممی پریشان ہو رہی ہوں گی۔ دوسرے لوگوں کے بھی فون آتے رہے۔ جب بیٹے کا کئی بار فون آیا تو انھوں نے کہا کہ ہمارے ساتھ اور لوگ بھی ہیں لو بات کر لو۔ اور یہ کہہ کر انھوں نے فون ہماری اہلیہ کی طرف بڑھا دیا اور کہا کہ ’دیدی ذرا آپ ہمارے بیٹے کو بتا دیں کہ ہم آپ لوگوں کے ساتھ ہیں‘۔ بہرحال انھوں نے ان کے بیٹے سے کہا کہ آپ پریشان نہ ہوں۔ وہ ہمارے ساتھ ہیں۔ اب انھوں نے اپنے خاندان کے بارے میں بتانا شروع کیا۔ انھوں نے کہا کہ ان کا نام سریتا دوبے ہے۔ ان کا یہ چھوٹا بیٹا گوپال گنج بہار میں ایس ڈی ایم ہے۔ بڑا بیٹا ریونیو آفیسر ہے۔ پتی دیو فوج میں تھے۔ ریٹائر ہو گئے ہیں اور خورجہ میں ایک کالج میں پڑھا رہے ہیں۔ ایک بیٹی دہلی میں آئی آئی ٹی کر رہی ہے اور دوسری بیٹی اشوکا یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کر رہی ہے۔ اس کو ایم بی بی اسی کرانے میں ایک کروڑ روپے لگ رہے ہیں جو چھوٹا بیٹا دے رہا ہے۔ انھیں ہم لوگوں پر اتنا اعتماد ہو گیا کہ وہ ہماری اہلیہ سے اپنے گھر کی وہ باتیں بھی بتانے لگیں جو عام طور پر پہلی ملاقات میں کوئی کسی کو نہیں بتاتا۔ اس سے قبل جب ہم وہاں پہنچے تھے تو وہاں ایک دوسری غیر مسلم خاتون بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان سے جب ہم نے کھانے کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ میرا تو چھٹھ پوجا کا برت ہے لیکن میں پانی پی سکتی ہوں لیکن میرے پاس پانی نہیں ہے۔ ائرلائنز والوں نے پیاسا مار ڈالا۔ ہم نے ان سے کہا کہ ہمارے پاس پانی کی بوتل ہے آپ چاہیں تو لے سکتی ہیں۔ وہ کچھ جھجکیں۔ ہم سمجھ گئے۔ ہم نے کہا کہ آپ گھبرائیں نہیں یہ پیکڈ یعنی سیل بند پانی ہے۔ ہم نے ان کو دیا اور انھوں نے فوراً بوتل کھول کر پانی پیا۔ اس کے بعد دونوں خواتین ہم لوگوں سے بہت زیادہ بے تکلف ہو گئیں۔ ایک دوسرے شخص سے نیچے ہم نے کھانے کے بارے میں پوچھا تھا تو انھوں نے کہا کہ ہمیں کھانے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ جب ہم جا رہے تھے تو ان کو بھی ہم نے ساتھ لے لیا۔ وہ بھی چھٹھ پوجا کا تہو ار منانے بہار جا رہے تھے۔ ان تینوں کو ہم لوگوں پر اتنا بھروسہ ہو گیا کہ وہ راستے بھر ہم لوگوں سے گفتگو کرتے رہے۔ جہاز کے باہر بھی اور اندر بھی۔ جب ہم گو رکھپور ایئرپورٹ پر اترے اور بیلٹ پر سامان کا انتظار کرنے لگے تو مذکورہ دونوں خواتین بھی وہیں آگئیں اور ہماری اہلیہ سے باتیں کرنے لگیں۔ دوسری خاتون نے ہم سے کہاکہ بھائی صاحب آپ نے جو پانی پلایا تھا ہم وہی پی کر ہیں دوسرا پانی نہیں ملا۔ ہمیں تقسیم ملک کے وقت ’ہندو پانی اور مسلم پانی‘ فروخت کیے جانے کا و اقعہ یاد آگیا۔ بہرحال جاتے وقت دونوں خواتین نے ڈھونڈ کر ہم لوگوں سے نمستے کیا اور جانے کی اجازت چاہی۔ ادھیڑ عمر خاتون نے تو فون نمبروں کا تبادلہ کیااور اصرار کیا کہ وہ دہلی میں اپنی بیٹی کے پاس رہتی ہیں ہم لوگ ان کے یہاں ضرور آئیں۔

وہاں سے نکلنے کے بعد بار بار ہمیں یہ خیال آتا رہا کہ آج بھی جبکہ ملک کا ماحول بہت خراب ہو گیا ہے اور اسلاموفوبیا کے اثرات دور دراز تک سرایت کر چکے ہیں، ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو فرقہ وارانہ یگانگت اور میل جول میں یقین رکھتے ہیں۔ جو ہندو مسلم منافرت کی سیاست سے متاثر نہیں ہیں۔ جو مسلمانوں کو بھی اسی طرح اپنے بھائی بند مانتے ہیں جیسے کہ اپنے ہم مذہبوں کو۔ حالانکہ وہ اگر ہم سے اس طرح پیش نہ آتے تو کوئی کیا کر لیتا۔ جبکہ ان لوگوں کو معلوم تھا کہ ہم مسلمان ہیں۔ ہم باریش ہیں اور ہماری اہلیہ برقع پوش۔ ہماری شناخت بالکل کھلی ہوئی تھی۔ کوئی چیز پوشیدہ اور ڈھکی چھپی نہیں تھی۔ ممکن ہے کہ ان لوگوں کا ذہن ابھی مذہبی تعصب سے متاثر نہ ہوا ہے۔ ہمیں بار بار یہ خیال آتا رہا کہ جب تک ہندوستان میں ایسے لوگ موجود ہیں ہندو مسلم اتحاد و یکجہتی کو کوئی توڑ نہیں سکتا۔ مذہب کی بنیاد پر عوام کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت جو حالات ہیں وہ عارضی ہیں۔ یہ ایک روز ختم ہو جائیں گے اور ہندو اور مسلمان اسی طرح مل جل کر رہیں گے جس طرح وہ صدیوں سے رہتے آئے ہیں۔ جب ہم نے اپنے دوستوں سے اس واقعے کا ذکر کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ لوگ آپ کے اخلاق سے متاثر ہوئے۔ حالانکہ ہم کیا اور ہمارا اخلاق کیا۔ لیکن بہرحال اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کو دوسروں کے ساتھ حسن اخلاق سے پیش آنا چاہیے۔ اگر ہم صحیح ہیں تودوسرے بھی ہمارے ساتھ غلط نہیں کریں گے۔ ہاں کچھ سرپھرے ضرور ہیں جو اس اتحاد کو توڑنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس ملک کی اکثریت مذہبی منافرت سے دور ہے اور یہ ہندوستان کی بہت بڑی پونجی ہے۔

You may also like