Home نقدوتبصرہ کلیات مکتوبات سرسید – معصوم مرادآبادی

کلیات مکتوبات سرسید – معصوم مرادآبادی

by قندیل

ڈاکٹر عطا خورشیدکا شمارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نہایت سنجیدہ اور محنتی اسکالر ز میں ہوتا ہے۔ حالانکہ ان کا تعلق نہ تو یونیورسٹی کے تدریسی عملہ سے ہے اور نہ ہی وہ کسی ادبی اور تحقیقی اکادمی کے عہدیدارہیں بلکہ یونیورسٹی کی شہرہ آفاق لائبریری ان کی سرگرمیوں کامحور و مرکز ہے، جس سے وہ بطور اہل کار وابستہ ہیں۔انھوں نے اب تک سرسید شناسی کے باب میں جو کارہائے نمایاں انجام دیے ہیں، اس کے لیے انھیں بلاشبہ داد دی جانی چاہئے۔انھوں نے اپنا مواد اندرون وبیرون ملک کی مختلف لائبریروں سے حاصل کیا ہے، لیکن اس سلسلہ کا بیشتر مواد خود مولانا آزاد لائبریری میں بھی موجود ہے، جس سے انھوں نے خاطر خواہ استفادہ کیا ہے۔ انھوں نے سرسید کی نایاب تحریروں اور تقریروں کو یکجا کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے، اس کے تحت حال ہی میں چھ جلدوں پر مشتمل ان کی کتاب ”کلیات مکتوبات سرسید“ منظرعام پر آئی ہے، جو اپنے موضوع پر سب سے وقیع پیشکش ہے۔ لیکن اس تاریخ ساز کتاب کی آمد اتنی خاموشی کے ساتھ ہوئی ہے کہ بیشتر لوگ اس سے واقف نہیں ہوسکے۔ یہ دراصل ڈاکٹر عطا خورشید کی طبعی گوشہ نشینی کا کمال ہے کہ وہ ایک طرف بیٹھ کر اہم علمی اور تحقیقی کارنامے انجام دیتے رہتے ہیں۔وہ ایک ایسے دور میں بھی شہرت سے گریزاں نظر آتے ہیں جب لوگ معمولی کام کرکے غیر معمولی شہرت حاصل کرنے کے لیے جوڑ توڑ کرنے سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔مجھے ان کی سنجیدگی اور متانت دیکھ کر گزرے زمانے کے وہ علماء یاد آتے ہیں، جن کے نزدیک علم کی ترسیل ہی زندگی کا سب سے بڑا مقصد تھااور جو فروعی باتوں سے بچ کر ہمیشہ تعمیری اور تحقیقی کاموں میں مگن رہتے تھے۔
چھ جلدوں پر مشتمل 2850 صفحات کی کتاب ترتیب دینا اس دور ابتلاء میں کوئی آسان کام تو نہیں ہے، لیکن ڈاکٹر عطا خورشید اس سے پہلے بھی ایسے ہی کارنامے انجام دے چکے ہیں۔ پچھلے برس انھوں نے تین ضخیم جلدوں پر مشتمل ”کلیات خطبات سرسید“ ترتیب دے کر شائع کی تھی۔ یہ بھی ایک بڑا کارنامہ تھا، کیونکہ اس سے قبل شیخ محمد اسماعیل پانی پتی نے سرسید کے جو خطبات جمع کئے تھے اور جنھیں ”خطبات سرسید“کے عنوان سے 1972 میں مجلس ترقی ادب لاہور نے شائع کیا تھا، اس میں کل 98 خطبات تھے جبکہ ڈاکٹر عطا خورشید نے مزید 104 خطبات کی بازیافت کا کارنامہ انجام دیا اور ان سب کو یکجا کرکے ”کلیات خطبات سرسید“ کے عنوان سے شائع کردیا۔ قبل ازیں 2019 میں انھوں نے سرسید کی ببلیو گرافی بہ عنوان ”سرسید احمد خاں:وضاحتی، موضوعاتی کتابیات“ کے عنوان سے ترتیب دے کر شائع کی تھی، جس کی علمی دنیا میں خاصی پذیرائی ہوئی تھی۔اب اس سلسلہ کی ان کی تیسری پیشکش اس سے بھی زیادہ وقیع ہے۔ چھ جلدوں پرمشتمل ان کی تیسری کتاب”کلیات مکتوبات سرسید“ بھی نہایت معیاری انداز میں شائع ہوئی ہے۔اب ان کا ارادہ بیس جلدوں میں ”کلیات مقالات سرسید“ شائع کرنے کا ہے۔
’’کلیاتِ مکتوباتِ سرسید‘‘میں سرسید کے اور سرسید کے نام لکھے کُل 1773 خطوط ہیں جن میں 1322 خطوط اردو و فارسی کے ہیں جبکہ 451 خطوط انگریزی کے ہیں ۔ ان میں 1185 خطوط سرسید کے ہیں بقیہ خطوط سرسید کے نام ہیں ۔ خط کی ترتیب تاریخی رکھی گئی ہے خواہ وہ خط سرسید کا ہو یا سرسید کے نام لکھا خط ہو ۔ سرسید کا لکھا پہلا دستیاب شدہ خط سر ہنری ایلیٹ کے نام 7 ستمبر 1846 کا ہے جبکہ سرسید کا آخری دستیاب شدہ خط11 مارچ 1898ء کا ہے۔
چھ جلدوں پر مشتمل تقریباً ساڑھے اٹھائیس سو صفحات پر مشتمل اس مجموعہ کی ابتدائی چار جلدیں اردو خطوط پر مشتمل ہیں جبکہ آخری دو جلدیں انگریزی خطوط کی ہیں ۔
سرسید کے خطوط کا پہلا مجموعہ وحید الدین سلیم پانی پتی (1869ء-1938ء) نے اُن کے انتقال کے بعد1901ء میں پانی پت سے شائع کیا۔ سرسید کے خطوط کا دوسرا مجموعہ اُن کے پوتے سید راس مسعود(1889ء-1937ء) نے نظامی پریس ، بدایوں سے1924ء میں شائع کیا جس کا دوسرا ایڈیشن1931ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعہ میں 83 مکتوب الیہم کے نام246 خطوط درج ہیں۔
سرسید کے خطوط کے سلسلے میں اب تک شیخ محمد اسمعیل پانی پتی کے مرتب کردہ دو جلدوں پر مشتمل ’مکتوباتِ سرسید‘ (مجلس ترقی ادب ، لاہور، 1976 – 1985) کا ہی نام لیا جاتا ہے اور اکثر خطوط کے سلسلے میں اس پر ہی انحصار کیا جاتا رہا ہے جس میں 650 خطوط ہیں ۔ اسمعیل پانی پتی نے پچھلے شائع شدہ تمام خطوط اس میں شامل کر لیے ہیں ۔ جبکہ عطا خورشید کی مرتب کردہ کلیات میں سرسید کے لکھے 1185 خطوط ہیں ۔ اس کلیات کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ سرسید کے یہ خطوط کس خط کے جواب میں لکھے گئے ہیں ، یا سرسید کے خطوط کا کیا جواب دیا گیا ، ایسے خطوط کو بھی اس کلیات میں شامل کیا گیا ہے ۔ اس طرح سرسید کے لکھے خطوط کا پس منظر بھی واضح ہوجاتا ہے ۔ تمام خطوط کے آخر میں ماخذ کا بھی ذکر کیا گیا ہے ۔
ساڑھے سترہ سو خطوط کی تعداد ایک خاصی بڑی تعداد ہے جس کے ذریعہ سرسید کی ذات اور علی گڑھ تحریک کی تاریخ کو سمجھنے میں بہت آسانیاں پیدا ہوں گی اور امید ہے کہ ان خطوط کے ذریعہ علی گڑھ تحریک کی تاریخ نئے طور پر رقم کی جاسکتی ہے ۔
سرسید کے انتقال کو تقریباً سواسو سال ہوگئے لیکن افسوس کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی یا ہندوستان کے کسی ادارے کو توفیق نہیں ہوئی کہ اس کام کا بیڑہ اٹھاتا ۔ یہ علمی کام فرد واحد کا ہے ۔ مولانا آزاد لائبریری کی لائبریرین پروفیسر نشاط فاطمہ نے اس کلیات کے تعارف میں بجا لکھا ہے کہ ’’ ڈاکٹر عطا خورشید نے ایک ‘ فرض کفایہ’ ادا کیا ہے۔‘‘
سرسید کے اِن خطوط سے اُن کے ذاتی حالات ، صحافتی زندگی ، اعتقادات و نظریات ، اخلاق و عادات ، عصری معلومات و تحریکات ، ہندوستانی مسلمانوں کے مذہبی اور معاشرتی حالات ، علی گڑھ تحریک ، ہندوستان کی تعلیمی تحریک ، مدرسۃ العلوم، مسلمانان ہند ، نوابین و راجگان ہند ، معاصرین سرسید ، اردو ہندی نزاع وغیرہ جیسے اہم موضوعات کا علم ہوتا ہے۔ ان خطوط کے ذریعہ اٹھارہویں صدی کے ہندوستان کو بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔

کتاب کے حصول کے لیے مرتب کا رابطہ نمبر : 9897577302

You may also like