Home سفرنامہ مولانا آزاد کے دولت کدے پر۔معصوم مرادآبادی

مولانا آزاد کے دولت کدے پر۔معصوم مرادآبادی

by قندیل

امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد ہندوستان کی جنگ آزادی کے سرخیل، دوراندیش قائد،عالم بے بدل، بہترین مقرر اور جیدصحافی ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ کی ایک مظلوم شخصیت بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ان کانام اور ان کے بے مثال کارناموں کو یادرکھنے والوں کی بے حد کمی ہے۔ کلکتہ وہ مقام ہے جہاں مولانا آزاد نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گزارا۔ مکہ مکرمہ جہاں ان کی’جنم بھومی‘ہے تو کلکتہ ان کی ’کرم بھومی‘۔یہی وہ شہرہے جہاں ان کی ذہنی پرورش ہوئی اور انھوں نے اپنی زندگی کے اہم فیصلے لیے، لیکن آج انھیں کلکتہ میں جو کہ اب کولکتہ ہوگیا ہے، جاننے اور پہچاننے والوں کی تعداد بہت کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں ان کے اس دولت کدے تک پہنچنے میں خاصی دشواری پیش آئی، جو کسی زمانے میں کلکتہ میں قومی تحریک کا سب سے بڑا مرکزتھا اور جہاں کانگریس کی اہم میٹنگیں منعقد ہواکرتی تھیں۔
کلکتہ کا یہ سفر یوں تو مغربی بنگال اردو اکاڈمی کی دعوت پر تھا، جہاں مولانا آزاد کے دست راست صحافی اور مدبر مولانا عبدالرزاق ملیح آبادی پر ایک سیمینار منعقد ہوا، لیکن ہم نے طے کیا کہ اس سفرکو یادگار بنانے کے لیے بالی گنج سرکلر روڈ پر مولانا آزاد کی قدیم رہائش گاہ کا معائنہ کیا جائے جسے اب میوزیم میں تبدیل کردیا گیا ہے۔کئی لوگوں سے اس میوزیم کے بارے میں معلوم کیا، لیکن انھوں نے بنگلہ زبان میں سرہلادیا۔ ممکن ہے یہ بنگلہ زبانی سے ہماری ناواقفیت کا ثبوت ہو، مگر اردو جاننے والے بھی مولانا آزاد سے تو واقف ہیں،لیکن وہ اس عمارت سے نابلد ہیں، جہاں مولانا آزاد نے اپنے اہل خانہ کے ساتھ دوچار سال نہیں پورے پندرہ سال قیام کیا اور یہیں انھوں نے اپنی معرکۃ الآراء تفسیر ’ترجمان القرآن‘ کی دوسری جلد مکمل کی۔ مجھے اس عمارت کو دیکھنے کا شوق یوں بھی تھا کہ میرے نانا منشی عبدالقیوم خاں نے، جو تاریخ میں مولانا آزاد کے کاتب کے طورپر مشہور ہوئے،یہاں 1933-34میں ڈیڑھ برس قیام کرکے ’ترجمان القرآن‘ کی کتابت کا کام کیا تھا۔ بعدکے دنوں میں انھوں نے میرے نانا کوجو ایک درجن سے زیادہ خطوط لکھے ان پر بھی19۔اے بالی گنج، سرکلر روڈ کلکتہ ہی تحریر ہے۔
بہرحال میں اور برادرم سہیل انجم راستہ بھٹک جانے کی وجہ سے کئی میل کی پیدل مسافت طے کرکے اس مکان تک پہنچ تو گئے، لیکن اتوار ہونے کی وجہ سے یہاں تالا لگا ہوا ملا۔تھکن مایوسی میں بدل گئی۔ ہم نے سیکورٹی گارڈ سے اپنی پریشانی بیان کی، لیکن وہ میوزیم کھولنے پر تیار نہیں ہوا۔ کلکتہ کے سینئر صحافی پرویز حفیظ سے سیکورٹی گارڈ کی فون پر بات کروائی گئی۔ انھوں نے اسے میوزیم کھولنے پر آمادہ کرلیا اور اس طرح ہم اس تاریخی بلڈنگ میں داخل ہوگئے، جہاں مولانا آزاد کے ذاتی استعمال کی اشیا ء کو بڑے سلیقے سے سجایا گیا ہے۔ ان میں مولانا کی ٹوپیاں، کپڑے، قلم دوات،میز، کرسیاں، الماریاں، ڈریسنگ ٹیبل،چشمہ، قیمتی کاغذات اوراہم لیڈران کے ساتھ ان کی تصاویر کے علاوہ ’بھارت رتن‘ کا وہ ایوارڈ بھی شامل ہے، جو مولانا کو بعدازمرگ 1992میں دیا گیا تھا۔ میوزیم کوئی بہت پرانا نہیں ہے۔ اس کی تعمیر وتشکیل 2006میں ہوئی تھی اوراس کا افتتاح مولانا آزاد کے یوم ولادت11 نومبر2006 کو اس وقت کے مغربی بنگال کے گورنر گوپال کرشن گاندھی نے کیا تھا۔یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہ میوزیم مرکزی حکومت کی وزارت ثقافت کے زیرانتظام ہے۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ مکان مولانا آزاد نے 1932میں مشرقی کلکتہ کے ایک معروف نسکار خاندان سے کرایہ پر لیا تھا۔ یہ خاندان اسے مندر بنانے کے لیے وقف کرنا چاہتا تھا، لیکن اسے مولانا آزاد میوزیم میں تبدیل کردیا گیا۔
مولانا آزاد اس مکان میں 1947تک مقیم رہے۔ اس کے بعد جب وہ ہندوستان کے پہلے وزیرتعلیم کے طورپر دہلی میں مقیم ہوئے تو انھوں نے اسے چھوڑ دیا۔اسی مکان میں 9/اپریل 1943کو مولانا آزاد کی اہلیہ زلیخا بیگم کی وفات ہوئی۔ اس وقت مولانا آزاد قلعہ احمدنگر جیل میں قید وبند کی صعوبتیں اٹھارہے تھے۔ انھوں نے اپنی اہلیہ کے جنازے میں شرکت کی اجازت چاہی، جو انھیں نہیں ملی۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ1942کی بھارت چھوڑو تحریک سے قبل جب مولانا آزاد انڈین نیشنل کانگریس کے صدر تھے تو اس کی بیشتر میٹنگیں اسی مکان میں ہوا کرتی تھیں۔
کلکتہ وہ شہر ہے جہاں سے مولانا آزاد نے اپنا سیاسی اور صحافتی سفر شروع کیا۔ انھوں نے اپنی زندگی کے ابتدائی ایام بھی یہیں گزارے اور یہاں کے انقلابی لیڈروں اربندو گھوش، سی آرداس اور شیام سندر چکرورتی سے متاثر ہوکروہ قومی تحریک میں شامل ہوئے۔یہیں سے انھوں نے آزادی کی صور پھونکنے والے اخبارات ’الہلال‘ اور البلاغ‘ شائع کئے اور یہیں اپنی تصنیف ’تذکرہ‘ بھی لکھی۔مولانا آزاد پر بنگال کی تہذیب ومعاشرت کا بہت اثر تھا۔ یہیں سے انھوں نے ظلم کے خلاف احتجاج کی راہ سیکھی جو بنگال کی تہذیب کا خاص عنصر ہے۔انھوں نے عمر کا بیشتر حصہ کلکتہ میں گزارا، لیکن کبھی کوئی ذاتی مکان نہیں خریدا۔ اس کی بھی بڑی وجہ ہے اور وہ یہ ہے کہ وہ زندگی بھر مالی مشکلات سے دوچاررہے۔جس زمانے میں وہ بالی گنج سرکلر روڈ کی اس کوٹھی میں مقیم تھے تو اکثر ابلے ہوئے چاولوں اور دال پر گزارا کرتے تھے۔
اس میوزیم کی ایک خاص بات یہ ہے کہ یہاں ان کی وہ معرکۃ آلاراء تقریر بھی ہندی زبان میں لکھ کر آویزاں کی گئی ہے، جو انھوں نے تقسیم کے دنوں میں دہلی کی شاہجہانی جامع مسجد کے منبر سے کی تھی اور ہجرت کررہے مسلمانوں کے قافلوں کو ہزار واسطے دے کر روکنا چاہا تھا۔ اس تقریر کی بازگشت آج بھی سنائی دیتی ہے۔انھوں نے کہا تھا”تمہیں یاد ہے، میں نے تمہیں پکارا، تم نے میری زبان کاٹ لی،میں نے قلم اٹھایا اور تم نے میرے ہاتھ قلم کردئیے۔ میں نے چلنا چاہا، تم نے میرے پاؤں کاٹ دئیے۔میں نے کروٹ لینی چاہی، تم نے میری کمرتوڑ دی۔نتیجہ معلوم ہے کہ آج ان ہی خطروں نے تمہیں گھیر لیا ہے جن کا اندیشہ تمہیں صراط مستقیم سے دور لے گیا تھا۔“

You may also like