Home سفرنامہ جھارکھنڈ کا دس روزہ سفر: بدرالاسلام قاسمی

جھارکھنڈ کا دس روزہ سفر: بدرالاسلام قاسمی

by قندیل

استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند

(دوسری قسط)

مدھوپور ضلع دیوگھر کے تحت ایک قصبہ ہے، اسے چھوٹا موٹا شہر بھی کہا جا سکتا ہے کہ اب تقریباً تمام سہولیات و ضروریات یہاں فراہم ہیں. وکی پیڈیا کے مطابق یہاں کی مٹھائیاں مشہور ہیں، چونکہ جغرافیائی اعتبار سے بنگال سے قرب حاصل ہے اس لیے وہاں کی مٹھائیوں کی تمام اقسام یہاں دستیاب ہوتی ہیں، رس گلّے کو مِشٹھی کہا جاتا ہے جو خالص بنگالی لفظ ہے، قرب مکانی کا یہ اثر مٹھائی تک محدود نہیں بلکہ تہذیب و معاشرت اور زبان پر بھی اس کا واضح اثر نظر آتا ہے. مدھوپور کی آبادی قریب 60 ہزار ہے، ہندی مسلمانوں کے تینوں مشہور مسالک : دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث سے وابستہ افراد یہاں بستے ہیں، شہر بھر میں 20 سے زائد مساجد ہیں، راقم کی ہمشیرہ کا گھر جس علاقے میں واقع ہے یہ گھر آج سے تقریباً بیس سال قبل جب تعمیر ہوا تھا تو یہاں آس پاس کوئی خاص رونق نہ تھی، اذان کی آواز تک سنائی نہ دیتی، لیکن کچھ سالوں قبل گھر کے بالکل قریب "مسجد بلال” تعمیر ہوئی جس سے وہاں کی ایمانی رونق میں کافی اضافہ ہو گیا ہے، لوگوں کی آمد و رفت، تبلیغی جماعت کی محنت اور مقامی افراد کی سرکردگی نے علاقے کو بارونق بنا دیا ہے. فللہ الحمد

خیر! بات کہیں اور جا نکلی، ہمیں مدھوپور سے راجہ بھیٹا کا رخ کرنا تھا، معاشرہ میں اس کا رواج اور چلن ہے کہ مہمان کچھ نہ کچھ کھانے کا سامان لاتے ہیں جو عموماً مٹھائی کی شکل میں ہوتا ہے، یہ رواج اچھا بھی ہے کہ اس سے گھر کے بچوں کی خوشیوں میں اضافہ ہوتا ہے، میں ماموں زاد بھائی عزیزم حافظ عامر سبحانی (ان کا تعارف آگے آئے گا) کے ساتھ مدھوپور کی مشہور مٹھائی کی دکان "چاندنی سویٹس” پہنچا، یہ دکان دیکھنے میں زیادہ بڑی نہیں لیکن صبح سے شام تک خریداروں کا تسلسل قابلِ دید، وجہ تازہ مٹھائی اور عمدہ ذائقہ. میں نے گھر کے لیے وہاں کی مشہور مٹھائی لی، جس کو یہاں چَھینا مُرکھی کہا جاتا ہے، اس کی وجہ تسمیہ میرے علم میں نہیں، یہ مٹھائی….. رنگ کی ہوتی ہے اور شکل تقریباً مربع، مٹھائی لے کر ہم سرعت رفتار کے ساتھ روانہ ہوئے، یہاں کے اہم راستے کافی عمدہ ہیں، لیکن گاؤں کی سڑکیں سیاسی قائدین کی بے توجہی پر ماتم کناں. سالوں پہلے نیوزی لینڈ کرکٹ ٹیم انڈیا کے دورہ پر تھی تو ان کے مشہور بلے باز (غالباً) ناتھن ایسٹل سے انٹرویو میں معلوم کیا گیا تھا کہ انھیں انڈیا میں سب سے زیادہ تعجب خیز اور دلچسپ بات کیا لگی؟ تو انھوں نے کہا تھا کہ میں نے یہاں کی عام سڑکوں پر گائے چلتے دیکھی، یہ واقعی عجیب ہے. کاش کہ ناتھن ایسٹل جھارکھنڈ کی ان سڑکوں سے بھی گزرتے جہاں اس وقت ہماری بائیک چہارجانب سے گائے اور بیل کے جھنڈ میں پھنسی ہوئی ہے اور حافظ عامر (ڈرائیور) بڑی مہارت کے ساتھ یہ مشکل مرحلہ عبور کر رہے ہیں، واضح رہے کہ یہاں کے مویشی یوپی و پنجاب کے مقابلے میں عام طور پر سائز میں کافی چھوٹے ہوتے ہیں، اس لیے بائیک ان کے عین درمیان میں ہونے کے باوجود راقم کسی حادثے کے خدشے سے مامون ہے.

مدھوپور سے گاؤں جاتے وقت رستے میں بہت سے "موڑ” آئے، شاید آپ کو حیرت ہو کہ موڑ کو الگ سے کیوں ذکر کیا گیا، دراصل "موڑ” یہاں پر ایک اصطلاح بن چکی ہے، وہ جگہیں جو شاہ راہ عام پر کچھ دکانوں اور ہلکے پھلکے بازار پر مشتمل ہوں انھیں یہاں موڑ کہا جاتا ہے، زمانے کی ترقیات اور لوگوں کی بڑھتی ضروریات نے اس طرح کے موڑ میں کافی اضافہ کیا ہے، اس کا مثبت پہلو لوگوں کی ضرورت کی تکمیل اور چھوٹے موٹے روزگار کی فراہمی ہے، البتہ اس سے ہفتہ واری "ہاٹ” کی اہمیت کم ہو گئی ہے، اگرچہ "ہاٹ” اور "ہَٹیا” کا رواج کچھ حد تک باقی ہے، اس کا نظام کچھ یوں تھا کہ ہفتے کے ساتوں دن الگ الگ گاؤں میں بازار لگتا، جس میں لوگ اپنی ضرورت کا سامان لیتے، بازار بڑا ہو تو ہاٹ اور چھوٹا ہو تو ہَٹیا کہلاتا ہے، ہاٹ کا یہ نظام فاصلے فاصلے پر بدلتا رہتا، اگرچہ اس کی رونق اب کافی مدھم ہو چکی اور ہاٹ کی ضرورت موڑ سے پوری ہو رہی ہے، بلکہ اب تو گاؤں دیہات تک آن لائن شاپنگ والے سہولت دے رہے ہیں.

بات پھر دور تک پہنچی! میں اور عامر تقریباً دو بجے راجہ بھیٹا پہنچے، ہماری یہ آمد اہل خانہ کے لیے غیر متوقع تھی کہ ان کے گمان کے مطابق مجھے بھی والدہ کے ساتھ ڈائریکٹ مقام تقریب "پھلجھریا” پہنچنا تھا، لیکن میں نے اولاً اپنے آبائی مکان، والد گرامی حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ کی جائے پیدائش اور ان کے محبوب مسکن پر سردست کچھ دیر کی حاضری ضروری سمجھی.
گھر پر موجود ہماری خالہ اور چچا سے دعا سلام ہوئی، واضح رہے کہ راقم کی خالہ، چچی اور خوش دامن تینوں ایک ہی خاتون ہیں، گھریلو کاموں میں نہایت ماہر، دادی اور نانی بننے کے باوجود تمام امورِ خانہ داری نبھانے کے لیے ہمہ وقت تیار، چچا عصری تعلیم یافتہ، ان کی بنیادی مصروفیات کھیتی باڑی اور کچھ سیاسی بھی.

وہاں سے رخصت ہوئے تو رستے میں چھوٹے چچا اور چچی سے ملاقات، یہ چچا محنت و مزدوری اور کھیتی باڑی میں مصروف رہتے ہیں. دادا اور نانا بننے کے باوجود محنت کے کام سے جی نہیں چراتے.

انھیں وداع کہہ کر ننیہال "پھلجھریا” پہنچے، راجہ بھیٹا سے اس کی مسافت 11/12 کیلو میٹر ہے، یہ گاؤں ضلع گریڈیہہ کے تحت آتا ہے، مسلک اہل حدیث سے وابستہ افراد کی یہ مختصر سی بستی کامیاب عصری تعلیم یافتگان کے حوالے سے شہرت رکھتی ہے، جن میں سے کچھ کا تعارف آگے آئے گا. ان شاء اللہ

"دارِ خلیل” شامیانوں اور مہمانوں کی کثرت سے کافی پُر رونق محسوس ہو رہا تھا. محمد خلیل راقم کے نانا کا نام ہے، گھر کے صدر دروازے پر "دارِ خلیل” کا کتبہ اسی نسبت کا مظہر ہے، نہایت محنتی و جفا کش اور تادم حیات اپنے اہل و عیال کے لیے سرگرم، کثیر الاولاد، 8 بیٹیاں اور 2 بیٹے.

گھر پہنچ کر کھانا کھایا، سادے چاول اور وافر مقدار میں گوشت، یہاں کے مسالوں کا اثر ہے یا پکانے کے انداز میں تفاوت کہ یوپی اور یہاں کے گوشت کا ذائقہ کافی الگ ہوتا ہے، البتہ دونوں اپنی اپنی جگہ پر شاندار لگتے ہیں.

کھانے سے فارغ ہو کر نانی سے ملاقات کی، جو کافی دنوں سے سے بیمار ہیں، گزشتہ قسط میں راقم نے ذکر کیا تھا کہ وہ عمر کے اس مرحلے میں ہیں کہ ان کی نواسی بھی نانی بن چکی ہیں. بیماری اور فطری ضعف کے باوجود ان کے ہوش و حواس بالکل سلامت ہیں، آنے جانے والوں کو فوراً پہچان لیتی ہیں اور حسب حیثیت گفتگو کرتی ہیں. اس کے بعد تو ملاقات کا ایک سلسلہ شروع ہوا، کئی خالائیں، خالو، ماموں، ان کے فرزند اور متعلقین.

محسوس ہوا کہ یہ شادیاں دراصل رشتے داروں سے ملاقات کا بہت اہم ذریعہ ہیں، اس دوڑتی بھاگتی زندگی میں جہاں ہمارے پاس خود اپنے لیے بھی وقت نکالنا مشکل ہوتا ہے ایسے میں دور دراز میں بسے رشتے داروں اور مخلصین سے اجتماعی ملاقات تو ناممکن سی لگتی ہے، لیکن اس طرح کی تقریبات ہمیں ملاقات کا ایک بہانہ دیتی ہیں. بعض رشتے داروں سے ملاقات کو اتنا وقت گزر چکا تھا کہ کہیں مجھے ان کو پہچاننے میں دشواری ہوئی تو کہیں اپنا بھی تعارف کرانا پڑا. جب خاندان اتنا بڑا ہو تو انتظامات بھی اسی حساب سے کرنے ہوتے ہیں. ہمارے دونوں ماموں اس حوالے سے بھی بہت قابلِ تعریف ہیں کہ یہ تعلقات نبھاتے ہیں اور ان کے لیے ہر ممکن تعاون کے لئے بھی ہمہ وقت تیار رہتے ہیں. یہ تقریب چھوٹے ماموں جناب محمد اظہار صاحب کی بڑی بیٹی کے نکاح کی ہے، جو اپنے چچازاد چچا کے بیٹے کے ساتھ کل رشتہ ازدواج میں منسلک ہونے جا رہی ہیں. ظاہر ہے کہ جب اہل خانہ کا دائرہ ہی ماشاءاللہ اتنا وسیع ہو اور متعلقین در متعلقین اس پر مستزاد ہوں تو تقریب کا انتظام و اہتمام اسی کے شایان شان کرنا ہوتا ہے جو یہاں دیکھنے کو ملا.
مغرب کی نماز کے لئے گاؤں کی مسجد میں جانا ہوا جو کچھ سالوں قبل تعمیر ہوئی ہے، اس سے پہلے والی مسجد گاؤں کی بڑھتی آبادی کے لحاظ سے ناکافی ہو رہی تھی، اس عمارت میں اب غالباً مکتب کا نظام قائم ہے، نو تعمیر شدہ مسجد کافی وسیع و عریض ہے، میرے خیال میں آئندہ کئی نسلوں کے لیے کافی. ذکر کر چکا ہوں کہ یہ بستی مسلک اہل حدیث سے وابستہ ہے، اس لیے مسجد میں اوپر کی جانب خواتین کی جائے عبادت مخصوص کر دی گئی ہے، مسجد میں اہل حدیث طبقے کے مرکزی ادارے "الجامعۃ السلفیہ بنارس” کا کیلنڈر بھی آویزاں ہے، مزاج فہم نو وارد کے لیے یہ ایک خفی سا اشارہ بھی ہو سکتا ہے. خیر! مغرب کی اذان ہوئی اور اذان کے معاً بعد مسجد میں موجود مقتدیوں نے اپنے مسلک کے مطابق دو رکعت نفل ادا کی، پھر فرض باجماعت ادا کیے گئے، راقم کے لیے یہ ایک نیا تجربہ تھا، لیکن اس مسئلے سے واقفیت تھی تو زیادہ حیرانی نہ ہوئی.

رات میں روٹی، پوری اور سبزی ضیافت کے لیے تیار تھی، عشا کی نماز کے بعد سونے کی جگہ بیٹھک میں ملی، یہی بیٹھک دراصل ہمارے بڑے ماموں جناب محمد یوسف صاحب کا آفس ہے، وہ راقم کے ہوش سنبھالنے سے پہلے سے ہی برانچ پوسٹ ماسٹر ہیں، اسی آفس میں وہ ڈاک کی آمد و رفت کا پورا نظام دیکھتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر یہی آفس بیٹھک میں تبدیل ہو جاتا ہے. سفر کی تکان ایسی تھی کہ بستر پر لیٹتے ہی نیند نے اپنی آغوش میں لے لیا.

اگلی صبح یعنی 29 اکتوبر بروز اتوار ہلکے پھلکے ناشتے کے بعد راقم برادرم حافظ محمد عامر کے ساتھ ان کا میدانِ عمل دیکھنے گیا. عامر کا مکمل نام عامر سبحانی ہے اور یہ گھر میں فقط سبحانی کے نام سے زیادہ معروف ہیں، حافظ قرآن ہیں اور مسلک اہل حدیث کے نامور مرکزی ادارے جامعہ سلفیہ بنارس سے فاضل ہیں، معاش کی کسی ایک راہ پر قائم نہیں، کبھی امام، کبھی طفلِ سیاست تو کبھی تعمیری ٹھیکیدار. سردست راقم ان کے ساتھ گھر سے قریب قطعہ اراضی دیکھنے گیا جہاں انھوں نے حال ہی میں آم، ساگوان اور امرود وغیرہ کے پودے لگائے ہیں، انھوں نے بتایا کہ یہ حکومت کی "منریگا” اسکیم کا حصہ ہے، جس کا اجمالی طریقہ کار کچھ یوں ہے کہ آپ اپنی زمین کا متعین حکومتی کارکن سے جائزہ کرائیں، اس کی تصدیق پر حکومت آپ کو ایک لاکھ روپے دے گی تاکہ آپ اس پر پیڑ لگا سکیں، ہر سال حکومت کا نمائندہ جائزہ لے کر تصدیق کرے گا جس کی بنا پر ہر سال ایک لاکھ روپے ملتے ہیں، اس طرح تین سال میں تین لاکھ روپے حکومت کی جانب سے ملتے ہیں تاکہ لوگ اپنی زمینوں پر پیڑ لگائیں، لوگوں کو تازہ ہوا میسر ہو اور فضا مزید بہتر ہو سکے.

تقریباً دس بجے راقم چچازاد بھائی محمد الطاف کے ساتھ 7/8 کیلو میٹر کے فاصلے پر واقع "مونگیا مارنی” نامی گاؤں پہنچا جہاں والد مرحوم کے عزیز دوست اور ہمارے مشفق محترم جناب مفتی قمر الزماں قاسمی کی رہائش گاہ ہے، اطلاع ملی تھی کہ دو دن قبل موصوف کسی سڑک حادثے میں زخمی ہو گئے، یہ سفر ان کی عیادت کے لئے تھا. یہ علاقے کے ایک نامور عالم دین ہیں، عوامی معاملات کی کافی سمجھ رکھتے ہیں، نیز مصالحت و مشاورت میں ان کی رائے کافی مناسب ہوتی ہے.
ان سے ملاقات ہوئی، مدھوپور سے واپسی پر موٹرسائیکل کو کسی بے قابو فور وہیلر نے زد پہنچائی اور وہ زخمی ہو گئے، اللہ کا بے حد کرم رہا کہ تمام اعضاء سلامت رہے، بس اوپری زخم ہیں جن پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں.
دوران گفتگو والد مرحوم کا ذکر آیا، انھوں نے بھی پرانی یادیں تازہ کیں اور بتایا کہ تکمیل افتاء سے فراغت کے بعد وہ دیوبند میں ہی تھے کہ قضیہ دارالعلوم پیش آیا.
ان کے بڑے لڑکے حافظ فرید الزماں سے ملاقات ہوئی، یہ میرے زمانہ حفظ کے رفیق ہیں، مدرسہ ناشر العلوم پانڈولی، ضلع سہارنپور میں ہم دونوں ساتھ ہی داخل ہوئے تھے، بعد میں یہ عربی دوم تک معھد الانور میں زیر تعلیم رہے، لیکن گھریلو ذمہ داریوں اور کچھ مسائل کے سبب تعلیمی سلسلہ منقطع ہو گیا، تاہم عمدہ صلاحیتوں کے مالک ہیں، گرافکس ڈیزائننگ کو اپنا شوق اور ذریعہ معاش بنا کر آگے بڑھ رہے ہیں، فی الحال جامتاڑا کے کسی سرکاری محکمے میں ملازم ہیں اور استقلال کے لیے کوشاں ہیں. یہی وہ فرید الزماں ہیں جو "نغمات حسنہ” کی ترتیب میں راقم کے ساتھ شریک رہے ہیں.

دوپہر کا کھانا کھا کر پھلجھریا واپسی ہوئی، شادی کی تیاریاں آخری مراحل میں ہیں، سب ہمہ تن مصروف اور اس تقریب کو کسی بھی قسم کے نقص سے محفوظ رکھنے کے لیے سرگرم.

عصر کے بعد مقامی ایم ایل اے جناب سرفراز انصاری اپنے قافلے کے ساتھ شادی کی مبارک باد دینے پہنچے، یہ شاید انھیں رستوں سے گزر کر آئے ہوں گے جو ان کے عہد حکومت میں اپنی بدحالی پر گریہ کناں ہیں.

میں مغرب سے پہلے گاؤں کے دو تالابوں کی جانب نکلا، کھلی فضا، روح و جسم کو تازگی بخشنے والے سر سبز و شاداب مناظر اور غروب آفتاب سے قبل کا شاندار نظارہ، اس کیفیت کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا.

مغرب بعد مہمانوں کی آمد شروع ہوگئی، بچے شادی کی آرائش اور رنگین قمقموں سے نہایت خوش تھے، جب کہ بڑے بھی ان مناظر سے محظوظ ہو رہے تھے. مقامی افراد کو پہلے کھانے سے فارغ کر دیا گیا. اس تقریب میں نہایت اہم افراد سے ملاقاتیں ہوئیں، مثلاً

محترم جناب مولانا عبد الستار صاحب : میرے لیے ان سے ملاقات سب سے اہم رہی کہ یہ میری والدہ کے استاذ ہیں اور آج سے تقریباً 48/49 سال قبل راقم کے والدین کا نکاح انھوں نے ہی پڑھایا تھا، یہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی.

محترم جناب مولانا محمد ہارون مظاہری ندوی : یہ بھی علاقے کے ایک بزرگ عالم دین ہیں، دیوبند سے قریب مدرسہ خادم العلوم باغوں والی میں مشکاۃ تک تعلیم حاصل کی، مظاہر علوم سے فارغ ہوئے اور ندوہ سے تکمیل ادب کیا. یہ 1980 کے آس پاس کی بات ہے. والد مرحوم سے ان کے دیرینہ تعلقات تھے، اس لیے انھوں نے والد مرحوم سے متعلق سوانحی و تاثراتی مضمون تحریر کرنے کی میری درخواست قبول کر لی.

محترم جناب مولانا محمد آفتاب ندوی صاحب : ضلع دھنباد میں طالبات کے ایک مرکزی اور نیک نام ادارہ "جامعہ ام سلمیٰ” کے ناظم اور روح رواں، ان کے والد گرامی سے کافی عمدہ تعلقات تھے اور والد گرامی بھی ان کی خدمات کے معترف.

برادر مکرم مولانا محمد فہیم قاسمی : میرے خالہ زاد بھائی ہیں، یہ دارالعلوم دیوبند سے کچھ سالوں قبل فارغ ہوئے، شعبۂ تکمیل علوم کرکے جواہر لال نہرو یونیورسٹی دہلی سے بی اے، ایم اے کیا، صالحیت کے اعتبار سے صالح پہلے سے تھے، اس طرح جہد مسلسل نے انھیں صلاحیت کے اعتبار سے بھی صالح بنا دیا. سردست حیدرآباد میں بر سر ملازمت ہیں.

9 بجے کے قریب بارات پہنچی، یہاں کے رواج کے مطابق تمام باراتیوں کو پیکٹ میں ناشتہ دیا گیا، اس میں ہلکی پھلکی چیزیں ہوتی ہیں، مٹھائی، نمکین، بسکٹ، ڈرائی فروٹس وغیرہ

ناشتے سے فارغ ہو کر تقریب نکاح منعقد ہوئی، دھنباد سے پہلے ایک جگہ ہے "مہاراج گنج” وہاں کے مدرسہ کے مہتمم حضرت مولانا عبد الحیی صاحب نے نکاح پڑھایا اور خطبہ نکاح کے بعد آیات خطبہ کی مختصر تشریح بھی کی، یہ ایک اچھا طریقہ معلوم ہوا کہ عوام کو موقع کی مناسبت سے حقوق زوجین کی اہمیت مختصر انداز میں یاد دلا دی جائے.

واضح رہے کہ راقم کے چچا زاد ماموں جہاں سے یہ بارات آئی ہے وہ مسلک دیوبند پر عمل پیرا ہیں، جب کہ دلہن اور اس کے اہل خانہ مسلک اہل حدیث سے وابستہ، اس علاقے میں یہ عام بات ہے، مسالک تو ہیں لیکن ایک دوسرے کی تحقیر یا تکفیر کا زہر نہیں ہے، سب اپنے مسالک پر عمل پیرا ہیں، اکّا دکّا واقعات مسلکی منافرت کے ہو سکتے ہیں لیکن مجموعی اعتبار سے مسلکی تعصب اور تحقیر و تکفیر کا یہ زہر راقم کو لوگوں کی فکر پر غالب نظر نہیں آیا.

نکاح کے معاً بعد ایک خوبصورت سا پیکٹ تمام حضرات کے درمیان تقسیم ہوا جس میں نکاح کے چھوارے وغیرہ موجود تھے.

بارات پنڈال میں کھانے کے لیے پہنچی اور راقم سونے کے لیے مہمانوں سے لبریز گھر میں جگہ کی تلاش میں، جگہ ملی اور سکون سے محو خواب!!!

فجر بعد ناشتہ ہوا اور دلہن نم آنکھوں کے ساتھ رخصت ہوئی. دلہن کے والد، میرے چھوٹے ماموں اپنے لخت جگر کی وداعی کے وقت اتنے زیادہ حساس اور جذباتی تھے کہ اسے دلاسہ دینے قریب تک نہ جا سکے. دلہن کی وداعی کے کچھ دیر بعد راقم نے انھیں تنہا ایک کونے میں آنسو پونچھتے پایا.
اللہ انھیں صبر دے اور اس شادی کو اپنی رحمتوں سے باہمی تعلقات کی مضبوطی کا سبب بنائے. آمین

دوسری قسط مکمل ہوئی ۔
اگلی قسط میں کچھ مقامی مدرسوں کا ذکر ، ان شاء اللہ

You may also like