Home سفرنامہ "جھارکھنڈ” کا دس روزہ سفر: بدرالاسلام قاسمی

"جھارکھنڈ” کا دس روزہ سفر: بدرالاسلام قاسمی

by قندیل

استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند

(قسط اول)

فقہائے کرام نے وطن کی متعدد قسمیں کی ہیں : وطن اصلی، وطن اقامت، وطن سکنی. پھر ہر قسم کے فقہی احکامات بھی ذکر کیے ہیں. اس میں ایک مشہور مسئلہ ہے کہ وطن اصلی وطن اصلی سے باطل ہو جاتا ہے. یعنی اگر کوئی شخص ایک جگہ کو چھوڑ کر مکمل طور پر دوسری جگہ منتقل ہو جائے تو پہلے والی جگہ پر وطن اصلی کے احکامات جاری نہیں ہوں گے، لیکن بعض لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دونوں مقامات پر اپنی آمد و رفت کا سلسلہ رکھتے ہیں، ایک جگہ معاش تو دوسری جگہ پر کھیتی باڑی، ایک جگہ تعلیم و تعلم تو دوسری جگہ دیگر عائلی ضروریات کی تکمیل. راقم بھی انھیں خوش نصیب افراد میں سے ہے جس نے ہمیشہ دو وطن اصلی دیکھے، بہار (موجودہ جھارکھنڈ) کا ایک پس ماندہ لیکن پر سکون گاؤں "راجہ بھیٹا” اور گہوارۂ علم و ہنر، شہ پارۂ تاریخ "دیوبند”. فللہ الحمد

والد گرامی (حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ، استاذ دارالعلوم وقف دیوبند) نے اگرچہ دیوبند میں اپنی زندگی کا نصف صدی سے زیادہ حصہ گزارا، وہاں حصول علم کے مراحل طے کیے، مادر علمی کی خدمت کی، دارالعلوم وقف کے روز اول سے تا دم آخر ایک وفا دار، وفا شعار اور جاں نثار رکن اساسی رہے، ہزارہا تلامذہ کو فیض یاب کیا، مخلص احباب کے ساتھ ہر خوشی و غم کے موقع پر شانہ بشانہ رہے، ان کی دل سے قدر افزائی کی، سر زمین دیوبند کے تاحیات ممنون رہے، تاہم ان سب کے باوجود انھیں اپنے وطن مالوف سے قلبی محبت تھی، وہاں کی کچی گلیاں انھیں کسی ترقی یافتہ ملک کی شاہراہ اعظم سے بھی زیادہ عزیز تھیں، گاؤں کے خود رو پودے اور ان پر اگنے والے سادہ سے پھول انھیں ہر قسم کے اعلی گلاب سے زیادہ پرکشش معلوم ہوتے، وہاں کے اوبڑ کھابڑ چھوٹے چھوٹے کھیت انھیں دوسری جگہوں کے بالکل ہموار وسیع و عریض قطعہ اراضی سے زیادہ بھلے لگتے تھے، مقامی زبان سے انھیں اتنی ہی محبت اور مہارت تھی جتنی اردو وغیرہ سے، اسی لیے وہ ہر سال اپنے آبائی وطن کا سفر ضرور کرتے، بلکہ عمر کے آخری دس پندرہ سالوں میں یہ سفر ہر سال دو تین بار یا اس سے زائد بھی ہو جاتا اور وقتا فوقتاً یہ ارشاد فرماتے : بیٹے! اپنی اصل کو کبھی بھولنا نہیں چاہیے.

آج مؤرخہ 27 اکتوبر 2023ء بروز جمعہ راقم اپنی والدہ محترمہ کے ساتھ سوئے وطن روانہ ہے تو ذہن میں بار بار والد گرامی کا خیال آتا ہے، ان کی بے پناہ محبت و شفقت، وہ بے لوث تعلق، تربیتی تنبیہات، راقم کی چھوٹی چھوٹی کامیابی پر بھرپور حوصلہ افزائی اور ان کا وہ کِھلتا چہرہ! یہ سب میرے سامنے ہے. کوشش یہی ہے کہ ان کی زیر ترتیب سوانح حیات میں تمام گوشہائے حیات کا احاطہ ہو جائے. و باللہ التوفیق.

ان کی وفات کو ایک سو تیس دن گزرے تو والدہ کی عدت مکمل ہوئی، گھر سے تقاضا ہوا کہ راقم کی نانی چوں کہ کچھ ماہ سے کافی بیمار ہیں، نیز 29 اکتوبر کو چھوٹے ماموں کی بیٹی کا نکاح ہے، اس لیے انھیں عدت کی تکمیل کے دو دن بعد محو سفر ہونا پڑا. واضح رہے کہ راقم کی نانی عمر کے اس مرحلے میں ہیں کہ ان کی نواسی بھی نانی بن چکی ہیں.

ہم صبح ساڑھے نو بجے دیوبند سے سہارنپور بذریعہ کار روزانہ ہوئے، ساتھ میں چچازاد بھائی مولوی اظہر (متعلم جلالین شریف، جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند) اور عزیزم امین الاسلام تھے، حسب سابق بھائی ماجد ڈرائیونگ سیٹ پر! ان کا مختصر تعارف :
فخر المحدثین حضرت مولانا سید محمد انظر شاہ کشمیری علیہ الرحمہ کے گھرانے سے ان کا پورا خانوادہ بایں طور مربوط ہے کہ ان کے بڑے بھائی عابد خان صاحب شاہ صاحب علیہ الرحمہ کے خاص ڈرائیور، گھر کے ایک فرد کی طرح قابل اعتماد، متحرک و فعال، اپنی سرعت رفتار کے لئے مشہور، شاہ صاحب کی وفات کے بعد ان کے فرزند حضرت مولانا سید احمد خضر شاہ صاحب مد ظلہ سے اسی انداز کا تعلق.
ان سے چھوٹے بھائی عبد اللہ خان صاحب دارالعلوم وقف میں ایک طویل عرصے سے ملازم اور کام وہی ڈراییونگ کا.
سب سے چھوٹے ہیں ماجد بھائی، ان سے ہمارا ایک خاص تعلق بایں معنی ہے کہ والد گرامی کا سفر انھیں کے ساتھ ہوتا، دہلی، سہارنپور، میرٹھ وغیرہ کہیں بھی جانا ہو تو ماجد بھائی ساتھ، یہ بھی بڑے جفاکش، قناعت پسند اور محنتی ہیں، نماز کے پابند، بلکہ قصر کے مسائل سے بھی واقف، شاہ صاحب علیہ الرحمہ نے جب معھد الانور دیوبند قائم کیا تو ماجد بھائی وہیں پر ملازم تھے، بعد میں دارالعلوم وقف سے وابستہ ہو گئے. امانت داری کے ساتھ مکمل ڈیوٹی کرتے ہیں اور خارجی اوقات میں کار چلاتے ہیں، بیشتر علماء سے مربوط اور ان کے مزاج سے واقف. والد گرامی کی علالت کے زمانے میں بھی انھوں نے ہمارا کافی ساتھ دیا. اللہ انھیں بہترین بدلہ عطا فرمائے. آمین

تقریباً ایک گھنٹہ میں ہم سہارنپور اسٹیشن پر تھے، شادی سامنے اور تعلقات وسیع ہوں تو سامان زیادہ ہو ہی جاتا ہے، ایسے میں قُلی کی ضرورت پڑی، معاملہ طے ہوا اور ہم پلیٹ فارم نمبر 4 پر پہنچے.

راقم کا بڑا بیٹا امین الاسلام (متعلم شعبۂ حفظ، دارالعلوم وقف دیوبند) اپنے والد اور دادی کو رخصت کرنے آیا تھا، اسے ریلوے اسٹیشن کے بارے میں کچھ باتیں اور اصطلاحات سمجھائیں.

ہمارا ٹکٹ اکال تخت ایکسپریس سے ہے، یہ ٹرین امرتسر سے سیالدہ (کلکتہ) جاتی ہے، جھارکھنڈ جانے کے لیے یہ ہمارے پورے گھر کی پسندیدہ ٹرین ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ اس کی ٹائمنگ ہے، سہارنپور میں ساڑھے گیارہ بجے روانہ ہوں اور اگلے دن دس گیارہ کے درمیان منزل (مدھوپور اسٹیشن) پر پہنچ جائیں. بچپن کی کچھ یادیں محفوظ ہیں کہ والد گرامی کے ساتھ ہم دہلی سے پوروا ایکسپریس سے گھر جاتے تھے، اس کے لیے ہمیں دو سفر کرنے ہوتے، ایک دیوبند تا دہلی اور دوسرا دہلی تا مدھوپور. سہارنپور سے ٹرین تو اس وقت بھی تھیں تاہم ان کی ٹائمنگ سیٹ نہیں ہوتی تھی، کوئی رات میں بارہ بجے کے آس پاس تھی جس میں دو راتیں ضائع ہوتیں، جب کہ بعض صبح سویرے تھیں، اس کے لیے دیوبند سے صبح تڑکے بہت جلد بازی میں نکلنا ہوتا تھا. اس لیے جب سے اکال تخت ایکسپریس شروع ہوئی والد گرامی اسی سے سفر پسند کرتے تھے.

ٹرین اپنے وقت پر پہنچی، تھوڑی سی دوڑ بھاگ کے بعد ہم بسہولت اپنے کوچ B1 میں تھے، سامان سیٹ کیا اور چین کا سانس لیا، مولوی اظہر اور امین الاسلام کو رخصت کر کے اپنی سیٹ پر بیٹھے، ارد گرد کچھ نو عمر برادرانِ وطن ہیں جو پٹنہ تک ساتھ رہیں گے.

ٹی ٹی کے نظام میں یہ تبدیلی نظر آئی کہ اب ان کے ہاتھ میں لمبے چوڑے چارٹ کے بجائے بس ایک ٹیبلیٹ تھا جس میں وہ مسافروں کا اندراج کر رہے تھے، یہ ایک اچھی تبدیلی ہے، وقت کی بچت اور ٹیکنالوجی کا درست استعمال.

ٹرین اپنے متعینہ روٹ پر مرادآباد اور بریلی ہوتے ہوئے رات ساڑھے آٹھ بجے کے قریب لکھنؤ پہنچی اور اب مسافرین سونے کی تیاری کرنے لگے.

صبح سویرے تقریباً ساڑھے پانچ بجے ٹرین پٹنہ پہنچی اور ہمارا کیبن تقریباً خالی ہو گیا، اس کے بعد موکامہ اور کیول سے گزر ہوا، کمی تھی تو ایک عدد کلہڑ والی چائے کی جس کا مجھے اور والدہ کو بڑا انتظار تھا. اچانک صدا آئی: "خراب چائے پیجیے” یہ در اصل صدائے کشش ہے، اور ایک کاروباری پیغام بھی کہ آپ کے سامان کا نام سامع کو پُر کشش لگنا چاہیے، ایک مرتبہ توجہ ہوئی تو پروڈکٹ فروختگی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں.
اس روٹ پر کھانے پینے کی چیزیں اسی طرح ملتی ہیں، "رام پیاری چائے”، "جھال مُڑی” اور "اَنکور والا چنا” کافی پسند کیے جاتے ہیں.

جھاجھا(بہار) اور جسیڈیہہ (جھارکھنڈ) ہوتے ہوئے ہم دس بجے مدھوپور پہنچے.

ہمارا اسٹیشن یہی ہے، یہاں سے آبائی گاؤں راجہ بھیٹا تقریباً پچیس کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، گاؤں کے ارد گرد تین بڑے ریلوے اسٹیشن ہیں : 1. مدھوپور
2. دھنباد، یہ گاؤں سے تقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے.
3. آسنسول، یہ مدھوپور سے تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر صوبہ بنگال میں واقع ہے، اس سے واضح ہو گیا کہ ہمارا ضلع "جامتاڑا” جھارکھنڈ کی سرحد پر ہے جس کے کچھ ہی فاصلے پر بنگال ہے، جب کہ کچھ پہلے ہم بہار (جھاجھا) کو الوداع کہتے ہیں.

راقم کی بڑی ہم شیرہ مدھوپور میں ہی رہتی ہیں جن کے شوہر احمد علی قاسمی کورونا کے تباہ کن عہد میں داغ مفارقت دے گئے تھے، ان کا کچھ تفصیلی تذکرہ والد گرامی کی زیر ترتیب سوانح میں شامل ہوگا. ان شاء اللہ

پہلی قسط مکمل ہوئی. اگلی قسط میں مدھوپور، آبائی گاؤں، ننیہال، اور شادی کی کچھ تفصیلات وغیرہ کا ذکر کیا جائے گا ۔ ان شاء اللہ

You may also like