Home سفرنامہ محبتوں کے جزیرے میں-محمد رضی الاسلام ندوی

محبتوں کے جزیرے میں-محمد رضی الاسلام ندوی

by قندیل

(مالیرکوٹلہ میں دو دن)

صبح چار بجے مالیرکوٹلہ ریلوے اسٹیشن پر قدم رکھا تو زبردست کہرا تھا – صرف اکا دکا مسافر اترے – سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کدھر جاؤں کہ اچانک آواز آئی” مولانا ! السلام عليكم – “ – دیکھا تو بھائی کالے خاں لپکے چلے آرہے تھے – ان سے معانقہ کرکے اطمینان ہوا – میں نے معذرت کی کہ میرے اس وقت آنے کی وجہ سے آپ کو اتنی زحمت ہوئی – کہنے لگے : ” آپ کا استقبال کرکے خوشی ہوئی ، زحمت نہیں – “

مالیرکوٹلہ ہندوستان کی ریاست پنجاب کا ایک ضلع ہے – تقسیمِ ہند کے موقع پر پنجاب کو بہت زیادہ کشت و خون دیکھنا پڑا تھا – اس کے دو ٹکڑے ہوگئے – دونوں طرف کے لوگوں کو ہجرت کے تلخ گھونٹ پینے پڑے – زبردست تباہی و غارت گری ہوئی – ہزاروں بے گناہ مردوں ، عورتوں اور بچوں کا قتل ہوا ، لیکن مالیرکوٹلہ کے نواب کی حکمت عملی کی وجہ سے وہ اس بربادی سے محفوظ رہا – چنانچہ جب پورا پنجاب مسلمانوں سے تقریباً خالی ہوگیا تھا تب یہاں کے مسلمانوں پر آنچ نہیں آئی – آج کل ان کی آبادی تقریباً 80 % ہے اور ان کی علمی ، ادبی اور سماجی سرگرمیاں جاری ہیں – میری عرصہ سے خواہش تھی کہ مالیرکوٹلہ کا سفر کروں – امیر حلقہ محترم ماسٹر محمد نذیر نے دو دن کے متعدد پروگرام ترتیب دے کر دعوت دی تو میں بہ خوشی تیار ہوگیا –

دفتر پہنچا تو وہاں مولانا حافظ افتخار احمد نے استقبال کیا – وہ میرے شناسا نکلے – سیتاپور کے رہنے والے ہیں – کچھ عرصے سے دفتر حلقہ پنجاب میں ہیں – پھر تو علاقائی نسبت سے انھوں نے اپنی محبتیں نچھاور کیں اور دو دن کے قیام میں ہر طرح سے آرام پہنچانے کی کوشش کی اور ہر وقت رفاقت بخشی –

ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد ہم نے دو مدرسوں کی زیارت کی – پہلے مدرسہ زینت العلوم پہنچے – اس مدرسے کی تاسیس 3 دہائیوں قبل ہوئی تھی – اس کے بانی مولانا مفتی خلیل قاسمی سے ملاقات ہوئی – وہ صدر جمعیۃ العلماء پنجاب ، صدر حج کمیٹی پنجاب ، قاضی امارت شرعیہ پنجاب اور دیگر ذمے داریوں پر فائز ہیں – مولانا اور ان کے صاحبزادے مفتی یوسف قاسمی تپاک سے ملے – ان کی خدمت میں چند کتابوں کا تحفہ پیش کیا – دوسرے مدرسہ ‘مدرسہ عربیہ حفظ القرآن’ پہنچے تو وہاں کے ناظمِ تعلیمات مفتی عبد الرزاق نے ہمارا استقبال کیا – انھوں نے تمام طلبہ کو جمع کر رکھا تھا – ان سے خطاب کا موقع ملا – مولانا نے بتایا کہ یہ مدرسہ نصف صدی قبل قائم ہوا تھا – یہاں دینی اور عصری دونوں طرح کی تعلیم کا انتظام ہے – اس کے علاوہ ‘مدرسۃ البنات’ کے نام سے اس کی شاخ ہے ، جس میں لڑکیوں کی اعلیٰ دینی تعلیم کا نظم کیا گیا ہے – مولانا نے دعوت دی کہ جماعت کا جب بھی کوئی ذمے دار آئے تو مدرسہ کی زیارت ضرور کروائیں –

سہ پہر میں عالمات اور تعلیم یافتہ خواتین کا پروگرام طے کیا گیا تھا – ہال میں پچاس ساٹھ نشستیں تھیں – لیکن خواتین کی آمد شروع ہوئی تو اس نے رکنے کا نام نہیں لیا – دوسرے مقامات پر مزید انتظام کیا گیا – پورا دفتر بھر گیا – منتظمین نے بتایا کہ شریکات کی تعداد 175 تک پہنچ گئی تھی – راقم نے ان کے سامنے اسلام میں خواتین کے مقام و مرتبہ ، حقوق اور فرائض پر گفتگو کی –

رات میں مالیرکوٹلہ کی سب سے بڑی مسجد میں خطاب عام کا پروگرام طے کیا گیا تھا – اعلان سن کر ماشاء اللہ بہت سے لوگ اکٹھا ہوگئے – پوری مسجد کھچاکھچ بھر گئی – حاضرین کے سامنے موجودہ حالات میں قرآن اور سیرت سے رہ نمائی کے موضوع پر خطاب کیا – ایک چینل نے خطاب کو لائیو دکھایا –

اگلے دن (28 جنوری) بعد نماز فجر جماعت کے ارکان و کارکنان اکٹھے ہوگئے – ان کے ساتھ بہت اچھی نشست رہی – باہمی تعارف کے بعد مختلف دینی ، فقہی اور تحریکی موضوعات پر تبادلۂ خیال ہوا –

ایک اہم پروگرام ، جس کے لیے حاضری ہوئی تھی ، مجلس العلماء کا ریاستی اجلاس تھا – مختلف مکاتبِ فکر کے علماء کو دعوت دی گئی تھی – ماشاء اللہ 60 سے زائد علماء جمع ہوگئے – ان کے سامنے خطاب کا شرف حاصل ہوا – میں نے اصلاح معاشرہ کے لیے فروعی اختلافات کو نظر انداز کرتے ہوئے مل جل کر کام کرنے کی جانب توجہ دلائی اور اس کے لیے منصوبہ بنا کر اسے روٗبہ عمل کرنے کی تلقین کی – میرے خطاب کے بعد کچھ منتخب علماء کو تاثرات پیش کرنے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے اس تجویز کی تائید کی اور جماعت کی سرکردگی میں اس کا نظم قائم کرنے کی خواہش کی –

مالیرکوٹلہ کا دو دن کا سفر بہت مصروف رہا – متعدد کام یاب پروگرام ہوئے – بہت سے احباب سے ملاقاتیں رہیں – رمضان سعید صاحب نے 40 برس پرانی یادیں تازہ کیں – بہت سے لوگوں سے پہلی ملاقات تھی ، لیکن وہ اتنی محبت سے ملے جیسے بہت پرانی شناسائی ہو – بہت سے لوگوں نے کہا کہ ہم سوشل میڈیا پر آپ کی تحریریں عرصہ سے پڑھتے آرہے ہیں – اس سے موجودہ دور میں سوشل میڈیا کی اہمیت کا اندازہ ہوا – یہ چیز خوش آئند ہے کہ جماعت کی دعوت کو مختلف طبقوں میں مقبولیت حاصل ہورہی ہے اور اس کی طرف ان کا رجوع بڑھ رہا ہے – اس سے ہماری ذمے داری مزید بڑھ جاتی ہے –

You may also like