استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند
(چوتھی اور آخری قسط)
"تم نے سوشل میڈیا پر اپنی تصویر کیوں اپلوڈ کی؟”
یہ سوال ایک مخلص دوست نے گزشتہ قسط کے اپلوڈ ہونے پر کیا، جس میں راقم نے دیگر مناظرِ سفر کے ساتھ جھارکھنڈ حکومت کے وزیر جناب حفیظ الحسن صاحب کے ساتھ ملاقات کی ایک تصویر بھی اپلوڈ کر دی تھی۔
یہ سوال ڈجیٹل تصویر کے جواز و عدم جواز کے تناظر میں نہیں تھا، بلکہ کئی سال سے سوشل میڈیا کے استعمال کے باوجود اپنی اس طرح کی واضح تصویر اپلوڈ نہ کرنے کی وجہ سے تھا، دراصل اس تصویر کا بھی ایک پس منظر ہے۔ملاحظہ فرمائیے :
تقریباً بیس سال پرانی بات ہے کہ راقم اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ دہلی ایئرپورٹ پر کسی عزیز کو رخصت یا استقبال کے لئے گیا تھا، دوران انتظار چھوٹی بہن کو پیاس لگی تو ہم پانی کی تلاش میں بھیڑ بھاڑ سے ذرا فاصلے پر نکل آئے، اچانک سامنے لمبے قد کے ایک جوان پر نظر پڑی، ساتھ میں کچھ سکیورٹی گارڈز بھی تھے، یہ اور کوئی نہیں، بلکہ دنیائے کرکٹ کے عظیم گیندباز وسیم اکرم تھے، راقم جھٹ سے ان کی جانب لپکا، سلام و مصافحہ کیا، انھوں نے پوچھا کہ آپ کسی مدرسے کے طالب علم ہیں؟ راقم نے اثبات میں جواب دیا، سوال و جواب کا سلسلہ شاید کچھ اور بڑھتا، اتنے میں پیچھے سے آواز آئی : وسیم بھائی! فلائٹ کا وقت ہو گیا ہے، چنانچہ وسیم بھائی اپنے رستے ہو لیے اور میں انھیں دیکھتا رہ گیا. دیوبند واپسی پر میں نے اپنے حفظ کے ساتھیوں سے یہ بات شیئر کی تو انھوں نے ہرگز یقین نہ کیا، اس وقت کسی بڑی دنیوی شخصیت سے ملاقات کا ثبوت آٹو گراف ہوتا تھا، جو میرے پاس نہیں تھا، اس لیے میں نے اپنے ساتھیوں کو یقین دلانے کی مزید کوشش نہ کی۔
جھارکھنڈ کی سیاست میں حفیظ الحسن صاحب کا نام بہت بلند ہے، اس لیے راقم نے اس مرتبہ بچپن کی وہ غلطی نہ کی اور اس اہم لمحے کو محفوظ کر کے سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دیا۔
مؤرخہ 2 نومبر بروز جمعرات صبح سویرے راقم ننیہال سے اپنے آبائی گاؤں راجہ بھیٹا پہنچا، پختہ ارادہ یہ تھا کہ 9 بجے جھارکھنڈ میں بنات کی عظیم درس گاہ "جامعہ ام سلمیٰ” کے لیے بذریعہ کار نکلنا ہے، لیکن افسوس کہ یہ سفر نہ ہو سکا. راقم کے ساتھ بچپن سے ہی یہ مسئلہ رہا ہے کہ فور وہیلر کے سفر میں قے آنے لگتی ہے، اسی لیے ناگزیر سفر کے دوران راقم کو ہمیشہ اس کے لیے دوا استعمال کرنی ہوتی ہے، گویا میرے لیے "السفر وسیلۃ الظفر” سے زیادہ یہ جملہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ "السفر قطعۃ من السقر”. ناسازی طبع کی وجہ سے با دل نخواستہ یہ اہم سفر کینسل ہو گیا، تاہم جامعہ ام سلمیٰ کا مختصر تعارف ملاحظہ فرمائیں :
یہ ادارہ ضلع دھنباد کے تحت ایک مقام "کبیر ڈیہہ” میں واقع ہے، ادارے کے بانی و ناظم محترم جناب مولانا آفتاب ندوی مدظلہ نے اسے 1996 میں قائم کیا تھا، یہاں تقریباً پانچ سو طالبات زیر تعلیم رہتی ہیں، مرد اساتذہ شرعی حدود کو مد نظر رکھ کر درس دیتے ہیں، جب کہ با صلاحیت معلمات بھی تدریسی خدمات پر مامور رہتی ہیں. ادارے کے نصاب کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہاں عالمہ بنتے بنتے طالبہ میٹرک کا امتحان بھی دے دیتی جسے سرکاری منظوری حاصل ہے۔
واضح رہے کہ یہ تعارف ادارے کی جانب سے مطبوعہ تحریر اور مدرسہ سے وابستہ افراد کی فراہم کردہ معلومات کو بنیاد بنا کر لکھا گیا ہے، عزم ہے کہ جھارکھنڈ کے اگلے سفر میں ناظم ادارہ کی خدمت میں ضرور حاضر ہوں گا۔ ان شاء اللہ
مدرسہ ندوۃ الاصلاح،عبد اللہ نگر، پھکبندی: یہ جھارکھنڈ کا کافی قدیم ادارہ ہے، ایک زمانے میں یہاں عربی سوم، چہارم تک کی تعلیم کا نظم تھا، لیکن "دیوبند اور اس کے قرب و جوار” کی کشش نے عربی جماعتیں تقریباً ختم کر دیں، مدرسہ جانا ہوا تو جمعرات کے سبب تعلیمی رونق دیکھنے سے محروم رہا، معلوم ہوا کہ جمعرات میں صبح دس بجے تک تعلیم ہوتی ہے، اس کے بعد قرب و جوار کے اساتذہ و طلبہ اپنے گھروں کا رخ کرتے ہیں. یہ نظام کچھ عجیب لگا، دیگر اداروں کی طرح اگر یہاں بھی ہر ہفتہ (جمعرات و جمعہ) کچھ اساتذہ کی حاضری لازم ہوتی تو شاید مدرسہ یوں ویران سا محسوس نہ ہوتا۔
ادارے کے ناظم جناب مولانا عبد المعید قاسمی صاحب سے ملاقات ہوئی، انھوں نے بتایا کہ فی الحال ادارے میں پونے دو سو بچے زیر تعلیم ہیں، اس میں اکثریت گاؤں کے بچوں اور بچیوں کی ہے جن کے لیے صباحی مکتب کا نظام جاری ہے.
مدرسہ کی اپنی جگہ ہے، خوبصورت مسجد، درسگاہیں اور دفاتر بھی. چونکہ اساتذہ و طلبہ سے زیادہ ملاقات نہ ہوچ سکی اس لیے بقیہ تفصیلات علم میں نہیں۔ واضح رہے کہ یہ ادارہ بھی والد گرامی حضرت مولانا محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ کی سرپرستی میں خدمات انجام دے رہا تھا۔
مدرسہ روضۃ الصالحات راجہ بھیٹا :
شام کے وقت اپنے چچا زاد بھائی محمد الطاف (امام و خطیب، آندھراپردیش) کے ساتھ گاؤں میں قائم شدہ نوخیز ادارے مدرسہ روضۃ الصالحات جانا ہوا، یہ ادارہ لاک ڈاؤن کے زمانے میں محترم جناب مولانا نعیم الدین قاسمی مدظلہ نے والد مرحوم کی سرپرستی میں قائم کیا تھا، ناظم ادارہ دارالعلوم وقف کے قدیم فاضل ہیں، فراغت کے بعد سے تقریباً 27 سال بلا انقطاع جموں کی معروف و نیک نام درس گاہ "مرکز المعارف، بھٹنڈی” میں تدریسی خدمات انجام دیں، جموں و کشمیر کی سرگرم و متحرک علمی شخصیت حضرت مولانا مفتی فیض الوحید علیہ الرحمہ کے معتمد خاص رہے، جلالین و مشکاۃ جیسی اہم کتابوں کا سالہا سال درس دیا. لاک ڈاؤن میں علاقے کو علم دین کی روشنی سے منور کرنے اور بچیوں کی تعلیم و تربیت کا نہایت نیک جذبہ لے کر یہ ادارہ قائم کیا، جس میں اس وقت سو سے زائد بچیاں زیر تعلیم ہیں، چار یا پانچ اساتذہ تدریسی خدمت انجام دے رہے ہیں. مدرسے میں دارالاقامہ کا نظام نہیں ہے، بلکہ بطرز اسکول صبح سات بجے سے دوپہر ڈیڑھ بجے تک تعلیم ہوتی ہے اور ظہر کی نماز کے بعد چھٹی. ناظم ادارہ ہر ہفتہ جمعہ میں جامع مسجد میں خطابت کی ذمہ داری بھی نبھاتے ہیں، امر بالمعروف کے ساتھ نہی عن المنکر میں کسی مصلحت اندیشی کے قائل نہیں، دل میں اصلاح معاشرہ کی تڑپ کے اور علاقے کا غیر علمی ماحول بدلنا چاہتے ہیں. کاش کہ اہل علاقہ کو بھی اس جذبۂ خالص کی قدر ہوتی!!!!
رات میں ضیافت کے لیے خالہ محترمہ نے سادہ روٹی مع دیسی مرغ کا انتظام کیا تھا، دراصل چاول کی روٹی کو یہاں سادہ روٹی کہا جاتا ہے جس کا اصل لطف دیسی مرغ کے ساتھ ہی لیا جا سکتا ہے۔
اگلے دن بروز جمعہ صبح کے وقت عزیزم مولانا منور قاسمی ملاقات کے لئے گھر آئے، ساتھ میں ایک اور عالم دین تھے جو جامعہ ام سلمیٰ میں درس و تدریس سے وابستہ ہیں. مولانا منور صاحب دارالعلوم وقف کے نوجوان فاضل ہیں، مقامی جلسوں کے مشہور شاعر جناب حافظ جمشید جوہر صاحب کے بھانجے، مولانا منور صاحب کا والد مرحوم سے کافی تعلق تھا اور والد مرحوم بھی موصوف کی قدم قدم پر رہنمائی کرتے تھے. ان کی یہ آمد اسی مخلصانہ تعلق کی عکاس تھی، فی الحال یہ اپنے گاؤں کی مسجد میں امام ہیں اور بقیہ اوقات میں حکومتی اسکیم "منریگا” (جس کا تعارف دوسری قسط میں آ چکا ہے) کے تحت جدوجہد کرتے ہیں۔
ایک نہایت افسوسناک بات یہ پتہ چلی کہ پورے جامتاڑا و قرب و جوار کے اضلاع میں سایبر کرائم نے اپنی جڑیں نہایت مضبوط کر لی ہیں، لوگوں میں حلال و حرام کا امتیاز رفتہ رفتہ ختم ہو رہا ہے، دنیوی عیش و عشرت کے حصول کو ہی نوجوانوں نے مقصد حیات بنا لیا ہے. رنج و الم اس سے بڑھ جاتا ہے کہ اس وبا میں اہل ایمان کی اکثریت ہے، ایک طرف نوجوان اس میں براہ راست ملوث ہوتی جا رہی ہے تو دوسری جانب بڑوں کی خاموشی بھی اسے فروغ دے رہی ہے۔
گاؤں کی جامع مسجد میں راقم کی تقریر کا موضوع یہی تھا، لیکن اس بات کا شدید احساس ہوا کہ اس طرح کی دو چار تقاریر اس مہلک مرض کو دور کرنے کے لیے کافی نہیں، اس کے لیے باقاعدہ منظم تحریک کی ضرورت ہے، خاص اسی موضوع پر اجلاس کیے جائیں، عوام کو حلال و حرام کے تعلق سے بیدار کیا جائے، ورنہ یہاں کا اصلاحی مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔
عصر کے وقت راقم مدھوپور پہنچا، اتوار کی صبح تک یہیں بہن اور ان کے بچوں کے ساتھ رہنے کا ارادہ ہے۔
بالآخر اتوار کے دن دوپہر پونے بارہ بجے راقم اکال تخت ایکسپریس سے دیوبند کے لیے روانہ ہو چکا ہے، کل سے ہلکا بخار ہے اور نزلہ بھی، دوا تو لی ہے لیکن طبیعت میں نشاط بالکل نہیں ہے، یہ تحریر لکھتے وقت ٹرین پر سوار ہوئے آتھ گھنٹوں سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے، لیکن ایک گھونٹ پانی پینے کو بھی طبیعت آمادہ نہیں ہے.
تمام قارئین سے دعائے صحت کی درخواست ہے۔
کل دوپہر تک دیوبند پہنچ جاؤں گا. ان شاء اللہ
اس کے بعد زندگی کے وہی تین محور :
جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند میں تدریس
نور گرافکس میں ڈیزائننگ اور پرنٹنگ
مکتبہ النور دیوبند کی جزوی ذمہ داریاں ۔