اتنے عرصے بعد پاکستان کا سفر نامہ لکھنا کوئی کمال تو نہیں ہے، لیکن میں یہاں اپنے اس پہلے سفر کی روداد بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں، جو کئی اعتبار سے یادگار تھا۔یوں بھی یہ میرا پہلا غیرملکی سفر تھا، جس میں، میں نے سفر کے بہت سے آداب سیکھے۔یہ وہ زمانہ تھا جب ہندو پاک کے درمیان چلت پھرت بہت تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ دونوں پڑوسی ملکوں کی سرحدیں ایک دوسرے باشندوں کے لیے کھول دی گئی ہیں۔دہلی کے چاندنی چوک میں پاکستانی اور کراچی کے صدر میں ہندوستانی اپنے گھر آنگن کی طرح گھومتے پھرتے نظر آتے تھے۔ظاہر ہے آج اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔یہ1985 کا قصہ ہے۔میں نے جب کراچی کی سرزمین پر قدم رکھا تو اپنے عزیز و اقارب سے ملنے کی تمنا کے علاوہ کچھ ایسی شخصیات سے ملنے کا شوق فزوں تر تھا، جن کی تحریریں پڑھ کر میں لکھنا سیکھ رہا تھا۔ ان میں ہفتہ وار ’تکبیر‘ کے ایڈیٹر محمد صلاح الدین اور کالم نگار ’خامہ بگوش‘سے ملنے کے علاوہ اردو سافٹ وئیر کے موجد احمدمرزا جمیل سے ملنے کی خواہش سب سے زیادہ تھی۔صلاح الدین صاحب نے جب ’تکبیر‘ نکالا تو اس سے اپنے عہد کے بڑے کالم نگاروں کو جوڑا۔’تکبیر‘ کے آخری صفحہ پر شائع ہونے والا’خامہ بگوش‘کا کالم ’سخن درسخن‘ پاکستان کے علاوہ ہندوستان میں بھی بے انتہا مقبول تھا۔ میں پہلی ہی فرصت میں صلاح الدین صاحب سے ملاقات کے لئے پہنچا اور درخواست کی کہ میں خامہ بگوش سے بھی ملنے کا متمنی ہوں۔ انھوں نے اپنے اسسٹنٹ کو بلاکر کہا کہ انھیں مشفق خواجہ کا نمبر دے دیجئے۔ تب جاکر یہ راز کھلا کہ خامہ بگوش کے پیچھے مشفق خواجہ کا انتہائی تیز طرار قلم تھا۔ میں نے انھیں فون ملایا تو آواز آئی ”فرمائیے“۔ وہ فون پر ہیلو کی بجائے یہی کہا کرتے تھے۔ میں نے ان سے ملنے کی درخواست کی تو اگلے ہی دن انھوں نے ناظم آباد میں واقع اپنے مکان پر طلب کرلیا۔ ایک نوآموز کے ساتھ ان کا مشفقانہ برتاؤ میں آج تک نہیں بھولتا۔اتنا ہی نہیں ایک روز بہت اچھے ریسٹورینٹ میں دوپہر کا کھانا بھی کھلایا۔ کراچی کے سفر کے دوران مشفق خواجہ سے کئی ملاقاتیں ہوئیں اور یہیں مجھے ڈاکٹر طاہر مسعود کا نیاز حاصل ہوا، جن کی کتاب ”یہ صورت گر کچھ خوابوں کے“اسی دور میں منظرعام پر آئی تھی۔ اس میں اپنے عہد کے تمام بڑے شاعروں، ادیبوں اور نقادوں کے انٹرویوز تھے۔بعد میں طاہر مسعود نے "انیسویں صدی کی اردو صحافت ” پر تقریباً 1250 صفحات کی معرکۃ الآراء کتاب لکھ کر خوب داد وصول کی۔
میرا اگلا پڑاؤ ماہنامہ ’سب رنگ‘ ڈائجسٹ کا دفتر تھا، جو میرے ہم وطن شکیل عادل زادہ صاحب کی ادارت میں شائع ہوتا تھا۔ ’سب رنگ‘ اس دور کا سب سے بڑا ڈائجسٹ تھا، جس کی اشاعت لاکھوں میں تھی۔اس کے منیجر اکرام احمد صاحب بھی مرادآباد ہی کے تھے اور انتہائی مخلص اور ملنسار انسان تھے۔ان کے پاس کراچی کے تمام اہم لوگوں کے فون نمبر تھے، جس سے مجھے وہاں لوگوں سے ملنے میں آسانی ہوئی۔ میرا سب سے زیادہ دل ’سب رنگ‘ کے دفتر میں ہی لگتا تھا۔روزانہ وہاں پہنچ جاتا۔ یہ دفتر کیا تھا کہانیوں کی ایک لیبارٹری تھی۔شکیل عادل زادہ صاحب اشاعت کے لیے منتخب کی گئی کہانیوں کو اپنے دوستوں کو سناتے اور ان پر گھنٹوں بحث ہوتی۔ کہانیوں کے پلاٹ تبدیل کئے جاتے۔ کرداروں کے نام ادھر ادھر ہوتے۔ غرض یہ کہ ایک ایک کہانی پر گھنٹوں سر دھنا جاتا، تب کہیں جاکر وہ کندن بنتی تھی۔ یہاں مجھے جن شخصیات کا نیاز حاصل ہوا، ان میں اسدمحمدخاں، انورشعور، رئیس فروغ اور انعام راجا کے نام یاد رہ گئے۔ ایک محترمہ خوش بخت شجاعت بھی تھیں۔شکیل عادل زادہ صاحب کا تعلق مرادآباد کی پنجابی سوداگران(شمسی) برادری سے ہے۔ خدا انھیں تادیر سلامت رکھے۔ بڑی خوبیوں کے انسان ہیں۔ پروفیسر محمد حسن کے بقول شکیل عادل زادہ نے رنگین نثر لکھنے کی بنیاد ڈالی۔ ان کے والد عادل ادیب صاحب مرادآباد کے مسلم مسافر خانے کے منیجر تھے، شاعر تھے اور ادب سے گہرا تعلق رکھتے تھے۔ اسی مسافرخانہ سے ’مسافر‘ نامی رسالہ شائع ہوتا تھا، جس کے مدیر رئیس امروہوی تھے اور اسی مسافر خانہ میں ان کا قیام تھا اور یہاں وہ اپنی محفلیں جماتے تھے۔انھوں نے کچھ عرصہ مرادآبادکے ’جدت‘ اخبار میں بھی کام کیا تھا۔
میں جس زمانے میں کراچی گیا تو رئیس امروہوی روزنامہ ’جنگ‘ میں یومیہ قطعہ لکھا کرتے تھے جو بہت مقبول تھا،آج کل یہ قطعہ انتہائی نازک خدوخال کے مالک ممتاز شاعر انور شعور لکھتے ہیں۔میں ان کی عنایتوں کا بھی مشکور ہوں۔
’سب رنگ‘ ڈائجسٹ کا دفتر کراچی میں آئی آئی چندری گر روڈ کی ایک بلڈنگ میں بالائی منزل پر تھا۔ اسی سے متصل روزنامہ ’جنگ‘ کی عالیشان عمارت تھی۔ شکیل عادل زادہ صاحب کے توسط سے ہی میری اس بلڈنگ تک رسائی ہوئی۔ پہلی ملاقات ’اخبارجہاں‘ کے ایڈیٹر اخلاق احمد صاحب سے ہوئی، جو پاکستان کے ممتاز افسانہ نگار اور صحافی ہیں۔ انتہائی نفیس انسان ہیں، یاروں کے یار۔ایک مختصر ملاقات ’جنگ‘ کے ایڈیٹر اور مالک میرخلیل الرحمن اور ان کے بیٹے میرجاوید رحمن سے بھی ہوئی۔مجھے سب سے زیادہ خواہش اردو کمپیوٹر کے اس نظام کو دیکھنے کی تھی جس پر روزنامہ ’جنگ‘ شائع ہورہا تھا۔ ’جنگ‘ہی پہلا اخبار ہے جس نے 1981 میں سب سے پہلے کمپیوٹر کی کتابت کو اپنایا تھا۔ مطلوب الحسن سید اور احمد مرزا جمیل نام کے دوپاکستانی باشندوں نے اس خواب کو تعبیر بخشی تھی۔
مطلوب الحسن سید انتقال کرچکے تھے، البتہ احمدمرزا جمیل حیات تھے اور پاکستان کے سب سے بڑے اشاعتی ادارے ایلیٹ پبلشرز کے مالک تھے۔ ان کا شمار ایشاء کے لیڈنگ پرنٹرز میں ہوتا تھا۔میں جب ان سے ملا تو دنگ رہ گیا۔ اتنے متمول انسان میں اتنی عاجزی میں نے اس سے پہلے نہیں دیکھی تھی۔ خود گاڑی بھیج کر مجھے بلوایا۔میری حیثیت اس وقت معمولی طالب علم کی تھی۔ زندگی میں پہلی بار مرسڈیز کار دیکھی اور اس میں بیٹھا۔احمدمرزا جمیل کا تعلق پرانی دہلی کی حویلی اعظم خاں سے تھا۔انھوں نے کچھ عرصہ بمبئی میں بھی گزارا اور پھر وہ کراچی چلے گئے۔ میں نے اردو سافٹ ویئر کی ایجاد سے متعلق ان کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا، جو یہاں ہفتہ وار ’بلٹز‘ اور روزنامہ ’قومی آواز‘ میں شائع ہواتھا۔اسی انٹرویو کے توسط سے لوگ ہندوستان میں پہلی بار کمپیوٹر کی کتابت سے واقف ہوئے۔ یہ نظام برطانیہ کی مونوٹائپ کارپوریشن کی تکنیکی مدد سے ایجاد کیا گیا تھا اور شروع میں اس کی قیمت 45 لاکھ روپے تھی۔ ہندوستان میں سب سے پہلے اسے جالندھر سے شائع ہونے والے روزنامہ ’ہندسماچار‘ نے امپورٹ کیا تھا۔احمدمرزا جمیل صاحب کا وہ خط میرے پاس آج بھی محفوظ ہے جس میں انھوں نے مجھے اس کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا تھا کہ ”آپ کی محنت رنگ لائی۔ پہلا اردو سافٹ ویئر ہندوستان پہنچ گیا ہے۔“
ذرا غور کیجئے کہ اردو سافٹ ویئر نوری نستعلیق جس کی ابتدائی قیمت اس کی مشین کے ساتھ 45 لاکھ روپے تھے، آج مفت میں دستیاب ہے۔ اس کی ایجاد نے اردو طباعت کے میدان کو پر لگادئیے اور کتابت کے تھکا دینے والے عمل سے نجات ملی۔ اردو سافٹ ویئر کی ایجاد کا سب سے بڑا فائدہ اخبارات وجرائد کو پہنچا۔کراچی کے ایک ماہ کے قیام کے دوران جن دیگر اہم شخصیات سے نیاز حاصل ہوا، ان میں سابق گورنر اور ہمدرد کے مالک حکیم محمدسعید، نامور محقق ڈاکٹرابوسلمان شاہجہانپوری، سید الطاف علی بریلوی اور سید یوسف بخاری کے نام قابل ذکر ہیں۔
نوری نستعلیق کے موجد احمد مرزا جمیل کے ساتھ خاکسار کی یہ تصویر 38برس پرانی ہے۔